جماعت اسلامی پاکستان سے تعلق رکھنے والے تین اراکینِ سینیٹ پروفیسر خورشیداحمد، پروفیسر محمد ابراہیم اور محترمہ عافیہ ضیا صاحبہ قومی ، بین الاقوامی، دینی اور عوامی ایشوز پر سینیٹ میں اپنی کارکردگی رپورٹ پیش کرچکے ہیں۔ جماعت اسلامی کے سینیٹ میں پارلیمانی لیڈر پروفیسر خورشیداحمد نے۱۱مارچ ۲۰۱۲ء کو پریس کانفرنس کے ذریعے جماعت اسلامی کے اراکین سینیٹ کی کارکردگی کو عوام کے سامنے پیش کیا۔
سینیٹ میں کام کے لیے دائرۂ کار: جماعت اسلامی کے اراکینِ سینیٹ نے عوام کے مسائل کو اُجاگر کرنے کے لیے سینیٹ آف پاکستان کے اندر سوالات، تحاریکِ التوا، قراردادوں، توجہ مبذول کرانے کے نوٹس، تحاریک زیرقاعدہ ۱۹۴، تحاریکِ استحقاق اور حکومتی بلوں اور نئے بلوں کو جمع کرا کر اپنا موقف پیش کیا۔ گذشتہ تین برسوں میں جمع کرائے گئے سوالات کی تعداد ۱۰۰۰ سے زائد، تحاریکِ التوا کی تعداد ۴۰۰ سے زائد، جب کہ قراردادزیر قاعدہ۱۹۴ کی تعداد ۲۴۶ اور توجہ دلائو نوٹس ۲۸۸، قراردادوں کی تعداد ۳۱۰، اور رولز کی خلاف ورزی پر تحاریکِ استحقاق کی تعداد چار ہے۔
پٹرول کی قیمت میں اضافہ، مھنگائی و بے روزگاری:موجودہ حکومت کے دور میں سب سے زیادہ اضافہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کیا گیا۔ جماعت اسلامی کی طرف سے اشیاے خوردونوش کی قیمتوں میں آئے روز اضافے کے حوالے سے ایک بل ’اشیاے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کو کنٹرول کرنے کا بل ۲۰۱۰ئ‘ کے عنوان سے سینیٹ میں جمع کرایا گیا۔ ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ آکر خودکشیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کے لیے سینیٹ میں خودکشیوں کو روکنے سے متعلق ’آئینی ترمیمی بل ۲۰۱۰ئ‘ کے عنوان سے بل جمع کرایا گیا۔ قدرتی گیس کا بحران، پٹرولیم مصنوعات میں متعدد مرتبہ اضافہ، سی این جی، لوڈشیڈنگ اور پٹرول پمپوں کی ہڑتال، رمضان کے بابرکت مہینے میں بھی اشیاے خوردونوش کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کے خلاف تحریکِ التوا اور توجہ دلائو نوٹس جمع کرائے گئے۔
بزرگ شھریوں اور معذور افراد کی فلاح و بھبود:جماعت اسلامی نے معذور افراد کے مسائل کو نہ صرف توجہ مبذول کرانے کے نوٹسوں کے ذریعے ایوانِ بالا میں اُجاگر کیا بلکہ اس حوالے سے آٹھ صفحات پر مشتمل ’معذور افراد کی فلاح و بہبود کا بل ۲۰۱۰ئ‘ کے عنوان سے بل جمع کرایا گیا۔ اس بل میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کا یہ فرض ہوگا کہ معذور افراد کو ان کے گھر کی دہلیز پر قومی شناختی کارڈکی فراہمی کو یقینی بنائے گی۔ پی آئی اے، ریلوے، نجی اور سرکاری ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں معذور افراد کے لیے ۵۰ فی صد رعایت کو یقینی بنائے گی۔ حکومت گاڑیوں اور دیگر اشیا کی درآمد پر بھی معذور افراد کے لیے خصوصی رعایت فراہم کرے گی۔ معذور افراد کو مفت اور نجی ہسپتالوں میں صرف ۶۰ فی صد ادایگی کے ساتھ علاج معالجے کی سہولت فراہم کرے گی۔
