خرم مراد


تربیت کے معنی ترقی اور نشوونما کے ہیں۔ ترقی اور نشوونما کسی سمت میں اور کسی منزل کی طرف ہوتی ہے۔ انسان اپنے آپ کو بہت سے سانچوں میں ڈھال سکتا ہے اور جو شخصیت اور صلاحیتیں اللہ نے عطا کی ہوں ان کو بہت سارے پہلوئوں سے پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔

تربیت کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو اُس مقصد کے حصول کے لائق بنائیں‘ اُس کا اہل بنائیں جو ہمارے پیشِ نظرہے۔ اس لحاظ سے تربیت کا عمل‘ اس کا نہج‘ اس کا طریقۂ کار اور اس کے اجزا مقصد کے لحاظ سے متعین ہوں گے۔

فوج میں تربیت کے معنی یہ ہوں گے کہ جسمانی طور پر اور لڑنے کی صلاحیت کے لحاظ سے اتنی تربیت ہو کہ جنگ جیتی جا سکے اور دشمن کا مقابلہ کیا جا سکے۔ ایک مدرسے میں تربیت کے معنی یہ ہوں گے کہ علمی صلاحیتیں‘ علم کی تطبیق‘ بیان و اظہار اور تجزیے کی صلاحیتیں پروان چڑھائی جائیں۔ اس لحاظ سے جب ہم تربیت کے لیے جمع ہوں تو زیادہ ضروری چیز یہ ہے کہ ہمارے سامنے یہ چیز روزِ روشن کی طرح واضح ہو کہ وہ کیا مقصد ہے جس تک پہنچنے کے لیے ہم اپنی شخصیت کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔ جتنا وہ مقصد صاف اور واضح ہوگا‘ اتنی ہی صحیح سمت میں‘ صحیح راستے پر‘ صحیح طریقے سے آگے بڑھنا اور اپنی منزل تک پہنچنا آسان ہوگا۔

ہمیں ایک جماعت کی صورت میں جمع کرنے اور منظم کرنے والی چیز اس دنیا میں   غلبۂ اسلام کی جدوجہد ہے۔ اس کے لیے اچھا مسلمان ہونا ضروری ہے۔ ایک اچھا مسلمان ہونے کے لیے ایمان اور اسلام کا یہ مطالبہ ہے کہ مسلمان اپنا مال اور جان اللہ کی راہ میں لگائے۔ چونکہ اب عرصے سے ایک اچھے مسلمان کی تعریف سے یہ حصہ خارج ہو چکا ہے‘ اس لیے ہم کو اس کو بھی علیحدہ سے اپنے ذہن میں تازہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو ایسا مسلمان‘ مسلم‘ مطیع‘ متقی اور محسن بندہ دیکھنا چاہتا ہے جسے وہ پسند کرتا ہو‘ جس سے وہ محبت کرتا ہو۔ ہماری کوشش ہو کہ ہم ویسا بنیں اور اگر ویسا نہ بن سکیں تو اس کے جتنے قریب پہنچ سکیں اتنا قریب پہنچیں‘ اور ایسا بننے کی کوشش میں لگے رہیں‘ کم از کم اس کوشش سے بے نیاز نہ ہوں۔ لیکن اسی کے اندر یہ بات بھی شامل ہے کہ اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے جدوجہد میں ہم اپنی قوتیں‘ صلاحیتیں‘ محنتیں‘ مال و دولت‘ یہ سب لگانے کے قابل ہوں۔

تربیت کا مقصد

اگر ہم تربیت کے مقصد کو بہت مختصر انداز میں بیان کرنا چاہیں‘ ذہن نشین کرنا چاہیں تو بنیادی طور پر تووہ مقصد اللہ کی جنت کا حصول ہے جس کی طرف اس نے اپنی کتاب ہدایت میں بار بار بلایا اور پکارا ہے اور دعوت دی ہے: وَسَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِـّکُمْ وَجَـنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۳) ’’دوڑ کر چلو اس راہ پر جو تمھارے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے‘‘۔ لہٰذا ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے تربیت کا وہی عمل مفید ہوگا جس میں تربیت کرنے والے کی نگاہوں میں یہ منزل ہمیشہ واضح رہے اور اسی پر نگاہیں جمی رہیں۔ اسی کے لیے بے چینی اور خلش رہے کہ میں وہ کام کروں کہ میرا قول و فعل اور عمل مجھے جنت کے قریب کر دے‘ اور ان کاموں سے دُور رہوں جو جنت سے دُور کریں اور نارِ جہنم سے قریب کر دیں۔ اگر میں بات یہیں ختم کر دوں تو یہ بھی کافی ہے۔ اس لیے کہ تربیت کے لیے بہت طویل تقریروں کی اور لمبے مباحث کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر آدمی ایک ہی بات پا لے تو یہ اس کی تربیت کے لیے کافی ہوسکتی ہے۔

حدیث میں ایک مشہور واقعہ ہے کہ ایک شخص نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپؐ سے عرض کی کہ اُس کو قرآن کی کچھ تعلیم دیں جس کو وہ باقاعدگی سے پڑھا کرے اور اس سے ہدایت حاصل کرتا رہے۔حضورؐ نے حضرت علیؓ کو اس کی تعلیم و تربیت پر مامور فرمایا۔ انھوں نے اس کو سورئہ زلزال کی تعلیم دی۔ جب آخری آیت پر پہنچے: فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ o  وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّـرَہٗ o (الزلزال ۹۹:۷-۸)’’پھر جس نے ذرّہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرّہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا‘‘--- اس نے کہا یہ میرے لیے کافی ہے۔ غور کیجیے کہ اگر اتنی ہی بات کسی آدمی کے ذہن میں رہے کہ اگر وہ ذرہ برابر بھی برائی کرے گا تو وہ سامنے آئے گی اور ذرہ برابر بھی نیکی کرے گا تو وہ بھی سامنے آئے گی‘ تو یہ بھی اس کو صراطِ مستقیم پر قائم رکھنے کے لیے اور صحیح راستے پر چلانے کے لیے کافی ہے۔

ایک روایت کے مطابق جب حضرت علیؓ نے حضورؐ کے سامنے اس بات کو بیان کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ اس کو چھوڑ دو‘ وہ آدمی تو فقیہہ بن گیا۔ اس نے سمجھ لیا ہے کہ دین کا ماحصل کیا ہے۔ دین کا ماحصل تو یہی ہے کہ آدمی ہمیشہ اس اندیشے اور اس خیال سے اپنے اعمال پر نگاہ رکھے کہ اسے ان کا جواب اللہ تعالیٰ کو دینا ہے۔

اگر ہم صرف اتنی بات کو بھی پا لیں کہ اس ساری تربیت کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنی جنت کی منزل سے قریب ہوسکیں‘ اور یہی ایک ترازو اگر ہاتھ میں رہے اور دل میں لٹکی ہوئی ہو اور جو بات بھی منہ سے نکلے اور جو کام بھی کیا جائے ‘ اور جہاں بھی آدمی کا وقت لگے اور مال خرچ ہو‘ وہاں توجہ صرف اسی طرف ہو اور اسی ترازو پر ہم تول کردیکھ لیں کہ آیا یہ مجھے اپنی منزل سے قریب کرنے والی چیز ہے یا دُور کرنے والی‘ تو صرف یہی ایک بات بھی ایک فرد کی تربیت کے لیے کافی ہوسکتی ہے‘ اگر اس کو اختیار کرلیا جائے۔

تربیت کے لیے جس عمل اور محنت کی ضرورت ہے وہ منزل کی مناسبت سے آدمی کو نصیب ہوتی ہے۔ اگر لوگوں کے سامنے وہ منزل ہو کہ جس کی وسعت میں زمین و آسمان سماجائیں تو اسی کی مناسبت سے وہ اپنی تربیت کریں گے‘اور جتنی وسیع جنت ہے اتنی ہی وسعت اور اتنی ہی بلندی پر اڑان اور پرواز کے لیے‘ ان کے پاس میدان ہوگا اور فضا ہوگی۔ اس کے نتیجے میں انسان کے دل‘ نظر‘ سوچ اور اخلاق و اعمال سب میں یہ وسعت پیدا ہوگی۔اصحاب الجنۃ‘ جو جنت میں جانے والے ہیں‘ ان کا جو سانچہ قرآن مجید نے پیش کیا ہے اس کے مطابق وہ اپنے آپ کو بنائے گا۔ درحقیقت اصل چیز تو منزل کا شعور اور اس کا واضح ہونا اور اس کا مطلوب ومقصود بننا ہے‘ اور اس کی خاطر کوشش کرنا اور محنت کرنا ہے اور اسی پر نگاہیں جمائے رکھنا ہے۔

نصب العین کے معنی نگاہ کو کسی چیز پر جما دینے کے ‘ نظر کو ٹھیرا دینے کے ہیں۔ چنانچہ جہاں نگاہ اٹک جائے وہاں دل بھی اٹک جاتا ہے‘ اور جس کے نگاہ اور دل دونوں اسیر ہو جائیں تو پھر پورا عمل اور زندگی اسی کے پیچھے لگ جاتی ہے۔ ایک مسلمان کی نگاہ و دل جہاں ٹھیرنی چاہیے‘ جو اس کا مطمح نظر ہونا چاہیے‘ اور جس کی اسے تلاش اور طلب ہونی چاہیے وہ جنت ہے! لہٰذا نگاہ جس کی تلاش میں رہے وہ جنت ہے اور دل میں جس کی طلب اور آرزو ہو وہ جنت ہے اور جس کے اوپر اپنی کوششوں کو‘ اعمال کو‘ محنتوں کو اور اپنے آپ کو جانچنا چاہیے وہ جنت ہے۔

تربیت کی راہ میں یہ پہلی چیز ہے جو ہمیشہ نگاہوں کے سامنے رہنی چاہیے۔ جنت کے حصول کے لیے بہت سارے اعمال ہیں۔ ان میں جو سب سے بڑا عمل ہے وہ اللہ کی راہ میں جہاد ہے۔ اسی لیے ایمان کی نشانیوں میں ‘ ایمان کی علامتوں میں ‘ اور ایمان میں سچے اور کھرے ہونے کی کسوٹی میں یہ بھی ہے کہ درحقیقت مومن وہی ہیں جو ایمان لائیں اور اللہ کی راہ میں اپنے جان و مال سے جہاد کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کو اونٹ کے کوہان سے تشبیہ دی ہے۔ گویا دین میں جو سب سے اعلیٰ اور اونچا مقام ہے وہ جہاد کو حاصل ہے۔ ہماری یہ تحریک قائم ہی اسی بنیاد پر ہوئی ہے۔ اسی چیزنے ہم سب کو جمع کیا ہے کہ دین کے مطالبات میں اقامت دین کا مطالبہ‘ اور دین کے فرائض میں سے جہاد کا فرض‘ اور دین میں مطلوب اشیا میں سے دین کے غلبے کا کام‘ یہ وہ چیزیں ہیں جو ہمارے ہاں سرفہرست ہیں۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ    اللہ تعالیٰ سے قرب اور اس کی طرف توجہ‘ اس کی طرف رغبت اور اس کی قربت اور اس کے ساتھ مناجات اور اس کی خاطر بھوکا پیاسا رہنا اور اس کی خاطر اپنی محبوب دنیا کو قربان کرنا‘ یہ چیزیں کوئی کم درجے کی ہیں۔ ایسا نہیں ہے بلکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیںاور لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتی ہیں۔

قرآن مجید کی مختلف سورتیں اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں چیزوں کا حکم ساتھ ساتھ دیا ہے۔ اگر ایک طرف یہ فرمایا کہ قُمْ فَاَنْذِرْ o (مدثر ۷۴:۲) ’’اٹھ اور (لوگوں کو) ڈرا‘‘ تودوسری طرف فوراً بعد یہ حکم بھی دیا کہ یٰٓاَیُّھَا الْمُزَّمِّلُ o قُمِ الَّیْلَ اِلاَّ قَلِیْلاً o (مزمل ۷۳: ۱ -۲) ’’اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے‘ رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم‘‘۔ وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَتَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلًا o (’’اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کرو اور سب سے کٹ کر اسی کے ہو رہو‘‘۔(مزمل ۷۳:۸)۔ اگر یہ فرمایا کہ وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ o (والضحیٰ ۹۳:۱۱)‘ کہ اللہ تعالیٰ نے جو ہدایت کی نعمت دی ہے اس کو دوسروں تک پہنچائو‘ بیان کرو تو اسی کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَاِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ o (الم نشرح ۹۴:۷)‘ کہ جب بھی فارغ ہو تو پھر اپنے آپ کو اللہ کے ساتھ جوڑو‘ اسی کی طرف رغبت اختیار کرو۔ اگر یہ حکم دیا کہ اِقْرَاْ بِاسْمِ  رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ o (العلق ۹۶:۱)‘ یعنی اللہ کے نام سے پڑھو اور سنائو جوہدایت کہ تمھارے پاس آئی ہے تو آخر میں یہ بھی فرمایا کہ سجدہ کرو اور اس سے قریب ہوجائو۔ جہاں یہ فرمایا: وَجَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖط ھُوَ اجْتَبٰکُمْ (الحج ۲۲:۷۸)‘ کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے‘ اور اسی کے لیے اس نے تم کو منتخب کیا ہے ‘ وہاں یہ بھی فرمایا کہ وَاعْتَصِمُوْا بِاللّٰہِط ھُوَ مَوْلٰکُمْج فَنِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُo (۲۲:۷۸) ‘اللہ کو مضبوطی کے ساتھ پکڑلو۔ وہی تمھارا مولیٰ ہے بہترین دوست اور بہترین مددگار۔ گویا جہاں بھی اقامت دین کا‘ خدا کی طرف بلانے کا حکم دیاہے وہاں خدا سے تعلق مضبوط کرنے کا حکم بھی دیا ہے‘ اس سے بھی ان دونوں پہلوئوں کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

یہ بات بھی ہمیشہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ جہاد کا کام اللہ کے ساتھ گہرے تعلق اور للہیت کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ لیکن جوچیز مقصود ہے‘ وہ یہی ہے کہ انسان اپنے ارادے سے اللہ کی بندگی اختیار کرے اور اس کی راہ میں اپنی جان و مال‘ سب کچھ لگا دے۔جو کچھ اللہ نے دیا ہے وہ بھی لگا دے اور اگر وقت آئے تو اپنا سر بھی اس کے قدموں میں نثار کر دے۔

منزل کا تعین

تربیت کے مقصد کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے جو سمجھنا ضروری ہے۔ وہ پہلو یہ ہے کہ دنیا میں جو کام ہمیں کرنا ہے‘ اس کام کے جو تقاضے اور مطالبات ہیں‘ ان کی مناسبت سے ہمیں اپنے آپ کو تیار کرنا ہے۔ وہ اس کے بغیر نہیں ہو سکتا کہ ہمیں اس بات کا پورا ادراک‘ شعور اور فہم ہو کہ ہم دنیا میں کیا کرنے آئے ہیں۔

ہم نے پہلے دن سے اس بات کو واضح کیا ہے کہ ہمارے سامنے جو مقصد ہے وہ ایک نئی دنیا کی تعمیر ہے۔ اس کو ہم ’’عالمگیر اسلامی انقلاب‘‘ کے نام سے بھی پکارتے ہیں اور ’’امامت عالم کے منصب کو حاصل کرنے‘‘ کے نام سے بھی پکارتے ہیں۔ اس کے لیے ہم نے ’’انسانی زندگی کی زمامِ کار اپنے ہاتھ میں لینے‘‘ کی تعبیربھی اختیار کی ہے لیکن سب کا مقصد ہے دنیا کی امامت‘ انسانوں کی رہنمائی اور ایک نئی تہذیب و تمدن کی تعمیر۔ یہ دراصل ہمارا مقصد ہے اور ہرشخص کے سامنے یہمقصد واضح ہونا چاہیے۔

یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان باصلاحیت ہو‘ بہت اچھا بولنے والا ہو‘ اچھا لکھنے والا ہو‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو تب ہی وہ دنیا کی قیادت سنبھال سکتا ہے۔ اس امت کے اولین دور میں جن لوگوں نے دنیا کی امامت سنبھالی اور ساری دنیا کو فتح کرلیا وہ مکہ کے چھوٹے چھوٹے تاجر تھے۔ مدینہ کے معمولی کسان اور عرب کے صحرائوں میں بکریاں چَرانے والے بدو تھے۔ ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ میں تو بڑا حقیر ہوں اور میرا کام اتنا ہی ہے کہ اپنے گائوں میں ایک اجتماع کر لیا کروں‘ بس اتنا ہی کام کافی ہے۔ ممکن ہے کرنے کا کام بہت تھوڑا ہو لیکن ذہن میں اس بات کا واضح اور صاف ہونا بہت ضروری ہے کہ اصل مقصد وہ نہیں ہے جو آدمی گائوں میں کر رہا ہے‘ اصل مقصد اجتماع کرنا یا کتاب پڑھا دینا بھی نہیں ہے‘ اور اصل مقصد جلوس نکالنا بھی نہیں ہے بلکہ اصل مقصد تو ساری دنیا کو تبدیل کر دینا ہے۔ چھوٹی چھوٹی کوششیں جو جگہ جگہ ہو رہی ہیں‘ وہ سب مل کر   اس عظیم الشان مقصد کی کامیابی کا ذریعہ ضرور بنیں گی۔ لیکن جب تک ہر کوشش کا رخ وہی نہ ہو اور ہر کوشش سے مطلوب وہی عظیم الشان تغیر وتبدل نہ ہو‘ اس وقت تک انسان وہ نہیں بنے گا جو وہ بننا چاہے۔

عرب کے بدو‘ کسان اور تاجر اس لیے عظیم الشان انسان بن گئے تھے کہ ان کو یہ بات معلوم تھی اور ان کے سامنے یہ منزل واضح اور روشن تھی کہ بالآخر قیصروکسریٰ کے محلات اور ان کی سلطنتیں ان کے ماتحت آنے والی ہیں۔

مکہ میں بھی یہ بات عام تھی کہ اگر تم لوگوں نے لا الٰہ الا اللہ کو اختیار کرلیا تو عرب اور عجم تمھارے زیرنگیں آجائیں گے۔ ہجرت کی طرف سفر کرتے ہوئے جب دو آدمی اس حالت میں نکلے تھے کہ پیچھے دشمن قتل کے درپے تھا اور آگے مدینہ میں کیا صورت حال پیش آنے والی تھی‘ آیا پناہ ملے گی بھی یا نہیں‘ اس کا کچھ اندازہ نہیں تھا۔ اس وقت بھی حضورؐ نے سراقہ بن جعشم کو جب امان کا پروانہ لکھ کر دیا تھا تو یہی پیشنگوئی فرمائی کہ ایک دن آئے گا کہ کسریٰ کے کنگن تمھارے ہاتھ میں ہوں گے۔

غور کیجیے کہ کن حالات میں یہ بات کہی جا رہی ہے۔ اوپر سورج ہے اور نیچے ریگستان‘ کوئی لشکر اور فوج نہیں ہے اور ایران کی حکومت اس وقت کی سپرپاور ہے اور ایسے میں آپؐ پیشنگوئی فرماتے ہیں کہ اے سراقہ ایک دن آئے گا کہ کسریٰ کے کنگن تمھارے ہاتھوں میں ہوں گے۔

غزوئہ خندق کا واقعہ اپنے ذہن میں تازہ کیجیے کہ ہزاروں کا لشکر مدینہ کو تباہ کرنے کے لیے پورے عرب سے اُمڈ آیا ہے۔ پشت پر یہودی چھرا گھونپنے کے لیے تیار تھے۔ کہیں سے بھی کوئی سلامتی کی راہ سجھائی نہیں دیتی تھی۔ لوگوں کے دل سینوں میں اُلٹ رہے تھے‘ حالات دیکھ کر حوصلے پست ہو رہے تھے۔ صرف ایک چھوٹی سی خندق نے مدینہ کو محفوظ کر رکھا تھا۔ ان حالات میں جب وہ خندق کھودی جا رہی تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی خندق کھودنے میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ شریک تھے۔ ایک موقع پر ایک سخت چٹان پر گدال مارتے ہوئے آپؐ نے فرمایا کہ مجھے قیصر کے خزانے دکھائے گئے ہیں۔ پھر دوسرا گدال چٹان پر مارا اور فرمایا کہ مجھے کسریٰ کے خزانے دکھائے گئے ہیں۔ ان حالات میں جب ہر طرف سے دشمن گھیرے میں لیے ہوئے تھا اور ذرا سی چوک سے مدینہ تباہ و برباد ہو سکتا تھا‘ اس وقت بھی آپؐ کی نظر عالمِ انسانیت کی  امامت پر تھی اور جو منصب ابراہیم علیہ السلام کے سپرد کیا گیا تھا‘ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًاط (البقرہ ۲:۱۲۴) ’’میں تم کو سارے انسانوں کا امام بنانے والا ہوں‘‘، وہی منصب سامنے تھا۔

یہ بات میں نے اتنی تفصیل سے اس لیے بیان کی ہے کہ تربیت میں جہاں ایک طرف نظر اس جنت پر ہونی چاہیے جس کی وسعت میں زمین و آسمان سما جائیں اور اسی کی طرح اپنے آپ کو بنانا چاہیے‘ وہاں دوسری طرف دنیا کی منزل بھی سامنے رہنی چاہیے ۔ سوچ میں‘ اعمال میں‘ برتائو میں‘ اخلاق میں وہی رویہ کارفرما ہونا چاہیے جو اہل جنت کی سوچ‘ اہل جنت کے اخلاق اور اہل جنت کے اعمال میں مطلوب ہے۔ نظر اور قلب میں وہی وسعت ہونی چاہیے جیسی کہ جنت کی وسعت ہے‘ اور فیصلوں میں وہی شادابی اور تازگی ہونی چاہیے جو جنت کی شادابی اور تازگی ہے‘ اور وہی سدابہار حوصلے اور محنتیں درکار ہیں کہ جس طرح سدابہار جنت کے پھل ہیں‘ اور اسی طرح کے ایمان اور اخلاق کی بہتی ہوئی نہریں ہونی چاہییں جو کہ جنت میں بہہ رہی ہوں گی۔ دنیا میں جب یہ سب کچھ ہوگا تب جاکر ہی جنت نصیب ہوگی اور دنیا کی امامت کی منزل سر ہوگی۔

دنیا کے اندر جو منزل ہے وہ کسی ضلع‘ گائوں اور دیہات تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ منزل تو اس ملک کو اور سارے عالم کو اس کے پیدا کرنے والے کے لیے مسخر کرنا ہے۔ کوئی آدمی جس کی صلاحیت کتنی ہی کم کیوں نہ ہو‘ وہ گونگا ہو یا بہرہ‘ دیہاتی ہو یا اَن پڑھ‘ ہر ایک کو یہ سمجھنا چاہیے کہ میں اس قافلے میں شریک ہوں جو بالآخر اس سارے عالم پر غالب آنے والا ہے۔ اس سے ایک فرد کی سوچ اور صلاحیتیں پروان چڑھیں گی۔ اگر یہ مقصد واضح اور صاف ہو اور نگاہوں کے سامنے موجود ہو تو پھر اسی لحاظ سے آدمی کے اندر حوصلہ اور ہمت پیدا ہوگی اور تربیت اور عمل کے لیے جو محنت اور کوشش درکار ہے وہ کرنے کے قابل ہوسکے گا۔

تربیت کی بنیاد

تربیت کا انحصار نہ افراد کے جمع ہونے پر ہے‘ نہ تقریروں پر اور نہ دروس قرآن پر ہی ہے بلکہ تربیت کا انحصار ایک فرد کی اپنی ذات پر ہے۔ تربیت کی کنجی تقریروں میں یا دوسروں میں تلاش نہ کیجیے بلکہ وہ کنجی آپ کے دل میں ہے‘ آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ اگر صرف گفتگوئوں اور تقریروں سے تربیت ہوجایا کرتی تو انبیا علیہ السلام کی اتنی موثر وعظ و نصیحتیں اور تقاریر رائیگاں  نہ جاتیں۔ جولوگ نہ ماننا چاہتے تھے ان کو ایمان کی دولت بھی نصیب نہ ہوئی‘ اور جو لوگ کوئی کام نہ کرنا چاہتے تھے ان سے کوئی نیک عمل صادر نہیں ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جس حکمت کے تحت پیدا کر کے دنیا میں بھیجا ہے اس کی بنیاد ہی یہ ہے کہ وہ ہم میں سے ہر شخص کو الگ الگ آزمانا چاہتا ہے۔   الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط (الملک ۶۷:۲)‘ یعنی موت اور زندگی کی یہ ساری بساط بچھائی ہی اس لیے گئی ہے کہ وہ ہمیں آزما کر دیکھ سکے کہ   ہم میں سے کون حسنِ عمل‘ نیک عمل کرتا ہے۔نیکی ہی حسین ہوتی ہے۔ جس کے اعمال نیک ہوتے ہیں اسی کے اعمال حسین بھی ہوتے ہیں۔ یہی اس دنیا میں پیدایش کا مقصد ہے اور اس کے لیے اپنا ارادہ‘ اپنا عزم اور اپنی کوشش ہی وہ معیار اور ذریعہ ہے جس سے کسی کی تربیت ممکن ہے۔

اگر ہم یہ چاہیں کہ کسی کے پاس جادو کی چھڑی ہو اور وہ ہلائے تو اس کے نتیجے میں تربیت ہو جائے اور ہم نیک بن جائیں‘ تو یہ جادو کی چھڑی اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیا کو بھی نہیں  عطا کی تھی۔ انبیا کو بھی محنت کرنا پڑتی تھی اور انبیا کی بات بھی وہی سنتے تھے کہ جو سننا چاہتے تھے۔ اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی (النمل ۲۷:۸۰) ’’تم مُردوں کو نہیں سنا سکتے‘‘۔ اَفَاَنْتَ تَھْدِی الْعُمْیَ وَلَو کَانُوْا لَا یُبْصِرُوْنَo (یونس ۱۰:۴۳) ’’مگر کیا تو اندھوں کو راہ بتائے گا خواہ انھیں کچھ نہ سوجھتا ہو؟‘‘

سیدنا مسیح علیہ السلام کے معجزات تو ایسے تھے کہ مفلوج چلنے لگتے تھے اور اندھے دیکھنے لگتے تھے اور کوڑھی اچھے ہوجایا کرتے تھے اور مٹی کے پرندے اڑنے لگتے تھے اور مردے زندہ ہوجایا کرتے تھے لیکن بنی اسرائیل کے وہ عوام‘ علما اور فقہا جو بیت المقدس میں آپ کی باتیں سن رہے تھے ان کے اندھے پن کا‘ ان کی بے عملی کا اور ان کی مفلوجیت کا کوئی علاج نہ ہو سکا تھا۔ اس لیے کہ انھوں نے خود اپنا علاج نہیں کرنا چاہا۔ اللہ تعالیٰ اسی کو ہدایت دیتا ہے جو ہدایت چاہتا ہے۔ اسی کی بہتری چاہتا ہے جو اپنی بہتری چاہتا ہے اور بہتری کے لیے کوشش کرتا ہے۔

جب تک اس نکتے کو نہیں سمجھا جائے گا کہ تربیت کا انحصار تقریروں‘ درس قرآن یا گفتگو پر نہیں ہے بلکہ تربیت کا انحصار ایک فرد کی اپنی ذات‘ مرضی اور ارادے پر ہے‘ تربیت نہیں ہوسکتی۔ تربیت کے عمل میں ایک شخص کی ذات کی حیثیت وہی ہے جو ایک کسان کے لیے کھیت کی ہوتی ہے‘ ایک دکاندار کے لیے اس کی دوکان کی ہوتی ہے اور ایک تاجر کے لیے اس کے کاروبار کی ہوتی ہے۔ ایک کسان خوب جانتا ہے کہ گھربیٹھ کر دعا کرنے سے یا کسی اور کے دعا دینے سے یا آسمان سے بارش کے برسنے سے فصل نہیں اگے گی۔ وہ ہل لے کر نکلے گا‘ ہل چلائے گا‘ بیج بوئے گا‘ اس کی نگہداشت کرے گا‘ تب جاکر پانی بھی فائدہ دے گا‘ سورج بھی گرمی پہنچائے گا‘ بیج بھی نشوونما پائے گا‘ درخت بھی نکلے گا اور پھل بھی آئیں گے۔ اس محنت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوگا۔ اس کو اپنے کھیت کی ذمہ داری خود سنبھالنا پڑے گی۔ تب کہیں جاکر کھیت اس کو فصل دے گا۔   دکان دار بھی جانتا ہے کہ وہ اگر دکان پر تالا ڈال کر گھر بیٹھا رہے تو کسی چھو منتر سے دکان کھل کر اس کو نفع نہیں دے گی۔ کسی کے پاس کوئی ایسا نسخہ نہیں ہے۔ اس کو دکان کھولنا ہی پڑے گی‘ صبح سے شام تک مال بیچنا پڑے گا‘ خون پسینہ ایک کرنا پڑے گا‘ تب کہیں جاکے چار پیسے کھرے ہوں گے۔

اسی طرح یہ دکان جو اللہ تعالیٰ نے آپ کی شخصیت میں لگا دی ہے اور یہ کھیتی جو اس نے آپ کو اپنی روح اور اخلاق کی دی ہے ‘اس کو سینچنے کی ذمہ داری آپ کو خود اٹھانا پڑے گی۔ جب آپ یہ عزم کریں گے کہ اللہ نے مجھ کو وہ کچھ بخشا ہے کہ جس کی اگر میں تربیت کروں تو وہ اس لائق ہو سکتا ہے کہ ملائکہ سے بھی اوپر جاکر اللہ کا قرب حاصل کیا جا سکتا ہے۔ منزل موجود ہے‘ وہاں پہنچنا بھی مشکل نہیں ہے لیکن پرواز خود کرنا پڑے گی۔ اگر میرے اندر حوصلہ اور ہمت نہیں ہے تو میں منزل پر نہیں پہنچ سکتا۔ وہ جنت بھی میرے نصیب میں آسکتی ہے جس کی وسعت میں زمین و آسمان سما جائے‘ اور امامت عالم کا وہ منصب کہ جہاں دنیا کی ساری طاقتیں اسلام کے مقابلے میں سرنگوں ہوجائیں وہ بھی میرے مقدر میں اللہ تعالیٰ نے لکھا ہوا ہے۔ لیکن ان میں سے کوئی چیز بھی بغیر محنت اور کوشش کے مجھے نہیں مل سکتی۔

ایک طرف اگر آپ کے سامنے منزل ہو اور دوسری طرف آپ کو اس امکان پر یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدے فرمائے ہیں وہ پورے ہوں گے اور تیسری طرف اگر آپ اس بات کو سمجھ لیں کہ نہ تقریروں سے تربیت ہوتی ہے نہ دروس قرآن سے اور نہ تربیت گاہ سے ہی تربیت ہوتی ہے بلکہ تربیت صرف اپنے عمل اور کوشش سے ہوتی ہے‘ تو آپ تربیت کی کنجی کو پالیں گے۔ اس کے بعد تقاریر‘ درس قرآن‘ تربیت گاہیں اور ماحول اس کھاد‘ پانی اورروشنی کی طرح کام کرتے ہیں جس سے بیج کو پروان چڑھایا جاسکتا اور تربیت کے عمل کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ اگر آپ کوشش ہی نہ کریں‘ بیج ہی نہ ڈالیں‘ اس کی نگہداشت نہ کریں تو پھر پانی‘ کھاد‘ زمین کتنی ہی زرخیز کیوں نہ ہو‘ سونا اگلنے والی ہی ہو‘ وہ آپ کو کچھ نہیں دے گی۔

ہر شخص کے اندر اللہ تعالیٰ نے سونا اُگلنے والی مٹی رکھی ہوئی ہے جیسا کہ میں نے مثال دی کہ عرب کے بدو معمولی انسان تھے لیکن دنیا کے قائد بن گئے۔ جواَن پڑھ تھے‘ اُمّی تھے‘ ان میں ایسے لوگ پیدا ہوئے جو بہترین جرنیل‘ حکمران‘ علما اور جج اور فقہا ثابت ہوئے۔ مدینہ کی    درس گاہ سے وہ لوگ بن کر نکلے کہ جنھوں نے سارے عالم پر حکومت کی اور ہزاروں برس تک دنیا کی رہنمائی کی۔ ان میں قیادت کی صلاحیت موجود تھی لیکن وہ اپنی صلاحیتوں سے بے خبر تھے۔ جس طرح ایٹم کا چھوٹا سا ذرّہ نہیں جانتا کہ اس کے اندر کتنی بڑی قوت پوشیدہ ہے۔ جب ایٹم کا وہ معمولی ذرّہ خود سے آگاہ ہو جاتا ہے یا کوئی دوسرا اس کو آگاہ کر دیتا ہے تو وہی اتنی بڑی قوت پیدا کر دیتا ہے کہ ایٹم بم بن کے لاکھوں انسانوں کو ایک سیکنڈ میں تباہ کر سکتا ہے اور لاکھوں کلوواٹ کی قوت پیدا کرسکتا ہے۔

اسی طرح ہر انسان کے اندر وہ امکانات موجود ہیں کہ وہ بہت اونچا اڑ سکتا ہے‘ بہت اونچی پرواز کر سکتا ہے اور وہ ساری منازل طے کرسکتا ہے جو منازل اللہ نے انسان کے لیے کھول دی ہیں‘ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ لیکن یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ جو کچھ ہوگا وہ میرے کرنے سے ہی ہوگا۔

اگر ایک شخص محض خواہش ہی کرتا رہے‘ تمنا ہی کرتا رہے‘ دعا کرتا رہے اور دوسروں سے دعائوں کی درخواست کرتا رہے اور یہ سوچے کہ تمنائوں اور آرزوئوں سے کام چل جائے گا تو یہ خام خیالی ہے۔ اس سے کام نہیں ہوگا۔ اصل چیز عمل ہے۔ عمل کم ہو یا زیادہ‘ عمل سے ہی زندگی بنتی ہے‘ جنت بھی جہنم بھی۔ جب آپ کچھ کرنے پر لگ جائیں گے خواہ تھوڑا کریں‘ تو تھوڑا تھوڑا کر کے بہت ہو جاتا ہے۔ قطرہ قطرہ کرکے دریا بن جاتا ہے‘ ذرہ ذرہ مل کر ریگستان بن جاتا ہے۔ ایک ایک کرکے آپ نیک اعمال اختیار کرلیں گے اور ایک ایک کرکے اپنے آپ کو برائیوں سے پاک کرلیں گے۔ البتہ یہ سب کچھ خود کرنے سے ہوگا۔ اگر خود کام نہیں کریں گے تو کچھ بھی نہیں ہوگا۔یہ تربیت کا بڑا اہم پہلو ہے جو ہمیشہ سامنے رہنا چاہیے۔

ترجیحات کا مسئلہ

تربیت کے عمل میں ایک اہم پہلو ترجیح‘ ایثار اور قربانی کا ہے۔ یہ دین کی راہ میں اور تربیت میں بڑا بنیادی عمل ہے۔ انسان کی پوری زندگی اسی چیز میں بسرہوتی ہے کہ مختلف چیزیں انسان کی توجہ‘ اس کے مال‘ اس کے عمل اور اس کی محنت کی طلب گار ہوتی ہیں۔ اب اسے یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کسے ترجیح دے اور کسے رد کرے۔ نیکی اور بدی ایک ساتھ آجائیں تو کسے اختیار کرے؟ دو چیزیں وقت مانگتی ہیں‘ کس کو وقت دیا جائے؟ بعض دفعہ بہت چھوٹی چھوٹی چیزیں ہوتی ہیں جہاں یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ سردیوں کی صبح ہے‘ گرم گرم بستر ہے‘ موذن کی آواز بلند ہوجاتی ہے‘ اب یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ گرم بستر چھوڑ دوں اور رب کی پکار پر لبیک کہوں یا سوتا پڑا رہ جائوں۔ گھر میں کسی کام میں مشغولیت ہے‘ اذان کی آواز آجاتی ہے‘ یہاں بھی ترجیح کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ نماز کے ذریعے پانچ وقت اسی چیز کی تربیت ہوتی ہے۔

اس طرح ترجیح‘ ایثار اور قربانی کا یہ عمل ساری عمرجاری رہتا ہے۔ اسی ترجیح کی بنا پر انسان کو اپنے بہت سے سارے رشتہ دار‘ اپنے تعلقات اور بعض دفعہ اپنا ذاتی مفاد تک قربان کرنا پڑتا ہے۔ البتہ ترجیحات کے اس عمل میں ہمیشہ ترجیح اس کام کو دی جانی چاہیے جس میں اللہ کی رضا ہو اور جس سے دنیا میں اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کے انعامات حصے میں آتے ہوں۔ اسی کو ترجیح دینا چاہیے اور اسی کے پیچھے اپنے آپ کو لگانا چاہیے۔

اپنی منزل کی طرف جستجو‘ مختلف امور پر مختلف امورکو ترجیح دینا‘ اسلام میں بہت ساری عبادات میں اس کی تربیت دی گئی ہے۔ پانچ وقت نماز میں اسی بات کی تربیت دی جاتی ہے کہ سارا کام چھوڑ کر نکل جائو‘ اللہ کے گھر تک جائو‘ نماز ادا کرو اور واپس آجائو۔ یہ اپنی ذات پر اور اپنے مفاد پر خدا کے حکم کو ترجیح دینا ہے اور اس کی تربیت ہے۔نماز تو گھر میں بھی پڑھی جاسکتی ہے اور شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ گھر میں‘ تنہائی میں‘ یا کسی گوشے میں کھڑے ہوکر نماز ادا کی جائے تو مسجد کے مقابلے میں شاید زیادہ خشوع و خضوع ہوتا اور زیادہ توجہ ہوتی۔ گھر میں پڑھی جانے والی نماز کے مقابلے میں مسجد میں نماز کی ادایگی ۲۷ درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ مسجد میں شاید خشوع و خضوع میں کمی آجاتی ہو لیکن یہ تربیت کہ آدمی اللہ کی پکار پر لبیک کہے اور سب کچھ چھوڑ کے نکل کھڑا ہو‘ سارے کاروبار ترک کر دے اور اللہ کی پکار پر حاضر ہو جائے‘ نماز باجماعت اور مسجد میں آئے بغیر ممکن نہیں۔ سورۂ جمعہ میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے:  یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ (الجمعہ ۶۲:۹) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو‘‘۔

اللہ کو یاد کرنا‘ تنہائی میں خشوع وخضوع کے ساتھ نماز ادا کرنا اپنی جگہ فضیلت رکھتا ہے اس کے لیے اور مقامات ہیں۔ لیکن اللہ کی پکار پر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اللہ کی یاد کی طرف دوڑ پڑنا اور سارا کاروبار زندگی ترک کر دینا‘ یہ اصل چیز ہے جو مطلوب ہے اور نماز کے ذریعے اس کی بار بار یاد دہانی اور تربیت کی جاتی ہے۔ جب آپ گوشے میں کھڑے ہیں تو کوئی چیز قربان نہیں کر رہے ہیں لیکن جب آپ گھربار چھوڑ کر نکلتے ہیں تو آپ قربانی دیتے ہیں اور اصل چیز تو یہ ترجیح‘ ایثار اور قربانی ہی ہے جس سے شخصیت بنتی ہے۔

صبح سے شام تک بارہا اس سوال کا سامنا ہوتا ہے کہ کیا کیا جائے اور کیا نہ کیا جائے‘ کسے ترجیح دی جائے اور کسے نہ دی جائے‘ یہ کیا جائے اور وہ نہ کیا جائے۔ اسی طرح یہ پہلو کہ غصہ آ رہا ہے یہ بات منہ سے نکالنی چاہیے یا نہیں‘ یہ وعدہ کیا ہے اس کو پورا کرنے میں میرا یہ نقصان ہوتا ہے وعدہ پورا کروں یا نہ کروں‘ سچ بولوں تو یہ نقصان ہوگا اور جھوٹ بولوں تو یہ فائدہ‘ آیا سچ بولوں یا جھوٹ‘ اگر ملکی انتخابات ہیں ترجیحات کا مسئلہ پیش آتا ہے کہ کس کا ساتھ دیا جائے۔ گویا    قدم قدم پر یہ مسئلہ پیش آتا ہے۔ عملاً تربیت یہیں سے شروع ہوتی ہے کہ آپ بہت ساری چیزوں کو ترک کرتے ہیں اور یہ تربیت مسلسل ہوتی ہے۔

حج کی تربیت بھی یہی ہے کہ سب کچھ چھوڑ کر آدمی جاتا ہے اور ایک پتھر کے گھر کے گرد چکر کاٹتا ہے اور ایک میدان میں جاکر کھڑا ہو جاتا ہے اور واپس آجاتا ہے۔ حج کا خلاصہ جو میں نے بیان کیا ہے‘ اس سے مختلف نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ حج کے اندر کوئی چیز کرنا یا پڑھنا ضروری ‘ لازمی یا ناگزیر نہیں ہے کہ جس کے بغیر حج نہ ہوسکے۔یہ سب کس لیے ہے‘ اسی لیے کہ اللہ کی راہ میں نکلو اور اس کی پکار پر لبیک کہو اور اس کی خاطر سب کچھ چھوڑ دو‘ گھر بھی چھوڑ دو‘ رشتہ داروں کو بھی چھوڑ دو‘ لباس بھی بدل لو‘ سفر کرو‘ اس کے گھر تک آئو۔ اللہ ہی کو اپنا محبوب سمجھو‘ اسی کے لیے اس کے گھر کے گرد چکر لگائو‘ اسی کے دربار میں حاضری دو اور اسی کے سامنے کھڑے ہوجائو۔ یہی دراصل اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق‘ دین کی خاطرجدوجہد اور اس کے لیے قربانی کی تربیت ہے۔

باہمی تعلق اور ماحول سے تربیت

انسان تنہا نہیں ہے بلکہ انسان کی زندگی تو بنتی ہی دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلق کے نتیجے میں ہے۔ بیوی بچے‘ ماں باپ‘بھائی بہن‘ دوست احباب اور رشتہ داروں کے ساتھ مختلف تعلق ہیں جن پر انسانی زندگی محیط ہے۔ دراصل انسان کا امتحان ہی یہی ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلق میں عدل اور احسان کے اوپر قائم رہے۔ دوسروں کے حقوق پورے پورے ادا کرے۔ اگر کسی کے ساتھ بات کرے تو بہترین بات کرے‘ یا بھلی بات کرے ورنہ خاموش رہے۔ اگر کسی کے ساتھ معاملہ کرے تو انصاف کا معاملہ کرے‘ احسان کا معاملہ کرے۔ اپنی ذات سے کسی انسان کو ایذا نہ پہنچائے۔ راستے میں اگر کوئی ایذا پہنچانے والی چیز ہو تو اس کو بھی ہٹا دے۔ اس پر بھی جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ اگر کسی کتے کو پیاسا دیکھیں اور اس کو پانی پلا دیں تو اس پر بھی جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ اس کے مقابلے میں بلی کو آدمی بھوکا مار دے تو اس پر جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔

باہم مل جل کر رہنے میں‘ تعلق‘ رشتہ داری اور حقوق کی ادایگی میں ناگواریاں ہو سکتی ہیں اور تلخیاں بھی۔ مگر یہ سب صبر کرنے‘ محبت کرنے‘ ایک دوسرے سے قریب آنے کی تربیت کا ایک ذریعہ اور موقع ہے جو درس و تقریر سے الگ ہٹ کے میسرآسکتی ہے۔

اسی طرح اپنے ماحول سے آدمی سیکھتا ہے۔ باہم ملنے جلنے سے‘ چلنے پھرنے سے بہت سی باتیں ایسی سامنے آتی ہیں جو آدمی کو ناپسند ہوں اور بہت سی ایسی باتیں سامنے آتی ہیں جو پسندیدہ ہوں۔ اس میں بھی انسان کا امتحان ہوتا ہے اور اس میں دین نے جو اصول سکھائے ہیں‘ باہمی اصلاح کے طریقے بتائے ہیں ان کی آزمایش ہوتی ہے کہ اگر آدمی کسی برائی کو دیکھے تو  کس طرح اس کی اصلاح کرے اور اگر اچھائی دیکھے تو کس طرح اس کی تحسین کرے۔

کوئی انسان مثالی انسان نہیں ہو سکتا سوائے اللہ کے رسولوں کے۔ کوئی بستی مثالی بستی نہیں ہو سکتی سوائے جنت کی بستی کے۔ اس لیے آپ جہاں جہاں بھی انسانوں کے اندر چلیں گے‘ پھریں گے آپ کو اچھائیاں بھی دکھائی دیں گی اور خرابیاں بھی ملیں گی۔ یہ آپ کا فرض ہے کہ ان سب کے ساتھ جینا اور ان سب کے ساتھ رہنا سیکھیں۔ ان کی اصلاح کی کوشش کرنا آپ پر فرض ہے۔ یہ بھی تربیت کا ایک اہم ذریعہ ہے۔

تربیتی ذرائع کی اہمیت

جہاں تک تعلق تقاریر‘ درس قرآن اور لٹریچر وغیرہ کا ہے تو وہ خود تو کسی انسان کی تربیت نہیں کرتے بلکہ یہ ایک ذریعہ ہیں۔ ان کی مثال بارش کی سی ہے۔ جب بارش برستی ہے تو کھیت بھی اس سے سیراب ہوتے ہیں اور کنوئوں کے اندر بھی پانی ذخیرہ ہوتا ہے اور تالابوں کے اندر بھی اور بہت سی جگہوں پر پانی کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن سیراب وہی ہوگا جو اس کو اپنے اندر جذب کرے‘ محفوظ کرے۔ درس قرآن اور تقاریر سے بھی تب ہی فائدہ اٹھایاجا سکتاہے کہ اگر ان کو اپنے ذہن‘ دماغ اور سینوں میں محفوظ کیا جا سکے۔ جو باتیں قابلِ عمل ہوں ان سے فائدہ تب حاصل کیا جاسکتا ہے‘ جب ان پر نگاہ رہے۔  تقریر فی نفسہ آپ کو فائدہ نہیں پہنچائے گی۔ اگر آپ خود فائدہ حاصل کرنا چاہیں گے تو پھر وہ سارے فوائد آپ کے استفادے کے لیے موجود ہوں گے جو تقریر کے اندر پائے جاتے ہیں۔

یہ تربیت سے متعلق کچھ بنیادی باتیں ہیں۔ اگر آپ انھیں ملحوظ رکھیں‘ اپنے ذہن میں تازہ رکھیں اور عمل کی کوشش کریں تو مجھے امید ہے کہ یہ باتیں ان شاء اللہ آپ کے لیے برکت کا‘ بہتری کا اور نشوونما اور ارتقا کا ذریعہ بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

(کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)

قوموں اور گروہوں کا گرنا اور اٹھنا‘تاریخ کی ایک ایسی حقیقت ہے جس پر انسان ہمیشہ سوچتا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟

کچھ قومیں دنیا میں ترقی کرتی ہیں‘ غلبہ اور کامرانی اُن کے حصے میں آتا ہے‘ وہ دنیا پر چھا جاتی ہیں۔ تہذیب‘ تمدن‘ علم‘ ہر لحاظ سے انھی کا سکہ چلتا ہے‘ لیکن پھر مختلف انداز سے زوال کا شکار ہو جاتی ہیں۔ کچھ محض ماضی کی داستان بن کر رہ جاتی ہیں اور صرف تاریخ کے اوراق میں اُن کا ذکر پڑھا جا سکتا ہے۔ کچھ ایک لمبے عرصے کے لیے پستی اور گم نامی کے پردے میں چلی جاتی ہیں۔ کچھ ایسی ہوتی ہیں جو کبھی بھی‘ اس سے نہیں نکلتیں اور کچھ ایسی ہوتی ہیںجو طویل عرصے کے بعد پھر اُبھر کر سامنے آجاتی ہیں۔

یہ سوال ہر سوچنے والے انسان کو ہمیشہ ہی پریشان کرتے رہے ہیں۔ ان کا جواب بھی لوگ دیتے رہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب اور اپنے نبیؐ کی معرفت دنیا کو ہدایت دی ہے اورجو آخری ہدایت ہمارے پاس موجود ہے اس میں بھی قوموں کے عروج و زوال سے کافی تفصیل کے ساتھ بحث کی گئی ہے۔ قوموں کا ذکر ہے‘ اُن کے کردار اور اُن کے افعال کا بیان ہے‘اُن پر عذاب آنے یا نجات پانے کا ذکر کیا گیاہے۔ یہ اس لیے ہے کہ انسان دنیا کے اندر ہمیشہ کسی گروہ‘ یا کسی قوم‘ یا کسی اجتماعیت کا حصہ بن کر رہتا ہے۔ لہٰذا اگر اُس کو راہِ راست پہ قائم رہنا ہے تو وہ اجتماعیت اور قوم سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ وہ پیدا ہوتا ہے تو اس صورت میں کہ دو انسان مل کر ایک خاندان کی اجتماعیت کو وجود میں لاتے ہیں۔ آنکھ کھولتا ہے توخاندان‘ محلہ‘ اسکول‘ ہر جگہ‘ اُس کی زندگی کا ہر گوشہ دوسرے انسانوںکے ساتھ تعلقات کے اندر بندھا ہوتا ہے۔ بہت ہی تھوڑی زندگی ہے جس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسان دوسرے انسانوں سے بالکل آزاد اور بے نیاز ہو کر گزارتاہے۔ لیکن یہ بھی باہر سے متاثر ہوتی ہے۔ دل میں خیالات اُٹھتے ہیں‘ غصہ آتا ہے‘ محبت ہوتی ہے‘ جذبات پیدا ہوتے ہیں‘ یہ سب باہر سے متاثر ہوتے ہیں۔ اسی لیے وہ لوگ جو کسی ایک خاص پہلو سے انسان کا مطالعہ کرتے ہیں جب وہ اجتماعیت کے نقطۂ نظر سے انسان کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ دراصل انسان اپنی قوم یا اپنے معاشرے یا اپنی اجتماعی زندگی کی پیداوار ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انسان تو ایک social animal ‘ یعنی معاشرتی حیوان ہے۔ حالانکہ معاشرے اور اجتماعیت کے لحاظ سے بہت سے جانور بھی بڑی زبردست اجتماعیت اور قومیت اپنے اندر رکھتے ہیں۔ اس کی ایک مثال شہد کی مکھیوں کی ہے۔ اگر آپ نے سنا یا پڑھا ہو تو آپ واقف ہوں گے کہ ان کے اندر کتنی زبردست اجتماعیت پائی جاتی ہے۔

قرآن مجید نے اپنے انبیا‘ اپنی دعوت‘ ایمان اور عملِ صالح کی مناسبت سے کامیابی کے جو مژدے سنائے ہیں اُن کی بنیاد پر‘ آج دنیا کے اندر اُس کی نافرمان قوموں کو غالب دیکھ کر ذہن میں سوال پیدا ہوتے ہیں۔ اس لیے اس موضوع کا بڑا گہرا تعلق ہدایت اور قرآن مجید کو سمجھنے سے ہے۔ اگر اصلاح و تغیر اور انقلاب کا کام کرنا ہے تو اُس کے لیے بھی اُن قوانین کو سمجھنا ضروری ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت اس سلسلے میں ہم کو دیے ہیں۔

انسان کی یہ عادت ہے اور صحیح ہے کہ جن چیزوں کو وہ نہیں جانتا اور سمجھنا چاہتا ہے‘ اُن کو وہ اُن کی معرفت جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرتا ہے جواُس کی فہم اور سمجھ کے دائرے کے اندر آتے ہیں۔ وہ یہ تو نہیں جانتاکہ قومیں کیوں پیدا ہوتی ہیں؟کیوںترقی کی منزلیں طے کرتی ہیں؟ اور کیوں زوال کے گڑھے میں جاگرتی ہیں؟ لیکن بہت سارے ایسے واقعات اور مظاہر موجود ہیں جو اسی عمل سے گزرتے ہیں اور انھیں وہ جانتا ہے۔ وہ درخت کا بیج بوتا ہے‘ اُس سے تنا نکلتا ہے‘ درخت جوان ہوتا ہے‘ اُس کے بعد خزاں کا شکار ہوتا ہے اور مٹی میں مل جاتا ہے۔ یہ بھی ایک عروج و زوال کی داستان ہے جو اُس کی نگاہوں کے سامنے برابر پیش آتی ہے۔ وہ روز یہ دیکھتا ہے کہ سورج آہستہ آہستہ نکلتا ہے‘ پھر اُس کی روشنی بڑھنا شروع ہوتی ہے‘ پھر وہ نصف النہار پر پہنچتا ہے‘ اور اُس کے بعد زوال کی طرف جانا شروع کرتا ہے اور آخرکار ڈوب جاتا ہے۔ عروج و زوال کا ایک اور مظاہرہ بھی اُس کے سامنے ہوتا ہے۔ وہ انسان کو دیکھتا ہے کہ وہ پیدا ہوتا ہے‘ بچہ ہوتا ہے‘ اس کے بعد جوانی کی قوتیں آتی ہیں‘ شباب کے عالم میں وہ زندگی گزارتا ہے‘ پھر اُس کے قویٰ مضمحل ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ سوچنے سمجھنے کی قوتیں جواب دینا شروع کر دیتی ہیں‘ جسم بھی جواب دینے لگتا ہے‘ بالآخر وہ بوڑھا ہوکر قبرکے گڑھے میں پہنچ جاتا ہے۔ عروج و زوال کے یہ منظر انسان کی نگاہوں کے سامنے رہتے ہیں۔ اِن کو وہ سمجھ سکتاہے اور دیکھ سکتا ہے۔ جب وہ بغیر کسی ہدایت کے غور کرتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ انھی میں سے کس طریقے یا ماڈل کے مطابق قومیں بھی اُٹھتی اور نیچے گرتی ہیں۔ یا پھر یہ رات اور دن کے چکر کی طرح ایک ناقابلِ مفر چکر ہے۔ اس سے کوئی بھاگ نہیں سکتا۔ دن کا کوئی لمحہ اُس انجام سے بھاگ نہیں سکتا جو اس کے لیے مقرر ہے۔ اگر ۱۲ بجے کے لیے عروج لکھا ہوا ہے تو ہمیشہ ۱۲ بجے عروج ہوگا اور چھ بجے شام کے لیے اگر زوال لکھا ہوا ہے تو اس وقت ہمیشہ زوال ہوگا۔

درخت اور انسان طبیعی وجود تو نہیں رکھتے لیکن ایک حیاتیاتی وجود ضرور رکھتے ہیں۔ یہ اِن ساری منازل سے گزرتے ہیں اور اس سے ان کو کوئی مفر نہیں ہے۔ جوان دوبارہ بچہ نہیں ہو سکتا‘ بوڑھا دوبارہ جوان نہیں بن سکتا۔ موت سے دوبارہ زندگی کی طرف واپسی نہیں ہوسکتی۔ یہ ایک ناگزیر عمل ہے۔

مفکرین نے عروج و زوال کے بارے میں جو بھی قوانین بنائے‘ تجویز کیے‘ سوچے‘ وضع کیے‘ وہ انھی چیزوں کے گرد گھومتے ہیں۔ ایک نظریہ cyclical ہے‘ یعنی ایک چکر ہے جس سے ہر قوم کو گزرنا ہے‘ اس سے کوئی مفرنہیں۔ ایک حیاتیاتی نظریہ ہے۔ دیگر نظریات بھی ہیں لیکن ہم ان کے اندر بڑے بڑے نظریات کو سمیٹ سکتے ہیں۔ یہ تمہید میں نے اس لیے باندھی ہے کہ قرآنِ مجید نے اس ضمن میں جو بالکل منفرد رہنمائی دی ہے‘ اُس کو بخوبی سمجھا جا سکے اور اُس کی جو گراں قدر قیمت ہے اُس کو بھی محسوس کیا جا سکے۔

افراد اور اقوام کی حیثیت

قرآنِمجید جو پہلی بات بہت ہی وضاحت کے ساتھ بیان کرتا ہے وہ یہ ہے کہ فرد کی زندگی ایک حیاتیاتی چکر کے ساتھ بندھی ہوئی ہے: پیدایش‘ بچپن‘ جوانی‘ بڑھاپا اور موت۔ ہرآدمی کو اِس پورے چکر سے یا اس کے بعض مراحل سے گزرنا پڑے گا۔ بچپن کے بعدبھی مر سکتا ہے اور بوڑھا ہو کر بھی مر سکتا ہے۔ میں آیات کے حوالے نہیں دوں گا مگر قرآنِ مجید میں آپ کو‘ اس مضمون کی بہت ساری آیات مل جائیں گی۔ اُس نے کہا ہے کہ انسان کا جو آخری مقدر ہے وہ ہلاکت‘ یعنی موت سے دوچار ہونا ہے۔ کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِط (اٰل عمران ۳:۱۸۵) ’’ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے‘‘۔

