جون ۲۰۱۱

فہرست مضامین

دنیا اور آخرت

خرم مراد | جون ۲۰۱۱ | تزکیہ و تربیت

Responsive image Responsive image

اس دنیا میں ہماری زندگی ایک حقیقت ہے، اور جتنی بڑی حقیقت دنیا کی یہ زندگی ہے،  اتنی بڑی حقیقت یہ ہے کہ اس زندگی کو لازماً ختم ہوجانا ہے۔ کسی بات کے بارے میں بھی بحث، گفتگو یا اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن اس بارے میں کوئی اختلاف یا بحث کی گنجایش نہیں ہے کہ یہ زندگی ختم ہوگی___ یہ بڑی واضح اور اٹل بات ہے۔ اور پھر جتنی بڑی حقیقت یہ ہے کہ یہ زندگی اللہ کی بخشی ہوئی ہے اور اسی نے اس کو پیدا کیا ہے، اتنی ہی بڑی حقیقت یہ بھی ہے کہ ہم اس کے سامنے حاضر ہوں گے۔ مخلوق کی خالق سے ملاقات ہوگی۔ اس سے ملاقات نہ ہو تو یہ سارا سلسلہ محض ایک واہمہ اور ایک تخیل بن کر رہ سکتاہے___ اللہ موجود ہے، وہ یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور  یہ کہ واقعی وہ ہے، اس کی آخری تصدیق اسی وقت ہوسکتی ہے جب اس سے ملاقات ہو۔ ساری زندگی اللہ کی بندگی اور اس کی غلامی میں گزارنے کے لازمی معنی یہ ہیں کہ موت کے بعد آنے والی زندگی میں اس سے ملاقات ہو، اور اس کی بندگی اور غلامی کی راہ میں جو ہماری کوششیں ہوں، ان کو وہ قبول فرمائے اور وہ اس کی خوشنودی اور اس کی رضامندی کی مستحق ٹھیریں۔ پس جو آدمی اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان کا دعویٰ کرے، اس کو ان دونوں کو ملا کر چلنا ہوگا۔ اس لیے کہ اللہ پر ایمان کا دعویٰ آخرت کے یقین کے بغیر، عملی زندگی میںکوئی وزن نہیں رکھتا۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم نے جس ہستی کو ہر جگہ محسوس کیا ہو، ہر جگہ پایا ہو، موت کے ساتھ ہی اچانک وہ ہم سے لاتعلق ہوجائے۔ اگر اللہ سے ملاقات، آنے والی زندگی، اس کا احتساب، اس کی رضا اور اس کا انعام، یہ ساری چیزیں حقیقت نہ ہوں تو پھر بندگی، اطاعت، اس کی راہ میں جان لڑانے اور جہاد فی سبیل اللہ کے معنی کیا رہ جاتے ہیں، بلکہ وہ آدمی بڑا احمق ہے جو نیکی کرے اور یہ یقین  نہ رکھتا ہو کہ آخرت میں اللہ سے ملاقات ہونی ہے، یعنی خدا کو مانتا ہو، آخرت کو نہ مانتا ہو۔  صاحب ِ ایمان تو صاحب ِ شعور بھی ہوتا ہے، اور ایمان کو بہرطور کامل ہونا چاہیے۔ یہی شعور کا تقاضا ہے___ یہ بنیادی مقدمات ہیں، جنھیں ذہن میں صاف ہونا چاہیے۔

  •  چند بنیادی پھلو: اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ آخرت پر ایمان کے معنی یہ ہیں کہ دنیا کی ساری زندگی، یہاں کی ساری کوششوں، ہرچیز، ہربات، ہر کاوش اور ہرقدم کا محور آخرت ہو۔ یہ ایمان بالآخرت ہے اور جتنا یہ ایمان مضبوط ہوگا، اتنا ہی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمارا تعلق بھی مضبوط ہوگا۔ خود اللہ تعالیٰ نے بار بار دونوں کو ایک دوسرے سے مربوط کیا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ عبادت، غلامی اور بندگی کی دعوت جہاں بھی آئی ہے اس میں آخرت کو مطلوب و مقصود قرار دینے اور اس کی کامیابی کو سمجھ کر جینے کی دعوت بھی شامل ہے۔    انبیا علیہم السلام کی ساری دعوت کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ زندگی اگر غلامی میں بسر کرنا ہے تو یہ سمجھ کر بسر کرو کہ جب اس سے ملاقات ہوگی تو وہی اس فیصلے کا دن بھی ہوگا کہ ہم نے فی الواقع زندگی  اس کی غلامی میں بسر کی یا نہیں۔

