اپریل ۲۰۰۸

فہرست مضامین

نومنتخب قومی اسمبلی اور مخلوط حکومت کرنے کے اصل کام

پروفیسر خورشید احمد | اپریل ۲۰۰۸ | اشارات

Responsive image Responsive image

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ویسے تو زندگی کا ہر لمحہ لمحۂ امتحان ہے اور زندگی اور موت کا پورا سلسلہ انسان کی آزمایش کے لیے ہے (الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ط جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوںکو آزما کر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ الملک۶۷:۲)، لیکن افراد اور قوموں کی زندگی میں کچھ مواقع ایسے آتے ہیں جنھیں بجا طور پر تاریخی اور سنہری موقع قرار دیا جاسکتا ہے اور جن پر صحیح اقدام تاریخ کے رخ کو موڑنے کا ذریعہ بن سکتاہے۔ آج پاکستانی قوم کو ایک ایسا ہی سنہری موقع حاصل ہے۔ ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے نتیجے میں جو قومی اسمبلی وجود میں آئی، اس نے ۱۷ مارچ سے اپنی زندگی کا آغاز اور ۲۴ مارچ کو قائد ایوان کا انتخاب کر کے مخلوط حکومت کے قیام کی راہ کھول دی ہے۔ توقع ہے مارچ کے آخر تک نئی حکومت اپنی ذمہ داری سنبھال لے گی۔

ہم پیپلزپارٹی کے نامزد وزیراعظم مخدوم یوسف رضا گیلانی کی مخلوط حکومت کا کھلے دل سے خیرمقدم کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ملک و قوم کو اس دلدل سے نکالیں جس میں پرویز مشرف اور ان کے ساتھیوں (خصوصاً مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم) نے پھنسا دیا ہے۔ ہم پورے اخلاص اور دردمندی کے ساتھ ان کی توجہ ملک کو درپیش اصل چیلنج کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں اور ان مسائل اور ترجیحات کی نشان دہی کر رہے ہیں جو ان کا فوری ہدف ہونا چاہییں۔ آج پاکستان کی آزادی، حاکمیت، دستور اور نظامِ زندگی کے تحفظ کے لیے حقیقی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ہم صحیح معنوں میں عرصۂ محشر میں ہیں اور یہ وقت ذاتی یا سیاسی مفادات کے حصول کا نہیں بلکہ ملک و قوم کو بچانے اور زندگی اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے فیصلہ کن جدوجہد کا ہے۔

اوّلین ترجیح

پہلا اور سب سے اہم مسئلہ گاڑی کو پٹڑی پر ڈالنے کا ہے۔ گاڑی اپنا مطلوب سفر اسی وقت شروع کر سکے گی جب وہ پٹڑی پر ہو۔اس لیے پٹڑی پر ڈالے بغیر تیزرفتاری کی باتیں کرنا اپنے کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ اس غرض کے لیے مندرجہ ذیل اقدام ضروری ہیں:

۱- نظامِ عدل کی بحالی کہ عدل کی فراہمی کے مؤثر انتظام کے بغیر کوئی قوم اور ملک زندہ نہیں رہ سکتا۔ کفر کی نائو چل سکتی ہے مگر ظلم کی حکمرانی اور عدل سے محرومی تباہی کا راستہ ہے۔

۲- دستور اور قانون کی حکمرانی کہ مہذب معاشرے کا وجود دستوری نظام کی بالادستی اور قانون کی اطاعت پر منحصر ہے۔ جب اور جہاں دستور، قانون اور نظامِ زندگی فردِواحد کا تابع مہمل بن جائے، وہاں تباہی کے سوا کوئی اور نتیجہ رونما نہیں ہوسکتا۔ استحکام فرد سے نہیں اداروں، قانون اور ضابطے کی عمل داری سے حاصل ہوتا ہے۔ صحیح پالیسیاں مشورے اور افہام و تفہیم سے وجود میں آتی ہیں اور انصاف، استحکام و ترقی اور توازنِ قوت(balance of power) کا مرہونِ منت ہے، ارتکازِ قوت (concentration of power) کا نہیں۔ اس لیے اختیارات کی تقسیم اور تعین اور ہر ایک کا اپنے اپنے دائرۂ اختیار کا احترام ہی امن کے قیام اور ترقی کے مواقع کی فراہمی کا ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طرزِ حکمرانی، پالیسی سازی کے اسلوب اور طور طریقوں کی اصلاح اور نظامِ احتساب کو مضبوط کیے بغیر کوئی ملک ترقی اور استحکام کی منزلیں طے نہیں کرسکتا۔

یہ دو وہ بنیادی چیزیں ہیں جن کی اصلاح کے بغیر ہماری گاڑی اپنی پٹڑی پر نہیں آسکتی لیکن اس کے ساتھ ایک تیسری چیز بھی ازبس ضروری ہے اور وہ یہ کہ ٹرین کا ڈرائیور ہمارا اپنا ہو اور اس کی باگ ڈور کسی بیرونی قوت کے ہاتھوں میں نہ ہو۔ جب تک یہ تینوں چیزیں ٹھیک نہ ہوجائیں ملک اور قوم اپنی منزل کی طرف سفر نہیں کرسکتے۔ اس لیے نومنتخب اسمبلی اور مخلوط حکومت کو اولین  ترجیح ان تینوں امور کو دینا چاہیے۔ بلاشبہہ معاشی معاملات بھی بے حد اہم ہیں اور اس وقت ہمارے معاشی مسائل بڑے گمبھیر اور پریشان کن ہیں ۔ امن و امان کا مسئلہ بھی اہم ہے لیکن ہم پوری دردمندی سے عرض کریں گے کہ الاول فالاول کے اصول پر فوری طور پر اولین ضرورتوں کو پورا کیا جائے اور اس کے ساتھ باقی تمام مسائل کے حل کے لیے مؤثر اقدامات کا اہتمام ہو۔

عدلیہ کی بحالی و استحکام

سب سے پہلی ضرورت اس بگاڑ اور فساد کی اصلاح ہے جس کا آغاز ۹مارچ ۲۰۰۷ء کو ہوا اور جو ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے خلافِ دستور اقدام کے نتیجے میں اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ اس کے کم از کم   تین پہلو ایسے ہیں جن کو سمجھنا اور ان کی اصلاح اور آیندہ کے لیے ملک و ملت کو ایسے حالات سے بچانے کے لیے مؤثر تدابیر کرنا وقت کی اولین ضرورت ہے۔

