میری پیدایش ۷ نومبر ۱۹۵۴ء کو ایک ملہوترا خاندان میں ہوئی۔ ہمارا خاندان اصل میں ۱۹۴۷ء میں پاکستان سے ہندستان آیا تھا۔ سرگودھا ہمارا آبائی وطن تھا۔ تبادلہ آبادی میں سخت مراحل سے گزرنے کی وجہ سے ہمارے خاندان میں بڑا تعصب پایا جاتا ہے۔ ہمارے خاندان کے اکثر لوگ (میرے علاوہ) آر ایس ایس اور بی جے پی سے جڑے ہوئے ہیں۔ میرے چچازاد بھائی بی جے پی کے ایک بڑے لیڈر ہیں۔
دہلی میں قرول باغ میں ہمارا گھر ہے۔ ابتدائی تعلیم مقامی اسکول میں حاصل کرنے کے بعد میرا داخلہ اسٹیفن کالج میں ہوگیا۔ وہیں سے میں نے بی ایس سی اور پھر کیمسٹری میں ایم ایس سی کی۔ مجھے ہمیشہ تعلیم کی لائن پسند تھی۔ میرے والد تو زندگی بھر پیشۂ تدریس سے وابستہ رہے، اس کے بعد میری سلیکشن اوکسفرڈ یونی ورسٹی میں پی ایچ ڈی کے لیے ہوگئی۔ وہاں پر مجھے ملازمت بھی مل گئی۔ چھے سالہ ملازمت کے دوران، میں نے ایجوکیشن میں ڈاکٹریٹ بھی مکمل کرلیا۔ والدین کی بیماری اور ان کے اصرار پر مجھے ہندستان آنا پڑا۔ مجھے انگلینڈ میں دنیوی زندگی کے لیے بڑے اچھے مواقع تھے، مگر شاید اللہ کو مجھے ہدایت سے نوازنا تھا، اس لیے میں نہ چاہتے ہوئے بھی ہندستان آگیا۔ دو سال بعد والدین کی بیماری کی وجہ سے میں تقریباً اسپتالوں ہی میں رہا۔ آخری درجے کے علاج کی کوششوں کے باوجود موت نے اپنی سچائی منوائی اور ۱۳ اکتوبر ۱۹۸۹ء کو میرے والد کا انتقال ہوگیا اور ان کے ۹ دن بعد میری ماں بھی مجھے چھوڑ کر ان کے پاس چلی گئی۔
آج کل نئے معاشرے میں بوڑھے والدین کو بوجھ سمجھنے کا عام رواج ہے، اورہمارے یہاں تو شاید یورپ سے بھی برا حال ہے۔ بوڑھے والدین کے لیے بس دنیا ہی دوزخ ہے۔ میرے اللہ کا شکر ہے کہ مجھے والدین سے حددرجہ محبت تھی اور مجھے ان کی خدمت کا موقع بھی ملا۔ آخری بیماری میں تو لوگ میرا حال دیکھ کر حیرت کا اظہار کرتے تھے۔ اس تعلق کی وجہ سے والدین کے انتقال کا مجھے بہت صدمہ ہوا اور میں نے سنیاس لینے کا فیصلہ کرلیا۔ میں دو سال اسی خیال سے ہری دوار اور رشی کیش کے آشرموں میں رہا۔ ایک کے بعد ایک آشرم بدلتا رہے اور شانتی اور سکون کی تلاش کرتا رہا، مگر مجھے یہ افسوس ہوا کہ یہاں پر دھرم کے نام پر دھندے کا بازار ہے۔ ان لوگوں کو چھوڑ کر جو دنیا کی بے چینی سے تنگ آکر اور سب کچھ چھوڑ کر شانتی اور سکون کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں، ہر آدمی اور ہر گروہ کا کچھ نشانہ ہے اور وہ نشانہ صرف لوگوں کو اپنا معتقد بنانا اور ان سے اپنا اُلو سیدھا کرنا ہے۔ مجھے خیال ہواکہ یہاں سے اچھا یہ ہے کہ میں سماجی دنیا میں جاکر اپنی صلاحیت سے لوگوں کو فائدہ پہنچائوں۔ دو سال کی اس مدت میں مجھے مذہب سے بڑی مایوسی ہوئی، میں دہلی آگیا۔
