اپریل ۲۰۱۲

فہرست مضامین

سینیگال میں بہارِ انقلاب

حافظ محمد ادریس | اپریل ۲۰۱۲ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

تیونس سے شروع ہونے والی بہار نے کئی عرب ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے مصر، لیبیا اور یمن میں بھی آمریت کا جنازہ نکل گیا۔ اب دیریا سویر شام کی باری ہے۔ اس بہارِ جاں فزا سے افریقہ کے دیگر ممالک بھی فیض یاب ہو رہے ہیں۔ مغربی افریقہ کا ملک سینیگال اس کی بہترین مثال ہے جہاں دارالحکومت ڈاکار اور دیگر شہروں میں عوام صدر عبد اللہ واد کے خلاف سر سے کفن باندھ کر میدان میں نکل آئے ہیں۔ سینیگال مغربی افریقہ کا ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ اس کا کُل رقبہ ایک لاکھ ۹۶ہزار ۷سو۲۳ مربع کلومیٹر، یعنی پاکستان کے رقبے کا ایک چوتھائی ہے، جب کہ آبادی ایک کروڑ ۲۳ لاکھ ہے، یعنی پاکستان کی آبادی کا پندرھواں حصہ۔   ملک معاشی لحاظ سے پاکستان سے بھی غریب ہے۔ فی کس آمدنی۱۶۰۰ ڈالر فی کس سالانہ ہے، جب کہ پاکستان کی تقریباً۲۱۰۰ڈالر فی کس سالانہ ہے۔ سینیگال کی آبادی ۹۶ فی صد  مسلمان ہے البتہ قدیم مذہبی رسومات اور روایاتِ بت پرستی بیش تر آبادی میں اسی طرح پائی جاتی ہیں،     جس طرح ہمارے ہاں ہندوانہ تہذیب اور رسوم و رواج کا چلن ہے۔

سینیگال نے ہم سے ۱۳ برس بعد، یعنی ۱۹۶۰ ء میں فرانسیسی استعمار سے آزادی حاصل کی۔ پانچ مقامی قبائلی زبانوں کے علاوہ فرانسیسی یہاں کی سرکاری زبان رہی ہے۔ اب عربی کی طرف  بھی بہت زیادہ رجحان ہے۔ افریقہ کا یہ ملک اس لحاظ سے دیگر بیش تر افریقی، لاطینی امریکی اور ایشیائی و عرب ممالک سے ممتاز و ممیز ہے کہ یہاں فوجی انقلابات کی کوئی روایت نہیں ملتی۔ یہاں کی فوج ہے بھی نہایت مختصر۔ سینیگال کے بحیثیت مجموعی اپنے ہمسایوں سے تعلقات اچھے ہی رہے ہیں البتہ اپنے پڑوسی ملک مالی کے ساتھ اس وقت کچھ تلخیاں پیدا ہوئی تھیں جب دونوں ممالک نے آزادی کے بعد آپس میں ایک وفاق قائم کیا، مگر چار ہی ماہ بعد یہ وفاق بکھر گیا اور دونوں ممالک نے ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کرلی۔ اس علیحدگی میں بھی نہ کوئی گولی چلی، نہ فسادات ہوئے۔ یوں ان افریقی ممالک نے مہذب ہونے کا ثبوت دیا۔ سینیگال کے پڑوس میں سبھی ممالک چھوٹے چھوٹے ہیں۔ ان میں گامبیا، ماریتانیہ، مالی، گِنی اور گِنی بسائو شامل ہیں۔ یہاں اسلام کی روشنی تقریباً اُسی دور میں پہنچی جب مسلمان شمال مغربی افریقہ سے ہسپانیہ کی طرف منتقل ہوئے۔

 سینیگال میں صحیح اسلامی تعلیم کا فقدان رہا ہے۔ اس کے باوجود شمال مغربی افریقہ کے عرب ممالک الجزائر، لیبیا، تیونس اور مراکش کے اسلامی جہاد کی وجہ سے یہاں بھی ایک محدود طبقے میں جہادی جذبات پروان چڑھے۔ سنوسی تحریک، عبدالقادر الجزائری اور عمرمختار سے محبت کرنے والا ایک مختصر حلقہ ڈاکار اور دیگر بڑے شہروں میں موجود ہے۔ تحریک ِآزادی میں بھی یہ لوگ    پیش پیش تھے، مگر فرانسیسی استعمار نے ان کو ہمیشہ زیرعتاب رکھا۔ بدقسمتی سے عیسائی مشنری اور قادیانی بھی یہاں اپنی سرگرمیاں فرانسیسی دور ہی سے جاری رکھے ہوئے ہیں اور بے پناہ وسائل رکھتے ہیں۔ تاہم، یہ بات باعث ِ اطمینان ہے کہ سینیگال کی آبادی نے عیسائیت یا قادیانیت کو قبول نہیں کیا۔