اولاً، فردِ واحد کی طرف سے دستور، قانون، اسلامی اقدار اور مہذب معاشرے کی روایات کے خلاف پہلے صرف چیف جسٹس کو اور پھر عملاً عدالت عالیہ کے ۶۳ ججوں کو برطرف کر دینا، ان کے ساتھ ناروا سلوک اختیار کرنا، اپنی مرضی کے ججوں کا تعین اور اپنے مفیدمطلب فیصلے حاصل کرنے کے لیے آزادعدلیہ کا قتل۔

ثانیاً، فردِ واحد کا یہ دعویٰ کہ بندوق کی قوت سے وہ جب چاہے دستور کو معطل کرسکتا ہے، اس میں من مانی ترامیم کرسکتا ہے، ایمرجنسی نافذ کرسکتا اور اٹھا سکتا ہے، اور ملک کے پورے    نظامِ حکمرانی کو موم کی ناک کی طرح جدھر چاہے موڑ سکتا ہے۔

ثالثاً، نام نہاد عدلیہ کا فردِ واحد کو درج بالا دونوں ’حقوق‘ دے دینا، اس کے حکم پر نیا حلف لے لینا، اس کے غیرقانونی اقدام کو جائز قرار دینا اور اسے دستوری ترمیم کا وہ حق بھی دے دینا جو صرف پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت کو حاصل ہے، خود سپریم کورٹ کو بھی حاصل نہیں۔

یہ تینوں جرم پوری ڈھٹائی سے کھلے بندوں ۹ مارچ اور ۳ نومبر کو ہوئے، اور پرویز مشرف کی خودساختہ عدالت عالیہ نے ان پر مہرتصدیق ثبت کرکے پرویز مشرف کے جرم میں برابر کی شریک ہونے کی سعادت حاصل کرلی۔ بلاشبہہ ماضی میں بھی یہ کھیل کھیلا گیا ہے اور غلام محمد اور  اس کے شریک کار جسٹس منیر سے لے کر پرویز مشرف اور موجودہ عدالت عالیہ نے ایک ہی جرم کا بار بار ارتکاب کیا ہے، اور پارلیمنٹ نے بھی مصالح کا شکار ہوکر دفعہ ۲۷۰، ۲۷۰ اے اور ۲۷۰ اے اے کی شکل میں اس سیاسی جرم کو دستور کا حصہ بنانے کی غلطی کی ہے۔ یہ پہلی بار ہے کہ چیف جسٹس افتخار محمدچودھری اور ۶۳ دوسرے ججوں نے اس کی مزاحمت کی، پوری وکلا برادری،  سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں نے ایک سال تک اس اقدام کے خلاف علَم بغاوت بلندکیا  بالآخر فروری ۲۰۰۸ء میں عوام نے اس پورے کھیل کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا حتمی فیصلہ دے دیا۔ اب اسمبلی اور نئی حکومت کی اولیں ذمہ داری ہے کہ اس بنیادی خرابی کا ہمیشہ کے لیے ازالہ کردے۔اس کی مناسب ترین شکل یہ ہے:

۱- ایک واضح قرارداد کے ذریعے ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدام کو غیردستوری، غیر قانونی، غیراخلاقی اور بدنیتی پر مبنی (malafide) قراردیا جائے اور اسے اس کے نفاذ کے وقت سے کالعدم قرار دیا جائے جس کا واضح نتیجہ یہ ہوگا کہ

ا - چیف جسٹس اور تمام جج اسی حالت میں بحال ہوجائیں گے جس میں وہ ۳نومبر کی صبح تک تھے اور سات ججوں کا وہ فیصلہ جس نے ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدام کو غیر دستوری قرار دیا تھا، بحال ہوجائے گا اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے قانون کی گرفت میں آجائیں گے۔

ب- ۳ نومبر کے بعد کے تمام اقدامات بشمول دستوری ترامیم اور انتظامی احکامات اصلاً غیرقانونی قرار پائیں گے، اِلا .ّیہ کہ پارلیمنٹ حقیقی ضرورت کے تحت ان میں سے کسی یا کچھ کو   دفعِ فساد کی بنیاد پر محدود زندگی دے دے۔

۲- اس قرارداد کے چار حصے ہونے چاہییں:

اوّل: ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدام کی نفی اوراس کے تحت کیے ہوئے تمام اقدامات کو قانونی جواز سے محروم کرنا۔

دوم:  سابقہ صورتِ حال (status quo) کی بحالی۔

سوم: اس اصول کا برملا اعلان و تصدیق کہ دستور میں ترمیم کا اختیار نہ چیف آف اسٹاف کو ہے، نہ صدر کو اور نہ سپریم کورٹ کو، بلکہ دستور میں ترمیم کا صرف ایک راستہ ہے اور وہ دفعہ ۲۳۸- ۲۳۹ میں لکھا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ اس لیے پی سی او کے تحت حلف لینے والی سپریم کورٹ کے ۳ نومبر والے اقدام کو جواز دینے کی نفی، اور آیندہ کے لیے تنبیہہ کہ کوئی عدالت اس نوعیت کا اقدام کرنے کی مجاز نہیں۔

چہارم: صرف دفعِ فساد اور نظام کے تسلسل کی خاطر مندرجہ ذیل امور کے لیے ایک نیا قانونی انتظام کیا جائے جس کے خدوخال کچھ یوں ہوسکتے ہیں:

۱- جو جج پہلے سے عدلیہ میں موجود تھے، وہ بھی معزول کردہ ججوں کی طرح اپنے ماضی کے مقام پر بحال رہیں گے۔ اصولی طور پر جو نئے جج مقرر کیے گئے ہیں، وہ دستور کی دفعہ ۲۰۹ کی میزان پر احتساب کے سزاوار ہوسکتے ہیں۔ ان کو عہدوں سے فارغ کر دیے جانے کے بعد سپریم کورٹ دستور اور الجہاد ٹرسٹ کے ججوں کے فیصلے کے مطابق فوری کارروائی کر کے اور خالص میرٹ کی بنیاد پر دستور اور ضابطے کی روشنی میں عدلیہ کی بحالی کے ایک ماہ کے اندر اندر فیصلے کرکے نافذ کردے۔

۲- ۳ نومبر والی ایمرجنسی کے تحت حاصل کردہ اختیارات کے تحت جو بھی اقدام ہوئے ہیں وہ سب قرارداد کے منظور ہونے کے تین ماہ کے اندر کالعدم ہوجائیں، بجز ان کے جن کے جاری رکھنے کا فیصلہ ایک پارلیمانی کمیٹی ان تین ماہ کے اندر کرے۔ اگر یہ کمیٹی فیصلہ نہیں کرتی تو وہ اقدام آیندہ کے لیے ختم ہوجائیں گے، خواہ اس کے اثرات کچھ بھی ہوں، البتہ جن چیزوں پر عمل ہوچکا ہے، ان کو کم تر برائی کے اصول پر گوارا (condone)کیا جاسکتا ہے۔

۳- اس قرارداد کے آخر میں یہ بھی واضح کردیا جائے کہ نظریۂ ضرورت کے تحت عدالتوں کا جواز دینا (validation )اور پھر پارلیمنٹ کا توثیق کرنا (ratification) ایک غلط سلسلہ ہے جسے ہمیشہ کے لیے ختم کیا جاتا ہے۔ یہ بھی مفید ہوگا کہ پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی دستور میں دفعہ ۲۷۰، ۲۷۰ اے، ۲۷۰ اے اے کے تحت ماضی میں جو جواز مہیا (validate) کیے گئے ہیں ان کے بارے میں بھی طے کرے۔ یہ پارلیمانی کمیٹی تمام قوانین اور اقدامات کا جائزہ لے اور دوسال کے اندر ان قوانین، حکم ناموں اور اقدامات کا تعین کردے جن کو جواز حاصل رہے اور باقی سب کو منسوخ کردیا جائے گا تاکہ ماضی کے اس پشتارے کی بھی تطہیر ہوجائے۔

۴- اس قرارداد کے منظور ہوتے ہی اس پر عمل شروع کردیا جائے اور انتظامی حکم کے ذریعے تمام سابقہ ججوں کو بحال کرکے عدل وا نصاف کے دستوری عمل کو متحرک کردیا جائے۔ اس قرارداد کو ۲۷۰ اے اے اے کے طور پر دستور کا حصہ بنا دیا جائے تاکہ ماضی میں ۲۷۰ کے تحت  جواز (validation) دینے کا جو دروازہ چوپٹ کھول دیا گیا تھا، وہ بھی آیندہ اس دفعہ کے ذریعے ہی بند کردیا جائے۔ اس طرح ہمیشہ کے لیے دستور میں قانونِ ضرورت کے دروازے کو بند کرنے کا کام بھی انجام دیا جاسکتا ہے۔

۵- اس کے ساتھ دستور کی دفعہ ۶ میں ترمیم کر کے یہ اضافہ کرنا بھی مفید ہوگا کہ دستور کو معطل کرنا یا غیرمؤثر (in abeyance) کرنا بھی دستور کی تخریب (subvert) کرنے کی طرح جرم ہے، اور ایسے اقدامات کو جوازفراہم کرنا بھی ایک مساوی جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔

۶- اگر ضروری محسوس کیا جائے تو ایک ترمیم دفعہ ۲۳۸/۲۳۹ میں بھی ہوسکتی ہے جو   بطور وضاحت (explanation )آسکتی ہے کہ دستور میں ترمیم کا ان دفعات میں بیان شدہ طریقے کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ معتبر نہیںاور اس کی کوئی گنجایش نہیں کہ کسی ماوراے دستور (extra constitutional)  طریقے سے کوئی بھی دستوری ترمیم کرے ،اور نہ کسی کو ایسی کوئی ترمیم کرنے کا اختیار کسی کو دینے کا حق ہے۔ اگر کوئی دستور میں اس طرح ترمیم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ دستور کی دفعہ ۶ کی زد میں آئے گا۔

’اعلانِ مری‘ کے تقاضے مندرجہ بالا اقدام کے ذریعے پورے ہوسکتے ہیں۔ ججوں کی رہائی ایک اچھا اقدام ہے لیکن اصل مسئلہ ججوں کی بحالی اور ۳نومبر کے اقدام کی مکمل نفی کرکے ملک کے دستور اور نظامِ عدل کو تحفظ دینا ہے۔یہ اصول تسلیم کیا جانا چاہیے کہ دستور کی دفعہ ۲۰۹ کے سوا کسی اور طریقے سے ججوں کی برطرفی غیرقانونی ہے، البتہ اس بات کا اظہار بھی ضروری ہے کہ جہاں ۶۳ججوں نے ایک روشن مثال قائم کی ہے اور کچھ دوسرے ججوں نے پی سی او کے تحت حلف لے کر اور اہلِ اقتدار سے تعاون کرکے بڑی بُری مثال قائم کی ہے، وہیں اس بات کی ضرورت ہے کہ نظامِ عدل کو دوبارہ معزز و محترم بنانے کے لیے سب اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ جہاں اصلاح کی ضرورت ہے، وہ ضرور کی جائے مگر صفوں کو پاٹ کر عدلیہ کی عزت اور کارفرمائی کی بحالی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ عدلیہ کے احتساب کے طریقے پر بھی ازسرنو غور کیا جائے اور عدلیہ اور انتظامیہ کے تعلقات خصوصیت سے ایک دوسرے سے ربط اور اثرانگیزی اور اثرپذیری کے نازک معاملات پر صدق دل سے غور کرکے نئے ضابطے اور قواعد بنانے کی ضرورت ہے تاکہ عدلیہ حقیقت میں آزاد عدلیہ بن سکے اور اس سے انصاف کے چشمے پھوٹیں اور ہر کسی کو اس پر اعتماد ہو۔ قانونی اور انتظامی اصلاحات کے ساتھ اس پہلو کی فکر بھی ازبس ضروری ہے۔

