سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبد اللہ بن عبد العزیز بن باز مرحوم نابینا تھے، ایک روز ان سے کسی نے پوچھا: اگر اللہ تعالیٰ آپ کو آنکھیں عطا کردے تو سب سے پہلے کیا چیز دیکھنا چاہیں گے؟ انھوں نے بلا توقف جواب دیا: میں سب سے پہلے اُونٹ دیکھنا چاہوں گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بھی آسمانوں، پہاڑوں اور زمین پر غوروفکر کی دعوت دیتے ہوئے اُونٹ کا ذکر پہلے فرمایا ہے اور کہا: اَفَلاَ یَنْظُرُوْنَ اِِلَی الْاِِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ o (الغاشیہ ۸۸:۱۷)، یعنی کیا یہ لوگ اُونٹ کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بنایا گیا ہے؟ اُردو محاورے میں تو ’اُونٹ رے اُونٹ تیری کون سی کل سیدھی‘ کہہ کر طنز و استہزا کا اظہار کردیا جاتا ہے اور بس، لیکن غور کریں تو ہر مخلوق کی طرح اُونٹ بھی پروردگار کی صناعی کا حیرت انگیز مظہر ہے۔
حال ہی میں کویت سے شائع شدہ بچوں کا علمی انسائی کلوپیڈیا (حصہ اول) دیکھنے کو ملا۔ اگرچہ اس کے مقدمے میں بتایا گیا ہے کہ یہ ۶ سے ۱۲ سال کے بچوں کے لیے لکھا گیا ہے لیکن اس میں ایسی ایسی معلومات کا خزانہ ہے کہ بڑے بھی ان سے لاعلم ہیں۔ اس میںایک مفصل مضمون اُونٹ کے متعلق بھی ہے۔ اگرچہ اس میں جمع شدہ اکثر معلومات متفرق طور پر نظر سے گزری تھیں، لیکن اس جامع انداز سے پہلی بار سامنے آئیں۔ آئیے آپ بھی ملاحظہ فرمائیے:
اپنے ڈیل ڈول اور حجم کے اعتبار سے تو اُونٹ توجہ کا باعث بنتا ہی ہے، لیکن پروردگار نے اسے اپنی بہت سے نشانیوں کا مجموعہ بنادیا ہے۔ اللہ نے اسے ایسی بڑی بڑی آنکھیں عطا کی ہیں کہ دن ہو یا رات، وہ ان سے دور تک بآسانی دیکھ سکتا ہے۔ اس کی لمبی لمبی پلکیں آنکھوں کو صحرائی ریت سے بچاتی ہیں، لیکن اصل حیرت ناک بات یہ ہے کہ اس کے پپوٹوں کا آدھا حصہ شفاف جھلی کی صورت میں ہوتا ہے۔ صحراؤں میں جب آندھی تیز اور ریت زیادہ ہوتی ہے تو وہ آنکھیں بند کرلیتا ہے، لیکن شفاف جھلی سے باآسانی آر پار دیکھتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔ یہی معاملہ ناک اور کانوں کا بھی ہے۔ اتنے بڑے ڈیل ڈول کے باوجود کانوں کا حجم نسبتاً چھوٹا اور مقام سر کے تقریباً پچھلی جانب ہے۔ بالوں میں گھرے ہوئے چھوٹے کانوں کے پنکھ بآسانی پیچھے کو تہہ ہوجاتے ہیں، آندھی خواہ ریت کے طوفان میں بدل جائے، اس طرح تہہ کرلینے سے ریت کانوں میں نہیں جاسکتی اور نہ اسے کوئی اذیت پہنچا سکتی ہے۔ ناک کی صورت بھی یہ ہے کہ نتھنے منہ سے اُوپر اُٹھے ہوئے نہیں بلکہ صرف دو کٹاؤں کی طرح ہیں، جن کے کناروں کی ساخت ہونٹوں کی طرح ہے۔ ریت سے بچنے کے لیے انھیں بھی نرمی سے بند کرلیا جاتا ہے، اس طرح سانس بھی آتی جاتی رہتی ہے اور کوئی تکلیف دہ چیز بھی ناک میں نہیں جاتی۔
