جون ۲۰۱۱

فہرست مضامین

بنت مجتبیٰ مینا کی یاد میں

زہرا نہالہ | جون ۲۰۱۱ | یاد رفتگان

Responsive image Responsive image

بیسویں صدی کی دوسری دہائی اپنے اختتام کو پہنچ رہی تھی، شعبان المعظم کا مہینہ تھا۔    یوپی کے شہر بریلی میں نواب مجتبیٰ علی خان کے گھر ایک بچی نے آنکھیں کھولیں۔ اس بچی کے پیدا ہونے پر گھر کے ہرفرد کی آنکھ اشک بار تھی۔ وجہ یہ تھی کہ بچی کے والد اس کی پیدایش سے چھے ماہ قبل محض ۳۵برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوچکے تھے۔ اس وقت اس یتیم بچی کی بے نصیبی پر رونے والے یہ نہ جان سکتے تھے کہ خداے رحمن و رحیم اپنی قدرتِ کاملہ سے اس بچی کو خاندان کی سب سے خوش نصیب لڑکی بنا دیں گے اور روے زمین پر ہونے والے سب سے مبارک کام، اعلاے کلمۃ الحق اور شھدا علی الناس کے فریضے میں اس بچی سے مقدور بھر کام لیں گے، اور ۱۹مئی ۲۰۱۱ء کو جب اپنی بندی کو اپنی طرف واپس بلائیں گے، اس وقت ہزاروں لوگ ان کی جدائی میں آنسو بہانے کے ساتھ ساتھ ان کی خوش نصیبی پر رشک کررہے ہوں گے___ اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُo (ھود ۱۱:۱۰۷) ’’ایسی بخشش ان کو ملے گی جس کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہوگا‘‘۔

میری والدہ (مریم بیگم جنھیں لوگ بنت مجتبیٰ مینا کے نام سے جانتے ہیں) نے ساری زندگی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیدایشی یتیم ہونے کی نسبت کو اپنا سرمایۂ جاں سمجھا۔ وہ کہا کرتیں کہ جب میں سورئہ ضحی کی یہ آیات: اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی o وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی o وَوَجَدَکَ عَآئِلًا فَاَغْنٰی o (کیا اس نے تم کو یتیم نہیں پایا اور پھر ٹھکانا فراہم کیا؟ اور تمھیں ناواقف راہ پایا اور پھر ہدایت بخشی۔ اور تمھیں نادار پایا اور پھر مال دار کر دیا۔ الضحٰی ۹۳:۶-۸)، پڑھتی ہوں تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرا رب مجھ ہی سے مخاطب ہے۔

میں جب اپنی امی کی زندگی پر ایک غائرانہ نگاہ ڈالوں تو مہربان رب کے انتظامات دیکھ کر دل احساسِ تشکر سے معمور ہوجاتا ہے۔ امی کا تعلق ایک ایسے خاندان سے تھا جس میں سیاسی بیداری، انگریز سے نفرت اور اپنی دینی اقدار کی حفاظت کا احساس کوٹ کوٹ کر بھراتھا۔ امی کے  دادا نواب شفیع علی خاں کا تعلق صاحب ِ حیثیت مسلمانوں کے اس گروہ سے تھا جنھوں نے انگریز سے وفاداری کا تعلق استوار کرنے کے بجاے بغاوت کا راستہ اپنایا تھا۔ نتیجے میں تمام جایداد،     مال اسباب ضبط ہوگیا تھا اور الٰہ آباد کے خسرو باغ میں پھانسی کا حکم سننے والوں میں شامل تھے۔

اس سیاسی بیداری اور دین سے محبت کا تسلسل مسلم لیگ سے والہانہ تعلق کی صورت میں ظاہر ہوا۔ امی کے بچپن میں جب قائداعظم محمدعلی جناح تحریکِ پاکستان کے دوران یوپی کا    طوفانی دورہ کر رہے تھے تو امی کے چچا نواب سخاوت علی خان صاحب نے اپنے گھر کے احاطے میں   مسلم لیگ کا جلسہ منعقد کروایا۔ امی کے بڑے بھائی نے ایک ریشمی رومال پر پاکستان کا نقشہ بنایا جسے امی کی چچازاد بہن نے کاڑھ کر قائداعظم کی خدمت میں پیش کیا تھا۔

حساس دل، مسلمانوں کے لیے کچھ کرنے کی تڑپ رکھنے والی، فطری ادبی و تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال اس لڑکی کو اللہ رب العزت نے اپنی ایک صالح بندی محترمہ آپا حمیدہ بیگم تک پہنچانے کا بندوبست اس طرح کیا کہ ۱۹۵۲ء میں امی اپنی والدہ اور بھائی کے ہمراہ پاکستان ہجرت کرکے آگئیں۔ امی اپنے تایازاد بھائی جناب ناصر سلطان علی خان کو اپنا بہت بڑا محسن اس لیے سمجھتی تھیں کہ نہ صرف انھوں نے اپنی چچی (امی کی والدہ کو) اپنے ساتھ رہنے پر آمادہ کیا بلکہ جماعت اسلامی سے تعارف اور تعلق کی بنیاد بھی بنے۔

ناصر سلطان صاحب سول انجینیرتھے اور محکمہ انہار میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ ملازمت کے سلسلے میں وہ پانچ سال بہاول نگر رہے۔ یہیں سے امی نے جماعت اسلامی کے ساتھ عملی کام کی ابتدا کی اور بہاول نگر میں حلقۂ خواتین کی داغ بیل ڈالی۔ اسی زمانے میں تسنیم اور کوثر میں امی کا کلام چھپنا شروع ہوا۔ محترم نصراللہ خاں عزیز نے امی کی بے حد حوصلہ افزائی کی اور کئی دفعہ  امی کی نظمیں سرورق پر بھی چھاپیں۔ یہاں ایک دفعہ پھر خوش قسمتی نے امی کا دامن تھاما اور ان کے لکھے ہوئے مضامین و اشعار محترمہ آپا حمیدہ بیگم کی نظر میں آگئے۔ انھوں نے فوری طور پر ان سے قلمی تعلق قائم کیا اور ان کو اپنی محبت کی زنجیر میں ایسا جکڑا کہ وہ اپنی زندگی کے آخری زمانے تک اس محبت و شفقت و تربیت کی اسیر رہیں۔ ۱۹۵۲ء سے لے کر ۱۹۵۷ء تک یہ تعلق (سواے چند ملاقاتوں کے) قلمی طور پر قائم رہا۔ امی اس تعلق کو اپنے الفاظ میں یوں بیان کرتی ہیں کہ ایک    نرم دل مصوّرہ نے اپنا بُرش اُٹھایا اور بڑی خوب صورتی سے میری شخصیت میں رنگ بھرنا شروع کیے۔ آپا حمیدہ بیگم نے ایک دفعہ ان کو خط میں لکھا: ’’مجھے بار بار آپ ہی کا خیال آتا ہے کہ آپ کی زندگی اچھی طرح گزرے۔ آپ اپنی شاعری کی وجہ سے لوگوں کا کھلونا نہ بن جائیں۔ حضرت فاطمہ بھی شاعرہ تھیں لیکن ان کی شاعری اپنے باپ کی محبت اور اطاعت کے لیے وقف تھی۔ پھر ان کی زندگی، دل چاہتا ہے کہ آپ کی زندگی میں بھی وہی چیز ہو‘‘۔

آگے مزید لکھتی ہیں: ’’میرا خیال ہے جس کسی کو کسی شاعر سے سچی محبت ہوگی وہ اس کو یہی مشورہ دے گا کہ اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کو اسلام کی راہ میں لگائو۔ اس کی حدود کا پابند بنائو۔ اس وقت مجھے حلقۂ خواتین کی طرف سے دو جہاد بڑے اہم دکھائی دیتے ہیں۔ ایک تو گھریلو زندگی اختیار کرنے پر رضامند ہوجانا اور دوسرے بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کے لیے پوری طرح تیار ہوجانا۔ علمی ادبی کام اپنی جگہ بہت اہمیت رکھتا ہے لیکن بنیادی نہیں۔ بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ ہمارا اصل مالک، ہمارا سب سے بڑا محسن، سب سے بڑا خیرخواہ اور ہماری محبت کا سب سے بڑھ کر جواب دینے والا ہم سے کیا چاہتا ہے کہ ہم کیسی زندگی گزاریں؟ اور پھر اس کے عائد کردہ فرائض کو نبھانا‘‘۔

انھوں نے اپنی مُرشد کی باتوں کو ایسی عقیدت سے تسلیم کیا کہ کبھی بطور شاعرہ اپنے کیریئر کو نہ اہم سمجھا نہ اس کے لیے محنت کی۔ اشعار وہ ساری زندگی ضرور کہتی رہیں مگر وہ بھی بتول اور نور کی ہی زینت بنے۔ ۱۹۵۷ء میں اپنی شادی کے بعد انھوں نے اپنے آپ کو  تن من دھن سے گھر کے محاذ پر مصروف کرلیا اور ایک قابلِ رشک شریکِ حیات، بامروت، متحمل مزاج بہو اور ایک آئیڈل ماں بن کر دکھایا، الحمدللہ۔

۱۹۵۷ء سے ۱۹۷۳ء تک امی نے لاہور میں سسرال ہونے کے باعث آپا حمیدہ بیگم کی صحبت سے فیض اُٹھایا۔ ’نئی نسل کی تربیت‘ امی کی ترجیحات میں سرفہرست تھی۔ اسی لیے آپا حمیدہ بیگم نے نور رسالے کی ذمہ داری ان کے سپرد کردی۔ اللہ کی خاص رحمت سے کم و بیش ۳۵سال تک انھوں نے اس رسالے کی ادارت کا فریضہ سرانجام دیا (ان کا دن گھر کے کاموں اور جماعت کے کاموں کے لیے مختص تھا تو راتیں نور کے کام کے لیے)۔ چند برسوں سے بڑھاپے اور   خرابیِ صحت کے باعث انھوں نے یہ کام چھوڑ دیا تھا مگر صدشکر کہ اللہ کی مہربانی سے ان کی اکلوتی بہو ذروہ احسن نے جو آپا سعیدہ احسن کی بیٹی اور آپا بنت الاسلام کی بھانجی بھی ہیں، اس کام کو بہت اچھے طریقے سے سنبھالا ہوا ہے۔

لاہور میں انھوں نے اپنی ازدواجی زندگی کے ۴۰سال گزارے۔ میرے والد محترم عبدالسلام خان امی کے لیے نیک طینت شوہر کے ساتھ ساتھ جماعتی محاذ پر بھی ہم مزاج ساتھی اور بہترین رفیقِ کار ثابت ہوئے۔ جب میں نے ہوش سنبھالا تو اباجی مرحوم کو حلقۂ خواتین کا نگران اور والدہ کو جماعت میں ادبی، دعوتی، تنظیمی اور سیاسی محاذوں پر ہمہ وقت سرگرم پایا۔ میری والدہ  میرے فطری میلان کو دیکھتے ہوئے باوجود کم عمر ہونے کے مجھے اکثر اپنے ساتھ رکھتیں۔ ۱۹۷۷ء کی تحریک نظامِ مصطفیؐ سے لے کر ۱۹۸۵ء میں غیرجماعتی بنیادوں پر ہونے والے الیکشن تک، میری آنکھوں میں اپنی والدہ اور والد کی سرگرمیاں اور مصروفیات ایک فلم کی صورت میں گھوم رہی ہیں۔ کبھی جلوس پر گولی چلائے جانے کے نتیجے میں زخمیوں کو دیکھنے ہسپتال جایا جارہا ہے۔ کہیں جلسۂ عام میں خطاب ہو رہا ہے۔ کہیںلوگوں کو بیلٹ پیپر پر صحیح طریقے سے مہر لگانے کا طریقہ بتایا جا رہا ہے۔ کبھی وارڈز اور زون کی فائلیں بنائی جارہی ہیں۔ کبھی ووٹر لسٹوں کی پڑتال ہورہی ہے۔ کبھی پولنگ ایجنٹوں کو بریفنگ دی جارہی ہے۔ این اے ۸۵ کے گلی کوچوں کا چپہ چپہ روزِ قیامت ان شاء اللہ میری والدہ کے قدموں کی گواہی دے گا۔ نوازشریف کے مقابلے میں سید اسعد گیلانی تھے۔     اس انتخابی مہم میں امی اور اباجی کا انہماک، لگن، محنت اور تگ و دو دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔

۸۰ کی دہائی میں میری والدہ محترمہ بیگم زبیدہ واصل کے ساتھ میونسپل کارپوریشن لاہور کی کونسلر بھی رہیں۔ حریم ادب کی محفل کا بھی دوبارہ سے اجرا کیا۔ اسلامی جمعیت طالبات سے خصوصی تعلق رکھنے کے باعث جمعیت کے پروگراموں اور مشاعروں میں ہمیشہ شرکت کی۔ جماعت اسلامی کی خواتین کی نمایندگی کرتے ہوئے ایوانِ صدر بھی گئیں۔ سیرت کانفرنسوں اور خواتین کانفرنسوں   میں بھی شریک رہیں۔ جنگ فورم میں حدود آرڈی ننس پر اعتراضات کے حوالے سے حناجیلانی، عاصمہ جہانگیر اور مہناز رفیع جیسی خواتین کے مقابل بھی ڈٹی رہتیں۔ مقابل باوجود ڈھٹائی کے   ان کے باوقار اور پُرسکون انداز سے مرعوب ہوئے بغیر نہ رہتا۔