اس عمل کا کوئی تعلق‘ اُس فرد کے اعمال سے‘ یا اُس کے اخلاق سے‘ یا اُس کے ایمان سے نہیں ہے‘ اور نہ اُس کی معنوی‘ اخلاقی‘ روحانی‘ علمی اور ایمانی زندگی سے ہے۔ وہ کافر ہو یا مسلمان‘ وہ نبی ہو یا شیطان‘ وہ مطیع و فرماں بردار ہو یا فاسق و فاجر‘ ہر ایک اس عمل سے گزرتا ہے۔ انسان کو اس عمل سے گزرتے ہوئے جو کچھ بھی پیش آتا ہے وہ بالعموم اُس کے اخلاقی اعمال کا نتیجہ نہیں ہوتا۔ اگر شراب پینے سے کسی کی صحت خراب ہوتی ہے تو شراب پینے کی ایک حیثیت اخلاقی ہے اور ایک طبیعی ہے۔ کوئی زہر کھائے گا تو مر جائے گا‘ شراب پیے گا تو اُس کا جگر خراب ہوجائے گا۔ اِس کا کوئی تعلق اُس کے اخلاقی فعل سے نہیں ہے بلکہ طبیعی اثر سے ہے جو رونما ہوتا ہے۔ کسی کو کینسرہوجاتا ہے‘ کوئی اور بیماری ہوجاتی ہے تو اس کا کوئی تعلق اُس کے اعمال سے نہیں ہے۔ اُس کو موت آتی ہے تو اس لیے نہیں آتی کہ وہ برے کام کرتا ہے بلکہ اس لیے آتی ہے کہ کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ ِط  (اٰل عمران ۳:۱۸۵)۔یہ بڑی اہم اور پہلی بات ہے جس کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر آگے کی بات نہیں سمجھی جاسکتی۔

قرآنِ مجید برملا اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ اس کے برعکس قوموں کی زندگی اعمال اور اخلاق کے ساتھ بندھی ہوئی ہے۔ اگر اُن کو ترقی اور عروج نصیب ہوتا ہے تو وہ اخلاق اور اعمال کی وجہ سے ہے اور اگر وہ زوال کا شکار ہوتی ہیں تو وہ اعمال اور اخلاق کی وجہ سے ہی ہوتی ہیں۔ اِس میں کسی طبیعی چیز کو دخل نہیں ہے بلکہ اصل چیز اعمال ہیں۔ اصل قوت اخلاق کی قوت ہے۔ ایمان اور تقویٰ ہو تو آسمان اور زمین سے بھی نعمتوں کی بارش ہوگی۔ اگرقومیں استغفار کریں گی توآسمان سے بارشیں ہوں گی‘ زمین سے چشمے اگلیں گے اور کھیتیاں اگیں گی اور قوم پر بہار آئے گی۔ اگر ہلاکت اور زوال حصے میں آئے گا تووہ بھی اپنے اعمال کی وجہ سے ہی آئے گا۔ فَکُلاًّ اَخَذْنَا بِذَنْبِہٖم ج  (العنکبوت ۲۹:۴۰) ’’آخرکار ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ میں پکڑا‘‘۔  فَھَلْ یُھْلَکُ اِلاَّ الْقَوْمُ الْفٰسِقُوْنَo (الاحقاف ۴۶:۳۵)‘ اِلاَّ الْقَوْمُ الظّٰلِمُوْنَ o (الانعام ۶:۴۷)‘ یعنی مجرموں‘ ظالموں‘ فاسقوں کے علاوہ کسی کو ہلاک نہیں کیا جاتا۔ ہلاکت‘ بربادی اور زوال‘ اگر ہے تو صرف اپنے اعمال کی وجہ سے ہے۔ یہ حقیقت بڑی نمایاں ہے‘ اور یہی قرآنِ مجید کی تعلیم کی‘ اور اس کے قانون کی بنیاد ہے۔ اس سے اور بہت ساری شاخیں پھوٹیںگی لیکن اس کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔

اس کا تعلق اس بات سے بھی ہے کہ قرآنِ مجید کی نظر میں انسانی زندگی دنیا تک محدود نہیں ہے بلکہ انسان کے لیے موت کے بعد بھی ایک اور دنیا اور ایک اور زندگی ہے۔ اُس دنیا میں اور اُس زندگی میں ہر فرد اپنی انفرادی حیثیت سے اپنے اعمال اور اپنے کارنامۂ زندگی کے لیے جواب دہ ہے۔ اگر یہاں اُس کو اپنے معنوی‘ اخلاقی اور روحانی اعمال کے لیے جزا اور سزا نہیں ملتی‘ تو یہ لازمی ہوا کہ ایک نقطۂ اختتام آئے‘ جہاں اُس کی مہلت عمل ختم ہو اور اُس کے بعد وہ اللہ کے سامنے حاضر ہو اور اپنے کارنامہ زندگی پر اجر و ثواب یا سزا پائے۔ چنانچہ اُس کی جو سوانحِ حیات ہے اُس کی تاریخ موت پر ختم نہیں ہوتی بلکہ موت کے بعد بھی جاری رہتی ہے۔ اگر اُس کو جزا اور سزا یہیں ملنا شروع ہو جائے تو موت کے بعد کا عمل مشکل ہو جائے گا۔ یہ ممکن بھی نہیں ہے کہ اُس کو اعمال کی جزا اور سزا یہاں مل سکے۔ اگرمولانا مودودیؒ کا ایک چھوٹا سا کتابچہ زندگی بعد موت کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ کیوں یہ ضروری ہے کہ انسان کی مہلت ِ عمل ختم کی جائے اور دنیا کا پورا نظام درہم برہم کیا جائے۔ دراصل اُس کا صحیح محاسبہ اُس کے بعد ہی ہوسکتا ہے۔ اس لیے کہ انسان کے اعمال کے اثرات بہت لمبے عرصے اور بہت دور کے دائرے پر محیط ہوتے ہیںجب تک کہ اُس کی زندگی اور یہ دنیا ختم نہ ہو‘ان کو سمیٹا نہیں جا سکتا ۔

فرد اور قوم کی جواب دہی

دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کوئی قوم بحیثیت قوم اللہ کے سامنے‘ اپنے اعمال کی جواب دہی کے لیے آخرت کے دن کھڑی نہیں ہوگی۔ اس لیے کہ قوم کی مثال تو ایک دریا کی طرح ہے۔ وقت کے کسی لمحے میں بھی بہت سارے قطرات آتے ہیں‘ ملتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔ قوم کوئی ایسی چیز نہیں کہ اللہ تعالیٰ گردن سے پکڑ کر کہے کہ تم کسی چیز کے لیے جواب دہ ہو۔ اُس میں ہر طرح کے لوگ ہو سکتے ہیں۔ نیک بھی ہوسکتے ہیں اور بد بھی۔ اچھے بھی ہوسکتے ہیں اور برے بھی۔ سب کو ایک لاٹھی سے ہانکنا عدل و انصاف کا تقاضا نہیں ہے۔ البتہ ہرشخص اللہ کے سامنے الگ الگ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات بھی قرآنِ مجید میں واضح طور پر بیان فرما دی ہے۔ پاکستانی قوم بحیثیت مجموعی‘ یا کوئی جماعت بحیثیت مجموعی یا کوئی تنظیم بحیثیت مجموعی اللہ کے سامنے جواب دہ نہیں ہوگی۔ اُس قوم میں‘ اُس جماعت میں‘ اُس تہذیب میں جو افراد برائیاں کرتے رہے ہیں وہ اپنی برائیوں کے لیے اور جو نیکیاں کرتے رہے ہیں وہ اپنی نیکیوں کے لیے اللہ کے سامنے جواب دہ ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ وہاں انصاف کا ہو نہیں سکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ قوموں کا عرصۂ محشر دنیا میں ختم ہوجائے‘ اور افراد کا عرصۂ محشر موت کے بعد شروع ہو۔ اس لیے یہ ضروری ہوا کہ قوموں کے عروج و زوال اور ہلاکت و بربادی کی داستان اُن کے اعمال مرتب کریں اور افراد کے وجود کا جو عروج و زوال ہے وہ ایک طبیعی‘ حیاتیاتی عمل ہو‘ اور اُس کو طبیعی قوتوں سے متعین اور مرتب کیا جائے۔ یہ دوسرا بڑااصول ہے جو قرآنِ مجید نے بڑی کثرت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ قرآن مجید کے جس ورق کو اُٹھا کر دیکھ لیجیے‘ قومِ عاد کا ذکر ہو یا قومِ لوط کا‘ اگر نجات دی گئی تو انبیاء اور اُن کے ساتھیوں کو اُن کے اعمالِ صالحہ کی وجہ سے دی گئی اور برباد کیا گیا تو اِس وجہ سے کہ لوگ برائی کے راستے پر پڑے تھے۔ برائیاں مختلف قسم کی تھیں لیکن اپنے گناہوں کی وجہ سے پکڑے گئے اور برباد کیے گئے۔ کسی انسان کو موت اُس کے گناہوں کی وجہ سے نہیں آتی۔ کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِط (اٰل عمران ۳:۱۸۵)کے عمومی اور بے لاگ قاعدے کی وجہ سے آتی ہے۔

عروج و زوال کی بنیاد

اگر یہ دوسرا قانون بھی اچھی طرح ذہن نشین رہے تو پھر یہ بات واضح اور صاف ہے کہ عروج و زوال کا انحصار اخلاق اور اعمال پر ہے۔ انسان اپنے اخلاق اوراعمال پر اختیار رکھتا ہے۔ اگر وہ اختیار نہ رکھتا ہوتا تووہ جواب دہ نہ ہوتا۔ اُس کو اختیار دیا گیا ہے کہ چاہے تووہ نیکی کرے اور چاہے تو برائی‘ چاہے تو ایمان لائے اور چاہے تو انکار کر دے‘ چاہے تو اللہ کو مانے اور چاہے تو نہ مانے۔ اس کے لیے یہ بات نہیں کہی جاسکتی کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کا ہونا ناگزیر ہے یا جس سے کوئی مفر نہیں ہے یا جس کو پلٹا نہیں جا سکتا یا واپس نہیں لوٹایا جاسکتا۔ اگر انحصار طبیعی عوامل کے اُوپر ہے خواہ درخت کی زندگی ہے یا انسان کی زندگی‘ تو یقینا ناگزیر ہے کہ انسان بچپن‘ جوانی اور بڑھاپے سے گزر کر قبر کے گڑھے میں جائے‘ اِس سے کوئی مفر نہیں ہے۔ اعمال اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتے لیکن اگر قوموں کی زندگی صرف اخلاق و اعمال کے اُوپر منحصر ہے‘ تو اخلاق اور اعمال چونکہ اُس کے اپنے اختیار میں ہیں‘ اس لیے یہ اُس کے اختیار میں ہونا چاہیے کہ اگر وہ اُن قوانین کی پابندی شروع کر دے جن سے اللہ تعالیٰ نے قوموں کے عروج کو وابستہ کیا ہے تو وہ عروج کی طرف جا سکے اور اگر وہ اُن قوانین کی خلاف ورزی شروع کر دے تو وہ زوال کی طرف جا سکے۔ یہ بالکل ایک ایسی بات ہے جس سے انکار ممکن نہیں ہے۔ ہم اس کو آسانی کے ساتھ‘ سوچ سکتے ہیں‘ سمجھ سکتے ہیں۔ یہی بات اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تمھارے اختیار میں ہے۔

وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ (الاعراف ۷:۹۶) ’’اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے‘‘۔ انسان کے ساتھ یہ وعدہ نہیں ہے کہ اگر وہ ایمان و تقویٰ اپنائے تو اُس کا بڑھاپا جوانی میں بدل جائے گا‘ یہ نہیں ہوگا۔ یا اُس پر رزق کے دروازے کھل جائیں‘ یہ وعدہ نہیں ہے۔ ایک مومن مفلسی کے عالم میں زندگی بسر کر سکتا ہے لیکن بستی والوں سے اور قوموں سے وعدہ ہے اگر وہ ایمان و تقویٰ کا راستہ اختیار کریں توآسمان و زمین سے برکتوں کے دروازے کھل جائیں گے۔ اگر استغفار کریں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے یہ نعمتیں عطا کرے گا‘ یعنی دنیوی وعدے بھی ہیں۔ یہ دراصل اسی قانون کا نتیجہ ہے کہ قوموں کی زندگی اخلاق اور اعمال پر منحصر ہے۔

اخلاق کی وسیع تعریف

اس کے بعد چوتھا قانون جو بڑا اہم ہے وہ اخلاق اور قانون کی وہ بڑی وسیع تعریف ہے جو قرآن مجید نے بیان فرمائی ہے۔ عام طور سے ہمارے ذہنوں میں یہ موجود نہیں ہوتی۔ اسی لیے ہمارے ذہنوں میں طرح طرح کے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ ایمان بھی اسی اخلاق کا حصہ ہے اور ایمان کے معنی یہ ہیں کہ کسی چیز کے ساتھ‘ اخلاص کے ساتھ وابستگی اور اُس کو ماننا۔ چنانچہ ایمان بالباطل بھی ممکن ہے اور ایمان بالحق بھی ممکن ہے۔ ایمان تو خود ایک صفت ہے‘ وفاداری کی‘ وابستگی کی‘ کسی چیز کو مان لینے کی اور اُس پر جم جانے کی۔ یہ اخلاقی صفت ہے۔ یہ باطل کے ساتھ بھی ہو سکتی ہے اور حق کے ساتھ بھی۔ جس کے ساتھ یہ ہوگی اُس کا وزن زیادہ ہوگا۔

نفاق بھی ایک صفت ہے کہ کسی چیز کو نہ ماننا‘ نہ ماننے کے برابر ہونا‘ اُس کو نہ ماننے پر جمنا‘ اور دل میں ہمیشہ دو روش ہونا۔ یہ حق کے ساتھ بھی ہوسکتی ہے اور باطل کے ساتھ بھی۔ جو وعدہ ایمان کے ساتھ ہے‘ وہ نفاق کے ساتھ نہیں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ نفاق کی روش ہو اور شیطان کے ساتھ ایمان کی روش ہو تو شیطانی ایمان غالب آئے گا اور نفاق شکست کھائے گا‘ اس لیے کہ اصل قیمت ایمان کی ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ آدمی جس قانون کو مانتا ہو اُس کی پابندی کرے۔ اگر آدمی اللہ کا قانون مانتا ہو اور اُس کی پابندی نہ کرتا ہو تو وہ اس کی سزا پائے گا۔ ایک آدمی اللہ کا قانون نہ مانتا ہو‘ اپنا بنایا ہوا قانون مانتا ہو‘ لیکن اُس کی پابندی کرتا ہو تو قانون کی پابندی فی نفسہٖ اپنے اندر وہ قوت رکھتی ہے جو اُس کو غلبہ عطا کر دیتی ہے۔ ایک آدمی اللہ کو ماننے والا ہو لیکن اُس کے لیے محنت کرنے کو تیار نہ ہو‘ اور ایک آدمی شیطان کو ماننے والا ہو اور شیطان کے لیے محنت کرنے کو تیار ہو تو محنت فی نفسہٖ ایک اخلاقی قوت ہے جو کام کرے گی اور اس کا نتیجہ سامنے آکر رہے گا۔ ایک آدمی حق کے اُوپر ایمان رکھتا ہو لیکن اُس کے لیے تحقیق و اجتہاد اور علم سے عاری ہو تو یہ حق اُسے کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ اگر ایک قوم باطل پر ایمان رکھتی ہے لیکن تحقیق و اجتہاد اور جدت اور نئے مسائل کے حل نکالنے سے آراستہ ہے تو وہ غلبہ پائے گی۔ ایک قوم اگر صبح شام استغفراللہ کا ورد کرتی ہے لیکن اُس کے اندر احتساب اور جرم کرنے والوں کے لیے سزا کا کوئی نظام نہیں ہے تووہ قوم دنیا میں مغلوب ہوگی اور وہ قوم جو استغفراللہ کا ورد تو نہیں کرتی لیکن اُس نے اپنی قوم کے لیے جو ضابطہ بنایا ہے‘ جو دستور بنایا ہے‘ جن ضوابط کا وہ اپنے آپ کو پابند سمجھتی ہے‘ اُن کی پابندی کرتی ہے ‘ اور اگر کوئی غلطی کا ارتکاب کرتا ہے تواُس کو سزا دیتی ہے اور اُس میں کوئی رعایت نہیں کرتی ہے خواہ وہ اُس کا وزیر ہو‘ صدرِ ریاست ہو یا عام مجرم ہو‘ تو وہ غالب ہو کر رہے گی۔ احتساب‘ اپنی غلطیوں کا ادراک اور اُن کے اوپر داروگیر‘ وہ اخلاقی صفات ہیں جواُس کو غلبے سے ہم کنار کریں گی۔

اگر یہ اصول واضح ہو جائے کہ اخلاق کا دائرہ عورت اور شراب تک محدود نہیں ہے بلکہ اخلاق کا دائرہ وقت کی پابندی‘ اپنے مقاصد کے ساتھ لگن‘ اُن کے لیے محنت‘ اُن کی جستجو‘ اپنی قوم کے اندر انصاف‘ لوگوں کی برابری‘ مظلوم کی داد رسی‘ یہ بھی وہ چیزیں ہیں جو اخلاق کے اندر شامل ہیں‘ تو پھر یہ سوال اُٹھانے کی ضرورت نہیں رہتی کہ وہ قومیں جو ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت سے خالی ہیں وہ کیوں آگے ہیں اور ہماری وہ قوم جو ایک قرآن بھی رکھتی ہے‘ اللہ پر ایمان کی دعوے دار بھی ہے‘ نمازیں بھی پڑھتی ہے‘ روزے بھی رکھتی ہے‘ زکوٰۃ بھی دیتی ہے‘ وہ کیوں مغلوب ہے۔ اگر اخلاق کی جامع تعریف کو سامنے رکھا جائے جس کی ایک تشریح  تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں میں کی گئی ہے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بنیادی انسانی اخلاقیات سب سے اہم ہیں اور  انھی کی بنیاد پر اسلامی اخلاق تعمیر ہوتا ہے۔ اسلامی اخلاق کی حالت بھی اگر اتنی زار ونزار ہو کہ نہ ایمان قابلِ اعتبار ہو‘ نہ تقویٰ اور احسان موجود ہو تو پھر قوم محض نام کا لیبل لگانے سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔ مذکورہ کتابچے میں مولانامودودیؒ لکھتے ہیں کہ: تانبے کے سکے پر اشرفی کی مہر لگا دیں تو بازار میںنہیں چلے گا اور اگر بُھس بھرے ہوئے سپاہیوں کو آپ وردی پہنا دیں تو وہ نہیں لڑ سکتے‘ خواہ وہ وردی ایمان کی ہو اور ایمان باللہ کی وردی ہو۔ لیکن اگر جسم کے اندر طاقت موجود ہے اور خالص سونا موجود ہے تو وہ بازار میں چل سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ خالص ہی بازار کے اندر چل سکتا ہے‘ منافقت بازار میں نہیں چلتی۔ یہ بھی وہ قانون ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دیا ہے کہ زبانی دعویٰ قابلِ اعتبار نہیں ہے‘ اصل چیز تو عمل ہے۔ لِنَنْظُرَکَیْفَ تَعْمَلُوْنَo (یونس ۱۰:۱۴) ’’تاکہ ہم دیکھیں کہ تم کیسا عمل کرتے ہو‘‘۔ وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰیo (النجم ۵۳:۳۹) ’’اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اس نے سعی کی‘‘۔

کوشش اور محنت کا بدلہ انسان کو ملتا ہے‘ اور تقویٰ عمل کا نام ہے اور عمل پوری زندگی پر محیط ہے۔ آدمی جس کو صحیح مانتا اور جانتا ہو‘ اسی پر عمل کرتا ہے۔ اُس میں سے بعض چیزیں غلط بھی ہو سکتی ہیں۔ وہ سمجھتا ہے کہ شراب پینے میں کوئی حرج نہیں ہے‘ وہ شراب پیتا ہے۔ اس کے خیال میں زنا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے‘ وہ زنا کرتا ہے۔ اگر وہ سمجھتا ہے کہ جھوٹی گواہی نہیں دینا چاہیے‘ وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتا اور اگر وہ سمجھتا ہے کہ غریب کی مدد کرنا چاہیے‘ وہ غریب کی مدد کرتا ہے‘ اور اپنی جیب سے پیسہ نکال کے دیتا ہے۔ اگر وہ سمجھتا ہے کہ قانون کی پابندی کرنا چاہیے‘ وہ قانون کی پابندی کرتا ہے۔ اگر وہ سمجھتا ہے کہ رشوت دینا گناہ ہے‘ نہ وہ رشوت دیتا ہے اور نہ لیتا ہے۔ یہ وہ اخلاق ہیں جن کی بڑی قدروقیمت ہے بلکہ بعض احادیث کی رو سے شراب‘ زنا اور دوسرے اعمال کے بہ نسبت ان اخلاق کی زیادہ قدروقیمت ہے۔

مغرب کی بالادستی کا سبب

آج جو معاشرے دنیا میں غالب ہیں اگر اُن کے ساتھ مسلم معاشرے کا موازنہ کیا جائے تو صاف فرق محسوس ہوتا ہے۔ انصاف ہی کو لے لیجیے کہ مسلمان معاشرے میں اُس کا کیا حال ہے۔ انصاف تو بہت بڑی چیز ہے‘ ممکن ہے وہ دنیا کو انصاف نہ دیتے ہوں‘ مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہ کرتے ہوں لیکن اُن کے اپنے معاشرے میں تو انصاف ہے۔ اُن کے ہاں رشوت نہیں ہے۔ اُن کے ہاں کوئی کسی کا حق پامال نہیں کرسکتا۔ کوئی کسی کو ٹارچر سیل میں نہیں ڈال سکتا۔ کوئی کسی کو پکڑ کر مار پیٹ نہیں کر سکتا۔ اس کے علاوہ اُن کے ہاں بیوائوں‘ یتیموں‘ پنشن یافتہ لوگوں اور بے روزگاروں کی فلاح کے لیے ایک پورا نظام ہے۔ آدمی بیمار ہوتا ہے تو اس کا مفت علاج ہوتا ہے۔ اگر بے روزگار ہو جاتا ہے تو اُس کو الائونس ملتا ہے۔ یونی ورسٹی جاتا ہے اُس کا وظیفہ بندھ جاتا ہے۔ کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اُس کا وظیفہ بندھ جاتا ہے۔ یہ میں نے صرف چند مثالیںدیں ۔میرا مقصد مغرب سے مرعوب کرنا نہیں ہے بلکہ ذہن سے یہ بات نکالنا ہے کہ صرف شراب اور موسیقی اور ناچ گانا اور زنا وغیرہ ہی وہ چیزیں ہیں جن کی بنیاد پر قوموں کی قسمت کا فیصلہ ہوتا ہے۔ قوموں کے عروج و زوال میں صرف یہی فیصلہ کن امر نہیں ہے بلکہ اخلاق کا دائرہ بڑا وسیع ہے۔ اس ضمن میں حق پسندی اور خود احتسابی بھی بہت اہم ہے۔ لیکن مسلمان ممالک میں قوم کے احتساب کی کوئی مضبوط روایت موجود نہیں ہے کہ اس کے نتیجے میں کوئی جیل جائے۔ مغرب کے حوالے سے یہ ایک اہم پہلو ہے۔ اس کے علاوہ اور بہت سی اخلاقی اقدار ہیں جن کی وجہ سے دوسری قومیں ہم سے آگے ہیں۔

جزا و سزا کا قانون

اگر قوموں کے عروج و زوال کے انھی موٹے موٹے اصولوں کو سامنے رکھا جائے تو قرآنِ مجید کی بیان کردہ بڑی بڑی بنیادیں سامنے آجاتی ہیں۔ انبیا کے بارے میں قرآنِ مجید نے یہ قانون بنایا ہے‘ اور یہ صرف انبیا کے بارے میں ہے اور کسی کے بارے میں نہیں ہے‘ کہ میرے رسول غالب ہوکر رہیں گے۔ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْط (المجادلہ ۵۸:۲۱) ’’اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب ہوکر رہیں گے‘‘۔

اسی اصول پر غور کرنے سے ذہن میں اٹھنے والے بہت سے سوالوں کا جواب مل جاتا ہے۔ چونکہ انبیا وہ واحد افراد ہیں جو کسی قوم پر اخلاقی طور پر اتمامِ حجت کرسکتے ہیں۔ ہم اور آپ جو دعوتی کام کرتے ہیں‘ اس کے لیے ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے حق ادا کر دیا اور اتمامِ حجت کر دی۔ انبیا چونکہ اتمامِ حجت کر دیتے ہیں اس لیے سید مودودیؒ کے الفاظ میں اگر کوئلے کی کان میں کوئی ہیرا باقی نہ رہے تو اِس کا مقدر اِس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے کہ اِس کو پھونک دیا جائے‘ جلا دیا جائے۔ چنانچہ جب انبیا ان سارے لوگوں کو چھانٹ لیتے ہیں تو کان کو جلا دیا جاتا ہے اور خدا کا عذاب ان پر مسلط کر دیا جاتا ہے۔ وَنَجَّیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَo (حم السجدہ ۴۱:۱۸) ’’اور ہم نے ان لوگوں کو بچا لیا جو ایمان لائے تھے اور گمراہی و بدعملی سے پرہیز کرتے تھے‘‘۔ گویا ان کی مساعی کے نتیجے میں ان کو نجات مل جاتی ہے۔ یہ قانون صرف انبیا کے ساتھ ہے‘ انبیا کے بعد اور لوگوں کے ساتھ نہیں ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ اور لوگوں کے ساتھ پوری کی پوری قوم کو سزا دی جاتی ہے۔ سوال کیا گیا کہ اُن میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں! قیامت کے روز لوگ اپنی اپنی نیتوں کے مطابق اٹھائے جائیں گے۔ اور اگر کوئی بلا آئے گی‘ کوئی عذاب اترے گا تو وہ یہ دیکھ کر نہیں اترے گا کہ اس گھر میں مومن رہتا ہے یا اس گھر میں کافر رہتا ہے‘ بلکہ جب قوم پر عذاب آئے گا تو سب کے سب اُس کا شکار ہوں گے۔ البتہ ایک فرد کے لیے یہ بات اس لیے اہمیت نہیں رکھتی کہ اس کا کام تو اس دنیا کی زندگی کے بعد ختم نہیں ہوا۔ اُس کو تو بہرحال مرنا ہی تھا خواہ وہ کینسر سے مرتا‘ یا ٹریفک کے کسی حادثے میں مرجاتا‘ یا بستر پر پڑا ہوا مرتا‘ یا معمولی زکام یا پائوں پھسلنا اس کی موت کا باعث ہوتا‘ یا اللہ کا عذاب اس کی ہلاکت کا سبب بنتا۔ لہٰذا دنیا میں موت کا آجانا یا ہلاکت کوئی سزا نہیں ہے۔ بے شمار نیک آدمی ہیں جو ہوائی جہازوں اور گاڑیوں کے حادثوں میں‘ کینسر سے اور بہت سارے امراض سے مر جاتے ہیں۔ یہ دنیا میں کوئی عذاب نہیں ہے۔ دنیا کا عذاب نہ کوئی عذاب ہے اور نہ دنیا کا نفع کوئی نفع ہے۔ فرد تو جانتا ہے کہ اصل چیز تو آخرت ہے اور وہاں پر لوگ اپنی نیتوں کے مطابق اٹھائے جائیں گے۔ یہاں اللہ تعالیٰ کے نبیؐ نے جزا و سزا کے قانون کو بھی واضح فرما دیا۔ یہ بڑا قیمتی قانون ہے۔

دنیا میں اگر کسی کو کوئی تکلیف ہے تو وہ بھی عارضی ہے اور اگر کوئی آرام ہے تو وہ بھی عارضی ہے۔ اگر یہاں پر نعمتیں ملتی ہیں تو اس کی بھی کوئی قدروقیمت نہیں ہے اور اگر یہاں پرسزا ملتی ہے تو اُس کی بھی کوئی قدروقیمت نہیں ہے۔ دنیا کی نعمتوں کے بارے میں تو قرآنِ مجید نے یہ فرما دیا کہ ہم کو اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ سارے کے سارے لوگ کافر ہوجائیں گے تو ہم اُن انکار کرنے والوں کے گھر‘ اُن کے دروازے ‘ اُن کی کھڑکیاں‘ اُن کی چھتیں‘ اُن کے بستر‘ اُن کے زینے‘ یہ سب سونے چاندی کے بنا دیتے۔ ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمارے لیے یہ سب مچھر کے پَرکے برابر بھی وقعت نہیں رکھتا‘ لیکن اس طرح اہل ایمان کی بڑی سخت آزمایش ہو جاتی اور کوئی بھی ایمان پر قائم نہ رہتا اس لیے ہم نے ایسا نہیں کیا۔ لہٰذا دنیا کی تکلیف کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ گزر ہی جاتی ہے۔ ایک سانس جب نہیں آتی تو کینسر کا بڑے سے بڑا درد ختم ہو جاتا ہے اور پھر کوئی تکلیف باقی نہیں رہتی۔ اگر دنیا میں لوگ عذاب میں شریک بھی ہیں تو بالآخر آخرت میں اپنا اجر پائیں گے۔ اس لیے کہ آخرت میں تو آدمی اپنی نیتوں اور اعمال کے مطابق اٹھائے جائیں گے۔ جو نیک ہوں گے وہاں پر اُن کے ساتھ پوری داد رسی کی جائے گی۔ یہ قانون اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دیا ہے۔

دنیا کی امامت کا منصب

اس قانون کے تحت بعض قومیں ہلاک ہو جاتی ہیں۔  وَّجَعَلْنٰھُمْ اَحَادِیْثَج (المؤمنون۲۳:۴۴) ’’ہم نے ان کو ایک داستان بنا دیا‘‘۔ بعض قومیں قعرمذلت اور گم نامی میں چلی جاتی ہیں اور پھر زندہ ہوتی ہیں۔ اس میں اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ جو اُس کی دنیا کو بہتر طریقے سے چلا سکتا ہے‘ جو دنیا کے لوگوں کے لیے زیادہ بہتر‘ مفید اور باعث خیر ہو‘وہ اسے پستیوں سے نکال کر سربلندی عطا کرتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو مغربی اقوام میں بہت سی خامیاں ہیں۔ انسان اچھائیوں اور برائیوں کا مجموعہ ہوتا ہے‘ اس لیے ہر قوم میں اچھائیاں بھی ہوتی ہیں اور برائیاں بھی۔ لیکن عروج اور سربلندی اس کو ملتی ہے جو بحیثیت مجموعی انسانوں کے بنائو‘ تعمیر اور خیر کا باعث ہو۔ اس کی بہترین مثال وہ ہے جو سید مودودیؒ نے بناؤ اور بگاڑ میں دی ہے۔ اس پر اگر غور کیا جائے تو عروج و زوال کے حوالے سے ذہنوں میں اُٹھنے والے بہت سے سوالوں کا جواب مل جاتا ہے۔ اس کے مطابق باغ کا مالک اپنا باغ اُس کے سپرد کرے گا جو اُس کا نظام بہتر چلا سکتا ہو۔ جو لوگ اپنے ایک ایئرپورٹ کا نظام نہیں چلا سکتے‘ ایک میونسلپٹی کا نظام نہیں چلا سکتے‘ ایک شہر کو صاف ستھرا نہیں رکھ سکتے‘ ایک عدالت کا نظام پورے عدل و انصاف سے نہیں چلا سکتے‘ وہ لوگ پوری دنیا کی قیادت کے اہل کیسے ہو سکتے ہیں۔

دنیا کی قیادت کا اہل تو وہی ہوگا جو بنی نوع انسان کے لیے زیادہ مفید اور کارآمد ہوگا۔ مغرب کے حوالے سے یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ اُن کے اندر برائیاں نہیں ہیں۔ اس سے انکار  نہیں کیا جاسکتا۔ برائیاں بھی اپنا کام کر رہی ہیں اور بالآخر اُن کے زوال کا باعث بنیں گی لیکن دنیا کے اندرکوئی اچھا امیدوار نہیں ہے جو اللہ کو پسند ہو لیکن وہ بہتر امیدوار ہے۔ وہ بہترین امیدوار تو نہیں ہے لیکن مقابلتاً اچھا امیدوار ہے جو دنیا کی قیادت کا مستحق ہے۔ اس لیے کہ وہ اپنی محنت سے‘ اپنی جستجو سے‘ دنیا کو چلانے کے سلیقے سے‘ اپنی قوم کے اندر عدل و انصاف قائم کرنے سے‘ اس بات کا مستحق ہے کہ اسے دنیا کا انتظام سونپا جائے۔ وہ مسلمان حکمرانوں کے اخلاق اور کردار کے لحاظ سے سو گنا بہتر ہیں۔ اُن کے ہاں اگر ایک ’’واٹرگیٹ‘‘ اسیکنڈل ہو جائے تو صدر کو استعفا دے کر رخصت ہونا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں اگر ٹارچر سیل بھی بنے رہیںاُن میں انسانوں پر ظلم بھی کیا جائے اور ملک کے بڑے سے بڑے اصول اور ضابطے کو پامال کر دیا جائے پھر بھی حکمران کی حیثیت سے برقرار رہتے ہیں‘ اور آج بھی وہ اُسی دبدبے سے حکمران ہیں۔ اس کے مقابلے میں مغرب میں یہ روایت ہے کہ اگر کسی مجرم سے کسی وزیر کا تعلق ثابت ہو جائے‘ کوئی حادثہ ہو جائے تو وہ ایک دن بھی نہیں رہ سکتا۔ یہ اُن کے ہاں احتساب کی ایک صفت ہے۔ اسی کو محدود معنوں میں استغفار کہا جا سکتا ہے۔ وہ استغفراللہ تو نہیں کہتے لیکن پبلک لائف میں غلطی کرنے والے کو سزا ملتی ہے۔ پرائیویٹ زندگی میں ممکن ہے وہ ایمان دار نہ ہوں‘ زنا کرتے ہوں‘ شراب پیتے ہوں‘ عورتوں کے ساتھ بدکاریاں کرتے ہوں لیکن پبلک لائف میں وہ اس کو برداشت نہیں کرتے۔ اب بھی اگر اُن کو معلوم ہوتا ہے کہ اُن کا صدر یا وزیراعظم بہت زیادہ شراب پیتا ہے تو وہ اسے منتخب نہیں کرتے۔ وہ خود خواہ کتنی ہی برائیاں کرلیں‘ اپنے اہل کاروں میںنہیں دیکھنا چاہتے۔ اس لحاظ سے وہ بہتر قوم ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ اچھی قوم ہیں بلکہ دنیا میں موجود دوسری قوموں کے مقابلے میں بہتر قوم ہیں۔ اس لیے وہ دنیا کی امامت کے حق دار ہیں۔ یہی حال یہودیوں کا بھی ہے۔ یہودیوں کے بارے میں یہ سوال عام طور سے اٹھایا جاتاہے کہ وہ ذلت اور مسکنت کا شکار ہو جانے کے باوجود کیوں غالب ہیں؟ اُس کا سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود قرآنِ مجید میں فرمایا ہے:  الا بحبلٍ من اللّٰہ وحبل من الناس (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۲) ‘ یعنی اللہ کی طرف سے رسی دراز کر دی جائے یا پھر لوگوں کے سہارے وہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اور آج اُن کا جو وجود ہے اور جس دم خم کا وہ مظاہرہ کرتے ہیں وہ اپنے بل پر نہیں بلکہ دوسری قوموں کے بل پر ہے۔

اُمت مسلمہ کے لیے ضابطہ

اللہ تعالیٰ نے یہ قانون بھی واضح کر دیا ہے کہ جس قوم کو اپنے کام اور مقصد کے لیے وہ منتخب کرلے اور جس کو یہ ذمے داری دے دے‘ جسے ملازم رکھ لے اور جس سے employment contract پر دستخط لے لے‘ اُس سے ایک میثاق باندھ لے کہ تم میرے کام کروگے‘ میں تم کو اپنی امانت اور اپنی ہدایت سپرد کر رہا ہوں تو اُس کو جب ترازو میں تولا جائے گا تو سب سے پہلے یہ دیکھا جائے گا کہ وہ اپنے معاہدئہ ملازمت کی شرائط (terms of employment) کوکہاںتک پورا کر رہی ہے۔ اگر فردِ جرم عائد ہوگی تو اس لحاظ سے ہوگی۔ وہ کسی اور ذریعے سے دنیا میں ترقی نہیں کر سکتی۔ یہ بات بھی قرآنِ مجید میں اُس نے کھول کھول کر بیان کر دی ہے:  فَبِمَا نَقْضِھِمْ مِّیْثَاقَھُمْ لَعَنّٰھُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوْبَھُمْ قٰسِیَۃًج (المائدہ ۵:۱۳) ’’پھر یہ ان کا اپنے عہد کو توڑ دالنا تھا جس کی وجہ سے ہم نے ان کو اپنی رحمت سے دُور پھینک دیا اور ان کے دل سخت کر دیے‘‘۔ وَضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُق وَبَآئُ وْبِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِط ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ (البقرہ ۲:۶۱) ’’آخرکار نوبت یہاں تک پہنچی کہ ذلت و خواری اور پستی و بدحالی ان پر مسلط ہو گئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھر گئے۔ یہ نتیجہ تھا اس کاکہ وہ اللہ کی آیات سے کفر کرنے لگے‘‘۔

آج مسلمانوں کو جس ذلت اور مسکنت کا سامنا ہے اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ یورپ والے آگے بڑھ گئے یا اس سے پہلے ساسانی آگے بڑھ گئے تھے بلکہ یہ اس لیے ہے کہ جو ہماری ملازم و وفادار قوم تھی‘ اُس نے ہماری آیات کے انکار کی روش اختیار کی‘ ہم سے بے وفائی کی‘ ہمارے راستے کوچھوڑا‘ چنانچہ ہم نے اس پر ذلت اور مسکنت مسلط کر دی۔

مسلمانوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی معاملہ ہے۔ اس لیے کہ اُس نے ان کو ملازم رکھا ہے۔ اور جب کسی کو ملازم رکھا جائے تو اُسے دیگر شرائط کے ساتھ شرائط ملازمت بھی پوری کرنی ہوں گی۔

ترکی نے ۱۹۲۰ء میں فیصلہ کیا کہ ہم مغرب کے سانچے میں ڈھل کے ہی ترقی کر سکتے ہیں۔ انھوں نے اپنے قوانین بدلے‘ لباس بدلا‘ رسم الخط بدلا‘ زبان بدلی‘ سب کچھ بدل دیا لیکن آج بھی یورپ کا ایک مردِ بیمار ہے۔ اس کے مقابلے میں جاپان نے بھی ایک فیصلہ کیا کہ ہمیں بھی آگے بڑھنا ہے‘ ترقی کرنا ہے لیکن اپنی اقدار کو ساتھ لے کر ترقی کرنا ہے۔ آج جاپان دنیا کی پانچ بڑی طاقتوں میں سے ایک بڑی طاقت ہے۔ ہم بھی کئی ’’پانچ سالہ منصوبہ‘‘ پاکستان میں نافذ کرچکے ہیں لیکن ہم ترقی سے محروم ہیں۔ اس لیے کہ ہمارے پاس کوئی مقصد نہیں ہے جس کے لیے کام کریں۔ مسلمان جب قوم بن جائے تو وہ اللہ کے علاوہ کسی مقصد کے لیے متحد نہیں ہو سکتی۔ قوموں کی زندگی میں اخلاق میں سب سے بڑھ کر ایمان ہے۔ چونکہ ہمارا ایمان ہی ناقص ہے اس لیے آگے بڑھنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایمان خواہ باطل پر ہی ہو مگر مضبوط ہو تو وہ عظمت اور سربلندی کا باعث ہوتا ہے۔

قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے قوموں کے عروج و زوال کے یہ تمام قوانین بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیے ہیں۔یہ قرآنِ مجید کا ایک بڑا اہم باب ہے۔ اس باب کے تمام پہلوئوں کو کسی ایک گفتگو میں نہیں سمیٹا جاسکتا۔ اس کے اتنے پہلو ہیں کہ اس کا احاطہ بہت مشکل ہے۔ تاہم موٹے موٹے اصول میں نے بیان کر دیے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو قوموں کے عروج و زوال کے حوالے سے بیش تر سوالات کے جواب ان اصولوں اور قوانین کے اندر موجود ہیں۔ یہ قرآنِ مجید کے وہ قوانین ہیں جو جگہ جگہ بیان کیے گئے ہیں۔ کہیں ان کو مبہم نہیں رکھا گیا ہے بلکہ بار بار بیان کیا گیا ہے۔ یہ ہمارا قصور ہے کہ ہم اِن کو پڑھتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ ان پر غور نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے قوموں کے بارے میں کس طرح کھول کھول کر بیان کر دیا ہے کہ اُن کی عزت اور سربلندی‘ مادی قوت سے نہیں ہے بلکہ اخلاقی برتری سے ہے۔ قرآن میں آیا ہے کہ اگر صبر کی قوت ہوگی تو ایک آدمی ۱۰۰ پر غالب ہوگا۔ اگر معاملہ محض مادی قوت کا ہوتا تو۱۰ آدمیوں کو ایک آدمی نہیں ہرا سکتا۔ فرمایا: وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُھُمْ شَیْئًا ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۲۰) ’’مگر ان کی کوئی تدبیر تمھارے خلاف کارگر نہیں ہوسکتی بشرطیکہ تم صبر سے کام لو اور اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو‘‘۔

گویا اگر صبر ہو‘ جمائو ہو‘ ثبات ہو‘ اپنی چیز کے لیے جمنے کا حوصلہ ہو‘ آپس میں اتحاد ہو‘ انتشار نہ ہو تویہ وہ چیزیں ہیں جو دنیا کے اندر غالب کرنے والی ہیں۔ ایٹم بم‘ فیکٹریاں اور کارخانے اور مادی وسائل غلبے کی اصل وجہ نہیں ہیں۔ حقیقت مادی ترقی بھی اخلاقی ترقی کی وجہ سے ہوتی ہے۔اگر اخلاق میں زوال ہو تو کارخانے کام نہیں کرتے‘ وہاں بھی مال گھٹیا بنتا ہے جو برآمد نہیں ہو سکتا۔ بددیانت لوگ ہوں گے تو گھٹیا مال برآمد کریں گے۔ مزدور محنت نہیں کرتے‘ اس لیے کہ اُن کا اخلاق کمزورہوتا ہے۔ وہ دیانت داری سے اپنا فرض ادانہیں کرتے۔ اگر بددیانتی ہوگی تو سڑک بننے کے اگلے دن ادھڑ جاتی ہے‘ ایئرپورٹ بنتا ہے‘ اگلے دن ناقص نکلتا ہے۔ غرض دنیا میں بھی بغیر اخلاق کے ترقی نہیں ہو سکتی۔ محنت اور علم کی جستجو نہ ہو تو ایٹم بم نہیں بن سکتا‘ اسلحہ نہیں بن سکتا۔ یہ مادی قوت سے نہیں بنتے بلکہ اخلاقی قوت سے بنتے ہیں۔ ان کے پیچھے اصل کارفرما محرک قوت اخلاقی ہوتی ہے۔ اس لیے اصل قوت لوگوں کے اخلاق ہیں۔ جس نے برائی کمائی اُس کے حصے میں برائی آئے گی‘ جس نے بھلائی کمائی اُس کے حصے میں بھلائی آئے گی۔ فرد کے حصے میں تو موت کے بعد آئے گی لیکن قوموں کو جزا و سزا اسی دنیا میں مل جائے گی۔ یہی ان کے عروج و زوال کا اصل سبب ہے۔ یہ قرآن کے قوانین ہیں۔ ان پر جتنا غور کیا جائے گا‘ اتنی ہی اس حوالے سے الجھنیں دُور ہوں گی۔ ذہنی عقدے حل ہوں گے اور قوموں کے عروج و زوال کے حوالے سے بہت سے مسائل کی تہہ تک بآسانی پہنچا جا سکے گا۔ (کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)

محبت کا لفظ خود اپنے اندر بڑی مٹھاس‘ کشش‘ کیف ‘ لذّت اور مزہ رکھتا ہے۔ کسی کے بھی تعلق کے ساتھ یہ لفظ بولا جائے تو دل میں زندگی کی ایک رو دوڑ جاتی ہے۔ ہم سب ہی محبت کے مزے سے آشنا ہوتے ہیں۔ یہ کوئی انوکھی اور اجنبی چیز نہیں ہے۔ انسانوں کے تعلق سے بھی ‘ محسوسات کے تعلق سے بھی‘ مال و دولت کے تعلق سے بھی‘ اپنی عزت اور آن کے تعلق سے بھی‘ اور خود اپنے نفس سے محبت کے تعلق سے بھی ہم سب خوب جانتے ہیں کہ محبت کیا چیز ہوتی ہے اور محبت کا مزہ اگر دل کو لگ جائے اور دل میں اتر جائے تو یہ کیا کرشمہ دکھاتی ہے۔ عام مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ شاید یہ وہ مقام اور درجہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے بڑے برگزیدہ بندوں کو حاصل ہوتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تو ایمان کی نشانی‘ ایمان کی شرط اور ایمان کی روح ہے۔ ایمان کا راستہ ہی عشق و محبت کا راستہ ہے۔  وَالَّذِیْنَ  اٰمَنُوْآ اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ ط (البقرہ ۲:۱۶۵)’’ایمان رکھنے والے اللہ کو سب سے بڑھ کر محبوب رکھتے ہیں‘‘۔جو بھی ایمان لائیں گے وہ سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت کریں گے۔ اس کے دین پر عمل کریں گے‘ اُس کے دین کو قائم کریں گے۔ اپنی محبت کو پہلے بیان فرمایا ہے کہ جو اس کی راہ پر آجائے‘ اس کی راہ پر چل پڑے‘ اپنے آپ کو اس کے دین کے لیے لگا دے تو وہ اللہ کا محبوب ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اُسے پیار کرتا ہے۔ دیکھیے یہ آگ دونوں طرف برابر لگی ہوئی ہے۔ یُّحِبُّھُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗٓ (المائدہ ۵:۵۴) ’’اللہ ان سے محبت رکھتا ہے اور وہ اللہ سے محبت رکھتے ہیں‘‘۔

یہ محبت تو ایمان کی روح اور ایمان کی جان ہے۔ اِس کے بغیر تو ایمان چند الفاظ کا مجموعہ ہے جو زبان سے ادا ہو جائے‘ ایک لباس ہے جس کو آدمی وضع قطع اور چال ڈھال کے مختلف طریقوں سے اپنے اوپر اوڑھ لے۔ لیکن اصل ایمان تو وہ ہے جو دل کو بھی لذّت بخشے اور جس کے پیچھے چلنے میں مزہ بھی آئے۔ اسی لیے نبی کریمؐ نے یہ بھی فرمایا: کہ جن چیزوں سے ایمان کی مٹھاس حاصل ہوتی ہے اُن میںسے ایک یہ ہے کہ ‘  اِن یکون اللّٰہ والرسول احب الیہ ممن سوآئٌ علیھم‘ اللہ اور اس کے رسولؐ ان دو کے علاوہ ہر چیز سے زیادہ پیارے اور محبوب ہو جائیں ۔جب یہ کیفیت ہوتی ہے تبھی ایمان دل میں اترتا ہے‘ ایمان کا مزہ ملتا ہے اور ایمان میں لذّت آتی ہے۔

ایمان کے مطالبے آدمی دل کے تقاضے سے پورے کرتا ہے۔ محبت کی راہ میں کسی کو دھکا نہیں دینا پڑتا ہے کہ جائو اس کے کوچے میں جائو‘ جو محبوب ہے اس کی گلی میں جائو‘اس کے دروازے پر جائو‘ اس کو یاد کرو‘ اس کا نام لکھو۔ یہ سب سبق کسی کو پڑھانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ محبت خود ہی استادوں میں سب سے بڑی استاد ہے ‘ سکھانے والوں میں سب سے بڑی سکھانے والی اور قوتوں میں سب سے بڑی قوت ہے۔ یہ انسانوں کے دل فتح کر لیتی ہے‘ جمادات اور نباتات کے دل فتح کر لیتی ہے۔ کسی پودے کو آپ پیار دے کر دیکھئے‘ پانی دیجئے‘ خبرگیری کیجیے وہ لہلہا اٹھتا ہے‘رنگ برنگ کے پھول آپ کی گود میں ڈال دیتا ہے۔ جس کو بھی آپ محبت دیں گے وہ مفتوح ہو جائے گا۔ اس کا دل بھی فتح ہو جائے گا اور وہ آپ کا غلام بھی بن جائے گا۔

یہ اللہ تعالیٰ کی محبت ہے اور اللہ کے واسطے سے اور بہت ساروں کی محبت‘ یعنی اس کے رسولؐ کی ‘ اُس کی کتاب کی ‘اُس کے دین کی ‘ اُس کی امت کی اور اس کی راہ میں ساتھ چلنے والوں کی ۔ یہی محبت کی زندگی ہے۔ اِس کی کمی اُن سارے مسائل کی جڑ ہے جو ہمیں درپیش ہیں۔ جتنی یہ محبت پیدا ہوتی جائے گی‘ دل میں اترتی جائے گی اور جتنی رچتی بستی جائے گی اتنا ہی مسائل کا جنگل صاف ہوتا چلا جائے گا۔ اس لیے میرے بھائیو اور بہنو‘ سب سے بڑھ کر تو اسی محبت کی فکر کرنی چاہیے۔

یہ محبت مصنوعی ذرائع سے پیدا نہیں کی جا سکتی۔ یہ اس طرح کی طبعی چیز بھی نہیں ہے جس طرح باپ کو بیٹے سے ہو جاتی ہے‘ ایک مرد کو عورت سے ہو جاتی ہے یا آدمی کو کسی حسین چیز سے ہو جاتی ہے۔ لیکن حُسن‘ جمال اور کمال اگر سب سے بڑھ کر کسی کے پاس ہے تو وہ حبیب حبیب ِعالمؐ ہیں۔ اُسی کے حُسن کا ایک جلوہ ہے جو کائنات میں ہر جگہ دکھائی دیتا ہے۔ جدھر بھی دیکھیں گے حُسن بکھرا ہوا ہے‘ پہاڑوں اور درختوں اور پھولوں اور پرندوں میں‘ ہر جگہ اُس کا حسن جلوہ گر ہے۔ یہی حسن ازلی‘ ابدی اور اعلیٰ ہے۔

حسن سے ہی احسان نکلا ہے۔ احسان کی کوئی حد نہیں ہے۔ ہر ذی نفس کا ہر سانس جو اندر جاتا ہے وہ بھی اُس کا احسان ہے اور جو باہر آتا ہے وہ بھی اس کا احسان ہے۔ہر لقمہ جو آدمی اپنے ہاتھ سے منہ میں رکھ رہا ہے یہ اسی کی توفیق و عنایت ہے۔ انسان خود نہیں رکھتا۔پانی کا ہر گھونٹ جو آدمی سمجھتا ہے کہ میں نے اٹھا کر پیا ہے وہی پلاتا ہے۔ وَالَّذِیْ ھُوَ یُطْعِمُنِیْ وَیَسْقِیْنِo (الشعراء ۲۶:۷۹) ’’وہی ہے جو مجھے کھلاتا ہے اور پلاتا ہے‘‘ ۔ آدمی دوا کھا کر سمجھتا ہے کہ میں تو ٹھیک ہو گیا‘ ڈاکٹر نے بڑی اچھی دوا دی لیکن حقیقت یہ ہے کہ وَاِذَا مَرِضْتُ فَھُوَ یَشْفِیْنِo  (الشعراء ۲۶:۸۰)’’جب بیمار ہوتا ہوں تو وہی شفا بخشتا ہے‘‘۔ کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو اس کے بغیر مل سکتی ہے۔ اگر مل سکتی تو دینے والا خود خدا بن جاتا اور جو خدا سے بے نیاز ہو کر دے سکتا وہ تو خود خدا ہوتا۔ کائنات میں دو خدا تو نہیں ہیں۔ ایک ہی خدا ہے۔ دینے والا بھی ایک ہی خدا ہے‘ کوئی اور نہیں ہے اور ہو نہیں سکتا۔

محبت میں یہ تقاضا نہیں ہے کہ صرف اُسی سے محبت ہو‘ بلکہ یہ تقاضا ہے کہ سب سے بڑھ کر اس سے محبت ہو۔ اس نے اور بھی محبتیں رکھی ہیں‘ اور بھی چیزوں کو محبوب بنایا ہے: مال کی محبت‘ عزیز و اقربا کی محبت‘ دنیامیں اپنے لیے عزو جاہ کی محبت‘ یہ سب اُسی نے رکھی ہیں۔  زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّھَوٰتِ مِنَ النِّسَآئِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْْطَرَۃِ مِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوََّمَۃِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِط (آلِ عمران ۳:۱۴) ’’لوگوں کے لیے مرغوبات نفس--- عورتیں‘ اولاد‘ سونے چاندی کے ڈھیر‘ چیدہ گھوڑے‘ مویشی اور زرعی زمینیں ---بڑی خوش آیند بنا دی گئی ہیں‘‘۔ بہت ساری چیزیں ہیں جن کی محبت رکھ دی گئی۔ لیکن فرمایا کہ سب سے بڑھ کر محبت تو اُسی کے لیے ہونی چاہیے۔ جب اس کی محبت کا تقاضا آجائے تو وہ سب پر غالب ہونا چاہیے۔ اس میں پھر کوئی اشتباہ کی گنجایش نہیں ہونی چاہیے۔ اسی لیے قرآن مجید میں تو نہیں‘ لیکن سابقہ صحِف سماوی میں اللہ تعالیٰ جب اپنی محبوب امت سے بات کرتا ہے تو جو استعارے اور تشبیہات استعمال کرتا ہے وہ یہ کہتا ہے کہ اے میری محبوب امت! تو بدکار عورت کی طرح جگہ جگہ جا کر آشنائیاں کیوں کرتی ہے؟یہود و نصاریٰ سے اللہ تعالیٰ جب خطاب کرتا ہے تو کہتا ہے کہ بدکار عورت کی طرح جگہ جگہ آشنائیاں کیوں کرتے پھرتے ہو؟ در در پر جا کر سر کیوں جھکاتے ہو؟ میرے ہو جائو تو میں تمھارا ہوں۔ جب میں تیرا ہوں تو دنیا میں تجھے اور کس کی ضرورت ہے؟ کسی کی بھی ضرورت نہیں ہے۔

اگر ہم اس کا کام کرنے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں تو کتنا ہی ہم سر مار لیں‘کوشش کر لیں‘ اُسی کے بن جانے اور اُسی کی محبت میں غرق ہوئے بغیر یہ راہ طے نہیں ہو سکتی۔ مجھے تو اس بات کا یقین ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود یہ فرمایا ہے کہ اگر تم نہیں تو پھر دوسری قوم لائوں گا اور سب سے بڑھ کر اُن کی پہلی صفت یہی ہو گی کہ وہ محبت کی زندگی گزاریں گے‘ میں اُن سے محبت کروں گا وہ مجھ سے محبت کریں گے۔ باقی صفات کا ذکر تو بعد میں آتا ہے سب سے پہلے یہ ہے ‘ اس کے بعد ہی وہ کام کر سکیں گے جو اُن کے سپرد کیا گیا ہے۔

محبت کوئی اجنبی چیز تو نہیں‘ جانی پہچانی چیز ہے۔ اگر آپ پوچھیں کہ محبت کیا ہوتی ہے توکوئی اس طرح بتا نہیں سکتا کہ محبت کیا ہوتی ہے۔ لیکن کس کو ان میں سے ہرچیز کا تجربہ نہیں ہے۔ محبت ہوتی ہے تو اُسی کی طرف دھیان لگا رہتا ہے‘ اسی کا خیال رہتا ہے‘ اُسی کا نام زبان پہ رہتا ہے۔ اُس سے ملاقات کے لیے جو موقع مل جائے غنیمت ہوتا ہے۔ اگر پانچ وقت مل جائے تو اس سے بڑھ کر محبت کرنے والے کی اور کیا سعادت ہو سکتی ہے؟ خود بلائے ‘ دروازہ کھول دے‘ یہ تو اس کا بہت بڑا قُرب دینے اور قریب کرنے کا اعلان ہے۔ جب اُس سے روبرو ملاقات کی گھڑی آئے تو اُس سے ملاقات کا شوق اسی محبت کی علامت اور نشانی ہے۔ پھر جو کام کریں اس طرح کریں کہ اُس کو خوش کر دیں۔ انسان دُھن میں لگا ہو توکسی کو بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ خود ہی دُھن میں لگا رہتا ہے۔ دھیان اسی میں لگا رہتا ہے اور ایسے ایسے کام بھی کرتا ہے جو محبوب نے فرض اور لازم نہیں کیے۔ جو فرض کیے وہ تو بجا لاتا ہے مگر جو فرض نہیں کیے اُن کے پیچھے بھی لگا رہتا ہے کہ اس سے بڑھ کر تو قربت کا کوئی ذریعہ ہی نہیں ۔ کہاں سے‘ کس طرح‘ کون سا ایسا موقع مل جائے جس سے اُس کو خوش کر دوں اور اس کے قریب ہوتا چلا جائوں۔

یہ سب محبت کی وہ علامتیں ہیں جو سب جانتے ہیں۔ دل میں ایک آگ لگ جاتی ہے اور اس آگ کے اندر سب تعلقات بھسم ہو جاتے ہیں۔ایک ہی تعلق طاری رہتا ہے اور دل کے اوپر چھاجاتا ہے۔ یہ سب نشانیاں آپ جانتے ہیں۔ اس کی میزان میں رکھ کے اپنے دل کو تول سکتے ہیں۔ اس کی ملاقات ‘ اُس کا ذکر‘ اُس کی یاد‘ اُس کی رضا‘ اُس کی خوشنودی کی کوشش زندگی کے اندر کتنی ہے‘ خود اپنے اندر پیدا کریں ‘ جو ساتھی آپ کے ساتھ چل رہے ہیں‘ دو ہوں ‘چار ہوں یا جتنے بھی‘ ان کے اندر پیدا کریں ‘ آپ کا اور آپ کے کام کا نقشہ بدل جائے گا۔ وہی کام جو آپ ٹہل ٹہل کر کرتے ہیں‘ وہ دوڑ دوڑ کر کریں گے۔وہی زبانیں جو دعوت کے لیے نہیں کھلتیں ‘ وہ کھلنے لگیں گی‘ اس لیے کہ پھر میں خود زبان بن جاتا ہوں۔ وہی پائوں جو اب نہیں اُٹھتے‘ وہ اٹھنے لگیں گے‘ اس لیے کہ وہ ہاتھ میں خود بن جاتا ہوں۔ وہی ہاتھ جو کام نہیں کرتے‘ وہ کام کرنے لگیں گے اس لیے کہ وہ پائوں میں خود بن جاتا ہوں۔ یہی وہ مقام ہے جب آدمی دوڑ دوڑ کے اس کے لیے کام کرتا ہے۔ ایک مختصر سی دعا حدیث میں آتی ہے کہ:

