جون ۲۰۱۱

فہرست مضامین

ڈنمارک میں مسلم اقلیت کا مسئلہ

محمد علی | جون ۲۰۱۱ | مغرب اور اسلام

Responsive image Responsive image

ڈنمارک شمال مغربی یورپ میں واقع ہے۔ اس کے ہمسایہ ممالک میں سویڈن ، ناروے اور جرمنی شامل ہیں۔ اس کے دار الحکومت کا نام کوپن ہیگن ہے۔ اس کی آبادی تقریباً ۵۵ لاکھ ہے، جب کہ اس میں مقیم مسلمانوں کی تعداد اڑھائی لاکھ کے قریب ہے۔ یہاں بسنے والے مسلمانوں میں اکثریت عربوں ، ترکوں اور پاکستانیوں کی ہے ، جب کہ کچھ عرصے سے صومالیوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے ۔ ڈنمارک میں ۱۸۴۹ء سے علامتی طور پر دستوری بادشاہت ہے، جب کہ نظام ریاست چلانے کے لیے پارلیمانی جمہوری نظام رائج ہے، جس میں پارلیمنٹ بالا دست ہے۔

ڈنمارک کا شمار ایک فلاحی ریاست (welfare state) میں ہوتا ہے، جہاں بنیادی ضروریات مفت فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے ، مثلاً تعلیم ، صحت ، بے روز گاری کی صورت میں وظائف وغیرہ (اگرچہ اب ان سہولیات میں بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے)۔ لہٰذا اس ملک کا پبلک سیکٹر کافی وسیع ہے ، لیکن کچھ تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں اور مختلف شعبہ جات میں نج کاری کا دائرہ وسیع کیا جا رہا ہے۔ دیگر مغربی ممالک کی طرح آج ڈنمارک کو بھی معاشی مسائل کا سامنا ہے۔

۱۹۷۰ء کے عشرے میں روزگار کے لیے مسلم ممالک سے بھی لوگ ڈنمارک آنے لگے اور اکثر ایسے کام کاج سنبھال لیے، جو خود ڈینش بھی کرنا پسند نہیں کرتے، یعنی شعبۂ خدمت میں۔ پھر ان محنت کش پردیسی مسلمانوں نے اپنے اہل خانہ کو بھی بلانا شروع کر دیا اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ ان کے بچوں نے یہیں پرورش پائی اور ڈینش سکولوں و کالجوں میں تعلیم حاصل کی۔ چنانچہ عام طور پر ان کی دوسری نسل مغربی تہذیب میں رنگی گئی۔ اگر ان کے والدین کے کچھ  اسلامی رجحانات ہوتے بھی تو زیادہ سے زیادہ انھیں اسلامی رسومات سے متعارف کرا دیتے، لیکن عموماً باقاعدہ اسلامی ذہن سازی نہ ہوپائی۔ نتیجتاً اسلام ان کے لیے چند رسومات یا علامتوں کی حد تک محدود ہوکر رہ گیا، جب کہ فکری طور پر مغربی پیمانے اور اقدار ان کے ذہنوں پر غالب آگئے۔

۱۹۹۰ء کے عشرے میں اشتراکیت کے انہدام کے بعد اسلام کے خلاف عمومی فضا قائم کرنے کا آغاز ہو گیا تھا لیکن نائن الیون کے بعد یہ رجحان کھل کر سامنے آیا۔ اسی دوران موجودہ ڈینش حکومت بھی برسراقتدار آئی جسے دائیں بازو کی انتہا پسند ڈینش عوامی پارٹی کی حمایت حاصل ہے۔

ملک کو معاشرتی مسائل اور بڑھتے ہوئے جرائم کا بھی سامنا ہے، مثلاً بیرون ملک سے جسم فروشی کے لیے خواتین کی تجارت ، قتل و غارت ، چوریاں اور ڈاکے ، منشیات اور اس کی منڈی پر قابو کے لیے جرائم پیشہ گروہوں کی لڑائیاں ، بچوں سے جنسی زیادتی اور خودکشیوں وغیرہ کے علاوہ نفسیاتی امراض میں روز افزوں اضافہ۔ ان تمام مسائل کے حل میں ناکامی پر انتظامیہ نے، زیادہ تر مسلم اقلیت کو ہدف بنایا۔ بالخصوص ، توہین آمیز خاکوں کی اشاعت پر عالمی سطح پر مسلمانوں کی جانب سے رد عمل کے نتیجے میں ، مخصوص میڈیا کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف ایک منظم مہم برپا کی گئی، اور ڈینش عوام کو مسلمانوں اور اسلام کے خلاف بھڑکانے اور خوف و نفرت کی فضاقائم کی کرنے کی کوششیں ہوئیں۔

ڈینش حکومت کی خلافِ اسلام پالیسی کا اصل ہدف اس معاشرے میں مسلمانوں کو ایک  کُل میں جذب کرنا ہے ۔ اس مقصد کے لیے ہم آہنگ کرنے یا integration کی اصطلاح استعمال کی جارہی ہے۔ حالانکہ علمِ عمرانیات میں اس اصطلاح کی تعریف یہ ہے : اکٹھے رہنے کے لیے    وہ عمل جس میں مختلف گروہ مشترکہ بنیاد بنائیں۔ اسی کے تحت ڈینش حکومت مسلمانوں کو اپنے معاشرے میں ضم کرنا اور انھیں ڈینش قوم بنانا چاہتی ہے۔ چنانچہ اس کی جانب سے مسلمانوں کی اسلامی شناخت مٹانے کے لیے اقدامات کیے گئے۔ سکولوں میں طلبہ کی ذہن سازی کی جاتی ہے تاکہ وہ ڈینش تاریخ اور مغربی اقدار و نظریات سے مانوس ہوں۔ مسلمانوں کے لیے خاص رول ماڈلز قائم کرنا اور انھیں فروغ دینا تاکہ نوجوان نسل کو ان کا پرستار بنایا جا سکے ، مثلاً ایسے ’مسلم ‘ سیاستدان یا گلوکار جو مغربی تہذیب کے دلدادہ ہوں۔ اسی طرح مسلمانوں کی ’ترجمانی‘ کے لیے جمہوری مسلمان (Demokratiske Muslimer) جیسی جماعت کو تشکیل دینا جس کا مقصد مسلمانوں میں ’مغرب زدہ اسلام ‘ کا فروغ ہے، تاکہ اجتماعی مسائل میں مسلمان انھی کی طرح سیکولر موقف اختیار کریں۔

ڈنمارک کی جانب سے افغانستان اور عراق پر امریکی قبضے کے لیے وہاں اپنی فوجیں بھیجنے کے علاوہ ، خود اس ملک کے اندر بھی انسانی حقوق کی پامالی قابل غور ہے۔ ڈنمارک میں انسانی حقوق کا ادارہ (Institute for Menneskerettigheder) کے مطابق ڈنمارک میں انسانی حقوق کی پامالی کئی مرتبہ کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر مسلم خواتین سے حجاب کے مسئلے میں امتیازی سلوک، مسلم ممالک میں شادی کے نتیجے میں اپنے شریک حیات کو ڈنمارک بلانے میں قانونی رکاوٹیں کھڑی کرنا ، نفرتی جرائم (hate crimes) پر تساہل برتنا ، مخصوص علاقوں میں فقط شک کی بنا پر      عام لوگوں کو روک کر کھلے عام ان کی تلاشی لینے کا پولیس کا حق، مستحقین کو جاے پناہ دینے سے انکار اور خطرے و جنگ کے باوجود انھیں جبری طور پر اپنے آبائی ممالک کو واپس بھیج دینا وغیرہ ۔     اسی طرح حالیہ عدم شہریت کے حامل (فلسطینی مسلم) افراد کو شہریت دینے سے انکار ، ڈینش حکومت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی فہرست میں شامل ہیں۔

’دہشت گردی‘ کے بارے میں ڈینش قانون تعزیر کی دفعہ نمبر ۱۱۴ میں لکھا ہے: ’’دہشت گردی پر عمر قید کی سزا اُس کے لیے ہے جو قصداً عوام کو انتہائی خائف کرنے یا نا حق طور پر ڈینش یا بیرونی پبلک اتھارٹیز یا کسی بین الاقوامی تنظیم کے کسی فعل کو انجام دینے یا ترک کرنے پر مجبور کرے‘‘۔ پھر شق میں ان مخصوص افعال کا ذکر کیا گیا ہے، مثلاً قتل وغیرہ ۔ مگر اس سلسلے میں دل چسپ دفعہ وہ ہے جس میں یہ مذکور ہے کہ وہ شخص جو ان افعال کی دھمکی دے گا وہ بھی ویسے ہی سزا کا مستحق ہوگا، جیسے اس کا مرتکب ! نیز اس سلسلے میں وہ قوانین بھی قابل ذکر ہیں، جن کے تحت ڈینش خفیہ ادارہ (PET) معلومات حاصل کرنے کے لیے لوگوں کی نجی زندگی میں جاسوسی کرنے کا مجاز قرار دیا گیا ہے ، مثلاً فون ، میل وغیرہ حتیٰ کہ کمپنیاں بھی پولیس کو مطلوبہ معلومات دینے کی پابند ہیں۔

