اپریل ۲۰۱۲

فہرست مضامین

پارلیمنٹ اور پاکستان کو درپیش چیلنج

پروفیسر خورشید احمد | اپریل ۲۰۱۲ | اشارات

Responsive image Responsive image

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ، الحمد للّٰہ رب العالمین۔ والصلوۃ والسلام علٰی رسولہ الکریم وعلی آلہ واصحابہ اجمعین۔

جناب چیئرمین! میرے لیے آج کا دن غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ اس معزز ایوان میں ۱۲ مارچ ۱۹۸۵ء کو میں نے قدم رکھا اور چیئرمین صاحب کے انتخاب کے بعد پہلی تقریر میں نے کی اور آج میں الوداعی خطاب کر رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے، جماعت اسلامی کی تائید اور آپ حضرات کے تعاون سے میں نے اس ایوان میں ۲۱ سال گزارے ۔ یہ دور ایسا ہے کہ جس پر میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے الفاظ نہیں پاتا کیونکہ یہ میری زندگی کے بڑے فیصلہ کن سال رہے ہیں۔ وسیم سجاد صاحب کے ساتھ مجھے بھی یہ سعادت حاصل ہے کہ ہم اس ایوان کے سب سے زیادہ لمبی مدت تک خدمت انجام دینے والے رکن ہیں۔ اس کی یادیں ہمیشہ رہیں گی اور میں ہمیشہ اس ایوان کے مضبوط تر، مؤثر ہونے اور پاکستان کی تعمیر میں ایک کلیدی کردار ادا کرنے کے لیے دعا گو رہوں گا۔

جنا ب والا! میں اپنے فرض میں کوتاہی کروں گا اگر سب سے پہلے آپ کا شکریہ ادا نہ کروں ۔ ہر چیئر مین نے اپنے اپنے اندازمیں اس ایوان کو چلانے کی کوشش کی ہے لیکن میری نگاہ میں آپ کا ایک قابل قدر کارنامہ یہ ہے کہ ایک طرف آپ نے لیاقت کے ساتھ دستور، قانون اور ضوابط کی پابندی کا اہتمام کیاہے، تو دوسری طرف (جو سب سے مشکل کام تھا) ایک سیاسی پارٹی سے وابستگی کے باوجود آپ نے اس منصب کے تقدس کا پاس کیا اور اس کے کام کو چلانے میں آپ نے توازن، اعتدال ، افہام وتفہیم اور ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلنے کا مظاہرہ کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ نے یہ اچھی مثال قائم کی ہے۔ میں آنے والے چیئرمین صاحب سے بھی بڑے ادب سے یہ عرض کروں گا کہ وہ اس روایت کو قائم رکھیں۔ یہ جمہوریت کی جان ہے اور اس ایوان کی عزت، تقدس اور حفاظت کے لیے بے حد ضروری ہے۔ میں کھلے دل سے آپ کو ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں اور آپ کے لیے اپنی نیک دعائیں پیش کرتا ہوں۔ اس موقعے پر ڈپٹی چیئرمین جناب جان جمالی صاحب کی خدمات کا اعتراف بھی ضروری ہے۔ انھوں نے آپ کی عدم موجودگی میں ایوان کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ اور شگفتہ اندا ز میں چلایا اور تمام معاملات کو انجام دینے میں مثبت کردار ادا کیا۔

سینیٹ کا عملہ بھی ہمارے شکریے اور مبارک باد کا مستحق ہے، خصوصیت سے راجا محمدامین صاحب اور ہمارے سیکرٹری افتخار اللہ بابر صاحب، ان کے معاونین محبوب صاحب، انور صاحب اور وہ دوسرے تمام افراد جو اس ایوان کو چلانے میں اپنا اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ خاص طور پر میں ان افراد کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو سٹیج پر تو نہیں بیٹھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی خدمات بڑی گراں قدرہیں، حالانکہ وہ خود گمنامی میں ہیں مگر ان کی وجہ سے ہم سب اپنا اپنا کام مؤ ثر اندا ز میں  ادا کرسکے ہیں۔ اس سلسلے میں خصوصیت سے اخباری رپورٹرز حضرات کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنھوں نے ہماری تقاریر کو محفوظ کیا ہے۔ انھوں نے اچھی کارکردگی کا مظاہر ہ کیا ہے گو، ابھی مزید بہتری کی گنجایش اور ضرورت ہے لیکن بہر حال میں ان کی حسن کارکردگی کا اعتراف کرتا ہوں۔  اسی طرح میں سینیٹ کے تمام نائب قاصدوں اور محافظ حضرات کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔  نیز پریس، الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا سے متعلق تمام افراد کو  ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں جنھوں نے ہماری بات کو قوم تک پہنچانے میں نمایاں کردار اد اکیا۔

  • استحکامِ سینیٹ کے  لیے اقدامات: جناب والا! مجھے اجازت دیں کہ میں سب سے پہلے خاص طور پر ان چیزوں کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرائوں جنھیں ان دودہائیوں میں  اس سینیٹ کا اہم کارنامہ کہا جاسکتا ہے۔

 ___ اس سلسلے کی اہم ترین چیز سینیٹ قواعد کی از سر نو تدوین اور ترتیب ہے۔ یہ کام  ملک کی آزادی کے فوراً بعدہونا چاہیے تھا مگر کسی نے اس کی فکر نہ کی۔ یہ سینیٹ تھا جس نے میری تحریک پر اس کام کا آغاز کیا اور ۱۹۸۸ء میں ایسے قواعد و ضوابط مرتب اور نافذ کیے جو اس ایوان کی کارکردگی کو دستور کے تقاضوں کے مطابق مؤثر انداز میں انجام دینے میں ممدو معاون ہوں۔

