۱۷مارچ ۲۰۱۲ء کو صدر آصف علی زرداری صاحب نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا اور پانچویں بار تسلسل کے ساتھ خطاب کو ایک تاریخی کارنامہ قرار دیا۔ تاریخ کا فیصلہ تو ان شاء اللہ ضرور آئے گا اور تاریخ کا قاضی ہمیشہ بڑا بے لاگ فیصلہ دیتا ہے، لیکن جس طرح ان چاربرسوں میں صدرزرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے عوام کے عطا کردہ اس تاریخی موقعے کو نہ صرف ضائع کیا، بلکہ ملک کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے، اس نے ۶۵سالہ آزادی کے ان چار برسوں کو پاکستان کی تاریخ کا تاریک ترین دور بنا دیا ہے۔ یہ تقریر قوم کے ساتھ ایک سنگین مذاق اور اپنے اور اپنی قوم کو دھوکا دینے کی بڑی افسوس ناک کوشش ہے۔ بلاشبہہ جناب آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی نے اپنے اقتدار کو بچانے اور طول دینے کے لیے سیاسی چالاکیوں اور نمایشی اقدامات (gimmicks)کی فراوانی کے باب میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں، لیکن ہمیں افسوس اور دُکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بظاہر اس کھیل میں پیپلزپارٹی کی یہ قیادت تو کامیاب رہی ہے لیکن پاکستان اور پاکستانی قوم ہار گئی ہے۔ ملکی زندگی کے ہرشعبے میں بگاڑ اور تباہی کے آثار روزافزوں ہیں لیکن اس قیادت کا حال یہ ہے کہ ع
کاررواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
صدرصاحب کی تقریر کو بار بار پڑھ جایئے لیکن جن کامیابیوں اور فتوحات کا وہ ذکر فرما رہے ہیں زمین پر ان کا کوئی نشان نظر نہیں آتا۔ نہ معلوم صدر صاحب کس دنیا کی باتیں کر رہے ہیں اور کسے یقین دلا رہے ہیں کہ ’’سب اچھا ہے‘‘۔
اصولی طور پر صدر مملکت کے سالانہ دستوری خطاب کا مرکزی نکتہ حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کا منصفانہ جائز ہوتا ہے، جس میں کامیابیوں اور ناکامیوں اور کوتاہیوں کی بے لاگ نشان دہی کی جاتی ہے اور آیندہ سال کے لیے حکومت کے منصوبوں، نئی پالیسیوں اور خصوصیت سے قانون سازی کے لیے ایک مکمل پروگرام دیا جاتا ہے۔ لیکن زرداری صاحب کی یہ پانچویں تقریر کسی اعتبار سے بھی صدرمملکت کی تقریر نہ تھی___ بس زیادہ سے زیادہ اسے پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین کی تقریر کہا جاسکتا ہے۔ اس سال کی تقریر میں ایک نئی بات یہ تھی کہ صدرصاحب نے وزیراعظم صاحب کی تعریف و توصیف کی اور ان کی سمجھ داری اور جرأت کو خراجِ تحسین پیش کیا جس کا کوئی تعلق وزیراعظم صاحب کی کارکردگی سے نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ این آر او کیس کے سلسلے میں زرداری صاحب کو قانون کی گرفت سے بچانے کے لیے انھوں نے عدالت ِ عالیہ سے محاذآرائی کا جو ڈراما رچایا ہے اور ’شہادت‘ اور کسی متوقع شش ماہی جیل یاترا کے بارے میں جو گوہرافشانیاں وہ فرما رہے ہیں، ان کا صلہ دینے کے لیے زرداری صاحب نے وزیراعظم صاحب پر تعریف و توصیف کے ڈونگرے برسانے کا کام انجام دیا ہے۔
زرداری صاحب نے خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کے بارے میں اس تقریر میں کوئی نئی بات نہیں کہی۔ امریکا سے تعلقات جس نازک دور میں ہیں، اس کی بھی کوئی جھلک اس تقریر میں نہیں ملتی۔ افغانستان میں جس طرح امریکا بازی ہارگیا ہے اور پاکستان کو جس طرح وہ نشانہ بنا رہا ہے اس کی مذمت کے لیے، پھر ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ، اور ۲مئی اور ۲۶نومبر کے سلالہ کے واقعات___ ان سب پر کچھ کہنے کے لیے ان کے پاس ایک جملہ بھی نہیں ہے۔کشمیر کے مسئلے کو ٹالنے کے لیے ایک جملۂ معترضہ میں اس کا بے جاسا ذکر کیا ہے۔ ڈرون حملوں پر مذمت کا ایک لفظ بھی ارشاد فرمانے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اس کے برعکس اپنے کارناموں میں ان باتوں کا اعادہ فرماتے ہیں جو ۲۰۰۹ء اور ۲۰۱۰ء میں بھی بیان کرچکے ہیں، یعنی این ایف سی اوارڈ (۲۰۰۹ئ) اور اٹھارھویں ترمیم (اپریل ۲۰۱۰ئ)۔ بلوچستان کے سنگین مسئلے کے بارے میں اُسی معافی کی درخواست کا اعادہ کردیا ہے جو تین سال پہلے کرچکے تھے اور اس کے بعد نہ صرف مسئلہ اور بھی سنگین ہوگیا ہے، بلکہ لاپتا افراد کی مسخ شدہ لاشوں کے تحفوں نے مسئلے کے حل کو اور بھی مشکل بنا دیا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے اصل قاتلوں کے سلسلے میں بھی ان کی تقریر خاموش ہے۔
اس وقت ملک کا اصل مسئلہ ملک کی آزادی، حاکمیت، عزت و وقار اور نظریاتی شناخت کی حفاظت کا ہے لیکن صدر صاحب کی تقریر میں اس کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی۔ ملک میں لاقانونیت، غربت، بے روزگاری، مہنگائی کا جو طوفان ہے اور توانائی کے بحران نے جس طرح صنعت کے ۶۰،۷۰ فی صد کو مفلوج کردیا ہے، اس کا کوئی اِدراک صدرمملکت کو نہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ صدرصاحب اور عوام کے درمیان خلیج اتنی بڑھ گئی ہے کہ انھیں عوام کے مسائل اور مصائب کا کوئی احساس ہی نہیں، اور ان کی نگاہیں اشرافیہ اور مفاد پرست طبقات کی خوش حالی اور شاہ خرچیوںکی چکاچوند سے اتنی خیرہ ہیں کہ ان کو عوام کی زبوں حالی اور کس مپرسی کی کوئی جھلک بھی نظر نہیں آتی۔ وہ معاشی ترقی اور عوام کی خوش حالی کا ایسا نقشہ کھینچ رہے ہیں اور سرکار کی پالیسیوں کی ایسی حسین تصویرکشی کر رہے ہیں کہ انسان یہ سوچنے لگتا ہے کہ کیا وہ اور عوام ایک ہی پاکستان میں رہتے ہیں؟ یونیسیف کے تازہ ترین سروے کے مطابق آج پاکستان کی آبادی کا ۵۸ فی صد کم غذائیت کا شکار ہے۔ گذشتہ چار برس میں ۲کروڑ۸۰لاکھ افراد مزید غربت کی لکیر سے نیچے گرچکے ہیں۔ اسی طرح شدید غربت کے شکار افراد کی تعداد ۷کروڑ ۴۰لاکھ ہوگئی ہے لیکن صدرصاحب کا ارشاد ہے کہ: ’’حکومت کی معاشی پالیسیوں کا صرف ایک ہدف تھا: عام آدمی تک فوائد پہنچنے کو یقینی بنانا‘‘۔
صدرصاحب نے معاشی حالات کے بارے میں جو اعداد و شمار دیے ہیں وہ اتنے گمراہ کن ہیں کہ ان کی دیدہ دلیری پر تعجب ہوتا ہے۔ ان کا ارشاد ہے کہ افراطِ زر اور مہنگائی کو ۲۵ فی صد سے کم کرکے ۱۲ فی صد پر لے آیا گیا ہے۔ گویا اسے آدھا کردیا گیا ہے لیکن حقائق کیا ہیں؟ فروری ۲۰۰۸ء میں جب پی پی پی اقتدار میں آئی ہے مہنگائی کی شرح۱۲ فی صد تھی جو ان کے دور کے پہلے چھے مہینوں میں بڑھ کر ۲۵ فی صد ہوگئی۔ ۲۰۱۱ء کے بجٹ میں ہدف ۱۰ فی صد سے کم کا رکھا گیا تھا، یعنی زیادہ سے زیادہ ۹ فی صد، لیکن اسٹیٹ بنک کی ۲۰۱۱ء کی سالانہ رپورٹ کی رُو سے سالِ رواں میں افراطِ زر ۵ئ۱۲ فی صد ہوگا۔ اور اگر ان چار برسوں میں واقع ہونے والی مجموعی مہنگائی کو لیا جائے تو وہ ۱۰ فی صد سے زیادہ ہے۔ اسی طرح ان کا دعویٰ ہے کہ ملک کی برآمدات ۲۵ ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس اضافے کی وجہ برآمدات میں اضافہ نہیں، عالمی منڈی میں کپاس کی قیمت میں اضافہ ہے جو ۹۸ سینٹ فی پونڈ سے بڑھ کر دو ڈالر اور ۴۰ سینٹ ہوگئی تھی اور جس کی وجہ سے برآمدات میں ۵ئ۳ ارب ڈالر کا اضافہ ہوگیا تھا۔ اب قیمتیں پھر گر گئی ہیں اور گذشتہ تین ماہ میں برآمدات میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ اسی طرح مبادلۂ خارجہ کے ذخائر کا دعویٰ بھی ایک مغالطے پر مبنی ہے۔ ۱۸ارب ڈالر کا جو دعویٰ کیا ہے وہ بھی ایک دھوکا ہے۔ یہ صورت حال جون ۲۰۱۱ء کی ہے۔ مارچ ۲۰۱۲ء میں جب صدرصاحب خطاب فرما رہے تھے یہ ذخائر صرف ۱۶ارب ڈالر ہیں اور ان میں بھی ساڑھے سات ارب ڈالر آئی ایم ایف سے حاصل شدہ قرض ہے جس کی ادایگی اس سہ ماہی سے شروع ہوگئی ہے۔
صدر صاحب نے اس کا کوئی ذکر نہیں کیا کہ جب وہ برسرِاقتدار آئے ہیں ملک پر بیرونی قرضے کا بار ۴۰ ارب ڈالر تھا جو اب بڑھ کر ۶۱ ارب ڈالر ہوگیا ہے، یعنی ۲۱ارب ڈالر کا اضافہ ان چار برسوں میں ہوا ہے۔ اگر ملک کے اندرونی قرضوں کو لیا جائے تو ان میں ۱۰۰ فی صد سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ۲۰۰۷ء میں بیرونی اور اندرونی قرضوں کا حجم ۴ہزار۸سو ارب روپے تھا جو ۲۰۱۱ء میں بڑھ کر ۱۰ہزار ۴ سو ارب روپے ہوگیا ہے اور اگر سالِ رواں کے نئے قرضوں کو بھی اس میں شامل کرلیا جائے تو قرض کا مجموعی بوجھ ۱۲ہزار ارب روپے کو چھو رہا ہے۔ یہ ہے وہ خطرناک معاشی دلدل جس میں اس قیادت نے ملک کو پھنسا دیا ہے۔
صدرصاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے دور میں بجلی کی پیداوار میں ۳۳۰۰ میگاواٹ کا اضافہ ہوا۔ یہ دعویٰ بھی صریح مغالطے پر مبنی ہے۔ سوال یہ ہے کہ فی الحقیقت اتنا اضافہ ہواہے تو پھر بجلی کی لوڈشیڈنگ کیوں ہورہی ہے؟ بجلی کی پیداواری صلاحیت تو کسی وقت بھی کم نہیں تھی۔ ملک ۱۹ہزار میگاواٹ پیدا کرسکتا ہے مگر عملاً پیداوار ۱۰ سے ۱۲ہزار میگاواٹ کے درمیان ہورہی ہے، جو کچھ مواقع پر ۸ اور ۹ہزار میگاواٹ تک گرچکی ہے۔ اس کی اصل وجہ بدانتظامی اور کرپشن ہے۔ گردشی قرض بھی اس کی ایک وجہ ہے جسے چاربرس میں بھی ختم نہیں کیا جاسکا ہے، اور اس سال بھی یہ ۳۰۰؍ارب روپے سے متجاوز ہے۔
ایک اور بڑا مسئلہ حکومت کی شاہ خرچیوں اور مصارف کا آمدن سے کہیں زیادہ ہونا ہے، جس کے نتیجے میں مالی خسارہ بڑھ رہا ہے جس کے لیے قرضے لیے جارہے ہیں اور نوٹ چھاپے جارہے ہیں۔ اب صرف سود کی مد میں سالانہ ایک ہزار ارب روپے ادا کرنے پر نوبت آگئی ہے جو دفاع اور ترقیاتی بجٹ دونوں کے مجموعے سے بھی زیادہ ہے۔
یہ ساری چیزیں نہ صدرصاحب کو نظرآرہی ہیں اور نہ ان کی تقریر میں ان مسائل اور چیلنجوں کے حل کے بارے میں کوئی ایک لفظ بھی پایا جاتا ہے۔ اس تقریر میں حقائق سے اغماض اور جھوٹے دعوئوں اور خوش فہمیوں کی بہتات کے سوا کچھ نہیں۔ جب ملک کی قیادت حقائق سے آنکھیں بند کرلے اور خیالی دنیا میں مگن ہو تو اصلاحِ احوال کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ ملک کے حالات کو سنبھالنے کا اب اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نظر نہیں آتا کہ جلد از جلد نئے، منصفانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد کیا جائے، تاکہ قوم دیانت دار اور باصلاحیت قیادت کو زمامِ کار سونپ سکے جو پوری قوم کو اعتماد میں لے کر اور ان کے دُکھ درد کے پورے احساس کے ساتھ ہی نہیں، بلکہ ان کی مشکلات کو اپنی مشکلات بناکر زندگی کے ہر شعبے میں اصلاح اور تعمیرِنو کا کام انجام دے۔ پاکستان کے پاس وسائل کی کمی نہیں، کمی دیانت دار اور باصلاحیت قیادت کی ہے، جو اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر ملک اور قوم کے مفاد میں کام کرے، جو اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر قوم کو مشکلات سے نکالے اور جو سیاست کو عبادت کے جذبے سے انجام دے___ عوام میں سے ہو، عوام کے دکھ درد میں شریک ہو، عوام کے سامنے جواب دہ ہو، اوردستور ، قانون اور اخلاقی اقدار کے فریم ورک میں اچھی حکمرانی کے ذریعے، پاکستان کی اس کی اس منزل کی طرف پیش قدمی یقینی بنائے جس کے لیے اقبال کے وژن اور قائداعظم کی قیادت میں برعظیم کے مسلمانوں نے جدوجہد کی تھی اور جسے تین لفظوں میں اسلامی، جمہوری اور فلاحی ریاست اور معاشرہ کہا جاسکتا ہے۔