وطنِ عزیز پاکستان دو قومی نظریے کی اساس پر وجود میں آیا۔ اس کی بنیاد ’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ‘ کے ایمان افروز نعرے پر رکھی گئی تھی۔ مدینہ کی بے مثال اسلامی ریاست کے بعد ہماری تاریخ میں اسلام کے نام پر قائم ہونے والی دوسری ریاست ہے۔ اس ریاست کا قیام اہلِ پاکستان کے لیے جہاں ایک بڑا اعزاز تھا، وہیں بہت بڑی آزمایش بھی تھی۔ بد قسمتی ہے کہ اس سرزمین کو صبغۃ اللہ کا نمونہ بنانے کے بجاے بوجوہ غیر اسلامی رنگ میں رنگ دیا گیا۔ اگر یہ ریاست اسلامی رنگ میں رنگ جاتی تو آج عالمِ اسلام کی قیادت کر رہی ہوتی۔ آج اس کی سالمیت بھی خطرے میں ہے۔ سیکولرازم، لسانی و علاقائی تعصبات، مذہبی منافرت و فرقہ واریت اور جاہلی عصبیتوںنے اس نظریاتی ریاست کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے۔ا سلام دشمن قوتیں بالخصوص امریکا ،بھارت اور اسرائیل کی تثلیثِ خبیثہ ہمارے ملک کی سا لمیت کے خلاف مسلسل سازشیں کرتی رہتی ہیں۔ ان غیر ملکی دشمنوں کو ہمارے نااہل حکمرانوں کی پالیسیاں اور نالائقیاں بھی تقویت پہنچاتی ہیں۔ دشمنانِ اسلام و پاکستان کو ملک کے اندر سے بھی کچھ عناصر مل جاتے ہیں جو ان کا کھیل کھیلتے ہیں۔
اسلام دشمن قوتیں دورِ نبوت و دورِ صحابہ کرام میں بھی امت کے درمیان پھوٹ ڈالنے اور فتنے اٹھانے میں مشغول رہتی تھیں۔ مدینہ کے انصار دو قبائل اوس و خزرج سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے درمیان جاہلی دور میں قبائلی جنگیں ہوتی رہتی تھیں۔ مدینہ کے یہودی ان کو لڑا کر ایک طرف ان کی قوت کو ضعف میں بدلتے اور دوسری طرف ان کو سودی قرض میں جکڑتے اور ان کے ہاتھ اپنا اسلحہ فروخت کرتے۔ بنو قریظہ اوس کے حلیف تھے اور بنو نضیرو بنو قینقاع کی خزرج کے ساتھ دوستی تھی۔ اسلام کی آمد کے ساتھ دونوں قبائل کے درمیان دشمنی کی جگہ دوستی اور نفرت کی جگہ محبت کے جذبات موج زن ہوگئے۔ یہود کو اس سے بہت مایوسی ہوئی۔ آخر انھوں نے اپنا شیطانی مکر استعمال کیا۔ صحابہ کی ایک مجلس میں جنگ ِ بعاث کا تذکرہ چھیڑ دیا اور فریقین کے شعرا کے پرجوش رجزیہ اشعار پڑھنے لگے۔ اوس و خزرج کے جذبات بھڑک اٹھے اور وہ ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار اٹھانے کے بارے میں سوچنے لگے۔ اسی دوران میں نبی اکرمؐ کو اس واقعے کی اطلاع ملی۔ آپؐ فوراً موقع پر پہنچے اور فریقین کو سخت سرزنش کی۔ حضور پاکؐ کی سرزنش اور تذکیر سن کر اوس و خزرج زاروقطار رونے لگے اور ایک دوسرے سے والہانہ بغل گیر ہوگئے۔
قرآن نے بھی اس واقعے کا پورا نقشہ کھینچا ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم نے ان اہل کتاب میں سے ایک گروہ کی بات مانی تو یہ تمھیں ایمان سے پھر کفر کی طرف پھیر لے جائیں گے۔ تمھارے لیے کفر کی طرف جانے کا اب کیا موقع باقی ہے، جب کہ تم کو اللہ کی آیات سنائی جارہی ہیں اور تمھارے درمیان اس کا رسولؐ موجود ہے؟ جو اللہ کا دامن مضبوطی کے ساتھ تھامے گا وہ ضرور راہِ راست پالے گا…سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اس نے تمھارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے۔ تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے، اللہ نے تم کو اس سے بچالیا ‘‘۔(اٰل عمران ۳:۱۰۰، ۱۰۱ ، ۱۰۳)
دشمنانِ اسلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ایسے فتنے اٹھا کر صحابہ کرامؓ کی قدسی جماعت کے درمیان آگ بھڑکانے سے باز نہ آئے، وہ آج کیوں نچلے بیٹھیں گے۔ ان کا آلۂ کار بن جانا کس قدر نقصان دہ ہے، ہر صاحبِ ایمان اور کلمہ گو کو اس پر غور کرنا چاہیے۔ اُمت مسلمہ کے درمیان قتل و غارت گری کے بازار گرم کرنا نہ اسلام کی خدمت ہے، نہ اُمت مسلمہ کی، نہ خود قاتلوں کی۔ یہ سراسر تباہی ہے جو خسر الدنیا والاٰخرۃ کے زمرے میں آتی ہے۔ گذشتہ کچھ عرصے سے دہشت گردی اور قتل و غارت گری کا عفریت ننگا ناچ، ناچ رہا ہے اور اتنی قیمتی جانوں کو ہڑپ کر چکا ہے کہ جسدِ ملی ’ تن ہمہ داغ داغ شد‘ کی تصویر بن کر رہ گیا ہے۔ آئے دن وحشیانہ وارداتیں اور بہیمانہ قتل و غارت گری کی خبریں ذرائع ابلاغ سے شائع اور نشر ہوتی رہتی ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نام کی کوئی چیز اس ملک میں موجود ہی نہیں ہے۔ ۲۸فروری۲۰۱۲ء کو راولپنڈی سے گلگت جانے والی چار بسوں سے مسافروں کو اتار کر شناخت کے بعد ان میں سے ۱۹؍افراد کو اندھا دھند فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا۔ ان مقتولین میں دو خواتین بھی شامل تھیں۔ اس واقعے میں ۱۰؍افراد شدید زخمی ہوئے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ان بسوں کو شمالی علاقہ جات کے قریب ہربن کے مقام پر ۱۴؍افراد نے صبح ۸بجے کے قریب روکا۔ یہ افراد فوجی وردیوں میں ملبوس، مسلح نقاب پوش تھے۔ اس واقعے سے ایک روز قبل نوشہرہ میں ایک سیاسی جلسے میں بم دھماکا ہوا، جس کے نتیجے میںسات افراد جاں بحق اور ۳۲ زخمی ہوگئے۔ جب بھی اس طرح کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے، صدر اور وزیر اعظم سے لے کر وزیر داخلہ اور پولیس افسران تک سب واقعے کی مذمت کرتے اور قوم کو یقین دہانی کراتے ہیں کہ مجرموں کو جلد پکڑ کر کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج تک ان گھناونے جرائم کے مرتکب افراد کو سزا نہیں دی جاسکی۔ یہ حکمرانوں کی ایسی نااہلی و ناکامی ہے جس کے باعث وہ حق حکمرانی کھو چکے ہیں۔
فرقہ واریت کے نام پر بھڑکائی گئی آگ نے شیعہ سُنّی فساد کے روپ میں بے شمار قیمتی جانوں کو ہڑپ کیا ہے۔ قتل ہونے والوں میں دونوں جانب سے بے گناہ و معصوم شہری گولیوں کا نشانہ بنے ہیں۔ بحیثیت مجموعی یہ پوری امت کا نقصان ہے۔ اس کی ذمہ داری کا تعین کرنے کے لیے حکمرانوں اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کی قیادت کو سنجیدگی سے سرجوڑ کر بیٹھنا چاہیے۔ علامہ اقبال نے نہایت بلیغ انداز میں دردِ دل کے ساتھ امت کو سمجھایا تھا ؎
اے کہ نشناسی خفی را از جلی ہُشیار باش
اے گرفتارِ ابوبکرؓ و علیؓ ہُشیار باش
ہماری راے میں بیش تر واقعات میں امریکا ، بھارت اور اسرائیل کی ایجنسیوں کے لوگ ملوث ہوتے ہیں، جن کے پیش نظر پاکستان کی سا لمیت کو ختم کرنا ہے۔ بلوچستان میں قتل و غارت گری کے پیچھے علاقائی و قبائلی عزائم ہوتے ہیں۔ کراچی کی قتل وغارت گری میں بھی لسانی عصبیتوں کا دخل ہے، جب کہ پنجاب، خیبر پختونخوا اور بالخصوص گلگت بلتستان کے علاقوں میں مذہبی منافرت اس کا سبب ہے۔ گلگت کے اس افسوس ناک واقعے سے ایک ماہ قبل شمالی علاقے دیامیر میں سُنّی مسلک کے دوافراد مارے گئے تھے۔ بعض حلقوں کے نزدیک یہ اس واقعے کا ردعمل بھی ہوسکتا ہے۔ وقتاً فوقتاً شیعہ سُنّی فسادات کی طرح سنیوں کے درمیان بھی بریلوی اور دیوبندی، حنفی و سلفی اور اسی طرح جہادی و غیر جہادی کے نام پر منافرت پھیلانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ اسلام میں قتلِ ناحق کو بہت بڑا جرم قرار دیا گیا ہے۔ ’’جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے [ناحق] قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا‘‘۔ (المائدہ۵:۳۲)
اس مضمون پر بہت سی احادیث میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ کسی کلمہ گو کے ناحق قتل کا مرتکب دائمی جہنمی ہوگا (ابی داؤد، حدیث ۴۲۷۰ بروایت حضرت ابوالدردائؓ)۔ کسی غیر مسلم ذمی کو قتل کرنے کو بھی اتنا بڑا جرم قرار دیا گیا ہے کہ اس کا ارتکاب کرنے والا جنت کی خوشبو بھی نہ پاسکے گا حالانکہ یہ خوشبو ۴۰برس کی مسافت تک پہنچتی ہے (بحوالہ نسائی، حدیث ۴۷۵۴ بروایت حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ)۔ ایک کلمہ گو کو قتل کرنا اتنا بڑا جرم ہے کہ کتاب اللہ میں بھی اس کی سزا دائمی جہنم قرار دی گئی ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ’’رہا وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے‘‘(النسائ۴:۹۳)۔ یہ معاملہ اتنا نازک ہے کہ حضرت اسامہ بن زیدؓ کا مشہور واقعہ اس کی بہت اچھی وضاحت کرتا ہے۔ ایک جنگ میں حضرت اسامہؓ نے ایک محارب و مقاتل دشمن کو قتل کیا، جب کہ اس نے کلمہ پڑھ لیا تھا۔ حضرت اسامہؓ نے اجتہاد کیا کہ وہ محض اپنی جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھ رہا ہے ورنہ وہ تو اسلامی فوجوں کے مد مقابل لڑتا رہا تھا۔ جب آنحضوؐر کو اس واقعے کی اطلاع ملی تو آپؐ حضرت اسامہؓ سے سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ قیامت کے دن تم اللہ کو کیا جواب دو گے جب وہ کلمہ پڑھتا ہوا اللہ کے سامنے حاضر ہوگا۔ حضرت اسامہؓ نے عرض کیا: یا رسولؐ اللہ!دراصل اس نے جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھا تھا، دل سے تو وہ کافر ہی تھا۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کہ کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا۔ حضرت اسامہؓ خود بیان کیا کرتے تھے کہ آنحضوؐر کی ناراضی سے میں اس قدر پریشان ہوا کہ میں نے دل میں کہا: اے کاش! میں اس سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا اور یہ غلطی مجھ سے سرزد نہ ہوتی۔ (بخاری)
اسلام کی رُو سے ہر کلمہ گو مسلمان ہے۔ باطن کا معاملہ بندے اور رب کے درمیان ہے اور وہ قیامت کو ہر شخص کے بارے میں عدل و انصاف کا فیصلہ صادر فرمائے گا۔ پاکستان میں ہرکلمہ گو خود کو مسلمان کہتا ہے۔ عقاید و مسالک اور فروعات میں اختلافات یقینا ہیں۔ یہ صدیوں سے چلے آرہے ہیں۔ ان کی بنیاد پر اختلافِ راے کی گنجایش تو یقینا موجود ہے مگر کسی بھی شخص یا گروہ کو ہتھیار اُٹھا لینے اور دوسروں کو قتل کرنے کا جواز نہ قرآن و سنت میں ملتا ہے نہ ملکی قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص واجب القتل ہے تو اس کا طریقِ کار بالکل واضح ہے اور مجاز عدالتیں اور ادارے اس کے متعلق فیصلہ صادر کردیں تبھی اس کا خون مباح ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی صورت ایسی نہیں کہ کوئی فرد یا گروہ اپنی ذاتی حیثیت میںقانون کے تقاضے پورے کیے بغیر کسی انسانی جان کو ہلاک کردے۔
حکومت کی نااہلی نے حالات کو اتنا بگاڑ دیا ہے کہ انارکی اور طوائف الملوکی نے پوری پاک سرزمین کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان حکمرانوں سے امن و امان کی توقع بالکل عبث ہے۔ اکابر ملت کو مسالک کی حد بندیوں سے بالاتر ہو کر سرجوڑ کے بیٹھنا چاہیے۔ ملّی یکجہتی کو نسل کے انداز میں پھر سے متحد ہو کر چیلنج کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ منافرتوں کی جگہ پھر سے ہم آہنگی اور دشمنی کی جگہ اخوت کو فروغ دینے کی امید دینی شخصیات اور انھی قوتوں سے وابستہ ہے۔ جب ملّی یک جہتی کو نسل وجود میں آئی تھی اور متحارب گروہ ایک میز پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے تھے تو بہت سی غلط فہمیاں دور ہوئی تھیں اور ہر ایک نے تسلیم کیا تھا کہ ہمارے باہمی اختلافات اور ایک دوسرے کے بارے میں شدید تصورات و تحفظات حقیقت سے بہت بعید تھے۔ اب پھر وقت آگیا ہے کہ اس مسئلے کو جنگی اور ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے۔ اس میں سب کا بھلا ہے ورنہ یہ آگ جس طرح اس سے پہلے بے شمار گھرانوں کو برباد کر چکی ہے اسی طرح مزید نقصان کا باعث بنے گی۔ نفرت و عصبیت کی وبا مزید پھیلے گی تو ناقابلِ تلافی نقصان کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ علامہ اقبالؒ نے کیا خوب نصیحت فرمائی ہے جو آج بالکل ہمارے حسبِ حال ہے:
منفعت ایک ہے اس قوم کی ، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ ، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں