۱۲ ابواب پر مشتمل یہ تاریخی اور تجزیاتی کتاب دورِ حاضر کے حرارت پیدا کرنے والے موضوع پر ایک اہم اختلافی تحریر ہے۔ ڈاکٹر صدیقی صاحب نے مختلف تاریخی مآخذ کھنگال کر وہ واقعات یکجا کردیے ہیں جنھیں صحابیاتؓ اور اُمہات المومنینؓ کی معاشرے میں کسی بھی حیثیت سے موجودگی کا ذکر پایا جاتا ہے۔ کتاب کے مباحث کا خلاصہ خود مصنف کے الفاظ میں یوں ہے: ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کی خواتینِ عصر کی باہمی زیارتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ غیررشتہ دار محرموں کے علاوہ دوست، احباب اور غیرمحرم خواتین کے گھروں میں بھی ملاقات اور زیارت کے لیے جایا جاسکتا ہے۔ محرم رشتہ داروں کی ملاقات و زیارت پر کوئی تو قدغن ہی نہیں ہے سواے سلام و اجازت کی شرائط و آداب کے۔ لیکن غیرمحرموں کے ہاں بھی جانے آنے کی عام اجازت ہے۔ ان کے مردوں اور عورتوں کا مخلوط مجمع ہو تو کسی قسم کی قباحت نہیں ہے سواے پردے کے۔ پردہ اور حجاب کی بحث بہت طویل ہے اور کافی دقت طلب بھی۔ اس کا یہاں موقع نہیں۔ لیکن مختصر بات یہ کی جاسکتی ہے کہ حجاب سے مراد موجودہ برقعہ یا عورت اور مرد کے درمیان ایک ستر کی دیوار کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ ساتر لباس ہو اور کئی افراد ہوں تو میل ملاپ اور ملاقات و زیارت میں کوئی چیز مانع نہیں ہے جیساکہ صحابہ کرامؓ کے زمانے میں اور عہدنبویؐ میں طریقۂ ملاقات تھا یا آج کے مسلم معاشرے میں پایا جاتا ہے۔ لیکن جو خواتین اور ان کے مرد غیروں سے میل ملاپ نہیں پسند کرتے، ان کے گھروں میں آنا جانا پسندیدہ نہیں ہے۔ اور اگر آنا جانا ہو بھی تو عورتوں سے الگ مجالس میں ہو، تاکہ کسی قسم کا غبار خاطر نہ پیدا ہو‘‘۔ (ص ۱۹۳-۱۹۴)
مزید اسی تسلسل میں آگے یہ بات بھی فرمائی گئی ہے کہ ’’شادی شدہ خواتین کے گھروں میں اجنبیوں کی آمدورفت صرف، ان کے شوہروں کی موجودگی اور ان کی بخوشی اجازت کے حال میں ہی صحیح اور جائز ہے۔ ان کی عدم موجودگی میں جانے کی عام ممانعت ہے‘‘۔ پھر حضرت ابوبکر صدیقؓ کی زوجہ محترمہ کے بارے میں یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کی غیرموجودگی میں وہ متعدد صحابہ کی خاطرمدارات کر رہی تھیں کہ حضرت ابوبکرؓ آئے اور انھیں یہ ناگوار ہوا تو حضور نبی کریمؐ نے یہ اصول نافذ فرمایا کہ شوہر کی غیرموجودگی میں کوئی شخص یا اشخاص کسی شادی شدہ عورت کے گھر میں نہ جائیں، پھریہ کہا گیا ہے کہ ’’لیکن اسی کے ساتھ یہ جزئیہ بھی ہے کہ اگر کسی شوہر کو اپنی غیرحاضری میں اپنے دوستوں اور عزیزوں کے آنے جانے پر اعتراض نہیں ہے تو اس گھر میں جایا جاسکتا ہے جیساکہ رسول اکرمؐ کی سنت اور صحابہ کرامؓ کے طریق سے معلوم ہوتاہے‘‘۔ (ص ۱۹۴)