وفاقی حکومت یوٹیلٹی سٹوروں میں مختلف اشیاے ضرورت کی قیمتوں میں معذور افراد کے لیے ۳۰ فی صد کی خصوصی چھوٹ فراہم کر ے گی۔ حکومت ہوائی اڈوں، پارکوں، ریلوے اسٹیشنوں اور دیگر عوامی مقامات پر معذور افراد کے لیے وہیل چیئرز کی فراہمی کو یقینی بنائے گی۔ حکومت پاکستان بیت المال اور زکوٰۃ اور عشر کے محکموں میں معذور اور محتاج افراد کو ماہانہ بنیادوں پر امداد فراہم کرنے کی بھی پابند ہوگی۔ اس کے علاوہ معذور افراد کے بچوں کی شادی پر انھیں مبلغ ایک لاکھ روپے کی رقم بطور خصوصی امداد فراہم کرنے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔ معذور افراد کو چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے کے لیے مبلغ ۵۰ہزار روپے کے بلاسود قرضے کی فراہمی کی بھی تجویز دی گئی ہے۔
اس بل میں ایسے سافٹ ویئر اور ہارڈویئر ٹکنالوجی کے ذریعے معلومات تک رسائی کو یقینی بنانے کی سفارش کی گئی ہے جو نابینا، بہرے اور جسمانی معذور افراد کے لیے ایک عام سہولت کی شکل اختیار کرگئی ہیں۔ ٹیوب ویل آپریٹر، دفتر شکایات جیسے محکموں اور یوٹیلٹی بلوں: گیس، بجلی اور محکمہ پانی جیسے محکموں میں حکومت کو تجویز پیش کی گئی ہے کہ ایسے تمام اداروں میں معذور افراد کے تقرر کو ترجیح دی جائے۔ کسی بھی سرکاری، نیم سرکاری یا نجی ادارے، کمپنی میں کنٹریکٹ کی بنیاد پر کام کرنے والے تمام معذور افراد کو اس بل کی منظوری کے چھے ماہ کے اندر اندر مستقل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ ۷۰سال سے زائد عمر کے سول و فوجی پنشنروں کی حالت ِ زار پر تحاریک جمع کرائی گئیں۔
صحافیوں کی فلاح و بھبود: صحافیوں کے اغوا، تشدد، زخمی، اور انھیں جان سے مار دینے کی دھمکیوں کے خلاف بروقت زوردار آواز اُٹھائی گئی اور جماعت اسلامی نے صحافیوں اور میڈیا کارکنان کے تحفظ اور فلاح و بہبود کابل ۲۰۱۱ء بھی سینیٹ میں جمع کرایا جو کہ قائمہ کمیٹی براے اطلاعات و نشریات کے پاس زیرالتوا ہے۔ پرائیویٹ ٹی وی چینلوں کی بندش اور پیمرا کی طرف سے میڈیا پر پابندی کا معاملہ بھی اُٹھایا گیا۔
امن و امان: سانحۂ پشاور اور کراچی میں اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کے رہنمائوں اور کارکنوں کی شہادت، سیالکوٹ میں دو معصوم طالب علموں کی پولیس سرپرستی میں تشدد سے شہادت، عامرچیمہ کو شہید کرنے کے حوالے سے تفصیلی رپورٹس کا مطالبہ کیا گیا۔ ملک میں سوات آپریشن اور اس کے نتیجے میں جانی و مالی نقصانات اور بلوچستان کے مسائل پر مسلسل آواز اُٹھائی گئی۔ امریکی بلیک واٹر تنظیم کی ملک کے اندر سرگرمیاں بھی زیربحث لائی گئیں۔ پرویز مشرف کو کھلی چھٹی دینے اور اس کے خلاف مقدمات درج نہ کرنے کے خلاف آواز بلند کی گئی۔ کراچی میں معصوم شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ، نیز کے ای ایس سی کے ملازمین کے لیے آواز بلند کی گئی۔
