قوم ابھی ۲مئی ۲۰۱۱ء کے ایبٹ آباد پر امریکی حملے کے زخموں سے بے حال تھی کہ ۲۲مئی کو پاکستان نیوی کے مہران بیس پر دشمن نے ایک کاری ضرب لگائی، اور پاک بحریہ اپنے دفاع کے ناقابلِ تسخیر ہونے کے تمام دعووں اور نیول بیس پر ۱۱۰۰ محافظوں کی موجودگی کے باوجود چار یا چھے یا ۱۲سرپھرے نوجوانوں کی ۱۶گھنٹے پر محیط کارروائی کے نتیجے میں اپنے قیمتی ترین دفاعی اثاثوں سے محروم ہوگئی۔ ۱۲ عسکری جوانوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا، ۲۰سے زیادہ زخمی ہوئے، اور پاکستان کی دفاعی صلاحیت پر قوم کو جو ناز تھا اور دشمن جس سے خوف زدہ تھے، اس کے بارے میں ایسے سوالات اُٹھ کھڑے ہوئے جو دن کا چین اور رات کی نیند حرام کردینے والے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ میں شرکت کے فیصلے سے اب تک ہماری دفاعی تنصیبات اور اداروں پر ۱۲۱حملے ہوچکے ہیں جن میں فضائیہ، بری فوج، بحریہ اور آئی ایس آئی کے حساس ترین مقامات پر دشمن نے کارروائیاں کی ہیں اور ’دہشت گردی کی کمرتوڑ دینے‘ کے باربار کے دعووں کے باوجود دہشت گردی کی کارروائیوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہورہی ہے بلکہ کمیت اور کیفیت دونوں کے اعتبار سے اضافہ ہی ہوتا نظر آرہا ہے۔ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کی آنکھیں کھلیں اور پورے مسئلے کا ازسرِنو جائزہ لے کر ان ۱۰برسوں میں جو کچھ ہوا ہے، اس کا بے لاگ تجزیہ کرکے نفع اور نقصان کا مکمل میزانیہ تیار کیا جائے اور آگ اور خون کے اس جہنم سے نکلنے کے لیے نئی سوچ اور نئی حکمت عملی وضع کی جائے۔
اہلِ نظر اور دانش ور ہر بڑے واقعے کو wake-up call (جاگو! جاگو!!) کہتے ہیں لیکن قیادت ہے کہ امریکا کے طلسم میں مسحور خوابِ غفلت سے بیدار ہونے کو تیار نہیں۔ امریکی ڈرون حملے روز افزوں ہیں۔ بارک اوباما، ہیلری کلنٹن اور امریکا کی عسکری قیادت حتیٰ کہ پاکستان میں امریکا کے سفیر بھی مسلسل اعلان کر رہے ہیں کہ انھیں پاکستان پر اپنے یک طرفہ فوجی ایکشن، ہماری حاکمیت کی پامالی، اور ہمارے شہریوں کی ہلاکت پر نہ صرف کوئی افسوس نہیں اور وہ کسی قسم کی معذرت کے اظہار تک کے لیے تیار نہیں ہیں بلکہ دھڑلّے سے کہہ رہے ہیں کہ جو کچھ ماضی میں کیا ہے، پاکستانی عوام کے سارے احتجاج اور امریکا کی مخالفت کے جذبات کے پُرزور اظہار کے باوجود، وہ پھر ویسے ہی حملے کریںگے اور پاکستان کی پارلیمنٹ نے امریکا کی ان جارحانہ کارروائیوں کے خلاف جو متفق علیہ اعلان ایک بار پھر ۱۴مئی ۲۰۱۱ء کو کیا ہے، اس کی وہ پرِکاہ کے برابر بھی پروا نہیں کرتے۔ دوسری طرف پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کا حال یہ ہے کہ ’’ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘‘، اور اس سے بھی زیادہ پریشان کن رویہ ان صحافیوں، دانش وروں، اینکر پرسنز اور سیاست دانوں کا ہے جو معروضی حقائق، عوام کے جذبات اور پارلیمنٹ کی قراردادوں کو یکسرنظرانداز کرتے ہوئے قوم کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ امریکا کی گرفت سے نکلنے کی کوشش تباہ کن ہوگی___ گویا اس قوم کی آزادی، سالمیت، خودمختاری، عزت اور وقار سب غیرمتعلق ہیں اور صرف چند ارب ڈالروں کے لیے ملت اسلامیہ پاکستان نے لاکھوں انسانوں کی قربانی دے کر جو آزادی اور عزت حاصل کی ہے اور ایک ایٹمی طاقت پاور بن کر جو مقام حاصل کیا ہے، اسے چند ٹکوں کی خاطر قربان کردیا جائے۔ یہ وہ غلامانہ ذہنیت اور تباہ کن مفاد پرستی ہے جس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا ؎
تھا جو ناخوب ، بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
آج قوم کے سامنے ایک بار پھر وہی سوال ہے جو برطانوی دورِ غلامی میں اس کے سامنے تھا ___ یعنی وقتی مفادات کی پوجا یا آزادی اور عزت کی زندگی کے لیے ازسرِنو جدوجہد، خواہ وہ کیسی ہی کٹھن کیوں نہ ہو۔ ملت اسلامیہ پاکستان نے جس طرح اُس وقت کے مفاد پرست سیاست دانوں اور عافیت کوشوں کے خوش نما الفاظ ان کے منہ پر دے مارے تھے اور ہرقسم کی قربانیاں دے کر آزادی اور عزت کا راستہ اختیار کیا تھا، آج بھی قوم کو اپنی آزادی اور عزت کی حفاظت کے لیے موجودہ سیاسی بازی گروں اور مفاد پرستوں کے چنگل سے نکل کر پاکستان اور اس کے آزادی اور اسلامی تشخص کی حفاظت کے لیے سردھڑ کی بازی لگانا ہوگی، اس لیے کہ بقول اقبال ؎
یا مُردہ ہے یا نزع کے عالم میں گرفتار
جو فلسفہ لکھا نہ گیا خونِ جگر سے
اگر قوم کو اپنی آزادی اور عزت کی حفاظت کے لیے امریکا کی سامراجی گرفت سے نکلنا ہے___ اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارے سامنے اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ موجود ہی نہیں ہے___ تو اس کے لیے ضروری ہے کہ پوری دیانت داری کے ساتھ ان عوامل کو سمجھا جائے جن کی وجہ سے ہماری آزادی گروی ہوگئی ہے اور ہماری پالیسیاں واشنگٹن کے اشارے پر اور بہت بڑی حد تک صرف امریکا کے مفاد میں وضع کی جارہی ہیں۔