کتاب کے آخری پیراگراف میں مصنف نے اپنے تجزیے کا خلاصہ یوں خود بیان فرمایا ہے: ’’سیرت و حدیث اور تاریخی واقعات بلکہ قرآنی آیات سے بھی یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ اسلامی حدود و شرعی قیود کے ساتھ مردوزن کے ارتباط اور صنفی اختلاط کی پوری اجازت تھی اور نہ صرف اجازت تھی بلکہ وہ ایک سماجی روایت بھی تھی جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کی متواتر سنت کا پشتہ حاصل تھا۔ مردوزن کے اختلاط و ارتباط کا اصل اصول اور صحیح ترین طریقہ یہی طریق نبویؐ اور اندازِ صحابہ کرامؓ تھا، نہ کہ بعدکے خودپسند اور دقت پرست علما و فقہا کا طریقہ اور نہ ہی جدت طراز اور اباحت پسند سماجی دانش وروں کا بے محابا اور بے سلیقہ فکروعمل۔ دنیاوی فلاح و مسرت اور اُخروی بہبود و نجات صرف سنت نبویؐ اور تعامل صحابہؓ میں ہے‘‘۔ (ص ۲۰۵)
تبصرے میں اتنے طویل اقتباسات سخت غیر ضروری ہوتے ہیں لیکن چونکہ مصنف محترم نے بعض ایسے نکات اٹھائے ہیں جن کا ان کے اپنے الفاظ میں قارئین کی نگاہ سے گزرنا ضروری تھا اس لیے یہ جسارت کی گئی ہے۔
دورِ حاضر میں حریت نسواں کی مغربی چیخ و پکار اور مسلم ممالک میں پائی جانے والی آواز بازگشت میں بالعموم قرآن و سنت اور تعامل صحابہ کو الزام دیتے ہوئے یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ اب قرآن و حدیث کو بدلے بغیر ترقی کا عمل آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اس لیے امت مسلمہ کی فلاح اور نجات و ترقی اسی میں ہے کہ اسلامی مصادر کو نظرانداز کرتے ہوئے دورِحاضر کی ’روشن خیالی‘ یا خیالی روشنی کو رہنما بنایا جائے اور مسلم معاشروں میں پائی جانے والی روایات کو خصوصاً نام نہاد مشرقی روایت ہی کو بطور مباح، جائز اور قابلِ قبول طرزِعمل کے اختیار کرنا اسلامی روح کے مطابق درست ہے۔ چنانچہ پاکستان اور ہندستان میں جو مشرقی لباس یا سماجی رسومات پائی جاتی ہیں انھیں norms یا قدر کا درجہ دے کر مشرقی ثقافت کے نام پر مخلوط مشاعروں کی محفلیں یا شامِ موسیقی کے ’روح پرور‘ مخلوط اجتماعات کے انعقاد کو تہذیب یافتہ ہونے اور معاشرے کے سرگرم فرد ہونے کی پہچان بنا لیا گیا ہے۔
حوالہ جات سے بھرپور یہ کتاب ایک قدم آگے بڑھ کر ایک عام قاری کو یہ تاثردیتی ہے کہ مخلوط محفلیں اور غیرمحرم افراد کا ’زیارات‘ اور ’اختلاط‘ نہ صرف دھلوی اور لکھنوی ثقافت کے معیار سے بلکہ سنت اور تعامل صحابہ کے عین مطابق اور مطلوب و مقصود طرزِعمل ہونے کی بنا پر دنیا و آخرت میں اجرعظیم کا باعث بھی ہے۔
بعض اوقات ارادے اور نیت کے بغیر تاریخی حقائق کا جزوی اظہار معصومیت کے ساتھ ایک قاری کو مختلف وادیوں میں بھٹکا دینے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ صدیقی صاحب جیسے ماہر تاریخ و اسلامیات سے یہ بات پوشیدہ نہیں رہ سکتی کہ تاریخ کے ایک واقعے کو اُس کے سیاق و سباق اور دیگر متعلقہ نصوص سے علیحدہ کرکے جو نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں، وہ عموماً معروضی نہیں ہوتے۔