رَبِّ اجْعَلْنِیْ لَکَ ذَکَّارًا لَکَ شَکَّارًا لَکَ رَھَّابًا لَکَ مِطْوَاعًا لَکَ مُطیْعًا اِلَیْکَ مُخْبِتًا اِلَیْکَ اَوَّاھًا مُّنِیْبًا (ترمذی‘ عن ابن عباسؓ)

اے میرے اللہ‘ مجھے ایسا بنا دے کہ تجھے بہت یاد کروں‘ تیرا بہت شکر کروں‘ تجھ سے بہت ڈرا کروں‘ تیری بہت فرمانبرداری کیا کروں‘ تیرا بہت مطیع رہوں‘ تیرے آگے جھکا رہوں‘ اور آہ آہ کرتا ہوا تیری ہی طرف لوٹ آیا کروں۔

یہ سب محبت کی تصویریں ہیں:خوب ہروقت مجھے یاد کرو۔ ہر وقت میرا شکر کرتے رہو۔ خوف بھی ہو‘ محبت بھی۔ محبت اور خوف کا ایک دوسرے کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جہاں محبت ہوتی ہے وہاں دل ہر وقت دھڑکتا رہتا ہے‘ پتا نہیں کب یہ محبت چھن جائے۔ اس کا خوف ہوتا ہے کہ کوئی ایسا کام نہ ہو جائے جو محبوب کو ناگوار گزرے۔یہ کوڑے کا خوف نہیں ہوتا بلکہ یہ خوف اس کا ہوتا ہے کہ نہ جانے کب کوئی ایسی چیز ہو جائے جس سے میرا محبوب‘ میرا رب مجھ سے ناراض ہو جائے۔ دوڑ دوڑ کر تیرے کام کروں۔ جو فرض نہیں ہیں وہ بھی کروں۔ لَکَ مُطیعًا تیرا بہت مطیع رہوںاور لَکَ مُخْبِتًا اور تیری طرف جھکا رہوں  اور ہائے ہائے واہ واہ کرکے تیرے در پہ لوٹ آیا کروں۔

حبیب کے حبیبؐ نے فرمایا کہ اللہ سے اس لیے محبت کرو کہ اس کے انعامات تم پر   بے پایاں ہیں اور مجھ سے اللہ کے لیے کرو (ترمذی)۔ جو اللہ کا حبیب ہے ‘ اللہ نے اس کو اپنے کام کے لیے بھیجا ہے۔ اُس کے ذریعے اُس نے ہم پر اپنی ساری نعمتیں تمام کر دیں۔ قرآن مجید‘ اپنا دین ‘ اپنی ہدایت‘ اپنی جنت کاراستہ اور جہنم سے بچنے کا راستہ ‘ سب کچھ اُنہی کے ذریعے ملا ہے۔ ان سے محبت کا تو یہ عالم تھا کہ لوگ نگاہ بھر کر دیکھ نہیں پاتے تھے۔ مجلس میں سناٹا رہتا تھا۔ وضو کا پانی زمین پر نہیں گرنے پاتا تھا۔ تھوکتے تھے تو چاہنے والے وہ بھی زمین پر نہیں گرنے دیتے تھے۔ یہ بھی محبت کی علامتیں تھیں۔ ان میں سے کوئی چیز فرض نہیں تھی۔ کسی چیز کا دین میں مطالبہ نہیں تھا۔ ایک آدمی آیا اور اس حال میں آپؐ سے ملا کہ آپؐ کے گریبان کے بٹن کھلے ہوئے تھے۔ عمر بھر باپ اور بیٹے نے اپنے گریبان کے بٹن بند نہیں کیے۔ دین کا کوئی مطالبہ نہیں تھا کہ ایسا کرنا ضروری ہے۔ ایک اور آدمی آیا اس نے دیکھا کہ آپؐ  کی چپل کے تسموں پر بال ہیں۔ اُس نے ہمیشہ وہی چپل پہنے۔ ایک اور آدمی آیا اس نے دیکھا کہ آپؐ سالن میں کدو کے ٹکڑے تلاش کر رہے ہیں۔ اس کے ہاں کبھی کوئی سالن نہیں پکا جس میں کدو نہ ڈلا ہو اور اس میں کدو کے ٹکڑے نہ تلاش کیے ہوں۔ اُن میں سے کوئی چیز بھی فرض نہیں تھی۔ اور جو چیزیں فرض کیں‘ جن کا مطالبہ کیا---مکے کی گلیاں ‘ عکاظ کے میلے‘ طائف کی وادی‘ بدر و حنین کے میدان--- بھلا جو قمیض کے بٹن بھی بند نہ کرتے ہوں‘ کدو کے ٹکڑے بھی نہ چھوڑتے ہوں آپ کا کیا خیال ہے کہ وہ اِن میں پیچھے رہ سکتے ہیں؟ پھر انھوں نے اسپین سے لے کر چین تک سب کو بدر و حنین کا میدان بنا دیا۔ جو کام قومیں ہزاروں برس میں کرتی ہیں‘ وہ کام انھوں نے سوبرس میں کر دیا۔ یہ اِسی محبت کا نتیجہ ہے۔ یہی محبت تو اُن کا سارا سرمایہ تھی۔ ہر دل میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپؐ کے دل کا ایک ٹکڑا آگیا۔ ہر شخص چلتا پھرتا قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر بن گیا۔ یہی وہ لوگ تھے جن کے آگے قوموں کی قومیں ‘شہروںکے شہر او ر ملک کے ملک سپرانداز ہو گئے اور بچھتے چلے گئے۔ اس لیے کہ محبت فاتحِ عالم ہوتی ہے۔ اللہ کی محبت اور اس کے رسولؐ کی محبت یقینا سارے عالم کو فتح کر لیتی ہے۔ آپ ؐ کے پاس اس کے سوا کوئی اور نسخہ نہیں تھا۔ نہ وعظ تھے‘ نہ لٹریچر تھا‘ نہ کتابیں تھیں‘ کچھ نہیں تھا‘ بس محبت کی تفسیر تھے‘ زندہ چلتی پھرتی تصویر تھے۔

ایک آدمی آیا۔ اُس نے پوچھا قیامت کا دن کب آئے گا؟ فرمایا پوچھ تو رہے ہو‘ کچھ تیاری بھی کی ہے؟ کہا نہیں۔ نماز روزے‘ یہ تو بہت مشکل ہیں۔ صرف اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت کرتا ہوں۔ فرمایا جس سے محبت کرتے ہو اُسی کے ساتھ رہوگے۔ حضرت انسؓ بن مالک روایت کرتے ہیں کہ میں نے صحابہؓ کی زندگی میں اس سے زیادہ خوشی کا کوئی دن نہیں دیکھا کہ جب یہ خوشخبری سُنی کہ نمازیں بھی کم ہیں‘ روزے بھی کم‘ کوئی وسیع سرمایہ ساتھ نہیں ہے‘ بس اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہے۔ فرمایا کہ مجھے یہ بشارت ملی کہ پھر تو قربت بھی ہے‘ ساتھ بھی ہے اور پاس بیٹھنا بھی ہو گا اور ملنا جلنا بھی ہو گا۔

کسی نے کہا کہ آدمی محبت تو کرتا ہے مگر پہنچ نہیں سکتا۔ پہنچ نہ سکناتو بہت بلیغ بات ہے۔ ۱۴ سو برس کے زمانے کا فاصلہ ہے۔ مکان کا بھی فاصلہ ہے۔ بہت دور ہے جا نہیں سکتے۔ عمل کا بھی فاصلہ ہے کہ ہمارے عمل کی اُن کے عمل کے ساتھ کوئی نسبت نہیں ہے۔ فرمایا کہ محبت تو ایسا نسخہ ہے کہ ساری دوریوں اور فاصلوں کے باوجود آدمی اُسی کے ساتھ جائے گا جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپؐ کے پیچھے چلنا اللہ کی محبت کی کسوٹی ہے۔یہ محبت کا سیدھا راستہ ہے۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ  (آلِ عمران۳: ۳۱)۔ ’’اے نبیؐ ، لوگوں سے کہہ دو کہ ’’اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو‘ اللہ تم سے محبت کرے گا‘‘۔اگر اللہ سے محبت کا دعویٰ ہے تو میرے پیچھے پیچھے چلو اور میرے بن جائو‘ میرے نقشِ قدم پر چلو‘ جن راستو ں سے میں گزرا ہوں‘ اُن سب سے گزرو۔ اگر میں کہوں کہ مکہ کی گلیوں سے گزرو‘ عکاظ کے میلوں سے گزرو‘ طائف کی وادی سے گزرو اور بدر و حنین کے میدان سے بھی گزرو‘ تو ان سب مقامات سے بلاجھجک گزرواس لیے کہ یہی محبت کا تقاضا ہے۔

اتّباع کے معنی اطاعت کے نہیں ہیں۔ اطاعت کا لفظ الگ ہے۔اطاعت کے معنی تو کہنا ماننے اور حکم ماننے کے ہیں‘ اور اتباع کے معنی پیچھے پیچھے چلنے کے ہیں۔ پیچھے پیچھے تو ہر آدمی چلا جائے گا‘ محبوب جدھر جائے گا اُس کے پیچھے جائے گا۔ جہاں وہ چلا ہو گا اس کے پیچھے چلے گا۔ جو نقشِ قدم اُس نے چھوڑے ہوں گے اُنہی کو وہ پیار کرے گا انہی کے اوپر وہ اپنے قدم بھی رکھے گا۔

یہ محبت بھی آسانی سے نہیں حاصل ہو سکتی۔ایک واقعہ آپ نے بھی پڑھا ہو گا‘ میں نے بھی پڑھا ہے۔ پڑھ کے دل لرز جاتا ہے اور بڑی محبت بھی پیدا ہو تی ہے۔ غزوہ احد کا واقعہ ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ زخموں سے چور اور جان بہ لب تھے۔ محبت میں یہاں تک پہنچ گئے۔ آپؐ کے پاس بھی لائے گئے۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپؐ اپنا پائوں میرے چہرے پر رکھ دیں۔ لوگ تو بڑے دعوے کرتے ہیں محبت کے‘ لیکن حضورؐ کے قدموں کے نیچے آنے کے مقام تک پہنچنے کے لیے اس کیفیت میں ہیں کہ پورا جسم خونم خون‘ زار و نزار‘ جان لبوں پر ہے تو اس کے بعد انھوں نے اپنے آپ کو اس کا مستحق سمجھا یا محبت میں یہ آرزو ہوئی کہ قدمِ مبارک چہرے کے اوپر ہوں۔ یہ آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔

وہ لوگ جو دین کے راستے پر ساتھ چل رہے ہیں ان کے لیے اس میں بہت رہنمائی ہے۔ آپ ؐنے فرمایا کہ اپنے آپ کو باندھ لو‘ اس کے ساتھ جمالو‘ جم جائو‘  ناگواریاں بھی ہوں تو صبر اختیار کرو۔ وَلَا تَعْدُ عَیْنٰکَ عَنْہُمْج (الکھف ۱۸:۲۸) ’’اور اُن سے ہر گز نگاہ نہ پھیرو‘‘نگاہیں ہٹنے نہ پائیں۔ یہی ساتھی سرمایہ ہیں۔کچے بھی ہیں اور پکے بھی۔ گناہ گار بھی ہیں اور نیک بھی ‘پُختہ بھی ہیں اور ناپختہ بھی ہیں۔ جو بھی ہیں وہ سب جو ساتھ چل رہے ہیں‘ ان میں سے ہر شخص قیمتی ہے۔ ہر شخص ایک سرمایہ ہے۔ کالے بھی ہیں اور گورے بھی‘ پڑھے لکھے بھی ہیں اور جاہل بھی۔ اچھے اخلاق والے بھی ہیں اور بد اخلاق بھی۔ آکے چادر کھینچ لیتے ہیں‘ بُرا بھلا کہتے ہیں‘ طعنے دیتے ہیں پھر بھی وہ محبوب رہتے ہیں۔ عذر پیش کرتے ہیں وہ قبول کر لیے جاتے ہیں۔ غلطی کرتے ہیںتو معاف کر دیے جاتے ہیں اورسینے سے لگا لیا جاتا ہے۔کوئی مثال نہیں ملتی کہ کوئی دھتکار کے باہر کر دیا گیا ہو۔

یہی تو وہ لوگ ہیں جن سے کام ہونا ہے۔ انھی کی تائید سے تو دین غالب ہوا۔ ھُوَ الَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ o (الانفال۸:۶۲) ’’وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعے سے تمھاری تائید کی‘‘۔  یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰہُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَo (الانفال ۸:۶۴) ’’اے نبیؐ ، تمھارے لیے اور تمھارے پیرو اہل ایمان کے لیے تو بس اللہ ہی کافی ہے ‘‘۔

یہ مومنین کی جماعت ہی تو ہے جس کی جدو جہد سے پورا کا پورا دین نافذ ہوگا‘ فتنہ مٹے گا اور دین کا کلمہ غالب ہو گا۔ ان میں سے تو ہر شخص بڑا قیمتی ہے۔ کوئی شخص بھی ایسا نہیں جس کی قدر و قیمت کم کی جائے۔ ہر شخص کا دل اللہ کی یاد کا مسکن ہے۔یہ تو خانۂ کعبہ سے بھی زیادہ محترم ہے۔ خانۂ کعبہ کیا ہے؟ مٹی کا گھر ہے۔ یہ تو گوشت کا دل ہے جو اللہ نے خود بنایاہے۔ جس میں وہ خود بستا ہے۔ اس کی یاد بستی ہے۔ اس کی محبت بستی ہے۔ اس کا ایمان بستا ہے۔ اس کی ناقدری کی جائے اور اس کو آدمی جھڑک دے‘ اس کو ایذا پہنچائے‘ اس کو تکلیف دے‘ اس کی پروا نہ کرے ‘ اس کی برائی کرتا پھرے‘ اس کوگالی دے‘ اس کا مذاق اڑائے‘ یہ کیسے ہو سکتا ہے! اسی لیے فرمایا کہ جس نے کسی مسلمان کو خوش کیا اُس نے مجھے خوش کیا۔ جس نے مجھے خوش کیا اُس نے اللہ کو خوش کیا۔ جس نے کسی مسلمان کو ایذا پہنچائی اس نے مجھے ایذا پہنچائی اور جس نے مجھ ایذا پہنچائی اس نے اللہ کو ایذا پہنچائی۔ آپ بتائیے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ  محبوب ہوں تو کیا اس کے بعد اب کسی ہدایت کی ضرورت ہے؟ یہ تو خود اپنی جگہ پر کافی ہے۔ جب اللہ پیارا ہے‘ اللہ کے محبوبؐ پیارے ہیں تو پھر اللہ کے کسی بندے کو‘ اپنے کسی ساتھی کو کیسے تکلیف پہنچائی جا سکتی ہے۔ کوئی ایسی بات زبان پر کیوں آئے‘ ہاتھ سے ایسا کام کیوں ہو‘ روش ایسی کیوں ہو جس سے اُس کو تکلیف ہو۔جن کو ہم نے آگے کھڑا کر دیا ہے وہ بھی اُسی طرح محبوب ہیں‘ اور جو ہمارے پیچھے ہیں وہ بھی اسی طرح محبوب ہیں۔ یہ محبت کا رشتہ ہے۔

اب کوئی آگے چلنے والا یہ حق تو نہیں رکھتا کہ وہ کہہ سکے کہ میں تمھاری جان ‘مال ‘ والدین سب سے زیادہ پیارا ہوں۔ یہ مقام تو صرف اللہ کے رسولؐ کے لیے۔ لیکن اِسی کا کچھ حصّہ کہیں نہ کہیں تو آئے گا جس سے جماعتیں مضبوط ہوں گی اور ایران و روم فتح کرنے کے قابل ہوں گے۔ خشک احتساب جماعتوں کو صحیح تو رکھ سکتا ہے‘ مگر اُن کے اندر سیلاب کی وہ قوت نہیں پیدا کر سکتا کہ دنیا کے اوپر چھا جائے۔ یہ سیلاب کی قوت تو محبت ہی پیدا کر سکتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے رحما کی مثال دی ہے ‘  مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ط وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ ٓ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ (الفتح ۴۸:۲۹) ’’محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں‘‘۔ اس کا نتیجہ تھا کہ وہ بیج کونپل بنی‘ درخت بنا اور پھر تناور درخت بن گیا۔ آپس کی محبت اور رحمت پر مبنی اس کی اینٹیں ایک دوسرے کے ساتھ آپس میں محبت کے سیمنٹ سے جڑی ہوئی ہیں۔وہی جماعت اس قابل ہے کہ اس کا ننھا منا بیج تناور درخت بن جائے۔ عام انسان‘ہر انسان جس کو اللہ نے پیدا کیا‘ گوشت پوست کا انسان جس کے اندر اس نے اپنی روح پھونکی ہے (نفختُ فیہ من روحی)۔ ہر انسان جو گناہ گار ہے‘ اس کا گناہ آپ کو کتنا ہی ناپسند کیوں نہ ہو‘ نفرت کا مستحق نہیںہے۔ گناہ گار بھی آتے تھے‘ جانی دشمن بھی آئے‘ چچا کا کلیجہ چبانے والے بھی آئے‘ مکے کے پورے ۱۳سال گالیاں دینے والے‘راہ میںکانٹے بچھانے والے بھی آئے‘ مرد بھی آئے‘عورتیں بھی آئیں‘ بیٹی کے اوپر برچھا مارنے والا جس کے نتیجے میں اُن کا اسقاط حمل ہوگیا وہ بھی آیا‘ سب کو گلے سے لگا لیا اور سب سے کہا کہ آئو آج سے تم میرے بھائی ہو اوروہی پھر قوت بن گئی۔

وہ چند افراد کی قوت نہیں تھی۔ مہاجرین و انصار نے ساری دنیا فتح کی۔وہ تو لیڈر تھے ‘ قائد تھے‘وہ آگے چلنے والے تھے۔ انسانی قوت تو ان سے آئی جن کے دلوں کو اونٹ دے کر اور مالِ غنیمت دے کر جیتا گیا۔

فرمایا کہ بھوکے کے پاس جائو تو اپنے رب کو وہاں پائو گے۔ تم اسے کہاں تلاش کرتے پھرتے ہو؟ پیاسے کے پاس جائو تو مجھے وہاں پائو گے‘ اور بیمار کے پاس جائو تو مجھے وہاں پائو گے۔ تم مجھے کہاں تلاش کرتے ہو؟ مجھے بندوں میں تلاش کرو۔ ان کے پاس جائو گے‘ ان سے محبت کرو گے تو پھر وہ تمھارے ہو جائیں گے اور تم اُن کے ہو جائو گے۔

میرے بھائیو اور دوستو! یہ بنیادی سبق ہے۔ یہ دین کی بنیاد ہے۔ حمد کا کلمہ بھی محبت کا کلمہ ہے۔ شکر اور تعریف محبت کے بغیرنہیں ہوسکتی اور محبت تو شکر کے بیج سے پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کا آغاز بھی اسی کلمے سے فرمایا:  الحمد للّٰہ۔ اورجب دین تکمیل تک پہنچ گیا تو پھر فرمایا:  فسبّح بحمد ربک۔ شکر ہی تو محبت کا بیج ہے۔ اِسی سے محبت کا درخت پھوٹتا ہے‘ اس کی شاخیں نکلتی ہیں‘ پتے آتے ہیں‘ پھول کھلتے ہیں‘ پھل نکلتے ہیں۔ یہ دین کی بنیاد ہے‘ ایمان کا تقاضا ہے۔ ایمان کی راہ عشق و محبت کی راہ ہے اور اسی سے یہ منزل آسان ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی نسخہ میں نہیں جانتا۔

میں پھر اپنی بات دُہرائوں گا کہ تم اگر اس معیار پر پورے نہیںاترو گے تو پھر تمھارے ہاتھوں سے یہ کام نہیں ہو گا۔ پھر اللہ دوسرے لوگ لائے گا۔ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰہُ بِقَوْمٍ (المائدہ ۵:۵۴)  ’’وہ دوسری قوم لے کر آئے گا‘‘۔ اور اس گروہ کی پہلی خصوصیت ہی ہو گی کہ وہ اللہ کی محبت کے نشے میں سرشار ہوں گے اور اللہ تعالیٰ ان سے محبت رکھتا ہو گا۔ اس کے بعد سارے کام آسان ہوں گے‘ دین غالب ہو گا‘ پھر زندگی ٹھکانے لگے گی۔ پھر تھوڑے عمل سے بھی بڑے بڑے نتائج پیدا ہوں گے۔

اللہ تعالیٰ مجھے آپ سب کو اسی محبت کا حصّہ عطا فرمائے۔ (کیسٹ سے تدوین:  م - س)

محترم خرم مرادؒ لاہور میں گارڈن ٹائون کی مسجد بلال میں خطبہ جمعہ سے قبل ۴۰ منٹ کا خطاب کرتے تھے۔ یہ سلسلہ ۱۹۹۰ء سے جنوری ۱۹۹۶ء میں آخری سفر کے لیے برطانیہ روانگی تک‘ بیرونی سفر اور بیماری کے وقفوں علاوہ‘ مسلسل جاری رہا۔ انھوں نے یہ خطاب ایک اسکیم کے تحت ایمانیات‘ عبادات‘ عبادات قلبی‘تعلق باللہ‘ فضائل اخلاق‘ رذائل اخلاق‘ اُمت‘ دعوت و جہاد سے متعلق موضوعات پر احادیث کو بنیاد بنا کر کیے تھے۔ ۲۴ آخری سورتوں کے اور دعائوں کے درس بھی یہیں ہوئے۔ یہ خطاب وہ ہمیشہ مکمل تیاری کرکے کرتے تھے‘ کبھی وقت گزاری نہ کی۔ ان خطابات کو کیسٹ سے تدوین کر کے پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ دیگر تحریکی رسائل میں بھی شائع ہو رہے ہیں۔ یہاں ان میں سے ایک پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم الشان کارنامہ یہ ہے کہ آپؐ نے انسانوں کو بھی بدلا‘ ان کی سوسائٹی بھی بدلی اور ان کی پوری دنیا بھی بدل دی۔ اس کام کو آپؐ نے کیسے سرانجام دیا‘ وہ کون سی کنجی تھی جس سے آپؐ نے لوگوں کی زندگیوں کے تالے کھول دیے اور ان کوبدل کر ان کے ذریعے ساری دنیا کو بدل دیا؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب درج ذیل حدیث میں دیا    گیا ہے۔

اس حدیث کو ایک انصاری صحابی حضرت نعمان بن بشیرؓ نے روایت کیا ہے اور اس طرح روایت کیا ہے کہ جب انھوںنے یہ بیان کیا کہ میں نے اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے تو انھوں نے اپنے کانوں کی طرف اپنی انگلیوں سے اشارہ کیا کہ یہ وہ کان ہیں جن سے سنا ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ میں نے رسولؐ اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

الْحَلاَلُ بَیِّنٌ وَالْحَرَامُ بَیِّنٌ وَّبَیْنَھُمَا مُشْتَبِھَاتٌ لاَّ یَعْلَمُھَا کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ فَمَنِ اتَّقَی الْمُشْتَبِھَاتِ اسْتَبْرَاَلِدِیْنِہٖ وَعِرْضِہٖ وَمَنْ وَقَعَ فِیْ الشُّبْھَاتِ کَرَاعٍ یَّرْعٰی حَوْلَ الْحِمٰی یُوْشِکُ اَنْ یُّوَاقِعَہٗٓ اَلاَ وَاِنَّ لِکُلِّ مَلِکٍ حِمًی اَلاَ اِنَّ حِمَی اللّٰہِ فِیْ اَرْضِہٖ مُحَارِمُہٗ اَلاَ وَاِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃً۔ اِذَا صَلُحَتْ صَلُحَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ اَلاَ وَھِیَ الْقَلْبُ (بخاری‘کتاب الایمان‘ باب فضل من استبرالدینہ)

بے شک حلال واضح اور صاف ہے اور بے شک حرام بھی واضح اور صاف ہے اور ان دونوں کے درمیان شبہہ والی چیزیں ہیں جن کو اکثر لوگ نہیں جانتے۔ تو جس نے اپنے آپ کو شبہے والی چیزوں سے بچایا اس نے اپنے دین کو اور اپنی عزت کو محفوظ کرلیا۔ اور جو مشتبہ چیزوں کے اندر پڑ گیا تو پھر وہ حرام میں پڑ گیا۔ جس طرح کہ کوئی چَرانے والا کسی بادشاہ کی مخصوص چراگاہ کے گرد جائے اور قریب ہے کہ وہ اسی چراگاہ کے اندر داخل ہوکر چَرنا شروع کردے۔ اچھی طرح سن لو اور جان لو کہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے اور اچھی طرح سن لو اور جان لو کہ اللہ کی چراگاہ وہ چیزیں ہیں جن کو اس نے حرام کیا ہے ۔ اور اچھی طرح سن لو اور جان لو کہ جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے۔ اگر وہ سدھر جائے تو ساراجسم سدھر جاتا ہے اور اگر وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے اور اچھی طرح سن لو اور جان لو کہ یہ قلب ہے۔

اس حدیث کو بخاری اور مسلم دونوں میں روایت کیا گیا ہے۔ جو الفاظ میں نے آپ کے سامنے پڑھے ہیں وہ بخاریکے الفاظ ہیں۔ دونوں کے الفاظ میں کوئی خاص فرق نہیں ہے لیکن جس حدیث کو بخاری اور مسلم دونوں نے بیان کیا ہو وہ اپنی صحت کے لحاظ سے بہت اونچے درجے کی حدیث شمار ہوتی ہے۔حدیث کی بعض کتابوں کو دوسرے طبقے میں شمار کیا جاتا ہے۔ پہلے طبقے میں بخاری‘ مسلم اور مؤطا امام مالک ہیں اور دوسرے طبقے میں ترمذی‘ نسائی‘ ابوداؤد‘ ابن ماجہ اور دارمی کی کتابیں ہیں۔ دوسرے طبقے کی کتابوں میں سے ابن ماجہ اور دارمی نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے اور ان کے الفاظ بھی تقریباً وہی ہیں جو میں نے آپ کے سامنے پڑھے ہیں۔

اس حدیث کو محدثین اور علماے کرام نے بہت عظیم الشان حدیث قرار دیا ہے بلکہ بعض لوگوں نے یہاں تک کہا ہے کہ اسلام کامدار اس حدیث پر ہے‘ یا یہ کہ یہ ان تین یا چار احادیث میں سے ایک ہے جن پر پورے اسلام کی بنیاد قائم ہے۔

اس حدیث کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ حلال اور حرام اور مشتبہات کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات ہم تک پہنچاتا ہے اور دوسرا حصہ دل یا قلب کے بارے میں ہے۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دونوں حصوں کا آپس میں کوئی گہراتعلق نہیں ہے۔ محدثین نے عام طور سے اس بات کو کوئی اہمیت نہیں دی ہے کہ ان دونوں حصوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ کیوں جمع کیا؟ ہم اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کریں گے۔ لیکن پہلا حصہ جو کہ حلال و حرام اور مشتبہات کے بارے میں ہے اس پر ہم بعد میں گفتگو کریں گے‘ اور دوسرا حصہ جو دل کے بارے میں ہے اس پر ہم پہلے گفتگو کریں گے۔ اس طرح اس حدیث کاجو مطلب ہے اور اس میں ہمارے لیے جو ہدایت ہے اس کا سمجھنا ہمارے لیے آسان ہوگا۔

دوسرے حصے میں آپؐ نے یہ فرمایا کہ جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے‘ اگر وہ سدھر جائے‘ سنور جائے‘ ٹھیک ہوجائے تو سارا جسم سدھر جاتا ہے‘ اور اگر وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے۔ اچھی طرح جان لو کہ یہ قلب ہے!

’’ قلب‘‘ سے مراد

پہلا سوال یہ ہے کہ یہاں قلب کا کیا مطلب ہے؟ حدیث کے الفاظ تو یہ بتاتے ہیں کہ جسم میں دل کی شکل میں گوشت کا جو ٹکڑا ہے‘ آپؐ نے اسی کی طرف اشارہ فرمایا ہے لیکن قرآن مجید اور حدیث میں قلب کی اصطلاح بہت وسیع معنوں میں استعمال ہوئی ہے۔ اس کے مطابق ہماری پوری شخصیت کا نام قلب ہے۔ یہ جسم فنا ہوجائے گا اور انسان کی روح جس کو قرآن مجید میں قلب بھی قرار دیاگیا ہے وہ باقی رہ جائے گی۔ انسان کی شخصیت کے مختلف پہلو قلب کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ان کی طرف قرآن مجید میں بے شمارمقامات پراشارہ کیا گیا ہے‘ مثلاً عقل اور سمجھ بوجھ‘ شعور اوراحساس‘ ان سب کا مرکز بھی قرآن کی زبان میں قلب ہے۔ لَھُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ بِھَا ز (الاعراف ۷:۱۷۹) ’’ان کے دل ہیں لیکن وہ ان سے سوچتے سمجھتے نہیں ہیں‘‘۔ یا یہ کہ کیا ان میںایسے لوگ نہیں تھے جن کے پاس دل ہوتے اور وہ اپنی عقل سے کام لیتے۔ لہٰذا قرآن میں عقل‘ تفکر اور سمجھ بوجھ کامرکز بھی قلب کو قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید کے بارے میں ارشاد ہوا: اَفَلاَیَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا (محمد ۴۷:۲۴) ’’کیا ان لوگوںنے قرآن پر غور نہیں کیا‘ یا دلوں پر ان کے قفل چڑھے ہوئے ہیں؟‘‘ گویا تدبر‘ یعنی قرآن پر غور و خوض کا مرکز بھی قلب ہے۔

قلب کا لفظ جن دوسرے معنوں میں استعمال ہوا ہے وہ ہماری خواہشات ہیں۔ یہ خواہشات دنیوی چیزوں کے لیے بھی ہوسکتی ہیں‘ ان سے اعلیٰ چیزوں کے لیے بھی ہوسکتی ہیں۔ ان خواہشات کامرکز بھی قلب ہے۔ اسی طرح جو جذبات انسان کے اندر ہوتے ہیں‘ مثلاً شفقت کا جذبہ‘محبت کا جذبہ‘ نرمی کاجذبہ‘ نفرت اور غصے کا جذبہ‘ ان سب کا مرکز بھی قرآن و حدیث کی رو سے انسان کا قلب ہے۔ اور سب سے آخر میں وہ چیز جو انسان کوانسان بناتی ہے‘ یعنی اس کاارادہ اور نیت۔ وہ ارادہ‘ جس سے وہ اپنے اعضا کو حرکت دیتا ہے‘ کام کرتا ہے‘ کچھ چیزوں کو طلب کرتا ہے اور کچھ چیزوں سے رک جاتا ہے‘ اس کے اس ارادے کا مرکز بھی قلب ہے۔ اس لحاظ سے قلب دراصل انسان کی شخصیت کا پورامرکز ہے۔ ہاتھ پائوں نہ بھی رہیں‘کٹ جائیں‘ ختم ہوجائیں‘ جسم کے اور دوسرے اعضا بھی ناکارہ ہوجائیں لیکن ایک چیز انسان کی شخصیت ہے‘ وہ باقی رہتی ہے۔ اسی کو قلب کہا گیا ہے ۔

اس لحاظ سے اگر غور کیا جائے کہ حدیث میں جو یہ کہا گیا ہے کہ ’’گوشت کا ایک ٹکڑا‘‘ ہے تو اس سے کیا مطلب ہے؟ا س بارے میںہمارے محدثین نے کافی لکھا ہے اور لوگوں کا اختلاف بھی نقل کیا ہے۔ بعض لوگوں کے نزدیک عقل دماغ میں ہے اور بعض کے نزدیک دل میں ہے۔ سائنس کی رو سے بھی گوشت کا یہ ٹکڑا صرف اتنا کام کرتا ہے کہ خون پمپ کرتا رہے اور باقی انسان کے سارے جذبات اور سوچ سمجھ کا مرکز اس کا دماغ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بحث حدیث سے بالکل غیر متعلق ہے اور میری رائے میں حدیث کو سمجھنے کے لیے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ہم یہ متعین کریں کہ فی الواقع یہ دماغ ہے یا قلب۔جب انسان آپس میں بات کرتے ہیں تو وہ اپنے مشاہدے کی بنا پر اور ادب کے پیرایے میں بات کرتے ہیں۔ اگرچہ سائنس یہ کہتی ہو کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے لیکن کہا یہی جاتا ہے کہ سورج نکل آیا اور سورج ڈوب گیا۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ زمین نکل آئی اور زمین ڈوب گئی۔ اسی طرح ہماری زبان کے اندر معروف محاورہ یہ ہے کہ میرا دل یہ کہتا ہے‘ میرا دل یہ چاہتا ہے۔ یہ وہ زبان ہے جو ادب کی زبان ہے اور اس لحاظ سے اس کا مطلب سمجھنے کے لیے یہ متعین کرنے کی بالکل ضرورت نہیں ہے کہ عقل کا مرکز کہاں ہے اور دماغ کا مرکز کیا ہے۔ قرآن نے یہ لفظ اصطلاح کے طور پر استعمال کیا ہے۔

جسد سے مراد

دوسرا سوال یہ ہے کہ جسد سے کیا مراد ہے؟ جب جسم کہا تو اس سے ظاہری جسم مراد ہے یا کچھ اور۔ یہاںاس سے ہمارا یہ جسم مراد ہے۔ اس کی طرف محدثین نے اشارہ کیا ہے اور یوں کہا ہے کہ جسم کی حیثیت رعایا کی ہے اور قلب کی حیثیت بادشاہ کی۔ جس طرح رعایا بادشاہ کے ماتحت ہوتی ہے‘ اسی طرح یہ ہاتھ پائوں‘ ناک کان‘ آنکھ ہر چیز قلب کے تابع ہے۔ آنکھ وہ چیز نہیں دیکھے گی جو دل دیکھنا نہ چاہے بلکہ وہی چیز دیکھے گی جس کو دل دیکھنا چاہے گا۔ ہاتھ وہ چیز نہیں کمائے گا جس کے بارے میں دل نے یہ فیصلہ کرلیا ہو کہ نہیں کمانا چاہیے اور وہی چیز کمائے گا جس کے بارے میں دل یہ فیصلہ کرلے کہ اسے کماناچاہیے۔ یہ سارے اعضا رعیت ہیں‘ رعایا ہیں اور قلب کی حیثیت ایک بادشاہ کی ہے۔

جسد کے دو اور معنی بھی ہوسکتے ہیں اگر ہم اس کو ایک استعارہ سمجھیں۔ ایک تو یہ کہ جسد سے مراد وہ شریعت ہے جس کا ذکر حدیث کے پہلے ٹکڑے میں ہوچکا ہے اور یہاں سے ان دونوں کا ربط قائم ہوتا ہے کہ وہ شریعت جو حلال اور حرام کو واضح کرتی ہے‘ اس شریعت کے قائم ہونے کے لیے قلب کی بنیاد اور قلب کی قوت ضروری ہے۔احکام کی اطاعت کے لیے سینے کے اندر دل بیدار ہونا چاہیے۔ سننے کے لیے‘ سمجھنے کے لیے‘ دیکھنے کے لیے‘ صحیح فیصلہ کرنے کے لیے‘صحیح نتائج تک پہنچنے کے لیے‘ صحیح راہ پر چلنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ دلِ بیدار موجود ہو۔

اس کے دوسرے معنی یہ بھی نکلتے ہیں کہ جسد سے دراصل پوری انسانی زندگی مراد ہے۔ اس کی انفرادی زندگی بھی اور اجتماعی زندگی بھی‘ اور اس کی زندگی کا ہر پہلو۔ اگر دل میں سکون ہے تو زندگی میں سکون ہوگا‘ اگر دل میں اطمینان ہے تو زندگی میں اطمینان ہوگا ‘اگر دل میں اچھے خیال آتے ہیں تو زندگی اچھے راستے پر جائے گی۔ اور اگر دل میں برے خیال آتے ہیں تو زندگی برے راستے پر جائے گی۔ اجتماعی طور پر بھی جو خرابیاں قوم کے اندر پیدا ہوتی ہیں ‘ لوٹ مار ‘خون خرابہ یا ڈاکے پڑنا وغیرہ ان سب کے پیچھے اصل خرابی دل کی خرابی ہوتی ہے۔ انسان گناہ کرتا ہے‘ اس لیے کہ اس کے دل میں خرابی ہوتی ہے اور وہ غلطی کا مرتکب ہوتا ہے۔ گویا اس حدیث کی رو سے اصلاح کاراستہ قلب ہے۔ اگر قلب کی اصلاح ہوگی تو آدمی کے اعضا بھی صحیح کام کریں گے‘ شریعت کی اطاعت کی قوت بھی اس کے اندر پیدا ہوگی اور پوری انسانی زندگی کی اصلاح ہوجائے گی۔ اگر اس میں بگاڑ پیدا ہو تو پھر اعضا بھی غلط کام کریں گے‘ شریعت بھی کتابوں میں لکھی رہ جائے گی اور اس پر عمل نہیں ہوگا۔ یوں پوری انسانی زندگی کے اندر بگاڑپیدا ہوجائے گا۔

نیکی اور بدی کا منبع

یہاں ’’صلاح‘‘کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی دراصل ہر قسم کی اچھائی اور بھلائی اور اصلاح ہے‘ اور فساد سے بھی ہر طرح کا فساد مراد ہے۔ حدیث میں اس کا کوئی تعین نہیں کیا گیا ہے کہ کس قسم کی صلاح اور کس قسم کا فساد مراد ہے۔ ہر قسم کی صلاح اور ہر قسم کا فساد مراد ہو سکتا ہے خواہ وہ انسان کی جسمانی زندگی سے متعلق ہو یا اخلاقی زندگی سے یا مادی زندگی سے‘ خواہ اس کی انفرادی زندگی سے متعلق ہو یا اس کی اجتماعی زندگی سے۔البتہ یہ بات واضح ہے کہ    ہر صلاح اور ہر قسم کی صلاح‘ ہر فساد اور ہر قسم کے فساد کاانحصار قلب پر ہے۔ قرآن مجید نے اس بات کو بہت کھول کر بیان کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ پوری انسانی زندگی میں جو کچھ بھی پیش آ رہا ہے وہ اس دل کی وجہ سے ہے۔ فرمایا : فِی قُلُوبِھِمْ مَرَضٌ (البقرہ ۲:۱۰) ’’ان کے دلوں میں مرض ہے‘‘۔ کسی منافقت ‘نافرمانی اور تغافل کے رویوں کے پیچھے جو چیز ہے وہ دراصل دلوں کامرض ہے۔ مرض کی جڑ دلوں میں ہے۔ فرمایا: فَاِنَّھَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ (الحج ۲۲:۴۶)’’حقیقت یہ ہے کہ وہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں‘‘۔ گویا یہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں کہ دیکھنے سے انکار کردیں کہ صحیح راستہ کیا ہے اور صحیح کام کیا ہے‘ بلکہ جو دل سینوں کے اندر ہیں وہ اندھے ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد آنکھیں دیکھتی بھی ہیں اور کان سنتے بھی ہیں‘ لیکن نہ صحیح راستہ دکھائی دیتا ہے‘ نہ صحیح آواز سنائی دیتی ہے اور نہ آدمی ہدایت قبول کرتا ہے۔ قرآن مجید نے کہا ہے کہ ایمان اور تقویٰ کا اصل مرکز دل ہے: وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ (الحجرات ۴۹:۷)’’مگر اللہ نے تم کو ایمان کی محبت دی اور اس کو تمھارے لیے دل پسند بنا دیا‘‘۔ اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ لِلتَّقْوٰی (الحجرات ۴۹:۳)‘یعنی جن کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے لیے آزمالیاوہی اہل تقویٰ ہیں نہ کہ ظاہر کی چیزیں تقویٰ ہیں۔

اس بات کی تائید ایک اور حدیث سے بھی ہوتی ہے جس کے مطابق حضورؐ نے اپنے سینۂ مبارک کی طرف تین دفعہ اشارہ کیا اور فرمایا کہ التقویٰ ھٰھنا  ‘ تقویٰ دراصل یہاں ہے۔ تقویٰ کو تم کبھی لباس میں ڈھونڈتے ہو‘کبھی شکل و صورت میں‘ کبھی ظواہر میں‘ لیکن تقویٰ کا مرکز اور سرچشمہ تو یہاں پر ہے۔ تین دفعہ آپؐ نے اپنے سینۂ مبارک کی طرف اشارہ کرکے اس بات کی تاکید فرمائی ہے۔ قرآن مجید نے بھی کئی دفعہ اس طرف اشارہ کیا ہے کہ اصل پرسش قلب کے اعمال کی ہے۔ اگر کسی آدمی کو زبردستی کلمۂ کفر کہنا پڑے لیکن اس کے دل کے اندر ایمان ہو تو اس سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی۔ جس کو مجبور کردیا گیا لیکن قلبہ مطمئن‘ اس کا دل ایمان کے اوپر مطمئن ہے‘ اس سے کوئی بازپرس نہ ہوگی۔ آپؐ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ تم گناہ تو کرتے ہو لیکن پرسش تو اس گناہ کی ہے جس کا دل نے ارادہ کیا ہو‘ جو دل نے کمایا ہو۔ دل کی کمائی پر انسان سراسر قابل مواخذہ ہے۔

انسان اس لیے جواب دہ اور قابل مواخذہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کوارادے کی آزادی دی ہے۔ کوئی چاہے تو نیکی کرے اور کوئی چاہے تو برائی کرے۔ اس ارادے کا سرچشمہ اور ڈوری کیونکہ قلب کے ہاتھ میں ہے اس لیے اصل ذمہ داری قلب کی ہے۔ گناہ کا ذمہ دار بھی انسان کا قلب ہے‘ یعنی اس کے اندر کی شخصیت جو اس کے جذبات اور ارادے اور محرکات اور ہر چیز کی مرکز ہے۔ قیامت کے روزبھی وہی آدمی نجات پائے گاجو صحیح سالم دل لے کر اللہ کے پاس جائے گا۔ اس کو قرآن مجید میں واضح کردیا گیا: جس دن نہ مال کام آئے گا‘ نہ بیٹے کام آئیں گے‘ نہ دولت کام آئے گی‘ نہ جایداد کام آئے گی سوائے اس کے کہ جو ’’قلب سلیم‘‘ لے کر آئے گا۔ جو سالم‘صحیح‘ درست دل لے کر اللہ کے پاس آیا‘ بس وہی نجات پائے گا۔ جو لوگ مال و دولت جمع کرتے ہیں‘ فرمایا کہ اللہ کے ہاں آگ تیار ہے‘ بھڑک بھڑک کر ان کے دلوں تک جھانکے گی۔ مختلف جگہ قرآن نے یہ اشارہ دیا ہے کہ دراصل ذمہ داراندر کی شخصیت ہے۔ جسم تو ہر پانچ سال میں نیا بن جاتا ہے اور مٹی میں مل کے دوبارہ بھی نیا بنے گا۔ اس ہاتھ میں اس وقت جو گوشت ہے وہ کوئی گناہ کرنے کاذمہ دار نہیں ہے۔ یہ تو فناہوجائے گا لیکن جو اندر کی شخصیت ہے‘ جو ارادہ کرتی ہے‘ اور اس کے نتیجے میں انسان نیکی کرتا ہے یا گناہ کا مرتکب ہوتا ہے‘ وہی اس کے لیے ذمہ دار ہے۔

حضورؐ نے جو بات یہاں پر فرمائی ہے یہ انسان کی زندگی کے تالے کھولنے کے لیے پہلی کنجی ہے‘ انفرادی زندگی کے بھی اور اجتماعی زندگی کے بھی۔ اصل ذمہ دار دل ہے۔ اگر دلوں کے اندر بگاڑ ہوا تو زندگی بھی بگڑے گی‘معاشرہ بھی بگڑے گا‘ سوسائٹی بھی بگڑے گی‘ ریاست بھی بگڑے گی‘ سیاست بھی بگڑے گی اور معیشت بھی بگڑے گی‘ اور اگر دل درست ہوں گے تو ہر چیز میں سدھار پیدا ہوجائے گا۔

دل اور شریعت پر عمل

اب ہم حدیث کے پہلے حصے کی طرف آئیں تو اس کا مفہوم بہت صاف اور واضح ہوجاتا ہے۔ حضورؐ نے بات کا آغاز اس طرح کیا کہ حلال بالکل واضح اور صاف ہے‘ اور حرام بھی واضح اور صاف ہے۔ جو چیزیں اللہ نے حلال کردی ہیں ان میں کسی شبہے کی گنجایش نہیں ہے اوران کو بیان فرمادیا ہے۔ حلال کے واضح ہونے کے معنی دراصل یہ ہیں کہ اس کے اندر کوئی شبہہ پیدا نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح شراب‘ جوا اور سود کے بارے میں بھی کوئی شبہہ نہیں پیدا ہوسکتا۔ یہ وہ حرام ہیں جوبالکل واضح ہیں۔ اسی طرح حلال بھی واضح ہیں۔ اس میں آپؐ نے  بیّنکا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ میرے فہم کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس قدر روشن اور کھلی بات ہے کہ اگر شرعی دلیل نہ بھی ہو تب بھی انسان اپنی عقل اور فطرت سے بھی حلال و حرام اور برا بھلا سمجھ سکتا ہے۔ یہ بات قرآن مجید میں مختلف انداز میں کئی جگہ بیان کی گئی ہے‘ مثلاً نیکی کو معروف کہا‘ یعنی وہ چیز جو انسان کی جانی پہچانی ہے اور برائی کو منکر کہا‘ یعنی وہ چیز جو انسان کے لیے اجنبی ہے۔ اس کی فطرت اس سے خود ہی کہتی ہے کہ یہ بات بری ہے۔ انسان نے کتنے ہی گناہ کیے ہوں‘ کتنی ہی برائیوں کے اندر پڑا ہو‘ کتنے ہی فلسفے بنائے ہوں لیکن انسانوںکی عظیم اکثریت آج تک اس بات پر متفق نہیںہوئی کہ کوئی نیکی جو مسلمہ نیکی ہو‘ برائی ہے اور کوئی برائی نیکی۔ دنیا میں کبھی قوموں نے مل کر اس بات کو نہیں مانا‘ یہاں تک کہ وہ قومیں جو دن رات شراب پیتی ہیں وہ بھی کہتی ہیں کہ شراب مضر ہے۔ جو سود کھاتی ہیں وہ بھی کہتی ہیں کہ سود کے اندر نقصان ہے‘ اور جو زنا کرتی ہیں وہ بھی اسے برا کہتی ہیں۔ زنا کی کوئی تعریف نہیں کرتا کہ زنا اچھی بات ہے۔ اس کو گوارا کرلیا گیا‘ اس کے لیے دلائل گھڑے گئے لیکن اگر آپ اسلاف کی تاریخ نکال کر پڑھیں تو کبھی بھی انسانوں کی اکثریت نے اس برائی کو اچھائی نہ سمجھا۔ ایسے لوگ بھی ہوسکتے ہیں جن کا ذائقہ بگڑ جائے لیکن انسانوں کی بڑی اکثریت نے کبھی معروف نیکیوں کے برے ہونے پر اصرار نہیں کیا اور معروف برائیوں کے اچھے ہونے پر اصرار نہیں کیا۔

اس کا مطلب یہ ہواکہ جو آدمی ایمان کے راستے پر آئے گااور جس کے پاس سالم دل ہوگا جس کی اصلاح ہوچکی ہوگی وہ حرام اور حلال کی پابندی تو لازماً کرے گا۔ جو چیز روزِروشن کی طرح دِکھ رہی ہے اور بیّن ہے‘ جیسے سورج چمک رہا ہو‘ اور آدمی کومعلوم ہو کہ یہ راستہ میرے گھرکی طرف جاتا ہے تو پھر وہ دوسرے راستے پر کیوں جائے گا۔ یہ تو اس طرح سے بیّنات ہیں کہ جس کے دل میں ایمان کی روشنی ہے وہ ان میں سے کسی حلال کو نہ حرام کرسکتا ہے نہ حرام کو حلال۔

آپؐ نے ایک بات اور فرمائی: فرمایا کہ ان دونوں کے درمیان ایک چیز اور ہے جو شبہے والی ہے۔ لَا یَعْلَمُوْنَھُنَّ کَثِیْرَ مِّنَ النَّاسْ‘ اکثر لوگ اس کوجانتے نہیں۔ شبہے والی چیزوں سے کیا مطلب ہے؟ یہ بڑااہم سوال ہے۔ شبہے والی چیزو ںسے یہ مراد ہے کہ وہ چیزیں جن کے بارے میں قرآن و سنت کے دلائل سے واضح طور پر یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ یہ واقعی حلال ہیں یا حرام‘ یا جس پر اختلاف ہوجائے۔ اس سے وہ چیزیں مراد نہیں ہیںجن کو اللہ تعالیٰ نے بالکل حلال کردیا ہے۔ اب آدمی خواہ مخواہ شبہہ پیدا کرے کہ پتا نہیں یہ پانی حلال ہے یا نہیں‘ یا پتا نہیں یہ جانور کھانے کے لائق ہے یا نہیں۔ اس قسم کے شبہات سے منع کیا گیا ہے۔ اس لیے ہدایت کی گئی ہے کہ یہ سارے وسوسے ہیں‘ ان کے پیچھے مت پڑو۔ لیکن جہا ں پر شرعی دلائل کی بنیاد پر آدمی شبہے میں پڑجائے کہ یہ بات حلال ہے یا حرام‘اور آج کی موجودہ دنیا میں بے شمار نئی چیزیں پیدا ہوئی ہیں جن کے بارے میں شبہہ پیدا ہوا ہے‘ جن کو اکثر لوگ نہیں جان سکتے‘ اس کے لیے شریعت اور دین کاعلم ضروری ہے۔

فرمایا کہ جس نے اپنے آپ کو ان چیزوں سے بھی بچایا‘ یعنی مشتبہ چیزوں سے‘ اس نے اپنے دین کو شریعت کے لحاظ سے برا ہونے سے بچا لیا اور اپنی عزت کو دنیا کے اندر محفوظ کرلیا۔ یہ جو فرمایاکہ دین اور عزت دونوں کوبچالیا اور شبہے سے اپنے آپ کو بچایا‘ تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ آدمی حرام اور حلال کی تو پروا نہ کرے اور جو چیزیں مشتبہ ہیں ان سے اپنے آپ کو بچائے۔ اس قسم کامضمون اور بھی بہت سی حدیثوں میں آیا ہے۔ مشہور حدیث قدسی ہے کہ ایک بندہ فرائض اداکرتے کرتے مجھ سے قریب ہو جاتا ہے اور وہ مجھے بہت محبوب ہے۔ پھر وہ نوافل بھی ادا کرتا ہے۔ یہاں تک کہ میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں‘ اس کا کان بن جاتا ہوں‘ اس کی آنکھ بن جاتا ہوں۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ نوافل کا درجہ فرائض سے اونچا ہے بلکہ اس میںجوبات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جب دل اتنا بیدار اورحساس ہوجاتا ہے کہ حرام اور حلال کی لازماً پابندی کرے تو وہ چیز جو مشتبہ ہو اس سے بھی اپنے آپ کو بچاتا ہے۔ جو آدمی بہت پاک صاف رہتا ہو اگر شبہہ بھی ہوجائے کہ کپڑوں پر گندگی کاداغ لگ گیا ہے تو وہ اس سے اپنے آپ کو بچائے گااور اسے صاف کرے گا۔ یہ دراصل دل کی اس کیفیت کااظہار ہے۔ یہ نہیں کہ مشتبہات کا درجہ حلال و حرام سے اونچا ہے۔ اصل چیز تو حلال و حرام سے بچنا ہے لیکن یہاں دل کی کیفیت کی طرف اشارہ ہے کہ یہ تقویٰ کی کیفیت ہے۔ جس کے اندر تقویٰ ہوگا‘ جس کا دل صالح اور سالم ہوگا تو وہ ان مشتبہات سے بھی دور رہے گا۔ فرمایا کہ اس طریقے سے اس کا دین بھی محفوظ ہوجائے گا اور اس کی عزت بھی محفوظ ہوجائے گی۔

دین کس طرح محفوظ ہوگا؟ اس کی تفصیل بھی یہ بتائی کہ جو مشتبہ چیزوں کے پیچھے جائے گا وہ بالآخر حرام میں پڑ جائے گا۔ یہ کس طرح ہوگا؟ اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ جب آدمی ایک مشتبہ چیز کے پیچھے جائے گا کہ چلو یہ تو بہت چھوٹی بات ہے‘ اس کے بہت دلائل ہیں‘ توکل اس سے زیادہ مشکوک چیز کی طرف جائے گا‘ اور پرسوں اس سے بھی زیادہ مشکوک چیز کی طرف جائے گا اور بالآخر حرام کو بھی حلال ثابت کرنے کی کوشش میں لگ جائے گا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ طبیعت کے اندر سستی پیدا ہوجائے گی۔ وہ طبیعت جس کو چست و چالاک ہونا چاہیے‘ کوئی ذرا سی بات ایسی نہ ہو جو اللہ کو ناراض کرنے والی ہو‘ جواللہ کو ناپسند ہو‘ مشتبہات کرتے کرتے اس کی طبیعت کی حس کمزور پڑجائے گی اور جب یہ غائب ہوجائے گی تو پھر آدمی لازماً حرام کا بھی ارتکاب کر بیٹھے گا۔ اس لیے طبیعت کی چستی ضروری ہے۔

یہاں آپؐ نے بڑی خوب صورت مثال اور تشبیہ دی ہے۔ پرانے زمانے میں جو بادشاہ اور عرب قبائل کے سردار ہوتے تھے ان کو چراگاہیں بہت محبوب ہوتی تھیں‘ جہاں جانور چَرائے جاتے تھے۔ وہ بعض چراگاہوں کو اپنے لیے مخصوص کرلیتے تھے کہ اس کے اندر کوئی جانورنہیں لائے گا‘ کوئی نہیں چَرائے گا۔ اگر آئے گا تو سزا ملے گی۔ آپؐ نے فرمایا کہ جس طرح جب ایک مخصوص چراگاہ کے قریب کوئی جانور چر رہا ہو تو جب وہ اس کی چار دیواری کے پاس پہنچ جائے گاتو اس بات کا بھی امکان ہے کہ اندر سے لہراتا ہوا سبزہ  نظر آئے اور حرام کی ترغیب و کشش ہوگی تو وہ ممنوعہ چراگاہ میں بھی چرنے لگے۔قریب تو اس لیے آتا ہے کہ یہاں تک تو میں آسکتا ہوں لیکن پھر وہ اچانک احاطے کے اندر بھی داخل ہوجائے گا۔ اس کے لیے بخاری میں تو حدیث کے الفاظ ہیں کہ وہ احاطے میں داخل ہوجائے گا اور مسلم میں ہیں کہ یرتع یزنع۔ یہ آہستہ آہستہ چگنے کے معنوں میں آتا ہے۔ یوں وہ چگنا شروع کردیتا ہے۔ پھر آپؐ نے بہت ہی تاکید کے ساتھ اور بہت زوردار انداز میں کہا کہ ہر بادشاہ کے لیے ایک چراگاہ ہوتی ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ اس ساری کائنات کا بادشاہ ہے۔ یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں۔ اس لیے فرمایا کہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو چراگاہ اپنے لیے مخصوص کرلی ہے جس میں کسی کو داخل نہیں ہونا چاہئے وہ محارمات ہیں جن کو اس نے حرام کردیا ہے۔ پھر فرمایا کہ الا وان فی الجسد مضغۃ‘  غور سے سنو کہ جسم میں گوشت کاایک ٹکڑا ہے۔ الاوھی القلب ‘ سن لو‘یہ دل ہے۔ آپؐ نے چار دفعہ الا کہا۔

حدیث کا باہم ربط

ان دونوں حصوں کے درمیان جو بظاہر غیر متعلق معلوم ہوتے ہیں‘ کیا ربط ہے؟ اس مسئلے سے محدثین اور علما نے کوئی بحث نہیں کی لیکن میں نے اس پر غور کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان دونوں کے درمیان بڑاگہرا ربط ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ دل کی زندگی کا انحصار اس پر ہے کہ آدمی اطاعت گزارہو۔ یہ سارے شیطانی وسوسے ہوتے ہیں کہ عمل سے یا عبادات سے کیا ہوتا ہے‘ اصل چیز تو دل کی نیکی ہے‘ اخلاق ہیں۔ دل کی فلاح‘ اچھائی اور سنورنا ہے۔ اس کاانحصار اس پر ہے کہ آدمی اللہ کی اطاعت کرے‘ حرام اور حلال میں تمیز کرے۔ اگر اس کی حس تیز ہو‘ دل زندہ ہو تو ان چیزوں سے بھی بچے جو حرام اور حلال کے درمیان ہیں‘ جن کے اندر شبہہ ہے۔ یہ توایک وجہ ہے دونوں کے درمیان ربط کی۔