ہم اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ پارلیمنٹ ۳نومبر کے اقدام کی نفی کس قانونی ذریعے سے کرسکتی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایک انتظامی حکم جو خودغیرقانونی تھااور قانون کی نگاہ میں اس کا  آئینی (de Jure) وجود ہے ہی نہیں، صرف امرِواقع (de facto)  ہے، ایک دوسرے انتظامی حکم نامے سے کالعدم کیوں نہیں جاسکتا۔ دنیا بھر کے ماہرین قانون نے اس اقدام کو دستور، قانون اور معروف جمہوری قواعد کے خلاف قرار دیا ہے۔ امریکی حکومت اپنے مفادات میں اندھی ہوکر خواہ کچھ بھی کہتی رہی ہو مگر امریکا کے ماہرین قانون نے اس اقدام کو غلط قرار دیا اور خود امریکی کانگرس نے تلافیِمافات کرتے ہوئے ۱۷ مارچ کی قرارداد کے ذریعے عدلیہ کی برخاستگی کو غلط اور بحالی کو اصل ضرورت قرار دیا ہے۔ نیویارک بار ایسوسی ایشن نے، جس کے ۲۲ ہزار ممبر ہیں، اسے غلط قرار دیا ہے اور خود ہمارے ملک کے چوٹی کے ماہرین قانون نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ اصل اقدام غلط اور غیرقانونی تھا۔ ۳ نومبر کو سپریم کورٹ کے سات رکنی بنچ نے ۳ نومبر کے ایمرجنسی کے اقدام کو غلط اور بدنیتی پر مبنی (malafide ) قرار دے دیا تھا اور عدالت عالیہ کا وہی حکم آج بھی لاگو ہے۔ ۳نومبر کے غیرقانونی اعلان کے تحت حلف لینے والی عدلیہ کاکوئی فیصلہ قانون کا مقام نہیں رکھتا۔ سابق چیف جسٹس صاحبان میں سے جسٹس اجمل میاں، جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس سعید الزماں صدیقی نے کہا ہے کہ: ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کو نافذ کی جانے والی ایمرجنسی کے تحت ججوں کی معطلی غیر دستوری تھی اور ان کی بحالی کے لیے قومی اسمبلی سے منظور کردہ قرارداد ہی کافی ہوگی۔ یہی موقف سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے ۳ درجن سے زائد ججوں کا ہے۔ اس کے بعد کسی اور قانونی موشگافی کے لیے کوئی گنجایش باقی نہیں رہتی۔

دستور کی بحالی اور پارلیمنٹ کی بالادستی

عدلیہ کی بحالی کے ساتھ دوسرا بنیادی مسئلہ دستور کی بحالی، پارلیمنٹ کی بالادستی، دستوری اداروں کے درمیان تقسیم اختیارات اور پارلیمنٹ کی کارکردگی کو بہتر اور مؤثر بنانے کا ہے۔

دستور کی بحالی کے سلسلے میں ایک اصولی بات تو یہ کہی جاسکتی ہے کہ جلد از جلد ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کی صورت حال کو بحال کیا جائے۔ ’میثاقِ جمہوریت‘ اور ’اعلانِ لندن‘ میں اس مسئلے پر ایک موقف اختیار کیاگیا ہے، جزوی اختلاف کے ساتھ ہم نے بھی اس کی تائید کی ہے لیکن چند دوسری بڑی اہم ترمیمات دستور میں ہونی چاہییں تاکہ صرف ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء والی صورت حال ہی بحال نہ ہو بلکہ دستور کے اسلامی، پارلیمانی، وفاقی اور فلاحی کردار کے تمام تقاضے پورے ہوسکیں۔ اس کے لیے  کم سے کم مندرجہ ذیل امور کے بارے میں مناسب دستوری ترامیم افہام و تفہیم اور مؤثر مشاورت کے ذریعے کرنے کی ضرورت ہے:

۱- پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے ضروری ہے کہ نہ صرف صدر کے ان اختیارات کو ختم کیا جائے جن کے نتیجے میں صدر اور پارلیمنٹ کے درمیان توازن ختم ہوگیا اور پارلیمانی نظام ایک قسم کا صدارتی نظام بن گیا ہے، بلکہ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ پارلیمنٹ پر انتظامیہ کی بالادستی کو بھی لگام دی جائے اور پارلیمنٹ ہی اصل فیصلہ کن فورم ہو۔ اس کے لیے مندرجہ ذیل ترامیم ضروری ہیں:

ا- ریاست کے رہنما اصول جو پالیسی سازی کی بنیاد ہونے چاہییں، ان کی روشنی میں تمام خارجی اور داخلی امور پر پارلیمنٹ میں بحث ہو اور بحث کے بعد پالیسی ہدایات (directives) کی شکل میں پارلیمنٹ کی ہدایات مرتب کی جائیں، اور ان کے نفاذ کی رپورٹ پارلیمنٹ میں آئے جس پر بحث ہو۔ ضروری ہے کہ اسے ایک دستوری ذمہ داری قرار دیا جائے۔

ب- بجٹ سازی کا طریقۂ کار یکسر تبدیل کیا جائے۔ بجٹ سے چار مہینے پہلے دونوں ایوانوں میں بجٹ گائیڈلائن پر بحث ہو جس کی روشنی میں بجٹ کی تجاویز مرتب کی جائیں جو ایک ماہ کے اندر دونوں ایوانوں کی متعلقہ کمیٹیوں میں زیربحث آئیں اور یہ کمیٹیاں اپنی تجاویز وزارتِ خزانہ کو دیں۔ اصل بجٹ سال کے اختتام سے تین ماہ پہلے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے۔ سینیٹ میں  کم از کم تین ہفتے بحث کے لیے دیے جائیں اور اسمبلی میں آٹھ ہفتے۔ اس طرح دو ماہ میں پارلیمنٹ بجٹ منظور کرے۔ دفاع کا بجٹ بھی بجٹ کے حصے کے طور پر پارلیمنٹ میں زیربحث آئے اور منظوری لی جائے۔

ج- پارلیمنٹ کو غیرمؤثر بنا دینے والی چیزوں میں سے ایک آرڈی ننس کے ذریعے قانون سازی ہے۔ دنیا کے بیش تر جمہوری ممالک میں ایسی کوئی گنجایش موجود نہیں ہے اور جہاں  عارضی قانون سازی (temporary legislation)کی گنجایش ہے وہاں بھی بڑی سخت تحدیدات ہیں جن میں ایک ہی قانون کے بار بار آرڈی ننس کے ذریعے نافذ کیے جانے کا دروازہ بند کیا جانا بھی ہے۔ اس طرح حقیقی ضرورت کو بھی واضح (define) کرنے بلکہ قانونی احتساب کے دائرۂ اختیار میں لانے کی ضرورت ہے۔ ہماری حکومت اور پارلیمنٹ کا ریکارڈ اس سلسلے میں بڑا پریشان کن ہے۔ موجودہ اسمبلی نے پانچ سال میں صرف ۵۰قوانین براے نام بحث کے بعد قبول کیے، جب کہ ان پانچ سالوں میں ۷۳ قوانین بذریعہ آرڈی ننس نافذ ہوئے، یعنی انتظامیہ نے پارلیمنٹ کے مشورے اور بحث کے بغیر ان کو نافذ کیا۔ دوسرے الفاظ میں عام قانون سازی کے مقابلے میں آرڈی ننس سے قانون سازی ۱۵۰ فی صد زیادہ تھی۔ بھارت میں بھی آرڈی ننس کے ذریعے قانون سازی کا دروازہ کھلا ہے مگر وہاں پانچ سال میں ’لوک سبھا‘ نے ۲۴۸ قوانین حقیقی بحث و گفتگو کے بعد منظور کیے، جب کہ صدارتی آرڈی ننسوں کی تعداد پانچ سال میں صرف ۳۴ تھی، یعنی پارلیمنٹ میں پاس ہونے والے قوانین کا صرف ۱۴فی صد۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بڑے اہم بل پاکستان کی اسمبلی اور سینیٹ میں زیرغور رہے مگر ان پر بحث اور منظوری کی نوبت نہیں آسکی۔