سینیگال میں اسلامی تحریک بالکل نئی اور قوت کے لحاظ سے ابھی بہت محدود ہے۔ تاہم، مصر اور سعودی عرب کی جامعات سے فارغ ہوکر آنے والے نوجوان عقائد و افکار کے لحاظ سے درست اسلامی سوچ کے حامل ہیں۔ انھوں نے اخوان المسلمون کی فکر سے متاثر ہوکر ۱۹۹۹ء میں ایک تنظیم کی بنیاد رکھی جس کا نام ’جماعت عبادالرحمن‘ ہے۔ اس کے سربراہ ایک ذہین اور تعلیم یافتہ مسلمان استاد احمد جاں ہیں۔ وہ مولانا مودودی کے مداح ہونے کے ساتھ تحریکِ اسلامی پاکستان سے بھی متعارف ہیں۔ والی سعودی عرب نے بھی اس ملک میں کافی کام کیا ہے اور ان کے موجودہ نمایندے استاد رجب مصری ہیں۔ اسلامی تحریک کے لیے ایسے قابل نوجوانوں کا وجود بساغنیمت ہے۔ ان کا کام محدود تھا مگر گذشتہ سال کی عرب بہار نے جب اسلامی بہار کا روپ دھارا تو ان کی جماعت کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا۔ ابھی وہ انتخابی معرکے میں اُترنے کے قابل نہیں مگر ان کے منظم کام کی وجہ سے تمام اپوزیشن پارٹیاں ان کی حمایت کے لیے کوشاں ہیں۔ انھوں نے فیصلہ کیا ہے کہ اسلام کی برتری اور جمہوریت کی حقیقی بحالی و تحفظ کی یقین دہانی کرانے والے صدارتی اُمیدوار کی حمایت کریں گے۔ طلبا میں ’طلبا عبادالرحمن‘ کے نام سے ان کی ملک گیر تنظیم موجود ہے جو فعال ہے اور مستقبل میں قوت میں اضافے کا باعث ہوگی۔ پاکستان سے اسلامی میڈیکل ایسوسی ایشن نے ڈاکٹر انتظاربٹ اور دیگر ماہرین امراضِ چشم اطبا کی نگرانی میں گذشتہ چند برسوں سے افریقہ کے  جن ممالک میں فری میڈیکل کیمپ لگائے ہیں ان میں سینیگال بھی قابلِ ذکر ہے۔ ان کیمپوں کی وجہ سے بھی عباد الرحمن تنظیم کو اخلاقی و عمومی حمایت حاصل ہوئی ہے۔ یہاں فرانس اور بھارت نے سونے کی کانوں اور کھاد کی فیکٹریوں کے ذریعے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ پاکستان کا اس ملک کے ساتھ محض سفارت خانے کی حد تک تعلق ہے۔

سینیگال پر مختلف اوقات میں پرتگال، فرانس اور برطانیہ نے اپنے استعماری پنجے گاڑے مگر آخر میں ۱۸۴۰ء سے ۱۹۶۰ء تک یہ سرزمین فرانسیسی کالونی ہی رہی۔ یورپ اور امریکا میں افریقی آبادی کو غلام بنا کر فروخت کیا گیا تو اس کا سب سے بڑا اڈا بھی اسی ملک میں تھا۔ فرانس نے سینیگال کو آزادی دینے سے قبل اپنا ایک سدھایا ہوا شاگرد لیوپولڈ سیدار سینغور، کمال چابک دستی سے اس ملک پر مسلط کر دیا۔ موصوف خاندانی لحاظ سے مسلمان تھے مگر فرانسیسی تہذیب و ثقافت کے دل دادہ، فرنچ زبان کے شاعر اور آزاد ملک کی حکمرانی کے باوجود اس بات کے خواہش مند کہ انھیں فرانسیسی شہریت مل جائے۔ انھیں اس میں کامیابی نہ ہوسکی۔ ہاں، فرانس کی سرپرستی میں اس ملک پر ایک جماعتی نظام کے تحت اس نے ۲۰سال حکمرانی کی۔ اس عرصے میں اس نے جو قانون، جب چاہا اور جیسے چاہا بنایا اور پھر جب چاہا اسے تبدیل کر دیا۔ وہ سیاہ و سفید کا مالک تھا۔ سیکولرازم اور سوشلزم کا دل دادہ صدر سینغور ہر روز معاشی پالیسیاں بدلتا تھا۔ ملک کی معیشت تباہ ہو رہی تھی۔   اس دوران میں اس نے ایک مفید اور انقلابی کام بھی کر دکھایا۔ ۱۹۷۳ء میں اس نے دیگر چھے پڑوسی ممالک کے ساتھ مل کر ’مغربی افریقی معاشی کمیونٹی‘ کی بنیاد رکھی جس سے ان سب کو کم و بیش تجارتی فوائد حاصل ہوئے۔ سینیگال اقوام متحدہ ،او آئی سی اور افریقن یونین کا ممبر ہے۔

سینیگالی عوام بھی اپنے صدر سے تنگ آچکے تھے۔ عوامی پریشانی نے ابھی کوئی احتجاجی رنگ یا انقلابی لہر کا روپ نہیں اختیار کیا تھا کہ اپنے خلاف عوامی نفرت کا احساس کرتے ہوئے صدر سینغور نے اقتدار سے استعفا دے دیا۔ تیسری دنیا کے ممالک اور وہ بھی پس ماندہ افریقہ میں یہ مثال یکتا ہے۔ دراصل سینغور کے اقتدار سے ہاتھ اٹھانے کی وجہ اس کی معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں رونما ہونے والی اقتصادی ابتری اور عوام الناس کی شدید پریشانی اور غم و غصہ تھا۔ اس نے یہ شاطرانہ چال بھی چلی کہ اپنے نائب عبدہٗ ضیوف کو اقتدار سونپ دیا۔ ضیوف نے کسی حد تک عوام کے لیے سیاسی آزادی کا راستہ ہموار کیا مگر ہنوز ملکی سیاست یک جماعتی سیاسی پارٹی کے گرد ہی گھومتی رہی۔ نئے صدر نے معاشی صورتِ حال کو سنبھالا دینے کے لیے اپنے پیش رو کی قومیائی ہوئی بیش تر کمپنیوں اور اداروں کو پرائیویٹ سیکٹر میں منتقل کر دیا۔ ملک کے اندر خام لوہا اور فاسفیٹ کی اچھی خاصی مقدار موجود ہے، اسے ترقی دینے کی کوشش بھی کی گئی۔ کچھ عرصے کے بعد ضیوف نے کثیرالجماعتی سیاست کی اجازت دی۔ حکومت کے مخالفین نے اپنی سیاسی جماعت بنالی جس کے بعد کئی نئی جماعتیں بھی وجود میں آنے لگیں۔

ضیوف کے ۲۰سالہ دورِا قتدار کے بعد مارچ ۲۰۰۰ء میں صدارتی الیکشن ہوئے تو اپوزیشن کے نمایندے عبد اللہ واد نے ۶۰ فی صد ووٹ حاصل کرکے صدارتی الیکشن جیت لیا۔ ۲۰سال صدارتی منصب پر فائز رہنے کے بعد اپنی عبرت ناک شکست کو تسلیم کرتے ہوئے ضیوف نے بڑی خوش اسلوبی سے اقتدار نو منتخب صدر کے حوالے کر دیا۔ اب ملک کے اندر سیاسی آزاد یاں بھی تھیں اور مختلف پارٹیاں اپنے اپنے پروگرام کے تحت اپنے منشور بھی پیش کر رہی تھیں۔ عبد اللہ واد اگرچہ انتخاب کے ذریعے برسر اقتدار آیا مگر وہ اپنے اقتدار کو دوام دینے کے جنون میں مبتلا ہوگیا۔ اس نے جو اصلاحات کیں، اس کے نتیجے میں ملک بھر میں اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ ان اصلاحات میں سے ایک یہ تھی کہ عورتوں کو ووٹ کا حق دیا گیا نیز انھیں جایداد اور وراثت کا حق بھی قانون میں دے دیا گیا۔ اس عرصے میں عبد اللہ واد نے اپوزیشن کے دبائو پر دستور میں ایک ترمیم کی، جس کے تحت کوئی بھی صدر دو میقات سے زیادہ انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتا۔

عبد اللہ واد ۲۰۰۱ء میں منتخب ہوا تھا، پھر ۲۰۰۷ء میں، اور اب ۲۰۱۲ء کے انتخابات کے لیے دوبارہ اُمیدوار بن گیا ہے۔ اپوزیشن نے اس پر شدید احتجاج کیا ہے۔ دستور میں ترمیم کے بعد دستور کی دفعہ ۲۷ اور ۱۰۴ واضح طور پر کسی بھی منتخب صدر کے لیے دو سے زیادہ مرتبہ صدارتی انتخاب لڑنا ممنوع قرار دیتی ہیں۔ عبد اللہ واد نے یہ مکرو حیلہ اختیار کیا ہے کہ اس کا پہلا انتخاب دستوری ترمیم سے قبل ہوگیا تھا، اس لیے اسے اس مرتبہ بھی انتخاب میں حصہ لینے پر کوئی دستوری قدغن نہیں ہے۔ حزبِ مخالف کی تمام پارٹیاں صدر کے خلاف میدان میں نکل آئی ہیں۔ دارالحکومت ڈاکار اور دیگر بڑے شہروں میں بڑے بڑے مظاہرے ہورہے ہیں اور کئی جگہ سرکاری عمارتوں کو توڑ پھوڑ کے ذریعے نقصان بھی پہنچایا گیا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ عرب دنیا میں اٹھنے والی تحریکوں کے اثرات سینیگال میں بھی پہنچ گئے ہیں۔ حزبِ اختلاف کی ’’سوشلسٹ پارٹی آف سینیگال‘‘ کے صدارتی امیدوار عثمان تنور دیانگ نے ایک عوامی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عبد اللہ واد صدارت پر غاصبانہ اور غیر دستوری قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ دستور کی خلاف ورزی کرکے اس نے خود کو مجرم ثابت کر دیا ہے۔ اب عوامی غیظ و غضب سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ وہ دستور کی پابندی کرے۔

اس دوران میں عبد اللہ واد نے دستوری مجلس کے پانچ ارکان سے تصدیق کروالی ہے کہ اس کا یہ الیکشن تیسرا نہیں، دوسرا شمار ہوگا۔ اپوزیشن صدارتی امیدوار نے کہا کہ یہ ہزاروں کا مجمع جو فیصلہ دے رہا ہے، وہ درست ہے یا پانچ افراد کا فیصلہ درست تسلیم کیا جائے۔ اس موقع پر مجمع عام میں صدر عبد اللہ واد کے خلاف زبردست نعرے بازی کی گئی۔ ایک دوسرے صدارتی امیدوار  ابراہیم فال نے کہا: ’’صدر واد کے اس خود غرضانہ موقف کے نتیجے میں پورا ملک مستقل طور پر تشدد اور بدامنی کا شکار ہوجائے گا۔ اگر صدر نے اپنی حکومتی مشینری کے ذریعے پرتشدد راستہ اختیار کیا تو عوام اس سے زیادہ قوت کے ساتھ اس کا جواب دیں گے‘‘۔ سیاسی پارٹیوں کے علاوہ سول سوسائٹی کے تمام طبقے بھی صدر کی راے سے اختلاف کر رہے ہیں۔ ایک نوجوان سینیگالی آرٹسٹ یوسف اندور نے کہا کہ سینیگال کا ہر شخص آج سڑکوں پر نکل آیا ہے اور لوگوں کے چہروں سے واضح طور پر پڑھا جاسکتا ہے کہ وہ موجودہ صدر کی رخصتی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ ایک معروف سیاسی تجزیہ نگار اور ماہرِ امور سینیگال مختار ولد سیداتی نے کہا: ’’سینیگال میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے وہی جذبات پروان چڑھ رہے ہیں جو عالم عرب میں دیکھے گئے۔ گذشتہ کچھ عرصے سے عرب میڈیا بہت مقبول ہو رہا ہے۔ یہ بات ہر گز بعید نہیں کہ عرب دنیا میں رونما ہونے والا انقلاب ان تمام افریقی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لے جو عربی ثقافت سے متاثر ہیں اور اس لحاظ سے سینیگال بہت نمایاں ہے ‘‘۔