جون ۲۰۱۱

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| جون ۲۰۱۱ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

کیا ’دینِ حق‘ ناکام رہا ہے؟

سوال:  مذاہب کا پروگرام اگر انسانی فطرت کے لیے کشش رکھتا تھا تو متقی لوگوں نے کسی بھی ملک و قوم میں بہتر سوسائٹی بنانے میں کیوں کامیابی حاصل نہیں کی؟ اگر انسانیت کی پوری تاریخ میں بھی مذہب کامیاب نہ ہوسکا تو آج کیوں کر اس سے امن و ترقی کی اُمیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں؟ یہ کہہ دینا کہ انسانی فطرت ہی میں خرابی مضمر تھی، مفید نہیں ہوسکتا۔ مذاہب حق کو زندہ کرنے اور باطل کو مٹانے کے لیے کام کرتے رہے مگر نتیجہ تھوڑے تھوڑے وقفے کو چھوڑ کر ہمیشہ اُلٹا ہی نکلا اور تاریخ کے سیلاب کا  رُخ نہ بدلا، یا بالفاظِ دیگر شیطان کی طاقت شکست نہ کھا سکی؟

جواب:  آپ کا یہ سوال جتنے مختصر لفظوں میں ہے، اتنے مختصر لفظوں میں اس کا جواب نہیں دیا جاسکتا۔ تاہم اگر محض اشارات سے آپ کی تشفی ہوسکے تو جواب یہ ہے کہ اوّل تو آپ لفظِ مذہب کے نام سے جس چیز کو مُراد لیتے ہیں اس کا تعین کریں۔ اگر مذہب کا لفظ آپ جنس کے طور پر استعمال کر رہے ہیں جس میں ہرقسم کے مذاہب شامل ہیں تو اس کی طرف سے جواب دہی کرنا   میرا کام نہیں ہے۔ اور اگر مذہب سے آپ کی مراد دین حق، یعنی وہ دین ہے جس کی تعلیم   ابتداے آفرینش سے انسان کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی جاتی رہی ہے اور جس کا نام عربی زبان میں اسلام ہے، تو وہ مجموعہ ہے اُن اصولوں کا جو کائنات کی واقعی حقیقتوں پر مبنی ہیں اور بجاے خود صحیح ہیں، خواہ انسان ان کو مانے یا نہ مانے۔

ان کی مثال ایسی ہے، جیسے مثلاً حفظانِ صحت کے اصول ہیں کہ وہ انسان کے جسم کی ساخت اور اس کے اعضا کی حقیقی فعلیت اور اس کے طبعی ماحول کی واقعی حقیقتوں پر مبنی ہیں۔ ان اصولوں کے مطابق کھانا، پینا، سانس لینا، آرام کرنا وغیرہ لازمی طور پر انسان کو تندرست رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص یا ساری دنیا مل کر بھی ان اصولوں کی خلاف ورزی کرے تو نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ حفظانِ صحت کے اصول باطل ہیں، نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی پابندی کرنا انسانی فطرت کا تقاضا نہیں ہے، نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ اصول ٹوٹ گئے اور شکست کھاگئے، اور نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انسانوں کی اس خلاف ورزی نے ان اصولوں کا کوئی نقصان کیا ہے، بلکہ درحقیقت اگر انسان ان اصولوں کے خلاف چلتے ہیں تو یہ ان کی ناکامی ہے اور نقصان ان کا اپنا ہے نہ کہ ان اصولوں کا۔

پس آپ جس چیز کو مذہب کی ناکامی کہہ رہے ہیں، وہ مذہب کی ناکامی نہیں، انسانوں کی ناکامی ہے۔ مثال کے طور پر مذہب ہم کو امانت کی تعلیم دیتا ہے۔ اب اگر تمام دنیا کے انسان مل کر بھی خیانت شروع کر دیں اور امانتوں کو ضائع کرنے لگیں تو کیا آپ یہ کہیں گے کہ مذہب ناکام ہوا؟ مذہب کی ناکامی تو اس صورت میں ہوسکتی ہے، جب کہ یا تو یہ ثابت ہوجائے کہ فطرتِ کائنات اور فطرتِ انسان امانت کی نہیں خیانت کی مقتضی ہے، یا یہ ثابت ہوجائے کہ انسانی زندگی کا حقیقی امن اور تمدنِ انسانی کا قابلِ اعتماد استقلال اور تہذیب کا تسلسلِ ارتقا امانت سے نہیں بلکہ خیانت سے قائم ہوتا ہے۔ لیکن اگر یہ ثابت نہیں ہوتا اور نہیں ہوسکتا تو انسانوں کا امانت چھوڑ کر خیانت کو اختیار کرنا اور اس سے اخلاقی، روحانی اور تمدنی نقصانات اُٹھانا انسانوں کی ناکامی کا ثبوت ہے، نہ کہ ’مذہب‘ یا دین کی ناکامی کا۔ اسی طرح اور جتنے اصول ’دین‘ نے پیش کیے ہیں یا بالفاظِ دیگر جن اصولوں کے مجموعے کا نام ’دینِ حق‘ ہے ان کو جانچ کر دیکھیے کہ وہ حق ہیں یا نہیں؟ اگر وہ حق ہیں تو ان کی کامیابی و ناکامی کا فیصلہ اس بنا پر نہ کیجیے کہ انسانوں نے ان کی پابندی کی ہے یا نہیں۔ انسانوں نے جب ان کی پیروی کی تو وہ خود کامیاب ہوئے اور اگر ان کی پیروی نہ کی تو وہ خود ناکام ہوئے۔(سیدابوالاعلیٰ مودودی، رسائل و مسائل، سوم، ص ۱۴۵-۱۴۸)

سورئہ توبہ کی ابتدا میں بسم اللہ نہ پڑھنا

س:  قرآن مجید کی تمام سورتوں کی ابتدا میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی جاتی ہے، ماسوا سورئہ توبہ کے۔ مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں کہ ’’حضوؐر کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں جب قرآن مجید کو مرتب کرنے کا ارادہ کیا گیا تو اس تھیلے کو نکالا گیا اور تمام سورتوں کی ترتیب، جیسے کہ رسولؐ اللہ نے بتائی تھی، وہ قائم رکھ کر ان کی نقل تیار کی گئی۔ تو چوں کہ حضوؐر کی لکھوائی ہوئی سورئہ توبہ کے شروع میں بسم اللہ درج نہیں تھی، اس وجہ سے صحابہ کرامؓ نے بھی اسے درج نہیں کیا۔ باقی کوئی سورت قرآنِ مجید کی ایسی نہیں ہے، جس کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے نہ ہوا ہو‘‘۔

دراصل سورئہ توبہ کی ابتدا میں بسم اللہ کیوں نہ پڑھی جائے؟ اس کا سبب تشنہ رہ جاتا ہے۔ ازراہِ کرم اس جانب رہ نمائی فرمائیں یا کسی تفسیر کا حوالہ دیں تاکہ تشنگی دُور ہوسکے۔

ج:  تفہیم القرآن ، جلد دوم، سورئہ توبہ کے شروع میں مولانا مودودیؒ نے جو نوٹ لکھا ہے، اس میں ’بسم اللہ نہ لکھنے کی وجہ‘ کے ذیلی عنوان کے تحت فرمایا ہے: ’’اس سورہ کی ابتدا میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی جاتی۔ اس کے متعدد وجوہ مفسرین نے بیان کیے ہیں، جن میں بہت کچھ اختلاف ہے۔ مگر صحیح بات وہی ہے جو امام رازیؒ نے لکھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کے آغاز میں بسم اللہ نہیں لکھوائی تھی، اس لیے صحابہ کرامؓ نے بھی نہیں لکھی اور بعد کے لوگ بھی اسی کی پیروی کرتے رہے۔ یہ اس بات کا مزید ایک ثبوت ہے کہ قرآن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جوں کا توں لینے، اور جیساتھا ویسا ہی اس کے محفوظ رکھنے میں کس درجہ احتیاط و اہتمام سے کام لیا گیا ہے‘‘۔

سورئہ توبہ کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کیوں نہیں لکھی گئی؟ اس سلسلے میں مفسرین نے متعدد اقوال نقل کیے ہیں۔ لیکن ان کی حیثیت بس نکات و لطائف کی ہے۔ علامہ قرطبیؒ نے ایک قول یہ نقل کیا ہے کہ اہلِ عرب جب کسی قوم سے کیے ہوئے اپنے معاہدوں کو منسوخ کرتے تھے تو منسوخی کے اعلان کے لیے تیار کردہ تحریر پر بسم اللہ نہیں لکھتے تھے۔ سورئہ توبہ میں بھی مشرکین سے کیے گئے معاہدے کی منسوخی کا اعلان ہے، اس لیے اس کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے نہیں کیا گیا اور جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کو بھیجاکہ حج کے موقع پر ان آیات کو  علی الاعلان سنا دیں تو انھوں نے بھی شروع میں بسم اللہ نہیں پڑھی۔

ایک دوسرا قول انھوں نے حضرت علیؓ سے نقل کیا ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم اصلاً امان اور رحمت کا مظہر ہے، جب کہ اس سورت سے اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور غضب کا اظہار ہوتا ہے (تفسیر قرطبی، طبع مصر، ۱۹۸۷ء، ۸/۶۳)۔ لیکن اس تاویل کو علامہ آلوسی نے ضعیف بتایا ہے۔ اس لیے کہ بعض دیگر سورتوں، مثلاً مطففین، ہمزہ اور لہب وغیرہ کا آغاز بھی اللہ کے غضب سے ہوا ہے، مگر ان کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھی جاتی ہے۔ (روح المعانی، طبع مصر، ۱/۴۱)

اس سلسلے میں قولِ فیصل وہی ہے جسے علامہ قرطبیؒ نے امام قشیریؒ کے واسطے سے نقل کیا ہے: ’’صحیح بات یہ ہے کہ یہاں بسم اللہ الرحمن الرحیم اس لیے نہیں لکھی جاتی کیوں کہ حضرت جبرئیل ؑجو قرآن لے کر نازل ہوئے تھے، اس میں یہاں وہ نہیں تھی‘‘۔(تفسیر قرطبی، ۸/۶۳)

یہ تو بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ لکھے جانے کی بات ہے۔ جہاں تک اس کے پڑھنے یا نہ پڑھنے کا معاملہ ہے، تو اس سلسلے میں علما فرماتے ہیں کہ چوں کہ یہاں وہ لکھی ہوئی نہیں ہے، اس لیے اسے پڑھنا بھی نہیں چاہیے۔ لیکن بعض علما اس کے پڑھنے کی اجازت دیتے ہیں۔ اس موضوع پر علامہ آلوسی نے کسی قدر تفصیل سے لکھاہے، جسے نقل کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ وہ امام سخاویؒ کے حوالے سے فرماتے ہیں: ’’مشہور ہے کہ سورئہ توبہ کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ پڑھی جائے۔ عاصمؒ سے مروی ہے کہ پڑھنی چاہیے۔ یہ بات انھوں نے قیاساً کہی ہے۔ کیوں کہ اس کے لکھے نہ جانے کا سبب یا تو یہ ہے کہ اس میں مشرکینِ مکہ سے جنگ کی بات کہی گئی ہے یا یہ ہے کہ صحابہ قطعی طور پر طے نہیں کرپائے تھے کہ یہ مستقل سورت ہے یا سورئہ انفال کا حصہ ہے۔ پہلی صورت میں اس کا حکم  ان لوگوں کے ساتھ خاص ہوگا جن کے بارے میں یہ سورت اُتری تھی اور ہم تو اسے برکت حاصل کرنے کے لیے پڑھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ان آیتوں سے قرآن پڑھنے کا آغاز کیا جائے  جن میں مشرکین سے جنگ کرنے کا حکم ہے تو ان سے پہلے بسم اللہ پڑھنا بالاتفاق جائز ہے۔ دوسری صورت میں بھی بسم اللہ پڑھی جاسکتی ہے جس طرح سورتوں کے شروع میں بسم اللہ پڑھنی چاہیے۔ روایت میں ہے کہ مصحفِ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے شروع میں وہ لکھی ہوئی تھی‘‘۔ (روح المعانی، ۱۰/۴۲)

علامہ آلوسیؒ مزید فرماتے ہیں: ’’ابن منادر کی راے ہے کہ بسم اللہ (سورئہ توبہ کے شروع میں) پڑھنی چاہیے۔ الاتناع میں بھی اس کے جواز کی بات کہی گئی ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ اسے   نہ پڑھنا مستحب ہے، اس لیے کہ مصحف میں وہ درج نہیں ہے اور اس معاملے میں کسی دوسرے کی تقلید نہیں کی جائے گی۔ لیکن اس جگہ بسم اللہ پڑھنے کو حرام قرار دینا اور نہ پڑھنے کو واجب کہنا، جیساکہ بعض مشائخ شافعیہ کا خیال ہے، تو ظاہر ہے کہ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو شخص درمیانِ سورہ سے تلاوت شروع کرے، اس کے لیے بسم اللہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے   واللّٰہ تعالٰی اعلم‘‘۔ (روح المعانی، ۱۰/۴۲)

اس موضوع پر مولانا مفتی محمد شفیع عثمانیؒ نے اپنی تفسیر میں صحیح رہ نمائی کی ہے: ’’حضرات فقہا نے فرمایا ہے کہ جو شخص اُوپر سے سورئہ انفال کی تلاوت کرتا آیا ہو اور سورئہ توبہ شروع کر رہا ہو  وہ بسم اللہ نہ پڑھے، لیکن جو شخص اس سورت کے شروع یا درمیان سے اپنی تلاوت شروع کر رہا ہے، اس کو چاہیے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر شروع کرے۔ بعض ناواقف یہ سمجھتے ہیں کہ سورئہ توبہ کی تلاوت میں کسی حال میں بسم اللہ پڑھنا جائز نہیں۔ یہ غلط ہے اور اس پر دوسری غلطی یہ ہے کہ بجاے بسم اللہ کے، یہ لوگ اس کے شروع میں اعوذ باللّٰہ من النار پڑھتے ہیں، جس کا کوئی ثبوت  آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ سے نہیں ہے‘‘ (معارف القرآن، طبع دیوبند، ۴/۷۷)۔ (رضی الاسلام ندوی، زندگی نو، نئی دہلی، مئی ۲۰۱۱ء)

ناقص الخلقت جنین کا اسقاط

س:  ایسا ناقص الخلقت جنین، جس کے بارے میں الٹراسائونڈ سے یقین ہوگیا ہو کہ وہ پیدا ہوگا تو مختصر عرصے میں مرجائے گا یا زندہ رہے گا تو معمول کی زندگی نہیںگزار سکے گا۔ کیا اس کا اسقاط کراناجائز ہے؟

ج:  اسلامی شریعت نے جنین کو وہی حیثیت دی ہے جو زندہ انسان کی ہوتی ہے۔ اسی لیے اس نے ان تمام صورتوں کو ممنوع قرار دیا ہے جن سے جنین کو ضرر لاحق ہوسکتا ہے۔ اگر جنین کو کسی قسم کا خطرہ ہو تو حاملہ یا مرضعہ (دودھ پلانے والی) عورت کو رمضان کے روزے نہ رکھنے کا حکم ہے۔ اسی طرح اس پر حد جاری نہیں کی جاسکتی، جب تک کہ وہ بچے کو جنم نہ دے لے اور وہ دودھ چھڑانے کی عمر کو نہ پہنچ جائے۔

اسی بنا پر علما نے روح پھونکے جانے کی مدت کے بعد اسقاط کو ناجائز قرار دیا ہے۔ یہ مدت بخاری و مسلم کی ایک حدیث کے مطابق ۱۲۰ دن ہے۔ اس سے قبل اس کے جواز یا   عدم جواز کے سلسلے میں ان کا اختلاف ہے۔ بعض علما کے نزدیک بہ وقت ِ ضرورت جائز ہے۔ کیوں کہ روح پھونکے جانے سے قبل جنین محض ایک بے جان لوتھڑا ہے، لیکن بعض علما اس وقت بھی اسقاط کو حرام نہیں تو مکروہ ضرور قرار دیتے ہیں۔ اس لیے کہ اگر اسے چھوڑ دیا جائے تو آیندہ اس میں روح پڑ جائے گی۔

بعض علما کے نزدیک روح پھونکے جانے کی مدت کے بعد بھی ناگزیر حالت میں اسقاط کروایا جاسکتا ہے۔ یہ ناگزیر صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جنین میں کوئی ایسا تخلیقی نقص پیدا ہوجائے کہ پیدا ہونے کے بعد اس کی زندگی اجیرن ہوجائے۔ الٹراسائونڈ سے ایسے نقائص کا پتا لگ جاتا ہے۔ علامہ یوسف القرضاوی نے ایک سوال کے جواب میں اس موضوع پر تفصیل سے لکھا ہے اور ان  علما کی راے سے اپنے اختلاف کا اظہار کرتے ہوئے بعض دلائل دیے ہیں۔

آخر میں لکھا ہے: ’’میری نظر میں صرف ایک ہی ایسی صورت ہے جس میں اسقاط کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ وہ یہ کہ اسقاط نہ کرایا گیا تو ماں کی جان کو خطرہ لاحق ہوجائے۔ ایسی صورت میں ماں کی جان بچانے کے لیے حمل کو ساقط کرایا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ ماں کی جان بہرحال بچے کی جان سے زیادہ اہم ہے (فتاویٰ یوسف القرضاوی، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی، جلد دوم، ص ۲۲۵)۔ (رضی الاسلام ندوی، زندگی نو، نئی دہلی، مئی ۲۰۱۱ء)

وسوسوں پر مواخذہ

س:  بعض اوقات انسان کے ذہن میں عجیب و غریب قسم کے سوالات و وسوسے آنے لگتے ہیں ، کیا ان وسوسوں پر مواخذہ کیا جائے گا؟

ج:  دل میں خیالات و وساوس کا آنا خاصۂ انسانی ہے۔ نماز کے دوران اگر وسوسے آئیں تو کوشش کرکے انھیں جھٹک دینا چاہیے۔ عام حالات میں بھی وسوسے مطلوب نہیں لیکن بہرحال یہ انسانی کمزوری ہے۔ اسی لیے نبی رئوف و رحیم نے امت کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ رب العالمین نے اپنی رحمت خاص سے میری امت پر سے دل میں گزرنے والے خیالات و وساوس پر مواخذہ نہ کرنے کی بشارت دی ہے، جب تک کہ اس وسوسے کو زبان پر نہ لایا جائے اور نہ اس کے مطابق کوئی عمل ہی کیا جائے۔ صحیح حدیث میں یہ بھی ثابت ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریمؐ سے صحابہؓ نے یہ سوال کیا کہ ان کے دل میں خیالات و وسوسے آتے ہیں، تو آپؐ نے فرمایا کہ ہاں یہ وسوسے آنے کا عمل انسانی کمزوری ہے۔ یہ عمل بعض اوقات انسان کو اس مقام پر لے آتا ہے کہ وہ سوچتا ہے ساری مخلوق کو اللہ نے پیدا کیا ہے تو اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا جب ایسا خیال ذہن میں آئے تو سمجھو کہ یہ شیطان ہے۔ اس لیے وسوسوں کو ذہن سے فوراً جھٹک کر یہ کہیے: اٰمنت باللّٰہ ورسلہ۔ ایک دوسری روایت میں آں حضورؐ نے فرمایا: ایسی کیفیت میں انسان کو شیطان سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے اور ان خیالات کو یکسر ترک کرنا چاہیے (مسلم)۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔ (شیخ عبدالعزیز بن بازؒ،ترجمہ: حافظ محمدادریس، المجتمع، کویت، شمارہ ۱۹۵۳، ۲۱مئی ۲۰۱۱ء)

قرآن کو چومنا

س:  قرآن مجید اگر غلطی سے ہاتھ سے گر جائے تو اس کا کیا کفارہ ہے، اور کیا ایسی صورت میں اسے چوم کر اونچی جگہ پر رکھنا چاہیے؟

ج:  صحابی جلیل حضرت عکرمہؓ بن ابی جہل کے بارے میں یہ روایت بیان کی گئی ہے کہ وہ مصحف شریف کی تلاوت کرتے ہوئے اسے چوما کرتے تھے اور ساتھ کہا کرتے تھے کہ یہ میرے رب کریم کا عظیم الشان کلام ہے۔ اس لیے قرآن مجید کو چومنے میں کوئی حرج نہیں مگر قرآن مجید غلطی سے نیچے گر جائے تو اس پر کوئی کفارہ نہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ  قرآن مجید کو چومنا واجباتِ شرعیہ میں سے بھی نہیں ہے۔ پس قرآن مجید کی عظمت کے پیش نظر گرجانے کی صورت میں یا اس کے بغیر بھی قرآن کو عقیدت و محبت سے چوما جائے تو ہمارے نزدیک اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔(ایضاً)