 ___  دوسرا بڑا اہم کام ملک کی تاریخ میں پہلی بارپارلیمنٹ کے ایوانِ بالا میں شعبۂ تحقیق (Research Departmnet)قائم کرنے سے متعلق ہے۔ الحمدللہ اس شعبے کے قیام کی تجویز بھی میں نے دی تھی اور اس کے قیام کے بعد، اس کی نگرانی میں بھی چیئرمین سینیٹ اور دوسرے رفقاے کار کے ساتھ اپنا کردار ادا کرتا رہا۔ سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی نے بھی تقریباً اسی انداز میں یہ دونوں کام کیے، یعنی قواعدِکار کی تشکیلِ نو اور تحقیقی شعبے کا قیام۔ گو،سینیٹ میں ابھی ارکان کے لیے تحقیق اور معاونت کی وہ سہولتیں فراہم نہیں کی جا رہیںجو ان کا حق ہے لیکن اس سمت میں آغاز کار ہوگیا ہے۔مجھے خوشی ہے سینیٹ میں قومی اسمبلی کے مقابلے میں ارکان کی تعدادایک تہائی سے بھی  کم ہے لیکن سینیٹ کے شعبۂ تحقیق میں اس وقت ۱۱؍افراد کام کر رہے ہیں، جب کہ قومی اسمبلی میں یہ تعداد صرف نو ہے۔

 ___  اسی طرح میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ سینیٹ نے اپنے گریڈ ایک سے ۱۶ تک کے ملازمین کی ضرورت کے وقت مدد کے لیے اسٹاف ویلفیئر فنڈ قائم کیا جو ایک نیا تصور ہے۔میں   اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس کے آغاز کی تجویز و تحریک کی سعادت بھی مجھے حاصل ہوئی۔  اس کے نتیجے کے طور پر گریڈ ایک سے ۱۶ تک کے ملازمین میں سے ایک بڑی تعداد کو ہر سال ۳۰،۴۰ لاکھ روپے کی مدد مل رہی ہے۔ میں اس وقت خاص طور پر سینیٹ کے آنے والے اراکین سے درخواست کروں گا کہ اس ادارے کو مضبوط اورمزید مستحکم کریں اور اس فنڈ میں دل کھول کر حصہ لیں۔ یہ بڑی روشن روایت ہے جو ہم نے قائم کی ہے۔ اس کو جاری رکھنا ضروری ہے۔

 ___  اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی کہوں گا کہ ہمیں یہ بات بھی اپنے سامنے رکھنی چاہیے کہ سینیٹ نے ان ۲۰ سالوں میں خود اس ادارے کے وقار اور کارکردگی کو بڑھانے میں مفید خدمات انجام دی ہیں۔ بلاشبہہ یہ کام خواہ سُست رفتاری ہی سے ہواہو، لیکن اس سلسلے میں ہمارے قدم آگے ہی بڑھے ہیں۔ جب ۱۹۷۳ء میں سینیٹ قائم ہوا تو اس کے ارکان کی تعداد صرف ۶۳تھی۔ اس کے بعد اس میں ٹیکنو کریٹس کا اضافہ ہوا، خواتین کا اضافہ ہوا، غیر مسلموں کا اضافہ ہوا جس سے یہ تعداد بڑھی اور آج ہماری تعداد ۱۰۴ ہے۔ بات صرف تعداد کی نہیں، اس سے بھی اہم چیز      اس ادارے کو فیڈریشن کے ایوان بالا ہونے کی حیثیت سے جو اختیارات حاصل ہونے چاہییں، ان کے حصول کے لیے بھی ہم نے برابر کوشش کی اور آج سینیٹ کئی اعتبار سے زیادہ بااختیار اور زیادہ متحرک ادارہ ہے۔

مثال کے طور پراگر آپ اختیارات کو دیکھیں تو جس وقت یہ قائم ہوا، اس وقت بالکل لولا لنگڑا سینیٹ تھا اور اس کے اختیارات نہ ہونے کے برابر تھے، لیکن آٹھویں ترمیم اور، اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے سے ہم نے بڑی منظم کوشش کی ہے کہ سینیٹ کے کردار کو زیادہ مؤثر بنایا جاسکے اور آہستہ آہستہ اس کے قدم آگے بڑھے ہیں، لیکن ابھی بہت سے مراحل طے کرنا باقی ہیں۔ اس لیے میں آج یہ بات کہنا چاہتا ہوں اور خاص طور پر جو ارکان اب اس ایوان میں شامل ہورہے ہیں، میں ان سے درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ ابھی سینیٹ کو وہ مقام نہیں ملا ہے جو ایک فیڈریشن کے پورے نظام کو خوش اسلوبی سے انجام دینے کے لیے ضروری ہے۔

 ___ اس سلسلے میں دو تین چیزیں بڑی ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ سینیٹ کو وہی پوزیشن حاصل ہونی چاہیے جو قومی اسمبلی کی ہے، اور یہ اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک سینیٹ کے ممبران کاانتخاب بالغ راے وہی کی بنیاد پر عوام کے بلاواسطہ ووٹوں سے نہ ہو ۔ میں نے جتنا بھی غور کیا، میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ بلاواسطہ انتخاب کے بغیر سینیٹ فیڈریشن کی حفاظت کا وہ کردار ادا نہیں کرسکتا جس کے بغیر فیڈریشن مکمل نہیں ہوتی۔ البتہ میں اس راے کا سختی سے قائل ہوں کہ یہ انتخاب متناسب نمایندگی کی بنیادوں پر ہونا چاہیے تاکہ تمام سیاسی قوتوں کواس ایوان میں  ان کی عوامی تائید کے تناسب سے نمایندگی مل سکے۔ یہی وہ وجہ ہے کہ جہاں ہم سینیٹ کے بلاواسطہ انتخاب کو ضروری سمجھتے ہیں، وہیں طریقہ انتخاب کے لیے بھی متناسب نمایندگی کے اصول پر اصرار کرتے ہیں تاکہ اس میں تمام نقطہ ہاے نظر اپنا اپنا مقام حاصل کر سکیں۔ یہ ایک نہایت اہم ضرورت ہے۔ اس کا پورا ہونا بہت ضروری ہے۔

اس موقعے پر میں یہ اعتراف بھی کرناچاہتا ہوں کہ موجودہ طریقۂ انتخاب میں روپے پیسے کا چلنا ، سیاسی جوڑ توڑ اور مقتدر اداروں اور افراد کے کردار سے جو تصویر سامنے آرہی ہے وہ اس ادارے کے دامن پر ایک بڑا ہی بدنما دھبا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس سلسلے میں بھاری اکثریت کا دامن پاک ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سینیٹ کے انتخاب میں کچھ مقامات پر یہ گندپھیلایا گیا ہے جس کی وجہ سے اس مقتدر ادارے پر لوگوں کے اعتماد کو بڑی ٹھیس لگی ہے۔ وجہ واضح ہے کہ اگر دیگ کے چند چاول بھی زہر آلودہوں تو اس سے سارا پکوان متاثرہوجاتا ہے۔ اس لیے ہمارا دستوری کردار مؤثر ہونا چاہیے اور ہماری اخلاقی پوزیشن بھی مستحکم اور بے داغ ہونی چاہیے۔مستقبل میں دونوں پہلو ئوں سے اصلاح فیڈریشن کو اور اس ملک کو مضبوط کرنے اور جمہوریت کو فروغ دینے کے لیے معاون ہوں گی۔

  • قانون سازی کے لیے اقدامات: اس کے ساتھ ساتھ میں یہ بات بھی کہنا چاہتا ہوں کہ گو، قانون سازی اس ایوان کی ایک اہم ذمہ داری ہے اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کو قانون سازی کے سلسلے میں ایک بڑا کلیدی کردار ادا کرناہوتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ تین مزید وظائف (functions)ہیں جن کا ذکر ضروری ہے اور یہ سب بھی قانون سازی سے کچھ کم اہم نہیں ہیں۔ ہم نے ان میں سے ہر ایک کے بارے میں کچھ خدمات انجام دینے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے ہمیں ان تمام امور کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے اور سینیٹ کی کارکردگی کا جب بھی آپ جائزہ لیں اس میں تمام وظائف کار کو سامنے رکھ کر ہی انصاف کیا جاسکتا ہے ۔

 ___ سینیٹ اور قومی اسمبلی عوام کے جذبات و احساسات کے اظہار کاایک ادارہ ہے۔  یہ قوم کی زبان ہے، اس لیے قرادادوں ، توجہ دلائو نوٹس اور وقت کے مسائل پر آواز اٹھانا ایک کار منصبی ہے۔ اس کے لیے ہم نے ضوابط کار میں بہت سی بنیادی تبدیلیاں کی ہیں اور اب قراردادوں کے علاوہ صفر گھنٹہ (Zero Hour) کااضافہ کیا ہے جو ایک مفیدتبدیلی ہے۔ اس طرح ارکان کو یہ موقع ملے گا کہ وہ ہر روز issues of the day(آج کے مسائل)کو اٹھا سکیں۔ میرے خیال میں یہ ایک اہم پیش رفت ہے اور عوام کے جذبات کے اظہار کے لیے بہت ضروری ہے۔، ساتھ ہی آپ کو معلوم ہے کہ تحریکِ التوا وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے عوام کی مشکلات ، ان کے مسائل کو  ایوان میں لایا جاسکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس پہلوسے سینیٹ نے بڑی اہم خدمات انجام    دی ہیں۔ اگر آپ تحریکِ التوا کی تعداد لے لیں تو آپ دیکھیں گے کہ اس اعتبار سے ہم نے کیا کردار ادا کیاہے۔اوسطاً ۱۸۰۰ سے ۲۰۰۰ تک التوا کی تحریکیں ہر سال آتی رہی ہیں اور مجھے اور    جماعت اسلامی کے دوسرے ارکان کو بھی سعادت حاصل رہی کہ ان میں تقریباً ۲۰فی صد، یعنی ۱۰۰سے زیادہ تحریکیں ہم نے پیش کی ہیں۔

___تیسری چیز پالیسی سازی میں کردار ہے۔ بلاشبہہ پالیسی بنانااور اس کی تنفیذ انتظامیہ کی ذمہ داری ہے لیکن صحیح پالیسی کی نشان دہی میں سینیٹ کا کردار بھی اہمیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دستور میں بھی پارلیمنٹ کے سامنے بنیادی پالیسیوں کو پیش کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سلسلے میں پارلیمنٹ نے اپنا کردارقرارِ واقعی ادا نہیں کیا ۔ یہ بات ریکارڈ پر لاتے ہوئے ہمیں دکھ ہوتا ہے کہ ریاستی پالیسی کے رہنما اصول کے بارے میںدستور جولازم کرتا ہے کہ ہر سال اس کی رپورٹ آئے، پہلے قومی اسمبلی اور اب دونوں ایوانوں میں ، لیکن یہ خانہ برسوںسے خالی رہا ہے اور کسی نے بھی اس کی فکر نہیں کی۔ سینیٹ نے اس مسئلے کو اُٹھایا ہے اور اس سال پہلی بار حکومت نے مجبور ہو کر نئے سال کی رپورٹ اس ایوان میں پیش کی ہے۔ پہلے یہ نہیں آیا کرتی تھی۔    جناب چیئرمین! اس سلسلے میں آپ کا بھی کردار ہے کہ ہمارے مسئلہ اٹھانے پر آپ نے اصرار کیا اور اب  وہ رپورٹیں آرہی ہیں۔ اس طرح سینیٹ پالیسی سازی میں بھی بڑا کردار ادا کرسکتا ہے۔