تیسری بات یہ ہے کہ ہمیں ایک مشکل کا سامنا ہے___ دنیا ہماری نگاہوں کے سامنے ہے۔ اس کو ہم دیکھتے ہیں، محسوس کرتے ہیں۔ اس کی لذات سے ہم آگاہ ہیں۔ اس کی تکالیف سے اور درد اور الم کی کیفیات سے گزرتے ہیں۔ یہ ایسی حقیقتیں ہیں جن سے انکار ممکن نہیں ہے۔ آخرت ایک وعدہ ہے، نگاہوں سے اوجھل ہے۔ اس کی لذتیں ہم محسوس نہیں کرتے۔ دیکھتے نہیں، سنتے ہیں کہ وہ ایسی ہوں گی۔ اس کی تکلیفوں سے ہم واقف نہیں ہیں۔ اور یہ ہماری فطرت ہے کہ ہم کل کے اُوپر آج کو، دُور کے مقابلے میں قریب کو، اور غیرمحسوس چیز کی جگہ محسوس چیز کو ترجیح دیتے ہیں اور اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ یہ معاملہ دنیا اور آخرت کے بارے میں ہی نہیں ہے بلکہ خود دنیا میں ہمارا یہ حال ہوتا ہے کہ کل آنے والی چیز اور کچھ مدت بعد ملنے والی شے کو ہم ٹال دیتے ہیں اور جو چیز فوری طور پر مل رہی ہو، اس کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ فی الحقیقت ہمارے امتحان کا ایک حصہ ہے۔

  •  دنیا کو ترجیح دینا: دنیا کی محبت، اس کے اُوپر راضی ہوجانا اور اسی کو مقصود بنانا ایک ایسی بیماری ہے، جو اللہ کی راہ میں اُٹھنے والے ہرقدم اور کوشش کو گھُن کی طرح کھا جاتی ہے۔یہ یقین کہ اللہ سے ملاقات ہونی ہے اور اسی کو مطلوب و مقصود بنانا ہے وہ چیز ہے جس سے ان سارے مراحل کو طے کرنے کے لیے، جو راہِ حق میں پیش آتے ہیں، صحیح قوت اور طاقت پیدا ہوتی ہے۔

یہ بیماری کہ آدمی دنیا کو ترجیح دے، دنیا سے محبت کرے، نقد کو حاصل کرے، اُدھار کو ٹال دے اور آج جو کچھ ہے اس کو قیمتی جانے، اور جو کچھ کل آنے والا ہے اس کو محسوس نہ کرے___ یہ جس طرح کافروں کے ساتھ لگی ہوئی ہے اسی طرح ان کے ساتھ بھی لگی رہتی ہے جو ایمان کی راہ پر آتے ہیں۔ ایک ہی دنیا ہے۔ کافر بھی اس میں رہتے ہیں اور مسلمان بھی اسی میں رہتے ہیں۔ دونوں کو ایک ہی قسم کے حالات سے سابقہ پیش آتا ہے۔

جہاں جہاں بھی مسلمان ایمان کے دعوے میں اور اس کے تقاضے پورے کرنے میں کمزوری دکھاتے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ نے اس بیماری کی نشان دہی کردی ہے۔ یہ دراصل دُکھتی رگ ہے اور ساری خرابیوں کی جڑ ہے۔ غزوئہ بدر ہوا تو فرمایا: تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا (الانفال ۸:۶۷) ’’تم لوگ دنیا کے فائدے چاہتے ہو‘‘۔ غزوئہ اُحد میں ڈسپلن کی کمزوری ظاہر ہوئی تو فرمایا: مِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا وَ مِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ، (اٰل عمرٰن ۳:۱۵۲) ’’تم میں سے بعض دنیا کے طلب گار تھے اور بعض آخرت کے طلب گار تھے‘‘۔ غزوئہ تبوک میں جن لوگوں نے کمزوری دکھائی ان کا ذکر سورئہ توبہ میں یوں ہوا: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، تمھیں کیا ہوگیا کہ جب تم سے اللہ کی راہ میں نکلنے کے لیے کہا گیا تو تم زمین سے چمٹ کر رہ گئے؟ کیا تم نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کرلیا؟ ایسا ہے تو تمھیں معلوم ہو کہ دنیوی زندگی کا یہ سب سروسامان آخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا‘‘ (۹:۳۸)۔ گویا ہرجگہ ایک ہی بات کہی گئی۔ ایسے معاملات میں خرابی کی جڑ یہ دنیا کی محبت ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے بگڑی ہوئی مسلمان اُمتوں کو اپنی طرف بلایا تو اس میں اس بات کو بنیادی اہمیت دی کہ ہر وہ چیز جس سے آخرت میں اپنے اعمال کی جواب دہی کا احساس کمزور ہوتا ہو، یا جس سے دنیا کی محبت ظاہر ہوتی ہو، اس کو ختم کیا جائے، اس کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکا جائے۔

  •  دعوت کا مرکزی نکتہ: سارے پہلوئوں کو سامنے رکھیں تو یہ بات صاف اور واضح ہوجاتی ہے کہ حق کی راہ پر چلنے میں، خود اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی، ایک ہی چیز مرکزی حیثیت رکھتی ہے اور اسی سے ہمارے اندر قوت، استقامت اور استعداد پیدا ہوگی کہ جن لوگوں کو ہم منظم کر کے اسلامی انقلاب کے لیے تیار کرنا چاہتے ہیں ان کے اندر دنیا کی محبت کم ہو، آخرت کی محبت اور آخرت کا خیال زیادہ ہو، اور جو موت سے خوف زدہ نہ ہوں۔

ہماری دعوت کے اندر اس کی حیثیت ایک مرکزی نکتے کی ہونی چاہیے۔ جب دنیا کی محبت دل سے نکل جائے گی اور آخرت کی طلب دل کے اندر ڈیرہ ڈال لے گی اور وہاں کی کامیابی ہی اصل کامیابی ٹھیرے گی تو ہمیں صحیح عمل کرنے کے لیے یقین اور قوت بھی حاصل ہوگی، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جن عوام کو ہم پکارتے ہیں اور جن کی عدم توجہی کی ہم شکایت کرتے ہیں، ان کے بھی سارے امراض کا علاج اسی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عوام کو بھی پکارا اور جب بھی پکارا تو یہی پکارا کہ وہ ایسے فریب اور دھوکے سے باہر نکل آئیں جو ان کو نیک عمل سے غافل کرتے ہیں۔

یہ حدیث آپ کی بار بار کی سنی ہوئی ہوگی جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا ہے کہ ایک وقت آئے گا دنیا کی قومیں اس اُمت کے اُوپر اس طرح سے ٹوٹ پڑیں گی جس طرح سے بھوکے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں، تو صحابہؓ نے پوچھا کہ کیا ہم تعداد میں بہت کم ہوجائیں گے؟ آپؐ نے فرمایا: نہیں، تمھاری تعداد تو ریگستان کے ذروں اور درخت کے پتوں کی طرح ہوگی۔ انھوں نے کہا: پھر کیا وجہ ہوگی، تو آپؐ نے فرمایا: تمھارے اندر وہن پیدا ہوجائے گا۔ صحابہ ؓ نے پوچھا: وہن کیا ہوگا؟ آپؐ نے فرمایا: دنیا کی محبت اور موت سے نفرت___ گویا جب یہ پیدا ہوجائے تو انسانوں کی ساری استعداد اور قوت ختم ہوجاتی ہے، اور اگر انسان میں وہن نہ رہے تو اس کی جدوجہد اور اس کے عمل میں نئی زندگی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس نکتے سے غافل ہوکر جو کوششیں ہوں گی، ہوسکتا ہے وہ پوری طرح بارآور نہ ہوں۔

  •  آخرت کے لیے یکسوئی: اس کی اہمیت سمجھ لینے کے بعد___   دوسری جس چیز کا مطالبہ ہے وہ یہ ہے کہ ہم آخرت کویکسوئی کے ساتھ منتخب کریں، اور یکسوئی کے ساتھ اس کے حصول کا ارادہ کریں۔ دنیا اور آخرت دونوں میں سے کسی ایک کو آدمی منزل بناسکتا ہے۔ دونوں کو ایک جیسا مقام نہیں دے سکتا۔ قرآن نے اس بات کو بہت واضح انداز میں کہا ہے کہ آدمی اپنے ارادوں کو کبھی دو حصوں میں نہیں بانٹ سکتا۔ وہ یہ نہیں کرسکتا کہ دونوں کو مقصود بنا کر چلے۔ قرآن نے کہا ہے کہ جو آخرت کو مطلوب بنائے گا اس کو آخرت ملے گی، اور جو دنیا کو مقصود بنائے گا اس کو دنیا ملے گی اور آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ انسان دنیا اور آخرت کو بیک وقت مقصود بناکر نہیں چل سکتا۔ دو کشتیوں میں پائوں رکھ کر وہ زندگی کے سمندر میں تیر کر آخرت تک نہیں پہنچ سکتا۔

اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ جو آدمی آخرت کو مقصود بنائے وہ دنیا سے دستبردار ہوجائے گا___  مطلب یہ ہے کہ دنیا اس کے لیے مطلوب، محبوب اور مقصود کی حیثیت نہیں رکھے گی بلکہ یہ آخرت کو حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہوگی۔ اس کی رشتہ داریاں، اس کی دوستیاں، اس کی محبتیں، اس کی جدوجہد، سب ایک ذریعے کی حیثیت اختیار کرجائیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس کو بار بار واضح کیا ہے، مختلف مثالوں سے سمجھایا ہے۔ یہ جاننے کے باوجود کہ آخرت کو مطلوب ہونا چاہیے، کئی جگہ بتایا ہے کہ دنیا کی حقیقت کیا ہے، آخرت کی حقیقت کیا ہے، دنیا سے کیا ملتا ہے، آخرت کیا دیتی ہے، اور اس لیے ان دونوں میں سے کس چیز کو تمھیں اختیار کرنا چاہیے۔ دنیا کا نفع دنیا کی چیزیں ہیں، مثلاً مال، اولاد، جاہ و حشمت، مقبولیت۔ دوسری طرف آخرت کا فائدہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہے، اور وہاں کا نقصان اس کی طرف سے دیا ہوا عذاب ہے۔

دنیا اور آخرت کی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے مختلف پہلوئوں سے واضح کیا ہے۔ ان میں پہلی بات یہ ہے کہ دنیا کی ہرچیز، نعمت ہو یا تکلیف، گزر جانے کی چیز ہے۔ چونکہ وقت نہیں ٹھیرسکتا، اس لیے تکلیف بھی نہیں ٹھیرسکتی اور آرام بھی نہیں ٹھیرسکتا۔ اب اس صورت میں کہ وقت کا گزرنا یا   رُک جانا ہمارے بس میں نہیں ہے، ہم اس کو روک کے نہیں بیٹھ سکتے۔ اس لیے یہاں کی خوشی، یہاں کا آرام، یہاں کی تکلیف، یہاں کا الم، اور یہاں کا درد، یہ سب چیز گزر جانے والی ہیں۔ یہ ہمارا روز کا تجربہ ہے کہ خوشی کا بڑا انتظار رہتا ہے۔ ہم اس کی تمنا ہی نہیں کرتے، خواب دیکھتے ہیں۔ خوشی آتی ہے اور بالآخر گزر جاتی ہے۔ تکلیف سے ہم ڈرتے رہتے ہیں۔ تکلیف بڑھتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی اب گزر ہی جائے گی۔