حقیقت یہ ہے کہ آرڈی ننس سے قانون سازی کا دروازہ بند ہونا چاہیے۔ لیکن اگر اسے ضروری تصور ہی کیا جائے تو یہ شرط ہونی چاہیے کہ اسمبلی کے انعقاد سے ۱۵ دن پہلے اور اس کے  التوا کے ۱۵ روز بعد تک کوئی آرڈی ننس جاری نہیں ہوسکتا۔ دو اجلاسوں کے دوران اگر غیرمعمولی حالات میں آرڈی ننس جاری کرنا پڑے تو اس کی وجوہ بھی آنی چاہییں۔ محض یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ ایسی وجوہ پائی جاتی ہیں۔ ان کو متعین کرنا ضروری ہے تاکہ پارلیمنٹ اور اگر ضرورت ہو تو خود عدالت اس کا جائزہ لے سکے۔ پھر یہ واضح ہونا چاہیے کہ ایک آرڈی ننس لفظی ترمیم کے بعد بار بار نافذ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ انتظامیہ جان بوجھ کر پارلیمنٹ کو نظرانداز (by pass) کرنا چاہتی ہے۔ نیز یہ بھی طے ہونا چاہیے کہ سال میں      ایک خاص تعداد سے زیادہ آرڈی ننس جاری نہیں کیے جاسکتے، مثلاً ایک سال میں پانچ سے زیادہ آرڈی ننس جاری نہ ہوں۔ اس طرح پارلیمنٹ میں قانون سازی اور پالیسی سازی بڑھ سکے گی۔

د- پارلیمنٹ کو نظرانداز کرنے اور اس کے کردار کو غیر مؤثر بنانے میں مزید دو عوامل بھی اہم ہیں۔ ایک بین الاقوامی معاہدات کا پارلیمنٹ سے بالا ہی بالا منظور ہوجانا۔ برطانوی دور سے یہ کام کابینہ کر رہی ہے جو جمہوریت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ سامراجی دور میں اس کا ’جواز‘ ہوگا، جمہوریت میں اس کی کوئی گنجایش نہیں۔ اس لیے تمام معاہدات کا پارلیمنٹ میں پیش ہونا اور ان میں سے اہم کا دونوں ایوانوں میں یا کم از کم سینیٹ میں توثیق (ratification ) ضروری ہونا چاہیے۔

دوسرا مسئلہ اہم تقرریوں (appointments )کا ہے۔ جو تقرریاں پبلک سروس کمیشن سے ہوتی ہیں، وہ ایک معقول طریقہ ہے لیکن جو سفارتی اور انتظامی تقرریاں انتظامیہ اپنی صواب دید پر کرتی ہے ان کی جواب دہی بھی ہونی چاہیے۔ اس سلسلے میں سینیٹ کی پارلیمانی کمیٹیوں یا    دونوں ایوانوں کی مشترک کمیٹیوں کا کردار ہونا چاہیے۔ امریکا میں انتظامیہ کو حدود میں رکھنے اور  اہم تقرریاں ذاتی رجحانات کے مقابلے میں اصول اور میرٹ پر کرانے کے لیے تقرری سے پہلے کمیٹی میں پیش ہونے کا طریقہ بڑا مؤثر ہے۔ اگر ہمارے ملک میں بھی اس سلسلے کو شروع کیا جائے تو یہ پارلیمنٹ کی بالادستی کے قیام کے لیے بڑا اہم اقدام ہوگا۔

ہ- اس سلسلے میں پارلیمنٹ کے ایامِ کار (working days) کا مسئلہ بھی اہم ہے۔  اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ ۱۹۷۳ء کے دستور میں اسمبلی کے لیے ۱۶۰ دن ایامِ کار قرار دیے گئے تھے جنھیں کم کر کے ۱۳۰ دن کر دیاگیا۔ پھر ایک تعبیر کے ذریعے اگر دو دن کی چھٹی درمیان میں آجائے تو وہ بھی ایامِ کار میں شمار ہونے لگی۔ بالعموم ہفتے میں تین دن اسمبلی یا سینیٹ کے سیشن ہوتے ہیں اور اسے سات دن شمار کیا جاتا ہے۔ پھر اوسطاً اڑھائی گھنٹے فی یوم کی کارکردگی رہی، جب کہ دنیا کے دوسرے ممالک میں پارلیمنٹ پورے سال سیشن میں رہتی ہے بجز دو یاتین چھٹی کے وقفوں کے۔ ہرروز بحث چھے سات گھنٹے ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ کی کارکردگی کو مؤثر بنانے کے لیے اس کی بھی ضرورت ہے کہ ارکان اسمبلی و سینیٹ کو ضروری معلومات فراہم کی جائیں، ان کو مطالعے، تحقیق اور قانون سازی کے لیے معاونت ملے۔ عوام کو پارلیمنٹ کی کمیٹی میں پیش ہونے کا موقع دیا جائے۔ پارلیمانی کمیٹیوں کی کارروائی کھلی ہو،پارلیمنٹ کی کارکردگی بھی براہِ راست عوام تک پہنچے۔ وزرا کی شرکت لازمی ہو۔ وزیراعظم کم از کم ہفتے میں ایک بار نہ صرف پارلیمنٹ میں آئیں بلکہ ان کے لیے کم از کم نصف گھنٹہ سوالات کے جوابات دینے کے لیے مختص کیا جائے۔ یہ  وہ اقدام ہیں جن سے پارلیمنٹ کی بالادستی قائم ہوگی اور کارکردگی میں اضافہ ہوسکے گا۔

