اسلام دینِ حق ہے۔ کلمۂ طیبہ کے اندر اللہ کی وحدانیت، ربوبیت اور حاکم مطلق ہونے کا ایمان وعقیدہ موجود ہے۔ یہ کلمہ پڑھنے کے باوجود بدقسمتی سے آج کے مسلمان بھی ان خرابیوں میں ملوث ہوگئے ہیں جن میں مشرکین عرب مبتلا تھے۔ شگون،فال گیری، جادو اور ٹونے ٹوٹکے اس حد تک ہمارے معاشرے میں رواج پا چکے ہیں کہ بعض اوقات یوں لگتا ہے جیسے یہ معاشرہ اسلامی نہیں جاہلی معاشرہ ہے۔ جادواور فال گیری کا دھندہ کرنے والے معاشرے میں یوں نمایاں ہوگئے ہیں کہ ملک کے درودیوار پر جابجا چاکنگ نظر آتی ہے۔ اب تو یہ بیماری یہاں تک پھیل چکی ہے کہ اخبارات اور ذرائع ابلاغ کے اندر بھی اشتہار بازی کا سلسلہ چل نکلا ہے۔ کالی بلی راستہ کاٹ جائے تو اس سے برا شگون لینا۔ اسی طرح اور مختلف باطل تخیلات، مثلاً کوئی پرندہ دائیں سے بائیں جائے گا تو کامیابی ملے گی اور اگر بائیں سے دائیں جائے گا تو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا وغیرہ وغیرہ۔ جادو گروں نے عام لوگوں کا ذہن مسموم اور ماؤف کردیا ہے۔ محبت میں کامیابی وناکامی، دشمن کو زیرکرنے کے لیے گنڈے، تعویذ کا گھناؤنا دھندہ عام ہوگیا ہے۔ کمزور ایمان اور باطل عقائد کی وجہ سے کاروبار چمکانے کے لیے ان نوسر بازوں سے رجوع، یہ سال کیسا ہوگا اور یہ ہفتہ کیسا؟ غرض کون سی بیماری ہے جو یہاں نہیں پائی جاتی۔ اس معاشرے میں منجّم اور ستاروں کا علم رکھنے کے دعوے دار بھی خوب چاندی بنارہے ہیں۔ بے چارے جہلا نہیں جانتے کہ یہ سب انجم شناس محض دعوے اور اٹکل پچو کے ذریعے ان کی جیبیں کاٹ رہے ہیں۔
بقول اقبالؒ ؎
ترے مقام کو انجم شناس کیا جانے
کہ خاکِ زندہ ہے ُتو ، تابعِ ستارہ نہیں
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جس معاشرے میں تشریف لائے وہ مکمل اندھیرے میں ڈوبا ہوا جاہلی معاشرہ تھا۔ آپؐ نے اس معاشرے کو پہلے باطل عقائد سے پاک کیا، پھر صحیح اسلامی عقائد کے مطابق اعمال اختیار کرنے کی تربیت دی اور بالکل ایک نئی ملت کو وجود بخشا، جس کا ہر کام قرآن وسنت اور دلیل ومنطق کے معیار پر پورا اترتا تھا۔ مشرکین عرب ماہِ صفر اور ماہِ شوال کو منحوس سمجھتے تھے، حضرت محمد بن راشدرضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اہلِ جاہلیت صفر کو منحوس سمجھتے ہیںتو آپؐ نے جواب میں فرمایا کہ یہ باطل عقیدہ ہے۔ ماہِ صفر میں کوئی منحوس بات نہیں ہے(سنن ابی داؤد، ح۳۹۱۶)۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ عرب شوال کو منحوس سمجھتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اس مہینے میں شادی نہیں کرنی چاہیے اور نہ کسی مہم پر نکلنا چاہیے،کیوںکہ اس مہینے میں کوئی فعل کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوسکتا۔ مزید فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غلط رسم کو ختم کیا اور آپؐ نے میرے ساتھ ماہِ شوال ہی میں نکاح کیا تھا۔ پھر یہ دیکھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کون سی زوجہ مجھ سے زیادہ نصیبے والی ثابت ہوئی۔ (مسلم، ح ۳۵۴۸)۔حضرت عائشہؓ اپنے خاندان کی بچیوں کی شادی کے لیے ماہِ شوال منتخب کیا کرتی تھیں تاکہ شوال کے بارے میں پرانے عقائد کہیں پھر سے سر نہ اٹھا لیں۔
