جون ۲۰۱۱

فہرست مضامین

کتاب نما

| جون ۲۰۱۱ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

تحقیقاتِ اسلامی کے فقہی مباحث، مولانا سید جلال الدین عمری۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، کراچی۔ تقسیم کنندہ: اکیڈمی بک سنٹر (A.B.C)، ۳۵-ڈی، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ ۷۵۹۵۰۔ فون: ۳۶۸۰۹۲۰۱-۰۲۱۔ صفحات: ۱۷۰۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

سیاسی اور بین الاقوامی مسائل پر اسلام کی رہنمائی زیادہ تر اصولی ہدایات پر مبنی ہے۔ اس کی تفصیلات سے بہت زیادہ بحث نہیں کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے مسائل کے بارے میں ہمارے فقہی ذخیرے میں آرا کا ایک تنوع موجود ہے۔ گویا یہ مسائل ہر عہد کے اہلِ اسلام کو اسلام کی  فراہم کردہ اصولی ہدایات کی روشنی میں خود حل کرنے ہوں گے جس کی مثالیں فقہا کی آرا کی صورت میں موجود ہیں۔ ’فقہی مباحث‘ میں بعض ایسے ہی اہم اور نازک مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ آٹھ عنوانات میں منقسم یہ کتاب بہت جامعیت کے ساتھ اسلامی شریعت میں اجتہاد کے عمل، دارالاسلام اور دارالحرب کا تصور (جدید عالمی تناظر میں)، اسلامی ریاست میں غیرمسلموں پر اسلامی قانون اور حدود کا نفاذ، غیرمسلموں سے ازدواجی تعلقات، اسلام کا قانونِ قصاص و دیت اور قذف و لعان کے احکام پر بھرپور رہنمائی فراہم کرتی ہے۔

کتاب کی یہ خوبی خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہے کہ مصنف نے ذاتی تبصرے کا دخل بہت کم رکھا ہے۔ قرآن و حدیث کے نصوص اور فقہاے اسلام کی آرا ہی سے موضوع پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اگرچہ فقہی مباحث کے مسائل خالص فقہی نوعیت کے ہیں مگر جامع علمی اسلوب کی بنا پر عام فہم انداز میں سامنے آتے ہیں۔ غیرمسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں اور مسلم ممالک میں مقیم غیرمسلموں کے لیے اسلامی شریعت نے جو رہنمائی فراہم کی ہے، اُردو قارئین کے لیے اس سے استفادے کی ایک صورت اس کتاب کا مطالعہ ہوسکتی ہے۔ مصنف نے انکسار کے ساتھ اس بات کا اظہار کیا ہے کہ’’ ان مسائل کی نوعیت ایک طالب علم کے قلم سے زیربحث موضوعات کے تعارف اور ان پر  اظہارِ خیال کی ہے۔ یہ کسی فرد یا ادارے کی ترجمانی نہیں ہے‘‘۔ (ص ۹)

مجلہ تحقیقاتِ اسلامی میں شائع شدہ مزید ایسے علمی و فقہی ذخیرے کو کتابی صورت میں شائع کرنے کی ضرورت ہے۔ بایں ہمہ زیرنظر کتاب کسی محقق و عالم کی بنیادی ضرورت کو بھی بخوبی پورا کرتی ہے۔ (ارشاد الرحمٰن)


جَوِّدِ القرآن ، مؤلفہ: شاہدہ قاری۔ ملنے کا پتا: علوم القرآن انسٹی ٹیوٹ براے خواتین، ۱۶۹-بی، بلاک نمبر۱۱، گلستانِ جوہر، کراچی۔ فون:۲۹۵۹۹۱۲-۰۳۲۱۔صفحات: ۳۵۴۔ قیمت: ۷۵۰روپے۔

تجوید جیسے فنی موضوع پر ایک خاتون کی جانب سے اتنی عمدہ معیاری کتاب مسلمان خواتین کی درخشاں علمی روایت کا تسلسل ہے۔ اس کتاب کی مؤلفہ شاہدہ قاری نے اس سے قبل  فضیلتِ قرآن اور قواعد فنِ تجوید کے نام سے بھی کتابیں لکھی ہیں۔

جَوّدِ القرآن ۱۰ ابواب پر مشتمل بڑے سائز کی ضخیم مجلّد کتاب ہے جس میں علم التجوید کے مشکل مباحث کو نہایت سلیس انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ پہلا طویل باب ’تعارف قرآنِ مجید‘ (۷۲صفحات) ایک منفرد کاوش قرار دیا جاسکتا ہے۔ متعلقہ احادیث ترجمہ اور قابلِ توجہ نکات کے ساتھ، آدابِ قرآن، آدابِ تلاوت، حقِ قرآن (عمل پر تاکید) تجوید، ترتیل، عیوبِ تلاوت، معلومات، جمع قرآن، قراے سابعہ اور ان کے راویوں کے حالات، اس میں سب ہی کچھ ہے۔ بعد کے آٹھ ابواب میں حروف کے مخارج اور صفات کی پہچان کے لیے نقشوں، چارٹس اور تصاویر سے مدد لی گئی ہے۔ مختلف رنگوں کے استعمال سے تفہیم کا انداز مزید سہل بنا دیاگیا ہے۔ ایسے   وقت میں کہ ملک میں تجوید کے ساتھ قراء ت کرنے کا مبارک رجحان روز افزوں ہے، اس طرح کی دل کش کتابیں ایک بڑی ضرورت کو پورا کرتی ہیں۔یہ کتاب دینی مدارس اور عصری تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات کے لیے انتہائی مفید ہے۔ کتاب کی ترتیب اس طرح ہے کہ اسے نصاب کے  طور پر بھی پڑھایا جاسکتا ہے۔ اپنے شوق سے تجوید سیکھنے والے افراد بھی اس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ اگر قرآن انسٹی ٹیوٹ اس کا آڈیو وڈیو کیسٹ تیار کر دے تو کیا کہنا۔ طباعت اور پیش کش کا معیار اعلیٰ ہے۔ (حافظ ساجد انور)


ماہنامہ افکارِ ملّی، دہلی(خصوصی اشاعت: سیرت محمدؐاور عصرحاضر)، مدیر: ڈاکٹر قاسم رسول الیاس۔ ۹/۶۳۲، ذاکر نگر، جامعہ نگر، نئی دہلی-۱۱۰۰۲۵،بھارت۔ فون: ۹۸۱۱۸۲۸۴۴۴-۹۱۔ صفحات: ۲۴۰۔ قیمت: ۲۰۰روپے بھارتی۔

سیرتِ رسولؐ ایک نہ ختم ہونے والا موضوع ہے۔ روایتی مضامین اور کتب شائع ہوتی ہیں، ان کی اپنی کشش اور ضرورت ہے۔ لیکن کبھی غیرروایتی پیش کش بھی سامنے آجاتی ہے۔ زیرتبصرہ خصوصی اشاعت اسی زمرے سے ہے۔

یہ کہا تو جاتا ہے کہ سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آج کے دور کے انسان کی زندگی کے ہرطرح کے مسائل کا حل ہے لیکن اس حوالے سے مسائل کا تعین کرکے خصوصی مطالعے پیش کرنا اور وہ بھی یک جا، ایسا کام ہے جس کی تحسین نہ کرنا زیادتی ہوگا۔

اس خصوصی اشاعت کو نو ابواب میںتقسیم کیا گیا ہے، مثلاً شخصی ارتقا، لائف اسٹائل، سماج کے کمزور طبقات، عالمی مسائل، تمدنی مسائل، معاشی اور معاشرتی مسائل۔ ان کے تحت ۴۹ مقالات پیش کیے گئے ہیں۔ چند عنوانات یہ ہیں: انسانی وسائل کا فروغ، صارفین کا مسئلہ، مالیاتی بحران، آرٹ کلچر اور تفریحات، خواتین کے مسائل، معذوروں کا مقام، جنگی اخلاقیات، جنگی قیدی، ماحولیاتی بحران، وطن پرستی، حقوق انسانی، فحاشی و عریانی، معاشی پس ماندگی، urbanisation، (شہرکاری) بین المذاہب ڈائیلاگ وغیرہ۔ کئی مقالات عمومی نوعیت کے ہیں۔ لکھنے والوں میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، ڈاکٹر محمد رفعت، رضی الاسلام ندوی، یٰسین مظہرصدیقی، پروفیسر عبدالواسع اور بہت سے دوسرے شامل ہیں۔ یہ اشاعت معنوی اعتبار سے وقیع اور دستاویزی ہونے کے  ساتھ ساتھ ظاہری طور پر دیدہ زیب اور دل کش ہے۔ (مسلم سجاد)


مکّہ میں نیا جنم، جنید ثاقب۔ ناشر: الیسکام کمپیوٹر اینڈ پرنٹرز ، فیصل پلازا، نزد گلزار سوئچ بورڈ، دیپال پور روڈ، اوکاڑا۔ صفحات: ۱۴۴۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

جنیدثاقب ۲۰۰۸ء میں شدید بیمار ہوگئے۔ کہتے ہیں یوں لگا کہ میرا سفر زندگی تمام ہوا، مجھے شدید پچھتاوا ہوا کہ استطاعت کے باوجود حج نہیں کرسکا۔ اب اگر میں اس دنیا سے رخصت ہوتا ہوں تو اپنے رب کے سامنے کیا منہ لے کر جائوں گا (ص ۱۳)۔ یہی پچھتاوا ان کے لیے سفرِحج کا محرّک بن گیا۔ چنانچہ ۲۰۰۹ء کے سفرِحج کی روداد انھوں نے اپنے استاد (پروفیسر محمد اکرم طاہر) کے شوق دلانے پر لکھ ڈالی۔ طاہرصاحب نے ’پیش لفظ‘ میں اسے ’حج کے سفرناموں میں ایک نہایت قابلِ قدر اضافہ‘ قرار دیا ہے (ص۹)۔ (اضافہ ہے یا نہیں؟ اس کا فیصلہ تاریخِ ادب کرے گی مگر) سفرنامہ دل چسپ ضرور ہے۔

حج اور عمرے کے بیش تر معاصر سفرناموں میں جو کچھ ہوتا ہے، مثلاً جدہ کیسے پہنچے؟ ہوائی اڈے پر حجاج سے کیا سلوک ہوا؟ مکّہ پہنچنے میں غیرمعمولی تاخیر، معلّم کی بے حسی، وزارتِ مذہبی امور کی بے نیازی، حرم سے قیام گاہوں کی دُوری، طواف کی لذت، مِنٰی اور عرفات کی سختیاں اور پریشانیاں، شیطانوں پر کنکرزنی، اپنے خیمے کا راستہ بھولنا، طوافِ وداع میں غیرمعمولی ہجوم وغیرہ، غرض سفرِحج کی تمام آزمایشوں کا ذکر اس سفرنامے میں بھی موجود ہے لیکن اس کے چند پہلو قاری کو متاثر کرتے ہیں، مثلاً زائر کی صاف گوئی ، حرم میں زیادہ سے زیادہ وقت گزار کر، ’نیکیاں کمانے‘ کی معصومانہ خواہش (جس پر جنید ثاقب نے دوستوں کے ساتھ جدہ جانے کا پروگرام بھی قربان کردیا) (ص ۶۳)۔ اسی طرح حرمین کے مختلف مقامات کی یادیں جوان کی رومانوی افتادِ طبع سے چمٹ کر بار بار تازہ ہوتی ہیں۔ اسی طرح اتباعِ سنت کی قابلِ تعریف کوشش۔ (ص ۸۴)

نام مکّہ میں نیا جنم اس لحاظ سے معنی خیز ہے کہ اس سفر میں جنید ثاقب کو دو اعتبار سے نئی زندگی ملی۔ اوّل اس لحاظ سے کہ حج قبول ہوا (تو حقوق العباد کو چھوڑ کر) زائر نے گناہوں سے پاک و صاف ہوکر گویا ’نیا جنم‘ لیا۔ دوم: روزِ عرفات انھیں جسمانی طور پر بھی نئی زندگی عطا ہوئی۔ وہ موت کے بہت قریب پہنچ کر بچ نکلے۔ مسجد نمرہ سے نکلتے ہوئے ایک بھگدڑ کی زد میں آگئے تھے۔ کہتے ہیں کہ میرے اللہ نے مجھے ’’اُس بھیڑ اور خوف ناک بھگدڑ سے نکال دیا جس میں گیارہ لوگ شہید ہوئے اور لاتعداد زخمی۔ مجھے نہیں معلوم کہ میںکیسے وہاں سے نکل آیا؟‘‘ (ص ۴۷)۔ بارھویں یہ بھی ہوسکتے تھے، اس لیے واقعی یہ ان کا ’نیا جنم‘ تھا۔ تین صفحات پر مشتمل مسجدنمرہ پہنچنے اوروہاں سے نکلنے کی اس روداد میں افسانے کا ساتحیّر(suspense) ہے۔ اسی طرح کے افسانوی بیانات سفرنامے کے بعض دوسرے حصوں میں بھی ملتے ہیں، مثلاً مدینہ منورہ میں ان کی بیلٹ کسی تیزدھار آلے سے کاٹی گئی۔ بیلٹ میں واپسی کی ہوائی ٹکٹ، پاسپورٹ کی نقل اور دوہزار ریال تھے مگر ’’خدا نے میری جان اور مال دونوں کو محفوظ رکھا، مجھے بچا لیا گیا‘‘۔ (ص ۱۱۴)

بیش تر نئے قلم کاروں کی طرح جنید ثاقب کے ہاں بھی زبان و بیان کی خامیاں موجود ہیں۔ سب سے تکلیف دہ انگریزی لفظوں کا بلاضرورت استعمال ہے اور اس طرح کے جملے ہیں: ’فاسٹ فوڈ کے ہوٹلز کی ایک چین ہے‘‘ یا ’’فاسٹ فوڈ کھانے کا موڈ ہوتا‘‘ (ص ۳۷)۔ کیا اُردو زبان کی آلودگی میں اضافہ کرنے والے انگریزی الفاظ کی جگہ اُردو میں موجود متبادل الفاظ استعمال نہیں کیے جاسکتے؟براہ کرم ’انگریزیت‘ سے بچنے کی شعوری کوشش کیجیے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


درس و عبرت ، آباد شاہ پوری، نظرثانی: محسن فارانی۔ ناشر: دارالابلاغ پبلشرز ، رحمان مارکیٹ،  غزنی سٹریٹ، اُردوبازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۶۱۴۲۸-۰۴۲۔ صفحات:۱۱۲۔ قیمت: درج نہیں۔

تاریخ جہاں مختلف واقعات و حوادث کا مرقع ہے وہیں پر مردانِ بے باک و جری کے تذکرۂ جانفزا کا نام ہے___ تاریخ دراصل قوموں کے حافظے کا نام ہے جس سے قومیں اپنے مستقبل کا لائحہ عمل متعین کرتی اور آگے بڑھنے کا موقع پاتی ہیں۔

تاریخِ اسلام میں اپنی جدوجہد اور معرکہ آرائی کے اَنمٹ نقوش ثبت کرجانے والے چار مردانِ ذی وقار کا خوب صورت اور ایمان افروز تذکرہ درس و عبرت کے عنوان سے (جو مناسبت نہیں رکھتا) محسن فارانی نے ترتیب دیا ہے جن میں امیر عبدالقادر جزائریؒ، مہدی سوڈانیؒ،     غازی انورپاشاؒ اور عمرمختار السنوسی کے دل چسپ تذکرے شامل ہیں۔

سید بادشاہ کے مصنف آباد شاہ پوری نے عالمِ اسلام کی ان چار افسانوی شخصیات کا احوال شگفتہ طرزِ تحریر اور جذبۂ ایمانی کے ساتھ رقم کیا ہے۔ مزاحمت کی علامت سمجھی جانے والی تاریخِ اسلام کی ان بلندپایہ اور بلندقامت شخصیات پر طبع ہونے والے یہ مضامین جہاں ان کے کارناموں کو اُجاگر کرتے ہیں وہیں فرانسیسی، روسی، برطانوی اور اطالوی سازشوں، ریشہ دوانیوں، وحشت ناک مظالم اور دہرے معیارات کا پردہ چاک کرتے نظر آتے ہیں۔ موجودہ صدی میں  اہلِ مغرب بالخصوص امریکا اور یورپ کی مرضی سے عالمِ اسلام کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک اور اس کا پس منظر سمجھنے میں یہ مختصر کتاب ایک اچھا موقع فراہم کرتی ہے۔ آج ہم کو سوپر پاور سے ڈرانے والے دیکھیں کہ ان مجاہدوں سے سوپرپاور ڈرا کرتی تھیں۔ ان نوجوانوں کے لیے جنھیں پاکستان کا مستقبل تعمیر کرنا ہے، یہ کتاب ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ (عمران ظہور غازی)


روز مرہ آداب  ، پروفیسر ارشد جاوید۔ علم و عرفان پبلشرز، الحمدمارکیٹ، ۴۰- اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۵۲۳۳۲-۰۴۲۔ صفحات: ۹۶۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔

ایک عام سے موضوع پر بظاہر ایک عام سی کتاب ہے لیکن ہاتھ میں لے کر ورق گردانی کریں تو محسوس ہوگا کہ پروفیسر ارشد جاوید صاحب نے ۱۰۰ سے بھی کم صفحات میں ۲۱ عنوانات کے تحت ایک خزانہ جمع کر دیا ہے۔ بڑوں کا خیال ہوتا ہے کہ آداب سیکھنا بچوں کا کام ہے، بڑوں کو  اس سے کیا کام! لیکن جیساکہ سرورق پر لکھا گیا ہے کہ یہ ’’ہرپاکستانی کے لیے ضروری‘‘ ہے۔ پاکستانی لکھ کر مصنف نے تکلف سے کام لیا ہے۔ یہ ہر اُردو پڑھنے والے کے لیے ہے اور دیگر زبانوں میں ترجمہ ہوجائے تو ان زبانوں کے قارئین کے لیے بھی___ مسلمان ہونے کی بھی شرط نہیں، اس لیے کہ یہ آداب کسی بھی انسانی معاشرے کو شائستگی، باہمی احترام اور سکون دے سکتے ہیں۔پہلے باب میں اخلاقی آداب کے حوالے سے اخلاقی خوبیوں اور خرابیوں پر سب سے طویل تحریر ہے۔ جھوٹ، ایمان داری، قَسم، وعدہ، معاہدہ، غیبت، چغلی، بدگمانی، مذاق اُڑانا، طعنہ زنی، فحش گوئی، لڑائی جھگڑا، نرم مزاجی، چوری اور غصہ کے عنوانات سے آپ اس کی جامعیت کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ اس کے بعد سونے جاگنے کے، کھانے پینے کے، لباس کے، مجلس کے، سفر کے، ٹریفک کے، حتیٰ کہ جنازے کے آداب، نیز صفائی اور پاکیزگی، صحت، شکرگزاری، پھر پڑوسی کے حقوق، راستے کے حقوق، والدین کے حقوق، ہر ایک پر اختصار لیکن جامعیت سے گفتگو کی گئی ہے اور    آج کے حالات کا پورا لحاظ رکھاگیا ہے۔ آخری خوب صورت باب دعائوں کے موضوع پر ہے۔ ابتدائی ضروری گفتگو کے بعد خاص موقعوں کی دعائیں ترجمے کے ساتھ درج کر دی گئی ہیں۔

یہ مختصر کتاب ہرگھر کی ضرورت ہے۔ ہر بچے اور بڑے کی ضرورت ہے۔ اس کے ابواب رسائل میں بطور مضمون شائع ہوسکتے ہیں۔ بچوں کے رسائل تو باری باری سب کچھ نقل کرسکتے ہیں۔

کوئی کمی نہ بتائی جائے تو تبصرہ مکمل نہیں ہوتا۔ اگر ٹیلی فون کے آداب، انٹرنیٹ اور    ای میل کے آداب اور فیس بُک کے آداب پر بھی ابواب ہوتے تو یہ کتاب زمانے کے تقاضوں کو پورا کرتی (اب بھی کرتی ہے)۔ ان مشاغل میں بڑے اور بچے اپنا بہت زیادہ وقت صَرف کر رہے ہیں۔ اس بارے میں انھیں کچھ آداب سکھانے کی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ یہ آداب پر روایتی کتاب نہیں، قرآن اور حدیث پر ضرور مبنی ہے لیکن عملی اِطلاق میں کارگرنکات نے اسے ایک عام کتاب نہیں بلکہ جیسا کہ ابتدا میں کہا گیا ایک غیرمعمولی کتاب بنا دیا ہے۔ اگر ہمارا معاشرہ خواندہ اور  زندہ معاشرہ ہوتا تو ایسی کتاب چند دنوں میں ایک ملین فروخت ہوتی۔(م- س)


مزدور تحریک، مزدور مسائل اور سید مودودی، پروفیسر محمد شفیع ملک۔ ناشر: پاکستان ورکرز ٹریننگ ٹرسٹ، ایس ٹی ۳/۲، بلاک ۵، گلشن اقبال، کراچی۔ فون: ۳۷۷۱۸۴۴۹-۰۲۱۔ صفحات:۲۰۰۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

اسلام ایمان و عمل ہے اور تحریک و تہذیب بھی۔ اس مناسبت سے وہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھتا ہے اور ان کی مثبت تشکیل کا فریضہ بھی انجام دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے اسلام صرف مسجد اور عبادت گاہوں کا دین نہیں بلکہ وہ کھیتوں، کھلیانوں، صنعت گاہوں اور ایوانِ اقتدار کے باسیوں سے بھی مخاطب ہوتا ہے۔ انقلابِ فرانس کے بعد جوں ہی صنعتی انقلاب کے دائرے میں وسعت آئی، تو سرمایے کا چند ہاتھوں میں ارتکاز ہوا اور انسانی محنت و مشقت کا استحصال اپنی انتہائوں کو چھونے لگا۔ یہی کچھ ہمارے سماج میں بھی ہوا۔

سید مودودی علیہ الرحمہ نے جب معاشرے کو خطاب کیا تو ان میں ایک مظلوم ترین طبقہ، پسے ہوئے مزدوروں کی صورت میں سامنے آیا، جس کا خون پسینہ ایک طرف سرمایہ دار نچوڑ رہا تھا تو دوسری جانب اشتراکی مزدور تحریک سرخ انقلاب کے خواب دکھلا کر سودے بازی کر رہی تھی۔   اسی مؤخر الذکر طبقے نے ان کی قیادت پر اجارہ داری بھی قائم کررکھی تھی۔ تحریکِ اسلامی نے   مولانا مودودی کی رہنمائی میں ظلم کی اس دوہری زنجیر کو کاٹنے کے لیے اسلامی مزدور تحریک کا ڈول ڈالا۔ پہلے پہل اسے ایک اجنبی آواز کی طرح سنا گیا، مگر تحریکِ اسلامی سے وابستہ مزدور تحریک کے    اَن تھک کارکنوں نے بہ یک وقت ظالم سرمایہ دار اور سرخ پیشہ ور لیڈرشپ، دونوں سے نبردآزما ہوئے۔ یہ کتاب اس حوالے سے کی جانے والی جدوجہد اور پیش آنے والے اُتارچڑھائو کا قیمتی ریکارڈ پیش کرتی ہے اور مولانا مودودی کی معاشی فکر کے بھولے بسرے گوشوں کو بھی نمایاں کرتی ہے۔ کتاب کا دیباچہ محترم سید منور حسن نے تحریر کیا ہے۔(سلیم منصور خالد)


کرنل محمد رشید عباسی، حیات و خدمات، مرتبین: محمد صغیر قمر، عبدالسلام۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ صفحات: ۲۰۸۔ قیمت: ۱۸۰ روپے۔

آزاد کشمیر میں جماعت اسلامی ایک بھرپور دینی و سیاسی جماعت کے طور پر اپنا کردار    ادا کررہی ہے۔ کرنل محمد رشید عباسی مرحوم نے اس ننھے سے پودے کو تناور درخت میں تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ زیرتبصرہ کتاب اسی تفصیل پر مبنی ہے۔

مرتب محمد صغیر قمر کو مرحوم کے قریب رہنے کا وافر موقع ملا اور اُن کا خیال ہے کہ کرنل مرحوم نے آزاد کشمیر کے کونے کونے میں عوام الناس تک تحریکِ اسلامی اور تحریکِ جہاد کا پیغام پہنچایا۔

کرنل محمد رشید عباسی مرحوم ۱۹۸۰ء میں جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے امیر بنے اور اپنی تمام صلاحیتیں اپنی دعوت کو پھیلانے میں کھپا دیں۔ یہاں تک کہ ۱۹۸۹ء میں وہ اپنے رب سے جاملے۔ رحلت سے قبل اُنھوں نے ایک بڑی ٹیم ایسے باصلاحیت نوجوانوں کی تیار کردی جنھوں نے غلبۂ اسلام اور استصواب راے کا علَم بلند رکھا، اور یہ جدوجہد ایک تسلسل سے آج بھی جاری ہے۔

جناب عبدالرشید ترابی، جناب الیف الدین ترابی، جناب حافظ محمد ادریس، جناب یعقوب شاہق کے مضامین خصوصی معلومات کے حامل ہیں۔ دیگر حضرات کے مضامین میں بھی قابلِ قدر معلومات ملتی ہیں۔ دو صد سے زائد صفحات میں مرحوم کے اہلِ خانہ کے علاوہ تحریکِ آزادیِ کشمیر کے     اہم رہنمائوں اور اُن کے زیرتربیت رہنے والے کارکنوں کے احساسات کو بھی شاملِ اشاعت کیا گیا ہے۔ کتاب میں آزادی کی جدوجہد کے مختلف مراحل پر کشمیر کا نقشہ اور دیگر تفصیلات پر مبنی مضمون بھی شامل ہوتا تو اس کی قدروقیمت میں مزید اضافہ ہوجاتا۔ عالمی اسلامی تحریکات،  تحریکِ آزادیِ کشمیر اور تحریکِ اسلامی کے موضوعات سے دل چسپی رکھنے والے حضرات کے لیے مفید کتاب ہے۔ (محمد ایوب منیر)