___ پارلیمنٹ کا چوتھا کردار میری نگاہ میں بہت ہی اہم ہے اور وہ انتظامیہ (executive) پر نگرانی (oversight)اور ان کی جواب دہی (accountability) ہے۔ یہ عمل ماضی میں بہت کمزور اور غیر مؤ ثر تھا۔ لیکن اس سینیٹ نے کمیٹی سسٹم کو مؤثر بنا کر انتظامیہ کے محاسبے کومضبوط کیاہے۔ جناب والا! کمیٹی سسٹم کے بارے میں آپ کو یاددلائوں گا کہ ہم نے سینیٹ کی کمیٹیوں کو اپنے صدر کو منتخب کرنے کا اختیار دیا، جب کہ ماضی میں متعلقہ وزیر صدر ہوتا تھا اور اس طرح احتساب ناممکن ہوگیا تھا۔ پھر کمیٹیوں کو از خود مسائل پر کارروائی کرنے کا اختیار دیا اور انھیں معلومات حاصل کرنے کے لیے با اختیار بنایا گیا ۔ یہ ایک تاریخی تبدیلی اور اضافہ (historic innovation) ہے، یعنی مجالسِ قائمہ سے آگے بڑھ کر Functional Committees (مجالسِ عمل درآمد)کا تصور بھی متعارف کیا۔ فنکشنل کمیٹی کا تصور یہ ہے کہ وہ مسائل کی بنیاد پر  قائم کی گئی ہیں، اور ان میںجن معاملات کے لیے کمیٹیاں قائم کیںان میں بنیادی حقوق کا مسئلہ  ،کم ترقی یافتہ علاقوں کے مسائل اور حکومت کے اعلانات اور وعدوں کے فالواَپ کے کاموں کو اہمیت دی۔ اس طرح انسانی حقوق، کم ترقی یافتہ علاقوں اور انتظامیہ کے احتساب اور عوامی مسائل پر توجہ کو مرکوز کرنے اور ضروری سفاشات مرتب کرنے کا کام شروع کیا۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان چاروں وظائف کو سامنے رکھ کر ہمیں سینیٹ کی کارکردگی اور اس کے کردار کے ارتقا کو دیکھنا چاہیے۔ میں آگے بڑھنے سے پہلے یہ بات کہنا چاہوں گا کہ جہاں اس پہلو سے سینیٹ نے میری نگاہ میں بڑا مثبت کردار ادا کیا ہے، وہیں چند مسائل ایسے ہیں جو میں اپنے اس الوداعی خطاب میں چاہتا ہوں کہ ریکارڈ پر بھی آجائیں اور آنے والے سینیٹ کے ارکان بھی اس کی فکر کر سکیں ۔

  • سینیٹ کے ایامِ کار میں اضافے کی ضرورت: پہلی چیز یہ ہے کہ جتنا وقت سینیٹ نے اپنے فرائض منصبی ادا کرنے میں دیا ہے، میری نگاہ میں وہ بہت ناکافی ہے۔ بلاشبہہ دستور کے مطابق ۹۰ ایامِ کارکوبڑھا کر۱۱۰دن کیاگیا ہے لیکن ان ایام میں جو کام کیا جا رہا ہے، وہ ناکافی ہے۔ ایک ادارے پلڈاٹ (PILDAT) (Pakistan Institute of Legislative Development and Transparency)  نے اس معاملے میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اجلاس ہمیشہ آدھے گھنٹے سے ایک گھنٹے تک تاخیر سے شروع ہوئے ہیں۔ ہم نے جو اصل وقت صرف کیا ہے، وہ اوسطاً تین گھنٹے یومیہ ہے، جب کہ بھارت کی راجیہ سبھامیں اوسطاً کارکردگی کا وقت چار گھنٹے سے زیادہ رہا ہے اور برطانیہ میں اس سے بھی زیادہ۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایوان کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے ہم یومیہ زیادہ وقت صرف کریں، حاضری بہتر ہو اور اجلاس بھی وقت پر شروع کیے جائیں۔

جناب والا! دوسری بات جس کا آپ نے بھی نوٹس لیا اور ہمیں بھی اس کو بار باراٹھانا پڑا  وہ وزرا حضرات کی عدم دل چسپی ہے۔ دستوری اعتبار سے پوری کابینہ بشمول وزیر اعظم سینیٹ کے سامنے جواب دہ ہیں۔ اس باب میں لا پروائی اور سہل انگاری کارویہ کسی طرح بھی قابل برداشت نہیں ہے۔ ہم نے آیندہ کے لیے اپنے قواعد میں یہ بھی ایک بہت اہم نیا اضافہ کیا ہے کہ وزیراعظم سینیٹ میں آئیں اور وقت دیں۔ PILDAT کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ۲۰۰۹ئ-۲۰۱۰ء میں وزیراعظم صاحب پورے سال میں صرف ۲۵منٹ کے لیے اس ایوانِ بالا میںتشریف لائے۔ ۲۰۱۰ئ-۲۰۱۱ء میں یہ ۲۵منٹ بھی کم ہو کر ۱۵منٹ رہ گئے ہیں۔ یہ شرمناک بات ہے۔میں یہ چاہتا ہوں کہ ہم اس بات کو اُٹھائیں کیونکہ ایسا کرنا بہت ضروری ہے۔ قانون سازی کے باب میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تین سال میں سینیٹ میں کل آٹھ قوانین پیش ہوئے ہیں اور کل ۴۹ قوانین ایسے ہیں جو یہاں سے منظور ہوئے ہیں۔جب میں اس کا بھارت کی راجیہ سبھا سے موازنہ کرتا ہوں تو راجیہ سبھا میں ان تین برسوں کے اندر ۱۳۲قوانین منظور کیے گئے ہیں۔ امریکا میں قانون سازی کی سالانہ اوسط ایک ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ہمار ے ہاں قانون سازی اب بھی بہت پیچھے ہے اور آرڈی ننس اب بھی جاری ہو رہے ہیں۔ گو، اس پر دستورکی۱۸ویں ترمیم کے ذریعے پابندیاں لگادی گئیں ہیں لیکن آیندہ سینیٹ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس میدان میں زیادہ فعال کردار ادا کرے۔

