۲ فروری کا دن حسنی مبارک کے خلاف تحریک کا ایک اہم دن تھا۔ قاہرہ کے میدان التحریر میں لاکھوں افراد جمع تھے۔ اکثر لوگوں نے میدان التحریر کو آنے والے مختلف راستوں پر باقاعدہ مورچے لگائے ہوئے تھے۔ اس سے پہلے حکومت کی طرف سے بھیجے گئے مسلح غنڈے مظاہرین پر حملہ آور ہوکر بڑی تعداد میں لوگوں کو شہید کرچکے تھے۔ ایک ’مورچے‘ پر مصر کے معروف عالمِ دین اور دانش ور صفوت حجازی بھی تھے۔ وہ بتا رہے تھے کہ ہم نے ساری رات پہرہ دے کر گزاری۔ لوگ باری باری نیند اور تہجد و عبادت میں مصروف تھے۔ مجھے نہ جانے کیوں بار بار لگ رہا تھا کہ آج مجھے بھی شہید ہوجانا ہے۔ نمازِ فجر کا وقت ہوا تو غنڈوں کے حملے کے خوف سے ہم نے نماز بھی باری باری ادا کی۔ میرے ساتھ ہی ایک نوجوان عبدالکریم بھی تھا۔ اس سے وہیں تعارف ہوا۔ وہ جامعہ الازہر سے فارغ التحصیل تھا۔ ۲۵ پارے حفظ کیے ہوئے تھے اور زیادہ وقت تلاوت میں مصروف تھا۔ اس کی تلاوت میں ایک عجیب تاثیر تھی۔ میں نے اسے ہی امامت کے لیے کہہ دیا۔ نماز پڑھ کر وہ مجھے مخاطب ہوتے ہوئے بولا: میں اگر اس میدان میں ماراجائوں تو کیا شہادت کا درجہ ملے گا؟ میں نے کہا: ضرور ملے گا۔ کہنے لگا: دلیل کیا ہے؟ میں نے کہا: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: سید الشھداء حمزہ ورجل قام اِلی امام جائر فامرہ ونھاہ فقتلہ ’’(حضرت) حمزہ سیدالشہدا ہیں اور ہر وہ شخص بھی کہ جو ظالم حکمران کے سامنے ڈٹ گیا اسے (نیکی کا) حکم دیا اور (برائی سے) منع کیا اور اس نے جواباً اسے قتل کر دیا‘‘۔
کچھ دیر مزید بات ہوئی جس میں، مَیں نے اپنا یہ احساس بھی بتایا کہ مجھے لگتا ہے کہ مجھے بھی شہادت کی سعادت ملے گی۔ عبدالکریم فوراً بولا: اگر مجھ سے پہلے چلے گئے تو سیدالشہدا حضرت حمزہؓ کو میرا سلام کہیے گا۔ میں نے کہا: اور اگر آپ چلے گئے توآپ میرا سلام پہنچا دیجیے گا۔ عبدالکریم یہ سنتے ہی اُٹھ کر چل دیا۔ میں نے پوچھا: کدھر چل دیے؟ ہنستے ہوئے کہنے لگا: سیدالشہدا کو آپ کا سلام پہنچانے… ابھی عبدالکریم نے ایک قدم بھی نہیں اُٹھایا تھا کہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔ ہم نے دیکھا تو دُور گھات لگائے بیٹھے سرکاری غنڈے کی دُوربین لگی بندوق کی ایک گولی عبدالکریم کے سر میں چھید کرتی ہوئی نکل گئی تھی اور ہر طرف کستوری کی مہک پھیل رہی تھی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ عبدالکریم کا تعلق الاخوان المسلمون سے تھا۔
تقریباً نصف صدی عذاب و اذیت میں تو گزر گئی، لیکن الاخوان المسلمون نے اس عرصے میں لاکھوں افراد پر مشتمل ایک ایسی نسل تیار کر دی ہے کہ جو بلند مقاصد کی خاطر ہرطرح کی قربانی دینے کے لیے ہرلمحے تیار رہتی ہے۔ اللہ ہمارا مقصود ہے،قرآن ہمارا دستور ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے رہنما ہیں، کے بعد الجہاد سبیلنا، ’’جہاد ہمارا راستہ ہے‘‘ اور الشہادۃ فی سبیل اللّٰہ اسمی امانینا، ’’اللہ کی راہ میں شہادت ہماری سب سے بلندپایہ آرزو ہے‘‘ کا شعار اس ربانی نسل کا پورا تعارف کروا دیتا ہے۔ تیونس اور مصر کے فرعونوں سے نجات کے لیے اس نوجوان نسل کی قربانیوں نے عالمِ عرب کے ہر نوجوان کو ایک نئی روح سے سرشار کر دیا ہے۔ اس کا ایک مظہر تو یمن، شام اور لیبیا میں دکھائی دے رہا ہے، لیکن اس کا ایک تازہ اور حیران کن مظہر ۱۵مئی کو دکھائی دیا۔ لیکن آیئے پہلے ۱۵ مئی کا تھوڑا سا پس منظر ذہن میں تازہ کرلیجیے۔
آج سے ۶۳ سال پہلے، ۱۵ مئی ۱۹۴۸ء کو سرزمینِ اقصیٰ میں ایک قیامت برپا ہوئی تھی۔ فلسطینی شعبہ شماریات کے مطابق اس وقت فلسطینی عوام کی کُل تعداد ۱۴ لاکھ تھی۔ پورے فلسطین میں ان کے ۱۳۰۰ شہر، قصبے اور بستیاں آباد تھیں۔ یہودیوں نے برطانوی سرپرستی اور مسلمان حکمرانوں کی خیانت کے باعث فلسطینی عوام کا قتلِ عام شروع کر دیا۔ ۷۷۴ شہروں اور بستیوں پر قبضہ کرلیا، ان میں سے ۵۳۱ شہر اور بستیاں مکمل طور پر تباہ کردیے۔ ۱۵ہزار فلسطینی قتل کردیے اور ۸لاکھ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے گھر کر کے مہاجر کیمپوں اور پڑوسی ملکوں میں دھکیل دیا۔ تب سے ۱۵مئی کو یومِ نکبت کہا جاتا ہے۔ گذشتہ ۶۳برس سے ہرسال اس یومِ نکبت کی یاد منائی جاتی ہے۔
مصر اور تیونس میں عوامی جدوجہد کی کامیابی کے بعد یومِ نکبت قریب آنے لگا تو مصر سمیت فلسطین کے تمام پڑوسی ملکوں کے نوجوانوں نے اس دن کو ایک منفرد انداز میں منانے کا اعلان کیا۔ انھوں نے اعلان کیا کہ اس برس ہم یہ دن سرزمین انبیا فلسطین کی سرحدوں پر جاکر منائیں گے۔ اس اعلان نے مصر، فلسطین، اُردن، لبنان اور شام سمیت ہر جگہ نوجوانوں کو ایک نئے جذبے سے سرشار کردیا۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے ایک دوسرے کو پیغامات دیے جانے لگے اور ۱۵مئی ۲۰۱۱ء کا دن واقعی ایک تاریخی دن بن گیا۔ اس روز بوڑھے، بچے، مرد و زن سب بڑی تعداد میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قبلۂ اول اور اپنے آباواجداد کی سرزمین کی طرف دیوانہ وار چل نکلے۔ ۱۵مئی کو اتوار کا دن تھا لیکن مصر اور اُردن میں لوگ جمعے کے روز سے ہی جمع ہونے لگے۔ پھر اتوار کے روز لبنان کے علاقے مارون الراس اور شام کے مقبوضہ علاقے جولان کی سرحدی بستیوں القنیطرۃ اور مجدل الشمس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع ہونے لگے۔ ہرشخص جذبات سے اس طرح سرشار تھا کہ گویا یہ فلسطین کی آزادی کا دن ہے۔ بہت سے لوگوں نے اپنے ہاتھوں میں لکڑی کی بنی ہوئی بڑی بڑی چابیاں اُٹھائی ہوئی تھیں۔ چابی کا نشان بے دخل کیے جانے والے فلسطینیوں کے حقِ واپسی کی علامت بن چکا ہے۔ مظاہرین سرحدوں پر ہی جمع ہوکر مظاہرے کرتے تو صورت حال مختلف ہوتی۔ صبح تقریباً ۱۰ بجے سے جمع ہونے والے مظاہرین کی تعداد جب ہزاروں میں ہوگئی تو انھوں نے سرحد پر بچھی بارودی سرنگوں اور گشت کرتی اسرائیلی فوجی گاڑیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے، اپنے اور فلسطین کے مابین حائل خاردار تاروں اور آہنی جنگلوں کو روند ڈالا۔ بڑی تعداد میں لوگ فلسطینی دھرتی کی آغوش میں آنے اور وہاں سجدہ ریز ہونے کے لیے بے تاب تھے۔ آگے بڑھتے ہوئے انھوں نے یہودیوں پر پتھرائو بھی شروع کر دیا۔
آیئے اس صورت حال کی مزید جھلک بڑے اسرائیلی روزنامے یدیعوت کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے: ’’اسرائیلی سرزمین میں گھس جانے والے فلسطینی پتھرائو کرنے لگے۔ کچھ لوگوں نے وہاں زیرتعمیر ایک گھر میںپناہ لے لی، اور وہاں سے پتھرائو شروع کر دیا۔ پتھروں کی بارش یہودیوں یا دُرزی قبیلے کے افراد میں کوئی تمیز نہیں کر رہی تھی، نہ ہی انھوں نے یہودی فوجیوں اور شہریوں میں کوئی تمیز کی۔ مجھے ایک اسرائیلی شہری نے ۱۶مئی کو بتایا کہ ’’میں اپنی پوری زندگی میں اتنا خوف زدہ نہیں ہوا جتنا کل ہوا تھا‘‘۔ ہم نے فلسطینیوں سے کہا کہ پتھرائو بندکر دو، وگرنہ فوج فائر کھول دے گی۔ انھوں نے جواب دیا: ’’پرواہ نہیں، ہم یہاں مرنے کے لیے آئے ہیں‘‘۔ جو کچھ جولان میں ہوا، لبنانی سرحدوں پر بھی وہی ہوا۔ اسرائیلی فوج اور حزب اللہ کے ٹی وی چینل ’المنار‘ کی بنائی ہوئی تصاویر میں آپ واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ فلسطینی جوق در جوق مارون الراس کے ٹیلوں سے اُتر کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان پر اسرائیلی فوج نے بھی فائرنگ کی اور خود لبنانی فوج نے بھی۔ کچھ افراد زخمیوں اور مرنے والوں کی لاشیں اُٹھا کر پیچھے جاتے لیکن ان سے زیادہ اور آگے آجاتے۔ یہ لوگ سرحد پر لگے آہنی جنگلے کی طرف یوں بڑھ رہے تھے، جیسے کسی نشے سے سرشار ہوں۔ ہم نے یہ مناظر گذشتہ مہینوں میں (قاہرہ کے) میدان التحریر، (لیبیا کے شہر) بن غازی اور (شام کے شہر) درعا اور بانیاس میں تو دیکھے تھے لیکن اسرائیلی سرحدوں پر یہ مناظر اس ہفتے پہلی بار دیکھنے میں آئے۔ یہ لوگ حماس کے خودکش حملہ آور نہیں تھے بلکہ فیس بک کے حملہ آور تھے… یہ لوگ دوبارہ پھر آئیںگے اور یہ اس ہفتے کے واقعات سے سیکھا جاسکنے والا پہلا سبق ہے (مظاہرین کے مطابق) آیندہ ستمبر میں یہ مناظر دوبارہ دہرائے جاسکتے ہیں‘‘۔ (یدیعوت احرونوت، ۲۰ مئی ۲۰۱۱ء)
لبنان اور شام کی سرحدوں پر اسرائیلی فائرنگ سے درجنوں فلسطینی شہید ہوگئے، سیکڑوں زخمی ہوگئے لیکن عرب بالخصوص فلسطینی عوام اس تازہ وجدان و روح سے سرشار ہوگئے ہیں کہ بالآخر ایک روز ہم ان خاردار اسرائیلی جنگلوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے روند ڈالیں گے۔ فیس بک کے ذریعے تحریک چلانے والے نوجوان اعلان کر رہے ہیں کہ ۶۳ سال بعد یہ پہلا موقع تھا کہ تین اطراف سے چار عرب ممالک کے عوام فلسطینی سرزمین کی جانب بڑھے۔ اس سال ان کی تعداد ہزاروں میں تھی، لیکن شہادتوں اور قربانیوں کی پرواہ کیے بغیر اگر کئی ملین کی تعداد میں لوگ نکل آئے، خود فلسطین کے اندر سے بھی اتنی ہی تعداد میں فلسطینی باہر آگئے تو عرب عوام کے سمندر میں گِھرا صہیونی جزیرہ اپنا وجود باقی نہ رکھ سکے گا۔ خود اسرائیلی تجزیہ نگار اور عسکری ماہرین ان واقعات کا مسلسل جائزہ لے رہے ہیں۔ یہ بحث بھی عروج پر ہے کہ ہم ان واقعات کا اندازہ پہلے سے کیوں نہ لگا سکے؟ کیا یہ انٹیلی جنس کی ناکامی ہے یا فوج صورت حال پر قابو نہیں پاسکی؟
اس بارے میں بھی ایک اہم ترین تبصرہ خود یدیعوت احرونوت کے الفاظ ہی میں ملاحظہ فرمایئے: ’’انٹیلی جنس کی ناکامی کے اسباب کا جائزہ لینا بھی اہم ہے لیکن اتوار کے روز ہونے والے واقعات کچھ اور اسباب کی بنا پر بھی بہت اہم ہیں۔ پہلا یہ کہ اسرائیل فلسطین تنازع اب دوبارہ پورے خطے کا تنازع بن چکا ہے۔ اب اسرائیل کی کوئی بھی سرحد محفوظ نہیں رہ گئی۔ نہ شام، نہ مصر اور نہ لبنان، کسی طرف سے بھی ہماری سرحد محفوظ نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ اسرائیلی فوج غیرمسلح شہریوں کی تحریک نافرمانی کا مقابلہ نہیں کرسکتی، بالخصوص اس وقت کہ جب اس میں خواتین اور بچے بھی شریک ہوں۔ تیسرا یہ کہ اب ہم عرب ممالک کی حکومتوں پر یہ بھروسا نہیں کرسکتے کہ وہ اسرائیلی سرحدوں کی حفاظت کرسکیں گے۔ چوتھا (اہم ترین) سبب یہ ہے کہ خوف کے حصار سے نجات، ایک متعدی مرض ہے، جو عوام بشارالاسد کے ٹینکوں کے خوف سے آزاد ہوگئے ہیں، وہ اسرائیلی فوج کی بارودی سرنگوں سے بھی نہیں ڈریں گے‘‘ (یدیعوت، ۲۰ مئی ۲۰۱۱ء)۔ اسرائیلی تجزیہ نگار کے یہ دونوں نکات پوری بحث کا خلاصہ بتا رہے ہیں کہ عرب حکمران اسرائیل کا مزیددفاع کرنے کے قابل نہیں رہے اور اگر عوام خوف کی دیوار ڈھا دیں تو پھر کوئی قوت ان کا راستہ نہیں روک سکتی۔
تھا تو یہ ایک روز کا مظاہرہ، لیکن چند ہزار افراد کے سرحدوں پر اُمڈ آنے سے چہار جانب خطرے کی گھنٹیاں بج اُٹھی ہیں۔ اسرائیل کے علاوہ خود امریکا میں اس پر بحث ہورہی ہے۔ کانگریس میں ری پبلکن پارٹی کے اہم یہودی رہنما ایرک کینٹر (Eric Cantor) نے گذشتہ دنوں معروف یہودی ادارے ’ایپاک‘ AIPAC سے خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ’’ہمارے خواب خطرات سے دوچار ہیں‘‘۔ ’’اسرائیل کی بقا کی ضمانت دینے کے لیے اب ہمیں ہرممکن کوشش کرنا ہوگی‘‘، ’’اسرائیل نہ رہا تو ہم میں سے کوئی بھی باقی نہ رہے گا‘‘۔ امریکا میں یہودی لابی کے معروف ادارے جے سٹریٹ میں بھی دہائی دی جارہی ہے کہ ہمیں فلسطینیوں کے ساتھ فوری طور پر صلح کرلینی چاہیے، وگرنہ اسرائیل کا وجود خطرات سے دوچار ہوجائے گا۔ (اسرائیل ٹوڈے، ۲۵ مئی ۲۰۱۱ء)
یہ ساری تشویش صرف شام اور لبنان کے مظاہروں کے باعث پیدا ہوئی ہے۔ اُردن میں، جس کی نصف آبادی فلسطینیوں پر مشتمل ہے، ابھی بڑے پیمانے پر مظاہرے نہیں ہوسکے، جو مظاہرے ہوئے وہ بھی مخصوص علاقوں تک محدود رہے، جب کہ مصر میں عبوری دور کے باعث حکومت اور سیاسی جماعتوں نے انھیں ایک مختلف رُخ دے دیا۔ اس تحریک کو تیسری تحریک انتفاضہ کا نام دیا جا رہا ہے، اور اس کے اعلان و انتظام میں مصری نوجوانوں نے بنیادی کردار ادا کیا تھا، لیکن ۱۵مئی آنے سے پہلے مصر میں دو اہم واقعات رُوپذیر ہوگئے۔ ایک تو وہاں اچانک مسلمانوں اور(قبطی) مسیحیوں کے درمیان فسادات شروع ہوگئے۔ ان فسادات کا آغاز اس وقت ہوا جب ایک مسیحی طالبہ عبیرطلعت نے اپنے وڈیو پیغام میں بتایا کہ اس نے اسلام قبول کرلیا تھا، جس کی پاداش میں مسیحی پیشوائوں نے اسے اِمبابہ شہر کے ایک چرچ میں قید کر دیا اور اس پر دبائو ڈالا کہ وہ دوبارہ مسیحی ہونے کا اعلان کرے۔یہ سن کر بڑی تعداد میں مسلمان نوجوان چرچ کے باہر جمع ہوگئے جس پر عبیر کو رِہا کردیا گیا، لیکن اسی اثنا میں فائرنگ اور خوں ریزی کے واقعات بھڑک اُٹھے۔ کئی جانوں کے ضیاع، توڑ پھوڑ اور آتش زدگی کے نتیجے میں بھاری نقصانات دیکھنے میں آئے۔ بعد میں وزیرداخلہ نے بتایا کہ سب سے پہلے حسنی مبارک کی کالعدم پارٹی کے ایک مسیحی تاجر نے خود اِمبابہ چرچ کے باہر جمع مسلمان نوجوانوں پر فائرنگ کی اور پھر اپنے متعدد غنڈوں کے ذریعے ہلہ بول دیا۔ ان سابق حکمرانوں کی کوشش تھی کہ پورے ملک میں مسلم مسیحی فسادات بھڑکا دیے جائیں، لیکن بالآخر سیاسی جماعتوں کی کوششوں سے ان فسادات کی آگ پر قابو پالیا گیا۔
دوسرا اہم واقعہ یہ ہوا کہ دو اہم فلسطینی جماعتوں ’الفتح‘ اور ’حماس‘ کے درمیان ایک صلح نامہ طے پا گیا۔ حسنی مبارک کے اقتدار میں کئی بار دونوں جماعتوں کے مابین مذاکرات ہوئے، کئی بار صلح نامے کے مسودے تیار ہوئے، لیکن ہربار صلح کی کوششیں ناکام رہیں۔ اس مرتبہ نہ لمبے چوڑے مذاکرات کے دور چلے، نہ ذرائع ابلاغ میں کوئی شور سنائی دیا۔ اچانک معلوم ہوا کہ ’حماس‘ اور ’الفتح‘ نے قاہرہ میں صلح کے جامع معاہدے پر دستخط کردیے ہیں۔ مصری عوام نے اس مناسبت سے ۱۵مئی کویومِ نکبت یا یومِ وحدت ہی نہیں، بلکہ یوم الوحدۃ والمناصرۃ (یومِ وحدت و نصرت) کا عنوان دے دیا۔
قاہرہ کے میدان التحریر کے علاوہ دیگر کئی شہروں میں بھی لاکھوں کی تعداد میں عوام سڑکوں پر جمع ہوئے۔ ’مسیحی مسلم بھائی بھائی‘ اور ’حماس الفتح بھائی بھائی‘ کے نعروں سے اپنے جذبات کا اظہار کیا اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا کہ چونکہ مصر ایک عبوری دور سے گزر رہا ہے، بہت سی اندرونی و بیرونی طاقتیں اب بھی مصری عوام سے ان کی قربانیوں کا ثمر چھیننا چاہتی ہیں، اس لیے ہم کسی کو اس طرح کی سازش کا موقع نہیں دیں گے۔ اعلان کیا گیا کہ ہم ۱۵مئی کو رفح بارڈر پر جانے کے بجاے ۱۳، ۱۴ اور ۱۵مئی تینوں دن اہلِ فلسطین کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے لیے ملیونیۃ الفجر (ملین نمازِ فجر) کا اہتمام کریںگے۔ پھر بالفعل یہی ہوا۔ تینوں دن لاکھوں کی تعداد میں عوام قاہرہ کے میدان التحریر اور دیگر میدانوں اور پارکوں میں فجر کے وقت جمع ہوئے اور یومِ نکبت کی سرگرمیوں میں اپنی شرکت کا ایک نیا ایمان افروز رنگ پیش کیا۔ ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین قاہرہ میں اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے بھی جمع ہوئے۔ انھوں نے وہیں نمازِ فجر ادا کی اور یومِ وحدت و نصرت منایا۔ اب اس بات کا اندازہ لگانا کسی کے لیے بھی مشکل نہیں ہے کہ اگر کسی روز یہی لاکھوں عوام وادیِ سینا عبور کرتے ہوئے رفح بارڈر پر جمع ہوگئے تو تیسری تحریکِ انتفاضہ کیا رُخ اختیار کرسکتی ہے۔ اسرائیلی دانش ور اور بحث و تحقیق کے ادارے اپنے مستقبل کا جائزہ لینے کے لیے مصروشام کے مستقبل کا بھی گہرا مطالعہ کر رہے ہیں۔
خود اخوان نے اس مرحلے پر بہت محتاط پالیسی اختیار کی ہے۔ اپنا صدارتی اُمیدوار اور ۵۰ فی صد سے زائد نشستوں پر اپنے اُمیدوار نہ لانے کا اعلان اسی پالیسی کا حصہ ہے، لیکن اس تمام تر احتیاط کے باوجود فلسطین کے بارے میں اپنا موقف پوری قوت و ثبات سے پیش کیا جا رہا ہے۔ مرشدعام ڈاکٹر محمد بدیع نے اس موقع پر اپنے دوتفصیلی بیانات میں یومِ نکبت اور مسئلۂ فلسطین پر روشنی ڈالی ہے۔ ایک بیان میں فلسطین کے بارے میں اخوان کی تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں: ۱۹۲۸ء میں الاخوان المسلمون کی تاسیس کے وقت ہی امام حسن البنا نے مسئلۂ فلسطین کو مرکزی حیثیت دی تھی۔ انھوں نے مئی ۱۹۴۸ء کو لبنان کے شہر عالیہ میں جمع عرب حکمرانوں کو پیش کش کی تھی کہ فلسطین کی آزادی کے لیے اخوان شہادت کے لیے بے تاب اپنے ۱۰ہزار نوجوان پیش کرنے کے لیے تیار ہیں…اخوان نے صہیونیوں کے خلاف جہاد میں باقاعدہ حصہ لیا۔ ۲۶مئی ۱۹۴۸ء کو ایک بہت مشہور معرکہ ’’رامات رحیل‘‘ کے مضبوط صہیونی قلعے پر ہواتھا۔ اخوان کے مجاہدین نے اس میں ۲۰۰؍اسرائیلی فوجی قتل کیے… لیکن ان تمام قربانیوں کے باوجود جنگ بند ہونے کے بعد، ۱۹۴۸ء ہی میں ایک فوجی حکم کے نتیجے میں اخوان پر پابندی لگادی گئی اور پھر ۱۲فروری ۱۹۴۹ء کو حسن البنا کو شہید کر دیا گیا‘‘۔ اخوان کی یہ تمام قربانیاں کسی سے مخفی نہیں ہیں لیکن اس اہم موقع پر اخوان کے مرشدعام کی طرف سے اس کا ذکر کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ احتیاط و حکمت مومن کی شان ہوتی ہے، لیکن اپنے اصولی موقف پر ثابت قدم رہنا بھی کامیابی کی اصل بنیاد ہوتی ہے۔ اب اسرائیلی تجزیہ نگار اپنے عوام کو تسلی دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ الاخوان المسلمون کو ۲۰ فی صد سے زیادہ ووٹ نہیں ملیں گے۔ وہ اگر حکومت میں آئے بھی تو یہ ایک مخلوط حکومت ہوگی جس کی ساری پالیسیاں اخوان کے ہاتھ میں نہیں ہوں گی اس لیے خوف زدہ نہ ہوں۔
اس وقت مصر اور تیونس میں اسلامی تحریک کی تمام تر توجہ نئے مرحلے میں اپنا کام منظم و مربوط کرنے پر مرکوز ہے۔ گذشتہ تقریباً نصف صدی سے ان دونوں تحریکوں کو عذاب و ابتلا کا سامنا تھا۔ سارا تنظیمی ڈھانچا اور تمام دعوتی و تربیتی سرگرمیاں زیرزمیں چلی گئی تھیں۔ اب پورا کام دوبارہ برسرِزمین آرہا ہے۔ اخوان نے ۵۰سال کے بعد پہلی بار اپنی شوریٰ کا اجلاس علانیہ طور پر کیا ہے۔ اس تاریخی اجلاس میں دیگر امور کے علاوہ اپنی سیاسی جماعت حزب الحریۃ والعدالۃ ’آزادی و انصاف پارٹی‘ کے قیام کی منظوری بھی دی گئی ہے۔
پہلے اخوان کا نام تک غیرقانونی تھا۔ اب انھوں نے قاہرہ کے قلب میںاپنے شان دار مرکز کا باقاعدہ افتتاح کر دیا ہے۔ جون میں الحریۃ والعدالۃ پارٹی بھی اپنے مرکز کا باقاعدہ افتتاح کردے گی۔ اخوان کی مجلس شوریٰ میں ہونے والے فیصلوں کے مطابق یہ سیاسی پارٹی اپنی پالیسیوں اور سرگرمیوں میں مکمل طور پر آزاد و خودمختار ہوگی لیکن اپنے اہم فیصلوں میں اخوان سے بھی رہنمائی لے گی۔ پارٹی کے ذمہ داران کا تعین بھی باہم مشاورت سے ہی کیا گیا ہے۔ اخوان کے ایک اہم رہنما محمد مرسی اس کے صدر اور گذشتہ سیشن میں اخوان کے پارلیمانی لیڈر سعد الکتاتنی (۲۰۰۸ء میں مینارِ پاکستان پر منعقدہ جماعت اسلامی کے اجتماعِ عام میں اخوان کی نمایندگی کے لیے آئے تھے) اس کے سیکرٹری جنرل ہوں گے۔ ایک انقلابی اور دُوررس فیصلہ یہ بھی کیا گیا ہے کہ ایک قبطی مسیحی سیاسی لیڈر رفیق حبیب کو بھی الحریۃ والعدالۃ کے نائب صدور میں شامل کیا گیا ہے جس سے عوام میں یہ تاثر گہرا ہوا ہے کہ یہ جماعت سب مصری عوام کے لیے ہے۔