لمبی لمبی ٹانگیں جہاں مسافت جلد طے کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں، وہیں اُونٹ کے باقی سارے جسم کو صحراؤں کی دہکتی ریت کی گرمی سے دور رکھتی ہیں۔ اس کے پاؤں کی ساخت بھی خالق کی صناعی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اُونٹ کا پاؤں دو حصوں میں بٹا ہوتا ہے لیکن مضبوط جلد کے ذریعے ایک دوسرے سے ملا ہوا بھی۔ پاؤں کی ہڈی کے نیچے چربی کا ایک آرام دہ تکیہ بنا ہوتا ہے، اس کے نیچے اعصاب میں گندھے ہوئے نرم گوشت کی ایک تہہ ہوتی ہے، جو پاؤں زمین پر پڑتے ہوئے پھیل جاتی ہے، پھر اس کے نیچے موٹی کھال ہوتی ہے جو پورے پاؤں کو ایک مضبوط چوڑے جوتے کی شکل دے دیتی ہے۔ پاؤں کی یہ ساخت جہاں پاؤں کو جھلستی ریت کی گرمی سے بچاتی ہے، وہیں انھیں ریت میں دھنسنے سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔ اُونٹ چلتے ہوئے باری باری پہلے ایک طرف کی اگلی پچھلی دونوں ٹانگوں کو اکٹھے آگے بڑھاتا ہے اور پھر دوسری طرف کی، یوں جیسے کشتی کے چپو چلائے جاتے ہیں___ تیزی سے باری باری چلتے اُونٹ کے چپو اسے دیکھنے میں بھی صحرائی سفینہ ثابت کرتے ہیں۔ بیٹھتے ہوئے جہاں اس کی ٹانگوں کے جوڑوں پر سخت موٹی کھال گرمی سے بچاتی ہے وہیں اس کے پیٹ کے نیچے بنا سخت کھال کا تکیہ، ایک پلیٹ فارم کا کام دیتا ہے۔ گرمی جتنی بھی ہو اسے پار نہیں کرسکتی۔ سخت کھال کا یہی تکیہ اس کے لیے ایک خطرناک ہتھیار کاکام بھی دیتا ہے۔ اگر کبھی کسی کو اپنے انتقام و ناراضی کا نشانہ بنانا ہو تو اُونٹ اسے اپنے جبڑے کے ساتھ دبوچتے ہوئے اپنے کھردرے پیٹ کے ساتھ روند دیتا ہے۔ پتھر کی مانند اس سخت تکیے کو عربی میں کَلْکَلْ کہتے ہیں۔
اُونٹ کو اپنی خوراک میں نمک کی کافی مقدار درکار ہوتی ہے، اس لیے اس کی پسندیدہ خوراک نمکین، کانٹے دار اور خشک جھاڑیاں ہوتی ہیں۔ صحراؤں میں دستیاب بھی زیادہ تر یہی ہوتی ہیں۔ اُونٹ کے جبڑوں اور ہونٹوں کی ساخت، اس کی ان ضروریات کے عین مطابق ہے۔ منہ کا دھانہ بڑا اور اُوپر والا ہونٹ درمیان سے کٹا ہوا ہوتا ہے۔ اس لیے اگر زیادہ کانٹے دار جھاڑی ہو تو اُونٹ اسے منہ کے درمیان لاکر منہ کھول کر چبانا شروع کردیتا ہے یہاں تک کہ جب کانٹے چبائے جائیں تو پھر انھیں جھاڑی سے توڑ کر تھوڑا سا مزید چبا کر نگل لیتا ہے۔
اُونٹ کی سب سے حیرت انگیز خوبی اس کا شدید پیاس کو برداشت کرلینا اور پانی کی زیادہ سے زیادہ مقدار اپنے جسم میں محفوظ کرلینا ہے۔ موسم سرما میں اُونٹ پانی دستیاب ہونے کے باوجود بھی زیادہ پانی نہیں پیتا اور ایک ایک ہزار کلومیٹر کا فاصلہ پانی پیے بغیر طے کرلیتا ہے۔ گرمی کچھ بڑھتی ہے تو ہفتے دو ہفتے بعد ایک بار پانی پی لینے پر اکتفا کرلیتا ہے لیکن جب گرمی بہت زیادہ ہو تو اسے ہر پانچ روز بعد تقریباً ۲۵ لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کوئی مشقت درپیش نہ ہو اور تازہ چارہ وغیرہ مل رہا ہو تو پانی کی ضرورت کم ہوجاتی ہے۔ انتہائی گرمی میں بھی پانی دستیاب نہ ہو تو اُونٹ اپنے جسم میں موجود پانی ہی پر گزارا کرتا ہے۔ بعض اوقات معاملہ یہاں تک بھی پہنچ جاتا ہے کہ وہ اپنا ایک تہائی وزن اسی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش میں گھلا دیتا ہے، لیکن اس کے باوجود اس میں کمزوری واقع نہیں ہوتی۔ جب پیاسے اُونٹ کو پانی مل جائے تو وہ انتہائی مختصر وقت میں پانی کی بڑی مقدار پی لیتا ہے جس سے جلد ہی اس کا وزن دوبارہ بحال ہوجاتا ہے۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ ایک پیاسے اُونٹ نے ۳ منٹ میں ۲۰۰ لیٹر پانی پی لیا۔ انسان کا معاملہ کس قدر مختلف ہے پہلے تو وہ پانی کے بغیر اس آخری حد تک صبر ہی نہیں کرسکتا، پھر اگر وہ بہت پیاسا بھی ہو اور اسے اپنی ضرورت کا پانی دستیاب ہوجائے جو یقینا تھوڑا سا ہی ہوتا ہے، تب بھی وہ اسے تیزی سے نہیں پی سکتا وگرنہ راحت کے بجاے اذیت کا شکار ہوجائے۔
اُونٹ کے طویل صبرو برداشت کا اصل راز کیا ہے۔ انسائی کلوپیڈیا بتاتا ہے: اُونٹ اپنے جسم میں پانی محفوظ کرنے اور کیے رکھنے کی عجیب صلاحیت رکھتا ہے۔ انسانی جسم سے پانی کے اخراج کے چار ذرائع ہیں بول ، براز، پسینہ اور سانس میں پائی جانے والی نمی، خاص طور پر جب وہ کسی مشقت کی وجہ سے ہانپتے ہوئے منہ کھول کرسانس لے۔ اُونٹ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ جتنی بھی مشقت کرلے، نہ تو وہ ہانپتا ہے اور نہ منہ سے سانس لیتا ہے۔ پھر اس کے سانس میں نمی ہرگز شامل نہیں ہوتی۔ سانس لیتے ہوئے اگر اس کے نتھنوں کے سامنے آئینہ رکھا جائے تو اس پر نمی کی کوئی تہہ نہیں آتی۔ اس کے گردے پانی کی حفاظت کا خاص طور پر اہتمام کرتے ہوئے بہت تھوڑی مقدار میں بول بناتے ہیں اور اس کے جسم سے پانی کا اخراج کم سے کم ہوتا ہے۔
اس ضمن میں انتہائی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اُونٹ کو انتہائی مشقت کے باوجود بھی پسینہ نہ ہونے کے برابر آتا ہے۔ پسینے کے دیگر فوائد کے علاوہ ایک اہم فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ جسم کے درجۂ حرارت کو کنٹرول کرتا ہے۔ مثال کے طور پر انسانی جسم کا درجۂ حرارت ۳۷درجے سنٹی گریڈ رہتا ہے، اگر گرمی یا مشقت کے باعث اندرونی حرارت زیادہ ہوجائے تو اعصابی نظام جسم کو پسینے کا حکم دیتا ہے، پسینہ آنے سے جسم کا درجۂ حرارت متوازن ہوجاتا ہے۔ اس عمل میں جتنا اضافہ ہوتا جائے گا، ردعمل کے طور پر پسینہ بھی اتنا ہی بڑھتا جائے گا اور پانی کی طلب میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔ اُونٹ کے لیے خالق نے یہ سہولت رکھ دی کہ اس کا جسم کسی ایک درجۂ حرارت کا پابند نہیں بلکہ ۳۴ سے لے کر ۴۱ تک کا درجۂ حرارت اس کے لیے معمول کا درجۂ حرارت ہے، یعنی ۴۱درجے تک اس کا جسم اسے پسینے کا حکم نہیں دیتا اور ۴۱ سنٹی گریڈ سے اُوپر کا درجۂ حرارت پورے دوران سال میں نسبتاً کم رہتا ہے۔ اس ضمن میں ایک اور ربانی اہتمام کیا گیا ہے کہ اُونٹ کی کھال اور اس کے جسم کے درمیان چربی کی کوئی تہہ نہیں ہوتی۔ اس وجہ سے وہ جیسی ہی سایے میں آتاہے یا جیسے ہی صحرا کی ٹھنڈی شام شروع ہوتی ہے جسم اور بیرونی ماحول میں مطابقت ہونا شروع ہوجاتی ہے اور بہت جلد جسم کا درجۂ حرارت کم ہوجاتا ہے۔ اس عمل کو مزید آسان بنانے کے لیے موسم گرما میں اُونٹ کی اُون جھڑ جاتی ہے۔
گرمی اور مشقت کے باعث ہرجسم میں پانی اور خوراک کی کمی تو بہرحال واقع ہونا ہوتی ہے۔ اس ضمن میں اُونٹ کے لیے خالق نے اس بات کا اہتمام کیا ہے کہ پانی کے انتہائی محدود اخراج میں بھی کہ اس کے خون میں سے پانی کا اخراج نہ ہو۔ خون میں پانی کی مقدار کم ہونے سے وہ گاڑھا ہونے لگتا ہے، جس سے دورانِ خون میں خلل واقع ہوجاتا ہے اور بالآخر موت واقع ہوجاتی ہے۔ کئی کئی دن تک خوراک کی حاجت نہ ہونے کاایک اور اہم سبب یہ ہے کہ اُونٹ معمول کے دنوں میں خوراک کا کافی حصہ کوہان کی چربی کی صورت میں محفوظ کرلیتا ہے۔ طویل صحرائی سفر کے دوران یہ کوہان جسم کی غذائی حاجت پورا کرنے لگتی ہے اور آہستہ آہستہ سکڑنا شروع ہوجاتی ہے۔ یہ تفصیلات پڑھتے ہوئے مجھے افریقی ملک مالی کے تاریخی دار الحکومت ٹمبکٹو میں ملنے والا وہ صحرائی بدو یاد آگیاجو کہنے لگا: میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر میرے پاس ایک اُونٹنی ہو تو میں اس کی مدد سے کسی اور چیز کا محتاج ہوئے بغیر ہزاروں کلومیٹر میں پھیلے ہوئے صحراے اعظم کو عبور کرسکتا ہوں۔
اُونٹ ہی نہیں، خالق کائنات کی ہر مخلوق کے بارے میں سائنس دان آئے روز نت نئے انکشافات کرتے رہتے ہیں۔ ان میں سے کتنے ہی غیر مسلم سائنس دان ایسے ہیں کہ انھیں جب مخلوق سے متعلق مختلف قرآنی و نبویؐ ارشادات معلوم ہوئے تو ان کی ایک بڑی تعداد نے اپنے خالق کو پہچان لیا۔ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت پر ایمان لے آئے، اور کتنے ہی مسلمان ایسے ہیں کہ ان پر یہ فرمانِ الٰہی صادق آتا ہے:
وَکَاَیِّنْ مِّنْ اٰیَۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَمُرُّوْنَ عَلَیْھَا وَھُمْ عَنْھَا مُعْرِضُوْنَ o وَ مَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُھُمْ بِاللّٰہِ اِلَّا وَھُمْ مُّشْرِکُوْنَ o (یوسف ۱۲: ۱۰۵- ۱۰۶) زمین اور آسمانوں میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے یہ لوگ گزرتے رہتے ہیں اور ذرا توجہ نہیں کرتے۔ ان میں سے اکثر اللہ کو مانتے ہیں مگر اس طرح کہ اُس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھیراتے ہیں۔