  •  ایک اٹل حقیقت: دنیا کے ساتھ ایک عجیب معاملہ ہے کہ اس کی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو ٹھیرنے والی ہو۔ ہر بات موت کے ساتھ بالکل ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گی۔ اس خاتمے کو ٹالا نہیں جاسکتا اور موت سب کے لیے ہے، کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ (اٰل عمرٰن ۳:۱۸۵)۔ لیکن آخرت میں جو کچھ ہے، اس کا تعلق دنیا کے وقت سے نہیں ہے۔ اس کے وقت کا پیمانہ الگ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہمیں ہماری زبان میں جو کچھ سمجھایا ہے اس میں اسی بات پر زور دیا ہے کہ وہاں کی ہرچیز باقی رہنے والی ہے، کبھی ختم ہونے والی نہیں ہے۔

دنیا کی مثال تفصیل کے ساتھ دو تین جگہ دی گئی ہے۔ ایک جگہ فرمایا کہ دنیا کی مثال ایک بارش کی سی ہے۔ بارش ہوتی ہے، فصل اُگتی ہے، ہری بھری ہوتی ہے، بہار آتی ہے، اس کے بعد زرد پڑتی ہے اور چورا چورا ہوکر زمین کے اندر مل جاتی ہے۔ سورئہ کہف میں، سورئہ حدید میں اور سورئہ یونس میں تین جگہ اس مثال کے مختلف پہلو مختلف انداز سے اُجاگر کیے گئے ہیں۔ ان سب میں یہی بتایا گیا ہے کہ جس طرح کھیتی باڑی ہوتی ہے، انسان کھیتی کرتا ہے، وہ کچھ نتائج دیکھتا ہے لیکن پھر بالآخر سب کچھ مٹی میں مل جاتا ہے۔ دنیا کے معاملات اسی طرح ہیں۔

آخرت کے بارے میں یہ بات بالکل صاف کہی گئی ہے کہ وہاں پر موت نہیں آئے گی۔ عذاب ہوگا تو وَ یَاْتِیْہِ الْمَوْتُ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ وَّ مَا ھُوَ بِمَیِّتٍ ط (ابراہیم ۱۴:۱۷) ،یعنی وہ عذاب تو ایسا ہوگا کہ جیسے ہر طرف سے موت آرہی ہے مگر انسان مرنے نہ پائے گا۔ دنیا میں جب درد و الم بہت بڑھتا ہے تو آدمی یہ آرزو کرتا ہے کہ بس اب موت آجائے تاکہ یہ درد و اَلم ختم ہو اور موت آبھی جاتی ہے، اور درد و اَلم ختم ہو بھی جاتا ہے۔ لیکن وہاں کا عالم ایسا ہے جو موت ہی کی طرح ہوگا کہ موت آرہی ہے، لیکن آدمی مرے گا نہیں۔ یہ عذاب کی بڑی تکلیف دہ صورت ہوگی۔ لیکن انعام پانے والے بھی ایک موت کے بعد کسی دوسری موت کا مزا نہیں چکھیں گے۔