دوسری بات یہ ہے کہ حرام اور حلال کی حدود کو ہم سب جانتے ہیں۔ آج آپ کسی مسلمان سے پوچھ لیں کہ حلال کیا ہے تو وہ آپ کو بڑے بڑے حلال بتادے گا۔حرام پوچھ لیں تو بڑے بڑے حرام گنوا دے گا۔ لیکن اس کے اندر اتنی استعداد اور قوت نہیں ہے کہ اپنے آپ کو حرام سے بچائے اور حلال کے راستے پر لے کر جائے۔ ابھی حال میں ایک سروے میں لوگوں سے پوچھا گیا کہ سیورریفل کے ٹکٹ کو کتنے لوگ اسلام کی رو سے جائز سمجھتے ہیں‘ تو سب نے کہا کہ یہ ناجائز ہے۔ پوچھا گیا کہ کتنے لوگوں نے ٹکٹ خریدا ہے‘ ہر دو میں سے ایک آدمی نے ٹکٹ خریدا ہوا تھا‘ یعنی علم تھا کہ یہ حرام ہے لیکن عمل اس سے مختلف ہے۔ لہٰذا یہ قوت‘ نفس کے اندر یہ استعداد جس سے آدمی شریعت کی عمارت کا بار اٹھاسکے اور احکام کابوجھ اپنے اوپر لے سکے اور اس عمارت کی پوری تعمیر شریعت پر کرسکے‘ اس کا سرچشمہ آدمی کا قلب اور اس کادل ہے۔ دل کے اندر اگر یہ ایمان اور یہ جذبہ ہوگا‘ یہ قوت اور استعداد ہوگی اور یہ کیفیت ہوگی تو پھر جو شریعت میں حلال و حرام طے کیا گیا ہے آج ہم اس کی پابندی کریں گے‘ اور اگر یہ نہیں ہوگی تو ہزار وعظ کہے جائیں‘ تقاریر کی جائیں‘ لیکن اگر دل کے اندر یہ نور نہیں ہوگا‘ یہ قوت نہیں ہوگی‘ یہ استعداد نہیں ہوگی تو حلال و حرام کتابوں میں لکھا رہے گا‘ وعظ کے اندر بیان ہوگا‘ علما کی زبان پر بھی ہوگا‘ غلط اور صحیح سب کو معلوم ہوگا لیکن عمل نہیں ہوگا‘ اور جب عمل مختلف ہوگا تو عمل کا اثر دل پر بھی پڑے گا۔

اب یہاں یہ حدیث ایک اور اہم مسئلہ طے کر رہی ہے۔ ہمارے ہاں شریعت اور طریقت کی اور ظاہر اور باطن کی مسلسل بحث چلتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ شریعت الگ چیز ہے‘ اور طریقت الگ ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس حدیث میں دونوں کو ایک جگہ جمع کرکے اور جسم کی مثال دے کر رسولؐ اللہ نے اس بات کو واضح کردیا ہے کہ یہ تو ایک وحدت ہے۔ دل ہو یا شریعت‘ اندر کی زندگی ہو یا باہر کی‘ جس طرح دل کاتصور جسم کے بغیر نہیں ہوسکتا‘ اخلاق اور روح اور دل کا تعلق اللہ تعالیٰ سے کہاںباقی رہے گا اگر نماز‘ زکوٰۃ‘ روزہ اور حلال و حرام کی پابندی نہ ہو۔ اسی طریقے سے جسم کاتصور بھی دل کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں‘ ایک ہی چیز کا حصہ ہیں‘ ایک ہی چیز کے ٹکڑے ہیں‘ اور ایک دوسرے کے ساتھ بالکل مربوط ہیں۔ ان دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا جاسکتا۔

میں سمجھتا ہوں کہ یہ مسئلہ یہ حدیث بالکل واضح طور پر طے کردیتی ہے کہ انسان ایک وحدت اور ایک اکائی ہے۔ اس کادل و دماغ اور جسم سب یکساں ایک ہی طرح ڈھلے ہوئے ہیں۔ یہ بات قرآن نے بار بار کہی ہے کہ ظاہر کے اعمال کا اثر دل پر پڑتا ہے اور دل ظاہر کے اعمال کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے کر صحیح یا غلط راستہ پر لے جاتا ہے۔ فَلَمَّا زَاغُوْآ اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ ط (الصّف ۶۱:۵)‘ یعنی جب لوگوں نے برائی کاراستہ اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کوبھی ٹیڑھا کردیا۔ جب لوگوں نے اللہ کے ساتھ اطاعت اور بندگی کے اپنے عہد کو توڑ دیا تو ہم نے ان کے دلوں کو سخت کردیا۔ان کے اوپر لعنت ہے۔ ظاہر کے اعمال کا اثر دل پر اور دل کے اعمال کا ظاہر پر کیسے اثر ہوتا ہے‘ یہ بات روز مرہ مشاہدے میں آتی ہے۔ ہم روز اس بات کو دیکھتے ہیں کہ کوئی آپ کو گالی دے تو دل کی حرکت تیز ہوجائے گی‘ جبڑا اُوپر چڑھ جائے گا‘ کنپٹی سرخ ہوجائے گی۔ ایک ایک لفظ کااثر جسم پر پڑتا ہے۔ اگر کوئی آپ کی تعریف کردے تو دل کو بڑی راحت اور اطمینان محسوس ہوگا۔ باہر کی بات اور باہر کے اعمال کا اثر دل پر پڑتا ہے اور دل کا اثرباہر پڑتا ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ دونوں کی فکر کرنے ہی سے انسانی زندگی درست اور صحیح راستے پر چلے گی۔یہ وہ بات ہے جس کی بنا پر اس حدیث کوبڑی عظیم حدیثوں میں شمار کیا گیا ہے۔ بعض محدثین نے تو یہ تک کہا ہے کہ جن تین یا چار احادیث پر پورے دین کی عمارت قائم ہے ان میں سے ایک حدیث یہ ہے۔

دل کی اصلاح

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دل کی اصلاح کا راستہ کیا ہے؟ اس سوال کا میں ایک مختصر جواب دے رہا ہوں۔ حضورؐ نے فرمایا کہ دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے جس طرح لوہے پر پانی گرے تو اس کو زنگ لگ جاتا ہے۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ جب آدمی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ داغ پڑجاتا ہے اور استغفار نہیں کرتا‘ توبہ نہیں کرتااور پھر گناہ کرتا ہے تو ایک اور داغ پڑ جاتا ہے۔ یہاں تک کہ پورے کا پورا دل زنگ آلود ہوجاتا ہے‘ پورے کاپورا سیاہ ہوجاتا ہے۔ لوگوں نے پوچھا کہ حضورؐ اس کاعلاج کیا ہے؟ دل کیسے صاف ہوسکتا ہے؟ فرمایا کہ کثرۃ ذکر الموت و تلاوت القرآن۔ یہ  بیہقی کی حدیث ہے جس میں آپؐ نے فرمایا کہ موت کو کثرت سے یاد رکھو اور قرآن کی تلاوت کرو ۔اگر اِعراب تھوڑاسا بدل کر پڑھے جائیں تو اس کا ایک ترجمہ یوں بھی ہوسکتا ہے کہ موت کوبھی کثرت سے یاد رکھو اور قرآن کی تلاوت بھی کثرت کے ساتھ کرو۔ ان اعراب کے ساتھ حدیث میں روایت تو نہیں آئی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ ترجمہ بھی ممکن ہے۔ چنانچہ کثرت کے ساتھ موت کو یاد رکھنا کہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنا ہے‘ اور قرآن مجید کی تلاوت کرنا یہ وہ چیزیں ہیں جن سے دل کی برائیاں دور ہوتی ہیں‘ زنگ دھلتا ہے‘ سیاہی صاف ہوتی ہے اور دل چمکتا ہے۔ اس کے اندر ایمان کا نور پیدا ہوتا ہے‘ اور اس سے پوری زندگی کی اصلاح ہوتی ہے۔ دل کا تعلق اللہ کے ساتھ قائم ہوجائے‘ اللہ کی یاد دل کے اندر بس جائے تو یہی چیز دل کو صحیح راستے پر لگاتی ہے۔

میرے بھائیو اور بہنو! اگر ہمیں اپنی زندگی کی تعمیر اس نقشے پر کرنا ہے جو نبی کریمؐ نے ہمیں دیا ہے تو ہمیں سب سے پہلے اسی چیز سے آغاز کرنا ہوگا۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہم عمل کو چھوڑ دیں گے۔ یہ میں نے بالکل واضح کردیا ہے‘ جیسا کہ حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عمل بھی ساتھ ساتھ ہوگا‘ لیکن دل نقطہء آغاز ہے۔ اس میں اللہ کی محبت‘ اس کاخوف‘اس پر یقین و بھروسا‘ اچھے خیالات کو اگر آپ پروان چڑھائیں گے تو دل میں زندگی پیدا ہوگی۔ دل میںزندگی پیدا ہوگی تو آپ کے اندر وہ قوت اور استعداد آئے گی جس سے آپ اللہ کی اور اس کے نبیؐ کی راہ پر چل سکیں گے۔

جب ڈوری بہت زیادہ الجھ جائے تو آپ کوشش یہ کرتے ہیں کہ اس ڈوری کاکہیں سے سرا پکڑ لیں تو پھر آہستہ آہستہ پوری ڈوری کھلتی چلی جاتی ہے۔ آج ہماری زندگی اس ڈوری کی طرح بہت ساری گرہوں میں الجھ گئی ہے۔ معیشت میں‘ سیاست میں‘ معاشرت میں‘ روزمرہ کی زندگی میں‘ اپنی نفسیاتی زندگی میں‘ معاشرتی زندگی میں‘ گھر میں‘ غرض بے شمار گرہیں ہیں جو زندگی کی اس ڈوری کے اندر پڑچکی ہیں۔ ہم کو کہیں سے اس سرے کو پکڑنا ہے۔ پکڑ کر بیٹھ ہی نہیں جانا بلکہ پوری رسی کو کھولنا ہے۔ انسان کا سرا‘ اس کا دل ہے۔ جب بھی ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ ڈوری ہمارے ہاتھ سے نکل گئی ہے اور زندگی ہمارے ہاتھ سے نکل کر خرابی کے راستے پر چل نکلی ہے تو پھر ہمیں واپس جاکر وہیں سے اپنے کام کو شروع کرنا چاہیے‘ اس کی نگرانی کرناچاہیے‘ اس پر نگاہ رکھنا چاہیے۔ یہی وہ چیزیں ہیں جن کی ہمیں فکر کرنا چاہیے۔ دن میںجتنی بار بھی ممکن ہو اس بات کو یاد کریں کہ اللہ سے ملاقات کرنا ہے اور جتنا وقت بھی اللہ توفیق دے اس کی کتاب کی تلاوت کریں۔ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے اس لیے کہ قرآن مجید کابیشتر حصہ دراصل موت کی یاد دلاتا ہے اور موت کے بعد کی زندگی کی تیاری کی دعوت دیتا ہے۔ گویا یہ دونوں چیزیں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ملی ہوئی ہیں۔

یہ ایک عظیم الشان حدیث کامفہوم ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

تقویٰ سو چ اور عمل کی وہ روش ہے جو دنیا اور آخرت کی ساری بھلا ئیو ں کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے۔

اللہ کی کتاب اور جو کچھ اللہ کے رسول ؐ نے کہا ہے اور ہدایت دی ہے اس کا مقصد بھی تقویٰ پیدا کر نا اور متقی بنا نا ہے۔ قرآن مجید اُن کے لیے کتابِ ہدایت ہے جو اپنے اندر تقویٰ کی صفت رکھتے ہو ں۔ اس کے ایک معنی یہ ہوسکتے ہیں کہ اس کی ہدا یت حا صل کر نے کے لیے ‘اس کی راہ پر چلنے کے لیے‘  تقویٰ ضروری اور نا گزیر ہے۔ ایک معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ یہ کتاب اصل میں متقی بنا نے کے لیے نا زل ہوئی ہے۔

تقویٰ

تقویٰ کو ہم سب جا نتے اور پہچا نتے ہیں اور مختلف طریقوں سے اس کا تصور اور تاریخ ہمارے درمیان موجو دہے۔ یہ عربی کے جس لفظ (وقایۃ)سے نکلا ہے اس کے معنی’’ بچنے‘‘ کے ہیں۔اسی سے تقویٰ کا لفظ نکلا ہے اور تقویٰ کے لغوی اوراصطلاحی معنی یہ ہو ں گے کہ اپنے آپ کو بچا لو۔

اللہ تعا لیٰ نے انسا ن کی فطرت میں کسی بھی نقصان دہ اور ضرر رساں چیز سے بچنا ‘ودیعت کیا ہے۔جو چیز بھی ہمیں نقصان پہنچا تی ہو ‘اس سے ہم بچنا چا ہتے ہیں اور بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔اگر غور کیا جائے تو ہماری پوری زندگی کا تانا بانا انھی دو چیزوں سے بُنا جا تا ہے۔ ایک یہ کہ اپنے آپ کوان چیزو ں سے بچائیں جن کو ہم اپنے لیے نقصان دہ سمجھتے ہوں‘ اور دوسرے یہ کہ ان چیزوں کو حاصل کیا جائے جن میں ہم اپنے لیے نفع اور فا ئدہ دیکھتے ہو ں۔ نفع اور نقصان کا پیما نہ مختلف ہوسکتا ہے لیکن مومن ہو یا کافر‘ انسا ن کی فطرت میں یہی دو جذ با ت موجزن رہتے ہیں‘ اور زندگی کی ساری سو چ اور ساراعمل ان ہی دو چیزوں سے متعین ہوتا ہے۔ جس چیزسے جان و مال اور عزت و آبرو کو نقصا ن پہنچتا ہو‘ آدمی اس کے خلا ف دفا ع کرتا ہے اور اپنے آپ کو بچا تا ہے ‘اور جہا ںبھی وہ نفع دیکھتا ہے--- پڑھنے لکھنے میں ‘ کیرئیربنا نے میں ‘ تجارت میں ‘ دوسرو ں پر اپنا حکم جتا نے اور اپنی عزت بنا نے میں--- اس کے لیے وہ کا م کرتا ہے۔

ایک لحا ظ سے یو ں محسو س ہو تا ہے کہ تقویٰ دراصل ایک منفی صفت ہے جو اپنے آپ کو اُن چیزوں سے بچا نے کا نا م ہے جو نقصا ن پہنچا نے والی ہوں ۔ جب آدمی اپنے منصو بے کو ہر اس چیز سے بچا لے جو اس کو نقصان پہنچا نے والی ہو‘تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اس کا منصوبہ کامیاب ہو گیا۔اگر کسا ن بیج ڈال کر اپنی کھیتی کو ہر اس آفت سے بچالے جوکھیتی کو نقصا ن پہنچاسکتی ہو توکھیتی لہلہا اٹھے گی اورفصل بھی دے گی۔ اس لحا ظ سے تقویٰ دراصل اپنی پوری زندگی کو اچھے اعمال سے بھردینے کا نا م بھی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے  کہ اچھے اعمال کو اختیار کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ کم سے کم آدمی ان چیزو ں سے رک جا ئے جو نقصان پہنچا نے والی ہو ں۔

لغوی معنو ں کے لحا ظ سے دین میں تقویٰ کا تصور اس لحا ظ سے وسیع اور جا مع ہے کہ اس میں اُن چیزو ں سے بچنا پیش نظر ہے جو زندگی کے مقصد کے خلا ف ہوں۔ اگر زندگی کامقصد اللہ کی بندگی ا ور اس کی رضا وجنت کی طلب ہے تو ہر وہ کام اور ہر وہ بات جس سے اس راہ میں رکا وٹ پڑتی ہو‘ جس سے یہ منزل کھو ٹی ہوتی ہو ‘ جس چیز سے اس منصوبے کواور زندگی کے اس مشن اور کیریئر کو کہ آخرت بنے ‘اللہ کی رضا حاصل ہو اوروہ خو ش ہو جائے‘ نقصان پہنچتا ہو‘ اس سے بچنا دراصل تقویٰ ہے۔ اسی لیے تقویٰ کا اظہار اگرچہ پوری زندگی میں ہو تا ہے لیکن فی الواقع اس کی جڑ انسا ن کے دل میں ہوتی ہے۔ دل میں اگر خدا کی بندگی ‘ اس کی محبت‘ اس کی جنت کی طلب‘ اس کی آگ کا احسا س اور اس سے بچنے کی تڑپ مو جو د ہو تو پھر وہ استعداد‘ صلا حیت اور قوت پیدا ہو تی ہے جس سے ہم اپنے آپ کو ان چیزو ں سے رو ک سکتے ہیں جو اللہ کے غضب کو دعوت دینے والی ہیں ۔ اسی لیے قرآن مجید میں بھی اس کی طرف اشا رہ کیا گیا ہے کہ تقویٰ تودراصل دل کا تقویٰ ہے۔ جو لو گ اللہ کے رسولؐ کے سامنے اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں‘ ان کے بارے میں فرما یا:  اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ  لِلتَّقْوٰیط (الحجرات ۴۹:۳) ’’درحقیقت وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لیے جانچ لیا ہے‘‘۔

نبی کریمؐ کا بھی ایک ارشاد ہے‘  ایک طویل حدیث میں‘جس میں آپؐ نے ایک مسلمان پر دوسرے مسلما ن کے حقو ق شما ر کرائے ہیںاور پھر آپؐ نے فر ما یا: التقویٰ  ھاھُنا‘ تقویٰ یہاں ہے۔ تین مر تبہ  آپ ؐنے اپنے سینۂ مبا ر ک کی طرف اشا رہ فر ما یا کہ تقویٰ دراصل یہاں ہے۔

تقویٰ کے اس جامع تصور کی اصل بنیاد دل کی اس کیفیت کا نام ہے کہ اللہ مو جو دہے اور کوئی کام ایسا نہیں ہونا چا ہیے جو اس کو نا را ض کر نے والا ہو ۔ ہر وقت یہ دھیا ن لگا رہے اور خیال رہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔اگر کبھی اس سے غفلت ہوجائے جوزندگی میں بالکل ممکن ہے‘ توپھر لوٹ کراسی کی طرف آجائے۔ جیسے ہی ہو ش آ ئے‘ تنبیہ ہویا خیا ل آجا ئے کہ میں کو ئی ایسا کا م کر گزرا ہوں جو اُس کی مرضی کے خلاف تھا ‘ تو وہ فوراً پلٹ آئے‘ یہ بھی تقویٰ میں سے ہے۔ تقویٰ کی صفت یہ نہیں ہے کہ آدمی کبھی کو ئی غلطی ہی نہ کرے‘ بلکہ تقویٰ یہ ہے کہ اگر کبھی غلطی ہو جائے تو وہ لو ٹ کر واپس اپنی اصل کی طرف آجا ئے۔ بدقسمتی سے یہ بنیاد نگاہوں سے محو ہوگئی اور تقویٰ کا یہ تصور جوپو ری زندگی پر حا وی ہے ‘ آہستہ آہستہ کم ہو تا گیا اور بالا ٓخر چند ظاہری مراسم تک محدود ہو گیا۔ وضع قطع‘ اٹھنا بیٹھنا ‘ آدا ب‘ بس ان تک تقویٰ کا تصور محدود ہوکر رہ گیا ۔

اجتماعی تقویٰ

ہم نے اس موضوع میں ’’اجتما عی تقویٰ‘‘ کے لفظ کو اختیا ر کیا ہے مگر یہ لفظ قرآن و سنت میں نہیں پایا جاتا۔ اس لحاظ سے یہ ایک نیا لفظ ہے‘ اور نیا لفظ اختیا ر کرنے کی کو ئی نہ کو ئی غر ض ہو نی چاہیے۔ اس کی غرض یہ ہے کہ تقویٰ کی زند گی کا وہ دا ئرہ جو اجتما عیت سے تعلق رکھتا ہے ہم اس کے بارے میں کچھ گفتگو کریں۔ اس لیے کہ یہ ایک ایسا دا ئرہ ہے جو عمو ماً نگا ہو ں سے محو ہو چکا ہے اور تقویٰ کے حدود سے بھی باہر نکل چکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حرام و حلا ل کا تصور بھی بہت محدود ہو گیا ہے ۔ ہم جب حرا م اور حلا ل کا لفظ بو لتے ہیں تو حرا م کے ساتھ ہمارے ذہن میں سود‘ شراب ‘ زنا اور مالِ حرا م ‘ اس قسم کی چیزیں توآتی ہیں لیکن ذہن میں یہ بات بہت کم آتی ہے کہ معاملات میں ‘اور انسانوں کے ساتھ تعلقا ت میں ‘ اور حقوق و فرا ئض کی ادایگی میں بھی بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جو حرا م ہیں اور بہت سا ری چیزیں ایسی ہیں جو نما ز اورزکوٰۃ کی طرح فرض کی گئی ہیں۔ خو ن بہا نا‘کسی کا حق ما رنا ‘حسد کرنا‘ یہ سب چیزیں حرا م ہیں۔ غیبت کر نا بھی حرا م ہے۔ مردار کھا نا یقینا حرام ہے‘ اس لیے کہ قرآن نے کہا ہے کہ یہ حرا م ہے۔ اسی طرح سور کا گوشت بھی حرام ہے لیکن غیبت کر نا بھی مردار گوشت کھا نے کے برابر ہے‘ اس لیے وہ بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح دیگر چیزیں حرام ہیں۔ لیکن شراب کا جام دیکھ کر تو ہما رے اندر ایک کرا ہیت اور تنفرکی کیفیت پیدا ہو تی ہے اور کو ئی مسلما ن یہ نہیں سوچ سکتا کہ وہ شرا ب کے جام کو ہا تھ لگا ئے یا سور کا گوشت کھائے یا وہ کو ئی اور اس قسم کی با ت کرے‘ اس لیے کہ یہ حرا م ہیں ‘ان کو حدیث میں بھی حرا م ٹھیرایا گیا اورقرآن میں بھی حرا م کیا گیا ہے‘لیکن ہم غیبت کو اس طرح سے حرام نہیں سمجھتے ہیں۔

درحقیقت اگر قرآن یہ کہہ دے کہ یہ مت کرو تو وہ چیز حرا م ہو جا تی ہے۔ سود  کے بارے میں اس نے یہ کہا ہے کہ سود مت کھا ئو ‘ تو سود حرا م ہو گیا ۔ شراب کے بارے میں کہا گیا کہ شراب کے قریب مت جا ئو تو شراب حرام ہو گئی۔ زنا کے بارے میں اس نے کہا کہ زنا کے قریب مت جا ئو تو زنا حرا م ہو گئی ۔ اسی طرح اس نے کہا کہ تجسس مت کرو ‘ بد گما نی مت کرو ‘  غیبت مت کرو ‘ کسی کا تمسخر مت اڑا ئو ‘ برے القاب سے مت پکارو‘ اور گالیاں نہ دو‘ یہ سارے کے سارے احکام بھی ویسے ہی احکا م ہیں‘ جس طرح قرآن میں نمازپڑھنے کا حکم ہے‘ زکوٰۃ دینے کا حکم ہے ‘ چور کا ہا تھ کا ٹنے کا حکم ہے‘ شراب سے رک جا نے کا حکم ہے اور سود  نہ کھا نے کا حکم ہے ۔ ان کے درمیان قرآن مجید نے کو ئی فرق نہیں کیا ہے‘ لیکن چو نکہ یہ مشکل کام ہیں اس لیے آہستہ آہستہ یہ تقویٰ کی تعریف سے بلکہ حرا م چیزو ں کی تعریف سے بھی خا رج ہو تے گئے اورآج کا ایک مسلمان جو اللہ کے دین کی پابندی کر رہا ہو وہ یہ تو نہیں سو چتا کہ میں شرا ب پی لوں ‘ یا سو ر کا گو شت کھالوں مگر اس کو غیبت کر نے میں‘جھو ٹ بو لنے میں ‘ کسی کا حق ما رنے میں‘ کسی کے ساتھ بدعہدی کرنے میں‘ کسی کے ساتھ برا سلوک کر نے میں کو ئی عار محسو س نہیں ہوتی ۔ ان گناہوں کے ارتکاب پر اس کے ضمیر میں معمولی سی خلش بھی پیدا نہیں ہوتی۔ اس کے اندر سے نفرت کی کوئی لہراس طرح سے نہیں اٹھتی جس طرح کہ اور چیزو ں کے بارے میں ہو تی ہے۔چونکہ تقویٰ کا یہ پہلو اجتما عی زندگی سے متعلق ہے ‘ اس لیے ہم نے ’’اجتماعی تقویٰ‘‘کی اصطلا ح وضع کر کے اس کو وا ضح کر نے کی کوشش کی ہے۔

قرآن مجید سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ تقویٰ کی جتنی بھی اس نے تعریفیں کی ہیں ان کے اندر یہی پہلو سب سے اہم اور نما یاں ہے جس کو اس نے ہما رے سامنے رکھا ہے۔ سورۃ البقرہ کی یہ مشہو ر آیت کہ:

لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ  قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ …وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَo (البقرہ ۲:۱۷۷) نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یا مغرب کی طرف‘ بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یومِ آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر‘ مسکینوں اور مسافروں پر‘ مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے ‘ نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔ اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اُسے وفا کریں ‘ اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔

قرآن مجید نے جہا ں جہا ں بھی احکام کا ذکر کیا ہے ‘نکا ح و طلاق کے احکا م ہوں یا ورا ثت کے‘ یا اجتما عی زندگی سے متعلق ‘ وہاں یہی کہا کہ اللہ کے رسولؐسے اپنے آپ کو آگے نہ بڑھا ئو۔ واتقوا اللّٰہ ’’اللہ سے تقویٰ اختیا ر کرو‘‘ ۔ اپنی آوا زو ں کو اونچا نہ کرو‘ یہ بھی تقویٰ کی نشا نی ہے۔ مجلس میں کہا جا ئے کہ پھیل جا ئو تو پھیل جا ئو ‘اور اگر کہا جا ئے کہ سکڑ جا ئوتوسکڑ جا ئو۔ جب کہا جا ئے کہ اٹھ جا ئو تو اٹھ جا ئو‘ یہ بھی بڑی نیکی ہے ۔ یہ معمو لی نیکیا ں نہیں ہیں۔ یہ بھی اجتما عی اخلاق سے تعلق رکھتی ہیں ۔ پھر وہ حکمران جو دوسرو ں پر جبر و استبداد کرتے ہیں ان کے لیے بھی یہی بات کہی گئی ہے کہ یہ بہت بڑا ظلم ہے اور اس کے خلا ف بھی قرآن مجید نے ساری با تیں کھو ل کے بیان کی ہیں ۔ اللہ کے جو نبی بھی آئے‘ انھو ں نے جہا ںاس بات کی دعوت دی کہ اللہ کی بندگی کرو کہ اس کے سوا کو ئی الٰہ نہیں ہے وہا ںقرآن مجید نے ایک تواتر سے ہر نبی کی یہ دعوت بھی  نقل کی ہے کہ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ (اٰل عمرن ۳:۵۰)‘ اللہ سے تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو۔گویا اس کتا ب سے مستفید ہونے کے لیے تقویٰ لاز می اور ناگزیر ہے۔

اجتماعی تقویٰ کی اہمیت

اجتما عیت کے مختلف پہلو الگ الگ شما رکیے جا سکتے ہیں۔ اجتما عیت کا ایک پہلو آدمی اور آدمی کے درمیان تعلقا ت اور معا ملا ت ہیں ‘ اور اگر غور کیا جائے تو یہ ایک ایسا دا ئرہ ہے جس کی حدود میں زندگی کا بیشترحصہ آجاتا ہے۔ ما ں با پ‘بھا ئی بہن‘ دوست احبا ب ‘ محلے والے‘ کا روبار کے ساتھی‘ سب اس کے اندر آجاتے ہیں۔ ایک دوسرا پہلو وہ تعلق ہے جو اجتماعیت سے آدمی کا قا ئم ہو تا ہے۔ اپنے ذمہ دارو ں سے تعلق خواہ وہ حکمران ہو یا کسی کمپنی کا مالک ‘یا کسی تنظیم کا سر برا ہ‘ جو بھی ذمہ داران ہوں‘ ان کے اپنے سے نیچے والوں سے تعلقات ہوں یا نیچے والوں کے اوپر والوں سے تعلقات یا ایک پو ری اجتما عیت سے آدمی کے تعلقات ہوں--- یہ سب کے سب اجتماعی تقویٰ کے دائرے میں آتے ہیں۔ یہی دراصل وہ اجتما عی تقویٰ ہے جو اللہ تعا لیٰ کے ہا ں جوا ب دہی اور مسئو لیت کے لیے سب سے زیادہ نا زک مقام ہے۔

ایک حدیث میں آتا ہے اور اسے حضرت عا ئشہ ؓ نے روا یت کیا ہے کہ اللہ تعا لیٰ کے سامنے اعمال تین رجسٹروں کی شکل میں پیش ہوں گے۔ ایک اعمال کا رجسٹر وہ ہو گا جس کو اللہ تعا لیٰ ہر گز معاف نہیں کرے گا‘ ایک اعمال کا رجسٹر وہ ہو گا جس کی اسے کو ئی پروا نہیں ہوگی‘ اور ایک اعمال کا رجسٹر وہ ہو گا جس کا حسا ب لیے بغیر وہ نہیں چھو ڑے گا۔ پہلا رجسٹر شر ک سے متعلق ہے۔ شرک کو معاف نہیں کیا جا ئے گا ۔ دوسرے رجسٹر میں وہ چیزیں ہیں جو آدمی نے اپنے نفس کے اوپر ظلم کیے۔ اس کا تعلق اس کی ذات سے ہے یا اللہ سے‘ مثلاً نمازچھو ٹ گئی‘ یا اس میں کو تا ہی ہو گئی ‘ یا روزے میں کو ئی کو تاہی ہوگئی۔ یہ وہ اعمال ہیں جن کی اللہ کو کو ئی پروا نہیں ہوگی۔ یہ بھی آدمی کی بھلا ئی کے لیے ہیں۔ اگر وہ چا ہے گا تو معاف کر دے گا اور اگر چاہے گا تو اس پر حساب لے لے گا ۔ لیکن جو تیسرا رجسٹرہے‘ یہ ان معا ملا ت کا ہے جو انسا ن اور انسا ن کے درمیا ن ہیں اور یہی در اصل اجتما عی معا ملات ہیں۔یہی وہ رجسٹرہے جس کا حساب لیے بغیر وہ ہر گز نہیں چھوڑے گا۔ اس سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ اجتما عی تقویٰ کا معاملہ سب سے ناز ک معاملہ ہے‘ دنیا میں بھی اور آخرت کی نجا ت کے لیے بھی ۔

نبی کریم ؐ نے مختلف انداز میں اپنے صحا بہ کے ذوق اور ان کے مزا ج کے پیش نظر ان کی سوچ کی تعمیر اس طرح کی کہ وہ یہ سمجھ لیں کہ انسا ن اور انسان کے درمیا ن معا ملات دراصل تقویٰ کا وہ دائرہ ہے جس میں ان کو سب سے زیا دہ ہو شیاررہنے اور سب سے زیا دہ اپنی خبر گیری کرنے کی ضرورت ہے۔یہ اس لیے کہ اس کا مداوا نہیں ہو سکتا نہ عبا دات ہو سکتی ہیں اور نہ کو ئی دوسری نیکیا ں۔چنا نچہ آپؐ نے ایک دفعہ ایک بہت ہی خوب صورت مثا ل کے ذریعے اپنے اصحا ب سے یہ پو چھا کہ جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صحابہؓ نے کہا کہ مفلس تو ہم اس کو سمجھتے ہیں جس کے پاس رو پیہ پیسہ اور دنیا کا مال و متاع نہ ہو ۔حضورؐنے فر ما یا کہ نہیں بلکہ میری امت کا مفلس وہ ہے جو قیامت کے روز نما ز‘ رو زہ اور صدقات کی بہت ساری نیکیا ں لے کر آئے گا لیکن اس حا ل میں آئے گا کہ کسی کو گا لی دی ہوگی‘کسی کے اوپر بہتان لگا یا ہو گا ‘کسی کا خو ن بہا یا ہو گا‘ کسی کا مال کھا یا ہو گا اور کسی کا حق مارا ہو گا۔سارے دعوے دار وہا ں پر کھڑے ہو جا ئیں گے ‘ ان کے دعوئوں کا تصفیہ کیا جا ئے گا اور قصا ص دلوایا جائے گا۔ اس کے بعد اس کی نیکیا ں لے کر ان لوگوں میں تقسیم کر دی جائیں گی۔ آپؐنے پورا منظر کھینچ کر دکھا دیا کہ اِس دعوے دار کو نیکیا ں دے دی جا ئیں گی‘ اُس دعوے دار کو نیکیا ں دے دی جا ئے گی‘ اس لیے کہ وہا ں سوائے نیک اعمال کے کو ئی اور کر نسی نہیں ہو گی کہ جس کے تحت آدمی کے اعمال کا فیصلہ ہو ۔ جب اس کی تمام نیکیا ں ختم ہو جا ئیں گی تو دعوے دارو ں کی برا ئیا ں اور گناہ لے کر اس کے سر پر ڈا ل دیے جا ئیں گے اور بالآخر وہ آگ میں ڈا ل دیا جا ئے گا ۔

ایک اور حدیث میں آپ ؐنے اسی بات کو مزید موثر انداز میں یوں بیان فرمایا کہ آدمی جب اپنے اعما ل نا مے پر نگا ہ ڈا لے گا اور نیکیا ں دیکھے گا تو سمجھے گا کہ میں تو نجا ت پا گیا یہا ں تک کہ دعوے دار کھڑے ہو جا ئیں گے ۔ جب دعوے دار دعویٰ کر نا شروع کر دیں گے اور ایک ایک دعوے کا تصفیہ کیا جائے گا اور فیصلہ صادر ہو گا تو آخر میں معلوم ہو گا کہ نیکیو ں کا سارے کا سارا ذخیرہ تو دوسرو ں کی نذر ہو گیا اور اپنے پاس کچھ بھی نہیں رہا کہ جس پر آخرت میں نجا ت کا ساما ن ہو ۔ لہٰذا آخرت میں بھی اس کی اہمیت ہے اس لیے کہ کو ئی عبادت بھی اس کا بدل نہیں ہو سکتی۔ دین نے جو قدرو ں کا پیما نہ دیا ہے اس میں اسی کو سب سے اہم بات کے طور پر رکھا گیا ہے ۔

ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریمؐ کے سامنے دو عورتو ں کا ذکر کیا گیا اور کہا گیا کہ ایک عورت تو بہت نما زیں پڑھتی ہے‘ صدقہ دیتی ہے‘ روزے رکھتی ہے لیکن ا س کے پڑوسی اس کی بد زبانی سے تنگ ہیں۔ اس کا کیا انجا م ہو گا؟ آپؐ نے فر ما یا:  ھی فی النار ’’یہ جہنم میں جا ئے گی‘‘۔ ایک دوسری عورت کا ذکر ہوا کہ وہ فرض نما زیں پڑھ لیتی ہے ‘ کچھ پنیر کے ٹکڑے صدقہ کردیتی ہے‘ رمضا ن کے روزے رکھ لیتی ہے اور کو ئی خاص عبادات نہیں کرتی۔ لیکن یہ کہ پڑو سی اس کی خو ش کلا می اور شیریں بیا نی سے بہت خو ش ہیں۔ آپؐ نے فر ما یا: ھی فی الجنۃ ’’یہ جنت میں جا ئے گی‘‘۔

ایک اور واقعہ احا دیث کی کتا بو ں میں آتا ہے کہ ایک صا حب حضورؐ کی مجلس میں آئے اور اٹھ کر چلے گئے۔ آپؐ نے فرما یا کہ کسی کو جنتی کو دیکھنا ہو تو ان کو دیکھ لے ۔حضرت عبداللہ ابن عمر ؓنے جب یہ سنا تو ان کو یہ شوق ہوا کہ وہ جا کر یہ معلوم کریں کہ آخر وہ کیا چیز ہے کہ جو اِن کوجنت میں لے جا نے والی ہے اور یہ کہہ دیا گیا ہے کہ اگر جنتی کو دیکھنا ہو تو ان کو دیکھ لو ۔ ان کو جنت میں جا نے کا شوق تھا‘  اس کی تلاش میں رہتے تھے ۔ وہ ان کے پاس گئے‘ کو ئی بہا نہ کیا اور کہا کہ میری گھر میں لڑا ئی ہوگئی ہے‘ ناراضی ہو گئی ہے‘ اس لیے میں آپ کے پاس کچھ وقت کے لیے رہنا چا ہتا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ شوق سے ٹھیرجائیں۔ انھو ں نے دیکھا کہ رات آئی اور پوری رات گزرگئی یہاں تک کہ فجر کا وقت آگیا ۔ انھوں نے کھڑے ہو کر تہجد نہیں پڑھی ۔ ان کو بڑا تعجب ہوا کہ یہ آدمی تہجد بھی نہیں پڑھتا تو یہ جنت میں کیسے جا ئے گا؟ پھردن بھر انھیں دیکھتے رہے‘ ان کے اعمال کا عبادات کے لحا ظ سے ‘ تقویٰ کے معیار کے لحا ظ سے جائزہ لیتے رہے مگر انھیں کوئی خا ص با ت نظر نہیں آئی۔ تیسرے دن انھوں نے ان سے رخصت لی اور کہا کہ میں تو دراصل اس لیے آیا تھا کہ آپ کے بارے میں رسولؐ اللہ نے فرمایا تھا کہ کسی نے اگر جنتی کو دیکھنا ہو تو انھیں دیکھ لے مگر میں نے تو آپ کے اندر ایسی کو ئی خاص بات نہیں پا ئی۔ اس پر انھو ں نے کہا کہ میں جو کچھ بھی ہوں آپ کے سامنے ہو ں‘ اتنا ہی جا نتا ہوں ۔ بس اتنی بات ضرور ہے کہ میرے دل میں کسی مسلمان کے لیے کو ئی کینہ اور دشمنی نہیں ہے۔ انھو ں نے کہا کہ یہی دراصل وہ وجہ ہے جس کی وجہ سے اللہ کے رسولؐنے آپ کے بارے میں یہ بشا رت دی کہ یہ آدمی جنتی ہے ۔ اس سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ عبادات کے درمیان ان چیزو ں کا کیا مقا م ہے!

بنیادی اصول: ایذا پہنچانے سے گریز

انسا ن اور انسا ن کے درمیان ‘ بلکہ یوں کہیے کہ انسا ن ا ور ساری مخلو قا ت کے درمیان‘ جن میں جانور ‘ پر ندے اور درخت سب آجا تے ہیں ‘ اجتماعی تقویٰ کا بنیادی اصو ل یہ ہے کہ آدمی دوسرے کو ایذا پہنچانے سے اپنے آپ کو بچا ئے ۔ صحیح با ت یہ ہے کہ ساری شریعت کی بنیا د یہی ہے۔ نکاح اور طلاق کے مسائل ہوں یا ورا ثت کے ا حکا م ‘ سیا ست کے قوانین ہوں یا شریعت کے حدود ‘ سب کا مدا ر اسی بات پر ہے کہ انسان دوسرے انسا ن کو ایذا نہ پہنچا ئے‘ کسی تکلیف نہ دے ۔ چھو ٹے چھو ٹے احکام ہیں کہ آدمی گھر میں جائے تو اجا زت لے کر دا خل ہو‘گھر میں بلااجازت دا خل ہو جائو گے تو گھر والوں کو تکلیف ہو گی اور ایذا پہنچے گی ۔ تین آدمی کھڑے ہوں تو دو آدمی آپس میں با ت نہ کریں ۔ اس لیے کہ تیسرے آدمی کو ایذا پہنچے گی اور تکلیف ہو گی۔ اس سے اپنے آپ کو بچا ئو ۔ چھو ٹے احکام ہوں یا بڑے ‘ ان سب میں بنیا دی اصول یہی ہے۔ تمام علما نے حسن اخلا ق کی تعریف یہ کی ہے کہ اچھا اخلاق یہ ہے کہ آدمی دوسروں کو اذیت پہنچا نے سے اپنے آپ کو روک لے ۔ مو لا نا اشرف علی تھا نوی ؒ کے الفا ظ میں اگر آدمی صرف دو با تیں اختیار کرلے تو پو ری شریعت اس کے اندر آجا تی ہے ۔ ایک یہ کہ وہ جو کام کرے خالص اللہ کی رضا کے لیے کرے ‘اور دوسری بات یہ کہ کسی بندے کو‘ کسی مخلو ق کو اپنی ذات سے ایذا نہ پہنچائے ۔ کو ئی بات ایسی نہ کہے ‘ کو ئی کام ایسا نہ کرے‘ کو ئی معا ملہ ایسا نہ ہو جس سے دوسرے انسان کو ایذا پہنچے۔ اگر لوگ صرف ان دو اصولو ں کو اپنے زندگی کے اندر اختیار کر لیں توپوری کی پوری شریعت ان کی گرفت میں آجا ئے گی۔

سیرت اور احادیث میں بہت سارے واقعات ہیں جن میں نبی کریمؐ نے فرما یا کہ کم سے کم آدمی کو اتنا تو ضرور کر نا چا ہیے کہ نیکی کی راہ سجھائے‘ دوسروں پر خرچ کرے‘ غریبوں کی خدمت کرے ‘ کما کر بھی دے اور بھلی بات کہے۔ جب لو گو ں نے کہا کہ اگر یہ بھی نہ ہو سکے۔ پھرآپؐ نے فر مایا کہ کم سے کم اپنی ذات سے دوسروں کواذیت پہنچانے سے روک لو۔ یہ توکم سے کم چیز ہے کہ جس کا آدمی سے مطا لبہ کیا جا سکتا ہے۔ حالا نکہ یہ ایک بہت بڑی چیز ہے ۔آپؐ نے یہا ںتک فر مایا:  من  اذی مسلماًً فقد اذا نی ومن اذا نی فقد اذی اللّٰہ، جو آدمی کسی مسلما ن کو ایذا پہنچا تا ہے ‘ وہ مجھے تکلیف پہنچا تا ہے اور جس نے مجھے ایذا پہنچا ئی (رسولؐ کو ایذا پہنچا ئی ) اس نے اللہ کو ایذا پہنچائی۔ اس طرح بندے کا معاملہ برا ہ راست اللہ کے ساتھ متعلق ہو گیا ۔ مسلمان کی تعریف یہی کی گئی ہے کہ مسلما ن وہ ہے جس کی زبان اور ہا تھ سے دوسرا مسلمان محفو ظ ہو‘ اور جس کے ہا تھ میں اپنے معا ملا ت دے کر مسلما ن مطمئن ہو کہ معا ملہ ٹھیک چلے گا ۔ آپؐ نے یہ بھی فر ما یا کہ مسلما ن پر مسلمان کا خو ن حرام ہے ‘ اس کی عزت حرا م ہے ‘ اور اس کا ما ل حرا م ہے۔جب حرا م میں عزت آگئی‘مال آگیا‘ جسم و جان آگئی تومحرمات کا یہ دائرہ بڑا وسیع ہوگیا‘جب کہ ہم نے حرام کا تصور بڑا ہی محدود کر دیا ہے۔ کھا نے پینے اور اسی قسم کی چیزو ں کو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ حرا م ہیں لیکن اللہ کے رسول ؐ فرما تے ہیں کہ خو ن بھی حرا م ہے ‘ عزت بھی حرا م ہے اور مال بھی حرا م ہے۔ یہ دراصل وہ بنیادی اصول ہے جس کے تحت تقویٰ کی صفت پیدا ہوتی ہے۔

ظلم و زیادتی سے اجتناب

تقویٰ کے بہت سارے احکام ہیں‘ یہاں سب کو سمیٹ کر بیان کر نے کی ضرورت نہیں ہے۔ اتنا ہی کافی ہے کہ ایک بنیادی اصول ہا تھ میں آجا ئے جس کو قرآن و حدیث میں بہت ساری جگہ کبھی وا ضح طور پر ‘ کبھی با لوا سطہ‘ کبھی اشارے سے‘ مختلف طریقو ں سے واضح کیا گیا ہے ۔غور فرمایئے کہ طلاق یا نکا ح کے احکام ہوں‘ سب معا ملات میں اللہ تعا لیٰ ہر جگہ یہی بات کررہا ہے کہ کو ئی ایسی بات نہ کرو کہ جس سے بیو ی کو یا بیو ی سے شو ہر کو ایذا پہنچے۔ اسی طرح ورثے کی تقسیم اس طرح نہ کرو جس سے کسی دوسرے کی حق تلفی ہو اور اسے ایذا پہنچے۔ جتنے بھی احکا م ہیں‘ ان کے اندر اصل چیز ضرر کو مٹانا‘ حق تلفی کو ختم کرنا اور انسانوں کے تعلقات میں ایذا کو ختم کر نا ہے ۔ اسی کو دوسرے الفا ظ میںظلم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ لہٰذا اجتما عی تقویٰ یہ ہے کہ انسان ظلم اور ایذا سے بچے۔ ظلم کے لفظ کو خاص طور پر بہت وسیع مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے ۔

ظلم کی بہت سی صورتیں ہیں ۔ شرک بھی ظلم ہے۔ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ o (لقمان ۳۱:۱۳) ’’بلاشبہہ شرک بہت بڑا ظلم ہے‘‘۔ لیکن انسا نو ں کے درمیان جو ظلم ہے اس کو اللہ تعا لیٰ نے یو ں بیا ن فرما یا ہے کہ میں نے اپنے اوپر ظلم کر نا حرا م کر دیا ہے‘ تو تم بھی آپس میں ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو ۔ ظلم ایک ایسی چیز ہے جو قیا مت کے روز اندھیرا بن جا ئے گی اور پھر اس سے آدمی کی نجا ت کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔آپؐ نے جو گو رنر بھیجے ‘ جن کو مسلما نو ں کے کو ئی معاملا ت سپرد کیے ‘ دوسرو ں کے ما ل کے حوالے سے‘ یا سیاست میں ‘ حکو مت میں جن کو معا ملات پیش آتے رہے‘ ان کو آپؐ یہ وصیت کرتے رہے کہ مظلو م کی بددعا سے بچو ۔مظلو م کی بددعا اور اللہ تعا لیٰ کے درمیان کو ئی رکا وٹ نہیں ہے۔ایک اور حدیث میں فرما یا کہ  ولو کا ن فا جراًً، یعنی اگر مظلو م بہت گنا ہ گا ر ہو تب بھی اس کی بددعا ضرور لگے گی۔ اس کے گنا ہ اس کے ذمے ہیں اور تمھا را ظلم تمھا رے ذمے ہے۔ ایک اور جگہ آپؐ فرما یا کہ ولوکا ن کا فراً، اور اگر کا فر ہو‘ تب بھی اگر مظلو م ہے تو اس کی بددعا ضرور عرش الٰہی تک جا ئے گی ۔ اس لیے مظلو م کی بد دعا سے بچنا۔

جانوروں کے معاملے میں تقویٰ

ظلم کا دا ئرہ صرف انسانوں تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کو ساری مخلو قا ت تک وسیع کیا گیا ہے ۔  اس طرح مومن کا یہ مزا ج بنا یا گیا ہے کہ کسی کے ساتھ بھی زیا دتی کا نہ سوچے اور نہ زیا دتی کرے۔ جانوروں کاذکر میں اس لیے کر رہا  ہو ں تاکہ اس بات کا بھی اندا زہ ہو جا ئے کہ اجتماعی تقویٰ کے معاملے میں اسلام کی تعلیم کتنی نازک اور حسا س ہے۔ جانور توبے زبا ن ہوتے ہیں ‘ لیکن آپؐ نے فرما یا کہ ان جانوروں کے معا ملے میں بھی اللہ سے تقویٰ اختیار کرو ۔ اگر ذبح بھی کر نا ہو تو کم سے کم تکلیف دو اور تیز چھری سے ذبح کرو۔ ایک آدمی نے ایک جا نور کو لٹا دیا اور اس کے بعد اس کے سا منے چھری تیز کرنے لگا ۔ آپؐ نے فرما یا کہ اس کو تم دو موتیں کیوں ما رتے ہو؟ ایک تو اس کو مرنا ہے ‘ ذبح ہونا ہے اور دوسرے سامنے چھری تیز ہوتے دیکھ کر اس کا دل سہم جا تا ہے ۔ چھری پہلے تیزکرو پھر اس کے بعد جا نور کو لٹائو ۔ ایک عورت کے بارے میں فر مایا کہ اس نے ایک بلی کو با ندھ لیا نہ اس کو کھولتی تھی کہ جا کر وہ کھا پی لیتی اور نہ اسے غذا دیتی تھی۔ وہ مرگئی۔ میں نے معراج کے وقت اس عورت کو دیکھا۔ وہ عورت جہنم میں صرف اس لیے تھی کہ اس نے بلی کو بھوکا با ندھ دیا اور وہ مرگئی۔ غرض اونٹو ں کے بارے میں‘ جانوروں کے بارے میں‘ پرندوں کے بارے میں سب کے متعلق آپؐ نے ہدایات دی ہیں۔ کسی نے چڑیا کے بچوں کو گھونسلے سے اٹھا لیا۔ چڑیا بے قرار پھرنے لگی ۔ آپؐ نے کہا کہ ان کو چھوڑ دو اس لیے کہ جانوروں کے بارے میں بھی قصاص ہوگا ۔ اس طرف بھی آپ ؐنے اشارہ کیا ہے کہ اگر زیادتی ہوگی تو پرندہ کہے گا کہ اس آدمی نے مجھ کو بیکار مارا۔ نہ میں نے کچھ کھایا اور نہ کچھ کہا‘ اس نے خواہ مخواہ مجھے مار ڈالا۔ اس زمانے میں جانوروں کے مقابلے ہوتے تھے۔ جانوروں کو باندھ کر تیرکے نشانے باندھے جاتے تھے۔اس سب سے آپؐ نے منع فرمادیا ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے کہ جانوروں پر اس طرح کے مظالم ڈھائے جائیں ۔

ایک مرتبہ آپؐ ایک انصاری صحابی کے باغ میں گئے تو ایک اونٹ آپ ؐکے پاس آیا ۔ فاقے کے مارے اس کا پیٹ پیٹھ سے لگ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ آپؐ نے کہا کہ اس نے مجھ سے تمھاری شکایت کی ہے کہ تم اس کو کھانے کو نہیں دیتے ہو اور کام زیادہ لیتے ہو ۔ تمھارے جانوروں کا بھی تمھارے اوپر حق ہے ۔

پرانے زمانے کے ایک پیغمبرتھے۔ ان کے بارے میں حدیث میں ہے کہ ان کو ایک چیونٹی نے کاٹ لیا ۔ انھوں نے چیونٹیوں کے پورے بل کے اندر آگ لگادی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو فرمایا کہ تم اسی ایک چیونٹی کو مارتے جس نے تمھیں کاٹاتھا ۔ ساری چیونٹیوں نے تو کوئی قصور نہیں کیاتھا کہ تم ان کو اس طریقے سے آگ لگاتے (بخاری)۔ لہٰذا بدلہ لینے میںبھی ظلم سے بچنے کی بڑی شدید تاکید قرآن اور احادیث کے اندر موجود ہے ۔

غور کیجیے کہ جس شریعت اور دین نے جانوروں‘ پرندوں ‘ چیو نٹیو ں وغیرہ کے بارے میں اتنا اہتمام کیا ہے ‘ اس میں انسانوں کا کیا مقام ہوگا !

