۱۴ جنوری ۲۰۱۱ء کو زبردست عوامی احتجاجات نے برادر مسلمان ملک تیونس پرتین دہائیوں سے مسلط سابق صدر زین العابدین بن علی کو اقتدارچھوڑ کرملک سے فرار ہونے پر مجبور کر دیاتھا۔ اسی سال۲۱۷رکنی دستورساز اسمبلی کے لیے انتخابات ہوئے۔ یہ ملکی تاریخ کے پہلے کثیر الجماعتی انتخابات تھے، اس سے پہلے صرف صدر مملکت اور ان کی پارٹی ہی انتخابات’لڑنے اور جیتنے‘ کی اہل تھی۔ ان انتخابات میںراشد الغنوشی کی سربراہی میں اسلامی تحریک ’ تحریک نہضت‘دوسری تمام پارٹیوں سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی لیکن ۵۰ فی صد نشستوں کے نہ ہونے کی وجہ سے نہضت کی قیادت میںمخلوط حکومت تشکیل پائی۔
پہلی منتخب حکومت کے سامنے متعدد بحرانات اور پیچیدہ قسم کے مسائل تھے جن سے نپٹنے کے لیے دو چار سال ہرگز کافی نہ تھے۔ملک میں جبر سے آزاد نئے سیاسی ماحول کا آغازہی نہیں، سیکولر اور بے دین قوتوں کا اسلام سے خوف بھی ایک مسئلہ تھا۔ بورقیبہ اور بن علی کی حکومتوں کی طرف سے ملک کو اسلامی تشخص سے محروم کرنے اور فرانسیسی اور مغربی تہذیب کو رواج دینے کے لیے کئی دہائیوںپر محیط کوششوں کے اثرات کو مٹانا انتہائی کٹھن اور محنت طلب کام تھا۔نصف صدی سے زائد عرصے سے ملک میں صرف طاقت، خوف اور ظلم کاراج تھا۔ حکمران طبقہ ہرقانون سے بالاتر تھا۔ اب، جب کہ ایک جمہوری حکومت عوام کو نصیب ہوئی تو ایک طرف عوام کو آزادیِ اظہار راے کا موقع ملا، تو دوسری جانب نو منتخب حکومت نے بھی خود کو قانون کا پابند بناتے ہوئے طے کر لیا کہ وہ ضابطے اور قانون سے ہٹ کر کوئی کام نہیں کرے گی۔ انقلاب کے بعد عموماً حکومتیں کمزور ہوا کرتی ہیں۔ یہی حال نہضت کی قیادت میں مخلوط حکومت کا تھا۔ایک طرف ۵۰ سالہ آمریت کی باقیات کا احتساب مطلوب تھا اور دوسری طرف متعصب سیکولر سیاسی پارٹیوں کی دشمنی کا سامنا تھا۔ اچانک اُٹھ کھڑے ہونے والے مسلح گروہوں کو کنٹرول کرنے کے لیے بھی انتہائی حکمت، صبر وتحمل اور جہدمسلسل کی ضرورت تھی۔ حکمرانوں کے ظلم وستم سے تنگ عوام نے بھی جلد بازی سے کام لیتے ہوئے فوری طور پر ہر قسم کے مسائل کے خاتمے کے مطالبات شروع کر دیے تھے۔
لیکن ان سب مسائل کے باوجود اپنے دور حکومت میںنہضت کی قیادت نے داخلی اور خارجی مسائل اور سازشوں کے مقابلے میں انتہائی عقل مندی، تدبر، سیاسی بصیرت اور طویل المدت حکمت عملی کامظاہرہ کیا۔ آنے والے مہ وسال ثابت کریں گے کہ تحریک نہضت کی یہ صابرانہ و حکیمانہ پالیسی سب تحریکات اسلامیہ کے لیے مشعل راہ ہے۔
تحریک نہضت نے ملک کے سیکولر اور لادین عناصر سمیت پوری قوم کو ساتھ لے کر چلنے، وسیع تر ملکی مفاد میں تنگ نظری اور اَنا پرستی کو ترک کرتے ہوئے مخاصمت اور تصادم کے بجاے وسعت قلبی اور مفاہمت کی پالیسی اختیار کی۔ ہرچیلنج ، سازش اور اشتعال انگیزی کا مقابلہ تحمل، رواداری اور نرم گوئی سے کیا۔راشد غنوشی کی قیادت میں نہضت نے عملی طور پر ثابت کر دیا کہ وہ جمہوریت کے حقیقی علَم بردار ہیں۔وہ ایک ایسی اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے کوشاں ہیں جہاں تمام شہریوں کومساوی بنیادی انسانی حقوق میسر ہوں۔تمام شعبہ ہاے زندگی میں ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔ہر فرد اور پارٹی کو ملک کی خدمت کے لیے برابر مواقع میسر ہوں،اور کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ متعدد عرب ممالک سے ڈکٹیٹرشپ کے خاتمے کے چارسال بعد آج ان ممالک میں سے تیونس وہ واحد ملک ہے ، جہاں جمہوری اقدار قدرے مضبوط نظر آتی ہیں۔انتہائی کٹھن اور دشوار مراحل سے گزرتے ہوئے دوبرس کی سخت محنت کے نتیجے میں ۲۶جنوری ۲۰۱۴ء کونیا آئین منظور ہوا۔ اور ۲۶؍اکتوبر۲۰۱۴ء کو پارلیمانی انتخابات کے موقعے پر عوام نے پہلی مرتبہ پوری آزادی کے ساتھ اظہار راے کا حق استعمال کیا۔جس کے نتیجے میں ملک پُرامن انتقالِ اقتدار کے حتمی مراحل کی جانب گام زن ہے۔
واضح بیرونی مداخلت، نیز اسلامی تحریکات سے کھلی دشمنی کا مظاہرہ کرنے والے بعض عرب ممالک کی طرف سے نہضت کے خلاف اربوں ڈالر جھونک دیے جانے کے باوجود حالیہ پارلیمانی انتخابات کا مرحلہ خوش اسلوبی سے طے پایا۔اگرچہ سرکاری نتائج کے مطابق سابق وزیراعظم اور صدر بورقیبہ کے دور میں اہم عہدوں پر رہنے والے الباجی قائد السبسی کی سربراہی میںسیکولر پارٹی ’نداے تیونس‘ ۸۶سیٹیں حاصل کر کے پہلے نمبر پر رہی لیکن وہ مختلف النوع، مختلف الخیال گروہوں کا ایک مجموعہ ہے جسے صرف ’نہضت‘ دشمنی میں اکٹھا کیا گیا ہے۔ تحریک نہضت ۶۹نشستوں پر کامیاب ہو کر دوسرے نمبر پر آئی ہے۔یکسو اورمضبوط نظریاتی بنیادوں والی جماعت کی حیثیت سے تحریک نہضت ہی نومنتخب ایوان کی اصل قوت ثابت ہوگی۔ نہضت چاہے تو جوڑ توڑ کی سیاست کرکے اب بھی کوئی کمزور حکومت قائم کرسکتی ہے، لیکن اس کی تمام تر توجہ حصولِ اقتدار نہیں، مستحکم اور آزاد ملکی نظام کی تشکیل و استحکام پر مرکوز ہے۔حالیہ پارلیمانی انتخابات اس لحاظ سے بھی اہمیت کے حامل تھے کہ ان کے نتیجے میں ملک میں عبوری سیاسی مرحلے کا اختتام ہوا، اوراس لحاظ سے بھی بہت اہمیت کے حامل تھے کہ یہ انقلاب کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان ایک اعصاب شکن سیاسی معرکہ تھا ۔
تحریک نہضت کی قیادت نے کھلے دل سے نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے نداے تیونس کے سربراہ الباجی قائد السبسی کو مبارک باد دی ہے، ساتھ ہی ملک کے وسیع تر مفاد میں قومی حکومت تشکیل دینے کا مشورہ بھی دیاہے۔ تیونس کے قانون کے مطابق حکومت کی تشکیل کی ذمہ داری اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی کو سونپی جاتی ہے ، لیکن ۵۰فی صد نشستوں پر کامیاب نہ ہوپانے کے باعث سب سے بڑی پارٹی نداے تیونس کو بھی مخلوط حکومت ہی تشکیل دینا پڑے گی۔نداے تیونس کی قیادت نے کہا تھا کہ ۲۳نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے بعد ہی ان کی پارٹی فیصلہ کرے گی کہ کس کے ساتھ مل کر حکومت بنائی جائے۔اہم بات یہ ہے کہ نہضت کے پاس بھی اتنی نشستیں ہیں کہ اس کے بغیرکوئی بھی بل پاس نہیں ہوسکے گا۔
پارلیمانی انتخابات کے بعدایک اہم مرحلہ۲۳نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات تھے۔ نہضت نے صدارتی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان تو بہت پہلے کر دیا تھا۔ انتخابات سے پہلے انھوں نے کسی متعین صدارتی امیدوار کی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا۔ انھو ں نے اپنے ووٹرز کو اختیار دیا کہ وہ جسے زیادہ اہل سمجھیں اسے ووٹ دیں۔ میدان میں ۲۵صدارتی امیدوار تھے لیکن اصل مقابلہ دو بڑے امیدواروں : نداے تیونس کے سربراہ الباجی قائد السبسی اور موجودہ صدر منصف المرزوقی کے درمیان رہا۔ السبسی نے۴۶ء۳۹ فی صد اور منصف المرزوقی نے۴۳ء۳۳ فی صد ووٹ حاصل کیے۔ باقی امیدوار بہت نیچے تھے۔ اب دونوں بڑے اُمیدواروں کے مابین ۲۸دسمبر کو دوبارہ مقابلہ ہوگا۔ ووٹ تقسیم سے بچیں گے تو امید ہے کہ زیادہ فائدہ صدر منصف کو حاصل ہوگا۔ نہضت بھی شاید کسی نہ کسی صورت اس کی واضح تائید کر دے۔ لیکن تحریک نہضت کا فیصلہ ہے کہ فی الحال وہ خود اقتدار میں نہیں آئے گی۔ معاشرے کے ایک ایک فرد کے سامنے اپنی دعوت پیش کرے گی۔ نو منتخب حکومت کی کارکردگی بھی بہت جلد اپنا چہرہ عوام کو دکھا دے گی اور ان شاء اللہ جلد یا بدیر تیونس کے حالیہ سیاسی نقشے پر خیر غالب ہوکر رہے گا۔واضح رہے کہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے منصف المرزوقی صرف تحریک نہضت کی تائید و حمایت کی بدولت ہی گذشتہ تین برس سے منصب صدارت پر فائز تھے۔ نتائج سے واضح ہوتا ہے کہ اعلان نہ کرنے کے باوجود تحریک نہضت کے اکثریتی ووٹ منصف المرزوقی کے پلڑے میں پڑے، جب کہ انقلاب کے مخالفین، متشدد سیکولر اور سابق صدر زین العابدین کے دور میں اہم حکومتی عہدے داروں کی تمام تر تائید نداے تیونس کو حاصل ہوئی۔
پارلیمانی انتخابات کے بعد ہی سے ذرائع ابلاغ پر تیونس کے مستقبل کے بارے میں مختلف تبصرے کیے جا رہے ہیں لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ انقلاب کے بعد انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی اسلامی تحریک ۲۰۱۴ء کے انتخابات میں آخر کیوں دوسرے نمبر پر آگئی؟اس کے جواب میں مخالفین اپنا پورا زوریہ ثابت کرنے پر لگا رہے ہیں کہ ’سیاسی اسلام‘ ناکام ہوگیا۔ آج کے دور میں اسلام کا نظام نہیں چل سکتا۔ اسلام عصر حاضر کے گمبھیرمسائل کا حل نہیں دے سکتا، لیکن یہ حقیقت بھی سب پر آشکار ہے کہ وہ تمام عالمی اور علاقائی طاقتیں تحریک نہضت کے خلاف مکمل طور پر میدان میں تھیں جنھوں نے اس سے قبل مصر میں منتخب حکومت اور عوامی راے کو کچل ڈالا۔ یہ سب قوتیں مصر کی طرح تیونس میں خون کے دریا تو نہیں بہا سکیں لیکن دولت، ذرائع ابلاغ اور معاشرے کے طاقت ور افراد کے بل بوتے پر انھوں نے سب اسلام دشمنوں کو یک جا کردیا۔
گذشتہ نصف صدی سے زائد عرصے تک ملک میں آمریت اور فوجی ظلم وستم کا راج رہا۔ حکمرانوں نے اپنے خلاف آواز اٹھانے والے ہر فرد اور تحریک کو کچل کر رکھ دیا۔بڑے بڑے علما اوراسلامی فکر کے علَم برداروں کو بیڑیاں ڈال کر جیلوں میں بند کر دیا گیا۔معاشرے میںفکری، اخلاقی ، معاشی او ر معاشرتی زوال کو فروغ دیا۔۲۰۱۱ء کے انقلاب کے بعد مختصر عرصے میںقوم کو اپنا مکمل ہم نوا بنانا نہضت کے لیے ممکن نہ تھا۔ ملک میں بنیادی آزادیاں اور جمہوریت بحال کرنا بھی ایک بہت بڑا چیلنج تھا جس کے لیے دسیوں سالوں کی محنت درکار تھی ۔ الحمد للہ تین سال کے عرصے میںعوام کو ایک متفقہ آئین اورآزادی مہیا کرنا نہضت کی ایک بڑی کامیابی ہے۔بعض لوگوں کی راے ہے کہ نہضت کے دوسرے نمبر پرآنے سے ایک طرف ملک میں انقلاب دَر انقلاب کا خطرہ ٹل گیا ہے کیونکہ جن سے خطرہ تھا وہی اب حکومت میں ہیں۔ دوسری طرف تحریک نہضت کو اپوزیشن میں رہ کر حکومتی غلطیوں سے سیکھنے اور اسے ان سے روکنے کا موقع ملے گا۔ اپنی تنظیم نو اور دعوت کو پھیلانے کا وقت ملے گا۔سماجی اور دعوتی سرگرمیوں پر پوری توجہ دینے کی فرصت ملے گی، اور ان شاء اللہ آیندہ انتخابات کو ہدف بنا کر مزید آگے بڑھنے کا موقع ملے گا۔ گویا تحریک نہضت اکثریت حاصل نہ کر کے بھی کامیاب رہی۔