۱۹۹۰ء میں مصر کے ایک معروف عالم استاذ عبدالحلیم ابوشقہ (م: ۱۹۹۵ئ) کی کتاب تحریر المراۃ فی عصرالرسالہ: دراسۃ جامعۃ نصوص القرآن الکریم وصحیحین البخاری و مسلم۔ کویت کے دارالقلم للنشر ولتوزیع سے تین جلدوں میں طبع ہوئی۔ ۱۹۹۱ء میں اس کی چوتھی جلد طبع ہوئی (یہ چاروں جلدیں میرے کتب خانے میں موجود ہیں)۔ بعد میں دو جلدیں مزید طبع ہوئیں اور اگر یہ کہا جائے کہ مصنف مرحوم نے قرآن اور حدیث کے نصوص کو بڑی حد تک خواتین کے حوالے سے ایک مقام پر جمع کر کے طالبانِ علم پر ایک بڑا احسان کیا تو بے جا نہ ہوگا۔ اس کتاب پر شیخ محمدالغزالی مرحوم اور ڈاکٹر شیخ یوسف القرضاوی نے پیش لفظ تحریر کیے۔ استاذ قرضاوی کا پیش لفظ ۱۹ صفحات پر مبنی خود ایک علمی تحریر ہے۔
ڈاکٹر صدیقی صاحب نے جن جن احادیث کا حوالہ اپنی کتاب میں دیا ہے، وہ سب اس عالمانہ کتاب میں اپنی مکمل شکل میں موجود ہیں۔لیکن صدیقی صاحب کے کتابیات کے حوالے میں کہیں بھی اس کتاب کا حوالہ نہیں آنے پایا، گو صدیقی صاحب سے زیادہ شیخ عبدالحلیم نے اسلام میں عورت کے حقوق اور معاشرے میں کردار پر روشنی ڈالی ہے۔ دوسری جلد میں اجتماعی زندگی میں حضرت نوحؑ سے بنی اسرائیل تک تاریخی طور پر انبیاے کرام کا اسوہ اور پھر الفصل الرابع میں نساء النبی کا قبل فرضیتِ حجاب اور بعد فرضیتِ حجاب مفصل بیان ہے۔ فصل الخامس میں عصرالرسالۃ میں صحابیات کے طرزِعمل کا تذکرہ ہے۔ بعد کی فصلوں میں عصری حوالے سے بشمول سیاسی سرگرمیوں کے بحث ہے۔
طوالت سے بچتے ہوئے اگر شیخ عبدالحلیم کے موقف کو بیان کیا جائے تو اعتدال کو برقرار رکھتے ہوئے وہ خواتین کو گھر کے باہر ضرورت، حاجت اور تحسین کے علی الرغم سرگرمِ عمل ہونے کا حق دینے کے حامی ہیں لیکن ان کی تحریر سے وہ تاثر نہیںبنتا جو آغاز میں دیے گئے ڈاکٹر صدیقی صاحب کے اقتباسات سے بنتا ہے۔ وہ واضح طور پر یہ بتاتے ہیں کہ دورِ رسالتؐ میں صحابیاتؓ کا معاشرے میں بہت سے کاموں میں حصہ لینا نہ غیرضروری ملاقات و میل جول کہا جاسکتا ہے اور نہ مکمل طور پر دیوار کھینچ کر الگ کردینا۔لیکن قرآن و سنت کے واضح احکامات کے بعد جن میں ایک شادی شدہ خاتون کو شوہر کی موجودگی کے بغیر کسی غیرمحرم کے ساتھ چاہے وہ ایک ہو یا زائد ہوں، تنہائی اختیار کرنے کی ممانعت کے بعد یہ تاثر دینا کہ آج جس طرح مخلوط مجالس منعقد کی جاتی ہیں یہ مقتضاے سنت و قرآن ہیں۔ کتنی نیک نیتی اور معصومیت کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو، اگر انحراف اور پریشان فکری نہیں تو ایک انفرادی فکری تجدد ضرور ہے۔