  •  یقینی نتائج:دوسری بات جو اللہ تعالیٰ نے آخرت اور دنیا کے موازنے میں کہی ہے وہ یہ ہے کہ آخرت کے لیے کوشش کے نتائج یقینی ہیں۔ آخرت کے لیے کوشش رائیگاں نہیں جاسکتی۔ اس کا کوئی امکان نہیں ہے کہ آدمی خلوص کے ساتھ آخرت کے لیے کوشش کرے اور وہ ضائع ہوجائے اور اس کا اجر اس کو نہ ملے۔ لیکن دنیا کا معاملہ یہ ہے کہ اس کی کوشش کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ آدمی بہت محنت کرے اور پھر بھی ممکن ہے کچھ حاصل نہ ہو، یا تھوڑی محنت کرے اور ممکن ہے بہت زیادہ مل جائے۔ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ہر آدمی جو کوشش کرے گا اس کو اس کا پھل ضرور ملے گا، بلکہ کسی کو مل سکتا ہے اور کسی کو نہیں ملے گا۔ گویا دنیا کے نتائج غیریقینی بھی ہیں، کم اور زیادہ بھی ہوسکتے ہیں، اور ہرشخص کو ملنا ضروری بھی نہیں ہیں۔ لیکن آخرت کے بارے میں یہ بات بالکل واضح اور صاف ہے کہ کسی شخص کا کوئی عمل ایسا نہیں ہے جو ضائع جائے گا، بلکہ ارشاد ہے کہ جو کچھ عمل ہوگا اس سے زیادہ کا بھی وعدہ ہے، ہماری طرف سے۔
  •  کثرت کی ھوس: اب ایک اور پہلو سے دیکھیں۔ سورئہ حدید میں ایک پوری آیت میں دنیا کو زینت بھی کہا گیا ہے، تکاثر بھی کہا گیا ہے۔ ان میں سے ہر لفظ کے اندر دنیا کے نتائج کی ایک قدروقیمت کو واضح کیا گیا ہے۔ سجاوٹ اور زینت صرف ظاہری ہوتی ہے۔ آپ باہر سے ایک چیز کو سجاتے ہیں۔ سجاوٹ کے معنی یہ ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ اندر سے اس کی کوئی حقیقت نہ ہو۔ زینت اس لیے کہا گیا ہے کہ یہ تو ظاہر کی سجاوٹ ہے۔ اچھا لباس ہے، اچھا مکان ہے، اچھی گاڑی ہے،  یہ سب کچھ ہے، لیکن یہ سجاوٹ ہے۔ اس کی کوئی اندرونی قدروقیمت نہیں ہے۔ تکاثر کے معنی یہ ہیں کہ اس میں ایک دوسرے کے ساتھ مسابقت ہے اور مسابقت کے ساتھ حسد اور جلن اور کش مکش کی جو برائیاں ہیں وہ بھی ساتھ ساتھ آتی ہیں۔ تکاثر کے معنی ہیں: زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی ہوس۔ یہ دنیا کی بھوک ہے جس سے کبھی آدمی سیر نہیں ہوتا۔ یہ وہ پیاس ہے کہ ایک گھونٹ پی کر اور بڑھتی ہے، اور بڑھتی چلی جاتی ہے۔ چنانچہ آدمی اس کو اور حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
  •  متاعِ غرور: دنیا کے یہ مختلف پہلو یہاں کے نتائج اور ان کی قدروقیمت کو واضح کرتے ہیں۔ قرآن حکیم انھی نتائج کو بیان کر کے تصریح کرتا ہے کہ یہ متاع ہے اور متاع الغرور ہے۔ غرور کے معنی دھوکے کے ہیں۔ سارے دھوکے اس کے اندر شامل ہیں۔ اس کے مقابلے میں آخرت کو خیر کہا ہے کہ یہ بہتر بھی ہے، باقی رہنے والی بھی ہے، اور یہاں خوف و حزن اور اَلم سے نجات بھی ہے۔ آخرت کے بارے میں وعدہ ہے کہ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لاَھُمْ یَحْزَنُوْنَ (البقرہ ۲:۳۸) ’’نہ ان پر خوف ہوگا نہ کسی قسم کے غم کا شکار ہوں گے‘‘۔ اور نہ وہاں پر یہ مسابقت ہوگی کہ اس کو اتنا مل گیا۔ ایسی کوئی چیز مالک کی خوشنودی پانے والوں کے درمیان نہ ہوگی۔

