گذشتہ دو عشروں سے پاکستان کے صحافیانہ حلقوں میں، خصوصاً انگریزی زبان کے اخبارات و رسائل میں، بار بار ایک سوال مختلف انداز سے اٹھایا جاتا رہا ہے کہ کیا ریاست کو اپنی بقا اور ترقی کے لیے کسی نظریے کی ضرورت ہے؟ یا ریاست بغیر کسی نظریے سے وابستگی کے شہریوں کے حقوق ادا کرسکتی ہے؟ اس نوعیت کے سوالات کا اُٹھایا جانا کوئی معیوب بات نہیں ہے۔
حقیقت ِ واقعہ یہ ہے کہ وہ صحافی اور دانش ور جو انگریزی اخبارات میں مقالہ نویسی کرتے ہیں عموماً جن کتب سے پاکستان کی تاریخ اخذ کرتے ہیں وہ برطانوی اور امریکی جامعات میں جنوبی ایشیا کے شعبوں سے وابستہ ان اساتذہ کی لکھی ہوئی ہیں، جو مغربی علمی روایت میں فکری تربیت پانے کے بعد مغربی ذہنی سانچے اور پیمانوں سے تحریکِ پاکستان پر نظر ڈالتے ہیں۔ چونکہ ان کا مفروضہ ہی یہ ہوتا ہے کہ اس قسم کی سیاسی تحریکات یا تو ردعمل کے طور پر وجود میں آتی ہیں، یا معاشی استحصال کو دُور کرنے اور معاشی ترقی میں مقام پیدا کرنے کے لیے، اور یا پھر کسی جذباتی وابستگی کی بناپر جسے عموماً ’مذہبی انتہاپسندی‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ تاریخی اور سیاسی مطالعہ جس ملک کا بھی ہو تحقیقی مفروضے عموماً ایک ہی رہتے ہیں۔
یہ ایک ایسا غیرمحسوس عمل ہے جسے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی عموماً محسوس نہیں کرپاتے۔ طریق تحقیق اگر تجربی(empirical) ہو تو نتائج بھی اعداد وشمار کی شکل میں سامنے آئیں گے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ تحقیق کی بنیاد دین و سیاست کی تفریق پر ہو اور نتیجہ تحقیق دین و سیاست کی یک جائی کا نکل آئے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ ۲۰۰سال سے نہ صرف یورپ و امریکا بلکہ ان تمام ممالک میں جو کبھی ان کے غلام رہے ہوں یا ان کی ذہنی غلامی کے شکار ہوں ان سب دانش وروں نے مذہب اور سیاست کی یک جائی کو تسلیم نہیں کیا، بلکہ جہاں کہیں ایسے امکانات نظر آئے تو ’مذہب‘ کو منافرت، شدت پسندی، عسکریت اور جذباتیت سے تعبیر کرتے ہوئے خطرے کی گھنٹی بجانا شروع کردی۔
انگریز کی چھوڑی ہوئی علمی روایت اور نظامِ تعلیم نے وہی ذہنی سانچے تیار کیے جو انگریز کی غلامی سے سیاسی آزادی کے باوجود زبان، ثقافت، تعلیم، معیشت و معاشرت میں ہمیشہ انگریز کو اپنا معیار سمجھتے رہے۔ان کے ترقی کے پیمانے اور نگاہ کے زاویے وہی رہے جو انگریز سے وراثت میں پائے تھے۔ اگر شعوری طور پر کچھ دانش ور یہ انتخاب کرتے ہیں کہ وہ صرف مغربی فکر کے پیمانوں سے ہرچیز کو ناپیں اور تولیں گے تو اس میں علمی طور پر کوئی حرج نہیں ہے۔ وہ ایسا کرنے میں آزاد ہیں لیکن علمی اور تحقیقی دیانت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے علمی تعصب کے ساتھ معروضیت (objectivity) کا دعویٰ نہ کریں۔ اگر ایک فرد یہ سمجھتا ہے کہ ’مذہب‘ بطورِ ریاست کی نظریاتی بنیاد نہیں ہونا چاہیے تو وہ اپنی بات دلائل سے پیش کرسکتا ہے لیکن اسے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ قطعیت کے ساتھ یہ اصرار بھی کرے کہ صرف ا س کا تجزیہ اور اخذکردہ نتائج حق ہیں اور باقی سب کچھ محض جذباتیت ہے۔
ان کلمات کے ساتھ ہم موضوع پر نظری او رتاریخی حقائق کی روشنی میں ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔
ریاست کی تعریف عموماً یہ کی جاتی ہے: ’’حدودِ مملکت، ریاستی اداروں، مثلاً مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ اور دفاع یا ایک خودمختار ریاست کی سیاسی ثقافت (political culture)‘‘۔ ایسے ہی وطنی ریاست (nation state) کو ایک ریاست کے شہریوں اور نظام کے تشخص سے وابستہ کیا جاتا ہے۔ چنانچہ وہ لوگ بھی جو ایک زبان، نسل، جغرافیائی خطہ یا ایک مشترکہ تاریخ و ثقافت سے وابستہ ہوں ایک خودمختار علاقے کی بنیاد پر وطنی ریاست قائم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
انسانی تاریخ میں آج تک کوئی ایسی ریاست وجود میں نہیں آئی جس کا کوئی ’مذہب‘ نہ ہو، حتیٰ کہ وہ جو اپنے آپ کو سیکولر ریاست کہتے ہیں، لادینیت کو ان کے نظام میں وہی مقام تقدس حاصل ہوتا ہے جو اٹلی میں پائی جانے والی ویٹی کن (Vatican) یا کیتھولک ریاست میں عیسائیت کا ہے۔
برعظیم میں مسلمانوں نے تقریباً ۸۰۰ سال حکومت کی اور اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود اسلامی قانون اور معاشرت میں بنیادی اسلامی اصولوں کا احترام و عمل جاری رہا۔ سربراہانِ حکومت میں سے بعض نے بادشاہت کی غیراسلامی روایت کے ساتھ ساتھ اپنے کردار سے اعلیٰ اسلامی رویے کا اظہار کیا اور اکثر نے اسلام سے اپنے روایتی تعلق سے آگے اور کوئی قابلِ ذکر کام نہ کیا۔ لیکن یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے بقول ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کہ: ’’برعظیم پاک و ہند میں تحریکِ پاکستان کی بنیاد اسی وقت رکھ دی گئی تھی جب پہلے مسلمان نے یہاں قدم رکھا تھا‘‘۔ گویا وہ سلاطین ہوں یا مغل شہزادے، اپنی تمام بے راہ روی کے باوجود انھوں نے اسلام سے اپنی وابستگی کو ہرسطح پر برقرار رکھا۔ لیکن جب مسلمان فرماں روا نااہلیت، ناعاقبت اندیشی، خودغرضی، عیش وعشرت اور نفسانفسی کا شکار ہوگئے تو پھر ریاست کا زوال یقینی ہوگیا۔ قوانین فطرت مسلم اور غیرمسلم دونوں کے لیے یکساں ہیں۔
چنانچہ سمندر پار سے آنے والوں اور گھر کے باغیوں کے تعاون سے تجارتی منڈیوں کے بہانے آنے والے انگریزوں نے ملک پر غاصبانہ قبضہ کرلیا اور پھر تقریباً ۲۰۰ سال مسلمان غلامی کا شکار رہے۔ اس غلامی سے نکلنے کے لیے جس سیاسی تحریک کا آغاز ہوا وہ آغاز میں مشترک تھی، لیکن جلد مسلمانوں کو یہ یقین ہوگیا کہ اپنے مفادات کا تحفظ وہ ہندو اکثریت کے حوالے نہیں کرسکتے اور انھیں اپنے دین و ثقافت پر عمل کرنے کے لیے ایک آزاد خطے کی ضرورت ہے۔ اس احساس کے تین اہم پہلو اس وقت بھی او رآج بھی غوروفکر کا مطالبہ کرتے ہیں:
میں نے اکثر یہ بات واضح کی ہے کہ اگر مسلمان باوقار اور لائق احترام لوگوں کی طرح سے زندہ رہنا چاہتے ہیں تو ان کے سامنے ایک ہی راستہ ہے: پاکستان کے لیے لڑیئے، پاکستان کے لیے زندہ رہیے اور اگر ناگزیر ہو تو حصولِ پاکستان کے لیے مرجایئے، یا پھر مسلمان اور اسلام دونوں تباہ ہوجائیں گے۔
ہمارے سامنے ایک ہی راہ ہے: اپنی قوم کی تنظیم کرنا، اور یہ ہم اپنی محنت، مصمم اور پُرعزم مساعی کے ذریعے سے ہی قوت پیدا کرسکتے ہیں اور اپنی قوم کی حمایت کرسکتے ہیں، نہ صرف اپنی آزادی اور خودمختاری حاصل کرسکتے ہیں بلکہ اسے برقرار بھی رکھ سکتے ہیں، اور اسلامی آدرشوں اور اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرسکتے ہیں۔
پاکستان کا مطلب نہ صرف آزادی اور خودمختاری ہے بلکہ مسلم نظری بھی ہے جسے ہمیں محفوظ رکھنا ہے جو ایک بیش قیمت تحفے اور سرمایے کے طور پر ہم تک پہنچا ہے اور ہم اُمید کرتے ہیں اور لوگ بھی اس میں ہمارے ساتھ شراکت کرسکیں گے۔ (فرنٹیر مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے نام پیغام، ۱۵جون ۱۹۴۵ء، قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلدسوم، ص ۴۳۸)
۲۸ مئی ۱۹۳۷ء کو علامہ اقبال، قائداعظم کو لکھتے ہیں:
روٹی کا مسئلہ شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ مسلمان نے محسوس کرنا شروع کر دیا ہے کہ وہ گذشتہ ۲۰۰سال میں نیچے ہی نیچے جا رہا ہے۔ عام طور پر وہ یقین رکھتا ہے کہ اس کی غربت کی وجہ ہندوئوں کا مقروض ہونا یا سرمایہ داری ہے۔ جواہرلال کے الحادی سیکولرازم کی مسلمانوں سے زیادہ پذیرائی کی توقع نہیں ہے۔ اس لیے سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کا مسئلہ کیسے حل کیا جائے؟
خوشی کی بات یہ ہے کہ اسلامی قانون کے نفاذ اور جدید خیالات کی روشنی میں اس کے ارتقا میں ایک حل موجود ہے۔ اسلامی قانون کے ایک طویل اور گہرے مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر یہ قانون سمجھا جائے اور اس کا اطلاق کیا جائے تو ہرشخص کو زندہ رہنے کا حق مل جائے گا۔ لیکن اس ملک میں ایک مسلم ریاست یا ریاستوں کے بغیر اسلامی قانون اور اس کا نفاذ اور ترقی ناممکن ہے۔
لیکن قائداعظم کی نگاہ دُوربین نے اس سیاسی پہلو کو بہت پہلے بغور سمجھنے کے بعد جو بات کہی وہ آج بھی ویسے ہی سچ ہے جیسی وہ اس وقت تھی۔ ان کے اپنے الفاظ میں:
دو سال قبل مَیں نے شملہ میں یہ کہا تھا کہ جمہوری پارلیمانی نظام ہندستان کے لیے نامناسب ہے۔ کانگریس پریس میں ہر طرف میری مذمت کی گئی۔ مجھے بتایا گیا کہ میں اسلام کو نقصان پہنچانے کا مجرم ہوں۔ اس لیے کہ اسلام جمہوریت پر یقین رکھتا ہے۔ جہاں تک میں نے اسلام کو سمجھا ہے وہ ایسی جمہوریت کی وکالت نہیں کرتاجو غیرمسلموں کی اکثریت کو مسلمانوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے کی اجازت دے۔ ہم ایسے نظامِ حکومت کو قبول نہیں کرسکتے جس میں غیرمسلم محض عددی برتری کی وجہ سے ہم پر حکومت کریں اور غالب رہیں۔ مجھ سے سوال کیا گیا کہ جمہوریت نہیں تو پھر میں کیا چاہتا ہوں __ فاشزم، نازی ازم یا آمریت؟ میں کہتا ہوں کہ جمہوریت کے ان چیمپینز نے اب تک کیا کیا ہے؟ انھوں نے ۶کروڑ لوگوں کو اُچھوت بناکر رکھا ہوا ہے۔ انھوں نے ایسا نظم بنایا ہے جو ایک گرینڈ فاشسٹ کونسل کے علاوہ کچھ نہیں۔ انھوں نے ڈمی وزارتیںقائم کیں جو مقننہ یا راے دہندگان کے سامنے نہیں بلکہ گاندھی کے ایک منتخب گروہ کے سامنے جواب دہ ہیں۔ پھر جمہوریت مغرب کے مختلف ملکوں میں مختلف انداز رکھتی ہے۔ اس لیے فطری طور پر مَیں اس نظریے پر پہنچا ہوں کہ ہندستان میں جہاں حالات مغربی ممالک سے بالکل مختلف ہیں، حکومت کا برطانوی پارلیمانی نظام اور نام نہاد جمہوریت قطعی طور پر نامناسب ہیں۔(مسلم یونی ورسٹی یونین، علی گڑھ، ۶مارچ ۱۹۴۰ء سے خطاب، Speeches, Statements & Messeges of the Quaid-e-Azam ، جلد دوم، ص ۱۱۵۸-۱۱۵۹)
پاکستان کے قیام سے قبل اور قیام کے بعد بانیِ پاکستان کے تصورِ پاکستان میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا۔ ۱۵جون ۱۹۴۵ء کے مندرجہ بالا بیان میں جو بات قائد نے کہی تھی وہ اسی بات پر آخردم تک قائم رہے۔ چنانچہ ۳۰؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو لاہور میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے کہا:
لمحہ بھر کے لیے بھی اس خیال کو اپنے دل میں نہ لایئے کہ آپ کے دشمن اپنے مذموم ارادوں میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جس صورتِ حال سے ہم دوچار ہیں، اسے معمولی بھی نہ خیال کیجیے۔ اپنے دلوں میں جھانکیے اور دیکھیے کہ کیا آپ نے اس نئی اور عظیم مملکت کی تعمیر میں اپنا حق ادا کردیا ہے؟
کام کی زیادتی سے گھبرایئے نہیں۔ نئی اقوام کی تاریخ میں کئی ایک مثالیں ہیں جنھوں نے محض عزم اور کردار کی قوت کے بل پر اپنی تعمیر کی۔ آپ کی تخلیق ایک جوہرآب دار سے ہوئی ہے اور آپ کسی سے کم بھی نہیں۔ اوروں کی طرح، اور خود اپنے آباواجداد کی طرح آپ بھی کیوں کامیاب نہ ہوں گے۔ آپ کو صرف اپنے اندر مجاہدانہ جذبے کو پروان چڑھانا ہوگا۔ آپ ایسی قوم ہیں جن کی تاریخ قابل، صلاحیت کے حامل کردار اور بلندحوصلہ اشخاص سے بھری ہوئی ہے۔ اپنی روایات پر قائم رہیے اور اس میں عظمت کے ایک اور باب کا اضافہ کردیجیے۔
اب میں آپ سے صرف اتنا چاہتا ہوں کہ ہرشخص تک میرا یہ پیغام پہنچا دیں کہ وہ یہ عہد کرے کہ وہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے اور اسے دنیا کی ان عظیم ترین قوموں کی صف میں شامل کرنے کے لیے بوقت ِ ضرورت اپنا سب کچھ قربان کردینے پر آمادہ ہوگا جن کا نصب العین اندرونِ ملک بھی امن اور بیرونِ ملک بھی امن ہوتا ہے۔(پنجاب یونی ورسٹی اسٹیڈیم لاہور میں عوام سے خطاب، ۳۰؍اکتوبر ۱۹۴۷ء، قائداعظم: تقاریر و بیانات، چہارم،ص ۳۸۹-۳۹۰)
قائداعظم نہ صرف ایک سیاسی مدبر تھے وہ ایک ماہر قانون دان کی حیثیت سے ایک ایک لفظ کے معنی اور اثرات سے بخوبی واقف تھے۔ ان کے نقاد بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ کھرے انداز میں بات کرنے کے قائل تھے اور کبھی ذومعنی با ت نہیں کہتے تھے۔ اپنے مقام کا احترام رکھتے ہوئے انھوں نے امریکی عوام کو خطاب کرتے ہوئے فروری ۱۹۴۸ء میں دستورِپاکستان کے حوالے سے جو بات کہی وہ ان کے تصورِ پاکستان کی پوری وضاحت کردیتی ہے۔ ان کے اپنے الفاظ میں:
مجلس دستور ساز پاکستان کو ابھی پاکستان کے لیے دستور مرتب کرنا ہے۔ مجھے اس بات کا تو علم نہیں کہ دستور کی حتمی شکل کیا ہوگی، لیکن مجھے اس امر کا یقین ہے کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا جس میں اسلام کے لازمی اصول شامل ہوں گے۔ آج بھی ان کا اطلاق عملی زندگی میں ویسے ہی ہوسکتا ہے جیسے کہ ۱۳سوبرس قبل ہوسکتا تھا۔ اسلام نے ہرشخص کے ساتھ عدل اور انصاف کی تعلیم دی ہے۔ ہم ان شان دار روایات کے وارث ہیں اور پاکستان کے آیندہ دستور کے مرتبین کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے باخبر ہیں۔ بہرنوع پاکستان ایک ایسی مذہبی مملکت نہیں ہوگی جس پر آسمانی مقصد کے ساتھ پاپائوں کی حکومت ہو۔ غیرمسلم، ہندو، عیسائی اور پارسی ہیں، لیکن وہ سب پاکستانی ہیں۔ انھیں وہ تمام حقوق اور مراعات حاصل ہوں گے جو کسی اور شہری کو حاصل ہوسکتی ہیں اور وہ اُمورِ پاکستان میں اپنا جائزکردار ادا کرسکیں گے۔ (امریکا کے عوام سے نشری خطاب،کراچی، فروری ۱۹۴۸ء، قائداعظم: تقاریر و بیانات، چہارم، ص ۴۲۱-۴۲۲)
اس اقتباس میں دستور سازاسمبلی کے پہلے صدر کی حیثیت سے بغیر دستوریہ کی راے کو متاثر کیے محتاط الفاظ میں وہ آخری فیصلہ دستور ساز اسمبلی کا تسلیم کرتے ہوئے ہر بات صاف الفاظ میں کہہ رہے ہیں کہ بہرصورت جو بھی دستور بنے گا وہ بنیادی طور پر اسلامی اصولوں کا مظہر و مرقع ہوگا اور اُس جمہوریت کا عکس ہوگا جو۱۳سو سال پہلے اسلام نے عہدنبویؐ میں قائم کی تھی، جس میں انسانی مساوات، عدل اور شفافیت پائی جاتی تھی۔
ساتھ ہی وہ یہ بات بھی وضاحت سے کہہ رہے ہیں کہ یہ نظام تھیاکریسی یا پاپائیت نہیں ہوگا جس میں چند مذہبی علَم بردار خدا بن کر فیصلہ کریں۔ یہ بعینہٖ وہی بات ہے جو مرحوم مولانا مودودی نے، علامہ اقبال نے، علامہ محمد اسد نے اپنی تحریرات میں کہی کہ اسلام میں تھیاکریسی نہیں ہے۔ خلافت اور شورائیت کا واضح مفہوم اللہ تعالیٰ اور انسانوں کے سامنے جواب دہی اور احتساب کے ساتھ حکومت کرنا ہے جو اسلام کی روح ہے۔ اس میں کوئی بڑے سے بڑا عالمِ دین اپنے آپ کو منزہ عن الخطاقرار دے کر تھیاکریسی کے طرز پر فیصلے صادر نہیں کرسکتا۔
دستور سازی کی بنیاد کو واضح طور پر بیان کرنے کے ساتھ ہی قائداعظم نے ان تمام غباروں میں سے ہوا نکال دی جو دین و سیاست کے الگ ہونے اور ریاست کا کوئی مذہب نہ ہونے کی ڈفلی بجابجا کر اپنے آپ کو خوش اور دوسروں کی آنکھ میں دن کی روشنی میں دھول ڈالنے میں آج بھی ملک میں دانش ورانہ ادائوں کے ساتھ مصروف پائے جاتے ہیں۔ بانیِ پاکستان کے اپنے الفاظ میں:
آپ نے دنیا کو فسطائیت کی مصیبت سے نجات دلانے اور اسے جمہوریت کے لیے محفوظ کرنے کے لیے خطہ ارض کے دُور دراز گوشوں میں بہت سی لڑائیاں لڑی ہیں۔ اب آپ کو اپنے وطن میں اسلامی جمہوری، معاشرتی عدل اور انسانی مساوات کے فروغ اور بقا کے لیے سینہ سپر ہونا ہوگا۔(ملیر چھائونی میں فوجی افسروں اور جوانوں سے خطاب، ۲۱فروری ۱۹۴۸ء، قائداعظم: تقاریر و بیانات، چہارم، ص ۴۱۹)
بانیِ پاکستان نے بات محض جمہوریت کی نہیں کی بلکہ جو اصلاح استعمال کی وہ Islamic Democracy ہے اور اس کے ساتھ اسلامی معاشرتی عدل کا اضافہ کیا۔ اگر بانیِ پاکستان کے ذہن میں ’مذہب‘ ایک ذاتی معاملہ تھا تو اُوپر درج کیے گئے تمام بیانات سے ان کا مدعا کیا تھا؟ جیساکہ پہلے عرض کیا گیا کہ ان کے نقاد بھی ان کے خلوص، نڈر، دوٹوک بات کرنے اور نفاق سے پاک رویے کا اعتراف کرتے ہیں۔ اتنے واضح طور پر اپنا مدعا بیان کرنے کے بعد بھی اگر کوئی ان پر تہمت لگاتا ہے کہ وہ پاکستان کے دستور کو اسلام سے خالی اور ملک کو ’سیکولر‘ بنانا چاہتے تھے تو اس میں قصور بانیِ پاکستان کا نہیں ان نام نہاد دانش وروں کی دانش کا نظر آتا ہے۔
اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ۲۳فروری ۱۹۴۸ء کو بانیِ پاکستان جن الفاظ کا انتخاب کرتے ہیں انھیں پڑھنے کے بعد صرف بصیرت اور بصارت سے محروم شخص ہی ان کے تصورِ پاکستان کو ’سیکولر‘ کہہ سکتا ہے، جب کہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ ان کے کسی ایک خطاب یا بیان میں لفظ سیکولر نام لینے کو ایک مرتبہ بھی استعمال نہیں کیا گیا۔ بانیِ پاکستان کہتے ہیں:
یہ مملکت جو کسی حد تک اس برصغیر کے ۱۰کروڑ مسلمانوں کے حسین خواب کی تعبیر ہے، ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو معرضِ وجود میں آئی۔ پاکستان سب سے بڑی اسلامی مملکت اور دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ (امریکاکے عوام سے نشری خطاب، کراچی، فروری۱۹۴۸ء، قائداعظم: تقاریر و بیانات، چہارم، ص ۴۲۰)
بانیِ پاکستان کی نگاہ میں اسلام اور پاکستان کا رشتہ کیا تھا اسے سمجھنے کے لیے نہ صرف بانیِ پاکستان کے بیانات و تقاریر بلکہ خود ان کی اپنی فکر اور حیات کو بغور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بعض اوقات ہم تک تاریخی معلومات بھی آدھی یا اُس سے کم پہنچتی ہیں اور بقیہ معلومات غیرارادی یا ارادی طور پر نظروں سے اوجھل کردی جاتی ہیں۔ خواجہ عبدالرحیم تحریکِ پاکستان کے سرگرم کارکنوں میں شمار ہوتے تھے۔ ۲۴مارچ ۱۹۴۰ء کو قراردادپاکستان کے ایک دن بعد انھوں نے اپنے گھر پر قائداعظم اور دیگر عمائدین کو مدعو کیا۔ بانیِ پاکستان نے وہاں پر جو بات کہی وہ غیرمعمولی اہمیت کی حامل ہے:
تم نے اور چودھری رحمت علی نے جو نام ۱۹۳۰ء میں تجویز کیا تھا اس پر بہت سرگرمی سے ہندو پریس میں بات ہورہی ہے۔ خواجہ رحیم نے قائداعظم سے پوچھا: پھر آپ کے خیال میں مملکت کا نام کیا ہونا چاہیے؟ علامہ اقبال بھی اس نام کو پسند کرچکے تھے۔ اس پر قائداعظم نے کہا: اگر تم لوگ اور مسلم قوم کو یہ نام پسند ہے تو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں سواے اس کے کہ پمفلٹ پر تم نے جو نام لکھا ہے وہ Pakistan ہے ، اس میں ’I‘ اسلام کے لیے اضافہ کردو جو ان تمام صوبوں کے درمیان جوڑنے والی کڑی ہے۔ خواجہ رحیم نے قائد کا یہ پیغام چودھری رحمت علی کو پہنچایا جو اُن دنوں کراچی میں آئے ہوئے تھے۔ چند دنوں کے بعد قائد علی گڑھ گئے جہاں ان کا استقبال ’قائداعظم زندہ باد، پاکستان زندہ باد‘ کے نعروں سے ہوا۔اس پر آپ نے کہا کہ یہ درست نہیں ہے کہ ایک فانی شخص کو زندہ باد کہا جائے۔ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان زندہ باد کہا جائے۔ پھر آپ نے دہرایا کہ ’’اگر ہند کے مسلمان اپنے ملک کا یہ نام رکھنا چاہتے ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں صرف اس میں ’I‘ کا اضافہ کرلے جو اسلام کی علامت ہے اور جو تمام صوبوں کے درمیان اتحاد کا حصہ رہے۔ (سلطان زہیر اختر، شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات، ۱۹۹۸ء، ص ۲۴)
گذشتہ کچھ عرصے سے پاکستانی صحافت اس مضحکہ خیز سطح پر اُتر آئی ہے کہ ملک کے انگریزی اخبارات میں قائداعظم کا خاکہ نصف چہرے پر ڈاڑھی کے ساتھ دکھایا گیا ہے! مسلمان کو تو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے کہ جو اس کے ساتھ بھلائی کرے اس کے احسان اور شکر کا اظہار کرے، کجا یہ ہ وہ اس کا خاکہ اُڑا کر اپنے نفس کی تسکین کرے! کاش! تاریخ کا چہرہ مسخ کرکے حقائق کو توڑ مروڑ کر گمراہ کن انداز میں دیکھنے اور پیش کرنے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے ۱۹۳۹ء کے خطاب کو ایک نگاہ ڈال لیتے جو۲۲؍اکتوبر ۱۹۳۹ء کو لاہور کے روزنامہ انقلاب میں طبع ہوا۔ قائد کے الفاظ یہ تھے:
میں نے بہت دنیا دیکھی ہے اور کافی دولت مند ہوں۔ زندگی کی تمام آسایشوں کا مَیں نے لطف اُٹھایا ہے۔ میری واحد خواہش یہ ہے کہ مسلمان ایک آزاد کمیونٹی کی حیثیت سے پھلے پھولیں۔ میں اس دنیا کو ایک صاف ضمیر کے ساتھ چھوڑنا چاہتا ہوں اور اس احساس اور اطمینان کے ساتھ کہ جناح نے اسلام کے مقاصد سے دھوکا نہیں کیا۔ مجھے آپ سے کسی تعریف یا سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں میرا دل، میرا ضمیر اور میرا ایمان میری موت کے وقت یہ ثابت کرے کہ جناح اسلام اور مسلمانوں کے مقاصد کا دفاع کرتے ہوئے مرا۔ اللہ یہ شہادت دے کہ جناح کفر کی طاقتوں کے خلاف اسلام کا جھنڈا اُٹھائے ہوئے ایک مسلمان کی طرح جیا اور مرا۔(صفدر محمود، Quaid Wanted Islamic Democratic Progressive State ڈان، ۲۳ مارچ ۲۰۰۲ء)
نہ صرف یہ بلکہ جولائی ۱۹۴۷ء میں قائد نے ۱۰-اورنگ زیب روڈ، دہلی اپنے گھر پر مولانا شبیراحمد عثمانی مرحوم کو دعوت دی۔ مولانا نے پوچھا: پاکستان کا دستور کس نوعیت کا ہوگا؟ بانیِ پاکستان نے جواب دیا: قرآن پاکستان کا دستور ہوگا۔ میں نے قرآن ترجمے کی مدد سے پڑھا ہے۔ میرا ایمان ہے کہ کوئی دستور قرآنی دستور سے بہتر نہیں ہوسکتا۔ میں نے یہ جنگ (آزادی) مسلمانوں کے ایک سپاہی کی حیثیت سے جیتی ہے۔ میں قرآنی دستور کا ماہر نہیں ہوں۔ میں آپ سے درخواست کروں گا کہ آپ اور آپ کی طرح کے دیگر علما مل کر قرآنی دستور تیار کریں۔ (سعید راشد، قائداعظم گفتار و کردار، لاہور، مکتبہ میری لائبریری ۱۹۸۶ء)
اسلام اور ریاست کے تعلق کے حوالے سے اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے تحقیقی شعبے کا افتتاح کرتے وقت یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو قائداعظم نے اپنی وفات سے صرف دو ماہ پہلے جو خطاب کیا وہ یہ شہادت دیتا ہے کہ قرآنی دستور کی طرح وہ اسلامی معاشیات اور بنکاری کو پاکستان میں رائج دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کے اپنے الفاظ ہیں:
آپ کا تحقیقی شعبہ،بنکاری کے طور طریقوں کو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات سے ہم آہنگ کرنے کے سلسلے میں جو کام کرے گا مَیں ان کا دل چسپی کے ساتھ انتطار کروں گا۔ اس وقت مغربی اقتصادی نظام نے تقریباً ناقابلِ حل مسائل پیدا کردیے ہیں اور ہم میں سے اکثر کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید کوئی معجزہ ہی دنیا کو اس بربادی سے بچاسکے جس کا اسے اس وقت سامنا ہے۔ یہ افراد کے مابین انصاف کرنے اور بین الاقوامی سطح سے ناچاقی کو دُور کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ برعکس اس کے گذشتہ صدی میںدو عالمی جنگوں کی زیادہ تر ذمہ داری بھی اس کے سر ہے۔ مغربی دنیا اس وقت اپنی میکانکی اور صنعتی اہلیت کے باوصف جس بدترین ابتری کی شکار ہے وہ اس سے پہلے تاریخ میں کبھی نہ ہوئی ہوگی۔ مغربی اقدار، نظریے اور طریقے خوش و خرم اور مطمئن قوم کی تشکیل کی منزل کے حصول میں ہماری مدد نہیں کرسکیںگے۔ ہمیں اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے اپنے ہی انداز میں کام کرنا ہوگا اور دنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہوگا جس کی اساس انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے سچے اسلامی تصور پر استوار ہو۔ اس طرح سے ہم مسلمان کی حیثیت سے اپنا مقصد پورا کرسکیںگے اور بنی نوع انسان تک پیغامِ امن پہنچا سکیں گے کہ صرف یہی اسے بچاسکتا ہے اور انسانیت کو فلاح و بہبود، مسرت و شادمانی سے ہمکنار کرسکتا ہے۔ (اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب میں خطاب، کراچی، یکم جولائی ۱۹۴۸ء ، قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلدچہارم، ص ۵۰۱)
ان مصدقہ بیانات اور خطابات کے بعد کسی کا معصوم سی شکل بناکر یہ کہنا کہ ہم نہیں جانتے قائد کس طرح کا پاکستان، کس طرح کا دستورِ پاکستان اور کس طرح کی معیشت ملک میں نافذ کرنا چاہتے تھے، اگر بدنیتی نہیں تو کم از کم تاریخی حقائق سے مذاق نظر آتا ہے۔
جن بنیادی اُمور کو بانیِ پاکستان نے اپنی واضح اور مدلل بات سے طے کردیا تھا انھیں نئے سرے سے ایک issue بنانا بجاے خود منفی اور فکری انتشار کا پتا دیتا ہے۔ ان تمام حقائق کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ایک علمی بددیانتی یہ بھی کی جاتی ہے کہ قائد کے ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کے دستورساز اسمبلی کے خطاب کو سیاق و سباق سے علیحدہ کر کے محض دو جملوں کو بار بار دہرا کر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ ’مذہب‘ کو ایک ذاتی معاملہ اور سیاست سے الگ تصور کرتے تھے۔ یہ بانیِ پاکستان پر ایک گھنائونا اتہام ہے کیونکہ اس پورے بیان میں انھوں نے نہ سیکولر کا لفظ استعمال کیا نہ اس طرف کوئی اشارہ کیا۔ جو بات انھوں نے کہی اگر ان کے اپنے الفاظ میں سُن لی جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجاتا ہے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ اگر محض بطور مفروضہ ہم وقتی طور پر یہ مان بھی لیں کہ اس خطاب میں انھوں نے مذہب کو سیاست سے الگ کردیا تو اُوپر درج کیے گئے سارے بیانات جو قیامِ پاکستان سے قبل اور اس تنہا تقریر، یعنی ۱۱؍اگست کے بعد دیے گئے ہیں، ان کی حیثیت کیا تھی؟ ان تمام تقاریر و بیانات میں جو ۱۱؍اگست کے حوالے کے بعد والے ہیں وہ واشگاف الفاظ میں نہ صرف اسلام بلکہ شریعت کی بنیاد پر پاکستان کے نظام کا ذکر کرتے ہیں۔ ۲۵جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی میں خالق دینا ہال میں بار ایسوسی ایشن کراچی سے خطاب کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں:
وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ لوگوں کا ایک طبقہ جو دانستہ طور پر شرارت کرنا چاہتا ہے، یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی۔
قائداعظم نے فرمایا: آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پر اسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح ۱۳سو برس پیش تر ہوتا تھا.....
جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو بلاشبہہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس بات کو بالکل نہیں سراہتے۔
اسلام نہ صرف رسم و رواج ، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ ہے، بلکہ اسلام ہرمسلمان کے لیے ایک ضابطہ بھی ہے جو اس کی حیات اور اس کے رویے بلکہ اس کی سیاست و اقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے۔ یہ وقار، دیانت، انصاف اور سب کے لیے عدل کے اعلیٰ ترین اصولوں پر مبنی ہے۔ ایک خدا اور خدا کی توحید، اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔ اسلام میں ایک آدمی اور دوسرے آدمی میں کوئی فرق نہیں۔ مساوات، آزادی اور یگانگت، اسلام کے بنیادی اصول ہیں۔
ہم نے صفحات کی تنگی کے پیش نظر قائد کے واضح اور بلندآہنگ بیانات کو صرف نقل کردیا ہے۔ ان میں سے ہرخطاب اور بیان پر اگر کوئی تجزیاتی مضمون تحریر کیا جائے تو ایک کتاب تیار ہوسکتی ہے۔ ہماری نوجوان نسل کو خصوصی طور پر ان خطابات کو بغور پڑھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ پاکستانیات کے نام سے انھیں جو کچھ پڑھایا گیا ہے اس کے ماخذ برطانوی اور امریکی مصنّفین کی پاکستان کے بارے میں لکھی ہوئی کتابیں ہیں، جن کا بنیادی مفروضہ ہی یہ ہے کہ قائداعظم ایک سیکولر انسان تھے اور ایک سیکولر پاکستان بنانا چاہتے تھے۔ یہ دونوں مفروضے حق و صداقت سے دُوری اور قیاس و گمان کی بنیاد پر تاریخ مسخ کرنے کی مثال کہے جاسکتے ہیں۔ ظلم کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بانیِ پاکستان اور پاکستان کے تصور کو جانے اور سمجھے بغیر اخباری اور برقی صحافت میں غیرمعتبر باتوں کو اتنی کثرت سے بیان کیا جائے کہ ناظرین افواہ کو حقیقت ماننے پر مجبور ہوجائیں۔