اگر مروجہ پاکستانی لباس اور دوستوں کاغیرمحرم ہونے کے باوجود ایک منکوحہ کے شوہر کی رضامندی سے گھر میں آنا جانا اور ان دوستوں کی ضیافت کرنا ہی ’سنت‘ ہے تو پھر قرآن و سنت کو محرم و غیرمحرم کی تقسیم کی ضرورت ہی کیا تھی۔ آثار و احادیث کو شارع علیہ السلام اور قرآن کریم کے مقصد و مدعا، مقاصد شریعہ اور ان کے سبب نزول سے الگ کر کے نتائج کی طرف رہنمائی کرنا اور بظاہر بہت احترام سے یہ کہنا،’’ مثلاً غزوئہ اُحد میں حضرت عائشہ صدیقہؓ کی شرکت ،رفاہی خدمت اور مسلم مجاہدات کے مادرانہ جہاد کو یہ کہہ کر دوسرا رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ حجاب کے احکام سے پہلے کا واقعہ ہے۔ لیکن ایسے مجاہد مفکرین و علما نے بعد کے غزوات میں خواتین اسلام کے مسلسل و متواتر شرکت کے واقعات میں حجاب سے قبل و بعد کا سوال نہیں اٹھایا کیونکہ احکامِ حجاب کے بعد تو ان کی شرکت کی کثرت ہوگئی تھی اور تواتر بھی بڑھ گیا تھا۔ غزواتِ خیبر، عمرۃ القضائ، فتح مکہ، حنین، اوطاس اور طائف کے غزوات میں صحابیات کی تعداد زیادہ اور شمولیت متواتر نظر آتی ہے، بلکہ وہ غزوات کا ایک ضروری حصہ نظر آتا ہے‘‘۔ (ص ۱۹۶)
تاریخی واقعات کی تعبیر کا حق ہر صاحب ِ علم کو ہے لیکن آخری جملہ تاثر یہ دیتا ہے کہ اگر آج سنت مطہرہ کی پیروی کرنی ہے تو اسلامی فوج ظفر موج میں ایک بڑی تعداد مسلم ’مجاہدات‘ کی شامل کیے بغیر دین کی تکمیل نہیں ہوسکے گی۔کتاب کا اصل مسئلہ ایسے الفاظ کا انتخاب اور نتائج کا اخذ کرلینا ہے جو قرآن و سنت کے ظاہرمعنی و مقصد سے مطابقت نہیں رکھتے۔
مرد و زن کا ’میل ملاپ‘، ’زیارت‘، ’صنفی اختلاط‘ یا ’مرد و زن کے اختلاط و ارتباط‘ کی اصطلاحات معنی سے لبریز اصطلاحات ہیں اور ان کا معصومیت کے ساتھ صحابیاتؓ اور اُمہات المسلمینؓ کے حوالے سے استعمال سیرت وتاریخ کے کسی بھی طالب علم کے لیے قلبی اذیت کا باعث اور ادب و احترام کے منافی ہے۔
مفکر و فقیہ عصر سید ابوالاعلیٰ مودودی نے بھی خواتین کی عسکری تربیت کو تسلیم کیا ہے لیکن دلیل کے ساتھ کہ ہرمسلمان عورت اپنی جان، مال اور آبرو کی حفاظت کرنے پر قادر ہو، اسے اسلحے کا استعمال آتا ہو، تیرنا ، سواری کرنا اور نہ صرف اپنا دفاع بلکہ جنگ میں مردوں کا ہاتھ بھی بٹاسکے۔ لیکن اسلامی حدود میں، یعنی بغیر اختلاط کے (ترجمان القرآن ، ج ۳۱، عدد ۳، جولائی ۱۹۴۸ئ، ص۲۶-۲۹)، جب کہ مذکورہ کتاب میں ہرہرصفحے پر زیارت، ارتباط و اختلاط پر اس انداز سے بات کی گئی ہے جیسے اسلام مخلوط مجلسوں کے بغیر نامکمل رہے گا۔ یہ تحریر نام نہاد ’روشن خیال‘ ٹی وی کے ایسے ’علما‘ کو جن کی اصل مصادر شریعہ تک پہنچ نہ ہو، وہ مواد فراہم کرسکتی ہے جو انھیں عرصے سے مطلوب تھا۔ سیاق و سباق کو اس کی اصل شکل میں پیش کیے بغیر منتخب تاریخی حوالے نقل کردینا بعض اوقات فتنے کا باعث بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں فکروعمل کی ہر لغزش سے محفوظ رکھے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
