اپریل ۲۰۰۸

فہرست مضامین

توہین آمیز خاکوں کی مکرّر اشاعت

امجد عباسی | اپریل ۲۰۰۸ | شذرات

Responsive image Responsive image

ڈنمارک میں آزادیِ اظہار کے نام پر ایک بار پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کرتے ہوئے توہین آمیز خاکوں کو شائع کیا گیا ہے۔ اس پر پوری اُمت مسلمہ میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ستمبر ۲۰۰۵ء کے بعد ڈنمارک کے اخبارات کی ان توہین آمیز خاکوں کی دوبارہ اشاعت یہ ظاہر کرتی ہے کہ مغرب کے اس اقدام کے خلاف مؤثر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔

دنیا کو تہذیب سکھانے کا نعرہ بلند کرنے والا مغرب آج خود تہذیب کا دامن تار تار کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ایک دوسرے کے مذاہب اور مقدس ہستیوں کا احترام دنیا کی مسلمہ اخلاقی اقدار میں سے ایک ہے۔ عالمی سطح پر ایسے قوانین موجود ہیں جن میں مذہبی آزادی کو یقینی بنایا گیاہے۔ آج اس بات کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے کہ مغرب اندھے تعصب میں جس عظیم ہستی کی توہین کا مرتکب ہو رہا ہے، اس کے انسانیت پر کتنے احسانات ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا حقیقی معنوں میںاگر کوئی رہنما ہے تو وہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی ہی ہے۔ یہ آپؐ ہی ہیں جنھوں نے کسی خاص قوم، نسل یا طبقے کی بھلائی کے لیے نہیں بلکہ تمام نوع انسانی کی فلاح و بہبود کے لیے آواز اُٹھائی، اور ہرقسم کی قوم پرستی کی حوصلہ شکنی کی۔ یہ آپؐ ہی ہیں جنھوں نے ایسے عالم گیر اور ہمہ گیر اصول پیش کیے جو تمام دنیا کے انسانوں کے مسائل کا حل پیش کرتے ہیں۔ یہ آپؐ ہی ہیں جنھوں نے وہ ابدی ہدایت اور آفاقی نظریۂ حیات پیش کیا جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے انسانیت کی رہنمائی کے لیے کافی ہے۔ یہ آپؐ ہی ہیں جنھوں نے اسلام کو صرف ایک نظریۂ حیات کے طور پر ہی پیش نہیں کیا، بلکہ اپنے پیش کردہ نظریات کو عملاً جاری کر کے دکھایا اور ایک جیتی جاگتی سوسائٹی پیدا کر کے دکھا دی۔ گویا اسلام ایک نظریہ ہی نہیں بلکہ ایک نظامِ حیات بھی ہے۔ آج اُمت مسلمہ ان کے اسی مشن کی علَم بردار ہے اور ایک تسلسل سے اسے لے کر آگے بڑھ رہی ہے۔ دوسری طرف سرمایہ داری، اشتراکیت، نیشنلزم اور لادینیت کے نتیجے میں انسانیت جس کرب سے گزری اور گزر رہی ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ آج بھی دنیا ایک منصفانہ نظامِ زندگی کے لیے ترس رہی ہے جو یقینا اسلامی نظریۂ حیات میں مضمر ہے۔ نبی کریمؐ کے اس عظیم کارنامے کی بنیاد پر مغرب کے دانش ور بھی آپؐ کو دنیا کا عظیم رہنما ماننے پر مجبور ہیں۔

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب ۳۳:۲۱) درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے۔

اسلام کی یہی وہ نظریاتی برتری ہے جو مغرب سے برداشت نہیں ہو رہی، گو آج مسلمانوں کا وہ کردار نہیں جو مطلوب ہے اور دنیا میں کوئی اسلامی ریاست حقیقی معنوں میں موجود نہیں کہ جسے ایک ماڈل کے طور پر پیش کیا جاسکے۔ اس کے باوجود قبولِ اسلام کا رجحان بڑھتا چلا جارہا ہے۔ روحانی پیاس لوگوں کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ اسلام کی طرف رجوع کریں۔ خود مغرب جس نے حیران کن سائنسی ترقی کی مگر انسانی زندگی کے مسائل کو مکمل طور پر حل کرنے میں ناکام رہا ہے۔

توہین آمیز خاکوں کی مکرّر اشاعت اس حربے کی مثل ہے جو مشرکینِ مکہ نے اسلام کے پیغام کو روکنے اور رسول کریمؐ کے خلاف مذموم پروپیگنڈے کی صورت میں استعمال کیا تھا۔ مگر دشمن کی یہ چال جس طرح کل اُلٹی پڑی تھی اور نبی کریمؐ کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا ان کے پیغام کو عام کرنے کا ذریعہ بنا تھا، اسی طرح آج بھی مغرب کی یہ چال ان کے خلاف پڑے گی۔ نائن الیون کے واقعے کے بعد اسلام کو جاننے کے لیے جس بڑے پیمانے پر مغرب میں دل چسپی پائی گئی اس کی کوئی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ لوگوں میں تجسس پیدا ہوا کہ ’دہشت گرد‘ اسلام آخر ہے کیا؟ اور مسلمان کیوں دہشت گردی کے ملزم قرار دیے جاتے ہیں؟ توہین آمیز خاکے بھی مغرب کو مزید بدنام کرنے اور اشاعت اسلام کا ذریعہ بنیں گے۔

وَ مَکَرُوْا وَ مَکَرَ اللّٰہُ وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ (اٰل عمرٰن۳:۵۴) اللہ نے بھی اپنی خفیہ تدبیر کی اور ایسی تدبیروں میں اللہ سب سے بڑھ کرہے۔

مغرب میں جہاں ایک طرف اسلام کے خلاف انتہاپسندی کا رویہ پایا جاتا ہے وہاں ایسی معتدل سوچ اور فکر بھی پائی جاتی ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو بھی دیگر مذاہب کی طرح مذہبی احترام ملنا چاہیے۔ برطانیہ کے شہزادہ چارلس اور حال ہی میں برطانیہ کے آرک بشپ آف کینٹربری ڈاکٹر رووان ولیم جنھوں نے مسلمانوں کو مذہبی استحقاق کی بنیاد پر علیحدہ شرعی عدالتیں قائم کرنے کے حق میں بیان دیا ہے، اسی معتدل سوچ کے علَم بردار ہیں۔ مسلمانوں بالخصوص مغرب کے مسلمانوں کو اس آواز کو مضبوط بنانے پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ باہمی مکالمے، سیمی نار، ٹی وی پروگراموں، مراکز دانش سے رابطہ اور معتدل سوچ پر مبنی لٹریچر کی اشاعت وغیرہ کے ذریعے اس سوچ کو آگے بڑھانا چاہیے۔

اُمت مسلمہ کو خود بھی ایک زندہ اُمت کا ثبوت دینا چاہیے۔ دنیا میں امن اور انصاف کی بالادستی بنیادی طور پر اُمت مسلمہ کا فرض منصبی اور نبی کریمؐ کے عالمی مشن کا تقاضا ہے۔ اگر مغرب انتہاپسندی، تعصب اور قوم پرستی کے نشے میں اندھا ہوکر اور اسلام سے خائف ہوکر دنیا کے امن کو برباد کرنے اور اشتعال انگریزی پر تلا بیٹھا ہے تو اس کے سدباب کے لیے ہرسطح پر اقدامات اٹھانا مسلمانوں کی دینی و اخلاقی ذمہ داری ہے۔ نائن الیون کے واقعے سے جس طرح پردہ اُٹھ رہا ہے، عراق پر حملے اور افغانستان پر جارحیت کے دعووں کی جس طرح قلعی کھل رہی ہے اور دہشت گردی کے نام پر جس طرح انسانیت کے بجاے مغرب کے مفاد کی جنگ لڑی جارہی ہے، ان سب باتوں سے مغرب کا دہرا معیار کھل کر سامنے آگیا ہے۔ اب وہ مزید ذلت سے بچنے کے لیے مسلمانوں کو اشتعال انگیزی کی راہ پر ڈال کر، توڑ پھوڑ، قتل و غارت گری کے ذریعے ’دہشت گرد‘ کے طور پر سامنے لانا اور ’تہذیبوں کی جنگ‘ مسلط کرنا چاہتا ہے جو دراصل خود مغرب کا کھڑا کیا ہوا ہوّا ہے۔ مسلمانوں کو دشمن کی اس چال کو سمجھنا چاہیے اور اپنے حقوق کی سربلندی کے لیے پُرامن جدوجہد کو بنیاد بنانا چاہیے۔