اس نئی غلامی کے کَسے شکنجوں کو مضبوط تر کرنے کے لیے معاشی زنجیریں روز افزوں ہیں۔ حکمرانوں کو ان کی کرپشن اور مفاد پرستی کی وجہ سے امریکا نے اپنا آلۂ کار بنالیا ہے۔ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے امریکی سفارت کاروں، امریکی این جی اوز، امریکی ماہرین اور محاسبوں کی فوج ظفر موج، اور ان کے ساتھ ہماری سرزمین پر ا مریکی افواج، سی آئی اے کے اہل کار اور مخبر سرگرم ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس کے خون آشام ڈرامے نے اس امریکی نیٹ ورک کو بے نقاب کردیا جو ملک کی باگ ڈور کو اپنی مرضی کے مطابق چلا رہا ہے۔ ڈرون حملوں کی روز افزوں بوچھاڑ اور ہماری سرزمین پر امریکی فوجی قدموں کی چاپ، نیز ہر روز واشنگٹن اور کابل سے امریکی سول اور فوجی آقائوں کی آمدورفت، اس نئے استعماری انتظام کے وہ چند پہلو ہیں جو اب کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ ہمارے حکمران خواہ کیسے ہی خوابِ غفلت میں مبتلا ہوں یا اس خطرناک کھیل میں شریک کار ہوں لیکن پاکستانی قوم اب بیدار ہوچکی ہے اور اس کے سامنے اپنی آزادی اور عزت کی حفاظت کے لیے ہرممکن ذریعے سے اجتماعی جدوجہد کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہا ہے۔ یہ معرکہ کس طرح سر کیا جائے، اس پر گفتگو کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ چند حقائق کو ذہنوں میں تازہ کرلیا جائے۔
یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ امریکا اور یورپی اقوام ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر ایک دوسرے ہی ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں۔ اصل ایشو دنیا کے، اور خصوصیت سے مسلم اور عرب دنیا کے معدنی، معاشی اور اسٹرے ٹیجک وسائل پر قبضہ اور ان کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنا ہے۔ نیز اس استحصالی بندوبست کو محفوظ کرنے کے لیے مسلم اور عرب ممالک پر ایسی قیادتوں کو مسلط کرنا اور مسلط رکھنا ہے جو امریکا کے آلۂ کار کی حیثیت سے خدمات انجام دے سکیں۔ اس سلسلے میں سیاسی اور عسکری قیادتوں کے ساتھ لبرل دانش ور صحافیوں اور سول سوسائٹی کے اداروں کا استعمال ان کی حکمت عملی کا مرکزی حصہ ہے۔ معاشی طور پر ان ممالک کو اپنی گرفت میں رکھنے کے لیے قرضوں کا جال بچھایا گیا ہے اور ان ممالک کو عالم گیریت (globalization) کے نام پر مغربی اقوام اور اداروں کی محتاجی (dependence) کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہے۔ آخری حربے کے طور پر امریکی افواج کو، جو تباہ کن ٹکنالوجی سے آراستہ ہیں، استعمال کیا جا رہا ہے۔ آج دنیا میں ۸۰ سے زائد مقامات پر امریکی فوجی اڈے موجود ہیں۔ افغانستان اور عراق کی جنگ اور عالمِ عرب کے قلب میں اسرائیل کی کیل کانٹے سے لیس افواج اور خفیہ تنظیموں کا کردار اس گیم پلان کا حصہ ہے۔
امریکی سرمایہ دارانہ نظام کے بقا اور ترقی کے لیے جنگ، جنگی امداد اور تجارت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس کی پالیسی پر عمل کا مؤثر ترین ذریعہ ہیں۔ اس گریٹ گیم کو سب سے بڑا خطرہ مسلمان عوام، ان کے دینی شعور اور اُمت مسلمہ کے جذبۂ جہاد سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جنگ عسکری قوتوں سے لڑی جارہی ہے اور جس ملک سے مزاحمت کا خطرہ ہے، اس کی عسکری اور مزاحمتی قوت کو توڑنا اور وسائل بشمول عسکری اثاثہ جات کو اپنی گرفت اور کنٹرول میں لانا اس حکمت عملی کا مرکزی حصہ ہیں۔
ساتھ ہی ساتھ، نظریاتی اور تہذیبی جنگ کے ذریعے اسلام، اسلامی تحریکات اور اسلامی احیا کے تمام مظاہر کو ہدف بنایا جارہا ہے اور اسلام کے ایک ایسے نمونے (version) کو مسلمانوں میں پھیلانے کی کوشش ہورہی ہے جو سیاسی، معاشی اور تہذیبی میدان میں مغرب کے فکر اور نمونے کو قبول کرلے اور دین کو محض نمایشی رسوم تک محدود کردے۔ اس کے لیے روشن خیالی، موڈریشن، صوفی اسلام اور نہ معلوم کس کس عنوان کو استعمال کیا جارہا ہے اور اسلامی احیا اور سامراج مخالف رجحانات کو دہشت گردی، تشدد، جبر اور خونیں تصادم کے عنوان سے بدنام کرنے کی عالم گیر پیمانے پر منظم کوششیں ہورہی ہیں۔
اس خطرناک کھیل میں دانا دشمنوں کے ساتھ نادان دوست بھی اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان چونکہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والا ملک ہے اس لیے وہ خصوصی ہدف بنا ہوا ہے۔ پاکستان عسکری طور پر مضبوط اور جوہری طاقت کا حامل ملک ہے اس لیے اس کی فوجی قوت اور جوہری صلاحیت کو خصوصی نشانہ بنایا جارہا ہے۔ دنیاے اسلام میں مغربی استعمار کو چیلنج کرنے والی جو بھی قوت ہے اسے کمزور اور غیر مؤثر کرنے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘، مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے جارحانہ کھیل کی مکمل سرپرستی اور مسلم دنیا میں بیرونی افواج کے تسلط کے خلاف ہر مزاحمتی تحریک کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ مصر، جو عرب دنیا کی ایک مؤثر ترین قوت تھا، اُسے اپنے مہروں کے ذریعے غیرمؤثر کر دیا گیا۔ عراق، جو اسرائیل کے لیے ایک خطرہ تھا، اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ افغانستان، جس نے اپنی بے سروسامانی کے باوجود روسی استعمار کا منہ پھیر دیا، اسے مسلسل خانہ جنگی میں جھونک دیا گیا، پھر القاعدہ پر یلغار کے نام پر اس پر اپنا فوجی تسلط قائم کر دیا گیا اور افغانستان کے ساتھ پاکستان کو بھی نائن الیون کے واقعے کی لپیٹ میں لیتے ہوئے اپنی گرفت میں لے لیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف کو جس طرح اپنے قابو میں کیا گیا اور پاکستانی فوج کو عملاً اپنے ہی ملک میں اپنی ہی قوم سے برسرِپیکار کردیا گیا___ یہ سب اس خطرناک کھیل کا حصہ ہے۔
آج جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے اس کی اصل حقیقت کا اِدراک، اس پس منظر کے سمجھے بغیر، ممکن نہیں۔ آج پاکستان میں معصوم انسانوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔ مسجدوں، امام بارگاہوں، مزاروں، فوجی تنصیبات، حساس اور فوجی اداروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یہ ہراعتبار سے قابلِ مذمت اور ایک نقصان کا سودا ہے لیکن اس تباہی سے نجات کے لیے ضروری ہے کہ دہشت گردی سے دنیا کو پاک کرنے کے نام پر امریکا کی مسلط کردہ جنگ اور اس کی معاونت کے لیے کام کرنے والے اداروں، حکومتوں اور کارندوں کے کردار کو سمجھا جائے اور افراد،گروہوں اور حکومتوں، سب کی ان سرگرمیوں کو روکا جائے جو دراصل دہشت گردی کے فروغ کا ذریعہ بن چکی ہیں۔ امریکا اور مغربی اقوام کی ظالمانہ پالیسیوں کی تبدیلی اور عسکری، سیاسی، معاشی اور تہذیبی جنگ کے شعلوں کو بجھانے کی حکمت عملی ہی مسئلے کے سیاسی اور پایدار حل کا راستہ ہموار کرسکتی ہے۔ استعماری قوتوں اور ان کے حامیوں اور آلہ کاروں کی خون آشامیوں کو قابو میں لاکر ہی مزاحمتی قوتوں کو مذاکرات کی میز پر لانا اور معاملات کا سیاسی حل نکالنا ممکن ہوسکتا ہے۔ حقیقی مزاحمت کاروں اور جرائم پیشہ عناصر اور دوسروں کے مفاد کے لیے تباہی مچانے والے عناصر کو ایک دوسرے سے الگ کیا جاسکتا ہے اور پھر قانون اور انصاف کے اصولوں کے مطابق ہر نوعیت کے مجرموں کو سزا بھی دی جاسکتی ہے۔ اس طرح اس علاقے کو ایک بار پھر امن اور سلامتی کا گہوارا بنایا جاسکتا ہے۔
ہماری نگاہ میں حالات کو قابو میں لانے کے لیے مندرجہ ذیل امور ضروری ہیں:
اس امر کا اقرار اور اعلان کہ مسئلے کا حل سیاسی ہے، عسکری نہیں، اور عسکری کی ہرشکل کو بند کرنا ضروری ہے تاکہ اصل اسباب کی طرف توجہ دی جاسکے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جنگ سیاسی مسائل کا حل نہیں۔ امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ نے دہشت گردی کو فروغ دیا ہے اور اسے کچھ حلقوں اور علاقوں میں معتبر بنا دیا ہے۔ ۳ہزار افراد کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے لاکھوں افراد کو لقمۂ اجل بنایا جاچکا ہے، لاکھوں کو ہمیشہ کے لیے اپاہج کردیا گیا ہے، لاکھوں کو بے گھر کیا جارہا ہے، ایک کے بعد دوسرے ملک کو تباہ و برباد کردیا گیا ہے۔ معاشی حیثیت سے پوری دنیا کو تباہی کے دہانے پر لے آیا گیا ہے۔ اس ۱۰سالہ جنگ میں صرف امریکا کو چھے سے ۱۰ ٹریلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔عراق اور افغانستان کو تباہ کردیا گیا ہے۔ صرف پاکستان میں ۳۶ہزار معصوم انسانوں، بچوں، بوڑھوں اور خواتین کو ہلاک کیا گیا ہے۔ ۵ہزار سے زائد فوجیوں اور قانون نافذ کرنے والے افراد کو زندگی کی نعمتوں سے محروم کر دیا گیا ہے۔ ایک لاکھ کے قریب افراد مجروح ہوئے ہیں، ۴۰لاکھ افراد اپنے ہی ملک میں بے گھر ہوگئے ہیں اور نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔ معیشت کو ۹۰سے ۱۰۰؍ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ شہروں اور دیہات کا امن تہ و بالا ہوگیا ہے، بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے اور فوج اور قوم کے درمیان محبت، اعتماد اور احترام کا جو رشتہ تھا وہ پارہ پارہ ہوگیا ہے۔ جرائم پیشہ افراد اور ملک کے بیرونی دشمنوں نے اس فضا سے پورا فائدہ اٹھایا ہے اور اپنے مذموم کھیل کے لیے اس دھوئیں کی چادر (smoke screen)کو استعمال کیا ہے۔ حکومت، فوج اور قوم اس دلدل میں پھنستی چلی جارہی ہے۔
ملک میں انتہاپسندی، تشدد، دہشت گردی اور کشت و خون کے اس کھیل کو امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں پاکستان کے کردار سے الگ کر کے نہ سمجھا جاسکتا ہے اور نہ کوئی حل نکالا جاسکتا ہے۔ اگرحکومت اور عسکری قیادت پارلیمنٹ کے متفقہ طور پر منظور شدہ قراردادوں اور پارلیمانی کمیٹی براے قومی سلامتی کے مرتب کردہ نقشۂ کار پر خلوص، دیانت اور حکمت کے ساتھ عمل کرنے کا راستہ اختیار کرے اور تمام سیاسی اور دینی قوتوں اور اس تصادم سے متاثر ہونے والے تمام عناصر کو شریک کر کے قومی سلامتی کے پروگرام پر عمل پیرا ہو، تو ایک مختصر وقت میں ہم اس جنگ سے نکل کر قومی تعمیروترقی کے لیے سرگرم ہوسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں سیاسی قیادت اور عسکری ذمہ داران کو باہم مشاورت سے اور دستور اور سیاسی نظام کی بالادستی کے اصول کے تحت نقشۂ کار بنانا ہوگا۔ اس سلسلے میں یہ بھی بہت ضروری ہے کہ افغانستان سے امریکی اور ناٹو افواج کا انخلا ہو، افغانستان میں قومی سطح کی تمام اہم قوتوں کو باہمی مفاہمت کی بنیاد پر ایک میثاقِ ملّی پر مجتمع کیا جائے اور ایک دوسرے کی حاکمیت کے مکمل احترام کے ساتھ افغانستان اور اس کے تمام ہمسایہ ممالک علاقے کی سلامتی اور استحکام کا نقشہ تیار کرنے میں ایک دوسرے کے ممدومعاون ہوں۔
پاکستان کو امریکا کی گرفت سے نکالنے کے لیے ایک ایسی آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل ناگزیر ہے، جس کا مرکز و محور پاکستان کی آزادی، سلامتی، حاکمیت اور ترقی کے حصول کے لیے اس کے حقیقی مفادات کا تحفظ ہو، اور علاقے کے دوسرے تمام ممالک سے مشترک مفادات، باہمی تعاون اور انصاف اور بین الاقوامی قانون اور کنونشنز کی روشنی میں دوستی اور معاونت کا اہتمام ہو۔ یہ دیوانے کا خواب نہیں، وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے اور یہ پاکستان کی قیادت اور عوام کی ترجیح اوّل ہونی چاہیے۔ اس سلسلے میں یہ بھی ضروری ہے کہ امریکا کے ساتھ تعلقات کی نئی بنیادوں پر تشکیل کی جائے۔ دہشت گردی کی جنگ سے نکلنے کا مقصد اور ہدف دوٹوک انداز میں واضح کردیا جائے۔ امریکا کی معاشی امداد سے، جس کا ہماری معیشت میں کوئی بنیادی کردار نہیں اور جس کے بغیر معیشت کو ٹھوس بنیادوں پر منظم کیا جاسکتا ہے، خوش اسلوبی سے نجات حاصل کی جائے۔ جن شرائط (terms of engagement) پر گذشتہ ۱۰سال سے معاملہ ہو رہا ہے، وہ سراسر پاکستان کے مفادات سے متصادم ہیں اور اس بارے میں دو آرا نہیں کہ پاکستان کی معیشت کو اس جنگ سے، اس امداد کے مقابلے میں جو ملی ہے، کم از کم ۸گنا زیادہ نقصان ہوا ہے۔ اس امداد کا بہت کم حصہ پاکستان اور اس کے غریب عوام کے حصے میں آیا ہے، اور اس کے عوض ہماری آزادی اور عزت دونوں کا سودا ہوگیا ہے۔ ملک کی معیشت ٹھٹھر کر رہ گئی ہے۔ قرضوں کا بوجھ ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ گیا ہے۔ ملک پر اس کی تاریخ کے پہلے ۶۱برسوں میں قرض کا جو بوجھ پڑا ہے، وہ ساڑھے چار ہزار ارب روپے تھا، لیکن ان ساڑھے تین برسوں میں یہ بڑھ کر ۱۰ہزار ارب روپے سے تجاوز کرگیا ہے۔ گویا ۶۱برسوں کے قرض ایک طرف، اور صرف ان تین برسوں کے قرض دوسری طرف۔ آج ہر وہ بچہ جو پاکستان میں آنکھیں کھول رہا ہے، ۶۰ہزار روپے سے زیادہ کا مقروض پیدا ہو رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو جن وسائل سے نوازا ہے ، وہ خودانحصاری کی بنیاد پر ایک ترقی یافتہ ملک بننے اور ترقی کی دوڑ میں دوسرے ممالک سے آگے نکلنے کے لیے کافی ہیں۔یہ ہماری ناکام پالیسیاں اور نااہل اور بددیانت قیادتیں ہیں جن کی وجہ سے یہ قدرتی دولت سے مالا مال ملک دوسروں کا دست نگر بن گیا ہے۔ اس وقت بیرونی اور اندرونی قرضوں پر سود اور قسط کی ادایگی پر ۹۰۰؍ارب روپے سالانہ خرچ کرنے پڑرہے ہیں،جب کہ حکومتی سطح پر تمام ترقیاتی منصوبوںپر سال میں بمشکل ۲۸۰؍ارب روپے خرچ ہو رہے ہیں اور ان کا بھی بڑا حصہ بدعنوانی کی نذر ہو رہا ہے۔ اس وقت ۳۲۰۰ ترقیاتی منصوبے نامکمل پڑے ہیں اور ان پر جو اربوں روپے خرچ ہوچکے ہیں وہ خسارے کا سودا ہیں۔
ملک میں کرپشن کا دور دورہ ہے اور اس کا اندازہ بھی کرنا مشکل ہے کہ اس کالے کنویں (black hole) میں کتنی قومی دولت ضائع ہو رہی ہے۔ محتاط اندازہ ۶۰۰ سے ۱۰۰۰؍ ارب روپے سالانہ کا ہے۔ اس پر مستزاد وہ شاہ خرچیاں ہیں جو حکومت اور بیوروکریسی کی پہچان بن گئی ہیں۔ ایسی ایسی ہوش ربا مستند داستانیں ٹی وی چینل پر آئی ہیں کہ یقین نہیں آتا۔ لیکن کوئی گرفت اور سزا نہیں۔ سپریم کورٹ کو بھی ’’احترام، احترام‘‘ کرتے، عملاً بے اثر کر دیا گیا ہے۔ دوسری طرف وزیروں، مشیروں اور خصوصی معاونین کی ریل پیل ہے۔ مرکز میں وزرا کم کرنے کا اعلان کیا گیا مگر جس دن امریکا ایبٹ آباد پر حملہ کر رہا تھا، اس وقت ایوانِ صدر میں ڈیڑھ درجن نئے وزرا حلف لے رہے تھے۔ سب سے غریب صوبے کا یہ حال ہے کہ اس کی اسمبلی میں ۶۰ ارکان ہیں مگر وزیروں اور مشیروں کی تعداد ۵۵ تک پہنچ چکی ہے۔ وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ غیرترقیاتی اخراجات میں ۳۰ فی صد کمی کی جائے گی مگر عملاً ان میں اضافہ ہوا ہے، براے نام بھی کمی نہیں کی گئی۔
ادھر آمدنی کا یہ حال ہے کہ فیڈرل بیورو آف ریونیو کے مطابق ۱۵۸۰؍ ارب روپے سالانہ وصول ہو رہے ہیں، جب کہ ۱۱۰۰؍ارب روپے سالانہ ٹیکس چوری کی نذر ہو رہے ہیں۔ اگر اس کا تین چوتھائی وصول کرلیا جائے تو بجٹ کا خسارہ ختم ہوسکتا ہے۔ پھر اہلِ ثروت کے بڑے بڑے گروہ ہیں جو ٹیکس کے نیٹ ورک میں آ ہی نہیں رہے۔ ان میں بڑے زمین دار، غیرمنقولہ جایدادوں کے مالک اور تاجر، اہم پیشہ ور افراد، جن میں وکلا، ڈاکٹر، انجینیر، اکائونٹنٹس وغیرہ شامل ہیں۔ اور پھر اسٹاک ایکسچینج کے تاجر اور وہاں حصص کا کاروبار کرنے والے اور اس میں بڑی رقوم کا منافع کمانے والے ہیں۔ اس وقت ٹیکس کی حد ۳لاکھ روپے سالانہ آمدنی ہے، اس حد کو بڑھا کر ۴ یا ۵ لاکھ بھی کیا جاسکتا ہے، مگر جس کی آمدنی بھی ۵لاکھ سالانہ یا اس سے زیادہ ہو، وہ واقعی ٹیکس دے تو حکومت کی آمدنی دگنی ہوسکتی ہے۔ اس وقت ۱۸کروڑ افراد کے ملک میں صرف ۱۸لاکھ افراد ٹیکس ادا کر رہے ہیں، جب کہ یہ تعداد کسی اعتبار سے بھی ۴۰سے ۵۰لاکھ سے کم نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ٹیکس کے نیٹ ورک کو ایمان داری اور فرض شناسی کے ساتھ وسیع کیا جائے تو نہ حکومت کو قرضوں کی ضرورت ہو اور نہ بجٹ کا خسارہ ہمارا منہ چڑائے___ لیکن یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب ملک کو دیانت دار اور لائق قیادت میسرہو، کرپشن کا خاتمہ کیا جائے، ملک میں قانون اور انصاف کا بول بالا ہو، احتساب کا مؤثر نظام موجود ہو، تمام ادارے اپنا اپنا کام دستور کے دائرے میں انجام دیں۔ معاشی پالیسیاں عوام دوست ہوں اور ترقی اور فلاحِ عامہ کے لیے بنائی جائیں اور ان پر دیانت سے عمل ہو۔
آج حالات بلاشبہ بہت ہی خراب ہیں، مگر اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو ان تمام مادی اور انسانی وسائل سے مالامال کیا ہے جو ترقی اور خوش حالی کے لیے ضروری ہیں___ اصلاحِ احوال کے لیے ضروری ہے کہ اس وقت جو بنیادی خرابیاں ہیں، ان پر قابو پانے کی سرتوڑ کوشش کی جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ہم اللہ کے حضور اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اور اصلاحِ احوال کے لیے خلوص اور دیانت سے زندگی کا ایک نیا ورق کھولیں۔ سب سے اہم چیز پاکستان کے قیام کے اصل مقصد اور عوام اور تاریخ سے کیے جانے والے وعدے کا پُرخلوص اعادہ ہے۔ علامہ اقبالؒ اور قائداعظم محمدعلی جناحؒ نے جو وعدہ اللہ اور عوام سے کیا تھا وہ یہ تھا کہ:
پاکستان کے نام سے ہم جو خطۂ زمین حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ اسلام کا گہوارا اور دورِحاضر میں اسلامی نظام کی تجربہ گاہ ہوگا اور ہم اپنے لیے اور پوری دنیا کے لیے دورِ جدید میں اسلام کا نمونہ پیش کرنے کی کوشش کریںگے۔
۱۹۴۰ء کی قراردادِ پاکستان اور علامہ اقبال کے ۱۹۳۰ء کے الٰہ آباد خطبۂ صدارت کی یہی روح ہے۔ قائداعظم نے ۱۹۴۰ء کے کنونشن سے جو خطاب کیا، حصولِ پاکستان کے مقاصد کے سلسلے میں قیامِ پاکستان سے قبل ایک سو سے ایک اور قیامِ پاکستان کے بعد ۱۴ مرتبہ اعلانات کیے، مزیدبرآں ۱۹۴۶ء کے مسلم لیگ لیجسلٹر کنونشن کی قرارداد، ۱۹۴۹ء کی قرارداد مقاصد اور پھر ۱۹۵۶ء، ۱۹۶۲ء اور ۱۹۷۳ء کے دساتیر میں قرارداد مقاصد اور ریاست کے لیے پالیسی کے رہنما اصولوں کی شکل میں ان وعدوں اور اعلانات کی قانون کی زبان میں تکرار___ ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان میں اسلامی تہذیب و تمدن کا احیا ہوگا اور اسلام عملاً یہاںنافذ ہوگا۔
آج امریکا اور نام نہاد لبرل حلقوں کی طرف سے پاکستان کے اسلامی تشخص کو مجروح کرنے اور ایک نظریاتی کے بجاے محض ’قومی ریاست‘ بنانے کی سرگرمیوں کا سختی سے نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔ یہ ملک میں نظریاتی کش مکش اور انتشار پھیلانے کی سازش ہے اور اس کا بھرپور اور مؤثر مقابلہ ضروری ہے۔
دوسری چیز پاکستان کو امریکا کی سیاسی اور معاشی غلامی سے نکالنا اور آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل ہے۔ نیز ملک کی معیشت، تعلیم اور تہذیبی اور سماجی زندگی کو عوام کے ایمان اور عزائم کے مطابق ڈھالنا اور خاص طور پر معاشی خودانحصاری اور عوام کی فلاح اور خوش حالی پر مرکوز کرنا ہے۔
تیسری چیز دستور کے دیے ہوئے نقشے کے مطابق:
چوتھی چیز سیاسی نظام اور سیاسی قیادت پر عوام کا اعتماد اور ان کے درمیان مکمل ہم آہنگی ہے۔ اس وقت ہمارا المیہ ہی یہ ہے کہ عوام نے حکمرانوں کو جو مینڈیٹ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں دیا تھا، اسے بُری طرح پامال کردیا گیا ہے۔ عوام نے جن تین باتوں کا اپنے مینڈیٹ کے مرکزی پیغام کے طور پر بہت ہی واضح انداز میں اظہار کیا، وہ یہ تھیں:
۱- جنرل پرویز مشرف کے دور، اس کے طرزِ حکمرانی اور اس کی پالیسیوں پر مکمل عدم اعتماد کا اظہار___ اور صرف چہروں کی نہیںپالیسیوں اور طرزِ حکمرانی کی تبدیلی۔ یہی وجہ ہے کہ کسی ایک جماعت کو اکثریت حاصل نہ ہوئی بلکہ تبدیلی اور ایک نئے دور کے آغاز کی تمنا جس میں ملک کا مفاد، عوام کے حقوق اور حقیقی جمہوری طرزِ حکومت کا فروغ ان کا اصل ہدف تھا۔
۲- امریکا کی گرفت سے آزادی، امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے علیحدگی، آزاد خارجہ پالیسی اور ملکی مفادات، علاقے میں امن اور اُمت مسلمہ کی مضبوطی کو خارجہ امور اور ملکی سیاست کا مرکز و محور بنانا۔
۳- عدلیہ کی آزادی، فوج کے سیاسی کردار کی نفی، مرکز میں صوبوں کے درمیان اختیارات کی منصفانہ تقسیم، دستور کی اس کی اصل اسلامی، جمہوری، وفاقی اور فلاحی شناخت کے مطابق آمرانہ دور کی دراندازیوں سے پاک کرکے بحالی، ملک کو صحیح جمہوری خطوط پر منظم اور مضبوط کرنا، نیز بلوچستان کے ساتھ جو زیادتیاں اس زمانے میں ہوئی ہیں، ان کا فوری تدارک۔
یہ تین چیزیں وہ بنیاد تھیں جن پر عوام نے اپنا فیصلہ دیا۔ یہی وجہ تھی کہ انتخاب کے بعد جب حکومت کی تشکیل کا مرحلہ آیا تو ایک نوعیت کا قومی اتفاق راے پیداکرنے کی کوشش کی گئی۔ وزیراعظم کا انتخاب پارٹی بنیادوں پر کرنے کے بجاے پورے ایوان نے ان کو اعتماد کا ووٹ دیا اور جن جماعتوں نے اصول کی بنیاد پر انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا، انھوں نے بھی نئے قومی ایجنڈے پر حکومت کے کارفرما ہونے پر اسے تعاون کا یقین دلایا۔ لیکن چند ہی مہینوں میں یہ ساری توقعات خاک میں مل گئیں اور صدر زرداری نے مفاہمت کے نام پر مفادات اور منافقت کی سیاست کو فروغ دیا، سیاسی عہدوپیمان کو مذاق بنا دیا، کرپشن اور یاردوستوں کو نوازنے (cronyism) کی بدترین مثال قائم کی۔ اپنی پارٹی کے منشور اور اس میثاقِ جمہوریت کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جسے دورِ نو کا چارٹر بنا کر پیش کیا تھا۔ امریکا کی دراندازی کو اور بھی کھُل کھیلنے کا موقع دیا اور اپنی کرپشن کو تحفظ دینے کے لیے این آر او جیسے کالے قانون کو دستور عمل بنایا، عدالت کی بحالی کے لیے ہر ممکنہ رکاوٹ کھڑی کی اور جب مجبوراً اسے بحال کرنا پڑا تو اس کے بعد سے اس سے تصادم اور عدالت کے ہراہم فیصلے کو ناکام کرنے کے لیے سوچے سمجھے اقدامات کیے۔ امریکا کی مداخلت اتنی بڑھی کہ ڈرون حملے روز کا معمول بن گئے اور کھلے بندوں امریکا نے ایک متوازی نظام ملک میں قائم کرلیا اور اپنی مرضی سے جب چاہا ہماری حاکمیت کو پامال اور ہماری عزت کو داغ دار کیا۔ پھر معیشت کے میدان میں اس حکومت نے پہلے دن سے غلط اقدامات کی بھرمار کر دی، نااہلوں کو آگے بڑھایا اور تمام اداروں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی دوڑ شروع کردی جس نے پوری دستوری اسکیم کو درہم برہم کر دیا۔
معیشت ایک کے بعد دوسرے بحران سے دوچار ہوئی، ترقی کی رفتار دو اور تین فی صد کے درمیان پھنس گئی۔ افراطِ زر اور بے روزگاری نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی۔ بجلی کا بحران، گیس کی قلت، پٹرول اور اس کی مصنوعات کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ، اشیاے خوردونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں، لاقانونیت کا دوردورہ ہے اور کسی کی جان، مال اور عزت کوئی چیز محفوظ نہیں ہے۔ خراب حکمرانی (bad governance) اور عوام کے مسائل اور مشکلات کے باب میں مجرمانہ بے حسی اس کا شعاربن گئے۔ حد یہ کہ خود اپنی قائد، جس کے نام پر اقتدار حاصل کیا، اس کے قاتلوں کا سراغ لگانے میں ناقابلِ یقین بے توجہی، بلکہ وہ رویہ اختیار کیا جس کے نتیجے میں قاتلوں کو تحفظ دیے جانے کے شبہات نے جنم لیا۔ جنرل پرویز مشرف سے مفاہمت اور پھر اس کی ملک سے باعزت رخصتی اور جن کو ’قاتل لیگ‘ کہا تھا ان کو شریکِ اقتدار کرنا اور جن کے بارے میں جولائی ۲۰۰۷ء کی لندن کانفرنس میں متفقہ طور پر طے کیاتھا کہ ان کے ساتھ کوئی سیاسی مفاہمت یا شراکت نہیں ہوگی، ان کو نہ صرف گلے سے لگایا بلکہ ان کی خوشنودی کے لیے ہراصول اور ضابطے کا کھلے بندوں خون کیا، جس کے نتیجے میں کراچی لاقانونیت کی بدترین تصویر پیش کرنے لگا۔ ان تین برسوں میں صرف کراچی میں ٹارگٹ کلنگ (ہدفی قتل) کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے اور وہاں کی معیشت بُری طرح متاثر ہوئی۔
ان سوا تین برسوں میں حکومت نے جو کارنامے انجام دیے ہیں ان کے نتیجے میں جو صورت حال پیدا ہوئی ہے اسے ان چار نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے:
۱- سیاسی اور اخلاقی جواز نہیں رہا ہے۔
۲- اعتبار اُٹھ گیا ہے۔
۳- نااہلیت ثابت ہوگئی ہے۔
۴- کرپشن کا دور دورہ ہے۔
