تحریکوں اور تنظیموں پر جب ایک طویل مدت گزر جاتی ہے تو اُن کے اصل مقصد کے ساتھ دوسرے مقاصد بھی شامل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ بعض اوقات تو صرف ڈھانچا رہ جاتا ہے، روح غائب ہوجاتی ہے۔ دستور میں درج شدہ نصب العین اور طریقۂ کار سے یا تو رشتہ کٹ جاتا ہے یا پھر کمزور ہوجاتا ہے۔ اگر یہ سانحہ فرد کے ساتھ ہو تو فرد ناکام ہوتا ہے اور اگر یہ حادثہ تحریک کے ساتھ ہو تو تحریک ناکام ہوتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ وقتاً فوقتاً ہم جائزہ لیتے رہیں کہ جس تحریک سے ہم جڑے ہوئے ہیں، اس کے نصب العین سے ہمارا رشتہ کتنا اور کیسا ہے؟ یہی جائزہ اور احتساب ہمیں اور ہماری تحریک کو صحیح خطوط پر گامزن رکھ سکتا ہے۔
تحریک کا اوّلین تقاضا یہ ہے کہ اس کا ایک واضح نصب العین ہو،اور قائدین اور وابستگان کو اس کا صحیح شعور ہو۔ اسلامی تحریک میں لفظ ’اسلامی‘ اس تحریک کے نظریے (Ideology)، اس کے رُخ اور تحریک کے ہر پہلو (dimension) کی نشان دہی اور رہنمائی کرتا ہے۔ یہ تحریک اللہ کے بندوں کو ان کے رب سے جوڑتی ہے، اُسی کی رضاجوئی اور خوشنودی کے لیے جینے اور مرنے کا سبق سکھاتی ہے، اور اپنے جیسے انسانوں سے رشتے اور تعلق کا پیمانہ اور اصول بتاتی ہے۔ ایک ایسے معاشرے کو وجود میں لاتی ہے، جس میں افراد صرف اپنی ہی فکر نہیں کرتے بلکہ موجود اور آنے والی نسلوں کو بھی اس راہ پر لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ تحریک ایسے ادارے اور نظامِ حیات کو وجود میں لاتی ہے، جس میں اس کے نظریے اور اصول کا غلبہ ہوتا ہے اور پوری انسانیت اس سے فیض یاب ہوتی ہے۔ انسان اپنے نفس اور اپنے جیسے انسانوں کی غلامی سے نجات پاتا ہے، اسے سچی آزادی اور ابدی راحت و سکون نصیب ہوتا ہے۔
یہ تحریک ایک ایسی انقلابی تحریک ہے، جو انسان کو اندر سے لے کر باہر تک بدل کر رکھ دیتی ہے۔ مثبت اور منفی دونوں پہلوئوں سے اسے نکھارتی ہے۔ ایک اللہ کی بندگی، غیراللہ کا انکار، انبیاؑ کی غیرمشروط اطاعت اور دوسری تمام قیادتوں سے بغاوت اور ان کی اطاعت سے انکار اس کی انقلابیت کی روح ہے۔ اس روح کی برقراری و پرورش اصل داخلی استحکام ہے۔
اس دعوت کا ایک پہلو جہاں یہ ہے کہ اللہ کی بندگی کا ماحول بنے، وہیں اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسانوں کی زندگی انصاف کے اُوپر قائم ہو: لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج (الحدید ۵۷:۲۵) ’’ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوںاور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں‘‘۔ یہ نہایت اہم بات ہے۔ اس کو نظروں سے کبھی اوجھل نہیں ہونا چاہیے کہ یہ دین عدل و انصاف کے لیے آیا ہے اور یہ دنیا سچے عدل و انصاف کی محتاج ہے۔
دعوت کے یہ وہ پہلو ہیں جو بنیادی اور مستقل نوعیت کے ہیں۔ یہ دعوت اور تحریک خلا میں کام نہیں کرتی، بلکہ یہ ٹھوس زمین اور زندہ معاشرے میں کام کرتی ہے۔ اس لیے بندگیِ رب کی دعوت کے ساتھ ساتھ معاشرے کے زندہ مسائل میں دل چسپی رکھتی ہے اور انھیں حل کرنے کی کوشش بھی کرتی ہے۔ یہ تحریک ایک ہمہ گیر نوعیت کی تحریک ہے۔ اگرچہ ہم یہ ضرور چاہتے ہیں کہ علم عام ہو، لیکن اسلامی تحریک کسی مدرسے کا نام نہیں ہے۔ ہم نفوس کے تزکیے کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تزکیہ ہو، لیکن اسلامی تحریک کسی خانقاہ کا نام نہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اسلامی ریاست قائم ہو اور اقتدار صالحین کے ہاتھ میں ہو، لیکن اسلامی تحریک کسی مجرد سیاسی پارٹی کا نام نہیں۔ اسی طرح محض ادارے اور تنظیمیں بنانا اور ان کو چلاتے رہنا بھی اسلامی تحریک کا مقصد نہیں رہا ہے۔ اسلامی تحریک کا مقصد تو یہ ہے کہ اللہ کی بندگی قائم ہو اور لوگ اللہ کی خوشنودی حاصل کرکے آخرت کی کامیابی اور جنت کے مستحق بنیں۔ دنیا میں عدل وانصاف قائم ہو، لوگ امن و سکون اور خوش حالی و ترقی سے ہم کنار ہوں۔ اگر تحصیل علم ہو تو اسی مقصد کے لیے، تزکیہ ہو تو اسی نصب العین کے لیے، سیاست ہو تو اسی لیے، اور اگر ادارہ بنایا جائے تو اسی غرض کے لیے، الغرض اگر یہ ہمہ گیر مقصد سامنے ہو تو جزوی کام بھی اپنی جگہ پر ہوسکتے ہیں۔
جب انسان کے حوصلے صرف دُنیوی کامیابی کے ہونے یا نہ ہونے سے بلند اور پست ہونے لگیں تو اس کے معنی یہی ہیں کہ مقصود و مطلوب کے اندر فرق آگیا ہے، اور اُسے اس پیمانے سے ناپا جاسکتا ہے کہ اس میں اسلامی تحریک کی خصوصیات موجود ہیں یا اس میں کوئی کمی واقع ہوگئی ہے۔ تحریک داخلی طور پر مستحکم ہے یا کمزور ہوئی ہے۔
فرد کا مقصود تو رضاے الٰہی اور فلاحِ اُخروی کا حصول ہے اور یہ ہمیشہ تازہ اور تابندہ رہنا چاہیے۔ لیکن جماعت اور تحریک کا مقصد یہ ہے کہ وہ افراد کی سعی و جہد کو اس طرح بروے کار لائے کہ فرد آخرت میں کامیاب ہو اور تحریک دنیا کے اندر کامیابی حاصل کرسکے۔ اس چیز کو قرآن نے ’فتح‘ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ ’’وہ تجارت جو تمھیں عذابِ الیم سے نجات دے‘‘ کے مخاطب وہ افراد ہیں، جن کی آخری منزل جنت ہے۔ تحریک کی ذمہ داری محض اتنی نہیں ہے کہ وہ افراد تحریک کو اللہ کی رضا کی طلب میں مصروف دیکھ کر یہ سمجھ لے کہ اس کا کام پورا ہوگیا۔ تحریک کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ اپنے افراد و وسائل کو بہترین طریقے سے صرف کرے، تاکہ دنیا میں جسے ’فتح قریب‘ کہا گیا ہے، اس کے حاصل ہونے کے امکانات پیدا ہوجائیں۔ اللہ کا ارشاد ہے: وَاُخْرٰی تُحِبُّونَھَاط نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ ط (الصف ۶۱:۱۳) ’’اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو، (اللہ) وہ بھی تمھیں دے گا۔ اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہونے والی فتح‘‘۔
اگر فرد اپنا سب کچھ اخلاص کے ساتھ اللہ کی راہ میں لگا دے ، لیکن جماعت اپنی منزل تک نہ پہنچ سکے تب بھی فرد کامیاب ہے۔ لیکن اگر فرد کی نیت خالص نہ ہو تو جماعت و تحریک اگر اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوجائے تب بھی فرد ناکام و نامراد ہے۔ اگر ہم نے کامیابی کے ان دونوں معیاروں کو اپنے سامنے رکھا تو داخلی استحکام کے تعلق سے اپنے جائزے اور احتساب میں ہمیشہ آسانی ہوگی، بلکہ سچی بات یہ ہے کہ جائزہ اور احتساب کا صحیح رُخ یہی ہے۔ اگر رضاے الٰہی کے مقصد کے شعور اور وابستگی میں نقص ہے تو فرد خواہ کتنے ہی نعرے لگائے، جلسے کرلے، تقریریں کرلے، پوسٹر لگا لے، خدمت خلق کرے، بہرحال وہ ناکام ہوگا۔ اسی طرح جماعت کی حیثیت سے افراد کتنا ہی اچھا کام کر رہے ہوں، وہ قربانی کے جذبے سے بھی سرشار ہوں، اور نظم و ضبط کے بھی پابند ہوں، لیکن جماعت اگر افراد کے جذبے کو صحیح راہوں پر، صحیح حکمت عملی سے، صحیح رُخ پر نہ لگائے تو بہرحال جماعت اس دنیا کے اندر ناکام ہوگی۔ ممکن ہے کہ جماعت کے قائدین اس بات کے ذمہ دار ٹھیریں کہ انھوں نے کیوں ان وسائل و ذرائع کو ضائع کیا اور صحیح مصرف میں نہیں لگایا۔
انسانی زندگی باہمی تعلقات کا مجموعہ ہے اور نام ہے معاشرے اور جماعت کا۔ اس لیے جماعت کے بغیر انسان اپنے مقصد کو حاصل نہیں کرسکتا۔ جماعت نظم اور ڈسپلن کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔ نظم اور ڈسپلن کی پابندی سے فرد کی آزادی پر پابندیاں عائد ہوتی ہیں۔ دوسری طرف فرد کی تعمیر وترقی میں اس کی آزادی اور اختلاف راے کا حق بہت معاون ہوتا ہے اور انھی دونوں کے درمیان تصادم و تنازعات پیدا ہوتے ہیں۔اس کا حل یہی ہے کہ فرد اور جماعت اپنی کوششوں سے مستقل طور پر اس میں توازن پیدا کرتے رہیں۔ فرد اتنا آزاد نہ ہوجائے کہ نظم و ضبط برقرار نہ رہ سکے اور نظم و ضبط اتنا سخت نہ ہوجائے کہ فرد کی آزادی پر قدغن لگ جائے۔
اقامت دین کا فریضہ ہر مسلمان پر فرض ہے اور یہ فریضہ تنظیم اور اجتماعی زندگی کے بغیر ادا نہیں ہوسکتا۔ اسلامی انقلاب کا کام تنظیم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس لیے دینی و تحریکی لحاظ سے جماعت کی جو اہمیت ہے وہ ہمارے ذہنوں میں محفوظ رہنی چاہیے۔ افراد کی قوتیں، طاقتیں اور صلاحیتیں تنظیم میں جمع ہوکر کئی گنا بڑھ جاتی ہیں۔ یہاں ایک اور ایک دو نہیں بلکہ ایک اور ایک گیارہ ہوجاتے ہیں۔ اس لیے مختلف قوتوں اور صلاحیتوں کے حامل افراد اگر الگ الگ ہوں تو وہ کارنامہ انجام نہیں دے پاتے، جو ایک اجتماعیت میں باہم مل کر انجام دے جاتے ہیں۔ جماعت کا کام یہ ہے کہ وہ خواب کو حقیقت بنائے۔ تمنائوں اور آرزوئوں کے حصول کو ممکن بنائے۔ جو چیز اُسے ناممکن نظر آتی ہو، وہ ممکن بن جائے اور حقیقت کا روپ دھار لے۔