قرآن پاک میں واضح طور پر بیان فرما دیا گیا ہے کہ نفع ونقصان کا تعلق نہ کسی دن اور موسم سے ہے اور نہ کسی خاص چیز اور مخلوق ہی سے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنا اختیار ہے کہ وہ کس کو کب نفع دے گا اور کب اس کے مقدر میں نقصان ہوگا۔ انسان کو ہر عمل شروع کرنے سے پہلے یہ دیکھ لینا چاہیے کہ کام بذات خود حلال اور جائز ہے یا حرام اور ناجائز۔ اگر حلال وجائز نہ ہو تو اس کا ارادہ بھی ترک کردینا ہوگا۔ حلال ہے تو اس کا آغاز اور نیت کرتے ہوئے بسم اللہ پڑھنی چاہیے اور اللہ رب العالمین سے خیروبرکت مانگنی چاہیے۔ قرآن پاک میں جگہ جگہ اس مضمون کو بیان کیا گیا ہے کہ نفع ونقصان کا مالک اللہ ہے۔ ساری دنیا کے انسان بھی مل کر کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے اگر اللہ نہ چاہے۔ اسی طرح تمام بنی نوع انسان مل کر بھی کسی کو نفع نہیں دے سکتے اگر اللہ نہ چاہے۔ صرف حوالے کے لیے ایک آیت لکھ رہے ہیں، اگرچہ اس موضوع پر بہت سی آیات قرآن مجید میں موجود ہیں۔ ارشاد باری ہے: وَ اِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَـلَا کَاشِفَ لَہٗ اِلاَّ ہُوَ وَإِنْ یُّرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِہٖ یُصِیْبُ بِہٖ مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ وَہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۔‘‘ اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈالے تو خود اس کے سوا کوئی نہیں جو اس مصیبت کو ٹال دے، اور اگر وہ تیرے حق میں کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو پھیرنے والا کوئی نہیں ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے اور وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔ (یونس۱۰:۱۰۷)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت ساری دعائیں ہیں جن میں آپؐ نے درپیش کام اور مہم میں کامیابی کے لیے اللہ سے رجوع کیا۔ ایک مختصر اور جامع دعا یہ ہے: اَللّٰہُمَّ اَنْتَ رَبِّیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ عَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَاَنْتَ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ، مَاشَائَ اللّٰہُ کَانَ وَمَا لَمْ یَشَائْ لَمْ یَکُنْ وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ، اے اللہ تو میرا رب ہے تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں میں تجھی پر توکل کرتا ہوں اور تو عرش عظیم کا مالک ہے، اللہ جو چاہے وہی ہوتا ہے اور جو وہ نہ چاہے وہ کبھی نہیں ہوسکتا۔ میرا کوئی زور اور قوت نہیں سوائے اللہ پر بھروسے کے، جو بہت بلند اور عظمت والا ہے۔ (البیہقی، الاسماء والصفات، باب ماشاء اللّٰہ کان، ح۳۴۰، روایت حضرت ابوالدرداءؓ)۔ جو لوگ کمزور عقیدے اور توہمات کے جال میں پھنس جاتے ہیں ان کو منزل ہاتھ نہیں آتی۔ بعض اوقات ان کی حرکتیں اپنے انھی توہمات کی بدولت انھیں اضحوکہ (مضحکہ خیز) بنادیتی ہیں۔ یہ مثالیں آج بھی نظر آتی ہیں اور عربوں کے بھی بے شمار واقعات تاریخ میں مذکور ہیں۔ کالے علم کا دھندہ کرنے والے بعض اوقات اپنے ہی گاہکوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اُتر جاتے ہیں، جب کہ کم وبیش تمام گاہک بھی اپنی عزت، آبرو اور جان تک سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اس سے بڑا نقصان اور المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ایمان اور عاقبت کو برباد کرلیتے ہیں۔
مفسرین نے ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک عرب اپنے باپ کے قاتل سے بدلہ لینا چاہتا تھا۔ ذوالْخَلَصَہ نامی بت کے آستانے پر جاکر اس نے فال کھلوائی۔ جواب نکلا یہ کام نہ کیا جائے۔ اس پر عرب طیش میں آگیا، کہنے لگا:
لَوْکُنْتَ یَاذَالْخَلَصِ الْمَوْتُوْرَا
مَثَلِیْ وَکَانَ شَیْخُکَ الْمَقْبُوْرَا
لَمْ تَنْہَ عَنْ قَتْلِ الْعُدَاۃِ زُوْرَا
(اے ذوالخلصہ اگر میری جگہ تو ہوتا اور تیرا باپ مارا گیا ہوتا تو ہر گز تو جھوٹی بات نہ کہتا کہ ظالموں سے بدلہ نہ لیا جائے۔)
ایک اور عرب اپنے اونٹوں کا گلہ اپنے معبودسعد نامی کے آستانے پر لے گیا تاکہ ان کے لیے برکت حاصل کرے۔ یہ ایک لمبا تڑنگا بت تھا، جس پر قربانیوں کا خون لتھڑا ہوا تھا۔ اُونٹ اسے دیکھ کر بدک گئے اور ہر طرف بھاگ نکلے۔ عرب اپنے اونٹوں کو اس طرح تِتر بِتر ہوتے دیکھ کر غصے میں آگیا۔ بت پر پتھر مارتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا کہ ’’خدا تیرا ستیاناس کرے۔ میں آیا تھا برکت لینے کے لیے اور تونے میرے رہے سہے اونٹ بھی بھگا دیے۔(تفہیم القرآن، جلد۳، ص۴۶۵-۴۶۶)
اللہ تعالیٰ نے سورئہ مائدہ کی آیت ۹۰ میں واضح طور پر فرمایا ہے کہ ’’شراب، جوا، آستانے اور پانسے، یعنی فال گیری اور نیک وبدشگون لینا سب گندے شیطانی اعمال ہیں۔ ان سے پرہیز کرو‘‘۔ غلط رسومات اور جادو کے دھندے میں ایسے ایسے حرام کام کرنے کی اطلاعات میڈیا میں آتی رہتی ہیں کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے۔ عرب بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔ سورۂ انعام آیت۱۳۸ میں اللہ نے فرمایا کہ یہ جاہل لوگ سمجھتے ہیں کہ کچھ جانور ایسے ہیں جن پر سواری اور باربرداری حرام ہے اور کچھ جانور ایسے ہیں جن کو ذبح کرتے ہوئے اللہ کا نام نہیں لینا چاہیے۔ یہ سب کچھ ان کی طرف سے اللہ پر افترا باندھا گیا ہے۔ بہت جلد اللہ ان افتراپردازیوں پر ان کو سزا دے گا۔ (۶:۱۳۶)
نجومیوں اور دست شناسوں کے پاس جانا اور ان سے مستقبل اور غیب کی خبریں جاننے کی کوشش کرنا ضعفِ ایمانی اور عقیدے کی کمزوری کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اسی طرح ستاروں اور سیاروں کے حساب اور زائچے سب لغو اور فضول اعمال ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے کیا خوب فرمایا ؎
ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخیِ افلاک میں ہے خوار و زبوں
مختلف آفات سے بچنے کے لیے بلاشبہ اللہ کا کلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسنون دعائیں بہت کارگر ہیں۔ مُعَوِّذَتَیْن (سورۃ الفلق و سورۃ الناس) آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسے وقت میں نازل ہوئی تھیں جب آپؐ پر یہودیوں نے جادو کیا تھا۔ ان کو پڑھ کر انسان اللہ کی پناہ میں آجاتا ہے۔ اسی طرح آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھائی ہوئی دعائیں بھی بہت بااثر ہیں۔ یہ دعائیں بے شمار ہیں مگر ایک آدھ دعا بھی یاد ہو تو انسان کو اللہ رب العالمین کی طرف سے حفاظت مل جاتی ہے۔ آپؐ صحابہؓ کو بھی تلقین کرتے تھے کہ وہ گھروں کے اندر اور بچوں کے اوپر آنے والی بلاؤں سے ان دعاؤں کے ذریعے اللہ کی پناہ حاصل کریں۔ آپ کی ایک مختصر دعا ہے: اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ، میں اپنے آپ کو اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں، اس کے جامع کلمات کے ذریعے، ہر مخلوق کے شر سے۔ (مسلم، ح۷۰۵۳) اسی طرح آپ نے یہ دعا بھی سکھائی: اَعُوْذُ بِعِزَّۃِ اللّٰہِ وَقُدْرَتِہٖ مِنْ شَرِّ مَا اَجِدُ وَاُحَاذِرُ، یعنی میں اللہ کی عزت وقدرت کی پناہ میں اپنے آپ کو دیتا ہوں ہر اس شر کے مقابلے پر جس سے میرا سامنا ہو کہ اللہ مجھے اس سے محفوظ رکھے۔ (مسلم، ح۵۸۶۷) ۔قرآن پاک میں بھی اللہ نے بہت سی دعائیں سکھائی ہیں: وَقُل رَّبِّ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ ہَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِ o وَاَعُوْذُ بِکَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ o (المومنون ۲۳: ۹۷-۹۸) یعنی دعا کرو کہ ’’پروردگار، میں شیاطین کی اکساہٹوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں، بلکہ اے میرے رب، میں تو اس سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں‘‘ ۔ اسی طرح ایک اور دُعا ہے: رَبِّ یَسِّرْ وَلاَتُعَسِّرْ وَتَمِّمْ بِالْخَیْرِ، ’’اے میرے رب میرے کام کو آسان بنا دے مشکلات دور فرما دے اور اس منصوبے کو خیروبرکت کے ساتھ پایۂ تکمیل تک پہنچا دے‘‘۔