قانون سازی و قانونی اُمور: این آر او سمیت تمام متنازع آرڈی ننسوں پر نامنظوری کے نوٹس جمع کرائے گئے اور بار بار اس موقف کا اعادہ کیا گیا کہ قانون سازی کا یہ طریقہ معقول نہیں ہے، بلکہ پارلیمنٹ کے ذریعے ہی قانون سازی ہونی چاہیے۔ حکومت کی طرف سے پیش کیے گئے اکثر قوانین میں جماعت اسلامی نے اپنی ترامیم جمع کرائیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ کے مطابق قانون سازی کرنے، اور سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد کا مسلسل مطالبہ کیا جاتا رہا۔ الیکٹرانک کرائم آرڈی ننس زائد المیعاد ہونے کے باوجود سینیٹ میں پیش کیے جانے کے خلاف تحریکِ استحقاق ، پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی آرڈی ننس ۲۰۰۹ء پر تحریکِ التوا اور نامنظوری نوٹس، پارلیمانی کمیٹی میں تمام ترامیم پر بھرپور کردار ادا کیا گیا۔ انیسویں ترمیم کو آئین کا حصہ بنے ۱۸ماہ گزرنے کے باوجود حکومت کی سالانہ رپورٹ اور مشترکہ مفادات کونسل کی رپورٹ کا سینیٹ میں پیش نہ کیے جانے پر احتجاج اور بیسویں ترمیم میں ترامیم جمع کرائی گئیں۔
پیش کردہ بل:جماعت اسلامی کی طرف سے مندرجہ ذیل بل سینیٹ میں جمع کرائے گئے: صحافیوں کے تحفظ اور فلاح و بہبود کا بل ۲۰۱۱ئ، اشیاے صَرف کی قیمتوں اور مہنگائی پر کنٹرول کرنے کا بل ۲۰۱۰ئ، معذور افراد کی فلاح و بہبود کا بل ۲۰۱۱ئ، پانچ تا ۱۶ سال کی عمر کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم کی فراہمی کا بل ۲۰۱۱ئ، لاپتا افراد کی بازیابی کا بل ۲۰۰۹ئ، ۲۰۱۰ء اور ۲۰۱۲ئ۔ قرآن مجید کو ناظرہ، حفظ اور تجوید کے ساتھ سیکھنے اور سکھانے کا بل ۲۰۱۲ئ، آئینی (ترمیمی) بل ۲۰۱۰ء (اس بل میں سوشل سیکورٹی کور کے ذریعے خودکشیوں کو روکنے کے لیے عملی حل تجویز کیا گیا ہے)، اُردو کو عملی طور پر دفتری زبان بنانے میں تاخیر اور آئین کی خلاف ورزی پر سینیٹ میں قرارداد کے ذریعے بحثوں میں بھرپور موقف اُجاگر کیا گیا۔
ترامیم: دی انسٹی ٹیوٹ آف سپیس ٹکنالوجی ۲۰۱۰ء کی کلاز۴، پیراگراف XXV اور کلاز ۵ میں ترامیم۔ پبلک ڈی فینڈر اینڈ لیگل ایڈ آفس بل ۲۰۱۰ء کے پیراگراف (h)، (i)، ایرا (ERRA) بل ۲۰۱۰ء میں ترمیم، ’’دستور (بیسویں ترمیم) ایکٹ ۲۰۱۲ء کے آرٹیکل ۴۸، ۲۱۴، ۲۱۵، ۲۲۴ میں ترمیم کا بل۔ سروس ٹریبونل ایکٹ ۱۹۷۳ء میں ترامیم، پٹرولیم، ڈویلپمنٹ لیوی آرڈی ننس ۲۰۰۹ء کی عدم منظوری کا نوٹس، صحافیوں کے تحفظ اور فلاح و بہبود کے بل ۲۰۱۱ء میں مزید ترمیم (میڈیا کارکنان کو بھی بل میں شامل کرنے کا مطالبہ)، انڈسٹریل ڈویلپمنٹ بنک آف پاکستان ایکٹ ۲۰۱۰ء سمیت دیگر ترامیم شامل ہیں۔
تحفظ ناموسِ رسالتؐ کے لیے جدوجھد: تحفظ ناموسِ رسالتؐ ایکٹ کے خاتمے کی ناپاک کوششوں اور اس کے خلاف ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کی جانے والی ہرزہ سرائی کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی گئی۔ پاکستان میں تحفظ ناموسِ رسالتؐ ایکٹ سے متعلق پوپ بینی ڈکٹ کے غیر ذمہ دارانہ اور مذہبی تعصب پر مبنی بیان کی سخت مذمت کی گئی۔