تنظیم کا کام زیادہ تیزرفتاری سے ہونا چاہیے۔ جتنی تیزرفتاری سے کام ہوگا، تنظیم اتنی ہی مؤثر سمجھی جائے گی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہماری تحریک ہمہ جہت تحریک ہے، اس لیے اس کے کام کی رفتار کم معلوم ہوتی ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ ایک فرد کا ذاتی کام ہو تو وہ جلد انجام پاتا ہے اور زیادہ نفع بخش ہوتا ہے۔ جماعت کا کام سُست بھی ہوتا ہے اور اس میں خسارہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اس طرح کی سوچ پیشۂ تدریس سے وابستہ لوگوں کی ہوتی ہے یا کاروباری لوگوں کی۔ صحیح بات یہ ہے کہ اس طرح کی صورت حال اسی تنظیم یا جماعت کی ہوتی ہے جو داخلی طور پر مستحکم نہیں ہوتی۔ تجزیہ ہمیشہ حقیقت پسندانہ ہونا چاہیے۔ خوش فہمی اور قنوطیت سے بچنا چاہیے۔ حقیقت پسند تجزیہ بتاتا ہے کہ تنظیم اگر مستحکم ہو تو کم سے کم محنت اور کم سے کم خرچ سے زیادہ سے زیادہ نفع حاصل ہوتا ہے۔ بڑی سے بڑی صلاحیت رکھنے والا فرد بھی بڑا سرمایہ لگا کر وہ نتیجہ حاصل نہیں کرسکتا جو ایک مؤثر اور کارگر تنظیم کرتی ہے کیونکہ یہاں تھوڑی سی محنت اور سرمایہ جمع ہوکر غیرمعمولی اور بابرکت ثابت ہوتے ہیں۔ اسلامی تحریک کا اصل سرمایہ اس کا عقیدہ، اس کا اخلاقی نظام اور اس کے افراد کا باہم شیروشکر اور ایک دوسرے کے لیے محبت و ایثار کا پیکر ہونا، اور اپنے دین و تحریک کے لیے قربان ہونے کا جذبہ ہوتا ہے۔ اس کے اثرات و نتائج کا مقابلہ فرد اورافراد الگ الگ نہیں کرسکتے۔ اگر تنظیم مؤثر نہ ہو اور اسے وہ حکمت میسر نہ ہو، جس سے تنظیم کو مؤثر بنایا جاسکتا ہے تواس کا امکان ہے کہ وسائل تو موجود ہوں، افراد بھی میسر ہوں، بھاگ دوڑ اور کوششیں بھی جاری ہوں، اس کے باوجود نفع حاصل نہ ہوسکے۔
اسلامی تحریک کی کامیابی کے لیے ایسی تنظیم کارگر نہیں ہوسکتی ہے جو صرف چلتے ہوئے کاموں اور اداروں کو چلاتی رہتی ہو، بلکہ اسے ایسی تنظیم درکار ہوتی ہے جو رسمی امور پر قناعت کرنے سے زیادہ ارتقا اور پیش رفت پر نظر رکھتی ہو۔ اس کے پیش نظر معاشرے کو مسخر کرکے اس پر غلبہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اگر تحریک اپنے مقصد کو حاصل کرلے یا کامیابی کے قریب پہنچے تو وہ کارگر کہلائے گی۔ لیکن اگر تحریکی تنظیم یا جماعت انسانی وسائل کو اسلامی انقلاب کی منزل قریب لانے میں نہیں لگا پاتی ہے تو اپنی کوتاہی سے ان وسائل اور اوقات کو ضائع کرتی ہے۔ ان کی قوتوں اور صلاحیتوں کو کم تر کاموں اور مقاصد میں لگاتی ہے تو یہ ایک غیر مؤثر اور غیرکارگر تنظیم کہلائے گی۔ اس لیے تنظیم کے لیے ا س کا وہ نصب العین اس کی روح کی حیثیت رکھتا ہے، جو ہمیشہ شعور میں واضح رہے، نگاہیں اسی پر مرکوز رہیں اور تمام وسائل، اقدامات اور مساعی اسی کے لیے ہوں۔
تحریکی تنظیم کے لیے وہی کام اصل کام ہے، جو آنے والے کل کی تشکیل، اس کے منصوبے اور اس کے مقاصد کے مطابق کرسکے۔ ورنہ تحریک ہمیشہ آج ہی میں گردش کرتی رہے گی اور کل کبھی نہیں آئے گی۔ ہماری ہرپالیسی، ہمارے ہر فیصلے، ہمارا ہر اقدام، ہمارے ہر ضابطے اور دستور کی ہرشق کو اسی کل (مستقبل) کے لیے ہی وقف ہونا چاہیے۔ جس طرح ایک فرد کی زندگی میں وہی کام کارگر ہے جو آخرت میں نافع ہو، اسی طرح تنظیم کو بھی اپنے کام، فیصلے اور اقدامات وہی کرنے چاہییں جو کل کے لیے نفع بخش ہوں۔