زیر تبصرہ کتاب ترکی کے معروف دانش ور اور مفکر محمد فتح اللہ گلن کی تصنیف Prophet Muhammad as Commander کا ترجمہ ہے۔ کتاب میں غزوات وسرایا کے حوالے سے آپؐ کی حکمت و تدابیر کا تذکرہ ہے اور پیغمبرانہ بصیرت کے ایسے ایسے گوشوں کی نقاب کشائی کی گئی ہے، جنھیںپڑھتے ہوئے انسان پکار اُٹھتا ہے کہ محمدؐ یقینا اللہ کے رسول ہیں، کیوں کہ عام انسانی ذہن کی رسائی ان حکیمانہ تدابیر تک ممکن نہیں تھی۔ آپؐ نے اپنے پیروکاروں کو جہاد اور اس کے اعلیٰ مقاصد سے متعارف کرایا، جس کے ذریعے فتنوں کی سرکوبی اور مظلوموں کی اعانت میں مدد ملی۔ انسانی تاریخ میں آپؐ ایک عظیم سپہ سالار کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔
مترجم نے اپنے قلم کو صرف ترجمے تک ہی محدود نہیں رکھا ہے بلکہ بقولِ خود: انگریزی متن سے اُردو ترجمے تک پہنچنے کے لیے قلب و روح کا راستہ اختیار کیا ہے۔ انگریزی تصنیف میں آیات و احادیث کا صرف ترجمہ دیا گیا ہے۔ مترجم نے آیات کا عربی متن شامل کرکے کتاب کی قدروقیمت میں اضافہ کردیا ہے۔ اُردو ترجمے کے لیے آیات واحادیث کے متن،کتب سیرت سے واقعات کی تصدیق اور حواشی کی ترتیبِ نو نے اس کتاب کو حوالے کی کتاب بنا دیا ہے۔ ترجمے کی زبان عام فہم ہونے کے باوجود ادبی چاشنی کی حامل ہے۔ آیاتِ قرآنی کا ترجمہ مولانا فتح محمد جالندھری کا ہے، جب کہ احادیث کا رواں ترجمہ مترجم نے خود کیا ہے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ قرآنِ پاک کے ترجمے کو بھی زیادہ رواں اور عصرِحاضر کی لسانی ضرورتوں اور تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جاتا۔ (پروفیسر محمد حسن کلیم)
عبدالرشید صدیقی بمبئی سے معاشیات، سیاسیات اور قانون کی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد ۱۹۶۶ء سے ۱۹۹۷ء تک انفارمیشن لائبریرین کی حیثیت سے برطانیہ میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ سورئہ فاتحہ اور سورئہ آل عمران پر تفسیری کام کے علاوہ اپنے خطباتِ جمعہ کو Lift up Your Hearts کے نام سے، اور اپنے شعری مجموعے کو نواے بے نوا کے نام سے مرتب کرکے شائع کرچکے ہیں، نیز Key to the Glorious Qur'an: Understanding the Basic Concepts زیرطبع ہے۔
اقبالیاتی تنقید کوپڑھتے ہوئے خیال آتا ہے کہ اس موضوع پر کام کرنے کے نئے مواقع ختم ہونے والے ہیں۔ پیش نظر کتاب میں بھی اگرچہ کسی نئے موضوع کو نہیںچھیڑا گیا، پھر بھی یہ کتاب اپنا جواز مہیا کرتی ہے۔ مصنف کا خیال ہے کہ عالمِ اسلام بالخصوص مغرب میں آباد اہلِ اسلام اقبال کے افکار و نظریات سے کچھ زیادہ شناسا نہیں ہیں۔ نوجوانوں میں سے کچھ نے ان کا نام سنا ہوگا یا بچوں کے لیے ان کی چند ایک نظمیں پڑھی ہوں گی۔ مصنف نے ایسے ہی نوجوانوں کو اقبال کے تصوراتِ خودی و انسانِ کامل سے آگاہ کرنے کا عزم کیا ہے۔