ادھر تیونس میں بھی انتخابات کی تاریخ قریب تر آتی جارہی ہے۔ ۲۴جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں شرکت کے لیے اب تک ۶۳ سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہوچکی ہیں، لیکن ان میں نمایاں جماعتیں انگلیوں پر گنی جاسکتی ہیں۔ تحریک نہضت ان میں سرفہرست ہے۔ بعض جائزہ کار آیندہ اسمبلی میں اس کا حصہ ۵۰ فی صد کے قریب بتارہے ہیں، جب کہ کم از کم بتانے والے بھی یہ تناسب ۲۰ فی صد بتاتے ہیں۔ تیونس میں فرانس اور مصر میں امریکا کی سربراہی میں بیرونی اثرورسوخ بھی نئے سرے سے اپنے پائوں جمانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ صدر اوباما نے اپنے حالیہ تاریخی خطاب میں تبدیل شدہ مصر کو بھی مالی امداد جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ مختلف امریکی تحقیقی ادارے تسلسل سے لکھ رہے ہیں کہ عالمِ عرب کی اسلامی تحریکیں ایک حقیقت ہیں، ہمیں ان کے ساتھ تعاون کی راہ نکالنا ہوگی۔ لیکن بدقسمتی سے یہ ساری حقیقت پسندی اس وقت کافور ہوجاتی ہے جب معاملہ فلسطین یا اسرائیل کا ہو۔ اسی خطاب میں صدر اوباما نے حماس اور الفتح کی مصالحت پر کڑی تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ جو تحریک اسرائیل کا وجود ہی تسلیم نہیں کرتی، الفتح نے اس کے ساتھ کیوں صلح کی۔ ایک مہم یہ بھی چلائی جارہی ہے کہ حماس نے اپنے پروگرام میں اسرائیل نام کی کوئی چیز تسلیم نہ کرنے کا جو اعلان کیا ہوا ہے وہ اسے حذف کر دے۔ گویا کہ خود گل ہی بوے گل سے براء ت کا اظہار کردے۔
۱۵مئی کے مظاہروں اور مصر و تیونس کے انقلابات نے پوری دنیا کو پیغام دیا ہے کہ ظلم کی طویل رات جس قدر بھی طویل ہوجائے اسے بالآخر چھٹنا ہے۔ خالق کائنات بھی ظالم کی رسی دراز تو کرتا ہے لیکن جب مقہور و مظلوم نہتے، پُرامن عوام، خوف کا پردہ چاک کرتے ہوئے قربانیوں کے سفر پہ چل نکلیں تو تمام فرعونی نظام ریت کی دیوار ثابت ہوتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی جانب رہنمائی فرمائی تھی کہ وہن، یعنی ’’دنیا سے محبت اور موت سے نفرت‘‘ تمھارا وتیرا ہوگا۔ تو جھاگ کی طرح کثیر تعداد میں ہونے کے باوجود ساری دنیا تم پر بھوکوں کی طرح پل پڑے گی۔ آج یہ حدیث نبوی مدرسۂ رسالت کی سچائی پر گواہی دینے کے ساتھ ساتھ مظلوم و مقہور قوم کے لیے راہ نجات بھی واضح کر رہی ہے۔