دینی اُمور: جماعت اسلامی نے اسلامی اقدار اور روایات کے حکومتی اقدامات کے خلاف سمیت تمام ایشوز پر بھرپور آواز اُٹھائی جن میں گستاخانہ خاکوں کے خلاف بھرپور ردعمل، ملک میں اخلاقی بے راہ روی، انٹرنیٹ کیفے، فحش سی ڈیز، فلمیں، سنوکرکلب، شیشہ سنٹروں کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا۔ مساجد، امام بارگاہوں اور مذہبی شخصیات کے عدم تحفظ، داتا دربار، عبداللہ شاہ غازی اور پاک پتن مزارات سمیت پاکستان بھرمیں بم دھماکوں کے معاملات کو سینیٹ میں اُٹھایا گیا۔ امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر گنیزوی میں ذلیل پادری کی قرآن مجید کو نذرِ آتش کرنے کی ناپاک جسارت کے خلاف بھرپور احتجاج کیا گیا۔ ملک میں فحاشی اور عریانی کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے اقدامات نہ کرنے کے خلاف، پی ٹی وی اور زی ٹی وی کے باہمی اشتراک کے خلاف، پاسپورٹ بنانے میں تاخیر، حاجیوں کو رقم جمع کرانے کے باوجود حج کوٹہ میں شامل نہ کرنا، پارلیمنٹ لاجز میں نمازیوں کے لیے باقاعدہ مسجد کا نہ ہونے کی طرف توجہ مبذول کرانے کا نوٹس جمع کرایا گیا۔ امریکی سفارت خانے میں ہم جنس پرستوں کے اعزاز میں منعقدہ تقریب کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے وزیراعظم اور وزیرمملکت براے امورخارجہ کو خطوط لکھے گئے۔
خواتین اور بچوں کی فلاح و بھبود: ملک بھر میں دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا حصہ بننے، اور معصوم اور بے گناہ افراد اور خاندانوں کو ڈرون حملوں کے ذریعے قتل کرنے کے خلاف مسلسل احتجاج کیا گیا۔ خواتین اور بچوں کے اغوا اور ظلم و زیادتی اور قتل کے واقعات کے سدباب کا مطالبہ کیا۔ ملازمت پیشہ خواتین کو درپیش مسائل کو اُجاگر کیا اور بہتری کے لیے ترامیم جمع کرائی گئیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی قید سے رہا نہ کرانے کے معاملے کو بار بار اُٹھایاگیا اور ڈاکٹر عافیہ کو امریکا کے حوالے کرنے کے مجرموں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ نہتے اور بے گناہ چیچن مرد و خواتین کو شہید کیے جانے کے خلاف احتجاج کیا۔ لڑکیوں کے اسکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں تمام مردانہ سٹاف کو فی الفور تبدیل کرنے اور خواتین سٹاف کو تعینات کرانے کا مطالبہ ، اجوکا تھیٹر میں این جی او کے تعاون سے Burqavaganza کے نام سے غیراخلاقی، غیراسلامی ڈرامے کے خلاف تحاریکِ التوا، توجہ مبذول کرانے کے نوٹس اور قراردادیں جمع کرائی گئیں۔
خارجہ اُمور: پاکستان کے معاملات میں امریکی مداخلت، ناکام خارجہ پالیسی کے خلاف بھرپور آواز اُٹھائی گئی۔ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے بارے میں امریکی مداخلت کے خلاف، ریمنڈ ڈیوس کو رہا کرنے کے خلاف ، دمشق (شام) میں پاکستانی انٹرنیشنل اسکول میں اساتذہ کے تقرر میں اقربا پروری کے خلاف، ایران کی طرف سے بجلی مہیا کرنے کے معاہدے کے باوجود حکومت کی طرف سے سردمہری کے رویے کے خلاف آواز اُٹھائی گئی۔ پاکستان میں امریکی سفیر کی رہایش گاہ پر Defence of Democracies نامی نیوکنزرویٹیو تھنک ٹینک کی طرف سے فنڈ اکٹھا کرنے کے لیے ڈنر پر احتجاج، مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی طرف سے خواتین، بچوں، نوجوانوں اور بوڑھوں پر مظالم، پاکستان کی فضائی اور زمینی راستوںکو ناٹو کو دینے کے خلاف مسلسل آواز بلند کی گئی۔ میمو ایشیو پر اعلیٰ سطح اور بااختیار جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ اور کراچی کی صورت حال پر امریکی سفیر کیمرون منٹر کے بیان پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
داخلہ اُمور: انسانی سمگلنگ کو روکنے کے حوالے سے حکومتی اقدامات، ملک بھر کی جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ غیرانسانی، غیراخلاقی رویوں اور غیرقانونی معاملات کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا گیا۔ شمالی وزیرستان میں امن جرگہ پر امریکی ڈرون حملہ، جس کے نتیجے میں ۸۴ معصوم پاکستانیوں کو شہید کرنے کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ اسلام آباد میں پولیس کی تنخواہ میں مناسب اضافہ نہ ہونا، سیلاب کے حوالے سے خبروں پر اقدامات کرنے کا مطالبہ، نیز ایرا بل میں ترامیم جمع کرائی گئیں۔ کراچی میں علما کو شہید کرنے کے معاملے پر تحاریکِ التوا جمع کرائی گئیں۔ راولپنڈی اور گردونواح میں عوام کے احتجاج پر گولیاں چلانے کے خلاف توجہ مبذول کرانے کا نوٹس، ملک بھر میں بچوں کے اغوا اور ڈکیتیوں کے خلاف احتجاج، عوام الناس کو پاسپورٹ کے حصول میں شدید مشکلات، کراچی میں مفت راشن کے حصول کے لیے آئے ہوئے لوگوں میں بھگدڑ کے باعث ۱۸خواتین کی ہلاکت، مناواں پولیس ٹریننگ سنٹرلاہور پر دہشت گردوں کا حملہ، قومی شناختی کارڈ پر درج تاریخ تنسیخ کے خاتمے، وزارتِ داخلہ کی طرف سے نادرا ڈیٹا کی امریکی اور برطانوی سفارت خانوں کو فراہمی، پی ٹی سی ایل کی طرف سے صارفین کو پرنٹڈ بل میں ٹرنک اور موبائل کالز کی تفصیلات نہ دینا، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور بااثر شخصیات کی سرپرستی میں مہنگی اور غیرمعیاری ادویات کی فروخت اور پاکستان میں ’بلیک واٹر‘ کی خفیہ سرگرمیاں جیسے اہم قومی مسائل کو بھی اُٹھایا گیا۔
دفاع:ناٹو سپلائی بند کیے جانے کے بعد بحالی کی خبروں پر مطالبہ کیا گیا کہ چونکہ پاکستانی عوام اور پارلیمنٹ نے دبائو کے تحت کیے گئے اس یک طرفہ اشتراک کو یکسر مسترد کردیا ہے، لہٰذا اسے ختم کیا جائے۔ اس مسئلے کے حل کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ امریکی اور ناٹوفوجی کارروائیوں کے نتیجے میں پاکستان ناقابلِ برداشت معاشی، سیاسی اور انسانی نقصانات سے دوچار ہوا ہے۔ شمالی وزیرستان میں امن جرگہ پر امریکی ڈرون حملے کی سخت مذمت، نیوکلیئر اثاثہ جات کو خطرے کے حوالے سے حکومت کو وارننگ، تحفظ ملک کے لیے متحد ہونے کی اپیل، نیز پی این ایس مہران پر حملے کے خلاف حکمرانوں سے ملک کی عزت، آزادی، خودمختاری، شناخت، نظریاتی محاذوں کی حفاظت کا مطالبہ کیا گیا۔