ابتدا میں پروفیسر خورشید احمد کا پُرمغز دیباچہ شامل ہے جو نہایت عمدگی سے اقبال کی فکر اور کارنامے کا احاطہ کرتا ہے۔ اس کے بعد مصنف نے اسلامی ریاست، فکرِاقبال کا ارتقا، خدا، انسان اور کائنات، زمان و مکاں، موت اور بقاے رُوح، فرد اور سماج، سیاسی افکار، تصورِخودی، انسانِ کامل وغیرہ پر اجمالی گفتگو کی ہے، لیکن یہ اجمال جامعیت کا حامل ہے، جس سے ان موضوعات پر مزید مطالعے کی تشویق ہوتی ہے۔ اقبال کے فکروفلسفے کے تمہیدی باب کے بعد دوسرے باب میں مردِکامل پر بحث کی گئی ہے۔ ضمنی مباحث میں خودی کی تعریف، خودی: ایک مابعد الطبیعیاتی تصور، انسانی زندگی میں خودی کا کردار [ساقی نامہ]، اُمت مسلمہ کے لیے خودی کی اہمیت [رموزِ بے خودی]، انسانی خودی، آزادی و بقاے فرد اور جاوید نامہ جیسے موضوعات پر تفصیلی بحث کی ہے، جب کہ اقبال کے تصورِ انسانِ کامل میں انسانِ کامل کی تلاش، اقبال کا مردِ مومن، اُمت مسلمہ کے لیے پیغام، ایمان و کفر میں امتیاز، شاہین کا استعارہ، اقبال کا مردِکامل اور نیٹشے کے سپرمَین پر جامع گفتگو کی ہے۔
ضمیموں میں اقبال کے تصورِ خودی اور نیٹشے کے تصورات پر بحث اور ’ساقی نامہ‘ کا ترجمہ شامل ہے۔ بعدازاں حیات نامۂ اقبال، بعض الفاظ واصطلاحات کے مترادفات، حوالے، حواشی اور اشاریہ شامل ہیں۔ ان سے کتاب کی معنویت میں اضافہ ہوگیا ہے۔
یہ کتاب انگریزی دان یورپی مسلمانوں کے لیے اقبال کے تصورات و افکار کی تفہیم میں ممدومعاون ثابت ہوگی۔ زبان و بیان خوب صورت ہے، انگریزی روپ بھی دیا ہے۔ توقع ہے کہ بقول ناشر: خوب صورت اسلوب کی حامل یہ کتاب نوجوان مسلمانوں کو دین اسلام کی روح اور پیغام کو بہتر انداز میں سمجھنے کے قابل بنادے گی۔ (ڈاکٹر خالد ندیم)
زندگی اللہ تعالیٰ کا بڑا قیمتی عطیہ ہے، مگر اس عطیے کو اللہ کی خوشنودی کے لیے کھپا دینے والے خوش نصیب خال خال ہیں۔ اس عطیے کا احساس کرنے اور اس احساس کی دولت کو بانٹنے والے قابلِ قدر انسانوں میں ایک اہم نام جناب سید اسعد گیلانی کا بھی ہے۔
اسعد گیلانی ۲۰ ویں صدی کے وسط میں تحریک اسلامی کے ہم قدم بننے والے عظیم انسان تھے۔ ان کے جذب دروں کی حرارت کو اس کتاب کے مطالعے سے ۲۱ویں صدی کا قاری بخوبی محسوس کرسکتا ہے۔ ان مضامین کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ جیسے ہماری زندگی رائیگاں جارہی ہے۔ پھر یہ جذبہ حاوی ہونا شروع ہوتا ہے کہ مقصدیت اور ایمان سے بھرپور زندگی ہی اس احساس زیاں کا مداوا کرنے کا واحد ذریعہ ہے، اوروہ مقصد رضاے الٰہی کا حصول اور شہادتِ حق کے منصب پر استقامت سے کھڑے ہونا ہے۔
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے سید اسعد گیلانی کی داعیانہ، مربیانہ، دانش ورانہ، صحافیانہ اور ادیبانہ زندگی کو ایک خوب صورت تنوع کے ساتھ اس کتاب میں جمع کر کے رہروانِ شوق کے لیے فکروعمل کا قابلِ لحاظ سرمایہ جمع کر دیا ہے۔ اس زمانے میں، جب کہ فوٹواسٹیٹ اورتیز رفتار کمپوزنگ کی مدد سے غیرمعیاری کتابوں کا انبار بڑھتا اورمعیار گرتا جا رہا ہے، بہت کم کتابوں سے علمی ذوق کی تسکین ہوتی ہے۔ جناب اسعد گیلانی کی حیات و خدمات اور یادوں کے چراغ مختلف احباب کی تحریروں نے روشن کیے، لیکن مرتب نے انھیں مہارت اور سلیقے سے اس گلدستے میں پیش کیا ہے۔