ایک روز ایک سیمی نارمیں شریک ہوا،جو ’’ہندستانی سماج کی تعلیمی پس ماندگی اور اس کا حل‘‘ کے عنوان سے وزارتِ فلاح و بہبود انسانی کے زیراہتمام منعقد کیا جا رہا تھا، جہاں پر جناب سوامی کلیان دیوجی مہمانِ خصوصی کے طور پر مدعو تھے۔ میرے ایک دوست نے ان سے میرا تعارف کروایا، اور تعلیم کے میدان میں کچھ خدمت کرنے کے میرے عزائم سے انھیں آگاہ کیا۔ سوامی جی اور ان کے ٹرسٹ کی تعلیمی خدمات کا بھی انھوں نے مجھ سے تعارف کرایا۔ اگلے روز صبح کو پنڈراہ پارک میں ایک وزیر کی کوٹھی پر ہماری ملاقات طے ہوگئی اور دو گھنٹے کی ملاقات کے بعد میں نے سوامی جی اور ان کے ٹرسٹ سے وابستہ ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ ان کے ساتھ جڑ کر میں ان کی ذاتی زندگی اور اصول پسندی سے بہت متاثر ہوا۔ مگر ٹرسٹ میں ان کے کارندوں کی آپس کی سیاست میرے لیے وہاں بھی گھٹن کا باعث بنی رہی، اس کے علاوہ جب میں تنہائی میں بیٹھ کر ان سے مذہب اور معبود کے بارے میں بات کرتا تو مجھے ایسا لگتا تھا کہ اتنے بڑے گرو ہونے کے باوجود وہ جیسے کسی سچ کی تلاش میں ابھی غیرمطمئن اور پیاسے ہیں۔ جب بھی ان سے معبود اور مذہب کے بارے میں بات ہوتی، تو مجھے اس بات کا احساس اور زیادہ ہوجاتا۔ اس خیال سے کہ مجھے ان کے کام میں انتشار کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے، میں نے وہ ٹرسٹ چھوڑ دیا اور ۹۸ میں دلی پبلک اسکول سے وابستہ ہوگیا۔ پہلے میں ایک برانچ میں پرنسپل رہا، پھر اس کے بعد مجھے ایڈوائزر کی پوسٹ پر اصرار کر کے مقرر کیا گیا۔ اس دوران اللہ کی رحمت نے مجھ پر ترس کھایا اور میرے مشرف بہ اسلام ہونے کا واقعہ پیش آیا اور مجھے مولوی محمد کلیم صدیقی صاحب نے کچھ روز کے لیے عرب ممالک میں جانے کا مشورہ دیا۔ میں تین سال کے معاہدے کے تحت مسقط چلا گیا، وہاں سے میں اپنا معاہدہ الحمدللہ عزت اور خوش اسلوبی کے ساتھ مکمل کر کے آیا ہوں، اور اگلے ہفتے واپس جا رہا ہوں۔
سچی بات یہ ہے کہ مجھے اسلام کی طرف کسی مسلمان یا کسی انسان نے دعوت نہیں دی، بلکہ اسلام نے مجھے خود دعوت دی۔ ہوا یہ کہ میں دلی پبلک اسکول کی ایک برانچ کے قیام کے لیے احمدآباد گیا ہوا تھا۔ ایک ہفتے کے قیام کے بعد احمد آباد میل سے واپس لوٹ رہا تھا۔ گاڑی سات گھنٹے لیٹ تھی۔ دوپہر کے شاید ڈیڑھ دو بج رہے ہوں گے۔ میں گاڑی سے اُترا تو میں نے دیکھا کہ قلی اکٹھے ہوکر ایک طرف کو جارہے ہیں۔ مجھے غریبوں اور مزدوروں کے حقوق سے ہمیشہ دل چسپی رہی ہے۔ مجھے خیال ہوا کہ شاید کوئی مظاہرہ کرنے جارہے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے ہدایت بلا رہی تھی، ورنہ آج بھی میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ دس بیس قلی آنے والی گاڑی پر اس طرح جاتے ہی ہیں، مگر اس وقت میرے خیال میں آیا کہ میں ان کے مظاہرے میں ان کی رہنمائی کروں، اس لیے میں قلیوں کے ساتھ چلا۔ میں نے دیکھا کہ انھوں نے پلیٹ فارم پر ایک جگہ سے لوٹے اٹھائے، پانی بھرا اور پلیٹ فارم پر ہاتھ، منہ، پائوں دھونے لگے۔ مجھے دوپہر کو سب لوگوں کے اس طرح لوٹے اُٹھانے اور منہ ہاتھ دھونے سے حیرت ہوئی اور خیال ہوا کہ دیکھنا چاہیے کہ دوپہر کو ہاتھ منہ دھو کر یہ کیا کرتے ہیں؟ خوب اچھی طرح مسواک وغیرہ کر کے انھوں نے رسیاں باندھ کر عارضی سی جگہ بنائی ہوئی تھی۔ وہاںچٹائیاں بچھائیں اور لائن میں کھڑے ہوگئے۔ ایک آدمی آگے کھڑا ہوا، باقی سب بالکل سیدھی صف بنا کر کھڑے ہوگئے اور اس طرح صف کو سیدھا کیا کہ ایک انچ کوئی آگے پیچھے ہوتا تو برابر والا اس کو ٹھیک کھڑا ہونے کو کہتا۔ ایک کے اللہ اکبر کہنے سے سب ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوگئے، اب مجھے سمجھ میں آیا کہ یہ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں۔ وزن اٹھانے والی قلی قوم کو میںجماعت پوری ہونے تک دیکھتا رہا۔
مجھے خیال ہواکہ ایسی جاہل قوم میں ایسا نظام اور ڈسپلن جس مذہب نے پیدا کیا، مجھے ضرور اس کو پڑھنا چاہیے۔ میں اس جذبے سے اُردو بازار پہنچا۔ میرے علم میں تھا کہ وہ بازار اُردو اور اسلامی کتابوں کا ہے۔ ایک کتب خانے پر گیا توانھوں نے مجھے کتب خانہ انجمنِ ترقیِ اُردو پر جانے کا مشورہ دیا، وہاں پہنچا تو انھوں نے مجھے مولانا محمدمنظورنعمانی کی کتاب اسلام کیا ہے؟ کا انگریزی ترجمہ What is Islam اور سید سلیمان ندوی کی کتاب خطباتِ مدراس کا انگریزی ترجمہ The Prophet Muhammadپڑھنے کا مشورہ دیا، میں خرید کر لے آیا۔ مجھے ان دونوں کتابوں نے اسلام سے بالکل قریب کردیا، بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ ان دونوں کتابوں نے مجھے ایک حد تک مسلمان بنا دیا تو شاید یہ بات بھی صحیح ہو۔
اس کے بعد مجھے خیال ہواکہ مجھے اسلام کو اس کی اصل سے پڑھنا چاہیے لہٰذا قرآن پاک کے ہندی اور انگریزی ترجمے اُردو بازار سے میں لے آیا۔ قرآن پاک کو پڑھ کر مجھے احساس ہونے لگا کہ اسلام میری کھوئی ہوئی دولت ہے، اور جیسے جیسے میں قرآن پڑھتا گیا میرے اندر کی اندھیری دنیا جگمگانے لگی، اور مجھے ایسا لگا کہ میں فطرتاً مسلمان ہی پیدا کیا گیا ہوں۔ جنت دوزخ کے حالات پڑھ کر مجھے یہ خیال ہوا کہ مجھے فیصلے میں جلدی کرنا چاہیے۔ اگر اسلام اور ایمان کے بغیر میری موت آگئی تو میرے لیے ہلاکت ہے۔ میں نے اس کے لیے تلاش شروع کی۔ میں امام جامع مسجد امام بخاری کے پاس گیا، مگر انھوں نے میرے ساتھ بے رُخی کا معاملہ کیا۔ میرے مالک کا مجھ پر کرم تھا کہ میرے لیے ازخود اسلام نے اپنا دروازہ کھولا۔ کوئی مسلمان اس کا ذریعہ نہیں بنا تھا۔