یہ وہ چیزیں ہیں جن کی وجہ سے وہ مینڈیٹ جو عوام نے دیا تھا، اپنا جواز کھو چکا ہے۔ مینڈیٹ اچھی حکمرانی (good governance) کے لیے تھا، محض پانچ سال پورے کرنے اور بدترین اور کرپٹ ترین اندازِ حکمرانی کے لیے نہیں تھا۔ ایسے حالات میں دستوری مدت سے قبل انتخابات اور عوام سے نیا مینڈیٹ حاصل کرنے کی ضرورت جمہوریت کا ایک بنیادی اصول ہے۔ بھارت میں گذشتہ ۶۳برس میں نو مرتبہ انتخابات دستوری مدت پوری کرنے سے پہلے ہوئے ہیں۔ اسی طرح انگلستان میں دوسری جنگ کے بعد سے اب تک کئی بار پارلیمنٹ کے وسط مدتی انتخابات منعقد کیے گئے ہیں۔ نئے انتخاب کا انحصار حکومت کی کارکردگی اور عوام کے اعتماد یا بے اعتمادی کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ یہ حکومت اپنا جواز کھوچکی ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ نئے انتخابات کا انعقاد ہو، جو غیر جانب دار اور آزاد الیکشن کمیشن کے تحت نئے انتخابی قواعد کے مطابق ہوں۔ اس لیے کہ ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے موقع پر جو ووٹروں کی فہرست تھی اس میں ۴۵ فی صد بوگس ووٹ تھے جس کا اعتراف نادرا اور عدالتِ عالیہ نے کیا ہے۔
ملک کو سیاسی انتشار، معاشی بدحالی اور امریکا کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے یہ سب سے معقول اور جمہوری اعتبار سے معتبر راستہ ہے۔ ٹیکنوکریٹس کی حکومت کی کوشش اور فوج کی کسی بھی شکل میں مداخلت حالات کو بگاڑنے کا ذریعہ تو ہوسکتے ہیں، اصلاحِ احوال کی طرف پیش رفت کا موجب نہیں ہوسکتے۔
اس کے ساتھ اس امر کی ضرورت ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترک اجلاس کی متفقہ قرارداد پر اس کے الفاظ اور روح کے مطابق فوری طور پر عمل ہو، جس کے کم از کم تقاضے یہ ہیں:
اوّل: ۲ مئی کے واقعے کے تمام پہلوئوں کا بے لاگ اور غیر جانب دارانہ جائزہ لینے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی آزاد کمیشن کا قیام جو انٹیلی جنس کی ناکامی اور قومی سلامتی کے تحفظ میں ناکامی (security failure) کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لے اور پوری پیشہ ورانہ مہارت اور دیانت کے ساتھ تمام حقائق پارلیمنٹ اور قوم کے سامنے لائے۔ عوام کا اعتماد حکومت اور دفاع اور قومی سلامتی کے اداروںپر متزلزل ہوگیا ہے۔ ۲۲مئی کے واقعے نے حالات کی نزاکت اور مخدوش صورت حال کو اور بھی گمبھیر کردیا ہے۔ اس لیے اس کمیشن کا فی الفور قیام ملک کی سلامتی کے لیے ضروری ہے۔
دوم: امریکا سے تعلقات پر مکمل نظرثانی کا آغاز بھی فوری طور پر ہوجانا چاہیے۔ قوم کے سامنے وہ سارے حقائق آنے چاہییں جن پر آج تک پردہ پڑا رہا ہے۔ کچھ حقائق امریکا کے عملی رویے اور جارحانہ کارروائیوں سے اور کچھ وکی لیکس کے انکشافات سے سامنے آرہے ہیں اور کچھ ریمنڈ ڈیوس کے واقعے سے سامنے آئے ہیں۔ ان پس پردہ حقائق نے کچھ بنیادی سوالات کو بھی جنم دیا ہے جن کا جواب قوم اور پارلیمنٹ کے لیے جاننا ضروری ہے۔ ماضی میں جو بھی کھلے عام یا خفیہ مفاہمت تھی، اس کو ختم ہونا چاہیے اور تمام معاملات کو دو اور دو چار کی طرح تحریری طور پر طے ہونا چاہیے اور وہ کابینہ اور پارلیمنٹ کے علم میں لائے جانے چاہییں۔ اس قرارداد اور پارلیمنٹ کی اس سے پہلے کی قراردادوں کی روشنی میں یہ بالکل واضح ہے کہ پارلیمنٹ کی نگاہ میں:
۱- خارجہ پالیسی کو آزاد ہونا چاہیے اور امریکا سے خودمختارانہ برابری (sovereign equality) کے اصول کی بنیاد پر معاملات طے ہونے چاہییں جن کا محور پاکستان کی آزادی، حاکمیت، نظریاتی تشخص، اور اس کے سیاسی، معاشی اور علاقائی مفادات کا مکمل تحفظ ہے۔
۲- دہشت گردی کے خلاف جنگ سے باعزت دُوری اور اس اصول کی بنیاد پر نئی حکمت عملی کا تعین کہ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں۔ اصل حل سیاسی ہے اور اس کے لیے مذاکرات کے سوا کوئی طریقہ نہیں۔ ان مذاکرات میں تمام متعلقہ عناصر (stake holders) کی شرکت لازمی ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مکالمہ (Dialogue) ترقی (Development) اور باز رکھنا (Deterrence) (یعنی تین Ds) ہی صحیح طریقہ ہے۔
سوم: پاکستان کی حاکمیت اور خودمختار سرحدوں (sovereign borders) کا تحفظ اولین اہمیت کا مسئلہ ہے۔ ڈرون حملے ہماری حاکمیت کی کھلی خلاف ورزی ہیں اور امریکا یا کسی کی طرف سے بھی کوئی یک طرفہ مداخلت ہماری حاکمیت اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے جسے کسی صورت میں برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ امریکا کو اس سلسلے میں صاف وارننگ دے دی جائے اور اگر اس کے بعد بھی کوئی ڈرون حملہ ہو یا کسی بھی شکل میں فوجی مداخلت ہوتی ہے تو ناٹو افواج کی راہداری کی سہولتیں فوراً ختم کی جائیں اور تمام دفاعی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال ہو۔ ہم امریکا سے تصادم نہیںچاہتے، لیکن امریکا کو اپنی سرزمین پر اس نوعیت کے جارحانہ فوجی اقدامات کی اجازت بھی نہیں دے سکتے۔ اگر کیوبا ۱۹۶۰ء سے امریکا کی دراندازیوں کا مقابلہ کرسکتا ہے اور جنوبی امریکا کے نصف درجن سے زیادہ ممالک امریکا کو اس کی اپنی حدود میں رکھنے اور اپنی عزت اور آزادی کے تحفظ کے لیے سینہ سپر ہوسکتے ہیں، اگر شمالی کوریا امریکا اور جنوبی کوریا دونوں کو اپنی حدود کو پامال کرنے سے روک سکتا ہے تو پاکستان جو ایک ایٹمی طاقت ہے، جس کے عوام نے اپنی افواج کو دفاع کے لیے ناقابلِ تسخیر قوت کی فراہمی کے لیے اپنا پیٹ کاٹ کر وسائل فراہم کیے ہیں،وہ ملک کی سرحدوں اور قیمتی اثاثوں کا دفاع کیوں نہیں کرسکتیں، جب کہ ہمارے عسکری قائدین پبلک اور پرائیویٹ ہر موقع پر یقین دلاتے ہیں کہ ان شاء اللہ دفاع کا حق ادا کریںگے، ان کو صرف سول حکومت کی اجازت اور اشارے کی ضرورت ہے۔