۲-  پارلیمنٹ کی بالادستی کے ساتھ دستور میں اور بھی ایسی ضروری ترامیم درکار ہیں جو گذشتہ ۳۵ سال کے تجربات کی روشنی میں دستور کے اسلامی، اور وفاقی کردار کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں۔ جب ہم دستوری ترامیم کے مسئلے پر غور کر رہے ہیں تو ان امور پر بحث اور تجاویز مرتب کرناضروری ہے جس کے لیے ایک کُل جماعتی پارلیمانی کمیٹی دونوں ایوانوں کے ان ارکان پر مشتمل قائم کی جائے جو قانون پر نگاہ رکھتے ہوں اور وقت کے تقاضے بھی جن کے سامنے ہوں۔

  • پہلا مسئلہ صوبائی خودمختاری کا ہے۔ اس میں مشترک فہرست ختم کر کے ان تمام امور کو صوبوں کو منتقل کرنے پر بڑی جماعتوں میں اتفاق ہے اور ہم بھی اسے ضروری سمجھتے ہیں، تاہم یہ کافی نہیں۔ وفاقی فہرست کے پارٹ بی پر نظرثانی کی ضرورت ہے اور ان میں کئی چیزیں ایسی ہیں جن میں صوبوں کا عمل دخل ضروری ہے جس کا دروازہ کھلنا چاہیے۔ اسی طرح نیشنل ایکونومک کونسل، کونسل آف کامن انٹرسٹ اور قومی مالیاتی اوارڈ کے پورے نظام کو صوبوں کے مشورے سے   مؤثر بنانے بلکہ تشکیلِ نو کی ضرورت ہے۔ ان میں سے ہرادارے میں وفاقی حکومت کو بالادستی حاصل ہے جسے بری طرح استعمال کیا گیا ہے۔  یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے اور انصاف اور برابری کی بنیاد پر فیصلوں میں شرکت اور فیصلوں کی بروقت منصفانہ تنفیذ کو یقینی بنانا ہوگا۔
  • دوسرا مسئلہ عدلیہ اور انتظامیہ کی عملاً علاحدگی کا ہے، نیز عدلیہ کو مکمل آزادی کے ساتھ، ضروری وسائل کی فراہمی اور پھر اس کا ایک مؤثر نظامِ احتساب___ اس لیے کہ زیریں سطح پر عدلیہ میں بڑی خرابیاں ہیں۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے لیے بھی احتساب کا نظام مؤثر اور شفاف ہوناچاہیے، نیز جو بگاڑ ماضی میں انتظامیہ کی مختلف شکلوں میں مداخلت سے پیدا ہوا ہے اس کی اصلاح کی بھی ضرورت ہے۔ ایک طرف عدلیہ کو مکمل طور پر آزاد ہونا چاہیے لیکن دوسری طرف اس کے ذریعے ہر شہری کو بلاتاخیر حقیقی انصاف ملنے کا اہتمام ہونا چاہیے اور عدلیہ پر عوام کو مکمل بھروسا ہونا چاہیے۔ وکلا کا کردار بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ انصاف کے حصول کا عام شہری کی دسترس سے باہر ہوجانا اور اس سلسلے میں نہ ختم ہونے والی تاخیر، یہ سب مسائل ازسرنو غوروفکر اور نظام میں مناسب تبدیلیوں کا تقاضا کرتے ہیں۔
  • تیسرا مسئلہ وفاقی شرعی عدالت کا ہے جسے ایک قسم کا دوسرے درجے کا ادارہ بنا دیا گیا ہے جہاں ججوں کو سزا کے طور پر بھیج دیا جاتا ہے، اور جس کے ججوں کو وہ تحفظ حاصل نہیں جو باقی عدلیہ کے ججوں کو حاصل ہے نیز اس عدالت کے فیصلوں کو اپیلوں کے ذریعے جان بوجھ کر غیرمؤثر بنا دیا گیا ہے۔
  • چوتھا مسئلہ ایک اور اہم دستوری ادارے اسلامی نظریاتی کونسل اور اس کی رپورٹوں کا ہے۔ ۱۹۷۳ء کے دستور کا تقاضا تھا کہ سات سال کے اندر اندر تمام قوانین کو قرآن وسنت سے   ہم آہنگ کردیا جائے۔ نظریاتی کونسل نے درجنوں رپورٹیں تیار کی ہیں اور سیکڑوں قوانین پر اپنی راے کا اظہار اور ضروری ترامیم کی نشان دہی کی ہے مگر پارلیمنٹ نے ان پر غور کرنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی، جب کہ سینیٹ میں دو ایک رپورٹوں پر مختصر اور بے نتیجہ بحث ہوئی۔ ستم ہے کہ ان ۳۵برسوں میں پارلیمنٹ نے ان رپورٹوں پر غور ہی نہیں کیا ہے چہ جائیکہ ان کی روشنی میں قانون سازی اور پالیسی سازی انجام پاتی۔ یہ دستور کی کھلی خلاف ورزی اور قوم کے ساتھ مذاق ہے۔
  • پانچواں مسئلہ سول سروس کے کردار کا ہے جسے ایک طرف دستوری تحفظ کی ضرورت ہے تو دوسری طرف اس کو حقیقی غیر جانب دار انتظامیہ بنانے کا مسئلہ ہے۔ اس سوال کو بھی اب نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے کہ ہر آنے والے اسے اپنے لیے سواری کا گھوڑا بنالے۔

فوج کا کردار اور پرویز مشرف کا مستقبل

عدلیہ کی بحالی، دستوری نظام کی اصلاح اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے قیام کے ساتھ ایک اور بنیادی مسئلہ سیاست میں فوج کے کردار اور خود پرویز مشرف کے مستقبل کا ہے، جو اس ناٹک کے اصل ایکٹر رہے ہیں۔ اصولی طور پر فوج کے چیف آف اسٹاف کا یہ اعلان لائق تحسین اور صحیح سمت میں قدم ہے کہ فوج صرف ایک دستوری اور دفاعی کردار ادا کرے اور سول انتظامیہ اور معاشی میدان میں جو کردار اس نے اختیار کر لیا ہے، وہ ختم کیا جائے۔