  • حکومتی کارکردگی اور احتساب: سوالات حکومت کی کارکردگی پر احتساب کا ایک مؤثر ترین ذریعہ ہیں۔ اس کے بارے میں پوزیشن یہ ہے کہ ہر سال اوسطاً تقریباً ۱۸۰۰سے ۲۰۰۰ سوالات ارکان کی طرف سے حکومت کو بھیجے گئے ہیں لیکن عملاً جو جوابات آئے وہ صرف ۳۵فی صد سوالوں کے ہیں،یعنی ۶۵فی صد سوال جواب سے محروم رہے۔ یہ ایوان کے استحقاق کی نفی ہے۔واضح رہے کہ جو سوالات سینیٹ نے وصول کیے ہیں ان میں سے تقریباً ۲۰ فی صد سینیٹ کی انتظامیہ نے قبول نہیں کیے اور ۸۰ فی صد قبول ہوئے، لیکن ان قبول شدہ سوالات میں سے بھی صرف ۳۵ فی صد کے جواب حکومت کی طرف سے آئے۔ یہ بہت ہی سنگین کوتاہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملے میں سینیٹ کو اپنے اختیارات کو مؤثر انداز میں استعمال کرنا چاہیے اور حکومت کو بھی آمادہ کرنا چاہیے کہ وہ بروقت جواب دے۔ نئے قواعد میں ہم نے اس سلسلے میں کچھ نئے اقدام اور ضوابط تجویز کیے ہیں لیکن اصل چیز حکومت کا تعاون اور ذمہ داری سے تمام سوالات کے جواب فراہم کرنے کا اہتمام ہے۔

اس کے بعد تحاریک استحقاق کا مسئلہ ہے۔ مجھے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ زمرہ ہے جس میں برابر اضافہ ہواہے، یعنی۲۰۰۸ئ-۲۰۰۹ء میں استحقاق کی تحریکوں کی تعداد ۲۵تھی۔ ۲۰۰۹ئ-۲۰۱۰ء میں یہ تعداد ۳۱ ہوگئی اور ۲۰۱۰ئ-۲۰۱۱ء تو معلوم ہوتا ہے کہ استحقاق کی تحریکوں کے لیے فصل بہار کا   درجہ رکھتا ہے۔ اس سال ۶۱تحریکات ایوان میں پیش ہوئیں لیکن ان میں سے بیش تر کا تعلق  چھوٹے چھوٹے ذاتی مسائل سے تھا۔ قومی اور اصولی معاملات پر بمشکل چار یا پانچ قراردادیں تھیں۔ اس معاملے پر بھی سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

تحریکِ التوا اور توجہ دلائو نوٹس کے بارے میںایک خاص پہلو کی طرف مَیں متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ ۲۰۰۹-۲۰۱۰ء میں ۹۳توجہ دلائو نوٹس سینیٹ نے وصول کیے لیکن ۹۳میں سے صرف آٹھ پر ایوان میں گفتگو ہوسکی۔۲۰۱۰ئ- ۲۰۱۱ء میں ۱۰۲توجہ دلائو نوٹس آئے لیکن صرف تین پر بحث ہوسکی۔ ایوان میں زیر بحث آنے والی تحاریک کے بارے میں ہماری یہ کارکردگی کوئی اچھی مثال پیش نہیں کررہی۔

تحریکات التوا کے بارے میں یہ عرض کروں گا کہ ۲۰۰۹-۲۰۱۰ء میں ۱۸۲ایسی تحریکیں ارکان کی طرف سے داخل ہوئیں لیکن ان میں سے صرف ۱۱؍ایوان میں بحث کے لیے منظور ہوسکیں اور ان ۱۱ میں سے بھی صرف تین پر بحث کی گئی ۔ یہی کیفیت تقریباً ہر سال رہی ہے جو نہایت تشویش ناک صورت حال کی غمازی کرتی ہے ۔

اس موقعے پر آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ اس وقت بھی جو ہمارا نامکمل ایجنڈا ہے اس میںصرف تحاریکِ التوا کے سلسلے کی ۱۷تحریکیںبحث کے لیے ایجنڈے میں ہونے کے باوجود ایوان میں بحث سے محروم ہیں۔ان پر آج تک کوئی بحث نہیں ہوئی۔ ان میں سے چھے ایسی ہیں  جن میں ، میں خود اور جماعت اسلامی کے میرے دوسرے ساتھی تجویز کنندہ ہیں۔ قواعد کے مطابق اب وہ ختم ہوجائیں گی لیکن میں چاہتا ہوں کہ اس موقعے پر آپ لوگوں کو یہ یاد دلائوں کہ یہ کام کرنے کے ہیں۔ سینیٹ فقط مجلسِ مباحثہ (debating society)نہیں ہے۔ ہمیں ان چاروں ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہے جو دستور اور جمہوری روایات کی روشنی میں ہمارے سپرد ہیں۔اس لیے زیرالتوا کام پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ملک کو درپیش چیلنج

اس کے بعد میں نہایت اختصار کے ساتھ بلکہ صرف مختصر نکات کی شکل میں ان امور کی نشان دہی کروں گا جو میری نگاہ میں اس وقت سینیٹ، پارلیمنٹ ، حکومت اورقوم کے سامنے سب سے اہم مسائل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنی بات اسی پر ختم کروں کہ ان مسائل کی طرف توجہ دینا اصل چیلنج ہے اور اس میں اگر ہم نے کوتاہی برتی تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔

  • ملکی سالمیت و خودمختاری: سب سے پہلا مسئلہ میری نگاہ میں ملک کی آزادی ، اس کی حاکمیت، اس کی خودمختاری اور اس کی عزت اور وقار کا تحفظ ہے۔ اس پر پچھلے ۱۲برسوں میں جو چرکے لگے ہیں، جو ہز یمتیں ہمیں اٹھانی پڑی ہیں، جس طرح ہماری آبادیوں پر ڈرون حملے ہوئے ہیںاور جس طرح ہمیں دنیا بھر میں بلیک میل کیا گیا ہے، دبائو ڈالا گیا ہے،   حتیٰ کہ ریمنڈڈیوس جیسا واقعہ بھی یہاں رُونما ہوا ہے، ۲مئی کا واقعہ بھی یہاں رونما ہوا ہے، ۲۶نومبر کا واقعہ بھی رونما ہوا ہے، ان حالات میں ہماری آزادی خطرے میں ہے۔ جو قوم اپنی آزادی کھودے وہ پھر زندہ رہنے کے لائق نہیں رہتی۔ اس لیے ہمارا سب سے پہلا مسئلہ آزادی کا تحفظ ہے۔ اس کے لیے جو قیمت بھی ادا کرنی پڑے وہ کم ہے۔ قومیں اگر اپنی آزادی کے لیے قیمت ادا نہ کریں تو وہ پھر محکوم اور غلام بن کر رہتی ہیں۔
  • نظریاتی تشخص کا تحفظ: دوسرا مسئلہ میری نگاہ میں ملک کی نظریاتی شناخت کی حفاظت اور پرورش کا ہے۔ ہمارا ملک ایک نظریاتی ملک ہے۔ ہم نے اس ملک کو قائم کرنے کے لیے بڑی جدوجہد کی ہے اور بڑی قربانیاں دی ہیں۔ مسلمانانِ ہندو پاک نے لاکھوں کی تعداد میں جانیں دی ہیں اور ایک ڈیڑھ کروڑ افراد نے ہجرت کی ہے، اور یہ سب اس لیے تھا کہ ہم اپنے دین، اپنے عقیدے اور اپنی تاریخ کی روشنی میں اپنی زندگی کو ترتیب دے سکیں۔ قائداعظمؒ نے ۱۰۰سے زیادہ مواقع پر ۱۹۳۹ء سے لے کر ۱۹۴۸ء تک اس کا نظریاتی اور دینی پہلو اُجاگر کیا ہے  جس کا سارا ریکارڈ موجود ہے۔ یہ نظریاتی پہلو قوم سے عہدو پیمان کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس موضوع کے بارے میں انھوں نے کبھی نہ کوئی سمجھوتا کیا اور نہ معذرت خواہا نہ رویہ اختیار کیا ۔ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے اور اس کو اسی حیثیت سے ہمیں آگے بڑھانا ہے لیکن آج ہمارا نظریاتی تشخص مجروح ہو رہا ہے۔ معذرت خواہانہ روش اختیار کی جارہی ہے۔ ایسی باتیں کہی جار ہی ہیں جن کو  دیکھ کر ، پڑھ کر انسان سرپیٹ لیتا ہے۔ میں ان لوگوں میں سے ہوں جنھوں نے تحریک پاکستان میں الحمدللہ حصہ لیا ہے اور ایک طالب علم کی حیثیت سے اس جدوجہد میں، مَیں نے اور میرے  اہلِ خاندان نے قربانیاں دی ہیں۔ آج جب میں ان چیزوں کو دیکھتا ہوں تو میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اس لیے میں آج کے اس خطاب میں پاکستان کی نظریاتی شناخت اور اس کے اصل مقصد کو جو ایک اسلامی، جمہوری اور فلاحی ریاست کا قیام ہے پوری شدت اور قوت سے آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ آزادی کا تحفظ اور نظریاتی شناخت کی حفاظت اور ترویج ہی ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
  • ھمہ گیر اخلاقی انحطاط: تیسری چیز جو میں کہنا چاہتا ہوں اور جس کا میں   بڑے دُکھ سے اظہار کر رہا ہوں اور جسے دوسرے سیاسی اور معاشی مسائل سے بھی پہلے اٹھا رہا ہوں وہ ملک و قوم کا ہمہ گیر اخلاقی انحطاط ہے۔ اخبار اٹھا کر دیکھیے کہ چھوٹے چھوٹے بچوں، بچیوں، عورتوں اور مجبور انسانوں کے ساتھ کس طرح ظلم کیا جا رہا ہے۔ وڈیروں، زمین داروں اور بااثر افراد کے پرائیویٹ جیل خانے موجود ہیں۔ سوسائٹی کو کس طرح تقسیم کردیا گیا ہے۔ معزز شہریوں کو لاپتا کیا جارہا ہے اور قانون اور معاشرے کا اجتماعی ضمیر بے حس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس ملک میں قوم کی اخلاقی حس مُردہ ہوجائے پھر وہ قوم اور اس کے افراد انسان کہے جانے کے لائق نہیں رہتے۔ اس لیے ہمیں اس اخلاقی مسئلے کو بڑی اہمیت دینا چاہیے۔ اس میں حکومت کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے، لیکن یہ محض حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے، ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے اور ہر فرد کی    ذمہ داری ہے۔ قرآن صاف الفاظ میں کہتا ہے کہ آخرت میں ہر فرد سے بحیثیت فرد احتساب اور جواب د ہی ہوگی۔ پھر اس میں میڈیا، تعلیمی نظام، والدین اور خاندان، معاشرے کے بزرگ ،مسجد اور منبر، ان سب کی ذمہ داری ہے۔

آزادی اور نظریاتی شناخت کے بعد ملک کی اخلاقی قوت کی حفاظت اور ترقی کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ اخلاقی حالت کو بہتر کرنا اور یہ دیکھنا کہ ہم کہاں تک خیر اور شر کے درمیان فرق کر رہے ہیں، یہ ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے۔ مجھے یہ کہنے دیجیے کہ مسلمان اور غیر مسلم میں یہ فرق نہیں ہے کہ ان کی شکل ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ وہی دو آنکھیں ، وہی دوکان ، وہی ایک ناک، وہی ایک زبان اور وہی دودو ہاتھ پائوں___ پھر فرق کیا ہے؟ فرق یہ ہے کہ مسلمان ایک اخلاقی معیار کو شعوری طور پر قبول کرتا ہے اور یہ عہد کرتا ہے کہ میں اپنی زندگی کا ہر لمحہ اپنے آخری سانس تک ان اخلاقی اقدار کی پاس داری کروں گا۔ اگر ہم ان اقدار کی پاس داری نہیں کر رہے ہیں تو ہم دنیا میں بھی ناکام ہوں گے اور آخرت میں بھی۔ جناب والا! یہی وجہ ہے کہ دوسرے مسائل کی طرف آگے بڑھنے سے پہلے میں آپ کو جس طرف متوجہ کروں گا، وہ ملک کی اخلاقی اصلاح اور تعمیر ہے۔

  • بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ: اس کے ساتھ چوتھی بات جو بہت ضروری ہے وہ بنیادی حقوق کا مسئلہ ہے۔ بنیادی حقوق جیسا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبے میں ذکر فرمایا ہے، ہمارے لیے سب سے اہم چیز ہے۔ بحیثیت مجموعی ہماری تاریخ میں خامیاں رہی ہیں، کوتاہیاں رہی ہیں لیکن مسلمان ہو یا غیر مسلم ، طاقت ور ہو یا کمزور، حقوق کی پاس داری ہماری امتیازی شان رہی ہے۔ آج جو صورت حال ہے وہ ناقابل برداشت ہے۔ ہر طرف لاقانونیت کا بازار گرم ہے۔ لاپتا افراد کا مسئلہ ہے۔ ہماری بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کس طرح دوسروں کے قبضے میں ہے اور ہم اسے وطن واپس نہیں لاسکتے۔ خود یہاں مسخ شدہ لاشیں آرہی ہیں۔ ہر روز یہ واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں کہ کسی کا بیٹا یا کسی کا بھائی اٹھالیا گیا ہے اور پھر عورتوں کو بھی اس ناپاک کھیل میں بخشا نہیں جا رہا ہے۔ جناب والا! انسانی حقوق کا مسئلہ بھی بہت اہم ہے، اس لیے میں اس مسئلے کو بھی آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
  • معیشت کی زبوں حالی: چوتھا نکتہ یہ ہے کہ معیشت کی جو صورت حال اس وقت ہے، یہ اتنی خراب کبھی نہیں ہوئی تھی۔ غربت بڑھی ہے، بے روزگاری بڑھی ہے اور چار سال کے اندرملک کے اندرونی اور بیرونی قرضوں میں ۱۰۰ فی صد سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ۲۰۰۸ء میں اگر کُل قرض ۴ ہزار ۸سو ارب روپے تھا تو وہ بڑھ کر اب ۲۰۱۲ء میں ۱۲ ہزار ارب کی حدوں کو      چھو رہاہے۔نتیجہ یہ ہے کہ اس ملک میں ہر فرد ہربوڑھا، جوان اور بچہ ۶۰ہزار روپے کا مقروض ہے۔Standard and Poor'sکی جو رپورٹ حال ہی میں آئی ہے اس کے مطابق پاکستان ایشیا کا سب سے مہنگا ملک ہے جس میں افراط زر اور مہنگائی اس پورے علاقے میں سب سے زیادہ ہے۔ آج بھی جو رپورٹ ایک بین الاقوامی ادارے کی آئی ہے، اس میں صاف الفاظ میں کہا گیا ہے کہ ہماری بین الاقوامی ساکھ ہر روز نیچے جا رہی ہے۔ جناب والا! اس کو سنجیدگی سے لیجیے اور اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کیجیے۔

اگلا مسئلہ کرپشن کا ہے جس کے بارے میں میرے دوسرے ساتھیوں نے بھی کہا ہے۔ میں اس کی تفصیل میں نہیں جا رہا ہوں لیکن یہ ایک سرطان کی طرح قومی معیشت کو کھارہی ہے۔ صرف گذشتہ چار برسوں میں ۸ہزار۶سو ارب کا نقصان اس کی وجہ سے ہوا ہے ۔ یہ ایک بڑا ہی سنگین مسئلہ ہے۔ پھر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری بقا کے لیے دو چیزوں کا اہتمام بہت ضروری ہے۔ ایک یہ کہ غذا صاف اور خالص میسر آئے، اور دوسرے توانائی کی ضروریات پوری ہوں۔ یہ دونوں اس وقت مفقودہیں۔اس کے لیے فوری طور پرمنصوبہ بندی اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔

  • بلوچستان کی سنگین صورت حال: ایک اور اہم ترین مسئلہ بلوچستان کا ہے۔ یہ صرف بلوچوں کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ میرا، آپ کا، پورے ملک کا اور ہر طبقے کا مسئلہ ہے۔ اس لیے خدا کے لیے اس کو اہمیت دیجیے ۔ فوری طور پر پرکوشش کیجیے کہ جو اصل مسائل ہیں ان کا سامنا کیا جائے۔ لوگوں کو گفتگو کی میز پر لایا جائے اور انھیں شراکت کا احساس دیا جائے، ملکیت (ownership) کا احساس دیا جائے اور میں آپ سے یقین سے کہتا ہوں کہ ابھی بھی کچھ نہیں گیا، یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے مگر اس کو حل کرنے کے لیے فوری ،بھر پور اور ہمہ جہتی کوشش بہت ضروری ہے۔
  • ’دھشت گردی‘ کی جنگ اور افغانستان کا حل: اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے نام پر امریکا کی تباہ کن جنگ سے نکلنا ہمارے لیے بے حد ضروری ہے۔ یہ جنگ نہ کبھی ہماری جنگ تھی اور نہ آج ہماری جنگ ہے۔ ہم نے دوسروں کی جنگ میں ان کے دبائو میں آکر اپنے کو جھونک دیا ہے۔ ۴۰ہزار سے زیادہ پاکستانی اس جنگ میں جان دے چکے ہیں، اور اربوں اور کھربوں کا نقصان ملک کی معیشت برداشت کرچکی ہے۔ اس لیے ہماری اولیں ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ ہم اس جنگ سے نکلیں۔ دوسرے یہ کہ امریکا افغانستان سے نکلے تاکہ خطے میں امن قائم ہو سکے۔ جب تک امریکا کی یہ جنگ ختم نہیں ہوتی علاقے میں امن ممکن نہیں۔ امریکا نے افغانستان اور عراق پر قبضہ کیا ہے اور پاکستان بھی بالواسطہ اس کے قبضے میں ہے۔ یہ بات میں نہیں کہہ رہاہوں بلکہ شکاگو یونی ورسٹی کے پروفیسر نے اپنی تازہ ترین کتابCutting the Fuseمیں کہی ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ: Afghanistan is under US occupation and Pakistan is under the indirect occupation of United States of America (افغانستان پر امریکا کا قبضہ ہے، اور پاکستان پر امریکا کا بالواسطہ قبضہ ہے)۔ ’دہشت گردی‘ کی جنگ کو ختم کرنا، افغانستان کے ساتھ معاملات کو سلجھانا اور وہاں قومی مفاہمت کا حصول فوری ضرورت ہے۔ افغانستان میں ہر کسی کی دخل اندازی ختم ہو نا چاہیے ۔ مسئلے کا سیاسی حل وقت کا تقاضا اور اصل ضرورت ہے۔
  • مشرف دورِ حکومت کا احتساب: ایک آخری معاملہ جس کے بارے میں کہنا ضروری سمجھتا ہوں وہ ہے مشرف دور کا احتساب ۔ جو مظالم اس شخص نے کیے ہیں دستور کی    خلاف ورزی کے اعتبار سے، انسانی حقوق کی پامالی کے اعتبار سے، امریکا کی غلامی کے اعتبار سے، اور پاکستا ن کے مفادات کو نقصان پہنچوانے بلکہ اس کے وجود کی بازی لگا دینے کے حوالے سے، ان سب پر اس کا احتساب ضروری ہے۔ ملک میں جنگ کی کیفیت اور دہشت گردی کا سیلاب اس دور کی ناکام پالیسوں کا نتیجہ ہے ۔پھر اس شخص نے طاقت کے نشے میں اکبر بگٹی جیسے پاکستانی کو شہید کیا، لال مسجد میں جو کچھ کیا، عدلیہ کے ساتھ جو رویہ اختیار کیااسے کیسے بھولا جا سکتا ہے۔     یہ سب اس تاریک دور کے سنگین جرائم ہیں اور اس کے لیے مشرف اور اس کے حواریوں کا  احتساب اور قرار واقعی سزا انصاف کا تقاضا ہے ۔اس کے ساتھ مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے جیساکہ جان جمالی صاحب نے کہاہے: سچائی اور مفاہمت (truth and reconciliation) کا راستہ اختیار کرنا بھی وقت کی ضرورت ہے اور ایسا کرنا ازحد ضروری ہے۔