چہارم: ملک کے سلامتی کی صورت حال (security paradigm) پر بھی ازسرِنو غور کی ضرورت ہے۔ اس میںمشرق اور مغرب ہرسمت سے جو خطرات ممکن ہیں، ان کا ادراک ضروری ہے۔ امریکا کے رویے کی وجہ سے خطرے کے ادراک (threat perception) پرنظرثانی کی جو ضرورت ہے، اس پر عسکری اور سیاسی قیادت دونوں کو فوری طور پر توجہ دینے اور سلامتی کی حکمت عملی کو ازسرِنو مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے نکلنے کے ساتھ ساتھ اس پر بھی غور کرنا ہوگا کہ پاکستان کی سرزمین ملک کے اندر یا ملک کے باہر، دوسروں کے لیے کسی نوعیت کی بھی دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دیا جائے، اور اس کے لیے دہشت گردی کے خلاف جس حکمت عملی، اختیار اور قانون سازی کی ضرورت ہے اس پر فوری توجہ دی جائے۔ دہشت گردی اور جنگ آزادی دو لگ الگ چیزیں ہیں لیکن حقیقی دہشت گردی کسی بھی ملک کے لیے قابلِ برداشت نہیں۔ البتہ ان اسباب کی اصلاح بھی ضروری ہے جو جمہوری اور قانونی راستوں کو غیرمؤثر بناتے ہیں اور لوگوں کو غلط راستوں کی طرف دھکیلتے ہیں۔ اس کے لیے سیاسی، نظریاتی، اخلاقی اور قانونی تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر ایک جامع حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔
پنجم: پارلیمنٹ کی قراردادوں کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ پاکستان اور اس کے سفارت کار پاکستان کے موقف کو دنیا کے سامنے دلیل کے ساتھ اور مؤثر ترین انداز میں پیش کریں اور سفارتی فعالیت (activism) کا راستہ اختیارکیا جائے۔ آج پاکستان کے امیج کو خراب کرنے اور اسے ایک ناکام یا ناکامی کی طرف بڑھتی ہوئی ریاست کی شکل میں بڑے منظم انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔ بلاشبہہ ہمیں اپنے گھر کی اصلاح کرنی ہے لیکن اس کے ساتھ اپنے موقف کے ابلاغ اور دنیا میں دوستوں کو متحرک کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
ہمارے بعض دانش ور، میڈیا کے بعض حلقے اور وہ عناصر جو پاکستان کو امریکا کے زیراثر رکھ کر عوام کی آرزوئوں کے برخلاف سیکولر اباحیت پسند معاشرہ چاہتے ہیں ملک کے خیرخواہ بن کر یہ نقشہ کھینچ رہے ہیں اور ڈرا رہے ہیں___ اگر امریکی امداد بند ہوگئی تو ہماری معیشت بالکل بیٹھ جائے گی اور پاکستان ختم ہوجائے گا۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس سے پہلے چار دفعہ: ۱۹۶۵ء، ۱۹۷۱ء، ۱۹۸۹ء اور ۱۹۹۸ء میں امریکا نے اپنی ہر طرح کی معاشی اور عسکری معاونت ختم کر دی تھی لیکن الحمدللہ! پاکستانی معیشت پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا اور ترقی کا سفر جاری رہا۔ موجودہ حالات میں یہ حکومت یا کوئی دوسری حکومت عزت و وقار کے ساتھ امریکی امداد کو ٹھکرا دے تو پاکستان کے عوام کے لیے خیروبرکت کا باعث ہوگا اور ہماری معیشت اپنے پائوںپر کھڑی ہوجائے گی۔ عوام بھی ایک جذبے سے بڑھ کر اپنا حصہ ادا کریں گے، ٹیکس بھی زیادہ ملیں گے اور کرپشن میں بھی کمی آئے گی۔
سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ ہم دنیا کے مظلوم انسانوں اور مسلم اُمت کے عام نفوس تک پہنچیں اور ان کی قوت کو اپنے لیے مسخرومنظم کریں۔ ایسے حکمرانوں سے تائید ہماری قوت کا ذریعہ نہیں جو خود ظلم و استبداد کے مرتکب ہوں۔ ہماری اصل ہم آہنگی اپنے ملک کے عوام اور تمام دنیا کے عوام سے ہونی چاہیے جو اس ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے برأت کا اعلان کرتے ہیں۔ مسلم دنیا کے ۹۰ فی صد عوام اس جنگ کو ایک ناحق جنگ سمجھتے اور امریکا کو اس کی مسلم کش پالیسیوں کی وجہ سے اپنا دوست نہیں سمجھتے۔ اب خود امریکی راے عامہ کے تازہ ترین جائزوں کی روشنی میں آبادی کے ۶۲ فی صد نے اس جنگ سے امریکا کے نکلنے کے حق میں راے کا اظہار کیا ہے۔
آخری چیز ملک کی معیشت کو سنبھالنا، نئی معاشی پالیسی کی تشکیل اور اس پر عمل درآمد کا انتظام ہے۔ معیشت کی اصلاح کا بڑا قریبی تعلق سیاسی تبدیلی اور آزاد خارجہ پالیسی اور علاقائی امن و سلامتی کے لیے علاقے کے ممالک کے ساتھ مل کر نئے دروبست کے قیام پر ہے، اور حالات اسی طرح اشارہ کر رہے ہیں۔ اس تبدیلی کے لیے موجودہ قیادت سے توقع عبث ہے۔ اس کا راستہ عوام کو متحرک کرنے اور عوام کی قوت سے دستور کے مطابق جمہوری عمل کے لیے نئی قیادت کو زمامِ کار سنبھالنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ آج پاکستان ہم سے اس جدوجہد کا مطالبہ کر رہا ہے۔