اسی طرح دفعہ نمبر ۷۸۳ بھی قابل غور ہے : ’’جب عدالتی سند کے انتظار کی وجہ سے کارروائی کرنے کا موقع گنوا یا جا رہا ہو تو پولیس کارروائی کا فیصلہ کرنے کی مجاز ہے‘‘۔ گویا معاملہ اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ ’دہشت گردی‘ کی آڑ میں پولیس بغیر کسی عدالتی سند کے کسی بھی مشکوک شخص کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے۔ اسی لیے کچھ ڈینش مبصرین نے اس ’فلاحی ریاست‘ کو بجا طور پر ’پولیس اسٹیٹ ‘ کی مانند قرار دیا ہے۔ یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ بائیں بازو کے وہ انتہا پسند نوجوان جو کئی مرتبہ پولیس سے کھلے عام لڑائیوں اور لوگوں کی ملکیتوں کی غارت گری میں ملوث رہے ہیں ، انھیں تو دہشت گردی کی شقوں کے مطابق سزا نہیں دی گئی ، جب کہ اُس مسلمان کو انھی شقوں کے تحت نو سال قید کی سزا سنائی گئی ہے، جس نے توہین آمیز خاکے بنانے والے پر قاتلانہ حملہ کیا تھا!  یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ فردِ واحد پر حملے کو ریاستی سلامتی کے خطرے سے کیسے تعبیر کیا جا سکتا ہے !

ان حربوں کے باوجود بھی الحمد للہ مسلمان بالعموم دین اسلام پر کاربند ہیں اور ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تاہم ایسے منصوبے بنتے رہیں گے خواہ ان کی نوعیت کتنی ہی مختلف ہو۔    اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ لِیَصُدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَسَیُنْفِقُوْنَھَا ثُمَّ تَکُوْنُ عَلَیْھِمْ حَسْرَۃً ثُمَّ یُغْلَبُوْنَ ط وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی جَھَنَّمَ یُحْشَرُوْنَo (الانفال ۸: ۳۶) ’’بلا شبہ کافر لوگ اپنے مالوں کو اس لیے خرچ کر رہے ہیں کہ اللہ کی راہ سے روکیں، سو یہ لوگ تو اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہی رہیں گے ، پھر وہ مال ان کے حق میں باعثِ حسرت ہو جائیں گے ، پھر مغلوب ہو جائیں گے اور کافر لوگوں کو دوزخ کی طرف جمع کیا جائے گا‘‘۔

ڈنمارک یا بالعموم مغرب میں اپنی اسلامی شناخت کو بر قرار رکھنے کا تقاضا یہ ہے کہ وہاں کے معاشرے اور حکومتی پالیسیوں سے بخوبی واقف رہا جائے ، تاکہ مسلمانوں کو اس سے آگاہ اور متنبہ کیا جا سکے۔ مسلمان انٹی گریشن (ہم آہنگی) کے لیے جس حد تک اسلام خود ڈینش یا مغربی معاشرے سے تعامل (interaction) کی اجازت دیتا ہے ، وہ اس کی پابندی کریں۔ اسی طرح اسلام کی دعوت پیش کرنے کے لیے اسلام کا گہرا علم لازمی ہے، تاکہ اسلامی نظریات کو موجودہ واقعات پر منطبق کرتے ہوئے ، وہاں کے حالات میں حکمت عملی وضع کرکے کام کرنے والی فعال اسلامی تحریک برپا کی جاسکے۔ اس کے لیے قابل مسلمان نوجوانوں پر مشتمل ایک ایسی تنظیم کی ضرورت ہے، جو ایک طرف یہاں پر مسلمانوں کے مسائل کو اچھی طرح سمجھتے ہوئے انھیں اُجاگر کرسکے، اور دوسری طرف اس کے ارکان اسلامی تعلیمات سے آراستہ ہوں تاکہ صرف مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ مؤثر طریقے سے وہاں کے غیرمسلم شہریوں کو بھی اسلام کی دعوت پہنچا سکیں۔ یوں وہ ڈینش معاشرے کو اسلام سے مالا مال بھی کریں گے اور اس کی خدمت بھی۔