آخری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے اور میرے ساتھیوں نے گذشتہ تین سالوں میں کئی اہم قوانین اس ایوان میں پیش کیے ہیں جو ا بھی منظور نہیں ہوئے ہیں، ان میں لاپتا افراد کے بارے میں دستوری ترمیم، مہنگائی کے مسئلے پر قانون ، صحافیوںکے حقوق کا قانون، بے روزگار اور معذور افراد کی مدد کرنے کا قانون اور مہنگائی پر کنٹرول کا مسئلہ جیسے قانون زیادہ اہم ہیں۔     یہ پانچ چھے قوانین بل کی صورت میں اس وقت زیر غور ہیں۔ ان کو جماعت اسلامی کے ارکان سینیٹ نے پیش کیاہے۔ ان میں سے ایک جس کا تعلق صحافیوں سے ہے اس کومسلم لیگ کے ساتھیوں نے co-sponsorکیا ہے وہ جاری رہے گا۔ میرے علم کی حد تک پارلیمانی روایات یہ ہیں کہ ایک مرتبہ جو مسودۂ قانون ایوان میں زیر غور آجائے وہ ایوان کی ملکیت ہے۔ قانون تجویز کرنے والے ممبراگر ممبر نہ بھی رہیں تب بھی ایوان کا فرض ہے کہ وہ اس پر غور کرے، اسے قبول کرے یا رد کرے۔ لیکن میں چاہوں گا کہ اس ایوان کے دوسرے ارکان ان تمام قوانین کےco-sponsorبن جائیں تاکہ یہ قوانین معلق نہ رہیں اور جلد ازجلد کتابِ قانون کا حصہ   بن جائیں ۔

آخر میں، میں ایک بار پھر آپ سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے جس احساس کا اظہار کرناچاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں تین دن کی اس پوری بحث کو سنتا رہا ہوں اور پارٹی کی وابستگی سے بالاتر ہوکر میرے معزز بھائیوں اور بہنوں نے جس طرح میرا ذکر کیا ہے، اس کے لیے جہاں مَیں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں وہیں اس حقیقت کا بھی اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کی فراخ دلی اپنی جگہ لیکن میرا دیانت دارانہ احساس یہ ہے کہ میں حق ادا نہیں کرسکا۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ جو بھی کوتاہی اس پورے دور میں میری طرف سے رہی ہو ، یا میرے کسی بھی ساتھی کو خواہ اس کا تعلق انتظامیہ سے ہو یا اراکین سے، اگر میری کسی بات سے کبھی کوئی دکھ پہنچا ہو تو میں یقین دلاتا ہوں کہ وہ میری نیت کبھی نہیں تھی اور میں ان سے معذرت خواہ ہوں۔ اگر میری وجہ سے انھیں کوئی تکلیف پہنچی ہو تو یقین ہے کہ وہ مجھے معاف کردیں گے۔

آخر میں ، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان مشکلات اور خرابیوں کے باوجود الحمدللہ پاکستان جمہوریت کی طرف گامزن ہے اور میں پاکستان اور خود اس ایوان کے مستقبل کے بارے میں بہت پُراُمید ہوں۔ جہاں حالات کا حقیقت پسند انہ جائزہ ضروری ہے تاکہ ہم کسی غلط فہمی میں نہ رہیں، وہیں دوسری طرف اُمید رکھنا بھی ایمان کا تقاضا ہے، اور تاریخ کا پیغام ہے کہ انسانوں کی کوششیں بالآخر ثمربار ہوتی ہیں۔ اس لیے اپنی تقریر کو اس احساس کے اظہار پر ختم کرنا چاہتا ہوں کہ:

یوں اہل توکل کی بسر ہوتی ہے

ہر لمحہ بلندی پہ نظر ہوتی ہے

گھبرائیں نہ ظلمت سے گزرنے والے

آغوش میں ہر شب کے سحر ہوتی ہے

شکریہ ،و آخردعوانا ان الحمدللّہ رب العالمین!