ایک مومن کی فراست کا تقاضا بھی یہی ہے کہ کوئی بھی اقدام اصولوں سے ہٹ کر اور اخلاق سے گرا ہوا نہ اٹھایا جائے۔ صبرواستقامت اور اسلام کی اخلاقی برتری بالآخر دشمن کے    دل میں گھر کرنے کا باعث بنے گی۔ اس کے علاوہ عالمی اسلامی تنظیم کی سطح پر اقدامات کا اٹھانا، عالمی قوانین کے ذریعے اپنے حقوق کا تحفظ حکومتی سطح پر سفارتی بائیکاٹ اور احتجاج اور دیگر    ذرائع ابلاغ کے ذریعے مکالمے اور اسلام کے آفاقی پیغام کو عام کرنا چاہیے۔ مغرب کا دہرا معیار بالآخر خود اسے اپنی اور دوسروں کی نظروں میں گرا دے گا۔

ایک محاذ معاشی دبائو کا بھی ہے جب چند برس قبل توہین رسالتؐ کی جسارت کرنے پر مسلم دنیا نے ڈنمارک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا تو اس کی سات بلین کرونا کی تجارت خطرے میں پڑ گئی تھی اور وہاں کی تجارتی کمپنیوں نے اپنی حکومت کو روش بدلنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس مؤثر حربے کو ایک بہتر حکمت عملی کے ساتھ استعمال کر کے بھی مغرب کو اشتعال انگیزی سے روکنے کے لیے دبائو بڑھایا جاسکتا ہے۔

آج مسلمان ایک بڑی تعداد اور وسیع وسائل رکھنے کے باوجود اتنے بے وزن ہیں کہ جو چاہے ان کو ذلیل و رسوا کرکے رکھ دے اور ان کی عزت کو خاک میں ملا دے۔ ایسا کیوں ہے؟ درحقیقت اُمت مسلمہ اپنے فرضِ منصبی کو فراموش کرچکی ہے اور اقامت دین کے لیے خدا سے جو  عہد کر رکھا تھا، اسے پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ نبی کریمؐ سے محبت ہمارے ایمان کا تقاضا ہے، ان کی حرمت پر ہم جان قربان کرنے کے لیے بھی تیار ہیں لیکن محبت رسولؐ کا حقیقی تقاضا یہ ہے کہ     ہم صحیح معنوں میں خدا کے بندے بن جائیں۔ نبی کریمؐ کے سچے اُمتی بن کر اپنے اخلاق و کردار سے گواہی دیں، اور تڑپتی ہوئی انسانیت کے لیے امن وانصاف کے پیغام کے علَم بردار بن کر اُٹھیں اور قرآن وسنت کی دعوت کو عام کریں۔ نیکی کا حکم دیں برائی سے روکیں، اور اس کے لیے    انتہائی جدوجہد، کوشش اور جہاد کریں۔ مسلمانوں کی طاقت کا راز بھی اسی بات میں مضمر ہے۔   اس کے لیے بس ایک شرط ہے کہ پہلے ہم اپنے پیکرِخاکی میں جان پیدا کریں    ؎

ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ

پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے