اپریل ۲۰۱۲

فہرست مضامین

۶۰ سال پہلے

| اپریل ۲۰۱۲ | ۶۰ سال پہلے

Responsive image Responsive image

اسلامی دستور کا مطالبہ

اِس کا علاج بجز اِس کے اور کچھ نہیں کہ جس طرح ۴۸ء -۴۹ء میں نظامِ اسلامی کے لیے ایک پاکستان گیر مطالبہ پوری قوت کے ساتھ اُٹھا تھا اور اسی کی بدولت یہ لوگ قرارداد مقاصد پاس کرنے پر مجبور ہوئے تھے، اسی طرح اب پھر تمام ملک سے دستورِ جدید کے لیے ایک متفقہ مطالبہ اُٹھے....

پھر مطالبہ صرف یہی نہ ہونا چاہیے کہ ملک کا نیا دستور بنایا جائے، بلکہ یہ بھی ہونا چاہیے کہ اس میں حسب ذیل اُمور کی قطعی صراحت ہو:

۱- ملک کا قانون اسلامی شریعت ہوگی۔

۲- کوئی ایسی قانون سازی نہ کی جاسکے گی جو شریعت کے احکام یا اصولوں کے خلاف ہو۔

۳- تمام ایسے قوانین کو منسوخ کیا جائے گا (خواہ بتدریج ہی سہی) جو شریعت کے احکام اور اصولوں سے متصادم ہوتے ہوں۔

۴- حکومت کا یہ فرض ہوگا کہ اُن برائیوں کو مٹائے جنھیں اسلام مٹانا چاہتا ہے، اور اُن بھلائیوں کو فروغ دے جنھیں اسلام فروغ دینا چاہتا ہے۔

۵- لوگوں کے شہری حقوق (تحفظِ جان و مال و آبرو، آزادی تحریر و تقریر، آزادیِ اجتماع اور آزادیِ نقل و حرکت) کو اُن کا جرم کھلی عدالت میں ثابت کیے بغیر، اور انھیں صفائی کا موقع دیے بغیر سلب نہ کیا جاسکے گا۔

۶- لوگوں کو حق ہوگا کہ انتظامیہ یا مقننہ اگر اپنے حدود سے تجاوز کرے تو وہ ملک کی عدالتوں سے چارہ جوئی کرسکیں۔

۷- عدلیہ انتظامی حکومت کی مداخلت سے آزاد ہوگی۔

۸- حکومت اس بات کی ضامن ہوگی کہ ملک میں کوئی شخص بنیادی ضروریاتِ زندگی    (غذا، لباس، مکان، علاج اور تعلیم) سے محروم نہ رہے۔

اِن اُمور کی صراحت کے بغیر اگر کوئی دستور بنابھی دیا جائے تو ظاہر ہے کہ وہ اہلِ ملک کے کسی کام کا نہ ہوگا۔(’اشارات‘،سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۳۸، عدد ۱-۲، رجب، شعبان ۱۳۷۱ھ، اپریل، مئی ۱۹۵۲ئ، ص ۷)