اب میرے لیے قرآنی اسلام اور مسلمانوں کے اسلام میں فرق کرنا مشکل نہیں تھا۔ اگر میں مسلمانوں کے اسلام سے متاثر ہوکر اسلام کی طرف آتا تو امام صاحب کے پاس حاضری ہی میرے لیے رکاوٹ بننے کے لیے کافی تھی، مگر میں نے تلاش جاری رکھی۔ میں جماعت اسلامی کے دفتر بھی گیا۔ وہ میرا تعارف سن کر شاید شک میں پڑ گئے، اور میرے بڑے بھائی جو وزیر ہیں ان کی رشتے داری ان کے جھجک کا باعث ہوئی۔ میں چھے ماہ میں شاید ۵۰کے قریب لوگوں کے پاس گیا کہ کوئی مجھے مسلمان کرلے، مگر نجانے کیوں مجھے کوئی کلمہ نہ پڑھوا سکا۔
اس دوران میرا مطالعہ جاری رہا اور مجھے روز بروز یہ خوف اور فکر بڑھتا گیا کہ کہیں میں اس حال میں مر نہ جائوں۔ بار بار میں تنہائی میں اپنے مالک سے فریاد کرتا: میرے مالک! آپ ہی مجھے مسلمان کرلیجیے، یہ چھے ماہ مجھ پر بہت سخت گزرے اور حددرجہ شکستگی مجھ پر طاری رہی۔ میری بے چینی بڑھتی گئی۔مجھے کریا کرم میں شریک ہونا پڑا۔ میںنے مسلمان ہوکر پہلی بار اپنی بہن کو جلتے دیکھا تو میں بیان نہیں کرسکتا کہ مجھ پر کیا گزری۔ میرے والدین کے بعد میری بڑی بہن اس آگ کے واسطے سے دوزخ کی آگ کی طرف چلی گئی، اس کے بعد عمر کے لحاظ سے میرا نمبر تھا۔ میری ہمت ٹوٹنے لگی۔ ساری رات مجھے بے چینی میں نیند نہیں آئی، اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ بڑی آہ و زاری سے دعا کرتا رہا، میرے مالک! مجھے ایمان کے بغیر موت نہ آئے۔
اگلی صبح کو مجھے خیال آیا کہ کتب خانہ انجمنِ ترقیِ اُردو والوں سے مشورہ کرنا چاہیے، شاید وہ کچھ راہ نکالیں۔ ان کے پاس گیا اور اپنی پوری کہانی سنائی۔ انھوں نے کہا: آپ فوراً پھلت چلے جائیں اور مولوی کلیم صدیقی صاحب سے ملیں۔ انھوں نے پھلت کا پتا بتایا۔میں فوراً کتب خانے سے ۲۴ مئی ۲۰۰۱ء کو تقریباً گیارہ بجے پھلت پہنچا۔ مولوی کلیم صاحب کسی سفر کے لیے نکل رہے تھے، گاڑی تیار تھی۔ بیٹھک میں ان سے ملاقات ہوئی۔ کھڑے کھڑے میں نے ان سے چڑچڑے پن سے کہا: میں مسلمان ہونے آیا ہوں، اگر آپ کرسکتے ہیں تو بتائیں، ورنہ جواب دیں۔ مولوی صاحب شاید اس جملے سے میری پوری داستان سمجھ گئے۔ انھوں نے کہا: اگر آپ کھڑے کھڑے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہونا چاہتے ہیں تو کھڑے کھڑے پڑھ لیں اور اگر کرسی پر بیٹھ کر پڑھنا چاہتے ہیں تو بیٹھ کر پڑھ لیں۔ میں بیٹھ گیا۔ انھوں نے مجھے کلمہ پڑھوایا اور میرا نام میرے نام کی نسبت سے سعید رکھا۔ مولوی صاحب نے مجھے دلی مبارک باد دی اور گلے لگایا، پانی منگوایا اور کہنے لگے: اگر آپ برا نہ مانیں تو اپنا تعارف کرا دیں اوریہ بتائیں کہ آپ کو اسلام کی دعوت کس نے دی ہے؟
میں نے تعارف کرایا اور بتایا کہ مجھے اسلام نے خود دعوت دی ہے۔ آپ سائنس دان ہیں، مذہب اسلام کو پڑھ کر آپ نے یہ فیصلہ کیا ہے، آپ نے اچھی طرح سمجھا ہوگا کہ آپ نے اس کو مان لیا، دل کی گہرائی سے تسلیم کرلیا اور باپ دادا کی بت پرستی اور شرک کے چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا تو آپ اللہ کے نزدیک مسلمان ہوگئے۔ میں نے جو کلمہ آپ کو پڑھوایا، محض آپ کی تسلی اور آپ جیسے سچے اور گناہوں سے پاک مسلمان کے ساتھ کلمہ پڑھنے کی سعادت حاصل کرنے کے لیے پڑھوایا ہے، ورنہ مسلمان تو آپ ۶ ماہ پہلے ہی ہوگئے تھے۔ انھوں نے میرا اس طرح حوصلہ بڑھایا کہ میرے جگہ جگہ دھکے کھانے کے زخموں کا علاج ہوگیا اور اب میں ان لوگوں کے بجاے جو کلمہ پڑھوانے سے کتراتے ہیں، اپنی حماقت پر خود ہی ہنسا۔
مولوی صاحب کے یہاں پُرتکلف ناشتہ ہوا۔ انھوں نے اپنے سفر کو ایک گھنٹہ مؤخر کیااور جن لوگوں نے مجھے کلمہ پڑھوانے سے جھجک محسوس کی تھی، حالات کا تقاضا بتاکر ان کی صفائی پیش کرتے رہے اور مجھے اس پر آمادہ کرتے رہے کہ مسلمانوں کا اسلام پیاسی اوردکھیاری انسانیت کے قولِ حق کے راستے میں رکاوٹ و حجاب ہے۔ ایسے میں اب زیادہ ضرورت ہے کہ قرآنی اسلام کو سمجھنے اور ماننے والے آپ جیسے قرآنی مسلمان، اسلام کا اپنے قول اور عمل سے تعارف کرائیں بلکہ دردمندی سے دعوت دیں اور چلتے چلتے مجھ سے وعدہ بلکہ عہد لیا کہ دنیا کی اس کمی کے لیے میں کام کروں گا۔ مولوی صاحب نے اصرار کیا کہ میں کھانا کھاکر جائوں، مگر خواہش کے باوجود میں نے ان کے سفر کی وجہ سے ان سے اجازت لی اور خوشی خوشی واپس لوٹا۔
میں اپنی خوشی کی کیفیت بتا نہیں سکتا۔مجھے ایسا لگا کہ جیسے آج ہی میں پیدا ہوا ہوں۔ میں راستے بھرسوچتا رہا کہ اگر پوری دنیا کو ایک ملک بناکر مجھے اس دنیا کا بادشاہ بنا دیا جاتا تو شاید میرے لیے اتنی خوشی کی بات نہ ہوتی، اس لیے کہ میں آج اپنے مالک کو گویا راضی کرکے لوٹا تھا۔
دہلی واپس لوٹا تو میں نے اپنی بیوی کو صاف صاف بتا دیا۔ انھوں نے گھر والوں کو بتایا اور میرے گھر میں کہرام مچ گیا۔ میرے بڑے بھائی نے جو وزارت کی کرسی پر تھے، بڑے لالچ دیے اور فیصلہ بدلنے پر زور دیا اور فیصلہ نہ بدلنے پر سخت وارننگ بھی دی۔ میں نے ان کو اپنا دو ٹوک فیصلہ سنا دیا۔ا نھوں نے مجھے پارٹی اور ملک کے دو بڑے ذمہ داروں بلکہ وقت کے سب سے بڑے ذمہ داروں سے ملوایا، جنھوں نے مجھے ملک کی وزارت کی آفر کی۔ میں نے وہاں بھی دوٹوک فیصلہ سنا دیا، اور جب وہ زور دیتے رہے اور مجھے چھوڑنے کو تیار نہ ہوئے تو میں سوچنے کا کہہ کر جان چھڑا کر چلا آیا۔ ظاہر ہے کہ اس مبارک فیصلے کے خلاف کچھ تصور سے بھی کانپ جاتا ہوں۔
میں نے مولوی کلیم صدیقی صاحب کو ان ملاقاتوں کی اطلاع دی۔ انھوں نے ایک دو روز غوروفکر کے بعد یہ مشورہ دیا کہ میں دلی پبلک اسکول کو چھوڑ کر کچھ روز کے لیے سعودی عرب یا گلف کے کسی ملک میں جاکر رہوں، میں نے بھی اس راے کو بہتر سمجھا۔ انگلینڈ کے ایک اسکول میں انٹرنیٹ پر اپلائی کردیا اور نیٹ پر ہی انٹرویو ہوا اور ایک مہینے میں ہی مسقط تین سال کے لیے چلا گیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ میرا یہ وقت بہت اچھا گزرا۔ میں نے تین سال مسقط میں گزارے۔ صرف اور صرف دعوت کو مقصد بناکر کام کیا۔
عرب نوجوانوں کو میں نے زندگی کا مقصد سمجھ کر جینے کے لیے تیار کیا، اور اپنے ساتھیوں اور رفقا میں کام کیا۔ میرے کالج کے پرنسپل جو فرانس کے رہنے والے تھے، الحمدللہ مسلمان ہوئے اور انھوں نے پیرس میں جاکر ایک دعوتی ادارہ قائم کیا۔ ہمارے کالج کے چھے اساتذہ اور تین ملازموں نے اسلام قبول کیا، جن میں تین ہندستانی، تین امریکی اور تین لوگ لندن کے تھے، اور خوشی کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے خاندان سمیت مسلمان ہوئے۔ تعداد تو زیادہ بڑی نہیں ہوئی، مگر اس بات پر میں اللہ کا حددرجہ شکر ادا کرتا ہوں کہ یہ سب لوگ شعوری طور پر قرآنی مسلمان ہیں اور جس کالج میں رہا، وہاں پر ایسی دعوتی فضا بن گئی کہ ہفتہ وار پروگراموں میں میرا دعوتی لیکچر بڑے شوق سے سنا جاتا رہا۔ میرے کالج کے پچاسوں شاگردوں کی الحمدللہ ایسی ذہن سازی ہوگئی ہے کہ وہ ان شاء اللہ جب تک زندہ رہیں گے، دعوت کو مقصد بناکرجئیں گے۔ان میں سے اکثر برطانیہ اور مغربی ملکوں میں ہیں، دو جاپان اور دو اٹلی میں دعوتی کام کر رہے ہیں۔ اصل میں میرے ساتھ بھی مسئلہ تھا کہ میں نے اس وقت خود بھی پڑھنے کی کوشش کی۔ الحمدللہ قرآن شریف پڑھا اور اُردو بھی اب میری اچھی خاصی ہوگئی ہے۔
میری زندگی خود مسلمانوں کے لیے پیغام اور عبرت ہے۔ میری یہ بات یقینا بڑی کڑوی سچائی ہوگی کہ اگر مسلمان سچائی اور حق سے دیوالیہ انسانیت کو حق اور سچائی کا پیغام نہیں دے سکتے، تو کم از کم قرآنی اسلام اور دنیا کے درمیان رکاوٹ و حجاب نہ بنیں اور اسلام اور انسانیت کے درمیان سے ہٹ جائیں۔ غیرمسلموں کو عام طور پر جن مسلمانوں سے واسطہ پڑتا ہے، ان میںسے اکثر قرآنی اسلام کے لیے حجاب ہیں۔