فرد ہو یا تنظیم، اس کا صرف متحرک ہونا یا نظر آنا کافی نہیں۔ فرد کی اُخروی کامیابی اور تنظیم کی نصب العین سے قربت اور معاشرے پر اس کے مثبت اثرات کا ہونا ضروری ہے۔ اجتماع میں لوگوں کی کثرت، تربیت گاہ میں بڑے بڑے پروگرام کا انعقاد، اخبارات و رسائل کی اشاعت میں اضافے پر تحریک کو مطمئن نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے لیے اطمینان کی بات اس وقت ہوسکتی ہے، جب نتائج معاشرے کے اندر سے نمودار ہوں۔ معاشرے میں دعوت کتنی مقبول ہو رہی ہے، نصب العین کو اپنانے والے کتنا آگے آرہے ہیں،ملت کے اندر نصب العین کے شعور کی بیداری کی رفتار کیا ہے؟ تعلیم یافتہ طبقے نے کتنا اثر قبول کیا؟ عوام میں کتنا نفوذ ہوا؟ نوجوانوں کی کتنی ذہن سازی ہوئی اور وہ کس قدر تحریک کے دست و بازو بنے؟ حکومت کے ایوانوں میں کتنی کھلبلی مچی؟ تحریک کو سمجھ کر کتنی آوازیں حمایت میں اور کتنی مخالفت میں اُٹھنے لگیں؟ میڈیا کی نگاہیں کتنا پیچھا کرنے لگیں؟ اور جن افراد کی تربیت کی جارہی ہے انھوں نے ان محاذوں پر کتنے جوہر دکھائے؟ ان تمام پہلوئوں کا جائزہ بتائے گا کہ تحریک اپنے مقصد سے کتنا قریب اور اس کا داخلی نظام کتنا مؤثر اور مستحکم ہے۔
انسان کے اوقات اور صلاحیتیں ان چیزوں میں شامل ہیں جن سے تحریک پھیلتی اور معاشرے کو مسخر کرتی ہے۔ ان کا بڑا حصہ انھی کاموں پر صرف ہونا چاہیے۔ اگر ان کا بڑا حصہ تنظیم پر خرچ ہونے لگے تو اس خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے کہ داخلی استحکام پر زیادہ قوت صرف کی جارہی ہے، کیونکہ اس خوش فہمی کے نتیجے میں تحریک کی معاشرے کو مسخر کرنے کی قوت کم ہوجاتی ہے۔ لہٰذا ایسی کوشش ہونی چاہیے کہ اپنی قوت کا استعمال متناسب ہو۔ اس کا کوئی متعین فارمولا پیش نہیں کیا جاسکتا۔ قیادت اور افراد جماعت کی سوجھ بوجھ اور تجربے سے ہی اسے درست کیا جاسکتا ہے۔ داخلی استحکام کا اہم تقاضا ہے کہ اس مسئلے پر خصوصی توجہ صرف کی جائے___ گہرائی سے اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ ہمارے اوقات، وسائل اور صلاحیتوں کا کتنا بہتر استعمال ہورہا ہے۔ بہت سارے کام جو ہم کر رہے ہیں وہ کیوں کر رہے ہیں، اور ان سے کیا حاصل ہو رہا ہے؟ نصب العین کی طرف پیش قدمی میں ان سے کیا مدد مل رہی ہے؟ اگر ہم نے اس جائزے کی روشنی میں تحریک اور تنظیم کے تناسب کو درست کرلیا تو ان شاء للہ تحریک داخلی طور پر مستحکم بھی ہوگی اور منزل کی طرف پیش قدمی میں تیزی بھی آئے گی۔
ذمے داری چھوٹی ہو یا بڑی، یہ اسی عظیم الشان ذمے داری کا ایک حصہ ہے، جسے شہادت علی الناس کہا گیا ہے۔ جماعت نے جو دائرہ بھی طے کر دیا ہے، اس کے لحاظ سے اسے اپنی ذمہ داری کا جائزہ لینا چاہیے کہ وہ کہاں تک اسے ادا کر رہا ہے۔ اسے اِس بات کا بھی احساس ہونا چاہیے کہ اپنے ہرعمل کے سلسلے میں وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے۔ اگر خلقِ خدا کی نگاہوں سے بچ بھی گیا تو اللہ تعالیٰ کی نگاہوں سے وہ نہیں بچ سکے گا۔
اسلامی تحریک میں منصب کی طلب تو کجا اس کا خواہش مند ہونا بھی بڑے خسارے کا سودا ہے۔ یہ خودکشی کا اقدام ہے، جو یقینا حرام ہے۔ لیکن اگر کوئی منصب یا ذمے داری بغیر کسی خواہش اور طلب کے کسی کے حوالے کی جائے تو اسے اللہ پر اور اس کی نصرت و تائید پر اعتماد کر کے خوداعتمادی کے ساتھ اسے قبول کرنا چاہیے اور بہتر سے بہتر انداز میں اس کی ادائی کے لیے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتے رہنا چاہیے۔ اُسے چاہیے کہ وہ اپنے لیے بھی روئے اور گڑگڑائے اور دعائیں کرے اور اپنے اُن رفقا کے لیے بھی گڑگڑا کر دعائیں کرے جو اس کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ یہ خیرخواہی اور اخوت اسلامی کا عین تقاضا ہے۔
ذمے دار کو چاہیے کہ وہ اپنی اور اپنے ساتھیوں کی صلاحیتوں کا صحیح ادراک کرے اور اپنے رفقا میں کام کی تقسیم ان کی صلاحیتوں کے اعتبار سے کرے۔ ایک اچھی ٹیم کے افراد کی گرچہ یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ انھیں جو کام بھی تفویض کیا جائے، اسے ذمے دارانہ طور پر انجام دینے اور کامیاب بنانے کی کوشش کریں، خواہ وہ کام ان کی پسند کا ہو یا نہ ہو۔ لیکن ایک صحت مند اور خوش گوار اجتماعیت کے لیے بہتر یہی ہے کہ صلاحیتوں کے اعتبار سے ہی کام تقسیم کیے جائیں اور ہرفرد کی اس کے کام کی مناسبت سے تربیت کی جائے اور صلاحیتوں کو پروان چڑھایا جائے۔
جائزے اور احتساب کا ایسا نظام ہو، جس میں امیر و مامور سبھی ایک دوسرے کے سامنے جواب دہ ہوں۔ یہ عمل ٹیم اسپرٹ کو برقرار رکھتا ہے اور اجتماعیت کو مستحکم کرتا ہے۔ یہ عمل جتنا کمزور ہوگا، اجتماعیت اتنی ہی کمزور ہوگی۔ اگر قیادت کا احتساب نہ ہو تو قیادت کمزور ہوگی اور اگر ٹیم کا بھی احتساب نہ ہو تو ایسی ٹیم بھی کمزور ہوگی۔ قیادت کو چاہیے کہ اپنی ٹیم میں جائزے اور احتساب کی فضا کو نہ صرف بحال رکھے بلکہ پروان چڑھائے اور دوسروں کے احتساب سے پہلے خود اپنا احتساب کرے اور خود کو دوسروں کے سامنے احتساب کے لیے پیش کرے۔ احتساب کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ہرفرد خواہ وہ ذمے دار ہو یا کارکن، اپنا احتساب خود کرے اور بے دردی کے ساتھ کرے اور اپنے ساتھیوں کا احتساب نرمی اور درد کے احساس کے ساتھ کرے۔
درس قرآن و حدیث اور دوسرے ذرائع سے ہماری تربیت کے لیے جو غذائیں ملتی ہیں، اگر جماعت کے فیصلوں اور رہنمائی میں ان کی جھلک نہ ہو اور اس سے مطابقت نہ پائی جائے تو متضاد ذہن کے ساتھ تحریک کی پیش رفت معیارِ مطلوب کے مطابق نہیں ہوگی۔ اس سے داخلی استحکام بھی متاثر ہوگا۔ ضرورت ہے کہ ذمے دار اور قائدین اس بات پر خصوصی نظر رکھیں کہ جو باتیں وہ اپنے دروس، تقاریر اور تربیتی پروگراموں میں کہہ رہے ہیں، تنظیم کا ماحول اور رُخ بھی اسی سمت میں ہونا چاہیے۔ جو کچھ کہا جا رہا ہو یہ تو ممکن نہیں کہ تنظیم ہوبہو اس کا نمونہ ہو لیکن کم از کم اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ مجموعی طور پر تنظیم کا ماحول اور رُخ انھی تعلیمات کی سمت میں ہو۔