مخلوط حکومت کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ اپنے معاملات کو درست کرنے کے ساتھ ساتھ پرویز مشرف کے مستقبل کے معاملے کو بھی دو ٹوک انداز میں طے کرے۔ پرویز مشرف نے دستور کا تیاپانچا کیا، پارلیمنٹ کو غیرمؤثر بنایا، فوج کو سیاست اور انتظامیہ میں ملوث کیا۔ پرویز مشرف اور دستوری اور جمہوری نظام ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ انھوں نے باعزت رخصت ہونے کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ اب اس کے سواکوئی راستہ نہیں کہ دستوری ترامیم کے بعد ان کے مواخذے کی تیاری کی جائے۔ ان کے تاریک دور کا دروازہ اس وقت تک بند نہیں ہوگا جب تک خود ان کا مؤثر احتساب نہ ہو، تاکہ قوم اور دنیا کے سامنے یہ حقیقت آسکے کہ جو فرد بھی دستور کا خون کرے گا اور اختیارات کا     غلط استعمال کرے گا، اس کا احتساب ہوگا اور ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کا نظام نہیں چل سکتا۔

انتخابات سے پہلے امریکا کی من پسند قیادت کو بروے کار لانے کے لیے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے گئے۔ کیسے کیسے مفاہمت کے ڈرامے اسٹیج کیے گئے۔ اس کھیل میں پرویز مشرف اور ایم کیو ایم کا بڑا کلیدی کردار ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ قوم کو اس سلسلے میں ایک بالکل واضح راستہ اختیار کرنا ہے۔

جس طرح پرویز مشرف کا صدارت پر قابض رہنا ملک کی سلامتی اور استحکام کے لیے خطرہ ہے، اسی طرح ایم کیو ایم کا کردار بہت مخدوش ہے جس کی حیثیت پرویز مشرف کے ایک مسلّح بازو (armed wing) کی ہے اور جس کے ۱۲ مئی ۲۰۰۷ء کے خونی کھیل کو انھوں نے اسلام آباد میں مسلم لیگ (ق) کے ایک مظاہرے میں اپنا کارنامہ اور اپنی طاقت کا مظہر قرار دیا تھا۔ پانچ سال پرویز مشرف اور ایم کیو ایم کا گٹھ جوڑ رہا ہے اور اس کے باوجود رہا ہے کہ اقتدار میں آکر انھوں نے اسلام آباد میں چند چوٹی کے صحافیوں کی موجودگی میں الطاف حسین کے بارے میں کہا تھا کہ:   He is a traitor, period ، وہ ایک غدار ہے___ اور بس!

الطاف حسین نے خود بھارت کی سرزمین پر بار بار کہا ہے کہ پاکستان کا قیام ایک غلطی تھا اور برطانیہ کی شہریت لے کر تاجِ برطانیہ کی وفاداری کا حلف اٹھایا ہے جو ریکارڈ پر موجود ہے۔   ایم کیو ایم نے قوت کے استعمال سے جس طرح کراچی اور حیدرآباد پر قبضہ کر رکھا ہے اور جس طرح اس کے سزایافتہ کارکنوں کو شریکِ اقتدار کیا گیا ہے اور اس کی خاطر قومی مفاہمتی آرڈی ننس (NRO ) میں ۱۹۸۶ء سے جرائم کرنے والوں کو بری کیا گیا، وہ کھلی کتاب ہے۔ ایم کیو ایم کو امریکا اور برطانیہ کی تائید حاصل ہے اور وہ پرویز مشرف کے ٹروجن ہارس کی حیثیت رکھتی ہے۔  مسلم لیگ (ن) کا موقف بالکل درست ہے کہ اس ریکارڈ کی موجودگی کے باوجود ان کے ساتھ اقتدار میں شرکت پرویز مشرف کو تقویت دینے اور مشرف اور امریکا کے کھیل کی سرپرستی کے مترادف ہوگی۔

اس لیے اسمبلی اور نئی حکومت کو،جن بنیادی امور کو طے کرنا ہے ان میں سے ایک     پرویز مشرف کے قانونی جوازسے محروم صدارتی تسلط سے نجات بھی ہے تاکہ اس کی دہشت گردی کی جنگ سے بھی ہم نکل سکیں اور اپنے معاملات کو اپنے مفادات کی روشنی میں اور اپنے طریقے سے  حل کرسکیں۔

امریکی مداخلت اور خارجہ پالیسی

ملک اور قوم کو پٹڑی پر لانے کے لیے چوتھا بڑا مسئلہ پاکستان کی پالیسیوں اور معاملات میںامریکا کی مداخلت کو لگام دینا ہے، جسے امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ قرار دے کر پوری دنیا میں خوف کی فضا قائم کر کے مسلمان ملکوں خصوصیت سے افغانستان، عراق، لبنان، ایران اور خود پاکستان کو دہشت گردی کا نشانہ بنا رہا ہے، وہ مسلمان اُمت اور پاکستانی قوم کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ پاکستانی قوم اسے اسلام، مسلمانوں اور خود پاکستان اور دوسرے اسلامی ممالک کے خلاف جنگ تصور کرتی ہے اور پرویز مشرف نے امریکا کے اس خطرناک کھیل میں پاکستان اور اس کی افواج کو جھونک کر جو ظلم کیا ہے اور جس کے نتیجے میں پاکستان دہشت گردی اور خودکش حملوں کی زد میں آگیا ہے، اس صورت حال کو ہرگز برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ امریکا نے پاکستان کی فضائی اور جغرافیائی حدود کی کھلے عام خلاف ورزی کی ہے، اور کر رہا ہے۔ اس کے جہاز ہماری بستیوں میں  بم باری کر رہے ہیں اور بغیر پائلٹ کے جہاز لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ امریکا کے حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ وہ یہ سب کچھ پرویز مشرف سے کسی معاہدے کے تحت کر رہے ہیں۔ امریکی ترجمان   بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کو یہ حق حاصل ہے اور پاکستان کی افواج اور حکومت، امریکا کے    ان تمام جارحانہ اقدامات پر نہ صرف خاموش ہے، بلکہ غیرت کا جنازہ نکال کر اس کے ترجمان یہاں تک کہنے کی جسارت کرچکے ہیں کہ کچھ حملے امریکا نے نہیں خود ہم نے کیے ہیں۔ اب ان حملوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ گذشتہ چھے ماہ میں امریکا نے سیکڑوں افراد کو ہلاک کردیا ہے اور  پاکستانی ترجمان اپنا نام چھپا کر یہ کہنے لگے ہیں کہ حملے امریکا اور ناٹو کی طرف سے ہو رہے ہیں۔ امریکا ہم پر اپنی پالیسیاں اس حد تک مسلّط کر رہا ہے کہ علاقے میں مصالحت کی ہرکوشش کو وہ  مسترد (ویٹو ) کردیتا ہے۔ صرف فوجی حل مسلط کر رہا ہے اور ہمیں مسلط کرنے پر مجبور کر رہا ہے اور ہماری فوج کی ٹریننگ اور نیوکلیر اثاثوں کی حفاظت کے نام پر ہمارے دفاعی نظام میں گھسنے اور اسے اندر سے سبوتاژ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ بات اب اس سے بھی آگے بڑھ گئی ہے اور کھل کر مطالبے کیے جارہے ہیں کہ جس طرح ۲۰۰۱ء میں ہمارے سات مطالبات مانے تھے، اب گیارہ نکات تسلیم کرو۔ ان مطالبات کی فہرست دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیا کسی آزاد اور خودمختار مملکت سے اس نوعیت کے شرم ناک مطالبات بھی کیے جاسکتے ہیں (۷ مارچ ۲۰۰۸ئ)۔ اس کے ساتھ کوشش ہے کہ ملک کی حکومت سازی میں بھی کردار ادا کرے اور اپنی پسند کے لوگوں کو برسرِاقتدار لانے کا کھیل کھیلے اور یہ سب کچھ ’اعتدال پسند‘ اور لبرل قوتوں کی فتح کے نام پر ہو۔