انسانی جان کا احترام

ایذا اور تکلیف پہنچانے میں جو چیزیں سب سے اہم ہیں‘ وہ یہ ہیں:

سب سے پہلے انسانی جان کا معاملہ ہے ۔ اگر کوئی شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردے‘ قرآن مجید کے الفاظ ہیں متعمداً‘  تو پھر اس کا بدلہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا ۔ اس کا کوئی مداوا نہیں ہے ۔ اس لیے کہ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔ (المائدہ ۵:۳۲)

یہ انسانی جان کا احترام ہے لیکن جسم کو تعذیب دینے سے بھی منع کیا گیا ہے ۔ تعذیب کے لیے انگریزی زبان کا جو لفظ آج کل مروج ہے اور حکومتوںاور ریاستوں نے بھی اسے اختیار کر رکھا ہے‘ وہ ’’ٹارچر‘‘ہے ۔ اس کی اجازت نہیں ہے کہ کسی لحاظ سے بھی انسان کو ٹارچر کرکے جرم منوایا جائے‘ نہ اس کی اجازت ہے کہ حکومت اپنے کام کروائے‘ اور نہ اس کی اجازت ہے کہ مخالفین پر ٹارچر کیا جائے ۔

ایک موقع پر کچھ لوگ دھوپ میں کھڑے تھے کہ ایک صحابیؓ کا وہاں سے گزر ہوا۔ یہ دور خلافت کا واقعہ ہے۔ انھوں نے پوچھا کہ یہ لوگ دھوپ میں کیوں کھڑے کیے گئے ہیں؟ کہا گیا کہ ان لوگوں نے ٹیکس نہیں ادا کیا ہے۔ اس لیے ان کو دھوپ میں کھڑا کیا گیا ہے ۔ فرمایا کہ میں نے نبی کریم ؐ سے سنا ہے کہ جو آدمی بندوں کو عذاب دے تو اللہ تعالیٰ اس کو عذاب دیتا ہے ۔ اس لیے تعذیب سے ‘ ٹارچر سے‘ اور جسم کو کوئی نقصان پہنچانے سے منع کیا گیا ہے۔ یہ جان کے احترام کی تعریف کے اندر آتا ہے ۔ اسی طریقے سے کوئی ایسا مذاق کرنا جس سے دوسرے کو تکلیف پہنچے ‘ اس کو بھی آپ نے سختی سے منع کیا ‘ مثلاًکسی کے جوتے چھپا دیے یا کسی کا اسلحہ چھپا دیا ۔ اگرباہمی تعلقات ایسے ہیں کہ کوئی برا نہیں مانتا تو پھر کوئی ممانعت نہیں۔ لیکن جہاں آدمی اس پر برا مانے ‘ اسے تکلیف پہنچے تو پھراس سے آپؐ نے منع فرمایا ہے ۔ احادیث میں ایسے   بے شمارواقعات ہیں جن میں آپؐ کی تنبیہات ہیں ۔ شرارت سے اشارہ کرنا ‘ تلوار سے یا کسی دوسری چیز سے کسی کو ڈرانا‘ اس سے بھی آپؐ نے کہا کہ مسلمان کو مت ڈراؤ ‘اس کو خوفزدہ مت کرو ۔ یہ سارے احکام دراصل جسم اور جان کی حفاظت کے لیے ہیں کہ مسلمان بھائی کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان کی ہرچیزمحفوظ رہے ۔ اس کا خون بھی محفوظ رہے ‘ مال بھی اور عزت و آبرو بھی ۔

عزت و آبرو کا تحفظ

اس سے اگلی چیز‘ عزت و آبرو ہے جوایک دوسرے پر حرام کی گئی ہے۔ عزت انسان کو اپنے خون سے بھی زیادہ عزیز ہوتی ہے ۔ اس کی خاطرآدمی جان بھی دے دیتا ہے۔ مسلمان کی عزت پر کہیں سے بھی کوئی حرف آئے ‘ آدمی کوئی ایسی بات کہے جو غیبت ہو یا تمسخر‘ بدظنی ہو یا بدگمانی‘ دوسروں کے عیوب کی نقل کرتے پھرنا ہو یا باہمی تعلقات کو خراب کرنا--- اس سب کے بارے میں احا دیث کے اندر اتنی شدید وعیدیں اور تنبیہات آئی ہیں جو دیگر اعمال کے بارے میں نہیں آئی ہیں۔ غیبت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ زنا سے بھی بدتر جرم ہے ۔ کسی کے پیٹھ پیچھے اس کی برائی کا ذکر کرنا یا ایسی باتوں کا ذکر کرنا جو اس کو ناگوار ہوں‘ یہ غیبت ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کے اندر بہت عام ہے ۔ لوگ سود کھانے کو اور شراب پینے کو  توبرا سمجھتے ہیں لیکن مسلمان کا گوشت آرام سے اور مزے لے لے کر کھاتے ہیں‘اور اسے برا بھی نہیں سمجھا جاتا۔ چغلی کھانا ‘ایک کی بات دوسری جگہ پہنچانا‘ لوگوں کے عیوب ٹٹولنا‘ یہ بات بڑی کثرت سے پائی جاتی ہے‘جب کہ لوگوں کے عیوب پر پردہ ڈالنے کا حکم ہے ۔ لوگوں کے عیوب کی پردہ کشائی کرنے اور ان کو ذلیل کرنے سے بڑی سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے ۔ کسی کی عزت کو پامال کرنا خواہ جس بھی طریقے سے ہو ‘ گفتگو کے ذریعے سے یاکسی قسم کے اشاروں کے ذریعے سے‘ منع ہے۔ اشاروں سے لوگوں کی تحقیر کرنے کی مذمت قرآن مجید نے خود باربار کی ہے۔ وَیْلٌ لِّکُلِّ ھُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِ o (الھمزہ ۱۰۴:۱) ’’تباہی ہے ہراس شخص کے لیے جو (منہ در منہ) لوگوں پرطعن اور (پیٹھ پیچھے) برائیاں کرنے کا خوگر ہے‘‘۔ اس کی اجازت نہیں ہے۔تحقیر کرنے کے بارے میں تو یہ فرمایا گیا ہے کہ آدمی کے برا ہونے کے لیے یہ بات بالکل کافی ہے کہ وہ دوسرے مسلمان کو حقیر سمجھے ‘ یا اس کو کہیں پر ذلیل کرے ۔ چنانچہ  مسلم کی مشہور حدیث ہے کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ۔ وہ اس پر ظلم نہ کرے‘ اس کو بے یارومددگار نہ چھوڑے ۔ اس کو کہیں ذلیل نہ کرے‘ اور اس کو اپنے سے حقیر نہ سمجھے ۔ اسی کے اندر وہ جملہ ہے کہ التقویٰ ھٰھنا  ’’ تقویٰ اس جگہ ہے ‘‘۔ جو آدمی کسی مسلمان کو دل میں حقیر سمجھے‘ اس دل میں تقویٰ نہیں ہو سکتا ۔ تقویٰ کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ آدمی مسلمان کی عزت کرے اور مسلمان کے ساتھ تکریم کا برتاؤ کرے ۔

مال و دولت کی حرمت

اس کے بعد پھر تیسری چیزمال کی حرمت ہے ۔ کسی بھی مسلمان کا مال کسی دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔ جہاں رمضان میں روزے رکھنے کا حکم دیا گیا کہ آدمی صبح سے شام تک کھانے پینے سے رک جائے  اور صرف رات میں سورج ڈوبنے سے لے کر فجر تک کھائے ‘ اس کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوْآ اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْقف (النساء ۴:۲۹) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھائو‘    لین دین ہونا چاہیے آپس کی رضامندی سے‘‘۔

روزہ جو کہ دن کے اوقات میں حلال چیزوں سے بھی روک دیتا ہے‘ اسی بات کا ذریعہ ہے کہ اس سے تقویٰ پیدا ہو ۔ اس کا فطری تقاضا ہے کہ غلط طریقوں سے ایک دوسرے کا مال نہ کھایا جائے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ہے کہ جو آدمی جھوٹی قسم کھا کر کسی دوسرے آدمی کی کوئی چیز ہتھیا لیتا ہے‘ اس کے اوپر     اللہ تعالیٰ نے جنت حرام کر دی اور جہنم واجب کردی ۔ ایک صاحب نے پوچھا کہ اگر چہ وہ بہت ہی حقیر سی چیز ہو۔ آپؐ نے فرمایا: ہاں‘ خواہ وہ درخت کی ایک شاخ یا ٹہنی کے برابر ہی ہو ۔ اسی طرح فرمایا کہ اگر کسی نے جھو ٹی قسم کھا ئی‘ کسی کا حق ما ر لیا‘ کو ئی زمین ہتھیا لی‘ تو وہ زمین آگ کا طوق بنا کر اس کی گر دن میں ڈال دی جا ئے گی۔ گویا جوما ل آدمی کا اپنا نہیں ہے‘ کسی دوسرے کا مال ہے‘ اس کوکھا نا‘ اس کو حا صل کرنا ناجائز ہے۔ یہ بھی اجتما عی تقویٰ کا ایک حصہ ہے ۔

اسی طرح سے باہمی تعلقا ت کے اندر قدم قدم پر تقویٰ کی تا کید ہے۔ اگر غور کیا جائے تو اللہ کے کوئی بھی احکا م ایسے نہیں ہیں جو تقویٰ کے حدود سے باہر جا تے ہوں یا جن پر آدمی تقویٰ کے بغیر عمل کر سکتا ہو۔ اگر سورۃ البقرہ کی تلاوت کی جائے اور مطالعہ کیا جائے جس میں معاشرتی زندگی اور خاندانی زندگی کے احکا م دیے گئے ہیں تو اس میں ہرحکم کے بعد اس قسم کی آیت ملے گی کہ واتقوا اللّٰہ ‘ اللہ سے ڈرو‘ تم کواس کی طرف لو ٹ کر جا نا ہے‘ اس کا عذا ب بڑا سخت ہے‘ وہ سن رہا ہے ‘وہ دیکھ رہا ہے ‘ یا یہ کہ وہ تمھارے ساتھ ہے ‘ لیکن واتقوا اللّٰہ اس لیے کہ یہی تقویٰ کی اصل جا نچ اور پر کھ ہے کہ آدمی معاملات کے اندر ‘ خا ندا ن کے اندر جو زیر دست ہیں ‘ یعنی بیو ی بچے ‘ملازم اور غلام‘ان کے بارے میں انصا ف کی روش پر قا ئم رہے اور حقوق میں اس کی پابندی کرے۔

یتیموں کے حقوق کی ادایگی ضروری ہے۔ یتیم کیا ہے؟یتیم بے سہارا ہے ‘ وہ اپنا دفاع نہیں کر سکتا۔ اس لیے کہ جو یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ پیٹ میں آگ بھرتے ہیں ۔مسلمان بھائی اگر اپنے کسی عمل کا عذر پیش کریں تو اس عذر کو قبول کرنا بھی ضروری ہے ۔ حدیث میں آیا ہے کہ ہر پیر اور جمعرات کو لوگوں کے اعمال اللہ کے سامنے پیش ہوتے ہیں۔ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ۔ لیکن جس نے شرک کیا ہو یا جس کے دل میں کسی مسلمان کے لیے کینہ اور دشمنی ہو ‘ ان کے تعلقات خراب ہوں تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ ان کا معاملہ مؤخر کردو ۔ ان کے باقی اعمال کے بارے میں بھی فیصلہ نہیں کیا جائے گا ۔

وعدہ کرکے اور امان دے کر کسی کو نقصان پہنچانا بھی جائز نہیں۔ یہاں تک کہ حکومتوں اور حکمرانوں کے لیے بھی آپؐ نے اس بات کو جائز نہیں قرار دیا کہ لوگوں کو کوئی فریب دے کر اپنے قابو میں لے آئیں خواہ دشمن ہوں یا مخالف یا کافر۔ بدعہدی کرنے اور ان کو کسی قسم کا نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ میں اس سے بری ہوں کہ جو آدمی کسی کوامان اور پناہ دینے کے بعد اس کو نقصا ن پہنچائے۔ پھر اسی حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں اگر چہ وہ کافر ہو‘ یعنی کافرکے ساتھ بھی یہ سلوک جائز نہیں ہے کہ اس کے ساتھ جھوٹا وعدہ کرکے اور کوئی فریب دے کر اس کو اپنے قابو میں کر لیا جائے اور اس کے بعد پھر اس کو تکلیف پہنچائی جائے۔

باہمی تعلقات میں تقویٰ کے دو بنیادی اصول ہیں ۔ ایک اصول ہے عدل اور دوسرا پاسِ عہد ۔ ان کو اگر آدمی اختیار کرے تو اجتماعی تقویٰ جو باہمی تعلقا ت کا نام ہے ‘ اس کا سارے کا سارا دائرہ اس کے اندر سمٹ کر آجاتا ہے ۔

عدل کے لیے حکم دیا:  یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِز وَلاَ یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْاط اِعْدِلُوْاقف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰیز (المائدہ۵:۸)  ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو‘ یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے‘‘۔ یہاں کفار قریش کا ذکر تھا جنھوں نے مسلمانوں پر مظالم ڈھائے ‘ گھروں سے نکالا ‘ جنگ کے لیے اُمڈ کر آئے۔ حج اور عمرے کا راستہ بند کر دیا ۔ مسلمان وطن واپس نہیں جا سکتے تھے ۔ اس سب کے باوجود یہ کہا گیا ہے کہ دیکھو یہ کام تمھیں اس پر مجبور نہ کردے کہ تم بھی انھی کی طرح کا برتاؤ ان کے ساتھ کرنے لگو ۔ مکہ سے ۱۳ سال مظالم برداشت کرکے مدینہ آئے ‘ جنگ کی اجازت ملی تو فرمایا: وَقَاتِلُوْا فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلاَ تَعْتَدُوْا ط اِنَّ اللّٰہَ لاَیُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَo (البقرہ ۲:۱۹۰) ’’اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔یہ عدل کا حکم تھا اور ہر معاملے میں عدل کرنے کا حکم تھا ۔مسلمان اور پوری امت مسلمہ بنائی ہی اس لیے گئی ہے کہ وہ ہرمعاملے میں عدل کے اوپر گواہ بن کر کھڑی ہواور یہی تقویٰ کا راستہ ہے:

اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ انصاف کے علم بردار اور خداواسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتے داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب‘ اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیرخواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔ (النساء ۴:۱۳۵)

دوسری چیز پاسِ عہد ہے کہ جو بات منہ سے نکل جائے اس کی پابندی ضروری ہے ۔ کہیں بھی آدمی عہد کرے ‘ دوسرے انسان سے وعدہ کرے تو اس کا پورا کرنا ضروری ہے۔ اگرکوئی امانت سپرد کی جائے اور اس کی حفاظت کرنا اور لوٹانا اپنے ذمہ لے تو پابندی ضروری ہے‘ اس لیے کہ یہ بھی عہد ہے۔

اجتماعی زندگی کے تقاضے

تقویٰ اور اجتماعی تقویٰ کا یہ دائرہ انسان کے درمیان معاملات کا ہے ۔ دوسرا دائرہ اجتماعی زندگی سے متعلق ہے۔ اس دائرے میں خاندان کا ادارہ بھی شامل ہے‘ اور مسلمان معاشرے میں جو تنظیمیں اور ادارے بنائے گئے ہیں‘ جو اُمت کے اندر موجود ہیں اور سب سے بڑھ کر حکومت اور ریاست کا ادارہ ہے‘ ان سب کے بارے میں بہت واضح کرکے یہ بات بتائی گئی ہے کہ اصل میں ان سب کا مداراس تقویٰ پر ہے جو ایک انسان دوسرے انسانوں کے ساتھ برتتا ہے ۔ چنانچہ اگر ریاست کی مثال کو سامنے رکھا جائے توحکمرانوں کے بارے میں بھی یہی بات کہی گئی کہ حکمران کا یہ فرض ہے کہ لوگوں کے ساتھ انصاف کرے‘ اور جو حکمران جھوٹ بولتا ہے یا بد عہدی کرتا ہے اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ حکمران سیدھا جہنم میں جائے گا ۔

ایک حدیث میں ہے کہ تین آدمی ایسے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ بغیر کسی حساب کے آگ میں ڈال دے گا‘ یعنی ان کے اعمال لازماً ایسے ہوں گے کہ کسی حساب کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔ ان میں سے ایک امام کاذب ہے ‘ یعنی لوگوں کا وہ قائد جو جھوٹ بولتا ہے ۔ اسی طرح جو آدمی مسلمانوں کے کسی کام کا ذمہ دار بنایا جائے اور اس کے بعد وہ اس کام میں لوگوں کو دھوکا اور فریب دے اور ان کے ساتھ معاملہ ٹھیک نہ کرے‘ فرمایا کہ فلیس منا ‘ یعنی و ہ ہم میں سے نہیں ہے اور یہ بھی تقویٰ کے خلاف ہے۔ مال ودولت اگر عوام کا ہے تو وہ ایک امانت ہے ‘ اس کے بارے میں یہ ہے کہ اگر کسی نے ایک رسی اور ایک چادر یا عبا بھی اس میں سے خیانت کر لی تو یہ اس کو جہنم میں لے جائے گی۔ یہ مال کے بارے میں اور لوگوں کے حقوق کے بارے میں احتیاطیں ہیں اور حکومت کے عہدے داروں کے لیے بھی۔ اس میں یہ تخصیص نہیں ہے کہ جو آدمی حکومت کے منصب پر فائز ہو بلکہ فرمایا: من ولی من امر المسلمین‘ جس کو مسلمانوں کے کسی کام کی ذمہ داری سپرد کر دی گئی ۔ ان سب پر تقویٰ کے یہ حدود لازم آتے ہیں ۔

پیچھے چلنے والوں کا آگے چلنے والوں سے جو تعلق ہے‘ اس کے بارے میں بھی احکام واضح طور پر بیان کیے گئے ہیں اور ہدایات دی گئی ہیں۔سورۂ حجرات کے درمیان کا حصہ مسلمان اور مسلمان کے باہمی تعلقات کے بارے میں ہے‘ اور شروع کا حصہ مسلمانوں کا اپنے رسول سے تعلق کے بارے میں ہے۔ اُمت میں سے کوئی آدمی وہ مقام تو حاصل نہیں کر سکتا جو اللہ کے رسولؐ کو حاصل تھا لیکن جو افراد قیادت کررہے ہوں‘ ایک درجے میں ان کے حوالے سے قیاس کیا جا سکتا ہے۔ جو لوگ بھی آگے چلنے والے ہوں ‘ ان سے اپنی بات منوانے پر ضدکرنا ‘ اپنی بات پر مصر ہونا ‘ اپنی بات پر اڑ جانا اور یہ کوشش کرنا کہ ہماری بات ہی مانی جائے ‘ اسی کے لیے آدمی اپنی آواز اونچی کرتا ہے ‘ لڑتا بھڑتا ہے ‘ اگرچہ یہ بے ادبی رسولؐ اللہ کی شان میں بے ادبی تھی ‘ لیکن جو مرض تھا وہ دراصل ان اجڈ گنوار سرداروں کا تھا جو صحیح معنوں میں ایمان تو نہیں لائے تھے لیکن اسلام کا غلبہ دیکھ کر مومن ہو گئے تھے اور اب یہ چاہتے تھے کہ ان کی بات سنی جائے ‘ ان کا مشورہ مانا جائے ‘ ان کو مجلسوں کے اندر برتری دی جائے ‘ انھیں پہلے بلایا جائے تو اس سب کے بارے میں سورۂ حجرات کے شروع میں کہا گیا ہے کہ واتقوا اللّٰہ ’’ اللہ سے تقویٰ اختیار کرو ‘‘۔ اس کے بعد یہ واضح کیا گیا کہ متقی تو وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ سے اپنے آپ کو آگے نہیں بڑھاتے‘ مقدم نہیں کرتے‘ ان کے مقابلے میں اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں‘ بات سلیقے سے کرتے ہیں ‘ بات سننے کے لیے بھی تیار ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں فرمایا: اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ  لِلتَّقْوٰیط(الحجرات ۴۹:۳)‘ ان کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے لیے آزما لیا ہے اور جانچ لیا ہے۔

زیادتی پر بدلہ

اجتماعی تقویٰ کے یہ مختلف پہلو میں نے آپ کے سامنے رکھے ہیں۔ سب سے زیادہ تفصیل کے ساتھ انسان اور انسان کے درمیان تعلق پر گفتگو کی گئی ہے۔ پھر اجتماعیت کے بارے میں کچھ اشارات آپ کے سامنے رکھے گئے ہیں۔ اس کے اندر جو اصل بات تھی وہ میں نے شروع میں کہی تھی وہ یہ تھی کہ کسی قسم کی بھی ایسی ایذا پہنچانا جس کی کوئی گنجایش شریعت میں دین کے کسی واضح حکم کے تحت نہ نکلتی ہو ‘ اس کی کوئی گنجایش تقویٰ کے ساتھ نہیں ہے ۔ بدلہ لینے کی اجازت ہے۔ مگر جب بدلہ لینے کی نیت ہوتی ہے اور بدلہ لینے کا جذبہ غالب ہوتا ہے تو آدمی زیادتی کر جاتا ہے۔ اس کے بارے میں بھی واضح ہدایات ہیں کہ اگرآدمی بدلہ بھی لے تو اتنا ہی لے جتنی کہ اس کے اوپر زیادتی کی گئی ہو ۔ قرآن مجید میں خود یہ بات واضح کی گئی ہے کہ جس پر زیادتی کی گئی ہے اس کو بدلہ لینے کا حق ہے لیکن اتنا ہی حق ہے جتنی اس کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے ۔ اگر کہیں وہ بڑھ گیا تو پھر اس کے اوپر اپنے عمل کا وبال آجائے گا ۔ اس لیے بہتر یہ ہے آدمی معاف کردے اور اصلاح کرے ‘ صلح کر لے۔ فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِط (الشوریٰ ۴۲:۴۰) ’’پھر جو کوئی معاف کر دے اور اصلاح کرے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے‘‘۔ یہ اس سے بہتر ہے کہ آدمی بدلہ لے کیونکہ بدلہ لینے میں کوئی ضمانت نہیں ہے کہ انسان اتنا ہی بدلہ لے گا جتنا کہ اس کے اوپر کی ہوئی زیادتی یا ظلم کا ہونا چاہیے ۔

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ایک صاحب حضورؐ کی خدمت میں آئے اور کہا کہ حضورؐ میرے بہت سارے خادم ‘ نوکر اور غلام ہیں۔ وہ میرا کام کرتے ہیں لیکن مجھے جھوٹا بھی بناتے ہیں ‘ کام چوری بھی کرتے ہیں ‘ کام پورا نہیں کرتے ‘ مال بھی چراتے ہیں اور میری نافرمانی بھی کرتے ہیں۔ میرے اور ان کے درمیان معاملہ کس طرح طے ہوگا؟ آپؐ نے فرمایا: دیکھو تمھارے جو اعمال ہیں‘ تم نے ان کو جو سزاد ی ‘ ان کو برا بھلا کہا ‘وہ ایک طرف رکھے جائیں گے ‘اور انھوں نے جو تمھارے ساتھ زیادتیاں کی ہیں وہ دوسری طرف رکھی جائیں گی ۔ اگر دونوں برابر ہیں تو تم چھوٹ جاؤگے لیکن اگر تم نے بدلے میں زیادتی کی ہوگی تو پھر جتنی بھی زیادتی کی ہوگی تم سے اس کا قصاص لیا جائے گا اور تمھیں اس کا بدلہ دینا پڑے گا ۔ یہ سن کر وہ صاحب دور جا کر بیٹھ گئے اور رونے دھونے لگے کہ میں تو تباہ وبرباد ہو گیا ۔ پھر حضورؐ نے ان کو بلایا اور کہا کہ تم نے قرآن مجید میں یہ آیت نہیں پڑھی کہ وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئًاط وَاِنْ کَانَ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَابِھَاط وَکَفٰی بِنَا حٰسِبِیْنَ o (الانبیاء ۲۱:۴۷) ’’قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں گے‘ پھر کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہوگا۔ جس کا رائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہوگا وہ ہم سامنے لے آئیں گے اور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں‘‘۔ اس پر انھو ں نے کہا کہ حضور اب اس کے بعد تو اس کے علا وہ کو ئی را ستہ نہیں ہے کہ میں ان سب کو معا ف کردو ں اور ان سب کو آزاد کر دوں۔چنانچہ آج میں نے ان سب کو آزاد کر دیا ۔

بدلہ لینے کا معا ملہ بھی یہی ہے کہ اگر ایک کو ڑا بھی زیادہ ما را جا ئے گا تو اس کوڑے کا قصا ص اور بدلہ انسا ن سے لیا جا ئے گا ۔ بدلہ لینے میں جو جذبہ پنہاں ہے وہ آدمی کو کبھی غیبت پر آما دہ کرتا ہے ‘ کبھی زیادتی پر آما دہ کرتا ہے ‘ وہ اسے حسد میں مبتلا کر دیتا ہے کہ مجھے یہ نقصا ن پہنچا ‘ میری عزت پر یہ حرف آیا ‘ اس نے میر ا یہ حق ما ر لیا ‘ اس نے میرے اوپر یہ ظلم کیا اور اس طرح غیظ و غضب میں اور غصے وا نتقا م کے جذبے میں آدمی حق سے نکل جا تا ہے۔ خواہ مال کی حرص میں آدمی دوسرے کے حقوق ما رے یا انتقام یا بدلہ لینے کی نیت سے اقدام کرے‘ یہ انسا ن اور انسا ن کے درمیان تعلقات کا سب سے نا زک معاملہ ہے۔ بہت ساری احا دیث سے اس بات کو واضح کیا جا چکا ہے کہ عبادات سے زیا دہ یہ چیز اہم ہے کہ انسان کسی دوسرے انسان پر زیادتی نہ کرے اور اسے اذیت نہ پہنچائے اور یہی انسا ن کا امتحا ن ہے کہ وہ دنیا میں اللہ کے خو ف سے آپس میں صلح و صفا ئی سے رہیں۔

ایمان اور تقویٰ کی روش

جب اللہ تعا لیٰ نے فرشتو ں کے سا منے اس بات کا اعلان کیا کہ میں ز مین میں اپنا نا ئب بنا نے والا ہوں  تو فر شتو ں نے کہا تھا کہ کیا آپ کو ئی ایسی مخلوق بنا رہے ہیں جو خو ن بہا ئے گی اور زمین میں فسا د مچائے گی‘جب کہ تسبیح و تقدیس کا کام تو ہم کر ہی رہے ہیں ۔ سجدہ اور رکو ع کو ئی ایسا کام نہیں جس کے کر نے والے موجودنہ ہوں ۔ ایک حدیث میں ہے کہ آسمان پر کو ئی چارانچ کی جگہ بھی خالی نہیں ہے جہاں پر کو ئی فرشتہ رکوع میں نہ ہو‘ سجدے میں نہ ہو‘ قیام میں نہ ہو‘ تسبیح نہ کر رہا ہو ‘ حمد نہ کر رہا ہو ‘ یا تکبیر نہ پڑھ رہا ہو۔ دراصل اللہ نے خلیفہ تواس لیے بنایا تھا کہ وہ اللہ کی خلا فت کی ذمہ داری سنبھال کر یہاں پر عدل قا ئم کرے اور فساد سے بچا ئے۔ انسا ن ‘ انسا ن کا خون نہ بہائے‘ اس کی عزت پر حملہ نہ کرے‘ اس کے مال کو غصب نہ کرے۔ یہی دراصل ‘ اصل امتحان ہے اور یہی انسا ن سے مقصود ہے‘اور اسی سے تقویٰ کا وہ دائرہ بنتا ہے جو پو ری زندگی کے اوپر حا وی ہے ۔ اگر یہ دائرہ ہا تھ سے چھو ٹ جا ئے ‘ اس میں کو تا ہی ہو ‘ تو پھر عبادات اس کا مداوا نہیں کرسکتیں بلکہ پو ری عبادات آدمی سے چھینی جا سکتی ہیں۔ اگر یہی ایک بات آدمی کو یا درہے کہ ہرمظلو م اٹھ کر کھڑا ہو جا ئے گا اور جس ظلم کے لیے میرے پاس کو ئی معقول توجیہہ نہیں ہو گی اس پر مجھے سزا دی جا ئے گی تو یہ بہت ساری برا ئیوں کے ارتکاب سے اسے روک سکتی ہے۔

ایک دفعہ امام ابوحنیفہ ؒ سے کسی نے کہا کہ فلاںآدمی نے آپ کی غیبت یا برا ئی کی ہے تو انھو ں نے اس کو ایک طشت میں کھجو ریں تحفے کے طور پر بھجوائیں اور اس سے کہا کہ آج تم نے اپنی بہت ساری نیکیا ں میرے حوا لے کردی ہیں۔ میں اس کا کو ئی بدلہ تونہیں دے سکتا البتہ یہ کچھ کھجوریں تحفے کے طور پر تمھیں بھجوا رہا ہو ں۔

پس جو آدمی بھی زیادتی کرتا ہے دراصل اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے‘ اس کے اعمال نامے میں سے نیکیا ں کم ہو تی جاتی ہیں۔ دوسری طرف دنیاکی زندگی بھی فساد اور بے چینی کا شکا ر ہوتی ہے اوردل بھی جلتا ہے‘ کبھی حسد کی آگ میں ‘ کبھی انتقا م کی آگ میں‘ اور کبھی بے اطمینانی کی آگ میں۔ جیسا کہ کہا گیا ہے کہ حسد اور کینہ ایسی چیزیں ہیں جو نیکیوں کو کھا جا تی ہیں۔ اس لیے کہ ان سے جو آگ بھڑک اٹھتی ہے‘ یعنی انتقا م اور حسد کی آگ‘ اور دوسرے سے بدلہ لینے کی آگ ان کی بنیاد پر آدمی وہ کا م کر گزرتا ہے جو اس کی ساری نیکیو ں کو غارت کر دیتا ہے‘ اور جلا کر بھسم کر دیتا ہے ۔ یہی وہ بیماریاں ہیں جو نیکیوں کو آگ کی طرح کھا لیتی ہیں۔ ایک بار جب تعلقات کے اندر فساد پیدا ہو جا ئے تو اس کے بارے میں نبی کریمؐ نے فرما یاہے کہ یہ فساد استرے کی طر ح ہے‘ اور یہ ایسا استرا ہے جو سر کے بال  ہی نہیں صاف کرتا بلکہ یہ پورے دین کو مونڈڈا لتا ہے۔

خدا کے انعامات اور بشارتوں کا سبب

اجتما عی تقویٰ کا یہ وہ پہلو ہے کہ جو ہر وقت نگا ہو ں کے سامنے رہنا چاہیے اور جس کی فکر کر نا چاہیے ‘ اس لیے کہ نماز ‘رو زہ اور مختلف عبادات اس وقت تک کا م نہیں آتیں جب تک کہ تقویٰ کا یہ کردار تشکیل نہ پائے۔ یہی تقویٰ ساری خوبیوں اور بھلا ئیو ں کا ما حصل ہے۔ اللہ تعا لیٰ نے دنیا اور آخرت میں اپنی ساری  بشا رتیں اور سارے انعا مات تقویٰ کے ساتھ وابستہ کیے ہیں۔ وہ قومیں زمین اور آسمان کی ساری کی ساری برکات سے مالا مال ہوں گی جو تقویٰ کی روش اختیار کریں۔ ’’اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کا راستہ اختیار کرتے تو ہم ان کے اوپر آسمانوں سے بھی اور زمین سے بھی برکتوں کے دروازے کھول دیتے‘‘ (اعراف ۷: ۹۶)۔ اور جہاں تک آخرت کا معاملہ ہے تو بار با ر کہا گیا ہے کہ جنت تو ہم نے بنا ئی ہی متقین کے لیے ہے:  اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَo (اٰل عمٰرن ۳:۱۳۳)’’یہ جنت متقین کے لیے تیار کی گئی ہے‘‘۔  اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّنَعِیْمٍo (الطور۵۲:۱۷) ’’متقی لوگ وہاں باغوں اور نعمتوں میں ہوں گے‘‘۔یہ جنت انھی کی ورا ثت ہے جو تقویٰ کی روش اختیار کریں ۔

تقویٰ کا مفہو م آپ کے سامنے ہے۔ اصل میں تو یہ دل کی دھڑکن‘ دل کا یہ اندیشہ اور خوف ہے  کہ کوئی ایسی با ت منہ سے نہ نکلے اور کو ئی ایسا کا م سرزد نہ ہو جا ئے جو اللہ کو نا راض کرنے والا ہو ۔ پھر یہ احساس ہے کہ اللہ کو نارا ض کرنے والے کا موں میں سے وہ کون سے کا م ہیں جو اُ س کو زیا دہ ناراض کرنے والے اور زیا دہ غضب میں لانے والے ہیں۔ یہ بات بھی جاننا چاہیے کہ دراصل جو چیزیں حرا م کی گئی ہیں وہ صرف کھانے پینے ‘ اوڑھنے بچھو نے کی حد تک نہیں ہیں بلکہ انسا نی معا ملات اور تعلقا ت میں بھی اللہ تعالیٰ نے بے شمار چیزیں حرا م کی ہیں اور بے شمار چیزیں فرا ئض میں دا خل کی ہیں۔ جو آدمی عبادات میں ‘ اور کھانے پینے میں توحلا ل و حرام کی پا بندی کرتا ہے لیکن معاملات میں حلال و حرام کی پروا نہیں کرتا ‘ تو وہ بھی اسی طرح گناہ گار ہو تا ہے جس طرح نماز چھوڑنے والا یا کو ئی سود کھا نے والا یا شراب پینے والا گناہ گار ہوتا ہے۔ درحقیقت مومن کے ضمیر کو تو ایک ترازو کی مانند ہونا چاہیے کہ اگرذرا سا بال برابر بھی کوئی وزن بڑھ جائے‘کسی پر ظلم کا ‘کسی پر زیا دتی کا ‘ کسی حق کے ادا کرنے میں کوتاہی کا ‘ تو ترازو فوراً جھک جا ئے اور اس کے ضمیر میں خلش پیدا ہو۔

اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّھُمْ طٰئِٓفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَکَّرُوْا فَاِذَاھُمْ مُّبْصِرُوْنَ o (اعراف ۷:۲۰۱)

حقیقت میں جو لوگ متقی ہیں ان کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال اگر انھیں چھو بھی جاتا ہے تو فوراً چوکنے ہو جاتے ہیں اور پھر انھیں صاف نظر آنے لگتا ہے کہ ان کے لیے صحیح طریق کار کیا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کواس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین (کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)


کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت: ۵ روپے۔ منشورات‘ منصورہ‘ لاہور

قرآن کریم وہ کتاب ہے جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کتاب کے ذریعے اللہ تعالیٰ بہت سی قوموں کو اُوپر اٹھاتا ہے‘ اور بہت سی قوموں کو نیچے گراتا ہے۔ خود قرآن کا بڑا حصہ قوموں کے عروج و زوال کی داستان پر مشتمل ہے۔ شاہ ولی اللہؒ نے علومِ قرآنی کو پانچ حصوں میں تقسیم   کیا ہے۔ ان میں سے ایک حصے کو  تذ کیر بایام اللّٰہ ’’اللہ کے دنوں کے ذریعے تذکیر‘‘ کے نام سے موسوم کیا ہے۔

قوموں کے عروج و زوال کی داستان انسانی تاریخ کے صفحات پر اس طرح ثبت ہے کہ انسان اس پر غوروفکر کیے بغیر نہیں گزر سکتا۔ جماعتیں اور گروہ گم نامی کے گوشے سے اٹھتے ہیں اور دنیا کے اُوپر چھا جاتے ہیں‘ تہذیب و تمدن کے عروج پر پہنچتے ہیں اور اس کے بعد بعض سو جاتے ہیں‘ بعض قعر مذلت میں گر جاتے ہیں‘ اور بعض کی فصل تو اس طرح کٹ جاتی ہے کہ اُن کا نام تاریخ کے صفحات میں ایک داستان عبرت بن کر رہ جاتا ہے۔  فَجَعَلْنٰھُمْ اَحَادِیْثَ وَمَزَّقْنٰھُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍط  (السبا ۳۴:۱۹) ’’آخرکار ہم نے انھیں افسانہ بنا کر رکھ دیا اور انھیں بالکل تتر بتر کر ڈالا‘‘۔ تہذیب و تمدن کی ساری سربلندیوں کے باوجود‘ بعض کا خاتمہ اس طرح ہوتا ہے گویا آگ بجھ گئی ہو‘ یا کھیتی کٹ چکی ہو۔ حَتّٰی جَعَلْنٰھُمْ حَصِیْدًا خَامِدِ یْنَo (الانبیاء ۲۱:۱۵) ’’یہاں تک کہ ہم نے ان کو کھلیان کر دیا‘ زندگی کا ایک شرارہ تک ان میں نہ رہا‘‘۔

انسان سوچتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اُس کی فطرت میں جستجو کا مادہ ہے‘ اور وہ جاننا چاہتا ہے کہ انسانی جماعتیں اور گروہ ترقی کی منزلیں کیسے طے کرتی ہیں اور ایسا کیسے ہو جاتا ہے کہ جب وہ بامِ عروج پر پہنچ جاتی ہیں تو اس کے بعد زوال کی طرف چل پڑتی ہیں‘اور بالآخر اس کا شکار ہو جاتی ہیں۔

ہماری عادت یہ ہے کہ ہم چیزوں کو سمجھنے کے لیے ایسی مثالیں لاتے ہیں جو ہمارے لیے زیادہ قابل فہم ہوں۔ جب انسان نے قوموں کے عروج و زوال پر غور کیا تو اُس نے خیال کیا کہ قوموں کی زندگی کا عمل بھی شاید اُسی طرح ہے جس طرح ایک فرد کی زندگی ہوتی ہے جس کو وہ جانتا اور پہچانتا ہے۔ انسان پیدا ہوتا ہے‘ بچپن کی حدود میں داخل ہوتا ہے‘ جوانی کے دور میں داخل ہوتا ہے‘ اور پھر اس پر بڑھاپا طاری ہو جاتا ہے‘ اور بالآخر وہ موت کا شکار ہو جاتا ہے۔ انسان نے سوچا شاید قوموں کی زندگی بھی اسی طرح ایک حیاتیاتی عمل ہے اور یہ بھی بالکل انسانی زندگی کی طرح‘ بچپن‘ جوانی‘ بڑھاپا اور موت کی منازل سے گزرتی ہے۔ کبھی انسان شام و سحر کی طرف نظر دوڑاتا ہے کیونکہ تاریخ کا زمانے سے بڑا گہرا تعلق ہے‘ لہٰذا اس نے یہ فتویٰ صادر کر دیا کہ قوموں کی زندگی ایک چکر کی مانند ہے۔ جس طرح صبح کے بعد شام اور پھر صبح ہوتی ہے‘ اسی طرح قوموں کی زندگی میں بھی یادگار لمحے آتے رہتے ہیں۔

کچھ لوگوں نے اندازہ لگایا کہ ان سارے چکروں کے نتیجے میں انسانیت بحیثیت مجموعی ترقی و ارتقا کی طرف بڑھ رہی ہے‘ بالخصوص پچھلی تین چار صدیوں میں جب یورپ نے سائنس اور ٹکنالوجی کی طرف عظیم الشان جست لگائی اور فطرت کے راز بے نقاب کیے‘ اور قدرت کی طاقتوں پر کنٹرول حاصل کیا تو یورپ نے دیکھا کہ اب ہم بغیر الہامی ہدایت کے قدرت کے اُوپر قابو حاصل کرتے جا رہے ہیں۔ اب یہ نظریہ پیش کردیا گیا کہ انسانیت بحیثیت مجموعی ترقی کی طرف جا رہی ہے بلکہ تاریخ کے اندر ترقی ایک لازمی امر ہے جو کہ روپذیر ہو کر رہے گا۔ اگر قوموں پر ادوار آتے ہیں تو یہ ان کے اپنے معاملات ہیں‘ انسانیت بحیثیت مجموعی ترقی پذیر ہے۔

اس نظریے کو ابھی چند سال ہی گزرے تھے کہ پہلی جنگ عظیم میں انسانیت کو ۸۰ لاکھ لاشوں اور ڈھائی کروڑ معذور و اپاہج انسانوں کا تحفہ ملا۔ یوں ترقی کے یہ سارے خواب چکناچور ہو گئے اور یورپ کو    یہ سوچنا پڑا کہ انسان کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر لے‘ اُس کی عقل کتنی ہی آگے کیوں نہ بڑھ جائے‘ قدرت کی طاقتوں اور فطرت کے رازوں پر اُس کو خواہ کتنا ہی کنٹرول حاصل ہو جائے لیکن ضروری نہیں کہ انسانیت ترقی کی طرف جا رہی ہو۔

قوموں اورانسانیت کے عروج و زوال اور ترقی پذیری کے بارے میں پائے جانے والے ان نظریات کے جائزے کی ضرورت اس لیے تھی کہ اس کی روشنی میں قرآن نے اس حوالے سے جو عظیم الشان اور فکرانگیز تعلیمات پیش کی ہیں ان کو سمجھنا آسان ہو جائے اور ان کی قدروقیمت کا صحیح اندازہ لگایا جا سکے۔

اگر ان سارے نظریات پر غور کیا جائے تو اس میں تین چیزیں نمایاں نظر آئیں گی۔ ان میں سے ایک جبریت ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان مجبورِ محض ہے۔ وہ بچپن‘ جوانی اور بڑھاپے کے مراحل سے گزر کر بالآخر موت کی آغوش میں چلا جائے گا۔ اس میں اُس کے فعل کا‘ اخلاق کا کوئی عمل دخل نہیں ہے‘ وہ مجبوراً چاروناچار موت کی طرف اپنا سفر طے کرتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ تاریخ میں لازماً ترقی ہو رہی ہے‘ جب کہ انسان مجبور ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اس ترقی کے پیچھے پیچھے چلے۔ اگر ہم کہیں کہ تاریخ کے اندر ساری ترقی مادی قوتوں اور عوامل اور سائنس اور ٹکنالوجی کا نتیجہ ہے‘ تو یہ بھی وہ چیزیں ہیں جو انسان کو مجبور کرتی ہیں۔ جبریت اور مادیت ان تمام نقطہ ہاے نظر کا خلاصہ ہے جو انسان نے تاریخ کے بارے میں قائم کیے ہیں۔

تاریخ کی اہمیت

تاریخ کے بارے میں جستجو صرف فلسفیانہ اہمیت نہیں رکھتی‘ بلکہ اس کی بڑی زبردست عملی اہمیت ہے۔ اس لیے کہ انسان کی ساری تگ و دو کا مقصد یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے ’’کیوں‘‘ کا جواب حاصل کر لے‘ بلکہ وہ یہ بھی جاننا چاہتا ہے کہ کوئی نسخہ اور راستہ ایسا ہے جو اس کو زوال سے بچا سکے اور عروج کی طرف لے جاسکے؟

آج بحیثیت مسلمان اور بحیثیت پاکستانی سب سے بڑھ کر ہمیں اسی سوال سے دل چسپی ہے اور ہونی چاہیے۔ آج کہیں پاکستان کے بارے میں گفتگو ہو تو افسردگی اور قنوطیت کی ایسی ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے جو موسموں کو منجمد کر ڈالے‘ مذمت اور تبصرے بازی اور برائیوں کی ایسی داستان ہوتی ہے جس کے ساتھ غیظ و غضب کی حرارت شامل ہوتی ہے۔ جس گفتگو میں بھی آپ شریک ہو جائیں‘ اور جس محفل میں بھی آپ بیٹھ جائیں‘ بہت کم امیدافزا فقرے سننے کو ملتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو ملک ہم نے ۱۹۴۷ء میں حاصل کیا تھا ۲۵ سال بعد ہی اس کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ آج ہم قومی زندگی کے جس پہلو کو بھی لیں‘ ہم صرف مرثیہ ہی پڑھ سکتے ہیں۔

وہ تہذیب اور قوم جس نے بحیثیت مسلمان ہزار سال دنیا پر حکمرانی کی‘ عروج کی منزلیں طے کیں‘ پچھلے ڈھائی‘ تین سو سال میں‘ آہستہ آہستہ زوال کا شکار ہو گئی۔ ایک ایک کر کے ہمارے علاقے‘ ہماری حکومتیں اور ہماری قومیں یورپ کی غلامی میں آتی چلی گئیں‘ انڈونیشیا گیا‘ ہندستان گیا‘ الجیریا گیا‘ مراکش گیا‘ نائیجیریا گیا۔ اگر ہم پلٹ کر مسلم دنیا پر نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سعودی عرب اور افغانستان جیسے چند ملکوں کو چھوڑ کر کوئی مسلمان ملک آزاد نہیں تھا۔ آج بھی آزادی کے سارے دعوئوں کے باوجود‘ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مسلمان اپنی قسمت کی تعمیر کے لیے آزاد نہیںہیں۔ ایک چھوٹے سے ۳۰ لاکھ کے اسرائیل کا خنجر اُمت مسلمہ کے سینے میں گھونپ دیا گیا ہے اور مسلمان اس کا مقابلہ کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ ہمارے پاس لاکھوں کروڑوں ڈالرہیں‘ بے شمار انسانی وسائل ہیں‘ دنیا کے بہترین خطے ہیں‘ ہم دنیا کی اہم شاہراہوں اور گزرگاہوں پر واقع ہیں‘ لیکن اس کے باوجود پوری دنیا میں بے وزن ہیں۔ آخر ایسا کیوںہے؟ یہ بات قابل غور ہے!

تاریخ کی یہ داستان ہمارے لیے صرف علمی گفتگو اور فلسفیانہ کاوش کی حیثیت نہیں رکھتی‘ بلکہ ہمیں اس سے دل چسپی اس لیے بھی ہونی چاہیے کہ ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ آیا ہمارے جو مسیحا مشرق سے لے کر مغرب تک ہماری قوموں کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں‘ ان کے ہاتھوں کیا یہ اُمت یا پاکستان عروج کی منزل کی طرف جا سکے گا؟ کیا وہ ٹکنالوجی اور سائنس جس کو ہم لاکھوں ڈالر دے کر حاصل کر رہے ہیں‘ اس سے ہماری قومیں ترقی کی منزلیں طے کر سکیں گی؟ کیا معاشی ترقی کے ان پنج سالہ منصوبوں کے ذریعے‘ جو ہم ایک کے بعد ایک وضع کررہے ہیں اور انھیں عملی جامہ پہنا رہے ہیں‘ ہماری قوم فی الواقع عروج کی منزل تک پہنچ سکے گی؟ ان سارے نسخوں اور مسائل کے حل کی فی الواقع حقیقت کیا ہے؟ چنانچہ ہمارے لیے اس سوال کی اہمیت صرف علمی اور فلسفیانہ ہی نہیں ہے‘ بلکہ بڑی عملی ہے۔ یہ سوال اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہم غور کریں اور جانیں کہ قرآن مجید اس کا کیا جواب دیتا ہے‘ اوراس کے پاس ان مسائل کا حل اور امت و ملّت کے عروج و سربلندی کا راستہ کون سا ہے؟

قرآن کا نقطۂ نظر

اگر دعوے کا لفظ کتاب الٰہی کے لیے درست ہو تو میں کہوں گا کہ یہ بڑا زبردست دعویٰ ہے جو قرآن نے کیا ہے کہ قوموں کا عروج و زوال‘ نہ مادی قوتوں پر منحصر ہے‘ نہ سائنس اور ٹکنالوجی کا اس میں عمل دخل ہے اور نہ علمی ترقیوں پر ہی اس کا انحصار ہے۔ یہ خالصتاً اخلاقی اور معنوی اقدار کے اُوپر منحصر ہے۔ یہ انسان کے اخلاقی کسب اعمال کا نتیجہ ہے جس کے نتیجے میں قومیں عروج یا زوال کی طرف جاتی ہیں۔

قرآن مجید نے بہت وضاحت کے ساتھ‘ قوموں کے عروج و زوال کا جو بیان کیا ہے‘ وہ ایک فرد کی زندگی سے بالکل مختلف ہے۔ فرد اس بات پر مجبور ہے کہ وہ موت کی طرف جائے‘ اور اس میں اُس کی اخلاقی زندگی کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اگر کوئی صالح ہوگا اس کو بھی موت آئے گی اور اگر کوئی فاسق ہوگا تو اُس کو بھی موت کا سامنا کرنا ہوگا‘ لیکن قوموں کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ قومیں لازماً موت سے ہم کنار نہیں ہوتیں۔ اُن کی موت اس لیے واقع ہوتی ہے کہ وہ اپنے نفس کے اُوپر ظلم کرتی ہیں‘ حالانکہ فرد کی موت کا تعلق اُس کے اپنے نفس پر ظلم کے ساتھ نہیں ہوتا۔ وہ اپنی فطری موت مرتا ہے۔ کسی قوم کا مٹ جانا یا اس کی موت واقع ہونا‘ یہ ناگزیر عمل نہیں ہے جو اسے لازماً پیش آئے۔ جس طرح کوئی فرد اپنی اخلاقی زندگی میں اچھا بننا چاہے تو اچھا بن سکتا ہے‘ اور برا بننا چاہے تو برا بن سکتا ہے ‘ اس طرح قومیں بھی آزاد ہیں کہ وہ اچھائی کی روش پر چلنا چاہیں تو چل سکتی ہیں‘ ترقی کی راہیں طے کر سکتی ہیں‘ اخلاقی اور معنوی اقدار حاصل کر سکتی ہیں‘ اور اگر برائی کی طرف جانا چاہیں‘ اپنے اُوپر ظلم کریں‘ دنیا کے اندر ظلم اور فساد کا دروازہ کھولیں تو وہ تباہی کی طرف جاسکتی ہیں‘ اور یہ عمل ایسا بھی نہیں ہے کہ لوٹایا نہیں جا سکتا۔ آدمی جوان ہونے کے بعد بچہ نہیں بن سکتا‘ اور بوڑھا ہونے کے بعد جوان نہیں ہو سکتا‘ لیکن قومیں زوال پذیر ہونے کے بعد ایک بار پھر عروج کی طرف آسکتی ہیں اور سربلند ہو سکتی ہیں۔

اگر یہ بات صحیح نہ ہوتی تو انبیاے کرام گری ہوئی قوموں کے سامنے اپنی دعوت لے کر کھڑے نہ ہوتے۔ وہ جانتے تھے کہ یہ نسخہ ایسا ہے کہ جس سے کوئی قوم خواہ کتنی ہی نیچے گر چکی ہو‘ اگر وہ چاہے تو دوبارہ عروج کی طرف گامزن ہو سکتی ہے۔ انھوں نے قوموں سے اس بات کا وعدہ کیا‘ اور خوش خبری بھی دی کہ اگر تم نے یہ دعوت قبول کر لی تو بالآخر تم عروج کی طرف چلے جائو گے۔ خود نبی کریم ؐ نے عرب کے لوگوں کو یہ مژدہ سنایا کہ اگر تم نے میری دعوت مان لی تو تم عرب اور عجم دونوں کے مالک بن جائو گے۔ چنانچہ اس کا انحصار نہ سائنس پر تھا نہ ٹکنالوجی پر‘ نہ مادی ترقی پر اور نہ معاشی ترقی کے منصوبوں پر‘ بلکہ اس کا تمام تر انحصار اس دعوت کے اوپر تھا جس کو انبیاے کرام نے پیش کیا۔

انگریزی میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ قوموں کے زوال کا عمل irreversible نہیں ہے‘ جب چاہے اس کو روکا اور پلٹا جا سکتا ہے۔ کسی قوم کی زندگی میں کبھی کوئی مقام ایسا نہیں ہوتا کہ جہاں مایوسی اور افسردگی ہمیشہ کے لیے ہو۔ جب بھی کوئی قوم چاہے اپنے آپ کو اُوپر اُٹھا سکتی ہے۔

قرآن نے اس بات کو مختلف انداز سے واضح کیا ہے‘ اور ہر مرتبہ یہی بات کہی ہے کہ اس کا تعلق صرف اعمال اور اخلاق سے ہے۔ فَھَلْ یُھْلَکُ اِلاَّ الْقَوْمُ الْفٰسِقُوْنَ o (الاحقاف ۴۶:۳۵) ’’کیا کسی کو ہلاک کیا جاتا ہے سوائے اُن قوموں کے جو فسق کا راستہ اختیار کریں‘‘۔  وَتِلْکَ الْقُرٰٓی اَھْلَکْنٰھُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا (الکھف ۱۸:۵۹) ’’یہ عذاب رسیدہ بستیاں تمھارے سامنے موجود ہیں۔ انھوں نے جب ظلم کیا تو ہم نے انھیں ہلاک کر دیا‘‘۔ مزید فرمایا:  ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ  وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ (الروم ۳۰: ۴۱)  ’’خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے‘ لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے‘‘۔ اس فساد کی لوگوں کی بداعمالیوں کے علاوہ کوئی اور وجہ نہ تھی۔ قوم عاد کا تذکرہ یوں کیا: عاد کو دیکھو‘ جب انھوں نے یہ نعرہ بلند کیا کہ مَنْ اَشَدُّ قُوَّۃً مِنَّا  ’’ہم سے طاقت ور کون ہے؟‘‘ وہ اس غرور کے اندر آگئے تو ہم نے ان کو ہلاک کر دیا۔ قوم عاد پر خدا کی پھٹکار پڑنے اور انھیں دور پھینک دینے کا سبب یہ تھا: وَتِلْکَ عَادٌ قف جَحَدُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ وَعَصَوْا رُسُلَہٗ وَاتَّبَعُوْٓا اَمْرَ کُلِّ جَبَّارٍعَنِیْدٍ o (ھود ۱۱:۵۹) ’’یہ ہیں عاد‘ اپنے رب کی آیات سے انھوں نے انکار کیا‘ اس کے رسولوں کی بات نہ مانی‘ اورہر جبار دشمنِ حق کی پیروی کرتے رہے‘‘۔

لہٰذا یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ جس قوم کو بھی زوال و تباہی سے سابقہ پیش آیا‘ وہ صرف اس لیے آیا کہ اس نے بغاوت‘ نافرمانی‘ بدامنی اور ظلم کی راہ اختیار کی۔ قرآن نے ایک پوری تہذیب کی مثال دی ہے: وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً قَرْیَۃً کَانَتْ اٰمِنَۃً مُّطْمَئِنَّۃً یَّاْتِیْھَا رِزْقُھَا رَغَدًا مِّنْ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰہِ فَاَذَاقَھَا اللّٰہُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ o (النحل ۱۶:۱۱۲)  ’’اور اللہ ایک بستی کی مثال دیتاہے۔ وہ امن و اطمینان کی زندگی بسر کر رہی تھی اور ہر طرف سے اس کو بفراغت رزق پہنچ رہا تھا کہ اس نے اللہ کی نعمتوںکا کفران شروع کر دیا۔ تب اللہ نے اس کے باشندوں کو ان کے کرتوتوں کا یہ مزا چکھایا کہ بھوک اور خوف کی مصیبتیں ان پر چھا گئیں‘‘۔

ایک ایسی قوم جس پر ہر طرف سے معاشی ترقی کے دروازے کھلے ہوئے تھے‘ رزق بے پناہ آ رہا تھا لیکن جب اُس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے ان کو بھوک اور خوف کا لباس پہنا دیا۔ وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے تھے‘ ٹکنالوجی میں پیچھے رہ گئے تھے‘ اُن کے پاس معاشی ترقی کے    پنج سالہ منصوبے نہیں تھے بلکہ وہ جو جو اعمال کرتے تھے (بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ)  اس کی بنا پر زوال آشنا ہوئے۔ اسی وجہ سے اللہ نے خوف‘ حزن‘ مصیبتوں اور پریشانیوں کو ان پر مسلط کر دیا۔ اگر بظاہر آفات ارضی و سماوی کسی قوم کو تباہ کرتی دکھائی دیں‘ تو قرآن کہتا ہے کہ اس کی ذمہ داری ان آفات ارضی و سماوی پر نہیں ہے‘ بلکہ اس انسان کے اُوپر ہے جس نے سرکشی اور نافرمانی کی روش اختیار کی۔ اللہ نے کہا کہ کسی پر ہم نے پتھروں کی بارش برسائی‘ کسی کو کڑک نے آن پکڑا‘ کسی کو ہم نے زمین میں دھنسادیا‘ کسی کو ہم نے پانی میں غرق کر دیا‘ لیکن یہ مت خیال کرنا کہ ان کی تباہی کڑک‘ طوفان یا زلزلے کی وجہ سے ہوئی تھی بلکہ اصل وجہ یہ تھی:  فَکُلاًّ اَخَذْنَا بِذَ نْبِہٖ ج (العنکبوت ۲۹:۴۰) ’’آخرکار ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ میں پکڑا‘‘۔ پھر فرمایا:  وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیَظْلِمَھُمْ وَلٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَo (العنکبوت ۲۹:۴۰) ’’اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا‘ مگر وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے‘‘۔

یہ قرآن کا اتنا واضح‘ کھلا اور بیّن سبق ہے کہ ممکن نہیں کہ انسان قرآن کو پڑھے اور اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے کہ قوموں کی ترقی مادی عوامل اور مادی عناصر کے اوپر ہے۔

ترقی و عروج کی بنیادیں

وہ کیا چیزیں ہیں اور کون سی اقدار ہیں جوقوموں کو عروج کی طرف لے کر جاتی ہیں؟ قرآن مجیدکے مطالعے سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بنیادی طور پر یہ چار اقدار ہیں جن پرقوموں کی ترقی منحصر ہے۔ ایک ایمان‘ دوسراتقویٰ‘ تیسرا صبر‘ اور چوتھا توبہ و استغفار۔

قرآن کریم کی بے شمار آیات‘ان چاروں صفات کے فیصلہ کن ہونے پر دلیل ہیں۔  وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ (اعراف۷:۹۶) ’’اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اورتقویٰ کا راستہ اختیار کرتے تو ہم اُن کے اوپر آسمانوں سے بھی اور زمین سے بھی برکتوں کے دروازے کھول دیتے‘‘۔غورکرنے کی بات یہ ہے کہ یہاں پر ایمان اور تقویٰ کے ساتھ ہمارے سامنے روحانی اوراخلاقی انعامات آتے ہیں اور اسی طرح جنت اوردوزخ کی بات آتی ہے‘ اور یہ بات بھی واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ قرآن نے دنیا کی ترقی کوبھی ایمان اور تقویٰ کے ساتھ مشروط کر دیا ہے کہ اگر انسان ایمان اورتقویٰ کا راستہ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں نازل کرتے۔

اسی طرح فرمایا گیا ہے‘  وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لاَ یَضُرُّکُمْ کَیْدُھُمْ شَیْئًاط (آل عمران ۳:۱۲۰) ’’ان کی کوئی تدبیر تمھارے خلاف کارگر نہیں ہو سکتی بشرطیکہ تم صبر سے کام لو اور اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو‘‘۔ گویا تمھاری تعداد خواہ کتنی ہی کم کیوں نہ ہو‘ لیکن تمھارے پاس صبر اور تقویٰ ہو تو تمھارے دشمنوں کی کوئی تدبیر‘ کوئی سازش تمھیں نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ یہ آیت آج کل کے زمانے میں خاص طور پر قابل غور ہے۔ ہم اپنے قومی سانحے اورمصیبت کے اسباب میں ان سازشوں کو تلاش کرتے ہیں‘ جو ہمارے دشمن ہمارے خلاف کرتے ہیں لیکن قرآن کا بیان بالکل صاف رہنمائی کرتا ہے کہ اگر تمھارے اندر صبر اور تقویٰ ہو‘ تو تمھارے دشمنوں کی کوئی سازش‘ کوئی مکر‘ کوئی تدبیر‘ تم کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ بنی اسرائیل جو مصر کے اندر مغلوب اور محکوم تھے‘ انتہائی ذلت اور مصیبت کی زندگی گزار رہے تھے۔ قرآن نے انھیں یُسْتَضْعَفُوْن کہا ہے‘ یعنی ’’ان کو کمزور بنا دیا گیا تھا‘‘۔انھی لوگوں کے بارے میں فرمایا: وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ کَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَھَا الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْھَاط وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ الْحُسْنٰی عَلٰی بَنِیْ اِسْرَآئِ یْلَ بِمَا صَبَرُوْا ط (الاعراف ۷: ۱۳۷) ’’ہم نے ان لوگوں کو جو کمزور بنا کر رکھے گئے تھے‘ اس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا جسے ہم نے برکتوں سے مالا مال کیا تھا۔ اس طرح بنی اسرائیل کے حق میں تیرے رب کا وعدئہ خیر پورا ہوا کیونکہ انھوں نے صبر سے کام لیا تھا‘‘۔ گویا بنی اسرائیل کے اوپر جو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں تمام ہوئیں‘ اُس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے صبر کی روش اختیار کی۔

چوتھی چیز استغفار ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس بات پر تعجب ہو کہ استغفار جس کے معنی گناہوں کی معافی مانگنا ہے‘ اس کا قوم کے عروج اور دنیاوی ترقی کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ لیکن قرآن نے جہاں بھی استغفار کی دعوت دی ہے اُس کے ساتھ ہی اُس نے مادی ترقیوں کا وعدہ بھی کیا ہے۔

حضرت ہود ؑنے اپنی قوم کو دعوت دی کہ اللہ کے آگے استغفار کرو اور توبہ کی روش اختیار کرو:  یُرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا وَّیَزِدْکُمْ قُوَّۃً اِلٰی قُوَّتِکُمْ (ھود ۱۱:۵۲) ’’وہ تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا اور تمھاری موجودہ قوت پر مزید قوت کا اضافہ کرے گا‘‘۔ حضرت نوح  ؑ نے رات اور دن اپنی قوم کو پکارا‘ کھلے عام بھی دعوت دی اور چھپے ہوئے بھی دعوت دی اور اس کے نتیجے سے بھی آگاہ کیا:  فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ط اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا o یُّرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا o وَّیُمْدِدْکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ جَنّٰتٍ وَّیَجْعَلْ لَّکُمْ اَنْھٰرًا o (نوح ۷۱: ۱۰-۱۲) ’’میں نے کہا‘ اپنے رب سے معافی مانگو‘ بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا‘ تمھیں مال اور اولاد سے نوازے گا‘ تمھارے لیے باغ پیدا کرے گا اور تمھارے لیے نہریں جاری کر دے گا‘‘۔ کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں ہے کہ استغفار کا وہ عمل جس سے ہمارے ذہن میں یہ تصور آتا ہے کہ ہمارے گناہ معاف ہوں گے‘ اور آخرت میں ہم جنت میں داخل ہوں گے‘ اللہ تعالیٰ نے اُسی عملِ استغفار کے ساتھ‘ اس دنیا کی ساری مادی ترقیوں کا وعدہ فرمایا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایمان‘ تقویٰ ‘ صبر اور استغفار کے اندر وہ کیا راز ہے جس کی وجہ سے قومیں ترقی کی شاہراہ پر آگے بڑھ سکتی ہیں؟