۱۹۸۹ء میں مینارِ پاکستان پر ہونے والا اجتماعِ عام غالباً وہ آخری پروگرام تھا جس میں امی اور اباجی نے اپنے روایتی جوش و خروش سے حصہ لیا۔ قیمہ کے کیمپ میں بطور نائب قیمہ پاکستان ان کی موجودگی اور تمام پاکستان سے آئی ہوئی خواتین کا ان سے والہانہ ملنا آج بھی میرے دل کے البم میں محفوظ ہے۔

اس کے بعد امی نے دورِ آزمایش بھی دیکھا۔ غلط فہمیوں، خدشات، بدگمانیوں کی کچھ ایسی ہوا چلی کہ والدہ کے عزیز از جان شریکِ حیات اور امی کی دیرینہ ساتھی مخالف کیمپ میں جاکھڑے ہوئے۔ لیکن اس موقع پر بھی انھوں نے اپنی فہم و فراست کے مطابق جس بات کو اور موقف کو درست سمجھا اس پر قائم رہیں۔

۱۹۹۷ء میں میرے والد اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلٰیہِ رٰجِعُون۔ اس اصولی اختلاف کے باوجود امی نے اباجی کی خدمت اور خیال رکھنے میں ذرہ برابر کمی نہ آنے دی اور ان کی رحلت کے بعد بھی جنت الفردوس میں ان سے ملاقات کی دعائیں کرتی رہیں۔ امی کا کہنا تھا کہ’’ اللہ رب العالمین ہرایک سے اس کی نیت کے مطابق معاملہ کرے گا اور میں گواہی دیتی ہوں کہ تمھارے والد ایک نیک آدمی تھے‘‘۔

میرے شوہر ڈاکٹر عاصم پلاسٹک سرجری کے ایف سی پی یس پارٹ ٹو کی ٹریننگ کے سلسلے میں چار سال لاہور میں میوہسپتال میں تعینات رہے۔ ۱۹۹۶ء سے ۲۰۰۱ء تک مَیں امی کے ساتھ ہی رہی۔ جب ہماری فیصل آباد واپسی کا وقت ہوا تو والدہ نے کمالِ ہمت سے اپنے گھر کو ہمیشہ کے لیے بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ اپنی زندگی کے آخری ۱۰ سال انھوں نے اپنے بیٹے کے پاس گزارے۔ کبھی کراچی، کبھی اسلام آباد (گو دل میں لاہور اور اہلِ لاہور کی یاد آخر وقت تک چٹکیاں لیتی رہی)۔

یہ بھی حُسنِ اتفاق ہے کہ ۲۰۰۱ء تک امی نے عملی طور پر جماعت میں کام کیا اور اسی سال سے مَیں نے ان کی دیرینہ خواہش کے پیش نظر جماعت اسلامی میں عملی طور پر اپنا سفر شروع کیا۔    وہ جب بھی فیصل آباد آتیں، نہ صرف جماعت کے پروگراموں میں شریک ہوتیں بلکہ حریم ادب کا انعقاد بھی کرواتیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی زندگی کا آخری حصہ بہت سکون، آسانی اور خوشی کے ساتھ گزروایا۔ وہ کبھی کسی کے لیے وجۂ تکلیف نہ بنیں (الحمدللہ)۔ آخر وقت تک جماعت اور جماعت کے کاموں سے ان کادلی تعلق رہا۔

۲۲مارچ کو وہ دبئی بڑی بہن کے پاس ان کے شدید اصرار کے نتیجے میں گئی تھیں۔  انٹرنیٹ پر گاہے بہ گاہے ان سے طویل گفتگو رہتی۔ آخری دفعہ غالباً ایک ہفتہ پہلے ان سے بات کی تو حسبِ معمول شگفتہ انداز میں بات کرتی رہیں۔ الوداع کہتے ہوئے اپنا پسندیدہ شعر دُہرایا    ؎

خیری کن ای فلاں و غنیمت شمار عمر
زاں پیشتر کہ بانگ در آید فلاں نماند

اللہ نے ان کی خواہش کے مطابق ان کو چلتے ہاتھ پیر، آخر وقت تک کی نماز پڑھوا کر اور بے ہوش ہونے سے پہلے تک کلمۂ طیبہ پڑھواتے ہوئے اپنے پاس بلایا۔ ان کے انتقال کی خبر سن کر سب مجھے صبر کی تلقین کر رہے ہیں، ان کے نیک اعمال اور کردار کی گواہی دے رہے ہیں اور     ان کے بلند درجات کی دعائیں کر رہے ہیں۔ لیکن میرا دل امی کے اس شعر کی تصویر بنا ہوا ہے    ؎

گرداب سے بچنا مانجھی تم، پتوار سنبھالو نیا کے
اب ہر چہ بادا باد کہو کشتی سے کنارا چھوٹ گیا


  • مضمون نگار بیٹھک اسکول، فیصل آباد کی نگران ہیں