اداروں کی کارکردگی کو زیربحث لانے کا مطالبہ اور دیگر اُمور: حکومت کی داخلہ و خارجہ پالیسی، وزارتِ ترقی نسواں، تعلیم، نج کاری کمیشن، یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن، مواصلات، داخلہ، خارجہ، قانون، اطلاعات و نشریات سمیت تقریباً تمام وزارتوںکی کارکردگی کو زیربحث لانے کا مطالبہ کیا گیا ۔ وزارتِ قانون انصاف اور پارلیمانی اُمور کی کارکردگی، گیس قلت کے باعث پیدا شدہ صورت حال، وزارتِ پانی و بجلی کی کارکردگی، مسئلۂ کشمیر پر حکومت کی پالیسی، ایف آئی اے کی کارکردگی، وزارتِ صنعت کی کارکردگی، اسٹیٹ لائف انشورنش کارپوریشن کی کارکردگی، پاکستان ریلوے کی کارکردگی، پی آئی اے کی کارکردگی، نارکوٹکس کنٹرول ڈویژن کی کارکردگی، وزارتِ تجارت کی کارکردگی، او جی ڈی سی ایل کی کارکردگی، وزارتِ سائنس و ٹکنالوجی کی کارکردگی، نیپرا (NEPRA) کی کارکردگی، نادرا کی مجموعی کارکردگی، وزارتِ اطلاعات و نشریات کی کارکردگی، حکومت ِ پاکستان اور دیگر ممالک کے درمیان معاہدات، حکومت کی تجارتی پالیسی، حکومت کا ڈیپ سی بڑے ٹرالرز کے کام کو ریگولیٹ نہ کرنا، ملک میں اشیا کی قیمتوں میں اضافہ، انسانی سمگلنگ بالخصوص بچوں اور عورتوں کی روک تھام کے لیے حکومتی اقدامات، زرعی پالیسی، تعلیمی پالیسی، صحت پالیسی، پاکستان بھر میں وفاق کے زیرانتظام چلنے والے ہسپتالوں کی کارکردگی، حکومت کی بھرتیوں کے حوالے سے پالیسی اور خارجہ پالیسی کو زیربحث لانے کا مطالبہ کیا گیا۔
وزیراعظم کی طرف سے تیل کی قیمت میں اضافے کو عوامی دبائو کے تحت واپس لینے کے فیصلے پر امریکی اہل کاروں کی تنقید، پی آئی اے کی طرف سے ترکش ایئرلائن کے ساتھ کیا گیا معاہدہ، ریمنڈڈیوس کی رہائی کے خلاف، مستونگ میں ایران جانے والے زائرین کو بس سے اُتار کر قتل کیے جانے کے خلاف، کے ای ایس سی انتظامیہ کی طرف سے تقریباً ساڑھے چار ہزار ملازمین کو ملازمتوں سے فارغ کرنے کے خلاف، وزارت قانون و انصاف کی طرف سے جاپان حکومت کو قرض کے لیے معاہدات کی مطلوبہ قانونی ضرورت کی بروقت تیاری نہ کرنے کا معاملہ، صوبہ پنجاب میں گیس لوڈشیڈنگ کے باعث صوبے بھر میں صنعتی یونٹس کی بندش، ووٹرلسٹوں میں ۴۵فی صد سے زائد بوگس ووٹ، اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کے تقرر میں تاخیر، اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کے ۱۹۹۹ء سے لے کر ۲۰۱۰ء تک نکالے گئے ملازمین، تحصیل پھالیہ کے یونین کونسل چک جانوکلاں کے دیہات میں کسانوں کے رقبے پر سائنس ایویلوایشن ڈویژن نیوکلیئر پاور پراجیکٹ لگانے کے منصوبے پر مبنی مسائل اُٹھائے گئے۔ حکومت کی طرف سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پاکستان واپس لانے کے لیے کیے گئے اقدامات، بیرونی امداد سے چلنے والی این جی اوز اور ان کے ایجنڈے کو زیربحث لانے اور آئوٹ آف ٹرن مکانات کی الاٹمنٹ پر پابندی لگانے کا مطالبہ، آل پاکستان گورنمنٹ ایمپلائز کوارڈی نیشن کونسل کے مطالبات، نیب کے نئے چیئرمین فصیح بخاری کا تقرر، نئے پاور پراجیکٹس کے حوالے سے نیپرا کی کارکردگی کو زیربحث لانے، سندھ میں سیلاب کی وجہ سے متاثرین کی مشکلات اور حکومت کا رویہ، وفاقی محتسب کے عہدے کا طویل عرصہ تک خالی رہنا، نارنگ منڈی میں نادرا سوئفٹ سنٹر کا قیام، مختلف فوڈ آئٹمز میں سُور کی چربی کے اجزا کی آمیزش، پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن شدید مالی مشکلات سے دوچار، آئیسکو کا غیرقانونی طور پر بجلی صارفین سے خفیہ چارجز کی مد میں اربوں روپے کی وصولی، پی آئی اے انتظامیہ کی طرف سے سپیئرپارٹس کی سپلائی کے لیے کنٹریکٹ میں پبلک پروکیورمنٹ رولز ۲۰۰۴ء کی خلاف ورزی و دیگر مسائل کو اُٹھایا گیا۔
بلوچستان: بلوچستان کی دگرگوں صورت حال اور بلوچستان کے مسائل پر گذشتہ تین سال مسلسل آواز بلند کی گئی۔ حبیب جالب کا قتل، سعید بلوچ کا اغوا، کوئٹہ اخروٹ آباد میں بے گناہ معصوم چیچن مرد و خواتین پر ظلم ڈھانے کے واقعے کی کوریج کرنے والے صحافی جمال ترکئی اور کراچی میں نوجوان پر سفاکیت کے واقعے کی کوریج کرنے والی آواز چینل کی ٹیم کے افراد اور دیگر صحافیوں کو مسلسل دھمکیوں سمیت دیگر ایشوز کو بروقت اُجاگر کیا گیا۔
مواصلات:قومی ٹرانسپورٹ پالیسی کو زیربحث لانے کا مطالبہ کیا گیا۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں گانے بجانا اور وڈیو فلمیں چلانے کے خلاف، راولپنڈی اسلام آباد کے درمیان چلنے والی ویگنوں اور بسوں کے کرایوں میں ناروا اضافہ، لاہور-نارووال سیکشن پر نارنگ منڈی سے نارووال، سیالکوٹ اور لاہور کے لیے ہفتہ وار چھٹیوں میں متعدد ٹرینوں کی بندش، پی ٹی سی ایل ملازمین پر رمضان میں تشدد اور گرفتاریاں، غیرمعیاری سی این جی سلنڈرز کٹس پھٹنے کے باعث معصوم جانوں کا ضیاع، سی این جی اور پٹرول پمپوں کی ہڑتال، لواری ٹنل پراجیکٹ پر اچانک ماہِ نومبر ۲۰۱۰ء کے دوران تعمیراتی کام بند کرنا، پاکستان پوسٹ کی نج کاری اور پاکستان پوسٹ کے تحت دی جانے والی سروسز کے حوالے سے وقتاً فوقتاً تحاریکِ التوا، توجہ دلائو نوٹسوں کے ذریعے آواز اُٹھائی گئی۔
تعلیم : پاکستان میں خواندگی کی شرح کا خطرناک حد تک کم ہونا، نوشہرہ کے نواحی دو دیہاتوں میں مڈل اور ہائی اسکولز کی سطح پر تعلیم کی عدم فراہمی، بنوں میڈیکل کالج کے طلبہ و طالبات کی طرف سے مذکورہ کالج کو صوبے کے تیسرے بڑے کالج کا درجہ حاصل ہونے کے باوجود پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی طرف سے تسلیم نہ کیے جانے کے خلاف توجہ دلائو نوٹس جمع کرایا گیا، نیز تعلیم کے دیگر مسائل کو بھی زیربحث لانے کا مطالبہ کیا گیا۔ تقریباً دو سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود اور گورنمنٹ گرلز مڈل اسکول ریڑکا بالا منڈی بہائوالدین کی بطور ہائی اسکول منظوری اور بلڈنگ تعمیرہونے کے باوجود کلاسز کا اجرا نہ ہونا، علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کی طرف سے طلبہ سے لیٹ فیس کی مد میں ناجائز وصولیاں، اور طلبہ یونینز پر پابندی ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ ۱۷ہزار اساتذہ اور ملازمین کے مطالبات کے حق میں آواز بلند کی گئی۔