ایمان

ایمان کی حقیقت کیا ہے؟ اس بات کو سمجھنے کے لیے یہ جان لیں کہ قرآن کی لغت‘اصطلاح اوردعوت میں ایمان صرف لفظوں کے ایک فارمولے کو زبان سے ادا کرنے کا نام نہیں ہے۔ وہ ایسے گروہوں کا ذکر کرتا ہے جو زبان سے ایمان کا اقرار کرتے ہیں‘ لیکن اُن کے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوتا ہے۔ ایک جگہ فرمایا:  قَالُوْا اٰمَنَّا بِاَفْوَاھِھِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُھُمْ ج (المائدہ ۵:۴۱) ’’کچھ لوگ زبان سے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے لیکن ان کے دل ایمان نہیں لائے ہوتے‘‘۔ قرآن کہتا ہے کہ ایسے نہ کہو‘ بلکہ یوں کہو:  وَلٰکِنْ قُوْلُوْا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ ط (الحجرات ۴۹:۱۴) ’’ان سے کہو‘ تم ایمان نہیں لائے‘ بلکہ یوں کہو کہ ’’ہم مطیع ہو گئے‘‘۔ ایمان ابھی تمھارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے‘‘۔

ایمان کے لغوی معنی تو اعتماد‘ بھروسے‘ یقین اور اپنے آپ کو سپرد کر دینے کے ہیں۔ دراصل ایمان وہ دولت ہے جس کے عوض آدمی اپنی پوری زندگی کا سودا چکا دیتا ہے۔ یہ وہ ایمان ہے کہ جو دل و دماغ حتیٰ کہ ساری زندگی کے اُوپر غالب ہوتا ہے۔ ایمان کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ زندگی کا ایک ہدف اور ایک مقصد ہو‘ جس ذات کے اُوپر ہم ایمان لائے ہیں‘ اُسی کی خاطر پوری زندگی گزرے۔ یہ پوری زندگی کا سودا ہے جس میں آدمی اپنی پوری زندگی خدا کے ہاتھ جنت کے عوض فروخت کر دیتا ہے۔

ایمان کا پہلا رُکن محبت ہے۔ اگر غور کیا جائے تو پوری زندگی میں خرابیاں اسی محبت میں خرابیوں کا نتیجہ ہے۔ جب محبت کے معیار اُلٹ پلٹ ہو جاتے ہیں‘ اور وہ محبتیں غالب آجاتی ہیں جن کو غالب نہیں آنا چاہیے تو پھر قومیں زوال کی طرف جانا شروع ہو جاتی ہیں‘ مثلاً گھر کی محبت‘ دنیا کی محبت‘ خاندان کی محبت‘قبیلے کی محبت‘ نسل و رنگ کی محبت اور زبان کی محبت وغیرہ۔ قوموں کے پاس جب ایسا مقصد ہو جو ان ساری محبتوں کے اوپر غالب آ جائے تو پھر یہ ساری محبتیں مغلوب ہو جاتی ہیں۔ اسی لیے قرآن نے فرمایا ہے کہ ایمان کا پہلا رُکن محبت ہے۔  وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِط (البقرہ ۲:۱۶۵) ’’ایمان رکھنے والے  اللہ کو سب سے بڑھ کر محبوب رکھتے ہیں‘‘۔ ایمان لانے والے رنگ‘ نسل‘ قوم‘ زبان اور مال اور دولت سے بڑھ کر‘ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔

ایمان کا لازمی ثمرہ جدوجہد بھی ہے۔ اس لیے کہ اگر زندگی کا کوئی مقصد ہے‘ تو اُس کی طلب‘ اُس کی طرف دوڑنا اور اُس کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا‘ اُس کا لازمی تقاضا ہے۔ قرآن نے بھی یہ کہا ہے:  اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجَاھَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِط اُولٰٓئِکَ ھُمُ الصّٰدِقُوْنَ o (الحجرات ۴۹:۱۵) ’’حقیقت میں تومومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے پھر انھوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی سچے لوگ ہیں‘‘۔

ایمان سے مایوسی کی جڑ کٹ جاتی ہے‘ اس لیے کہ ایمان اورمایوسی دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔ اللہ کی رحمت سے وہی مایوس ہوتا ہے‘ جو کافر اور گمراہ ہو چکا ہو۔ خوف‘ حزن‘ بیماری‘ پریشانی اور فکر یہ ساری چیزیں ایمان سے ختم ہو جاتی ہیں۔ ایمان کی تاثیر یہ ہے کہ وہ ایک فرد کی توجہ کو ایک بڑے مقصد کے اُوپر مرتکز کر دیتا ہے اور تمام قومی وسائل کو بھی مربوط کرکے ایک ہدف کی طرف گامزن کر دیتا ہے۔ فرد اور قوم کے دل میں اس ہدف کا حصول اور اس کی محبت‘ ہر چیز کے اُوپر غالب ہوتی ہے۔ پھر خود انسان اُس کے پیچھے چلتا ہے اور اس پر اپنی پوری قوتیں لگا دیتا ہے۔

تقویٰ

تقویٰ کے معنی اپنے آپ کو بچانا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو اس کے اندر کئی معنی پوشیدہ ہیں۔ ہم اپنے آپ کو کس چیز سے بچاتے ہیں؟ ہر اُس چیز سے جو ہم کو نقصان پہنچانے والی ہو۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ تقویٰ کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ ہم درست اور غلط کا‘نیکی اور بدی کا ایک معیار مقرر کر لیں۔ ہم مان لیں کہ اس دنیا میں کچھ چیزیں ہم کو نقصان پہنچانے والی ہیں‘ اور کچھ ایسی ہیں جو فائدہ پہنچانے والی ہیں۔ اس کے بعد ہم اس پر یقین بھی رکھیں اور اسے عملی زندگی میں تسلیم بھی کریں کیونکہ اس کی پابندی کرنے کی استعداد بھی ہمارے اندر موجود ہے۔

تقویٰ ظاہری مظاہر سے زیادہ اُس قوت کا نام ہے‘ جس کے بل پر ہم جس چیز کو غلط سمجھتے ہیں‘ اُس سے بچ جائیں اور جس کو صحیح خیال کرتے ہوں اُس کی طرف لپک کر جائیں۔ قرآن نے اس کو باربار واضح کیا ہے۔ کیونکہ تقویٰ قوت اور استعداد کا نام ہے‘ اس لیے تقویٰ کا اصل مقام انسان کا دل ہے۔ اہل ایمان تو وہ ہیں جو اللہ کے شعائر کا احترام کرتے ہیں‘  وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ o (الحج ۲۲:۳۲) ‘ جو نبی علیہ السلام کے سامنے اپنی آواز پست کرتے ہیں‘ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ لِلتَّقْوٰیط  (الحجرات ۴۹:۳) اُن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لیے جانچ لیا ہے۔

صبر

تیسری چیز صبر ہے۔ صبر کے معنی بے بسی کے نہیں ہیں۔ اس کے معنی بے چارگی کے بھی نہیں ہیں بلکہ صبر عزم اور ارادے کی قوت کا نام ہے جس کے بل پر وہ مقصد اور ہدف جس پر ایمان ہو‘ جو مقصود ہو‘ جس کی طرف جانا ہے‘ جو درست اور غلط کا معیار ہے‘ اُس پر استقامت اورثابت قدمی کے ساتھ انسان اپنے آپ کو باندھ لے۔ صبر کے لغوی معنی باندھ لینے اور جم جانے کے ہیں۔ اس راہ میں جو بھی مشکل پیش آئے اس کو تحمل کے ساتھ سہنے کا نام صبر ہے۔صبر کے اندر جوش اور تڑپ‘ سعی اور عمل بھی شامل ہے۔ اس لیے کہ صبر اُس وقت ہوتا ہے جب آپ اپنے مقصد کا تعین کریں‘ غلط اور درست کے معیار کو متعین کر لیں اور اُس کے اُوپر جم کر اس کے حصول کے لیے جدوجہد کریں۔ قوموں کی زندگی کے اندر ضبط‘ جسے انگریزی میں cohesion کہتے ہیں‘ صبر کے ذریعے پیدا ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ انتشار سے محفوظ رہتی ہیں۔ قرآن نے بھی ایک دوسرے کے ساتھ جڑنے کے لیے صبر کا لفظ استعمال کیا ہے:  وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوَۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ وَلاَ تَعْدُ عَیْنٰکَ عَنْھُمْج (الکھف ۱۸:۲۸) ’’اپنے آپ کو باندھ لو صبر کے ساتھ اُن لوگوں کی معیت میں جو تمھاری طرح اللہ کے طلب گار ہیں‘ اور صبح و شام اُس کو پکارتے ہیں اور ان سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو‘‘۔

استغفار

چوتھی صفت استغفار ہے۔ استغفار سارے انبیا کی دعوت کا بنیادی جز ہے۔ اللہ نے فرمایا:  وَاللّٰہُ یَدْعُوْآ اِلَی الْجَنَّۃِ وَالْمَغْفِرَۃِ بِاِذْنِہٖ ج (البقرہ ۲:۲۲۱)’’اللہ اپنے اذن سے تم کو جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے‘‘۔  وَسَارِعُوْٓا اِلٰی   مَغْفِرَۃٍ  مِّنْ  رَّبِّکُمْ  وَجَنَّۃٍ  عَرْضُھَا  السَّمٰوٰتُ   وَالْاَ رْضُ (اٰل عمران ۳:۱۳۳) ’’دوڑ کر چلو اس راہ پر جو تمھارے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے‘‘۔  سَابِقُوْآ اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا کَعَرْضِ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ لا (الحدید ۵۷:۲۱) ’’دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے‘‘۔

استغفار کی صفت کیوں اہم ہے؟ دراصل استغفار کی بنیاد یہ ہے کہ ہم نہ صرف غلط اور صحیح کا احساس اور یقین رکھیں‘ غلط سے بچیں اور صحیح پر عمل کرنے کی کوشش کریں‘ بلکہ ہر وقت اپنے نگہبان اور نگران رہیں‘ اپنا احتساب کرتے رہیں ‘اور جہاں غلطی کا احساس ہو وہاں غلطی کا اعتراف بھی کریں‘ اُس کی تلافی بھی کریں اور اُس کو دوبارہ کرنے سے بچنے کی بھرپور کوشش کریں۔

افراد اور قوموں کی زندگی صحیح راہ پر عروج کی طرف اُس وقت آتی ہے‘ جب قومیں احتساب کے عمل سے گزرتی ہیں۔ احادیث میں اس بات کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ احتساب و استغفار کی روح یہ ہے کہ آدمی گناہوں کا اعتراف کرے اور یہ بات سمجھے کہ اس کو برے نتائج اور عواقب پیش آنے والے ہیں۔ اُس کے بعد اُس قوت اور سرچشمے کی طرف رجوع کرے جو اس کو غلطیوں سے محفوظ رکھنے والی ہے۔ گویا استغفار کی صفت بھی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے اندر قوموں کی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔

اگر ہم ان چاروں چیزوں پر غور کریں‘ تو محسوس ہوگا کہ یہ کس قدر بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ اگر کسی قوم کے سامنے کوئی واضح مقصد نہ ہو‘ اور اُس مقصد سے عشق اُس پر غالب نہ ہو (اور اللہ کی رضا سے بڑھ کر اور کون سا مقصد ہوسکتا ہے)‘ اور جب تک اُس کے اندر اتنی استعداد اور قوت نہ ہو کہ جس کو صحیح کہے اُس پر عمل کرے‘ اورجس کو غلط سمجھے اُس سے بچ جائے‘ جسے درست سمجھا ہے اُس کے ساتھ چمٹی رہے‘ اُس کے لیے کوشش کرے‘ اور اپنے احتساب کا عمل جاری رکھے‘ جہاں غلطی ہو اس کا اعتراف کرے‘ اور پھر اس غلطی کے برے اثرات سے بچنے کے لیے کوشش کرے‘ وہ عروج کے راستے پر نہیں چل سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ اسی ایمان‘ تقویٰ‘ صبر اور استغفار کی بدولت کوئی قوم عظمت‘بلندی اور عروج پاسکتی ہے۔

قرآن کے دعوے کی حقیقت

اگر ان چاروں صفات کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو آپ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ قرآن نے قوموں کے عروج کا جو انحصار ان پر کیا ہے‘ وہ بالکل صحیح ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ ہم جو ایمان بھی رکھتے ہیں‘ تقویٰ بھی رکھتے ہیں‘ استغفار بھی کرتے ہیں اور صبر بھی کرتے ہیں‘ قرآن پر بھی ہمارا ایمان ہے لیکن اس سب کے باوجود ہم دنیا کے اندر مغلوب اور کفار غالب ہیں؟

اس کا سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ ایمان فی نفسہٖ ایک قوت ہے‘اور قدرت کی ترازو کے اندر وزن ایمان ہی کا ہے۔ اس کے ہاں نفاق کا کوئی وزن نہیں ہے۔ یہ ایمان اگر باطل کے اُوپر ہے‘ جیسا کہ قرآن نے اصطلاح استعمال کی ہے‘  امنوا بالباطل‘ گویا باطل پر بھی ایمان ہو سکتا ہے‘ تو باطل پر ایمان حق کے ساتھ نفاق پر ہمیشہ غالب آئے گا۔ اس لیے کہ ایمان سے جوقوت پیدا ہوتی ہے خواہ باطل کی خاطر ہو‘ وہ دنیا کے اندر آگے بڑھے گی۔ نفاق اور تضاد کے ساتھ آدمی کمزور ہوتا ہے۔ اور اگر نفاق اور تضاد اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوں تو انسان اور زیادہ غضب کا شکار ہوگا۔

دنیا کے اندر اصل چیز ایمان ہے۔ اس وقت جو قومیں دنیا کے اندر غالب ہیں‘ اُن کے مقاصد اور اہداف اگرچہ غلط ہیں‘ لیکن وہ اُن کے اوپر ایمان اور یقین رکھتی ہیں۔ انھوں نے اپنے لیے جو غلط اور درست کا معیار مقرر کر رکھا ہے‘ ہمیں اس سے اتفاق ہو یا نہ ہو‘ وہ اس کی پیروی کرتی ہیں‘ اُس کے ساتھ منافقت نہیں کرتی ہیں۔ اُن کے اندر احتساب کا عمل موجود ہے‘ اور جو اُن کے مقاصد ہیں اُن کے پیچھے وہ چلتی ہیں۔

لوگ امریکہ کی مثال دیتے ہیں کہ امریکہ ترقی کی شاہراہ پر کیسے پہنچا۔ امریکہ کی تاریخ پڑھنے والے جانتے ہیں کہ جن لوگوں نے اس ملک کو اس مقام تک پہنچایا ہے انھوں نے برسوں بڑی محنت کے ساتھ‘ لگن اور صبر کے ساتھ کام کر کے پورے وسائل کو فتح کیا ہے۔ ہم لوگ خیال کرتے ہیں کہ یورپ نے پوری دنیا کے اندر جو غلبہ حاصل کیا ہے‘ وہ اُن کی سائنس اور ٹکنالوجی کا نتیجہ ہے۔ لیکن اگر یورپ کی تاریخ کو پڑھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ جس جذبے نے یورپ کی قوموں کو یورپ سے نکال کر‘ دنیا کی تسخیر کی راہ پر ڈالا وہ وحشیوں (barbarians) کو ترقی دینے اور مہذب بنانے کا جذبہ تھا۔ یہ مقصد تھا جس کا عشق انھیں دنیا کے کونے کونے تک لے گیا۔ جوکوئی بھی گیارھویں صدی کی صلیبی جنگوں سے لے کر اٹھارھویں صدی تک کے یورپ کی تاریخ پڑھے گا اس پر واضح ہو جائے گا کہ ان کا اصل مقصد یہ تھا کہ ہم دنیا کو تہذیب سے کیسے روشناس کرائیں۔

اسلام کی مثال خود ہمارے سامنے ہے۔ مسلمانوں کے پاس نہ سائنس اور ٹکنالوجی تھی‘ نہ اسلحہ اور وسائل تھے‘ لیکن مقصد سے لگن اور محبت اُن پر غالب ہوئی تو پھر وہ دنیا کے اندر پھیلتے چلے گئے اور صرف ۲۰۰سال کے اندر انھوں نے ایک ایسی تہذیب کی بنیاد ڈال دی جو ہزار سال تک دنیا کے اُوپر غالب رہی اور اب بھی زندہ ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ میں ایمان وتقویٰ ‘ صبر و استغفار کی کوئی مادی تعبیر کر رہا ہوں بلکہ میں نے صرف یہ کہا ہے کہ جہاں اس کا فقدان ہے‘ خواہ صحیح بات کے لیے ہو‘ وہ مغلوب ہوگا‘ اور جہاں یہ موجود ہے ‘خواہ غلط بات کے لیے ہو‘ وہ غالب ہوگا۔

اُمت مسلمہ کا معاملہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے اس سے الگ ایک اور قانون بھی بیان کیا ہے‘ اوروہ قانون یہ ہے کہ مسلمان قوم کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک معاہدہ اور ایک عہد ہے۔ جب تک یہ اُمت اُس عہد کو پورا نہ کرے گی‘ یہ دنیا کے اندر غالب نہ ہو سکے گی۔ اگر ہم یہ چاہیں کہ ہم دیگر قوموں کی طرح اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر صرف مادی اور معاشی مقاصد کو اپنی زندگی کا مقصد بنا کر کامیاب ہو جائیں تو یہ ممکن نہیں ہوگا کہ ہم اس طرح ترقی کی منزلوں کو سرکرلیں۔

اس پوری صدی کی تاریخ اس حقیقت کے اُوپر گواہ ہے۔ میں ایک مثال سے اپنی بات واضح کروں گا۔ اس صدی کے شروع میں دو ملکوں نے اس بات کا فیصلہ کیا کہ ہماری ترقی مغرب کی پیروی کے اندر پوشیدہ ہے‘ ایک ترکی اور دوسرا جاپان۔ ان دونوں نے اس صدی کے شروع میں اپنے سفر کا آغاز کیا۔ آج جاپان دنیا کی پانچ بڑی طاقتوں میں سے ایک ہے لیکن ترکی ابھی تک اسی مقام پر کھڑا ہے جہاں سے اُس نے سفر کا آغاز کیا تھا۔ حالانکہ انسانی وسائل کے لحاظ سے اور اُن طریقوں کی پیروی کے لحاظ سے جو مغرب میں ترقی کے لیے پائے گئے ہیں‘ دونوں میں کوئی فرق نہ تھا۔ ترکی نے قانون بھی وہی اختیار کیا‘ وسائل بھی وہی اختیار کیے‘ تہذیب بھی وہی اختیار کی‘ یہاں تک کہ نصاب بھی وہی اختیار کرلیالیکن وہ ترقی کی منازل طے نہ کر سکا۔ یہ اس بات کی واضح مثال ہے کہ مسلمانوں کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ محض مادی وسائل کو اپنی زندگی کا مقصد بنائیں‘ اور عروج کی شاہراہ پر آگے بڑھیں۔

اگر ہم اپنی قوم اور اُمت مسلمہ کا جائزہ لیں توہمیں اس بات پر تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ صرف ۲۵سال میں یہ ملک دولخت کیوں ہو گیا؟ اور ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ میں ایسا کیوں ہوا کہ کروڑوں کی تعداد لاکھوں سے شکست کھا گئی؟ ہوائی جہاز زمین پر کھڑے کے کھڑے کیوں تباہ ہو گئے؟ ہماری پوری کی پوری فوج کمانڈر نے دشمن کے سامنے کیوں سرنڈر کر دی اور آج ہم تعداد میں چھ گنا ہونے کے باوجود اپنے دشمن کو مغلوب کیوں نہیں کر سکتے؟ ان سوالات کے جوابات کے لیے بھی ایک مثال موجود ہے۔ لبنان میں محض ایک چھوٹاسا گروہ جب اپنے مقصد کے عشق سے سرشار ہو کر کھڑا ہوا اور مرنے مارنے کے لیے تیار ہوگیا تو اُس نے اسی طاقت کا ناطقہ بند کر دیا۔

سوال یہ ہے کہ ہم نے پاکستان کے قیام کے بعد‘ پورے ۴۰‘۵۰ سال میں قوم کو کیا مقصد دیا--- معاشی ترقی کا مقصد؟ ہم نے پنج سالہ منصوبے بنائے تومعاشی ترقی کے لیے‘ وسائل جھونکے تو اسی کے لیے‘ تعلیم کے معاملے پر غور کیا تو اس لیے کہ سائنس اور ٹکنالوجی میں کس طرح ترقی کریں گے۔ پچھلے تمام عرصے میں یہی فکر‘ یہی سوچ اور یہی تعلیم قوم کو دی جاتی رہی‘ اور یہی زہر اُس کی رگ رگ میں پھیلایا جاتا رہا۔ جب معاشی ترقی ہی مقصود ٹھیری تو پھر ملکی ترقی سے پہلے صوبائی ترقی مقصود کیوں نہ ہو؟ اور اس سے پہلے محلے کو ترجیح کیوں نہ ہو‘ اور محلے سے پہلے میرے گھر کی باری کیوں نہ آئے؟ کہتے ہیں کہ سارے امراض کی جڑ اس فلسفے کے اندر ہے کیونکہ رشوت لوں گا تو اپنے گھر کی سوچوں گا‘ اُس سے آگے بڑھوںگا تو اپنے صوبے کے بارے سوچوں گا کہ سندھ‘ بلوچستان یا پنجاب یا پھر سرحد کی ترقی ہو۔ اس لیے کہ دوڑ کس بات کی ہے؟ معاشی ترقی کی۔ مقصد کیا ہے؟ معاشی ترقی اور ذاتی مفاد۔ ہمارے ’’خدا‘‘ (میں یہ لفظ انگریزی سے لے کر استعمال کر رہا ہوں‘ اس میں دوسرے خدائوں‘ دیوتائوں کے لیے خدا کا لفظ استعمال ہوتا ہے) ہمارے ’’دیوتا‘‘ کیا ہیں؟ مجموعی قومی آمدنی (جی این پی)! بس ہمارا معیار زندگی بلندہونا چاہیے۔ سارے صدر اور وزرا جو پہلے دن سے آج تک گزرے ہیں ‘ انھوں نے پوری قوم کو یہی مقصد دیا ہے۔ ان کی تقریروں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے۔ اس کے نتیجے میں اگر آج ہم اس کا رونا روتے ہیں کہ کرپشن اور چوربازاری عام ہے‘ لوگ ایمان داری سے کام نہیں کرتے‘ فرائض ادا نہیں کرتے‘ تعلیمی نظام ناقص ہے‘ تجارت خسارے میں جا رہی ہے‘ تو یہ دراصل ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے۔  وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیَظْلِمَھُمْ وَلٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَo (العنکبوت ۲۹:۴۰) ’’اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا‘ مگر وہ خود ہی اپنے اُوپر ظلم کر رہے تھے‘‘۔

آج جس طرح مجھے اس بات کا یقین ہے کہ دن کے بعد رات آئے گی‘ اسی طرح مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ ہم کتنی ہی کوشش کیوں نہ کرلیں‘ کتنے ہی منصوبے کیوں نہ بنا لیں‘ اور کتنی ہی معاشی ترقی کیوں نہ کر لیں‘ لیکن ۱۰۰ سال بعد بھی یہ قوم اسی مقام پر کھڑی ہوگی جس طرح ترکی آج ۷۰ سال بعد اسی مقام پر کھڑا ہے۔ معاشی مسائل ویسے ہی ہوں گے‘ غربت ویسی ہی ہوگی‘ جہالت ویسے ہی ہوگی‘ افراط زر اسی طرح ہوگا اور لوگ بھی اسی طرح پریشان حال اور مصیبت میں ہوں گے۔

ضرورت ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اوپر ایمان کی تجدید کریں۔ یہ بات میں صرف وعظ کے رنگ میں نہیں کہہ رہا۔ ہمارے کُل قومی وسائل ‘ پانچ سالہ منصوبے‘ ریڈیو اور ٹیلی وژن اور تمام ذرائع ابلاغ اس کے لیے وقف ہونے چاہییں کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان اور یقین مضبوط ہو‘ اس کی محبت پیدا ہو‘ استغفار اور تقویٰ کی صفت پیدا ہو۔ ہم جس بات کو صحیح مانیں اس کو اختیار کرنے کی قوت ہمارے اندر پیدا ہو۔ جس بات کو غلط کہیں اُس سے بچنے کی قوت ہمارے اندر ہو اوراگر غلطی کریں تو بلاجھجک اس کا اعتراف کریں اور اُس کی اصلاح کی کوشش کریں۔ جب یہ سب کچھ ہوگا تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ لازماً ہمیں عظمت و سربلندی اور عروج عطا کرے گا:  وَلاَتَھِنُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ o ( اٰل عمران ۳:۱۳۹) ’’دل شکستہ نہ ہو‘ غم نہ کرو‘ تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘۔ (کیسٹ سے تدوین: ارشادالرحمٰن)


(کتابچہ دستیاب ہے‘ قیمت: ۵ روپے۔ منشورات ‘ منصورہ‘ لاہور)

قرآن مجید بظاہر ایک عام سی کتاب ہے‘ انسانوں کی زبان میں لکھی ہوئی‘ کاغذ پر چھپی ہوئی‘ دو تختیوں کے درمیان مجلد۔ کسی اور کتاب سے بظاہر کوئی فرق بھی محسوس نہیںہوتا‘ لیکن یہ اپنی طرز کی منفرد کتاب ہے‘ اس کی کوئی مثال ہے‘ نہ نظیر!

قرآن مجیدکے ساتھ ہمارا تعلق کیا ہونا چاہیے؟ اس کو ہمیں کیسے پڑھنا چاہیے؟ اس کے لیے قرآن مجید نے ایک ہی لفظ استعمال کیا ہے اور وہ ہے تلاوت۔ ہم مطالعہ قرآن اور اس طرح کے بہت سے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ میں قرآن کے اتباع میں اسی اصطلاح کو استعمال کررہا ہوں‘ اگرچہ مطالعہ قرآن کے آداب و شرائط بھی عنوان بنا سکتا تھا۔

تلاوت کا مفہوم

تلاوت کے لفظ سے عام طور پر یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ آدمی سپارہ اٹھائے‘ قرآن اٹھائے اور پڑھے‘ یا نماز میں کھڑا ہو کر تلاوت کرے۔ لیکن تلاوت کا لفظ عربی زبان میں‘ جس مادے سے نکلا ہے‘ ت ل و سے ‘ اس کے معنی ہیں پیچھے آنا۔ پڑھنا تو ایک ثانوی عمل ہے۔ آپ غور کریںگے تو دیکھیںگے‘ پڑھنا تو ایسے ہے کہ ایک حرف کے بعد دوسرا حرف آئے‘ ایک لفظ کے بعد دوسرا لفظ آئے‘ ایک آواز کے بعد دوسری آواز آئے۔ اگر حروف کو اُلٹ پلٹ دیں‘ الفاظ کو اُلٹ پلٹ دیں‘ جملے اُلٹ پلٹ دیںتو کوئی بات سمجھ نہ آئے گی۔ ایک کے بعد دوسرے کا آنا بھی پڑھنے کا اور سمجھنے کا عمل ہے۔ لیکن اس کے معنی کے اندر بڑی وسعت ہے۔ اس کے معنی ہیں کہ دل و دماغ اس کے پیچھے لگ جائیں‘ زندگی بھی اس کے پیچھے لگ جائے اور قدم بھی اس کے پیچھے اٹھیں۔ وہی امام ہو‘ وہی نور ہو‘ وہی ہدایت ہو‘ وہی راہ نما ہو۔آدمی  پڑھے تو اُس کا دل بھی اُس کے اندر جذب ہو جائے‘ آنکھیں بھی اس کے اندر جذب ہو جائیں۔ زندگی کا کوئی گوشہ‘ کوئی پہلو تلاوت کے اثر سے خالی نہ رہے۔ تلاوت کے اس عمل سے‘ جب زبان الفاظ پڑھے گی تو آنکھیں بہنے لگیں گی‘ جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے‘ دل بھی کانپ اٹھے گا‘ عمل بھی بدل جائے گا اور سوچ میں بھی انقلاب آ جائے گا۔ یہ سب کچھ جب اس کے پیچھے لگ جائیں ‘ تو یہ تلاوت کا عمل ہوگا ۔ اس تلاوت کے نتیجے میں تبدیلی آتی ہے۔

انسان تو ایک بہت نامعلوم سی چیز ہے‘ ایک زمانہ تھا کہ وہ ناقابل ذکر شے تھا۔ ھَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّھْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًا o اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ ق نَّبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنٰہُ سَمِیْعًا بَصِیْرًا o (الدھر ۷۶: ۱-۲) ’’کیا انسان پر لامتناہی زمانے کا ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا؟ ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لیے ہم نے اُسے سننے اور دیکھنے والا بنایا‘‘۔ اگر انسان اپنے آپ کو قرآن کی آغوش میں ڈال دے‘ سپرد کردے تو وہ اس کو بالکل بلندیوں پر پہنچا سکتا ہے۔ اسی چیز کو حدیث میں کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز بندے سے کہے گا کہ قرآن پڑھتا جا‘ اور اُوپر چڑھتا جا‘ سہولت کے ساتھ‘ آسانی کے ساتھ۔ لہٰذا اگر اپنے آپ کو قرآن مجید کے سپرد کر دیا جائے تو عظمت و سربلندی کی کوئی انتہا نہیں ہے۔

تلاوت کی شرائط

تلاوت کے حقیقی مفہوم تک پہنچنے کے لیے کچھ شرائط اور کچھ آداب ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ان کو مختصراً  آپ کے سامنے بیان کروں۔ یوں سمجھیے کہ یہ زاد سفر ہے۔

۱- اس میں پہلی چیز یہ ایمان ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ اللہ کا کلام ہونے پر ایمان تو سب مسلمانوں کا ہے‘ لیکن اس ایمان کے کچھ مزید عملی تقاضے بھی ہیں جن کے بغیر ایمان ادھورا اور نامکمل ہے۔ اس ایمان کے بغیر یہ کتاب ہدایت اور رہنمائی کا کام نہیں کرتی۔ یہ ایمان سب کے لیے ضروری ہے‘ رسول کے لیے بھی ایمان رکھنا ضروری ہے۔ اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ط (البقرہ ۲:۲۸۵) ’’رسول اس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے اور جو لوگ اس رسول کے ماننے والے ہیں‘ انھوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کیا ہے‘‘۔

اس تفصیل میں جانے کی یہاں ضرورت نہیں ہے کہ بغیر ایمان کے ہدایت کیوں حاصل نہیں ہو سکتی۔ یہ فلسفہ اور منطق کے مسائل ہیں جو اس وقت میرا موضوع نہیں۔ ان سب کا جواب بھی دیا جا سکتا ہے۔ بہرحال پہلی چیز ایمان ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اسی ایمان کے بعد ہی وہ کیفیت پیدا ہوتی ہے جس سے آدمی اس کتاب کے لیے محنت کرنے کو تیار ہوتا ہے‘ اور جو تعلق‘ شوق اور اضطراب ہونا چاہیے‘ جو بے چینی ہونی چاہیے‘ وہ حاصل ہوتی ہے۔ جس کو آدمی اپنا خالق سمجھتا ہو‘ جس کی رحمت کا اُس کو یقین ہو‘ جس کی محبت کے اندر وہ غرق ہو‘ یہی احساس کہ اُسی کا نامہ اور خط میرے پاس آیا ہے‘ وہ ساری کیفیات پیدا کرتا ہے‘ جو کہ اس کتاب کے ساتھ تعلق کے نتیجے میں پیدا ہونی چاہییں۔

۲- دوسری چیز نیت کا اخلاص ہے۔ اس نیت کے علاوہ کہ اللہ سے ہی رہنمائی لینی ہے‘ اللہ سے قریب ہونا ہے‘ اللہ کی معرفت حاصل کرنا ہے‘ کوئی اور نیت قرآن کے بارے میں صحیح نہیں ہوسکتی۔کوئی اور نیت ہوگی تو وہ گمراہ بھی کر دے گی۔ یہ عجیب بات ہے کہ یہ کتابِ ہدایت گمراہ بھی کر دیتی ہے۔ فَیُضِلُّ اللّٰہُ مَنْ یَّشَآئُ وَیَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ ط (ابراھیم ۱۴:۴) ’’اللہ جسے چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے‘‘۔  یُضِلُّ بِہٖ کَثِیرًا لا وَّیَھْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًا ط (البقرہ ۲:۲۶) ’’اللہ ایک ہی بات سے بہتوں کو گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے اور بہتوں کو راہِ راست دکھا دیتا ہے‘‘۔ تلاوت کے لیے شرائط تو اور بھی ہیں لیکن نیت کا خالص ہونا بنیادی شرط ہے۔

۳- تیسری چیز حمد اور شکر ہے۔ اس لیے کہ جو عظیم الشان خزانہ اور نعمت اللہ تعالیٰ نے ہمارے ہاتھوں میں تھمائی ہے ‘ ہمارے سپرد کی ہے‘اس پر ہمارا دل حمد اور شکر کے جذبات سے لبریز ہونا چاہیے۔

وَقَالُوْا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ھَدٰنَا لِھٰذَا قف وَمَا کُنَّا لِنَھْتَدِیَ لَوْلَآ اَنْ ھَدٰنَا اللّٰہُ ج (الاعراف ۷:۴۳)

اور وہ کہیں گے کہ ’’تعریف خدا ہی کے لیے ہے جس نے ہمیں یہ راستہ دکھایا‘ ہم خود راہ نہ پا سکتے تھے اگر خدا ہماری رہنمائی نہ کرتا‘‘۔

حمد اور شکر سے ہی سارے دروازے کھلتے ہیں۔ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَ زِیْدَ نَّکُمْ (ابراہیم ۱۴:۷) ’’اگر شکرگزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا‘‘۔ اور جس کو قدر ہی نہ ہو کہ کیا مل رہا ہے ‘ اس کے لیے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ دروازے اُسی کے لیے کھلیںگے‘ اُسی کو ملے گا جس کو قدر ہوگی‘جو شکر کرے گا۔ شکرکا حق ادا نہیں ہو سکتا بلکہ کسی بھی چیز کے شکر کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔ لیکن جو نعمت سب سے بڑی نعمت ہو‘ جو اس عارضی اور فانی دنیا کو لافانی زندگی میںتبدیل کر سکتی ہو‘ اس کا شکر بجا لائیں تو کیسے بجا لائیں! اس فانی زندگی کی کسی ایک نعمت کا بھی شکر ادا کرنا محال ہے۔ کوئی آدمی اگر چاہے کہ ہاتھ پائوں کا حق ادا کر دے‘ حق ادا نہیں کر سکتا‘ اور جو کتاب اس ہاتھ پائوں کو ہمیشہ کے لیے قائم کر دے گی‘ اس کتاب کا شکر کیسے ادا کیا جا سکتا ہے ۔لیکن پھر بھی شکر ادا کرنا ضروری ہے۔

۴- چوتھی چیز یہ اعتماد ہے کہ جو چیز بھی اس کتاب میں ہے‘ صحیح ہے‘ وہی میرے لیے نافع ہے‘ اسی میں میری بھلائی ہے‘ اسی میں خیر ہے ۔ ریب (شک) اور تذبذب‘ یہ دو مرض کینسر کی طرح کتاب کے ساتھ تعلق کو تباہ کرتے ہیں۔ اگر کوئی آدمی شک یا تذبذب میں مبتلا ہو‘ تو وہ اس کتاب سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ قرآن نے بار بار ایسے لوگوں کی نفی کی ہے‘ اور اسی لیے آغاز اس طرح کیا ہے کہ لاریب فیہ‘ اس بات میں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے‘ کوئی شک نہیں ہے۔ جس کو اس کے کلام الٰہی ہونے میں یا اس کی کسی بھی بات میں ذرا بھی شک ہو ‘ اس کے لیے یہ کتاب ہدایت نہیں ہے۔ جس میں تردد پیدا ہو گیا‘ وہ بھی اس کتاب سے ہدایت نہیں پا سکتا۔

۵- پانچویں چیز اطاعت ہے‘ یعنی انسان قرآن کے مطابق اپنے اندر تبدیلی اور تغیر لائے۔ لیکن آدمی جب اطاعت کرے گا تو اس سے گناہ بھی ہوںگے‘ نافرمانیاں بھی ہوںگی‘ آدمی پھسل بھی جائے گا‘ لیکن پہلے سے خود سپردگی کی کیفیت کہ جو یہ کتاب کہے گی‘ وہ میں کرنے کی کوشش کروں گا‘ آداب تلاوت میںسے ہے۔یہ کتاب نکتہ آفرینی یا ذہنی عیاشی کے لیے نہیں ہے۔ یہ کتاب تو شروع سے لے کر آخر تک عمل‘ کوشش اور محنت اور جدوجہد کے لیے آئی ہے۔ یہ کتاب تو آئی ہی اسی لیے ہے کہ انسان اس کے پیچھے چلیں‘ اس کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیں۔ یٰیَحْیٰی خُذِ الْکِتٰبِ بِقُوَّۃٍ ط (مریم ۱۹:۱۲) ’’اے یحییٰ‘ کتاب الٰہی کو مضبوط تھام لے‘‘۔ پھر اسی کا چرچا کریں‘ اسی کے پیچھے چلیں اور قرآن کے مطابق اپنے اندرتبدیلی اور تغیر لائیں۔ یہ اطاعت کا بنیادی تقاضا ہے۔

۶- چھٹی چیز یہ ہے کہ اس کتاب سے فائدہ اٹھانے میں جوخطرات لاحق ہوں ان سے بچنے کے لیے شیطان سے اللہ کی پناہ مانگو۔ شیطا ن تو گھات لگا کر بیٹھے گا۔ اس نے کہا ہے کہ دائیں سے آئوںگا‘ بائیں سے آئوں گا‘ آگے سے آئوں گا‘ پیچھے سے آئوں گا‘ اور اس طریقے سے‘ جسے یہ کتاب لے کر آئی ہے‘ جو لوگ اس پر چلنا چاہیںگے اُن کو ہٹانے کی کوشش کروںگا۔ ایسے میں پھر کون پناہ دے سکتا ہے‘ کون سہارا دے سکتا ہے‘ کس کے پاس فصیل اور قلعہ ہے جس میں ہمیں پناہ مل سکتی ہے سوائے اس کے کہ جس نے اس کتاب کو اتارا ہے۔ اس لیے قرآن کہتا ہے کہ جب کتاب پڑھو تو پہلے اللہ کی پناہ مانگ لو۔

فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ o (النحل ۱۶:۹۸)

پھر جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان رجیم سے خدا کی پناہ مانگ لیا کرو۔

قرآن پڑھنے کے لیے یہ حکم اسی بات کے پیش نظر آیا ہے۔ یہ زندگی کے لیے بڑی نازک اور اہم جستجو اور سفر ہے اور اس سفر میں بڑے خطرات ہیں۔ ان خطرات کا احساس‘ اُن کا ادراک اور شعور ضروری ہے اور اُن سے بچنے کے لیے تعوذ پڑھنا ناگزیر ہے۔

یہ چھ چیزیں بنیادی لوازمات کی حیثیت رکھتی ہیں‘ اور اس کتاب کے لیے زاد سفر ہیں اور ناگزیر ہیں۔ یہ ظاہری آداب تھے۔ اس کے بعد کچھ باطنی آداب ہیں۔

باطنی آداب

ہماری شخصیت کے دو حصے ہیں۔ ایک ظاہری ہے اور دوسرا باطنی۔ ایک جسم اور ہاتھ پائوں ہیں‘ اور دوسری اندرونی شخصیت ہے۔ یہ ہمارا دل اور قلب ہے۔ اس کو قرآن مجید نے قلب سے تعبیر کیا ہے۔ اس قلب کو تلاوت کے عمل میں شریک کیا جائے۔ یہ نہیں کہ آدمی زبان سے پڑھتا جائے اور دل کہیں اور گھوم رہا ہو۔ وہ کیا چیزیں ہیں جن سے دل بھی اس تلاوت کے عمل میں شریک ہو سکتا ہے؟ اب میں ان کا تذکرہ کروں گا۔

۱- خود اللہ تعالیٰ نے کلام پاک میں ذکر فرمایا ہے کہ اس کتاب کے پڑھنے والوں پر اس کے اثرات اور تجلیات مرتب ہوتی ہیں۔ اُن کو آپ ایک لحظے اور ایک لمحے کے لیے تازہ کر لیں۔ یہ تلاش کرنا آپ کے لیے مشکل نہیں ہے۔ اس حوالے سے قرآن کی بہت سی آیات ہیں۔

سورہ الانفال میں ہے کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو دل کانپ اٹھتے ہیں‘ اور جب کلام پڑھا جاتا ہے تو ایمان بڑھتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ سورہ المائدہ میں ہے کہ جب وہ کلام سنتے ہیں تو اُن کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ سورہ الزمر میں ہے کہ جب کتاب پڑھی جاتی ہے تو جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں‘ کھالیں نرم پڑ جاتی ہیں۔ سورہ بنی اسرائیل میں ہے کہ لوگ جب اس کو پڑھتے ہیں تو روتے ہوئے سجدوں میں گر جاتے ہیں‘ اور اُن کے خشوع میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ سورہ مریم میں بھی اس طرح کی آیات ہیں۔ جگہ جگہ اس طرح کے موضوعات ہیں۔ اگر تلاوت سے پہلے ان کو سامنے رکھا جائے اور ایک لمحے کے لیے آدمی یہ ذہن میں تازہ کر لے کہ قرآن کو پڑھنے والے ایسے تھے اور ان کی یہ کیفیت ہوتی تھی تو بہت مفید ہے۔ اگر ایسا نہ ہو سکے پھر بھی ان کیفیات کو اپنے اُوپر طاری کرنے کی کچھ کوشش کرنی چاہیے۔ یہ سوچنا چاہیے کہ اگر میں اس راستے پر آگے بڑھوں تو مجھے بھی ایسا کرنا چاہیے۔

۲- یہ سوچا جائے کہ اللہ میرے سامنے ہے‘ اُس کے سامنے بیٹھ کر میں قرآن پڑھ رہا ہوں اور یہ اُس کی کتاب ہے۔ قرآن مجید میں بار بار یہ حکم بھی آیا ہے کہ اُس کے سامنے کھڑے ہو کر بار بار تلاوت کرو۔ جس طرح بچہ اُستاد کے سامنے جو نگرانی کر رہا ہو‘ کھڑے ہو کر پڑھتا ہے تو اور ہی کیفیت ہوتی ہے‘ اور تنہائی میں پڑھتا ہے تو اور کیفیت ہوتی ہے۔ عبادت میں احسان کی منزل بھی یوں ہی حاصل ہوتی ہے کہ آدمی اس طرح بندگی کرے کہ گویا اللہ اس کے سامنے ہے اور وہ اسے دیکھ رہا ہے۔ لیکن یہ تو اللہ کی کتاب کا معاملہ ہے۔ یہ سب سے بڑی عبادت ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت نماز میں کی جائے۔ اس طرح کے بے شمار احکام قرآن میں دیے گئے ہیں‘ اور اللہ کا ذکر تو قرآن میں سب سے بڑھ کر ہے۔

یہ احساس کہ میں اللہ کے سامنے ہوں‘ مستحضر ہونا چاہیے۔ قرآن کی آیات گواہ ہیں کہ تم کہیں بھی ہو ہم تمھارے ساتھ ہیں۔ فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا  (الطور ۵۲:۴۸) ’’تم ہماری نگاہ میں ہو‘‘۔ میں ہر بات سن رہا ہوں۔ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ o (قٓ ۵۰:۱۶) ’’ہم اس کی رگ گردن سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں‘‘۔ اگر دو ہوتے ہیں تو میں تیسرا ہوتا ہوں۔ تین ہوتے ہیں تو میں چوتھا ہوتا ہوں‘ کم ہوں یا زیادہ میں ساتھ ہوتا ہوں۔ تنہائی میں بیٹھے ہوں یا مجلس میں ‘ یا درس ہو رہا ہو‘ میں موجود ہوتا ہوں۔ یہاںتک کہ کوئی بھی کام کرتے ہو‘ قرآن پڑھتے ہو‘ ہم وہاں موجود ہوتے ہیں۔ یہ چیز ذہن میں اسی طرح تازہ رہنی چاہیے۔

۳- ہم یہ سوچیں کہ ہم اس کلام کو اللہ سے سن رہے ہیں‘ چاہے یہ بہت اونچا درجہ اور مقام ہو۔

امام غزالی احیاء العلوم میں لکھتے ہیں کہ ایک بزرگ نے کہا کہ پہلے میں اس کتاب کو ایسے ہی پڑھتا تھا۔ پھر میں نے سوچا کہ میں اس کو محمد رسولؐ اللہ سے سن رہا ہوں‘ تو میرے مزے اور کیفیت میں اضافہ ہوگیا۔ پھر میں نے سوچا کہ میں تو اس کو جبریل ؑ امین سے سن رہا ہوں‘ تو پھر یہ کیفیت اور دوبالا ہوگئی۔ اس کے بعد میں نے فرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے خود موجود ہوں‘ وہ میرے ساتھ ہی ہیں‘ وہی مجھے سنا رہے ہیں ‘ وہی اس کتاب کو نازل کر رہے ہیں‘ اس کے بعد میرا مزا اور لطف‘ میری کیفیت کا کوئی اندازہ نہ رہا۔ اس کیفیت کی جتنی بھی کوشش کریں کہ حاصل ہو جائے‘ کم ہے۔

۴- یہ احساس ہو کہ جو بھی کہا جا رہا ہے‘ اس کا ہر لفظ میرے لیے ہے۔ اگر اہل ایمان سے خطاب ہو رہا ہے تو بھی‘ اور اگر منافقین سے ہو رہا ہے یا کافروں سے ہو رہا ہے تو بھی ہمارے لیے ہے کہ ہم ایسے نہ بنیں۔ گویا ہر لفظ میرے لیے ہے۔ اگر ایک ایک حصے کو کاٹ کر الگ کرنا شروع کر دیا کہ یہ مہاجرین کے لیے ہے میں تو مہاجر نہیں ہوں‘ یہ انصار کے لیے ہے میں تو انصار نہیں ہوں‘ یہ یہودیوں کے لیے ہے میں تو یہودی نہیں ہوں‘ توساری کتاب کا ستیاناس ہو جائے گا۔ یہ سمجھنا چاہیے کتاب کا ہر لفظ میرے لیے ہے۔

۵- کتاب جب آدمی پڑھتاہے تو اللہ تعالیٰ سے گفتگو اور مکالمہ کرتا ہے۔ ایک حدیث میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: سورۃ الفاتحہ میرے اور بندے کے درمیان برابر تقسیم ہے۔ جب بندہ کہتا ہے کہ الحمدللّٰہ تو میں کہتا ہوں کہ بندے نے میری حمد بیان کی ہے۔ جب بندہ  الرحمن الرحیم کہتا ہے تو میں کہتا ہوں کہ بندے نے میری ثنا کی ہے۔ جب بندہ کہتا ہے کہ مالک یوم الدین تو میں کہتا ہوں کہ میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی ہے۔ اس کے بعد جب وہ کہتا ہے کہ ایاک نعبد وایاک نستعین ‘ اب میرے اور بندے کے درمیان معاہدہ ہوگیا‘ جو کچھ بھی مانگے گا میں اُس کو دوں گا۔ اُس کے بعد بندہ کہتا ہے کہ اھدنا الصراط المستقیم ‘ اے اللہ تو ہمیں سیدھا راستہ دکھادے۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بندہ قرآن مجید پڑھتا ہے‘ تو وہ اللہ تعالیٰ سے کلام کرتا ہے‘ مکالمہ کرتا ہے‘ اور یہ گفتگو آدمی اور اللہ کے درمیان چلتی رہتی ہے۔

ظاہری آداب

یہ تو وہ چیزیں ہو گئیں جو اندرونی طور پر دل کو شریک کرنے کے لیے بہت مفید ہو سکتی ہیں۔ تھوڑا تھوڑا جس قدر بھی بس میں ہو‘ ہم عمل کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے بعد کچھ ظاہری افعال بھی ہیں۔

جب کلام پڑھا جاتا ہے اور ہم سنتے ہیں کہ کوئی بات ہم سے کہی جا رہی ہے‘ کوئی ہم سے مکالمہ کررہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ اے میرے بندے‘ اے میری بندی اس کو سنو۔ جب ہم سے کہا جا رہا ہے تو پھر اس بات کا جواب بھی دیا جانا چاہیے۔ کوئی گونگا یا بہرا ہوگا تو جواب نہ دے گا‘ یا اندھا ہوگا جسے دکھائی نہ دے گا۔ قرآن نے خود کہا ہے کہ یہ لوگ اندھوں اور بہروں کی طرح قرآن سے گزر جاتے ہیں‘ ان پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ لیکن گوشت پوست کے انسان سے اُس کا محبوب‘ اُس کا رب‘ اُس کا مالک کلام کر رہا ہو اور اُس کا کوئی جواب اُس کی طرف سے نہ ہو۔ یہ بڑی عجیب بات ہے۔

دل کا جواب یہ ہے کہ اس پر وہی کیفیت طاری ہوجائے‘ جو کیفیت اس کلام کے اندر موجود ہے۔ زبان کا جواب یہ ہے کہ آیات سننے کے بعد ان کا جواب دیا جائے۔ بہت ساری آیات پر تو نبی کریم ؐ نے خود تعلیم دی ہے کہ جب وہ آیات پڑھی جائیں تو ان کا جواب دیا جائے۔ اگر آیت پڑھی جائے: اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنَ o(التین ۹۵: ۸) ’’کیا اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں؟‘‘ آدمی کہے:  بلٰی‘کیوں نہیں۔ فَبِاَیِّ اٰلاَ ٓئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ o (الرحمٰن ۵۵:۱۵)‘سنے تو بھی جواب دینے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس طرح کی اور بہت ساری آیات ہیں۔

یہ پہلو تو آیات کا جواب دینے کا ہے۔ لیکن جن صحابہؓ نے رات کی نماز میں نبی کریمؐ کے ساتھ شرکت کی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ آپؐ کی تلاوت قرآن کا انداز یہ تھا کہ اگر کہیں اللہ تعالیٰ کی صفات کا ذکر آتا تو آپؐ سبحان اللہ کہتے‘ کہیں اللہ تعالیٰ کے انعامات کا ذکر آتا تو الحمدللہ فرماتے‘ کہیں اُس کی نعمتوں کا ذکر آتا تو آپؐ رک کر اس کا سوال فرماتے‘ اور اُس کو مانگتے‘ اور کہیں اس کے عذاب کا ذکر آتا تو آپؐ اس پر پناہ مانگتے۔ آپؐ ہر چیز کا فوراً جواب زبان سے دیا کرتے۔

تلاوت آیات پر آنکھیں بھی جواب دیتی ہیں۔ اس کلام کی عظمت کا احساس ہو تو دل نرم پڑنے چاہییں‘ اور دل نرم پڑیں تو آنکھوں میں نمی آنی چاہیے۔ اس لیے حدیث ہے کہ قرآن پڑھو تو روئو‘ رو نہ سکو تو رونے کی کوشش کرو اور اگر ہو سکے تو اس کیفیت کو طاری کرو۔

قرآن کا ادب اور تعظیم ضروری ہے‘ اس میں قبلہ رو بیٹھنا‘ وضو کرنا‘ سر جھکا کر پڑھنا‘ یہ سب باتیں شامل ہیں۔ لیکن اس ادب کو اس حد تک نہ بڑھایا جائے کہ تلاوت کو ہی ترک کر دے‘ مثلاً یہ کہ وضو نہیںہے اور بغیر وضو کے تلاوت نہیں ہو سکتی۔

تلاوت کے بہت سارے مدارج ہیں۔ ایک درجہ ترتیل ہے جس کا قرآن نے خود حکم دیا ہے۔ وَرَتِّلِ الْقُرَآنَ تَرْتِیْلاً (المزمل ۷۳:۴) ’’اور قرآن کو خوب ٹھیر ٹھیر کر پڑھو‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ خوب ٹھیر ٹھیر کر پڑھے‘ سمجھ کر پڑھے‘ جذب کرکے پڑھے‘ اچھی طرح پڑھے‘ لحن کے ساتھ پڑھے اور ذوق اور شوق کے ساتھ پڑھے۔ ترتیل کا اردو یا انگریزی میں ترجمہ نہیں ہوسکتا۔ ترتیل میں یہ سب مفہوم شامل ہیں۔

پاکیزگی بھی ضروری ہے۔ اس کے لیے ہمارے ہاں دینی لفظ طہارت ہے۔ طہارت کے ایک معنی ظاہری طہارت کے ہیں جو فقہ کے احکام سے حاصل ہوتی ہے۔ اس کے دوسرے معنی باطنی طہارت کے ہیں۔ باطنی طہارت یہ ہے کہ دل ان چیزوں سے پاک ہو جو اللہ کو ناپسند ہیں۔ اخلاق ان چیزوں سے پاک ہوں جنھیں اللہ نے ناپسند فرمایا ہے۔ زبان اُن چیزوں سے پاک ہو جو اللہ کو ناپسند ہیں۔ مال ان چیزوں سے پاک ہو جن سے اللہ نے منع فرمایا اور حرام ٹھیرایا ہے۔ غذا اُس لقمے سے پاک ہو جو اللہ کے نزدیک ناپاک ہے۔ یہ بھی پاکیزگی کے معنی ہیں اور جب تک یہ نہ ہو قرآن اپنے دروازے نہیں کھولتا۔

اللہ سے تعلق بھی بہت ضروری ہے۔ سب کچھ اُس کے ہاتھ میں ہے‘ اور احادیث کے اندر

بے شمار دعائوںکی تعلیم دی گئی ہے۔ ان سب دعائوں کو آپ کتابوں سے حاصل کر سکتے ہیں۔ اُن کو یاد کر سکتے ہیں اور اُن کو پڑھنے کا اہتمام کر سکتے ہیں۔

قرآن کو سمجھنا بھی اہم ہے۔ یہ آپ نہ سمجھیں کہ سمجھے بغیر قرآن کا فائدہ حاصل نہ ہوگا۔ ہوگا توسہی لیکن پورا فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ لیکن صرف سمجھنا اور علم ہی کافی نہیں ہے اس لیے کہ بے شمار لوگ ہیں جو بغیر سمجھے بھی قرآن سے بہت کچھ حاصل کر لیتے ہیں‘ اور بہت سارے لوگ بہت کچھ سمجھنے اور علم حاصل کرنے کے باوجود اس سے کچھ حاصل نہیں کر پاتے۔

آپ نے شاید اپنے گھروں میں یا محلوں کے اندر دیکھا ہو کہ ایسے لوگ جو قرآن کا ایک بھی حرف اور معنی نہیں جانتے‘وہ کتاب کھول کر بیٹھ جاتے ہیں اور زار و قطار روتے ہیں اور پڑھتے ہیں اور پڑھتے چلے جاتے ہیں۔ اور وہ جو اس کی لغت اور معانی اور تفسیر کے امام ہوتے ہیں‘ وہ عرب جو اس کی زبان سے پوری طرح واقف ہوتے ہیں‘ وہ ملحد اور بے دین بھی ہوتے ہیں‘ اس لیے صرف زبان کا جاننااور سمجھ لینا کافی نہیں ہے۔ ظاہر ہے اس کے لیے ایمان اور بہت ساری چیزیں ضروری ہیں۔

میں نے تو اندھوں کو بھی دیکھا ہے کہ بے چارہ پڑھنا نہیں جانتا لیکن لائنوں پر انگلی پھیرتا جاتا ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں۔ یہ اللہ کا کلام ہے‘ دوسرے کلاموں کی طرح کا کلام نہیں ہے‘ اور نہ دوسری کتابوں کی طرح کی ہی کتاب ہے۔ البتہ سمجھنا بھی ضروری ہے۔ ہر مسلمان پر فرض ہے کہ خود قرآن کو سمجھے اور معنی معلوم کرے‘ اور پھر اس سے آگے بڑھے۔

تلاوت کی مقدار

تلاوت پر گفتگو میں یہ پہلو بھی آتا ہے کہ کتنی کثرت کے ساتھ پڑھے۔

یہ بات تو معلوم ہے کہ قرآن سارے انسانوں کے لیے آیا ہے‘ کمزوروں کے لیے بھی‘ قوی اور ضعیف کے لیے بھی‘ بوڑھوں کے لیے بھی ‘مردوں اور عورتوں کے لیے بھی۔ سب کے حالات مختلف ہوتے ہیں۔ اگر قرآن کہہ دیتا کہ نہیں اتنا پڑھنا ضروری ہے‘ تو پھر بڑی مشکل ہو جاتی‘ لہٰذا جتنا قرآن پڑھنا ضروری اور فرض ہے اس کے لیے اُس نے نمازیں فرض کر دیں۔ پانچ نمازوں میں قرأت ہو جاتی ہے اور قرآن پڑھ لیا جاتا ہے۔ باقی اُس نے کہہ دیا ہے کہ فَاقْرَئُ وْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ ط (المزمل ۷۳: ۲۰) ’’اب جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو ‘ پڑھ لیا کرو‘‘۔

آپ جانتے ہیں کہ پہلے رات کی نماز فرض تھی۔ آدھی رات کو‘ اُس سے کچھ زیادہ‘ اُس سے کچھ کم لوگ کھڑے رہا کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہاں‘ ہم کو معلوم ہے کہ تم میں مریض بھی ہوں گے‘ لوگ تلاش معاش میں بھی سرگرم عمل ہوں گے‘ اور بعض راہ حق میں جہاد کے لیے بھی مصروف ہوں گے‘ اس لیے ان سب کی وجہ سے کہہ دیا کہ اس میں سے جو بھی آسانی کے ساتھ پڑھ سکو پڑھو۔ نماز قائم کرو‘ زکوٰۃ دو‘ اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔

کتنا پڑھا جائے اس کا کوئی ایک معیار نہیں۔ اس لیے کہ مختلف لوگوں کے مختلف طریقے رہے ہیں۔بعض لوگ ایک ماہ میں ایک قرآن ختم کرتے تھے‘ اسی کے حساب سے پارے بنائے گئے۔ بعض لوگ ایک ہفتے میں قرآن ختم کرتے تھے‘ اسی کے حساب سے قرآن کی سات منازل ہیں۔ بعض لوگ صرف نمازوں میں پڑھتے تھے‘ اس لحاظ سے اس کے رکوع بن گئے۔ اس کی کوئی مقدار طے نہیں ہو سکتی کہ کتنا پڑھیں۔

کس وقت پڑھیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس وقت بھی ہو سکے پڑھیں‘ آنائَ لیل وآنائَ النھار‘ ’’رات کی گھڑیوں میں بھی‘ دن کی گھڑیوں میں بھی‘‘۔ جو وقت بھی میسر آجائے۔ کچھ لوگ اپنی جیب میں بھی قرآن کے مصحف رکھتے ہیں کہ جہاں موقع مل جائے پڑھ لیتے ہیں۔ اگر یاد ہو تو راستہ چلتے ہوئے بھی قرآن پڑھا جا سکتا ہے‘ سواری میں سوار ہو کربھی پڑھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح سوتے ہوئے یا سونے کے بعد اُٹھ کر بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ بہت سارے مواقع ہوتے ہیں‘ لیکن یہ بات قرآن نے خود کہی کہ اس کے لیے پڑھنے کا سب سے بہترین وقت سحر کا وقت ہے۔ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْھُوْدًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۷۸) ’’کیونکہ قرآن فجر مشہود ہوتا ہے‘‘۔ رات کو پڑھنے کی بھی تاکید کی گئی ہے۔ اِنَّ  نَاشِئَۃَ الَّیْلِ ھِیَ اَشَدُّ وَطْاً وَّاَ قْوَمُ قِیْلاً o (المزمل ۷۳: ۶) ’’درحقیقت رات کا اٹھنا نفس پر قابو پانے کے لیے بہت کارگر اور قرآن ٹھیک پڑھنے کے لیے زیادہ موزوں ہے‘‘۔ اور ویسے بھی فرمایا گیا ہے کہ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْھُوْدًا ‘ قرآن فجر میں پڑھا جاتا ہے تو فرشتے اس میں حاضر ہوتے ہیں اور نبی کریمؐ سے روایت ہے کہ آپؐ فجر کی نماز میں طویل رکعتیں پڑھا کرتے تھے‘ کم سے کم ۵۰ آیات۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن خواہ کثرت کے ساتھ پڑھا جائے‘ یا کم پڑھا جائے لیکن کوئی دن ایسا نہ ہونا چاہیے جو تلاوت کے بغیر گزرے۔ قرآن سے مستقل تعلق قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ نماز کے باہر‘ بہت تھوڑا پڑھے لیکن باقاعدگی کے ساتھ پڑھے۔ تھوڑا عمل جو باقاعدگی کے ساتھ ہو‘ وہ اللہ کو زیادہ مرغوب اور پسند ہے۔

اللہ مجھے ‘ آپ کو‘ ہم سب کو صحیح معنوں میںقرآن کی تلاوت کرنے‘ اس پر عمل کرنے اور اس کی طرف دعوت دینے والا بنا دے۔ آمین! (کیسٹ سے تدوین :  امجدعباسی)

 

سورہ کہف کا گہرا تعلق فتنہ دجال سے ہے۔ مستند احادیث سے ثابت ہے کہ جو شخص جمعہ کے روز  سورہ کہف پڑھے گا وہ دجال کے فتنے سے محفوظ رہے گا۔ بعض میں شروع کی ۱۰ آیات کی تلاوت اور بعض میں آخری ۱۰ آیات کی تلاوت کا ذکر ہے۔

دجال کے موضوع پر بہت سی مستند احادیث ہیں۔ ان احادیث سے جو باتیں نمایاں ہو کر سامنے آتی ہیں‘ ان میں تین باتیں اہم ہیں۔ پہلی یہ ہے کہ وہ کفر اور خدا سے انکار کا علانیہ علم بردار ہوگا‘ اُسی کی طرف دعوت دے گا ‘ اور خدائی کا دعویٰ بھی کرے گا۔ دوسری بات جو ان احادیث سے ثابت ہوتی ہے‘ وہ یہ ہے کہ اُس کو فطرت اور قدرت کی طاقتوں پربے پناہ قابو حاصل ہوگا۔ پہلی بات احادیث میں اس طرح بیان ہوئی ہے کہ اُس کی پیشانی پر ک‘ ف‘ ر  ’’کفر‘‘ صاف صاف لکھا ہوگا۔ دوسری بات احادیث میں مختلف انداز میں  اس طرح بیان ہوئی ہے کہ اُس کی آواز مشرق اور مغرب میں سنائی دے گی‘ وہ برسوں کی مسافت اور فاصلہ گھنٹوں اور منٹوں میں طے کرے گا‘ بارش بھی برسائے گا اور کھیتی بھی اُگائے گا‘ اور کھیتی اور زراعت کی مقدار بھی بے حد بڑھا دے گا۔ تیسری بات جو مختلف انداز میں بیان ہوئی ہے‘ وہ یہ ہے کہ اُس کا اثر بہت حیرت انگیز طور پر نفوذ کرے گا۔ اس کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ آدمی صبح مومن ہوگا تو شام کو کافر ہو جائے گا۔ ساتھ ہی یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اُس وقت ایمان کی راہ پر چلنا بڑا دشوار اور کفر کی راہ پر چلنا بڑا آسان ہوگا۔ اس کے ساتھ ایک جنت ہوگی‘ جس نے اُس کا ساتھ دیا‘ اُس کی زندگی جنت کی زندگی ہو گی‘ اور جس نے اُس کا ساتھ نہ دیا‘ اُس کی زندگی جہنم کی زندگی ہو گی۔

یہ ان خصوصیات کا خلاصہ ہے۔ ان احادیث کو دیکھ کر ہمارے دور کے بعض لوگوں نے یہ کہا کہ دجال کسی شخص کا نام نہیں ہے بلکہ دراصل ایک پوری تہذیب کا نام ہے ‘ اور مغربی تہذیب اپنی خصوصیات کے لحاظ سے اُن خصوصیات کی حامل ہے جن کا ذکر ان احادیث میں کیا گیا ہے۔ میرے خیال میں یہ رائے کم فہمی پر مبنی ہے۔ احادیث میں اور صریح احادیث میں وضاحت سے ایک شخص کا ذکر موجود ہے اور اُسی کے ساتھ ان ساری چیزوں کو وابستہ کیا گیا ہے۔ انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ قرآن اور احادیث کو اس طرح معنی پہنائے کہ وہ اُس کی عقل اور علم کے اوپر پورے اتر آئیں‘ بجائے اس کے کہ وہ قرآن کو سمجھنے کے لیے اپنی عقل اور علم کو استعمال کرے۔ ہمارا ایمان اور یقین ہے کہ قرآن مجید ہر دور کے لیے ہے‘ اور نبیؐ نے جن الفاظ میں دجال کے فتنے سے آگاہ کیا‘ وہ بڑے سخت ہیں۔ آپؐ نے کہا : ہر نبیؐ نے اپنی اُمت کو ایک فتنے سے آگاہ کیا اور میں بھی کرتا ہوں۔ ایک دعا میں جو آپؐ اکثر مانگتے تھے: واعوذ بک من فتنۃ المسیح الدجال ‘کے الفاظ بھی شامل ہیں۔

اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے میں ان دونوں کے بین بین راہ نکالتا ہوں۔ وہ یہ کہ وہ احادیث جن کا تعلق سورہ کہف میں دجال کے فتنے سے قائم کیا گیا ہے ‘ وہ بھی اپنی جگہ صحیح اور برحق ہیں۔ یہ ہر زمانے کے لیے رہنما ہیں۔ صرف آج ہی کے لیے‘ یا جب سے قرآن نازل ہوا ہے‘ یا آج سے ۱۵ سو سال بعدکے لیے ہی نہیں ہیں‘ بلکہ جب تک انسانیت رہے گی قرآن کا یہ حصہ اُسی طریقے سے روشنی اور ہدایت کا سرچشمہ ہو گا جس طرح واقعی اُس زمانے میں ہوگا‘ جب کہ دجال کی شخصیت ظہور پذیر ہو جائے گی۔ اس لحاظ سے میں دو چیزوں میں فرق کرتا ہوں: ایک‘ دجال کی شخصیت ‘ اور دوسرا اُس کے فتنے کی خصوصیات۔ میرے خیال میں دجال کے فتنے کی خصوصیات ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی ہیں‘ اور آج ہمارے دور میں بھی‘ اگر نظر ڈالیں‘ تو وہ موجود ہیں۔ آج بھی انسان خود اپنا خدا بنا ہوا ہے۔ اُس نے اس بات کا کھل کر برملا اعلان کیا ہے‘ کہ خدا کوانسان کے معاملات میں دخل دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ انسان کا اختیار‘ فطرت کی طاقتوں پر روز بروز بڑھتا چلا جا رہا ہے اور تیزی کے ساتھ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اثرونفوذ کے جو ذرائع آج پیدا ہو گئے ہیں وہ فی الواقع انسان کے ذہن اور ایمان پر بڑی گہری اور حیرت انگیز طور پر جلدی تبدیلی لاتے ہیں‘ اور یہ کیفیت نظر آتی ہے کہ آدمی آج کچھ ہوتا ہے‘ اور کل کچھ ۔

اس لحاظ سے اگر ہم سورہ کہف کا مطالعہ کریں تو شروع سے لے کر آخر تک اس کی ہر آیت ہم کو اپنے دور میں ہدایت کا ایک خاص نور برساتی ہوئی نظر آئے گی۔ میں نے اس سورہ کے درمیان سے کچھ آیات منتخب کی ہیں‘ جن میں ایک جامع نسخہ پیش کیا گیا ہے۔ اگر اس کو آدمی پکڑ لے‘ تو وہ فتنے کی ان تمام خصوصیات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتا ہے‘ جن کا ذکر صحیح اور مستند احادیث میں کیا گیا ہے۔

وَاتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنْ کِتَابِ رَبِّکَ ط لاَمُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ ج وَلَنْ تَجِدَ مِنْ دُوْنِہٖ مُلْتَحَدًاo  وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ وَلاَ تَعْدُ عَیْنٰکَ عَنْھُمْ ج تُرِیْدُ زِیْنَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ج وَلاَ تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ھَوٰئہُ وَکَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا o وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکُمْ قف فَمَنْ شَآئَ فَلْیُؤْمِنْ وَّمَنْ شَآئَ فَلْیَکْفُرْ لا (الکہف ۱۸:۲۷-۲۹)

اور تلاوت کرو اس چیز کی جو وحی کی گئی ہے تمھاری طرف تمھارے ربّ کی طرف سے۔ اس اللہ کے کلمات کو بدلنے والی کوئی چیز نہیں ہے اور تم ہرگز کوئی پناہ گاہ نہ پائو گے اس کے علاوہ ۔اور اپنے دل کو ان لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو جو اپنے ربّ کی رضا کے طلب گار بن کر صبح و شام اسے پکارتے ہیں‘ اور ان سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو۔ کیا تم دنیا کی زینت کو پسند کرتے ہو؟ کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو‘ جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا طریق کار افراط و تفریط پر مبنی ہے۔ صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمھارے ربّ کی طرف سے‘ اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کر دے۔

اس سارے حصے کا خلاصہ اگر میں بیان کرنا چاہوں تو وہ ہے قرآن ‘ اخوت اور دعوت۔

اس حصے کے اندر یہ تین اصول بیان ہوئے ہیں جس نے ان تینوں کو مضبوطی کے ساتھ تھام لیا‘ یعنی اللہ کی کتاب‘ مومن بندوں کے ساتھ اخوت کا تعلق‘ اور حق کی دعوت کا کام--- یہ دراصل وہ نسخہ ہے جو آدمی کو ہر دور میں اُن فتنوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے جو دجال کی طرح اُس کے ایمان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔

آیئے ہم ان میں سے ہر ایک کو الگ الگ دیکھیں کہ قرآن ان کے بارے کیا کہہ رہا ہے‘ اور ان میں سے ہر ایک کی ہمارے لیے کیا اہمیت ہو سکتی ہے‘ اور کس طرح ہم ان کو مضبوطی کے ساتھ تھام کر اپنی تربیت اور شخصیت کی تعمیر کر سکتے ہیں۔

۱- قرآن سے تعلق

پہلا اصول قرآن سے صحیح تعلق ہے۔ فرمایا:

اور تلاوت کرو اس چیز کی جو وحی کی گئی ہے تمھاری طرف تمھارے ربّ کی طرف سے۔ (۱۸:۲۷)

یعنی تلاوت کرو‘ اُس چیز کی‘ جس کی وحی تمھاری طرف کی گئی ہے‘ کہ جو اس کتاب میں موجود ہے‘ جو تمھارے ربّ کی طرف سے آئی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے مراد قرآن ہے جو اس وقت ہمارے ہاتھوں میں ہے‘جو ہمارے گھروں کے اندر بھی موجود ہے‘ اور جس کے بارے میں ہمارا ایمان ہے کہ اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے۔

تلاوت کے معنی صرف پڑھنے کے نہیں ہیں‘ اس کے لیے عربی میں ‘ قرأت کا لفظ آیا ہے۔ تلاوت کا لفظ اپنے اندر جامعیت رکھتا ہے۔ عربی زبان میں دراصل یہ لفظ ایک چیز کے پیچھے دوسری چیز کے چلنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ چونکہ قرأت میں الفاظ ایک کے بعد دوسرا آتا ہے‘ اس لیے تلاوت کا لفظ پڑھنے کے معنوں میں بھی استعمال ہونے لگا۔ لیکن قرآن مجید میں مختلف جگہ پر تلاوت کا لفظ جس انداز میں آیا ہے‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زبان سے پڑھنا‘ اِس کو سمجھنا‘ اس کو اپنے اندر جذب کرنا‘ اس کی اشاعت کرنا‘اس کے اوپر عمل کرنا‘ یہ سارے مفہوم اس کے اندر شامل ہیں۔ گویا ہماری شخصیت‘ ہمارے ذہن ‘ ہمارے قلب‘ ہماری روح اور ہمارے عمل کا ایک مضبوط رشتہ اور تعلق‘ اس کتاب کے ساتھ ہونا چاہیے جو اللہ کی طرف سے وحی کی گئی ہے۔ یہ سب سے پہلی چیز ہے۔ اس لیے کہ تاریکی کتنی ہی گہری کیوں نہ ہو‘ روشنی کا یہ سرچشمہ ہمیشہ موجود رہے گا‘اور اسی طرح رہے گا جیسا کہ آج سے ۱۴ سو سال پہلے تھا۔

اس کتاب کے ساتھ دل و دماغ اور ذہن کا رشتہ مضبوط باندھے بغیر ہم میں سے کوئی اس کا خواب نہیں دیکھ سکتا‘ نہ دیکھنا چاہیے کہ وہ اپنی تربیت کر سکتا ہے‘ اپنے آپ کو بہتر بنا سکتا ہے‘ یا دعوت دین کا کام کر سکتا ہے۔ کوئی کام نہیں ہو سکتا‘ جب تک اللہ کی کتاب کے ساتھ تعلق مضبوط نہ ہو۔ یہ وہ کتاب ہے جس نے اپنے سامعین کو بدلا‘ اُن کے دل و دماغ کو بدلا ‘ اُن کی زندگی کو بدلا‘ اُن کے مقاصد اور عزائم کو بدلا‘ زندگی کا دھارا پلٹ دیا اور بالآخر اُن کو دنیا میں قائد اور امام بنا دیا۔ اس کتاب نے ان کا ایمان مضبوط کیا‘ اور اسے اُن کے دل کے اندر اُتارا‘ اور اُن کے باہمی رشتوں کو مضبوط کیا۔ ان کے اندر اطاعت اور وفاداری کی صفات پیدا کیں اور اُن کو ایک مضبوط گروہ بنا کر کھڑا کر دیا۔ آج بھی اگر کوئی یہ کام کر سکتا ہے تو صرف یہی کتاب ہے۔ باہر کی دنیا خواہ کتنا ہی ہم کو گھیرے میں لیے ہوئے ہو‘ اگر اس کتاب کے ساتھ ہمارا اپنا تلاوت کا تعلق مضبوط ہو‘ تو کوئی وجہ نہیں کہ تاریکی روشنی میں بدل نہ سکے۔

قرآن مجید کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ ایسی کتاب ہے جس میں کوئی ردّ و بدل نہیں کر سکتا۔ اس میں آگے اور پیچھے سے کوئی باطل داخل نہیں ہو سکتا۔ دجال تو جب آئے گا‘ سو آئے گا لیکن دجال کے پیروکار اپنی طرف سے کتنی بھی کوشش کریں کہ ایمان کے قلعے کے اندر رخنہ پیدا کر دیں‘ اگر اس کتاب کے ذریعے حصار قائم کیا گیا ہو‘ تو اس میں رخنے کی کوئی گنجایش نہیں ہوتی۔ اسی لیے فرمایا گیا ہے:

وَاِنَّہٗ لَکِتٰبٌ عَزِیْزٌ o لاَّ یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ م بَیْنِ یَدَیْہِ وَلاَ مِنْ خَلْفِہٖ ط تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ o  (حم السجدہ ۴۱: ۴۱-۴۲) حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک زبردست کتاب ہے‘ باطل نہ سامنے سے اس پر آسکتا ہے نہ پیچھے سے ‘ یہ ایک حکیم و حمید کی نازل کردہ چیز ہے۔

یہ کتاب سارے خزانوں سے بہتر خزانہ ہے۔دنیا کے اندر آدمی جو کچھ بھی سوچے کہ میں یہ جمع کروں گااور وہ حاصل کروں گا اور جتنے بھی اس کے عزائم ہوں اور جتنی بھی چیزوں کے ساتھ وہ قیمت کو اور قدر کو وابستہ کرتا ہو کہ یہ میرے لیے قیمتی ہے‘ اُن سب سے بہتر اگر کوئی چیز ہے تو اللہ کی کتاب ہے۔  ھُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ o (یونس ۱۰:۵۸) ’’یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنھیں لوگ سمیٹ رہے ہیں‘‘۔ یہ ان  سارے امراض کا علاج ہے جو آدمی کے دل کے اندر پائے جاتے ہیں۔ یہ شفا ہے‘ نسخۂ شفا ہے‘ اور اُن ساری بیماریوں کا علاج جو ہمارے دل کے اندرہیں۔  وَشِفَآ ئٌ لِّمَا  فِی الصُّدُوْرِ لا (یونس ۱۰:۵۷) ’’یہ  وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے‘‘۔اسی کے اندر وہ نوراور روشنی ہے جو آدمی کے دل کے اندر اور اُس کے باہر کی زندگی‘ دونوں کو منور کرتی ہے۔

اس کتاب کی بہت سی خصوصیات ‘ خود اس کتاب کے اندر بیان ہوئی ہیں۔البتہ یہ بات بالکل واضح طور پر بیان ہوئی ہے کہ جب تک آدمی اپنے آپ کو اِس کے سپرد نہ کرے‘ اس کے اُوپر ایمان نہ لائے‘ اپنے آپ کو اس کے آگے نہ ڈال دے‘ اور اس کے ساتھ اپنا مضبوط تعلق قائم نہ کرے‘ اُس وقت تک یہ کتاب اس کو نفع نہیں پہنچا سکتی۔

قرآن نے اپنے اُن پہلے قارئین کی کیفیات بھی بیان کی ہیں جنھوں نے خود قرآن مجید کو نبی کریمؐ سے سنا‘ اس کو جذب کیا‘ اس پر عمل کیا ‘اور اس کے تابع ہو گئے۔ وہ کیفیات ظاہر کرتی ہیں کہ ان کی شخصیت کا کتنا گہرا تعلق قرآن کے ساتھ تھا۔ اس کا نعرہ صرف زبان پر نہیں تھا بلکہ اس کی جگہ دل کے اندر تھی‘ اور کیفیت یہ تھی کہ جب قرآن کی آیات پڑھی جاتی تھیںتو اُن کو اپنا ایمان بڑھتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ ان کا دل پگھل جاتا تھا‘ آنکھوںسے آنسو بہنے لگتے تھے‘ کھال نرم پڑ جاتی تھی اور رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔

یہ قرآن کا خود اپنا بیان ہے‘ کسی باہر کے مورخ کی بیان کی ہوئی کہانیاں نہیں ہیں۔ قرآن نے خود بتایا ہے کہ اس کو پڑھنے اور سننے والوں پر کیا کیفیات مرتب ہوتی تھیں۔ یہ ساری کیفیات لفظ تلاوت کے اندر شامل ہیں‘ اگر اس کا مطالعہ اُسی طرح کیا جائے‘ جس طرح کرنا چاہیے!

اس اللہ کے کلمات کو بدلنے والی کوئی چیز نہیں ہے اور تم ہرگز کوئی پناہ گاہ نہ پائو گے اس کے علاوہ۔ (۱۸:۲۷)

جب ہر طرف سے باطل کی یورش ہو‘ باطل فتنے ‘ باطل فلسفے‘ باطل نظریات اور باطل خیالات آدمی پر ہجوم کیے ہوئے ہوں‘ اور مختلف ذرائع سے آدمی کے اندر گھسنے کی کوشش کر رہے ہوں‘ ایسے میں ایک ہی آغوش پناہ ہے اور وہ ہے قرآن! جس طرح بچہ ماں کی گود میں جاکر سر ڈال دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اب وہ ہر خطرے سے محفوظ ہے ‘اسی طرح اگر آدمی اپنی شخصیت ‘ اپنے دل ‘ اور اپنی روح کوقرآن کی آغوش میں لا کر ڈال دے تو پھر وہ ان سب دشمنوں سے محفوظ ہو جاتا ہے جو چاروں طرف سے اُس کے ایمان اور دل پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔

یہاں ایک اور بات خاص طور پر کہی گئی ہے:  لاَمُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ ‘ ’’اس اللہ کے کلمات کو بدلنے والی کوئی چیز نہیں ہے‘‘۔ اس کی اہمیت ہر زمانے میں قرآن کے پڑھنے والوں نے محسوس کی ہوگی۔ چونکہ آج ہم بیسویں صدی میں اس قرآن کو پڑھ رہے ہیں‘ اس لیے جب ہم اپنی عقل اور علم کے مطابق اس پر غورکرتے ہیں تو ہمیں اس کے اندر بڑا حیرت انگیز نقشہ نظر آتا ہے۔ یہ مطالعہ ہم ایک ایسی دنیا میں کر رہے ہیں جس میں کسی چیز کو قرار نہیں ہے‘ نہ آدمی کے خیالات کو قرار ہے‘ نہ اُس کے نظریات اور فلسفوں کو‘ نہ طریقۂ علاج کو جو وہ اپنے امراض کے لیے ڈھونڈتا پھرتا ہے‘ یہاں تک کہ اس کے کپڑوں کے فیشن تک کو قرار نہیں ہے جو صبح و شام بدلتے رہتے ہیں۔ گویا مسلسل ایک تبدیلی کا عمل ہے جو جاری ہے۔ مغربی مفکرین بار بار اس کا اقرار کرتے ہیںکہ گذشتہ ۵۰ سال میں جتنی سرعت سے یہ حیرت انگیز تبدیلیاں انسان کے خیالات اور نظریات میں آئی ہیں‘ اس کی کوئی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ حد یہ کہ سائنس کے وہ نظریات اور حقائق جن کو صدیوں انسان سچ جان کر ان پر یقین رکھتا رہا ‘ اور جن پر وہ اپنا دین و ایمان بھی قربان کرتا رہا‘ وہ خود اپنی جگہ بدل گئے اور برابر بدلتے چلے جا رہے ہیں۔ آج جس کی نظر دنیا کے فلسفوں‘ نظریات‘ سائنس اور آج کی پوری سوسائٹی پر ہے‘و ہ جانتا ہے کہ آج کی صدی کا ایک ہی امتیازی نشان ہے‘ اور وہ ہے اس کی رفتارِ تبدیلی جو مسلسل پیش آ رہی ہے۔ اسی لیے انسان کو قرار نہیں ہے۔ وہ آج اور کل کسی چیز پر جم کر نہیں بیٹھ سکتا۔ کسی پر اپنا لنگر نہیں ڈال سکتا۔

ان حالات میں یہ فرمایا گیا کہ یہ وہ کتاب ہے‘ جس کو بدلنے والی کوئی قوت اور طاقت نہیں ہے۔ زمانے کے اثر سے یا کسی تحقیق اور انکشاف سے اس کے اندر کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو سکتی۔ اس لیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے‘ اُس کی طرف سے آیا ہے‘ اُس نے اس کو وحی کیا ہے اور اُسی کی کتاب ہے۔ اُس نے انسانی مسائل کا وہ فطری اور پایدار حل پیش کیا ہے جس پر زمانے کی گردش اثرانداز ہو کر کسی تغیر و تبدیل کا باعث نہیں بن سکتی۔ فی الحقیقت یہی وہ کتاب ہے اگر آج آدمی اس چٹان پر اپنا لنگر ڈال دے تو اس کی کشتی ہر بھنور اور ہر طوفان سے محفوظ رہ سکتی ہے۔

قرآن میں بیان کیا گیا ہے کہ فتنے کے زمانے میں آدمی کو مضبوطی کے ساتھ قرآن کا دامن تھامنا چاہیے‘ قرآن کی تلاوت کرنا چاہیے‘ اور قرآن کو اُس طرح پڑھنا چاہیے جس طرح پڑھنے کا حق ہے۔ اس لیے کہ یہی وہ کتاب ہے جو زمانے کے سارے تغیرات کے باوجود‘ ثبات اور استقلال کا نمونہ ہے اور جس کی آغوش میں پناہ اور سکون مل سکتا ہے۔ صرف یہی کتاب ہے جو سارے فتنوں اور مصائب سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔

یہ وہ قیمتی ہدایات ہیں جن کو ہمیں پلّے باندھ کر اپنی زندگی میں سے کچھ وقت لازماً اس کتاب سے وابستہ رکھنا چاہیے۔ اس کو دل و دماغ کے اندر اتارنا چاہیے اور اسی کو اپنا رہنما اور جاے پناہ بنانا چاہیے۔

۲- اہل اللّٰہ کی صحبت

فتنوں سے بچنے کے لیے دوسرا اصول اخوت ہے۔ اس اصول میں دو باتیں ہیں۔ ایک یہ کہ کیسے لوگوں سے تعلق رکھا جائے ‘ اور دوسرا یہ کہ کن سے تعلق نہ رکھا جائے اور لاتعلقی برتی جائے۔ سب سے پہلے اہل اللہ کی صحبت اور ان سے تعلق کے لیے ہدایت دی گئی ہے۔ فرمایا:

باندھ لو اپنے آپ کو ان کے ساتھ جو پکارتے ہیں اپنے ربّ کو صبح اور شام‘ اور جو طالب ہیں اس کے چہرے کے۔ (۱۸:۲۸)

یہاں صبر کا لفظ استعمال ہوا ہے اور صبر کے معنی عربی زبان میں بنیادی طور پر باندھنے اور تھامنے کے ہیں۔ یہاں یہ لفظ خاص معنوں میں استعمال ہوا ہے جس کا بعد میں تذکرہ آئے گا۔ فی الحال میں یہاں  واصبر کے لیے تعلق کا لفظ استعمال کر رہا ہوں کہ اپنا تعلق تلاش کر کے‘ ڈھونڈ کے‘ ان لوگوں کے ساتھ قائم کرو جو اپنے ربّ کو صبح و شام پکارتے ہیں۔ ربّ کے ساتھ تعلق کے لیے قرآن نے دو لفظ استعمال کیے ہیں‘ ایک لفظ عبادت اور بندگی کا ہے:  یعبدون‘ دوسرا لفظ پکارنے اور بلانے کا ہے: یدعون۔ اکثر جگہ ان الفاظ کو ایک دوسرے کی جگہ بدل کر بھی استعمال کیا گیا ہے۔ گویا عبادت اور دعا ایک دوسرے کے ہم معنی ہیں اور ان کے درمیان ایک گہرا تعلق ہے۔

عبادت تو یہ ہے کہ آدمی اپنی پوری شخصیت کے ساتھ‘ شیفتگی اور والہانہ پن کے ساتھ‘ اُس شخصیت کی پرستش کرے جس کو اپنا ربّ مانتا ہے۔ ایسا ممکن ہے کہ آدمی عبادت کے اندر مصروف ہو‘ اور اُس کے باوجود اس کا اپنے ربّ کے ساتھ دعا کا تعلق قائم نہ ہو۔ بہت سارے لوگ آپ کو کہتے نظر آئیں گے کہ ہم اللہ کی محبت میں اتنے فنا ہیں کہ ہم کو اس سے کسی چیزکے مانگنے کی ضرورت نہیں ہے‘ نہ ہم کو دوزخ کی ضرورت ہے نہ جنت کی۔ دراصل وہ دعا کی اہمیت کو نہیں سمجھ پاتے۔ درحقیقت عبادت اور دعا کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ حدیث میں ہے کہ دعا عبادت کا مغز ہے‘ یہ فی الواقع اللہ کو پکارنا ہے۔ دعا کے لفظ کے اندرکیاایسی بات یا تعبیر مضمر ہے جس کی وجہ سے قرآن نے اس کو عبادت کا مغز قرار دیا ‘ یہ پہلو غور طلب ہے۔ قرآن و حدیث میں عبادت کے ساتھ ساتھ استعانت کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ o (الفاتحہ ۱:۴) ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں‘‘۔ لہٰذا عبادت کے تقاضوں میں سے ایک اہم تقاضا  یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ استعانت کا‘ مدد مانگنے کا‘ پکارنے کا تعلق قائم ہو۔

اس دور میں‘ جب کہ انسان اپنی سرکشی‘ خودسری اور قوت کے باعث اپنی طاقت‘ سائنس اور ٹکنالوجی پر نازاں ہے‘ ایسے میں ہدایت دی جا رہی ہے کہ اُن لوگوں کو تلاش کر کے‘ اُن کے ساتھ رشتہ قائم کر کے ایک سوسائٹی بنائو جو اپنے ربّ کو پکارتے اور اس کی طرف بلاتے ہیں۔

اگر آپ غور کریں تو بلانے اور پکارنے میں کئی چیزیں پوشیدہ ہیں۔

پہلی چیز یہ ہے کہ آدمی اُسی کو پکارتا اور بلاتا ہے جس کے بارے میں اسے یہ یقین ہو کہ اُس کے پاس وہ قوت اور طاقت ہے کہ میری مدد کر سکتا ہے۔ گویا جب تک اللہ کی قوت اور علم کا یقین نہ ہو‘ اُس وقت تک اللہ تعالیٰ کے ساتھ دعا کا تعلق قائم نہیں ہو سکتا۔

دوسری چیز یہ کہ وہ سنتا بھی ہے اور جواب بھی دیتا ہے‘ یعنی یہ تعلق کسی ایسی ہستی کے ساتھ نہیں ہے جو بہت اوپر آسمانوں پر بیٹھی ہوئی ہے جس کے آگے آدمی محض سجدہ ریز ہو جائے اور اس کی اطاعت کر لے۔ درحقیقت آدمی اسی کو پکارتا اور بلاتا ہے جس کے بارے میں اس کو قوی یقین اور احساس ہوتا ہے کہ وہ ہستی اُس کی پکار سن رہی ہے۔ جیسا کہ اس نے وعدہ کیا ہے: وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ط (البقرہ ۲:۱۸۶) ’’اور اے نبیؐ، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انھیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں‘‘۔  ادْعُوْنِیْ ٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ط (المومن ۴۰:۶۰) ’’مجھے پکارو‘ میں تمھاری دعائیں قبول کروں گا‘‘۔ گویا دعا کے اندر یہ عقیدہ اور یقین شامل ہے کہ وہ ذات رحمت کے ساتھ متوجہ ہوتی ہے‘ سنتی ہے اور دعا قبول کرتی ہے۔

اپنی بندگی اور اپنے فقر‘اپنی فقیری اور اپنی بے کسی و بے بسی کا احساس بھی اس کا ایک پہلو ہے۔ یہ بھی بلانے اور پکارنے کے اندر شامل ہے۔یہ سب چیزیں مل کر‘ احتیاج اور فقر اور بے بسی اور بندگی کا تعلق اُس ہستی کے ساتھ قائم کرتی ہیں جو قادر بھی ہے اور علیم بھی‘ رحیم بھی ہے اور سمیع و بصیر بھی۔ یہ بندے اور رب کے درمیان دعا کا جو تعلق ہے اس کے ایک خاص پہلو کو بڑی وضاحت کے ساتھ نمایاں کرتا ہے۔ پھر فرمایا:

جو اپنے رب کو صبح و شام پکارتے ہیں۔ (۱۸: ۲۸)

صبح و شام کے دو معنی ہیں۔ ایک تو وہ جو واقعی صبح اور شام ہوتی ہے۔ اگر ان معنوں میں ہم اس کو لیں گے تو اس کے معنی نماز کے ہو جائیں گے۔ اس لیے کہ نماز ہی وہ چیز ہے جس کے اندر آدمی صبح و شام وقت مقررہ پر اللہ کو پکارتا ہے۔ اس کے ایک دوسرے معنی بھی ہیں۔ جس طرح ہم محاورے میں استعمال کرتے ہیں‘ کہ وہ رات دن یہ کام کرتا ہے‘ یا صبح سے لے کر شام تک اِسی کے اندر مصروف رہتا ہے‘ یعنی اس میں ہمیشگی‘ دوام اور ہمیشہ ڈرنے کے معنی بھی شامل ہیں۔ گویا اُن لوگوں کو تلاش کرو جو ایک طرف تو ہر کام میں اللہ کو یاد کرتے ہیں‘ اور پھر جو کام اللہ نے خود عائد کر دیے ہیں‘ یعنی نماز پنجگانہ کے وقت صبح اور شام اللہ کو یاد کرتے اور پکارتے ہیں۔ نیز ان لوگوں کو بھی تلاش کیا جائے جن کا اپنے رب کے ساتھ تعلق اس طرح قائم ہوتا ہے کہ ہر لمحے اُن کو اس کی قدرت کا احساس‘ اور اُس کی نسبت اپنی فقیری اور محتاجی کا احساس رہتا ہے۔

جو طالب ہیں اس کے چہرے کے۔ (۱۸:۲۸)

یہاں پکارنے کا مقصد اور جو اصل مطلوب ہے اس کی نشان دہی کی گئی ہے۔ ویسے تو ہر چیز اللہ سے ہی سے مانگنا چاہیے اور مانگنے کا حکم ہے۔ یہاں تک کہ ایک حدیث میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ جوتے کا تسمہ بھی اگر چاہیے تو اللہ سے ہی مانگو۔ درحقیقت سب سے بڑی اور اہم چیز اُس کی نگاہِ توجہ اور اُسی کی رحمت ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے۔ نگاہ اور چہرہ‘ دراصل یہ الفاظ خوشنودی ‘ رحمت اور توجہ کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ توجہ کا لفظ وجہ سے نکلا ہے‘ جس کے معنی ہیں چہرہ۔ گویا اللہ کے چہرے کی تلاش کے یہ معنی ہوئے کہ اس کی نگاہ رحمت‘ رضا اور خوشنودی مطلوب و مقصود ہو اور مسلسل اسی چیز پر نگاہ جمی رہے‘ اور پھر اللہ کی توجہ بھی شامل حال ہو۔

دراصل یہ ان کی خواہش ہوتی ہے ‘ لیکن یہاں پر لفظ یریدون استعمال ہوا ہے۔ یریدون کے معنی ارادہ کرنے کے ہیں۔ ارادے کا لفظ خواہش کے لفظ سے کچھ آگے کا ہے۔ چاہنا الگ چیز ہے‘ تلاش الگ‘ اور ارادہ الگ۔ ارادے کے معنی کے اندر عزم اور فیصلہ بھی شامل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سلسلۂ تصوف میںصوفیا اس شخص کے لیے جو اُن کے ساتھ چلنے یا اُن کی راہ پر چلنے کا ارادہ کرتا ہے‘ مرید کا لفظ استعمال کرتے ہیں‘ جو ارادے سے نکلا ہے ‘یعنی اُس نے اس بات کا فیصلہ کر لیا کہ وہ اِس راستے پر چلے گا۔ گویا ان کی زندگی کا مقصود اور اُن کی توجہات کا مرکز یہ ہے کہ وہ اپنے رب کو تلاش کریں‘ اُس کی رضا تلاش کریں‘ اُس کو اپنی طرف متوجہ کریں اور صبح و شام ہر وقت اس کو یاد رکھیں۔ اُس کے ساتھ اپنی نسبت قائم کریں‘ جو اُن کا رب‘ مالک اور پرورش کرنے والا ہے۔

صبر کا مفہوم : قرآن نے ان آیات میں تعلق کے لیے جو لفظ استعمال کیاہے‘ وہ صبر ہے۔ یہ بڑا عجیب لفظ ہے ‘ اور بڑے عجیب سیاق و سباق کے اندر آیا ہے۔ عربی زبان میں ربط کا لفظ بھی مستعمل ہے‘ اور محبت کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے کہ محبت کرو‘ لیکن یہاں صبر کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ میرے خیال میں اس کے اندر بھی ایک خاص معانی پنہاں ہیں‘ اور وہ یہ ہیں کہ دراصل تعلق تو ہے ہی یہ کہ ایک انسان دوسرے انسان کا ہاتھ تھامے اور اپنے رب کی رضا کی تلاش کی راہ پر چلے۔ لیکن اس تعلق کے لیے عزم و استقلال کی ضرورت ہے۔ یہ ایسا تعلق ہے کہ جس کے نتیجے میں ایک فرد بہت سارے صدمات اور خطرات سے دوچار ہوتا ہے۔ اگر آدمی اس بات کے لیے تیار نہ ہو کہ صبر بھی کرے گا تو محبت اور اخوت کا تعلق قائم نہیں رہ سکتا۔ دو انسان جب مل کر ساتھ چلیں گے تو ایسی باتوں کا پیش آنا جو ناگوار خاطر ہوں لازمی ہے۔ اس لیے حدیث نبویؐ میں اس آدمی کی تعریف کی گئی ہے کہ جو لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے‘ اور اگر اس میں اُس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس پر صبر کرتا ہے۔ میری رائے میں قرآن نے یہاں پر صبر کا لفظ اس تعلق‘ اس تعلق کی مضبوطی اور استحکام اور اس راہ میں جو ناگوار چیزیں پیش آنے والی ہیں‘ اُن کے مقابلے میں صبر کے ساتھ قائم رہنا‘ ان سب معنوں میں استعمال کیا ہے۔

ایک طرف تو یہ فرمایا گیا کہ اپنا تعلق اخلاص کے ساتھ ایسے لوگوں کے ساتھ باندھو۔ یہ بات اس لیے ضروری ہے کہ آدمی اکیلا اس کا تصور نہیں کر سکتا کہ وہ فتنوں کے طوفان کے اندر راہ حق پر کھڑا رہ سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کو دوسرے انسانوں کی مدد اور حمایت حاصل ہو۔ یہ انسان کی فطرت کا خاصہ ہے کہ جب ایک سے ایک مل کر دو انسان ہو جاتے ہیں‘ تو مخالف قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اور اپنے کام کی ترقی اور نشوونما کے لیے بھی‘ اُن میں سے ہر ایک کی قوت کے اندر بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ اِسی کو بعض لوگوں نے یہاں تک کہا کہ انسان اجتماعی حیوان ہے‘وہ اکیلا زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ تو الگ الگ فلسفے ہیں‘ ہمیں ان میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے اور ہمارا تجربہ بھی ہے‘ اور اس پر فطرت بھی گواہ ہے کہ جب بھی انسان مل کر ایک راستے پر چلتے ہیں یا منزل کی طرف پیش قدمی کرتے ہیں اور تعلق کو باندھتے ہیں‘ تو وہ مثبت طور پر بھی اور منفی طور پر بھی اپنے ارتقا‘ تربیت اور تزکیہ کے لیے بھی اور ان فتنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی‘ لازماً اُن کی قوت کے اندر بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کے بعد فرمایا گیا ہے:

اور ان سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو۔(۱۸: ۲۸)

یعنی تمھاری آنکھیں اُن سے الگ ہٹ کر اِدھر اُدھر نہ دوڑیں۔ دراصل جب آدمی فتنے کے ماحول کے اندر گھرا ہوا ہو‘ جہاں راہ حق پر چلنے والے اور حق کے راہی بہت تھوڑے ہوں‘ وہاں ہر وہ آدمی بڑا قیمتی ہے جو ہاتھ میں ہاتھ دے کراس راہ پر آگے بڑھے‘ جو اپنے رب کی رضا تلاش کر رہا ہو‘ جو اس کو صبح و شام تلاش کرتا ہو۔ اس کی قدروقیمت کا احساس اتنا ہونا چاہیے کہ آدمی کی نگاہ نہ پھسلے‘ نہ بہکے‘ نہ اٹکے‘ بلکہ انھی افراد کے اندر رہے‘ خواہ ان کا حلیہ اور لباس کیسا ہی ہو‘ اُن کی معاشرت کیسی ہو‘ اور دنیاوی مرتبہ کیسا ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی نگاہیں ان پر جم جائیں کہ یہ میرے بھائی ہیں۔ یہ میرے رفیق‘ دوست اور ساتھی ہیں۔ یہ میرے مددگار ہیں‘ اور مجھے اپنے آپ کو انھی کے ساتھ باندھ کر رکھنا ہے۔ اکیلا آدمی تربیت ‘ دعوت حق اور جہاد کے معرکے کو اس کے بغیر سر نہیں کر سکتا۔

نگاہ اپنے ساتھیوں سے کیوں ہٹتی ہے‘ اور کیوں آدمی اِدھر اُدھردوستیاں اور رشتے تلاش کرتا پھرتا ہے؟ اس کو بھی اس آیت کے اندر واضح اور صاف طور پر بیان کر دیا گیا ہے:

کیا تم دنیا کی زینت کو پسند کرتے ہو؟ (۱۸:۲۸)

یہ حقیقت ہے کہ دنیا کی زینت اور دنیا کی رونق کی تلاش میں ہی انسان کے تعلقات متاثر ہوتے ہیں۔ اگر آپ اس کو آج کی زبان میں ادا کرنا چاہیں‘ تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ معیارِ زندگی کو اونچے سے اونچا کرنے کی دھن سوار ہونا۔ جب کوئی شخص دنیا طلبی کے پیچھے پڑتا ہے‘ اور دنیا طلبی کے اندر صرف مال و دولت ہی شامل نہیں ہے بلکہ عزت اور جاہ‘ مقام اور تعریف جس کو سوشیالوجی کی زبان میں اسٹیٹس کہا جا سکتا ہے--- یہ ساری چیزیں اس کے اندر شامل ہیں‘ تو اپنے ساتھ چلنے والے ساتھی کی وقعت نگاہوں میں کم ہو جاتی ہے۔ وہ اُن کو نظرانداز کرنا شروع کر دیتا ہے۔ نگاہیں اُن سے ہٹ کر کہیں اور پھیلنا شروع ہو جاتی ہیں۔

ہر آدمی کی فطرت ہے کہ وہ پیروی اور اتباع کے لیے نمونے اور ماڈل تلاش کرتا ہے۔ اگر آپ اپنے بچپن کی زندگی سے لے کر اب تک غور کریں‘ اور اپنی نفسیات اور احساسات کا کبھی جائزہ لیں تو آپ دیکھیں گے کہ جو افراد آپ کے سامنے مختلف انداز میں چلتے پھرتے آئے‘ کوئی آپ کو پسند آیا اور کوئی ناپسند‘ اور جو پسند آیا‘ آپ کے دل میں ہمیشہ یہ خواہش پیدا ہوئی کہ بڑا ہو کر اُسی طرح کا ہو جائوں۔ بڑا ہو کر بھی آدمی کے دل میں خواہش ہوتی ہے کہ کسی کے پاس اگر رولس رائس دکھائی دی تو دل چاہا کہ میرے پاس بھی ہوتی‘کوئی بڑا اچھا سوٹ پہن کر آیا‘ بڑی اچھی بات کرتا ہے‘ دل چاہا کہ ہم بھی ایسے ہوں۔ کوئی نظر آیا اور احساس ہوا کہ ہم ایسے نہ ہوں۔ اس طرح مختلف ماڈل اخذ کر کے آدمی اپنے ذہن میں جمع کرتا رہتا ہے۔ بعض ماڈل اپیل کرتے ہیں وہ اُن کے پیچھے چلتا ہے‘ اور بعض کو وہ ردّ کرتا ہے کہ میں ان کے پیچھے نہ جائوں۔ قرآن نے بھی یہاں ہدایت دی کہ تمھاری نگاہ دنیا کی زینت ہی میں اٹک کر نہ رہ جائے۔ جن کی زندگیاں‘ معیار زندگی بلند کرنے کے محور پر گھوم رہی ہوں‘ ان کو اپنا ماڈل نہ بنائو اور اُن کے پیچھے اپنے ان ساتھیوں کو نہ چھوڑو کہ جو خستہ حال ہوں‘ مالی طور پر ‘ معاشی طور پر‘  بول چال میں‘ مختلف چیزوں میں‘ اسٹیٹس میں کم ہوں بلکہ اپنے آپ کو ان کے ساتھ جما کر رکھو۔ تمھاری اپنی تربیت‘ دعوت‘ جہاد‘ دنیا میں غلبے کی ساری راہیں‘  سب اُسی جماعت کی قوت میں پوشیدہ ہیں جو جماعت اس طرح آپس میں جڑ کر ایک دوسرے کے ساتھ وجود میں آتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے یہاں تین چیزوں کا ذکر کیا ہے جو اس ماڈل کی خصوصیات کو نمایاں کرتی ہیں جو دنیا کو مطلوب بنا کر اس کے پیچھے دوڑنے والوں کا ہوتا ہے۔ آج بھی اگر آپ دیکھیں گے تو دنیا کا فتنہ موجود ہے‘ اور ہمیشہ ہی رہا ہوگا۔ قرآن نے بھی شروع ہی سے اس کا ذکر کیا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ آج کے ساتھ مخصوص ہے۔ چونکہ میری نگاہ میں آج کی دنیا ہے‘ اس لیے میں اس کو اِس زمانے میں پاتا ہوں کہ انسان کی ساری بھاگ دوڑ کا محور صرف دنیا ہو کر رہ گئی ہے۔ خاص طور پر مغربی تہذیب میں اس کو بڑی بری طرح انسان کے ذہن میں بٹھایا گیا ہے کہ افراد کے لیے ‘قوموں کے لیے‘ اگر دنیا میں کوئی منزل ہے تو وہ مادی ترقی اور معیار زندگی ہے۔ وہ جی این پی کے اندر بڑھنا ہے‘ فیکٹریوں اور کارخانوں کا قائم کرنا ہے‘و ہ انسان کے لیے زندگی کے بہتر سے بہتر معیارات ہیں۔ مکان بہتر ہو‘ کار اور لباس بہتر ہو‘ --- یہ وہ چیزیں ہیں جن پر انسان کی ترقی اور ارتقا کا پورا نمونہ قائم ہوتا ہے۔ ہم میں سے کوئی اپنے آپ کو کتنا ہی بچائے‘ یہ خیالات مختلف انداز اور پیرائے میں ہمارے اندر بھی گھستے ہیں۔ اگر ہم چاہیں تو اپنے چاروں طرف دیکھ سکتے ہیں۔ اس کا حل یہی ہے کہ آدمی اس جماعت سے جڑا رہے جو بہتر نمونے کے حامل افراد اور ہر کام میں اللہ کو یاد رکھنے والی‘ اس کا ذکر کرنے والی‘ اور اُس کی رضا و خوشنودی پر نگاہ جمائے رکھنے والی ہو۔ یہ سب باتیں بھی صبر کے جامع مفہوم میں شامل ہیں۔

خدا سے غافل لوگوں سے قطع تعلق: اخوت کے اصول کے تحت دوسری ہدایت یہ دی گئی ہے کہ کن لوگوں سے قطع تعلق کیا جائے۔ کس قسم کے لوگ ہیں کہ جن کا کہنا نہ مانو‘ جن کے پیچھے نہ چلو‘ جن کے ساتھ تعلق قائم نہ کرو‘ جن کو رشک بھری نگاہوں سے نہ دیکھو کہ ہم ان جیسے ہو جائیں۔ ایسے لوگوں کی اللہ نے تین صفات بیان کی ہیں۔ فرمایا:

کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو‘ جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے‘ اور جس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے‘ اور جس کا طریق کار افراط و تفریط پر مبنی ہے۔(۱۸:۲۸)

ایک طرف کہا :واصبر‘ اپنے آپ کو ایسے لوگوں کے ساتھ باندھو‘ اس کے بعد کہا گیا:  ولاتطع‘ اور اُن کی اطاعت نہ کرو۔ یہاں اطاعت نہ کرنے سے صرف یہی مراد نہیں کہ کوئی ہم سے کہے کہ یہ کرو اور ہم نہ کریں‘ بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ اُن کے پیچھے نہ دوڑو‘ اُن کے پیچھے نہ چلو‘ اُن کے انداز کو اختیار نہ کرو‘ انھی کو یہ نہ سمجھو کہ بس ہم کو ایسا ہی کرنا چاہیے۔ یہ سب چیزیں اطاعت کے اندر شامل ہیں۔

یہاں تین خصوصیات بیان ہوئی ہیںکہ جو لوگ دنیا کو اپنا مقصود بنا لیں‘ اُن کے اندر یہ پیدا ہوتی ہیں۔ افراد کی زندگی‘ قوموں کی زندگی اور اجتماعی فلسفوں کا جائزہ لیں تو یہ تین باتیں ان سب کے اوپر پوری طرح چسپاں ہوں گی۔

پہلی یہ کہ اُس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا‘ اور وہ اپنی خواہشات نفس کو پورا کرنے میں اور ان کی تکمیل کے پیچھے پڑ گیا۔ ایسے فرد کا ہر کام حد اعتدال سے گزر جائے گا۔

قرآن دل کا لفظ صرف گوشت کے لوتھڑے کے معنوں میں جو جسم کے اندر خون پمپ کرتا ہے استعمال نہیں کرتا بلکہ اُس دل کے مفہوم میں استعمال کرتا ہے جو انسان کی شخصیت کا مرکز ہے‘ جہاں اُس کے ارادے‘ اُس کی خواہشات‘ تمنائیں‘ آرزوئیں اور عزائم پرورش پاتے ہیں‘ یا وہ محرکات پائے جاتے ہیں جن کے تحت وہ عمل کرتا اورزندگی بسر کرتا ہے۔ جو قلب خدا کی یاد سے غافل ہوتا ہے‘ اُس میں کہیں خدا کے وجود کی گنجایش نہیں ہوتی۔ ہو سکتا ہے کہ آدمی پانچ وقت مسجد میں چلا جائے‘ چرچ چلا جائے‘ سیناگاگ چلا جائے‘ تحریر میں‘ تقریر میں‘ خدا کا نام لے لے لیکن وہ چیز کہ جو شخصیت کا مرکز ہے جہاں سے ساری امنگیں جنم لیتی ہیں‘ تمام عزائم و ارادے جڑ پکڑتے ہیں‘ وہ قلب اللہ کی یاد سے خالی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عن ذکرنا فرما کر نسبت اپنی طرف کی ہے‘ یعنی اللہ سے ان کا دل غافل ہو جاتا ہے۔ یہ نتیجہ اور انجام ہے دنیا کے پیچھے پڑنے کا!

اس لیے پہلی ہدایت یہ دی کہ دیکھو ایسے لوگوں کے پیچھے کبھی نہ جانا‘ جن کے بارے میں تم کو یہ محسوس ہو کہ ان کی شخصیت ‘ ان کے قلب ‘ ان کے دل و دماغ اور روح میں کہیں اللہ کی یاد نہیں ہے۔ جو یہ نہیں سوچتے کہ اللہ کی رضا کیا ہے‘ اللہ کی مرضی اور خوشنودی یا اس کی پسند و ناپسند کیا ہے۔ وہ ساری زندگی کی منصوبہ بندی اُس سے بے نیاز ہو کر کرتے ہیں۔ صبح سے شام تک خدا سے بے نیاز ہو کر منصوبے بناتے ہیں‘ خواہ گھر کے اندر ہوں یا باہر‘ یا کہیں بھی۔ ان کا چلنا پھرنا‘ خریدنا‘ بیچنا‘ ہر چیز اس بات سے خالی ہوتی ہے کہ اس کے اندر اللہ کی مرضی کیا ہے‘ اُس کی رضا کس چیز میں ہے اوراُس کی پسند و ناپسند کیا ہے۔

یہ اللہ سے انکار کی طرف اشارہ نہیں ہے۔ یہ بات خاص طور پر قابل غور ہے کہ اللہ کا انکار تو بالکل دوسری اور بڑی دور کی اور بہت بڑی چیز ہے۔ اللہ کا انکار بہت تھوڑے لوگ کرتے ہیں۔ پہلے بھی یہی رہا ہے اور اب بھی یہی حال ہے۔ البتہ یہ سوچ ضرور پائی جاتی ہے کہ خدا کی ضرورت نہیںہے۔ خدا بے مصرف ہے۔ اس کا زندگی کے اندر کوئی مقام نہیں ہے۔ دنیا کا پیدا کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ خدا کے لیے دل میں‘ روح میں ‘ عقل میں‘ فلسفے میں‘ نظام میں کوئی جگہ نہیں ہے (نعوذ باللہ)۔ یہ ہے نتیجہ اس بات کا کہ دل اللہ کی یاد سے غافل ہو!