کاش! مستقبل قریب میں جناب جسٹس (ر) ملک غلام علی کی زندگی پر بھی اسی طرح سلیقے سے مرتب شدہ کوئی کتاب نظرنواز ہو۔ (سلیم منصور خالد)
سید فیاض الدین احمد،ترکِ وطن کرکے برطانیہ میں جا مقیم ہوئے۔ عالمی پیمانے پرعمومی اور پاکستان میں ہونے والے واقعات پر خصوصی طور پر اُنھوں نے جو کچھ محسوس کیا، اُسے ضبطِ تحریر میں لے آئے۔ زیرتبصرہ کتاب اُن مضامین، خطوط بنام ایڈیٹر اور مراسلوں کا مجموعہ ہے جو گذشتہ ۱۵برسوں میں اُنھوں نے تحریر کیے اور مختلف قومی و عالمی اخبارات و رسائل میں شائع ہوئے۔ اِن سب کی مشترکہ خوبی اِن کا اختصار ہے۔ ۶۰ سے زائد تبصروں،خطوط اور مضامین کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں اسلام کا عالمی نقطۂ نظر، دوسرے حصے میں برطانیہ میں مسلمان، اور تیسرے حصے میں امورِ پاکستان کے حوالے سے مختصر تحریریں شاملِ اشاعت ہیں۔
مصنف اس کاوش سے یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ اہلِ پاکستان اگر اپنی ذمہ داریوں کو دُرست طریقے سے سنبھال لیں، اپنے داخلی نظام کو مستحکم بنیادوں پر اُستوار کرلیں اور اقوامِ عالم میں اصول پرست مملکت کی شناخت قائم کرلیں تو پاکستان نہ صرف داخلی طور پر مستحکم ہوسکتا ہے، بلکہ عالم گیر سیاست میں بھی اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
کتاب کا دوسرا حصہ خاص طور پر دل چسپی کا حامل ہے کیونکہ اس میں برطانیہ میں مقیم مسلمانوں کو درپیش مسائل، اُن کے خلاف کی جانے والی سازشیں اور ذرائع ابلاغ کی مہم اور اُن کے اندر موجود خامیوں کا دل چسپ لیکن جامع پیرایے میں ذکر کیا گیا ہے۔ (محمد ایوب منیر)
برعظیم پاک و ہند میں اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کے قیام کے لیے ۲۰۰ سالہ طویل جدوجہد جہاں تاریخی اہمیت رکھتی ہے، وہاں احیاے اسلام کی جدوجہد کے لیے درخشاں باب اور بہت سے عملی سبق کی حامل ہے۔ زیرنظر کتاب میں مصنف نے شاہ ولیؒ اللہ سے لے کر شیخ الہند مولانا محمود حسن کی وفات (۱۹۲۰ئ) تک کی اقامتِ دین کی جدوجہد کو جامعیت اور اختصار کے ساتھ باہم مربوط کیا ہے۔اندازِ بیان سادہ، دل چسپ، معلومات سے بھرپور اور رواں دواں ہے۔
شاہ ولی اللہ (۱۷۰۳ئ-۱۷۶۳ئ) کی علمی، سیاسی جدوجہد، ان کے خلف الرشید شاہ عبدالعزیز کی کاوشوں، سیداحمدشہید، مولانا شاہ اسماعیل شہید کی تحریک جہاد، ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے محرکات اور ناکامی کے اسباب، تحریکِ ریشمی رومال اور شیخ الہند کی عظیم جدوجہد کا تذکرہ اس میں شامل ہے۔
زیرنظر کتاب نوجوان نسل میں دین سے وابستگی اور اسلامی ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ (حمیداللّٰہ خٹک)