دیگر درپیش چیلنج

ہمیں احساس ہے کہ ان چار امور کے علاوہ بھی بڑے مسائل ہیں جن میں معاشی مسائل، کرپشن، امن و امان کا مسئلہ، بے روزگاری، بجلی اور پانی کا بحران، ہوش ربا مہنگائی اور بلوچستان اور وزیرستان میں فوج کشی سرفہرست ہیں۔ ان میںسے ہر مسئلہ حل کا تقاضا کررہا ہے اور حکومت کو  اس کی طرف توجہ دینا ہوگی، البتہ گاڑی کو پٹڑی پر لانا ترجیح اول ہونا چاہیے۔

___ جہاں تک وزیرستان اور بلوچستان کا تعلق ہے، حکومت کو فوج کشی ترک کر کے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ ہمیں یقین ہے کہ تمام معاملات سیاسی طریقۂ کار سے بحسن و خوبی حل ہوجائیں گے۔ امریکا سے صاف کہنے کی ضرورت ہے کہ بہت ہوچکی (enough is enough)۔ موجودہ قیادت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ امریکا کو ہماری ضرورت ہے، ہمیں امریکا کی اتنی ضرورت نہیں۔ اس لیے نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

___  معاشی معاملات زیادہ سنجیدہ ہیں، حکومت کو تین چیزیں ضرور کرنی چاہییں:

  • پہلی اور سب سے اہم یہ ہے کہ سارے حقائق قوم کے سامنے لائیں اور جھوٹ کی بنیاد پر جو پالیسیاں اور طفل تسلیاں دی جاتی رہی ہیں، ان کا پردہ چاک کیا جائے اور آیندہ کے لیے پالیسی کی بنیاد حقائق اور قوم کی حقیقی ضروریات اور ترجیحات ہوں۔ بیرونی قوتوں کی ریشہ دوانیاں اور متمول اور بااثر طبقات کے مفادات کا تحفظ نہ ہو۔ یہ ایک انقلابی اقدام ہوگا جو معیشت کی صحیح رخ پر تشکیل نو کے لیے نقطۂ آغاز ثابت ہوگا۔
  • دوسری بنیادی بات حکومت اور اُوپر کی ہرسطح پر حقیقی اور قابلِ لحاظ کفایت شعاری کا اختیار کیا جانا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس سے جو وسائل حاصل ہوں گے، وہ محدود ہوں گے لیکن یہ ایک انقلابی قدم ہوگاکہ قربانیاں صرف غریب نہیں دے رہے ہیں قیادت اس سے زیادہ قربانی دینے کے لیے تیار ہے۔
  • تیسری چیز معاشی پالیسیوں پر کھلی بحث اور ملک کے بہترین دماغوں کو سرجوڑ کر حالات پر قابو پانے اورنئی پالیسیاں تشکیل دینے کے کام پر لگا دینا ہے۔ سب سے بڑھ کر ایک نئی اپروچ کی ضرورت ہے۔ کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں دولت کی ریل پیل کے باوجود غربت، افلاس، فاقہ کشی اور خودکشی ہے ، جب کہ غزہ میں اسرائیل کے سارے مظالم، پابندیوں اور کاروبار کے قتل کے باوجود، گو غربت کی سطح آبادی کے ۶۰ فی صد تک پہنچ چکی ہے مگر فاقہ کشی سے موت اور معاشی اسباب سے خودکشی کی کوئی مثال نہیں۔

اس کی بنیادی وجہ غزہ کی آبادی اور وہاں کی قیادت اور متمول افراد کا یہ کردار ہے کہ جو کچھ ان کے پاس ہے اس میں تمام شہریوں کو شامل کر رہے ہیں، مسجدوں میں اجتماعی کھانے کا اہتمام ہوتا ہے اور جو جس کے پاس ہے، لے آتا ہے اور سب اس میں شریک ہوجاتے ہیں۔ غربت ہے مگر عزائم بلند ہیں اور اجتماعی کفالت کی بنیاد پر اسرائیل جیسے طاقت ور دشمن کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اگر غزہ کے مسلمان یہ مثال قائم کرسکتے ہیں تو ہم پاکستانی اس سمت میں کیوں پیش قدمی       نہیں کرسکتے؟ معاشی مسائل اور مشکلات حقیقی ہیں لیکن ان کا حل ممکن ہے بشرطیکہ ہم خود غرض، نفس پرست اور ہوس کے پجاری نہ بنیں، بلکہ اسلام کی دی ہوئی ہدایات کی روشنی میں اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔

نومنتخب اسمبلی اور مخلوط حکومت تاریخی دوراہے پر ہے۔ صحیح فیصلہ اور صحیح اقدام کرکے وہ ملک کو ایک تابناک مستقبل کی طرف لے جاسکتی ہے۔ کیا مخلوط حکومت اس چیلنج کا مقابلہ ایمان، غیرت اور حکمت سے کرنے کا عزم اور صلاحیت رکھتی ہے؟