قرآنِ مجید نے دنیا کو اس لحاظ سے اہم قرار دیا ہے کہ آخرت کی پوری راہ دنیا سے ہوکر جاتی ہے۔ یہی راہ، یہی مال، اور یہی نعمتیں آخرت کے حصول کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ اسی لیے دنیا کے مال کو خیر بھی کہا گیا۔ اس میں کوئی تضاد نہیں۔ اگر یہی مال آخرت بنانے کے لیے استعمال ہو تو یقینا وہ خیر ہے۔ گویا یہ دو دھاری تلوار ہے۔ جو اس کے پیچھے چلتا ہے وہ برباد ہوگیا، اور جس نے اس کو اپنے پیچھے چلایا اور آخرت کی منزل کی طرف لے گیا تو وہ کامیاب ہوگیا۔ جو انسان ان حقائق سے واقف ہو، اس کو اپنی منزلِ مقصود آخرت ہی کو قرار دینا چاہیے۔ لیکن اگر یہ سب کچھ چھوڑ کر آپ دنیا کو مقصود بنائیں اور اس کے پیچھے دوڑیں تو آپ خود ہی سوچیں کہ اس سے بڑی غلطی کیا ہوسکتی ہے۔

  •  اس سے پھلے کہ موت آجائے! اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ ہمیں دنیا استعمال کرنے کی جو مہلت ملی ہوئی ہے وہ ایک مختصر مہلت ہے۔ ایک تو یہ مختصر ہے اور دوسرے اس کے اختتام کا علم ہمیں نہیں ہے۔ یہ اختتام آج بھی ہوسکتا ہے اور کل بھی، برسوں بھی لگ سکتے ہیں اور دنوں میں بھی بات ختم ہوسکتی ہے۔ ماہ و سال کی جو مقدار بھی ہو، اس مدت کو مختصر ہی قرار دینا پڑتا ہے۔ لہٰذا نہ صرف یہ کہ یہ مدت مختصر ہے بلکہ ہمیں اس مختصر مدت کے نہ اختتام کا علم ہے اور نہ جگہ کا۔ موت کے بارے میں قرآنِ مجید نے جو تعلیمات دی ہیں، ان سے دراصل یہ بات واضح ہوتی ہے کہ موت ڈرنے اور خوف کھانے کے لیے نہیں ہے۔ بجاے اس کے کہ ہم موت سے ڈریں اور خوف کھائیں کہ جس سے ڈرنے اور خوف کھانے کا کوئی نتیجہ نہیںہے، سواے اس کے کہ بالآخر موت آئے گی، جو کچھ موت کے بعد پیش آنے والا ہے، ہم اس کی فکر کریں۔

یہاں جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ مہلتِ عمل مختصر بھی ہے اور یہ بغیر کسی نوٹس کے ختم ہونے والی بھی ہے۔ اور یہ بھی دعوت دی گئی ہے کہ ا س سے پہلے کہ وہ وقت آئے جب تم دنیا سے رخصت ہو، اس سے پہلے ہی اس کی تیاری کرلو۔ یہی دعوت اس انداز سے بھی دی گئی ہے کہ اس سے پہلے کہ تم کو پکڑ لیا جائے اور موت تمھارے اُوپر آجائے، اس مہلت سے فائدہ اٹھا لو۔ اس لیے کہ اس کے بعد پھر کوئی اور عمل کی مہلت نہیں ہوگی۔

اگر آخرت مقصود بن جائے تو پوری دنیا کا رُخ متعین ہوجاتا ہے۔ شادی ہو، عائلی زندگی ہو، کیریئر ہو، اولاد ہو، کارخانے ہوں، کھیت ہوں، پیداوار ہو، تجارت اور مالِ تجارت ہو،  بنک بیلنس ہو، سب چیزیں موجود ہوں گی اور آدمی کا ان سے تعلق بھی یقینا ہوگا۔ لیکن اب سب سے برتر اور ہمیشہ باقی رہنے والی چیز ہی اس کی منزلِ مقصود ہوگی۔ یہی طاقت کا اصل سرچشمہ اور قوت کا اصل منبع ہے۔ (ایک خطاب کی تلخیص)       (کتابچہ منشورات سے دستیاب ہے، منصورہ، لاہور)