سوات، قبائلی علاقہ جات: قبائلی علاقہ جات میں ڈرون حملوں کے نتیجے میں بے گناہ لوگوں کی شہادت پر وقتاً فوقتاً توجہ دلائو نوٹسوں، تحاریکِ التوا کے ذریعے معاملے کو پارلیمنٹ میں زیربحث لاکر فی الفور بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ لوئردیر میں ’آپریشن فلش آئوٹ‘ کے خلاف احتجاج کیا گیا۔
کرپشن: ای او بی آئی میں کرپشن، رینٹل پاور منصوبوں میں کرپشن، پاکستان اسٹیل، پی آئی اے، ٹریڈنگ کارپوریشن پاکستان، نیشنل بنک اور پورٹ قاسم میں رولز سے ہٹ کر بھرتیاں، سی ڈی اے انتظامیہ کی طرف سے محکمے میں کروڑوں کی کرپشن، پنجاب واٹر پروجیکٹ میں ۴۷ئ۴ ارب روپے کے گھپلے پر پلاننگ کمیشن سے وضاحت، پی ٹی سی ایل یونین ایکشن کمیٹی کا پی ٹی سی ایل کی نج کاری کے دوران کروڑوں ڈالروں کے گھپلوں کی نشان دہی، پی پی پی کے مرکزی عہدے داران اور صدر آصف زرداری کے قریبی رفقا میں سول اوارڈز کی تقسیم، علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کی طرف سے ۵۲۹ طلبا کو ایم اے TOEFL کا امتحان پاس کرنے کے بعد فیل کرنا، پی ٹی سی ایل کی نج کاری میں مالی بے قاعدگیاں، پاکستان ریلوے کی بحرانی صورت حال پر مسلسل آواز اٹھائی گئی۔ ریلوے کرایوں میں ۳۰۳ فی صد اضافہ اور ملازمین کے مسائل کو بھی اُجاگر کیا گیا۔
لاپتا افراد کے لیے جدوجھد:لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے آئین کے آرٹیکل ۹ اور ۱۰ میں ترامیم دی گئی ہیں۔ اس بل کا مقصد بغیر عدالتی کارروائی کے حراست میں رکھنے پر مؤثر پابندی لگانا، اس کے مرتکب افراد کے لیے سزا وضع کرنا، کسی پاکستانی یا پاکستانی سرزمین سے گرفتار شدہ کسی فرد کو بغیر عدالتی کارروائی اور عدالت کی اجازت کے کسی غیرملک کے حوالے کرنے پر پابندی لگانا تھا۔ اسی حوالے سے سینیٹ میں جمع کرائی گئی قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کیا گیا۔
مزدوروں، کسانوں اور ملازمین کے مسائل: ۲۰۱۲ء میں مزدوروں کی بہتری کے لیے ترامیم دیں۔ کسانوں کے مسائل کو خصوصاً بجٹ کے موقع پر اُجاگر کیا گیا۔ اساتذہ، ڈاکٹر اور کلرکوں کی مشکلات، آل پاکستان ایمپلائز کوارڈی نیشن کونسل کا اپنے مطالبات کے حق میں مظاہرہ، قائداعظم یونی ورسٹی کی طرف سے ڈاکٹروں کے امتحانی پیٹرن کی بغیر اطلاع تبدیلی، کے ای ایس سی کا اپنے ساڑھے چارہزار ملازمین کو فارغ کرنا جیسے مسائل کے حل کے لیے آواز اُٹھائی گئی۔
پلڈاٹ (PILDAT) (Pakistan Institute of Legislative Development and Transparency) کے مطابق جماعت اسلامی کے سینیٹروں کی کارکردگی بے حد نمایاں رہی۔ ان تین برسوں میں کُل۳۷ تحاریکِ التوا پیش کی گئیں جن میں سے ۲۶ جماعت اسلامی کے سینیٹروں نے پیش کیں۔ کُل ۲۷نجی بل پیش کیے گئے جن میں سے ۸ جماعت اسلامی کے سینیٹرز نے پیش کیے۔ صرف ۲۰۰۸-۲۰۰۹ء میں ۱۰۶ توجہ دلائو نوٹسوں میں سے ۷۳ جماعت اسلامی کے سینیٹروں نے پیش کیے۔ (اسکورکارڈ، ۲۰۰۸-۲۰۱۱ئ، پلڈاٹ)