یادِ خدا سے غافل دل کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اُس کی ساری زندگی کی بھاگ دوڑ اُن چیزوں کے حصول میں صرف ہوتی ہے‘ جن کا تقاضا اُس کا دل اور نفس کرتا ہے۔ اس کے علاوہ زندگی میں کوئی اور اعلیٰ مقاصد اور اعلیٰ نصب العین ایسے لوگوں کے پیش نظر یا دل چسپی کا باعث نہیں ہوتا۔ یہ وہ دوسرا ماڈل اور نمونہ ہے جس سے آدمی کو بچنا چاہیے۔

تیسری بات یہ ہے کہ اگر کسی کی ساری بھاگ دوڑ‘ صبح و شام صرف اسی چیز کے پیچھے ہو کہ اپنی خواہشات کیسے پوری کرے‘ تو اس کا مطلب ہے کہ وہ غلط راہ پر جا رہا ہے۔ وہ اعتدال کی حد سے نکل جاتا ہے۔ اس کی دوستی ہو یا دشمنی‘ پسند ہو یا ناپسند‘ ہر چیز اعتدال سے باہر ہوتی ہے۔ جس چیز کو بھی اختیار کیا اُس میں اعتدال سے گزر گئے۔ اجتماعی زندگی میں انسان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی ایک حل نکالا‘ تو حد سے بڑھ گئے‘ یا کوئی دوسرا حل نکالا تو اس میں حد سے بڑھ گئے۔ اس رویے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان خودسر اور منہ زور ہو جاتا ہے اور اپنے آپ کو خدا سے بے نیاز سمجھنے لگتا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی نے اللہ کی کتاب سے تعلق توڑ لیا ہے اور اللہ کے سامنے اپنی محتاجی اور فقیری کے احساس سے بے نیاز ہو گیا ہے۔ اس نے دنیا کی زندگی کو ہی اپنا معیار بنا لیا ہے اور اُس کے پیچھے دوڑ پڑا۔

یہ تین ایسی صفات ہیں جن کے بارے میں کہا گیا کہ دیکھو جس شخص کے اندر ‘ یا جن اشخاص کے اندر‘ یا جس معاشرے یا تہذیب کے اندر یہ موجود ہوں‘ اُس کو اپنا ماڈل‘ اپنا مطاع‘ اپنا پیشوا‘ اپنا امام یا لیڈر نہ بنائو۔ اُن کے پیچھے نہ جائو بلکہ اپنا تعلق ان لوگوں یا اُس معاشرے کے ساتھ قائم کرو‘ جس کی صبح و شام کی یاد کا محور اللہ اور اُس کی رضا اور خوشنودی کی تلاش ہو۔

۳- دعوت الی اللّٰہ

انسان کو درپیش بہت سے فتنے جو اندر اور باہر سے‘ اس کے ایمان اور اس کے عمل کو غارت اور برباد کرنے کے لیے اس کے پیچھے پڑے رہتے ہیں‘ ان سے بچنے کے لیے اس قرآنی نسخے میں تیسرا اصول یہ بیان کیا گیا ہے کہ حق کی طرف دعوت دی جائے اور دعوت الی اللہ کا فریضہ انجام دیا جائے۔ فرمایا:

صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمھارے رب کی طرف سے‘ اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کر دے (۱۸: ۲۹)

یعنی حق تو وہی ہو سکتا ہے جو رب نے دیا ہے۔ اس میں کسی شک و شبے کی گنجایش نہیں۔ اس پر ہدایت یہ دی جا رہی ہے کہ اس حق کو پیش کرو اور لوگوں سے کہہ دو کہ حق کو تسلیم کریں۔ پھر اس بات کی پروا مت کرو کہ کون مانتا ہے اور کون نہیں مانتا۔ یہ کام تو کرنا ہی ہے‘ خواہ لوگ اس کو مانیں یا نہ مانیں۔ ماننا نہ ماننا‘ ہر آدمی کا اپنا کام ہے۔ اس لیے کہ اللہ نے ہر ایک کو اختیار دیا ہے‘ آزادی دی ہے کہ وہ جو چاہے کرے۔ دنیا میں یہی انسان کا امتحان ہے۔ چنانچہ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس بات کی پروا کیے بغیر کہ لوگ مانتے ہیں یا نہیں مانتے‘ اپنا کام کرتے چلے جائیے۔ لوگوں کا قبول یا ردّ کرنا‘ ان کی اپنی کامیابی یا ناکامی ہے۔ آپ اس کے مکلف نہیں ہیں۔ اس طرح سے مایوسی کا دروازہ بھی بند ہو جاتا ہے اور اللہ کی راہ میں جدوجہد کرنے اور اس کی رضا کے حصول کے لیے ایک نیا ولولہ اور جذبہ ملتا ہے جواطمینان اور سکینت کا باعث ہوتا ہے۔

قرآن مجید کی یہ آیات ہمارے لیے بہت قیمتی سبق رکھتی ہیں۔ آج مغربی تہذیب کی یلغار بھی ہے اور ہر طرف دنیا کی پرستش بھی۔ گھروں میں ٹی وی چلتا ہے‘ کیبل اور ڈش انٹینا لگے ہوتے ہیں‘ گھر بھی محفوظ نہیں اور گھروں میں ایمان بھی محفوظ نہیں۔ ان حالات میں وہ کون سا طریقہ ہے جس سے ایمان محفوظ ہو سکتا ہے؟ وہ کون سا طریقہ ہے جس سے ہم اللہ کے راستے پر قائم رہ سکتے ہیں اور چل سکتے ہیں؟ ان آیات میں اسی مسئلے کا حل پیش کیا گیا ہے۔ اگر آپ یہ تین باتیں یاد رکھیں: اللہ کی کتاب کی تلاوت‘ اچھے لوگوں کی صحبت ‘اور اللہ نے جو پیغام دیا ہے اسے دوسروں تک پہنچانا‘ تو ایمان بچایا جا سکتا ہے۔

اس نسخہء شفا کے یہ تین اجزا ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ دنیا میں‘ فتنے کے زمانے میں‘ دنیا پرستی کے زمانے میں‘ ہمیں ایمان کے راستے پر قائم رکھ سکتا ہے‘ اگر ہم اس پر چلنا چاہیں۔

اگر آدمی شروع سے آخر تک پوری سورہ کہف پڑھے‘ اصحاب کہف کے واقعے سے لے کر حضرت موسٰی ؑ اور ذوالقرنین کے واقعے تک‘ ہر ایک میں وہ اشارے موجود ہیں جن کو اگر آدمی پڑھ کر‘ ان پر عمل پیرا ہو جائے تو آج کے دور کے بہت سارے فتنوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔

میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ ہمیں ان آیات کو سمجھنے کی اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین! (کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)

خدمت خلق کے کام کو اجتماعی طور پر کرنے کی ترغیب قرآن مجید میں دی گئی ہے۔ جہاں بھی یَحِضُّ کا لفظ آتا ہے‘  تحٰٓضُّوْنَ کا لفظ استعمال ہوا ہے‘ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ‘ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ کا لفظ آتا ہے--- ان سب مقامات پر اجتماعی کام کی ترغیب دی گئی ہے۔ اسی طریقے سے سورہ العصر میں صبر اور حق کی تواصی کا حکم دیا گیا ہے جس سے مفسرین نے پورے نظام خلافت کا قیام ضروری قرار دیا ہے۔ تَوَاصِیْ بِالْحَقِّ اور تَوَاصِیْ بِالصَّبْرِ کے لیے ضروری ہے کہ حکومت کا پورا نظام قائم ہو۔ ان سب مقامات پر اجتماعی کوشش کی طرف صاف صاف اشارہ ہے۔

اُس زمانے میں شعبے بنا کر منظم کام تو ریاست ہی کرتی تھی۔ لیکن اب معاشرے پھیل گئے ہیں اور وسیع تر ہوتے جا رہے ہیں۔ مختلف گروہ وجود میں آگئے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ مل جل کر اجتماعی طور پر منظم انداز میں کام کیا جائے۔ قرآن مجید میں اس کا صاف صاف حکم بھی دیا گیا ہے اور ترغیب بھی دی گئی ہے۔ اسی سے یہ بات نکلتی ہے کہ ہم مل جل کر شعبے بنا کر خدمت خلق کا کام کریں۔

اجتماعی کام کی نوعیت

اجتماعی اور منظم کام کرنے سے مراد محض قربانی کی کھالیں جمع کرنا نہیں ہے۔ ہم نے اس کو اتنا ضروری سمجھ لیا ہے کہ بہت سے مقامات پر جہاں قربانی کی کھالیں جمع نہیں ہوتی ہیں وہاں صرف اسی وجہ سے شعبہ خدمت خلق نہیں پایا جاتا۔ عام طور پر لوگوں کے ذہن میں وہی معنی بیٹھتے ہیں جو آدمی آنکھوں سے دیکھتا یا کانوں سے سنتا ہے۔ لوگوں کے ذہن میں خدمت خلق سے فوری طور پر شفاخانے اور چرم ہاے قربانی جمع کرنے کا تصور سامنے آتا ہے۔ خدمت خلق کا ایک جامع تصور ہے۔ یہ بھی اللہ کی بندگی اور عبادت کی طرح ایک فریضہ ہے جس میں ہر ایک کو حصہ لینا چاہیے۔ بعض کاموں کو منظم طور پر کرنے کے لیے شعبے قائم ہو سکتے ہیں اور مل جل کر کام کرنے کا سوچا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے منصوبے بھی بنائے جا سکتے ہیں۔ اس نوعیت کے بہت سے کام ہیں جو سب خدمت خلق کی تعریف میں آئیں گے۔ مثال کے طور پر وہ سب کام جن سے:

__            لوگوں کے مسائل حل ہوں‘

__           بھوکوں کو کھانا پہنچے‘

__           یتیموں کو سہارا ملے‘

__          جن لوگوں کی گردنیں غلاموں کی طرح لوگوں کے ہاتھوں میں پھنسی ہوئی ہوں‘ ان کی گردنیں آزاد ہو جائیں‘

__          جن مقروض افراد کی گردنیں قرض کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہوں‘ ان کے سر سے قرض کا بوجھ اُتارا جا سکے‘

__          بے روزگاروں کو روزگار مل جائے۔

یہ سب اس طرح کے کام ہیں جو مل جل کر منظم طور پر کیے جانے چاہییں۔ جو کام اکیلے اکیلے ہوتے ہیں‘ اگر مل جل کر کیے جائیں تو ۱۰ گنا زیادہ کام ہو سکتا ہے۔ جب لوگ مل کر بیٹھتے ہیں تو گروہ بناتے ہیں‘ تنظیم بناتے ہیں۔ تنظیم بنانے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ ایک اور ایک مل کر ۱۱ ہو جائیں۔ ایک اور ایک مل کر دو کی کوششیں دو کے برابر نہ ہوں بلکہ ۱۱ کی کوششوں کے برابر ہو جائیں‘ تب تنظیم کا مقصد پورا ہوتا ہے۔ جو چیز اضعافًا مضاعفًا‘ یعنی کئی گنا بڑھتی ہے وہ مل جل کر کام کرنے سے بڑھتی ہے۔ لیکن مل جل کر کام کرنے کو ہی اصل کام سمجھنا صحیح نہیں ہے۔ اسی طرح یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ ہم نے گھر پر بیٹھ کر خیرات کر دی اور لوگوں کو پوچھ لیا۔

اجتماعی کام کی ترغیب اور امداد باھمی

یہ ضروری ہے کہ لوگ جمع ہوں‘ مل کر بیٹھیں‘ اہل محلہ کو جوڑیں‘ دوسروں کو بلائیں اور مل جل کر اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر سب مل کر یہ کام کریں تو یہی کام کتنا زیادہ پھیل سکتا ہے۔ اپنے اپنے محلّے میں کچھ لوگ کھڑے ہو جائیں اور دیکھیں کہ کون لوگ ضرورت مند ہیں‘ کون لوگ حاجت مند ہیں اور ان کی ضروریات کیا ہیں۔ اس کے بعد جو لوگ ان کی ضرورتیں پوری کر سکتے ہوں‘ ان سے رابطہ کرلیاجائے اور انھیں ترغیب دی جائے کہ وہ اپنے کمزور بھائیوں کی امداد کریں۔ اس تھوڑے سے کام سے بڑی برکت ہوگی اور بڑا کام ہوگا۔

لوگ تو تلاش میں ہوتے ہیں کہ کوئی مستحق ملے اور وہ اس کی مدد کر سکیں۔ اگر گائوں محلّے کے معتبر لوگ کھڑے ہوں‘ جو کہیں کہ ہم جانتے ہیں کہ فلاں یتیم ہے‘ بیوہ ہے اور وہ امداد کے مستحق ہیں تواسی گائوں اور محلّے سے ایسے لوگ مل جائیں گے جو خوشی سے آگے بڑھ کریہ کام کریں گے۔ ہر گائوں اور محلّے میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو مال دار اور غنی ہوتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تک پہنچا جائے اور ان سے مال لے کر اسی بستی کے فقرا میں تقسیم کر دیا جائے۔ دین میں خدمت کا بھی یہی اصول ہے کہ بستی میں جو لوگ صاحب ثروت ہوں‘ مال دار ہوں‘ ان سے وصول کر کے محتاجوں اور فقرا میں تقسیم کر دیا جائے۔ یہ کام زکوٰۃ کے علاوہ بھی ہو سکتا ہے۔ لوگ زکوٰۃ لے کر اس انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ ہم کو مستحق نہیں ملتے۔ اگر لوگوں سے صرف رابطہ کروا دیا جائے تو وہ امداد کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔

آج بھی مسلمانوں کے اندر بعض چیزوں کے بارے میں راسخ تصور پایا جاتا ہے کہ یہ ’’نیکی کا کام‘‘ ہے‘ مثلاً یتیم خانہ بنانا‘ کنواں کھدوانا‘ مسجد بنانا وغیرہ۔ اس حوالے سے مسلمان کے دل میں بڑا نرم گوشہ ہے۔ حدیث میں ہے کہ جس نے دُنیا میں مسجد بنائی اس نے جنت میں گھر بنایا۔ لوگ تعمیر مسجد کے لیے دل کھول کر چندہ دیتے ہیں۔ مسلمانوں کے کسی شہر میں چلے جائیں‘ اچھی اچھی عالی شان مسجدیں ملیں گی۔ ان کی تعمیر میں باہر سے ایک پیسہ بھی نہیں لگا ہوتا‘ سب کچھ مسلمانوں نے اپنی جیب سے دیا ہوتا ہے۔ وہ اس کام کے لیے پیسہ دیتے ہیں‘ لاکھوں لگاتے ہیں‘ اس لیے کہ ان کو یقین ہوتا ہے کہ اس میں اجر و ثواب ہے اور صحیح جگہ پیسہ لگ رہا ہے۔ اسی طریقے سے کنواں کھدوانا ہے۔ یہ بھی ایک ایسا کام ہے کہ مسلمان جانتا ہے کہ یہ بڑے ثواب کا کام ہے۔ مسلمان سبیل بہت لگاتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ جانتے ہیں پیاسے کو پانی پلانا بڑے ثواب کا کام ہے۔

نیکی اور خدمت خلق کے اس طرح کے بہت سے کام ہیں۔ اگر ان کی اہمیت‘ فضیلت اور ان کے لیے اللہ اور رسولؐ نے جو اجر رکھا ہے وہ لوگوں کو بتایا جائے تو یقینا لوگ ان راستوں میں‘ دل کھول کر خرچ کریں۔ اگر انھیں یہ بتایا جائے کہ فلاں کام کا کتنا اجر وثواب ہے‘ کتنا صدقہ جاریہ ہے‘ یا کنواں کھدوایا گیا تو جو پیاسا اس سے پانی پیے گا‘ قیامت تک اس کنویں سے آپ کو اس کا ثواب ملتا رہے گا‘ آپ کی آگ ٹھنڈی ہوتی رہے گی‘ جنت میں درخت اُگتے رہیں گے‘ میوے لگتے رہیں گے--- اگر اس طرح سے بات کی جائے تو وہ کہے گا‘ اچھا ‘میں یہ کنواں کھودنے میں ۱۰۰ روپے دے سکتا ہوں۔

اس طرح کی اجتماعی کوششوں سے کنواں کھد سکتا ہے‘ نہر کی صفائی ہو سکتی ہے‘ بہت سے کام ہو سکتے ہیں۔ اگر راستہ ٹھیک نہیں ہے‘ آپ کہتے ہیں کہ ہم مل جل کر راستہ ٹھیک کر دیتے ہیں۔ ۱۰ آدمی کدال لے کر کھڑے ہو جائیں کہ ہم راستے کو صاف کرتے ہیں۔ راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانے پر بھی جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ اگر کوئی کدال سے راستہ ٹھیک کر دے‘ لوگوں کے لیے چلنا پھرنا آسان ہو جائے‘ یہ بشارت اس کے لیے بھی ہے۔ اگر اس طرح سے لوگوں کی رہنمائی کی جائے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ مسلمان اس کے لیے آگے نہ بڑھیں۔

اس پر قیاس کرتے ہوئے اگر دیکھا جائے تو بہت سی ایسی اجتماعی صورتیں ہیں جن سے خدمت خلق کا کام کیا جا سکتا ہے۔ اگر عزم کریں تو یہ کام بڑے وسیع پیمانے پر ہو سکتا ہے۔

نیت کی درستی

اس حوالے سے آخری بات یہ ہے کہ اس سارے کام کے اندر اگر کوئی اجر ہے تو وہ صرف اس صورت میں کہ یہ سارے کام صرف اللہ کے لیے کیے جائیں۔ اگر یہ کام اس لیے کیے جائیں کہ لوگ ہمارے شکرگزار ہوں‘ ہمارے ممنون ہوں‘ دعوت میں ہمارا ساتھ دیں‘ ہمیں ووٹ دیں--- ممکن ہے کہ یہ سارے فوائد حاصل ہوجائیں‘ ممکن ہے نہ ہوں‘ لیکن اجرضائع ہو گیا۔ اس لیے کہ اجر تو صرف اس صورت میں ہے کہ نیت یہ ہو:

اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ لاَ نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَّلاَ شُکُوْرًا o اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِنَّا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًا o (الدھر ۷۶:۹-۱۰) ہم تمھیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں‘ ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ‘ ہمیں تو اپنے ربّ سے اس دن کے عذاب کا خوف لاحق ہے جو سخت مصیبت کا انتہائی طویل دن ہوگا۔

اگر ہماری نیت اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ جو کچھ خدمت کرتے ہیں‘ کھانا کھلاتے ہیں‘ مسکرا کے بات کرتے ہیں اور کھجورکا ٹکڑا نکال کے دیتے ہیں‘ یہ صرف اللہ کی رضا اور آخرت میں نجات کے لیے ہے تو اجر ہے--- اگر نیت یہ ہوگی تو دوسرے فوائد بھی کئی گنا زیادہ بڑھ جائیں گے۔ اور اگر نیت یہ نہیں ہوگی تو آپ بیٹھ کے بار بار یہ الزام دیتے رہیں کہ ہم نے تو اتنا کام کیا لیکن اس کے باوجود لوگ ہمیں ووٹ نہیں دیتے‘ دوسروں کو دیتے ہیں۔ یہ تجربہ جو آپ کو ہوتا ہے‘ اور بار بار ہوتا ہے کہ لوگ بات نہیں سنتے‘ ہمارا ساتھ نہیں دیتے‘ ہمارے لیے کھڑے نہیں ہوتے‘ یہ بھی نیت کی خرابی کا نتیجہ ہے۔ آپ کی نیت ا س کے علاوہ کچھ نہیں ہونی چاہیے کہ صرف اللہ کو خوش کرنا ہے۔ ہمارا کسی پر کوئی احسان نہیں ہے جو اس پر جتانا ہو یا ہم پر کوئی احسان نہیں ہے جو اتارنا ہو۔ صرف اللہ کی رضا اور خوشنودی مقصود ہونی چاہیے۔ قرآن مجید میں ہے:

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآئَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ ط (البقرہ ۲:۲۰۷) دوسری طرف انسانوں ہی میں کوئی ایسا بھی ہے جو رضاے الٰہی کی طلب میں اپنی جان کھپا دیتا ہے۔

اللہ کی رضا کی تلاش میں‘ کسی جزا اور شکرگزاری کی توقع کے بغیر صرف آخرت میں اللہ کے عذاب سے بچنے کے لیے انسانوں کی خدمت کرنا‘ نیت صرف یہی ہونی چاہیے۔ اس کا اجر بھی آخرت میں پورا ملے گا اور دُنیا کے اندر بھی بڑی نعمتیں حاصل ہوں گی۔ ان خدمات اور کاوشوں کے ذریعے جو اجتماعی برکتیں اور اثرات آپ چاہتے ہیں یعنی غلبہ دین اور عوام کا رجوع‘ وہ بھی ان شاء اللہ اس سے ظہور پذیر ہوگا۔ لیکن اس کی بنیادی شرط یہی ہے کہ خدمت خلق کا جو کام بھی کریں‘ وہ بس اسی نیت اور ارادے سے کریں کہ اللہ ہم سے خوش ہو جائے‘ ہم اس کے عذاب سے بچیں ‘اور آخرت میں جب پہنچیں تو بندوں سے نہیں بلکہ اللہ سے ہم کواجر ملے۔ بندے جو کچھ بھی آپ کے احسان مند ہوں گے‘ آپ کی تعریفیں کریں گے وہ سب تو یہیں ختم ہوجائیں گی۔ جہاں آپ مٹی میں گئے‘ آپ کی تعریفیں ختم۔جو کچھ بھی آپ خوش ہوئے‘ لذت لی‘ کچھ بھی آپ کے ساتھ نہیں جائے گا‘ صرف نیت آپ کے ساتھ جائے گی۔

اللہ کی رضا کی نیت سے انسان جو کچھ کرتا ہے‘وہ بڑھتے بڑھتے اتنی بڑی جنت بن جائے گا جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ نیت بہ ظاہر معمولی سی بات ہے‘ وہی چھوٹی سی نیت‘ کہ یہ کام صرف اللہ کے لیے ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں جو اکرام کرے گا اس کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے:

فَوَقٰھُمُ اللّٰہُ شَرَّ ذٰلِکَ الْیَوْمِ ………… وَّکَانَ سَعْیُکُمْ مَّشْکُوْرًا (الدھر ۷۶:۱۱-۲۲) پس اللہ تعالیٰ انھیں اُس دن کے شر سے بچا لے گا اور انھیںتازگی اور سُرور بخشے گا اور اُن کے صبر کے بدلے میں اُنھیں جنت اور ریشمی لباس عطا کرے گا۔ وہاں وہ اُونچی مسندوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے۔ نہ اُنھیں دھوپ کی گرمی ستائے گی نہ جاڑے کی ٹھر۔ جنت کی چھائوں ان پر جھکی ہوئی سایہ کر رہی ہوگی‘ اور اس کے پھل ہر وقت ان کے بس میں ہوں گے (کہ جس طرح چاہیں انھیں توڑلیں)۔ اُن کے آگے چاندی کے برتن اور شیشے کے پیالے گردش کرائے جا رہے ہوں گے‘ شیشے بھی وہ جو چاندی کی قسم کے ہوںگے‘ اور ان کو (منتظمین جنت نے) ٹھیک اندازے کے مطابق بھرا ہوگا۔ ان کو وہاں ایسی شراب کے جام پلائے جائیں گے جس میں سونٹھ کی آمیزش ہوگی‘ یہ جنت کا ایک چشمہ ہوگا جسے سلسبیل کہا جاتا ہے۔ ان کی خدمت کے لیے ایسے لڑکے دوڑتے پھر رہے ہوں گے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے۔ تم اُنھیں دیکھو تو سمجھو کہ موتی ہیں جو بکھیر دیے گئے ہیں۔ وہاں جدھر بھی تم نگاہ ڈالو گے نعمتیں ہی نعمتیں اور ایک بڑی سلطنت کا سروسامان تمھیں نظر آئے گا۔ اُن کے اُوپر باریک ریشم کے سبز لباس اور اطلس و دیبا کے کپڑے ہوں گے‘ ان کو چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے‘ اور ان کا ربّ ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا۔

یہ ہے تمھاری جزا اور تمھاری کارگزاری قابل قدر ٹھیری ہے۔

یہ سب کچھ صرف اس صورت میں حاصل ہو سکتا ہے کہ لاَ نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَّلاَ شُکُوْرًا o  (الدھر ۷۶:۹) ’’ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ‘‘۔ اِنَّا  نَخَافُ مِنْ رَّبِنَّا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًا (الدھر ۷۶:۱۰) ’’ہمیں تواپنے رب سے اس دن کے عذاب کا خوف لاحق ہے جو سخت مصیبت کا انتہائی طویل دن ہوگا‘‘۔ یعنی ہمیں تو اپنے ربّ سے بس اسی دن کا ڈر لگا ہوا ہے جو دن بڑا سخت‘ نحوست والا‘ اُداسی کا اور رنج و غم کا دن ہے۔ ہم سمجھیں کہ ہم جو بھی کام کر رہے ہیں‘ یہ بندوں کی خدمت نہیں ہے بلکہ اللہ کی خدمت ہے۔ یہ اللہ کی بندگی ہے۔ یہ اللہ کا حق ہے‘ بندوں کا حق نہیں ہے۔ اور اگر آپ نے بندوں کے حوالے سے وہ کام نہیں کیے جو کرنے کے ہیں تو ان کے لیے بندے نہیں‘ اللہ تعالیٰ روزِمحشر خود کھڑا ہو جائے گا اور آپ کا دامن پکڑ لے گا‘ اور آپ سے گریبان میں ہاتھ ڈال کے پوچھے گا کہ یہ کام کیوں نہیں کیا؟

ایک حدیث میں اس کی بڑی اچھی تصویر کھینچی گئی ہے:

اللہ تعالیٰ قیامت کے روز بندے سے پوچھے گا: --- کہ میں بھوکا تھا تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا‘ میں پیاسا تھا تو نے مجھے پانی نہیں پلایا۔ مختلف احادیث میں مختلف الفاظ ہیں۔ ایک جگہ آتا ہے کہ میں بے لباس تھا تو نے مجھے کپڑا نہیں پہنایا‘ میں بیمار تھا تو نے میری عیادت نہیں کی--- اور ہر بات پر بندہ حیران ہو جائے گا کہ اَے ربّ العالمین! تو کیسے بھوکا ہو سکتا ہے؟ تو کیسے پیاسا ہو سکتا ہے؟ تو کیسے بے لباس ہو سکتا ہے؟ اور تو کیسے بیمار ہو سکتا ہے؟ اس پر اللہ کہے گا: نہیں‘ میرا فلاں بندہ بھوکا تھا‘ میرا فلاں بندہ پیاسا تھا‘ میرے فلاں  بندے کے پاس پہننے کے لیے کپڑے نہیں تھے‘ میرا فلاں بندہ بیمار تھا‘ اور اگر تو اس کو کھلاتا پلاتا‘ عیادت کرتا تو آج اس کو یہاں پاتا---!

دراصل اللہ کی بندگی کا اصل راستہ یہی ہے!

’’خدمت خلق‘‘ کا لفظ قرآن مجیدیا احادیث میں کہیں نہیں آیا بلکہ اس کے لیے صدقہ‘ خیر‘ بِّر یا نیکی اور مختلف نام آئے ہیں۔ اس ضمن میں جو تفصیل بیان ہوئی ہے وہ سب وہی ہے جو خدمت خلق کے تحت آتی ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ خدمت خلق کا جو تصور ہم نے اپنے ذہنوں میں قائم کر رکھا ہے وہ بڑا محدود اور ناقص ہے۔ اس کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کام پر جو اجر و ثواب ہے ‘ اس کا تصور کیجیے‘ کتنا عظیم الشان ہے--- اس کے حصول کی فکر کرنی چاہیے۔

اپنی ذات سے آغاز

یہ کام دراصل اپنی ذات سے شروع کرنے کا ہے‘ لیکن اپنی ذات پہ رُک جانے کا نہیں ہے بلکہ ذات سے آگے بڑھ کر سب کو ملا جلا کر جمع کرنے کا ہے کہ سب اس کارخیر میں شریک ہوں۔ اگر آپ کی کوشش سے کوئی دوسرا آدمی خدمت خلق کے کام میں شریک ہو جاتا ہے تو‘ بغیر اس کے کہ اس کے اجر میں کوئی کمی ہو‘ آپ کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کا عجب مظاہرہ ہے۔ اگر آپ کے کہنے سے کسی نے گائوں میں کنواں کھدوا دیا تو صرف اس کو ثواب نہیں ملے گا‘ قیامت تک آپ کو بھی ملے گا۔ مَنْ دَلَّ اِلَی الْخَیْرِ‘ جس نے نیکی کی طرف رہنمائی کی اس کا اجرکَفَاعِلِہٖکرنے والے کی طرح ہے۔ اس کے اپنے اجر میں کوئی کمی نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ کے خزانے میں کوئی کمی نہیں ہے کہ کسی کو دے گا تو حساب کر کے کم کرلے گا‘  یا ایک کو دے گا تو دوسرے کا کاٹ لے گا‘ نہیں‘ جتنا ایک کو دے گا‘ دوسرے کو بھی اتنا ہی دے گا۔ دوسروں کوملا کر کام کرنے سے‘ اپنا اجر بھی اضعافًا مضعافًا کی طرح کئی گنا‘ دُگنا‘ چوگنا‘ آٹھ گنا بڑھتا جاتا ہے۔ یہ اس طرح کا حساب ہے۔

کسی بادشاہ نے ایک حساب دان سے پوچھا: میں کچھ دینا چاہتا ہوں‘ کیا دوں؟ اس نے کہا: حضور مجھے تو کسی چیزکی ضرورت نہیں ہے اللہ کا دیا‘ آپ کا دیا‘ سب کچھ میرے پاس ہے۔ بادشاہ نے کہا: پھر بھی میں تمھیں کچھ دینا چاہتا ہوں۔ اس نے کہا: پھر آپ ایسا کریں کہ شطرنج کی ایک بساط لیں جس میں ۶۴ خانے ہوتے ہیں اور اس میں آپ پہلے خانے میں چاول کے دو دانے رکھ دیں اور پھر ہر خانے میں اس کو دگنا کرتے جائیں۔ اس طرح صرف ۶۴ خانے آپ چاول سے بھر دیں‘ یہ میرے لیے کافی ہے۔ جب حساب کیا تو معلوم ہوا کہ اگر دو کو ۶۴ دفعہ دُگنا کرتے جائیں تو کوئی حساب دان بغیرکمپیوٹر کے اس کا حساب نہیں کر سکتا۔ اسی طرح جب اللہ تعالیٰ کہتا ہے:  اضعافًا مضعافًا‘ یعنی دگنا‘ چوگنا‘ آٹھ گنا‘ ۱۶ گنا‘ ۱۰۰ گنا‘ ۷۰۰ سو گنا اور  یُضْعِفُ مَنْ یَّشَاء--- جس کو چاہتا ہے مزید بڑھاتا ہے‘ تو ہمارے پاس خدا کے اجر و ثواب کو شمار کرنے کی کوئی حد نہیں ہے۔ کوئی حساب نہیں کر سکتا کہ اجتماعی کام کرنے سے کتنا اجر بڑھتا ہے۔

خدمت خلق کا کام اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ جب ہم اس کام کے ذریعے عالم انسانیت کے لیے اللہ کے نبیؐ کی طرح رحمت بن جائیں گے تو اس وقت ہمارے وہ خواب بھی پورے ہوں گے جو ہم دُنیا میں دین کے غلبے اور اس کی اقامت کے لیے دیکھتے ہیں۔ ان شاء اللہ! (کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)


(کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت: ۵ روپے ۔ سیکڑہ پر خصوصی رعایت۔  منشورات‘ منصورہ‘ لاہور)

خدمت خلق کے کیا معنی ہیں؟

عام طور پر ہم کسی بھی لفظ یا اصطلاح کے وہی معنی سمجھتے ہیں جو ہم اپنے تجربے اور مشاہدے سے جانتے ہوں‘ یا جن معنوں میں ہم نے اس لفظ کو استعمال ہوتا دیکھا اور سنا ہو۔ اس لحاظ سے خدمت خلق کا لفظ سنتے ہی ہمارے ذہن میں ایک شعبے کا نام آتا ہے۔ اس کے ساتھ عموماً قربانی کی کھالیں جمع کرنے کی تصویر بھی ذہن کے پردے میں آتی ہے۔ اسی طرح دوائیں اور ڈاکٹر لے کر چلتی ہوئی گاڑیاں‘ مریضوں کو لے جانے والی گاڑیاں‘ میت گاڑیاں--- یہ بھی خدمت خلق کا لفظ سنتے ہی ہمارے ذہن میں نمودار ہو جاتی ہیں۔ یا پھر ایسی جگہ کا تصور ذہن میں اُبھرتا ہے جہاں پر محتاج و مساکین اور غریب طالب علم درخواستیں لے کر جائیں اور ان کی امداد کر دی جائے۔

یہ سارے معنی ہم نے اپنے تجربے اور مشاہدے سے اختیار کیے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی غلط نہیں لیکن یہ خدمت خلق کے حقیقی اور مکمل تصور کا احاطہ نہیں کرتے۔

خدمت خلق کا جامع تصور

خدمت خلق کا تصوربہت وسیع اور جامع ہے۔ اس کے لیے کسی دفتر یا شعبے کا قیام بھی ضروری نہیں ہے۔ اس کی صرف یہی ایک صورت نہیں ہے کہ گاڑیوں میں ڈاکٹر دوائیں لے کر‘ یا کسی مقام پر بیٹھ کر مریضوں کا معائنہ کریں‘ یا پھرمریضوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا جائے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ میت کو قبرستان تک پہنچا دیا جائے‘ یا غریب غربا سے درخواستیں وصول کر کے ان کی مالی اعانت کی جائے۔ درحقیقت خدمت خلق کا جو تصور ہمیں اللہ اور اس کے رسولؐ سے اور دین اسلام سے معلوم ہوتا ہے‘ وہ ان سب سے کہیں زیادہ وسیع اور اس سے بہت مختلف ہے۔

اگرچہ یہ چیزیں اس کے اندر شامل ہو سکتی ہیں‘ لیکن یہ خدمت خلق کے اس جامع تصورکا ایک بڑا مختصر اور محدود حصہ ہے جس کی تعلیم اللہ اور اس کے رسولؐ نے ہم کو دی ہے۔

خدمت خلق--- یہ لفظ اللہ اور اس کے رسولؐ نے صرف ان معنوں میں استعمال نہیں کیا کہ انسانوں کی خدمت کی جائے بلکہ ’’خلق‘‘ کے اندرانسان بھی شامل ہیں اور جانور بھی۔’’خلق‘‘ میںتو خدا کی ہر مخلوق شامل ہے۔ ان کے ساتھ سلوک اور برتائو کی ہدایات قرآن مجید میں بار بار آئی ہیں اور نبی کریم ؐ کی تعلیمات کا ایک بڑا حصہ بھی اسی سے متعلق ہے۔ اگر ہم ایک دفعہ یہ سمجھ لیں کہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے خدمت خلق کو اپنے دین میں اور اپنی تعلیمات میں کیا مقام دیا ہے‘ تو یہ بات خود بخود ہم پر واضح ہو جائے گی کہ خدمت خلق کا کام صرف شعبے قائم کرنے‘ یا قربانی کی کھالیں جمع کرنے‘ یا شفاخانے بنانے اور سفری شفاخانے دوڑانے سے پورا نہیں ہو سکتا--- اس لیے کہ جس کام کو اتنا عظیم الشان مقام دیا گیا ہو‘ وہ صرف اتنی سی بات تک محدود نہیں ہو سکتا!

ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ کی مخلوق کے لیے کچھ کرنے کا ذکر ایمان کے بعد سب سے پہلے کیا جاتا ہے۔ جہاں ایمان کا ذکر آئے گا وہاں پر اللہ کی راہ میں ’’دینے‘‘ کا بھی ذکر آئے گا۔ دینے کے لیے کہیں ’’ینفقون‘‘ کا لفظ آئے گا کہ وہ خرچ کرتے ہیں۔ کہیں دینے ہی کا لفظ آئے گا‘ اَتٰی یعنی اس نے دیا۔ اور کہیں اس دینے کی جو بہت ساری صورتیں ہیں‘ اُن کا ذکر آئے گا‘ مثلاً کھانا کھلانا‘ کھانا کھلانے کی ترغیب دینا اور مل جل کر کھانا کھانا وغیرہ۔

یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اس کا ذکر ایمان کے فوراً بعد ہوتا ہے۔ گویا یہ ایمان کا ایک لازمی تقاضا ہے بلکہ ایمان کا ایک حصہ ہے۔

آپ سورہ البقرہ میں پڑھنا شروع نہیں کرتے کہ ایمان کے بعد اقامت صلوٰۃ کا‘ جو ایمان کی عملی صورت ہے‘  تذکرہ ہے‘ اور اس کے بعد ہم نے جو رزق دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں کی صفت کا ذکر آجاتا ہے۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ ’’رزق‘‘ سے مراد محض مال نہیں ہے بلکہ رزق کا لفظ اللہ تعالیٰ نے مال کے علاوہ ہر اس چیز کے لیے استعمال کیا ہے جو اس نے ہمیں بخشی ہے۔ ہمارا وقت بھی اس کا رزق ہے‘ عمر بھی اس کا دیا ہوا رزق ہے ‘ اور دل و دماغ بھی اس کے دیے ہوئے رزق کے اندر شامل ہیں۔ ہمارا جسم بھی اس کا دیا ہوا رزق ہے۔ غرض ہم کو جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ نے دیا ہے وہ سب اس کا رزق ہے۔ صرف مال ہی رزق نہیںہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو کچھ رزق کی شکل میں اللہ نے دیا ہے‘ اس کو خرچ کرتے ہیں۔ اسے مومن کی ایک صفت قرار دیا گیا ہے۔

سب سے زیادہ موثر اور زوردار تصویر قرآن مجید میں آخرت کا تذکرہ کرتے ہوئے ان لوگوں کی کھینچی گئی ہے جو جہنم میں ڈالے جائیں گے‘ جن کو ان کا اعمال نامہ بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ فرمایا:

اور جس کا نا مۂ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ وہ کہے گا: کاش میرا اعمال نامہ مجھے نہ دیا گیا ہوتا اور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے۔ کاش میری وہی موت (جو دُنیا میں آئی تھی) فیصلہ کن ہوتی! آج میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا۔ میرا سارا اقتدار ختم ہو گیا۔ (حکم ہوگا) پکڑو اسے اور اس کی گردن میں طوق ڈال دو‘ پھر اسے جہنم میں جھونک دو‘ پھر اس کو ستّر (۷۰) ہاتھ لمبی زنجیر میں جکڑ دو۔ یہ نہ اللہ بزرگ و برتر پر ایمان لاتا تھا اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔ لہٰذا آج نہ یہاں اس کا کوئی یارغم خوار ہے اور نہ زخموں کے دھوون کے سوا اس کے لیے کوئی کھانا‘ جسے خطاکاروں کے سوا کوئی نہیں کھاتا۔ (الحاقۃ ۶۹: ۲۵-۳۶)

یہاں بھی بس دو ہی باتوں کا ذکر کیا گیا ہے‘ یعنی ایمان نہ لانا اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہ دینا۔

اسی طرح  سورہ المدثر میں ہے کہ جولوگ جہنم میں ڈالے جائیں گے ان سے اصحاب الیمین‘ جو جنت میں ہوں گے‘ پوچھیں گے:

تمھیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی ہے؟ وہ کہیں گے: ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے‘ اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے‘ اور حق کے خلاف باتیں بنانے والوں کے ساتھ مل کر ہم بھی باتیں بنانے لگتے تھے‘ اور روز جزا کو جھوٹ قرار دیتے تھے‘ یہاں تک کہ ہمیں اس یقینی چیز سے سابقہ پیش آگیا  (المدثر ۷۴: ۴۰-۴۷)

یہاں بھی پہلے تو نماز کا ذکر آیا ہے جو کہ ایمان کا عملی ثبوت ہے اور اس کے فوری بعد یہ کہ ہم مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے--- یہ بھی بہت صاف صاف بتا رہا ہے کہ اللہ کی نظر میں مخلوق کی خدمت کا کیا مقام ہے!

تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں

نبی کریم ؐ کی پوری دعوت میں شروع سے آخر تک برابر اس بات کا ذکر ہے۔ ایک صحابی عمرو بن عبسہؓ روایت کرتے ہیں کہ میرا شروع سے بتوں پر ایمان نہ تھا۔ میراخیال تھاکہ یہ غلط کام ہے۔ پھر میں نے سنا کہ ایک آدمی مکّہ میں ایک اور چیز کی دعوت دے رہا ہے--- میں نے سواری کا کجاوہ کسا ‘ اس پر بیٹھا اور مکّہ پہنچ گیا۔ یہ ایسا زمانہ تھا کہ حضورؐ کا پتا چلنا ہی مشکل تھا۔

میں نے آپ ؐ کا پتا لیا اورآپ ؐ سے ملا اور پوچھا: آپ ؐ کون ہیں؟

آپ ؐ نے کہا: میں نبی ہوں۔

میں نے پوچھا: نبی کیا ہوتا ہے؟

آپ ؐ نے کہا: مجھے اللہ نے بھیجا ہے۔

میں نے پوچھا: اللہ نے آپ ؐ کو کس چیز کے ساتھ بھیجا ہے؟

اس پر حضورؐ نے فرمایا: صلۃ الارحام یعنی قرابت داری کے رشتے قائم کرنے کے لیے‘ اور بتوں سے بچنے کے لیے‘ اور ایک اللہ کی بندگی کرنے کے لیے۔

یہاں بھی ترتیب پر غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آگئی کہ حضورؐ نے اس وقت بھی جو دعوت پیش کی‘ اللہ کے احکام اور پیغام پیش کیا‘ اس میں سب سے پہلے صلۃ الارحام کہا۔ یہ صلہ رحمی (قرابت داری کے رشتے قائم کرنا) بھی خدمت خلق ہے۔

حضرت جعفر طیارؓ سے جب نجاشی نے دربار میں پوچھا کہ تم کو کیا تعلیم دی گئی ہے؟ اس پر انھوں نے کہا کہ ہم پہلے بتوں کی پوجا کرتے تھے ‘ مردار کھاتے تھے اور ظلم ڈھاتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور انھوں نے ہمیں دعوت دی۔ اب ہم بیوائوں کی خبرگیری کرتے ہیں‘ یتیموں کی خدمت کرتے ہیں اور اللہ کی بندگی بھی کرتے ہیں۔

دیکھیے‘ بین الاقوامی پیمانے پر اسلام کا تعارف ہو رہا ہے لیکن یہاں بھی اللہ کی بندگی اور انسانوں کی خدمت دونوں باتیں ساتھ ساتھ ذکر کی گئی ہیں۔

جب نبی کریم ؐ ایک نیا دین‘ ایک نئی ریاست‘ ایک نئی تہذیب قائم کرنے کے لیے مدینہ تشریف لائے اور آپؐ نے پہلا خطبہ دیا تو ارشاد فرمایا:

افشو السلام‘ واطعموا الطعام‘ وصلو الناس القیام وادخلوا الجنۃ بالسلام

یہاں چار باتیں فرمائی گئی ہیں: پہلی یہ کہ سلام پھیلائو‘ یعنی سلامتی پھیلائو ‘ اپنی زبان اور اپنے رویے سے۔ دونوں کو سلامتی کا نمونہ بنائو۔ یہ بھی خدمت خلق کی ایک صورت ہے۔ دوسری یہ کہ کھانا کھلائو‘ یعنی جو ضرورت مند ہیں‘ بھوکے ہیں‘ ان کو کھانا کھلائو۔تیسری یہ کہ جب لوگ سوتے ہوں تو نماز پڑھو۔ اور چوتھی یہ کہ جنت میں سیدھے سیدھے داخل ہو جائو۔گویا جو نئی تہذیب‘ نئی ریاست اور نیا معاشرہ بننے والا تھا‘ اس کو آپ ؐ نے پہلی ہدایت کے طور پر یہ تین باتیں کہیں‘ اور جنت کے داخلے کی بشارت بھی ان ہی تین چیزوں کے ساتھ وابستہ کی۔

اس بات سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ کے بندوں کی خدمت کا کتنا اہم کام ہے جس کو  قرآن مجید نے اور اللہ کے نبیؐ نے یہ مقام عطا فرمایا۔

خدمت خلق: مقصد دین

اگر میں یہ کہوں کہ ایک پہلو سے سارے دین کا مقصد ہی خدمت خلق ہے تو میری یہ بات غلط نہیں ہوگی۔

دین کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو جہنم میں گرنے سے بچایا جائے۔ اگر کسی کا گھر جل رہا ہو اور اس کو بچایا جائے تو یہ خدمت خلق ہے‘ اور اگر موت کے بعد وہ آگ میں گرنے والا ہو اور اس کو بچایا جائے تو کیا یہ خدمت خلق نہیں ہے؟ یقینا یہ خدمت خلق ہی ہے!

دعوت کی تعریف بھی یہی ہے ۔ لیکن بات اتنی نہیں ہے بلکہ اللہ نے فرمایا کہ ہم نے اپنے رسول اس لیے بھیجے اور کتابیں اس لیے اُتاریں‘ تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہو جائیں۔ گویا یہ بھی خدمت خلق ہے۔ لوگوں کو انصاف پر قائم کرنا اور لوگوں کے درمیان انصاف قائم کرنا‘ فی الواقع اس سے بڑی خدمت اور کیا ہو سکتی ہے۔ یہی رسولوں کا مقصد ٹھیرا‘ یہی کتابوں کے اُتارنے کا مقصد قرار پایا‘ اور یہی مومنین کی جماعت کا مقصد قرار پائے گا کہ لوگ انصاف پر قائم ہو جائیں۔ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج (الحدید ۵۷:۲۵) ’’ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا ‘ اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں‘‘۔

اس لحاظ سے دیکھا جائے تو دین کا پورا مقصد ہی خدمت خلق ہے۔ اس کا ذکر ایمان کے ساتھ ساتھ ہی نہیں ہے بلکہ بعض جگہ اس کا ایمان سے پہلے ہی ذکر کر دیا گیا ہے۔ جیسا کہ سورہ مدثر میں ہے۔ بعض آیات جو بالکل ابتدائی دَور کی ہیں ان میں بھی اس کی ہدایت کی گئی ہے‘ مثلاً:  فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰیo وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰیo فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْیُسْرٰی o وَاَمَّا مَنْ م بَخِلَ وَاسْتَغْنٰیo وَکَذَّبَ بِالْحُسْنٰیo فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْعُسْرٰیo (الیل ۹۲: ۵-۱۰) ’’ جس نے (راہِ خدا میں) مال دیا اور (خدا کی نافرمانی سے) پرہیز کیا ‘ اور بھلائی کو سچ مانا‘ اس کو ہم آسان راستے کے لیے سہولت دیںگے‘‘۔ یعنی جو راہِ خدا میں مال دینے والا ہو‘ لینے والا نہ ہو‘ اللہ نے جو کچھ اور جتنا دیا ہو اس میں سے خرچ کرنے والا ہو‘ سائل اور مستحق کی مدد کرنے والا ہو‘ خدا کی نافرمانی سے بچنے والا‘ تقویٰ اختیار کرنے والا ہو اور بھلی بات کی تصدیق کرنے والا یعنی ایمان لانے والا ہو‘ اس کے لیے اللہ جنت کے راستے کو‘ اس پر چلنے کے راستے کو آسان کر دیتے ہیں۔

بعض آیات ایسی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اور عمل کی تو تعبیر ہی یہ ہے کہ آدمی اللہ کے بندوں کی خدمت کرے۔ سورہ الماعون جو نماز میں اکثر پڑھی جاتی ہے‘اس کی بہت اچھی مثال ہے:

اَرَئَ یْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِ o فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ o وَلاَ یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِo فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ o الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلاَتِھِمْ سَاھُوْنَ o الَّذِیْنَ ھُمْ یُرَآئُ وْنَ o وَیَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ o (سورہ الماعون ۱۰۷: ۱-۷)

تم نے دیکھا اُس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے ‘ اور مسکین کو کھانا دینے پر نہیں اُکساتا۔ پھر تباہی ہے اُن نماز پڑھنے والوں کے لیے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں‘ جو ریاکاری کرتے ہیں‘اور معمولی ضرورت کی چیزیں (لوگوں کو) دینے سے گریز کرتے ہیں۔

قیامت کا جھٹلانا کیا ہے؟ یتیموں کو دھکے دینا اور مسکینوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہ دینا‘ یہ قیامت کا جھٹلانا ہے۔ یہ نہیں کہ آدمی کھڑے ہو کر یہ کہہ دے کہ میں قیامت کو نہیں مانتا۔ کوئی زبان سے اقرار کرتا ہو‘ لیکن عمل یہ ہو تو یہ عملاً جھٹلانا ہے۔ اس طرح پورے ایمان کی تعبیر خدمت خلق بن گئی۔ عبادت کی تعبیر بھی یہی ہے۔ نماز سے غفلت یہ ہے کہ دکھاوے کے لیے پڑھے‘ اس میں بندگی کی روح نہ ہو۔ اور روز مرہ استعمال کی معمولی چیزیں آدمی مارے بخل کے دینے سے روک لے۔

ایک دوسری جگہ جہنم کی آگ سے بچنے اور جنت میں داخل ہونے والوں کا تذکرہ یوں کیا گیا:

وَمَآ اٰدْرٰکَ مَا الْعَقَبَۃُ o فَکُّ رَقَبَۃٍ o اَوْ اِطْعٰمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍo یَّتِیْمًا  ذَا مَقْرَبَۃٍ o اَوْ مِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبَۃٍ o ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ o اُولٰئِکَ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ o  (البلد ۹۰: ۱۲-۱۸)

اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دشوار گزار گھاٹی؟ کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا‘ یا فاقے کے دن کسی قریبی یتیم یا خاک نشین مکین کو کھانا کھلانا ۔ پھر (اس کے ساتھ یہ کہ) آدمی ان لوگوں میں شامل ہوجو ایمان لائے اور جنھوں نے ایک دوسرے کو صبر اور (خلق خدا پر) رحم کی تلقین کی۔ یہ لوگ ہیں دائیں بازو والے۔

خدمت خلق کا مقام

اس کے بعداب اس بات میں کیا شک رہ جاتا ہے کہ خدمت خلق کا دین میں کیا مقام ہے! یہ کام تواتنا اہم ہے کہ انسان کی پوری زندگی‘ سوچ‘ ذہن‘ دل و دماغ‘ غرض ہر چیز سے اس کی عکاسی ہونی چاہیے نہ یہ کہ آدمی ایک شعبہ قائم کر کے یا کھالیں جمع کر کے مطمئن ہو جائے‘ یا چند درخواستیں لے کر اور نمٹا کر سمجھے کہ ہم نے خدمت خلق کا کام کر دیا ہے۔ دین کی تعلیم سے تو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ خدمت خلق کوئی ایسی چھوٹی چیز ہے بلکہ یہ کام اپنے اندر بڑی جامعیت اور وسعت رکھتا ہے۔

یہ اہمیت کیوں ہے؟ اگر ہم غور کریں تو ہماری پوری زندگی مخلوق کے ساتھ بندھی ہوئی ہے۔ خالق کو تو ہم نے نہیں دیکھا اور خالق سے ہم اپنا تعلق سوچ سمجھ کے‘ جان بوجھ کے‘ اور بڑی مشکل اور کوشش کر کے قائم کرتے ہیں لیکن مخلوق سے تو ہمارا رشتہ پیدا ہونے سے پہلے قائم ہو جاتا ہے۔ ایک مرد اور عورت مل کر ‘ اپنا آرام اور اپنی لذت اور اپنا سب کچھ بھول کے‘ اگر چاہتے ہیں تو انسان وجود میں آتا ہے۔ اس کے بعد بچپن میں اگر والدین بچے کو نہ پوچھیں تو وہ زندہ نہیں رہ سکتا‘ اسی وقت مر جائے بلکہ سانس بھی نہ لے پائے۔ اسی طرح انسانی زندگی کا ہر لمحہ دوسروں کے ساتھ جڑا ہوا ہے‘ انسان کے ساتھ‘ جانوروں کے ساتھ‘ اور اللہ کی مخلوق کے ساتھ۔ اگردین پوری زندگی کو اللہ کی بندگی میں دینے کا نام ہے تو زندگی کا ۹۰ سے ۹۵ فی صد حصہ خلق کے ساتھ تعلق پر مبنی ہے۔

اس تعلق کی جڑ دل میں ہے‘ ایمان میں ہے۔ جیسے بیج زمین سے پھوٹتا ہے اسی طرح جب ایمان پھوٹے گا ‘ درخت بن کے نکلے گا تواس کی ساری شاخوں کو کہیں نہ کہیں اللہ کی مخلوق کے ساتھ تعلق قائم کرنا ہوگا۔ آدمی گھر میں ہو‘ بازار میں ہو‘ کھیت میں ہو‘ حکومت کر رہا ہو‘ ملازمت کر رہا ہو‘ غرض کوئی بھی کام کر رہا ہو‘ اس کا واسطہ انسانوں سے پڑتا ہے۔ گھر میں جاتا ہے بیوی بچے ہوتے ہیں‘ مسجد میں جاتا ہے نمازی ہوتے ہیں‘ دکان پر جاتا ہے گاہک آتے ہیں--- کوئی کام ایسا نہیں ہے جہاں اس کا تعلق مخلوق کے ساتھ نہ ہو۔ مخلوق کے ساتھ اسی تعلق سے اس کی زندگی کا ایک ایک تار‘ ایک ایک حصہ‘ اور ایک ایک لمحہ بندھا ہوا ہے۔ اسی لیے مخلوق کی خدمت کا یہ مقام اللہ کی تعلیم میں اور رسولؐ اللہ کی تعلیم میں ہے۔

خدمت خلق: انفرادی تقاضے

اگر غور کیا جائے تو خدمت خلق کا جو تصور اور مفہوم اللہ اور اس کے رسولؐ نے ہمیں سکھایا ہے وہ بہت جامع اور وسیع ہے۔ نبی کریم ؐ کے بہت سے ارشادات ہیں‘ جن میں آپؐ نے بہت سے ایسے طریقوں کی تعلیم دی ہے جن سے آدمی مخلوق کی خدمت کر سکتا ہے۔ ان سب کو اگر ہم الگ الگ دیکھیں تو خدمت خلق کے بہت سے پہلو ہمیں معلوم ہو سکتے ہیں۔

اپنی ذات سے تکلیف نہ دینا

خدمت خلق کا سب سے کم تر درجہ لیکن شاید سب سے اہم درجہ یہی ہے کہ آدمی اپنی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچائے۔

ہم کوئی بھی خدمت نہ کر سکتے ہوں‘ لیکن خدمت کے اس پہلو سے تو کوئی عذر پیش نہیں کیاجا سکتا۔ ایک آدمی کہہ سکتا ہے کہ میری جیب میں پیسہ نہیں ہے‘ کھانا کیسے کھلائوں؟ وقت نہیں ملتا‘ خدمت کیسے کروں؟ یتیموں اور بیوائوں کی خبرگیری کیسے کروں؟ لیکن کوئی بھی انسان ایسا نہیں ہے جس کے بس سے یہ چیز باہر ہو کہ اپنی ذات سے دوسروں کو تکلیف نہ پہنچائے۔ اس میں کچھ خرچ نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ اپنے دل میں کچھ چیزیں ہوتی ہیں جنھیں قربان کرنا پڑتا ہے۔ وہ بعض دفعہ زیادہ مشکل ہو جاتی ہیں۔ لہٰذا خلق کی پہلی خدمت یہی ہے کہ آدمی کسی کو تکلیف نہ پہنچائے۔ ایک طویل حدیث میں نبی ؐ نے بہت ساری چیزوں کی تعلیم دی تو لوگوں نے کہا کہ اگر ہم یہ بھی نہ کر سکیں۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ پھر کم سے کم اپنی برائی سے دوسروں کو بچائو‘ دوسروں کو تکلیف پہنچانے سے بچو۔

بعض علما کے نزدیک ساری شریعت اسی اصول پر قائم ہے۔ شریعت کے جتنے بھی احکام ہیں‘ نکاح و طلاق کا مسئلہ ہو یا طرز حکومت کا‘ تجارت کے آداب ہوں یا کسی بھی شعبے سے متعلق‘ جو تعلیم دی گئی ہے‘ سب کا بنیادی اصول یہی ہے کہ کوئی مخلوق خدا کو ایذا نہ پہنچاے حتیٰ کہ اپنے منہ سے‘ ہاتھ سے‘ اور پائوں سے بھی۔ اگر یہ حکم ہے کہ تین آدمی ہوں‘ تو دو آدمی الگ ہو کر بات نہ کریں تو اس کی حکمت بھی یہی ہے کہ تیسرے کو تکلیف ہوگی۔ آدمی اگر کسی کے گھر جائے تو تین بار دروازہ کھٹکھٹائے ‘ دروازہ نہ کھلے تو واپس چلا جائے‘ بغیر اجازت کے داخل نہ ہو۔ یہ بھی اسی لیے ہے۔ اس نوعیت کے دین کے بے شمار احکامات ہیں۔ جس حکم پر بھی غور کیا جائے‘ خواہ کسی بھی دائرے سے تعلق رکھتا ہو‘ یہی حکمت واضح ہوگی کہ انسان انسان کو تکلیف نہ پہنچائے۔ ایک انسان سے دوسرے انسان کو تکلیف نہ پہنچے۔ خدمت خلق کی بنیاد اور روح یہی ہے۔

اگر پوری شریعت کو فی الحال ہم ایک طرف بھی رکھ دیں لیکن ہر آدمی کم از کم یہ ارادہ کر لے کہ اپنے کام سے‘ اپنی بات سے‘ یا اپنی ذات سے کسی کو تکلیف نہیں پہنچائے گا تو یہ بھی بہت بڑی خدمت ہوگی۔ اس سے ہمارے گھر ‘ ہمارے محلے‘ ہماری بستیاں‘ ہمارا معاشرہ اور ہماری زندگیاں اتنی پرُسکون اور بابرکت زندگیاں بن جائیں گی کہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ہم اپنی زبان سے وہ بات نہ نکالیں جس سے کسی کا دل دُکھتا ہو۔ وہ کام نہ کریں جس سے کسی کو تکلیف پہنچے۔ چہرے پر ایسی کوئی ادا نہ آئے جس سے کسی کی دل آزاری ہوتی ہو۔ کسی کو حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھیں کہ اس سے اسے دکھ ہوگا--- یہ ساری تعلیمات ہمارے دین میں بڑی تفصیل سے موجود ہیں اور ان میں یہی بنیادی اصول کارفرما ہے۔

یہ خدمت خلق کے حوالے سے سب سے پہلی بات ہے۔ اس سے کوئی بھی آدمی یہ کہہ کر انکار نہیں کر سکتا کہ یہ میرے بس سے باہر ہے یا میرے پاس وسائل نہیں ہیں یا پیسے نہیں ہیں۔ اس کے لیے کسی شعبے کی یا شفاخانے کی یا ایمبولینس کی‘ یا کھالیں جمع کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ صرف یہ طے کرنے کی ضرورت ہے کہ میری ذات سے کسی کو تکلیف نہ ہو۔ جس سے بھی میل جول ہو یا ملاقات ہو‘ خواہ قریبی عزیز ہوں یا دُور کے‘ ماں باپ ہوں یا بیوی بچے‘ کام کرنے والے ملازم ہوں یا دفتر میں کام کرنے والے ساتھی یا ماتحت--- منہ سے کوئی ایسی بات نہ نکالے یا ہاتھ سے کوئی ایسی حرکت نہ کرے جس سے کسی کو ایذا پہنچے یا تکلیف ہو۔ یہ بات اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر یہ بات نہ ہو تو بڑے بڑے خدمت خلق کے کام بھی ضائع ہو سکتے ہیں۔ لوگوں کو ایذا پہنچانا کینسر کی بیماری کی طرح ہے۔ بڑے بڑے نیک کاموں کے ساتھ اگر یہ بیماری لگ جائے تو سارے اعمال اکارت اور بیکار ہو جاتے ہیں۔

چند احتیاطیں

خدمت خلق کے لیے ایک لفظ جو قرآن اور حدیث میں استعمال ہوا ہے‘ وہ صدقے کا لفظ ہے۔ صدقے سے مراد صرف پیسہ دینا ہی نہیں ہے یا یہ صرف خیرات کرنا نہیں ہے‘ بلکہ صدقے کے لفظ کے اندر بہت ساری باتیں شامل ہیں۔ قرآن مجید میں صدقے کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے اور انفاق کا لفظ بھی آیا ہے۔ یہ چند احتیاطوں کا متقاضی ہے۔

  •  راہِ خدا میں خواہ کتنا ہی مال دیا ہو‘ اس انفاق کے بعد لوگوں پر احسان جتایا‘ تکلیف دی تو سارا انفاق‘ ساری خدمت خلق بیکار ہو جاتی ہے۔
  •  جو لوگ دفتر میں بیٹھے کہہ دیں کہ ہم نے تمھارے ساتھ اتنا کیا‘ تو وہ سب کچھ ضائع ہو جاتا ہے۔ اور جو کوئی ایسی بات کہہ دے جس سے لینے والے کو جس کی خدمت ہو رہی ہے تکلیف پہنچے یا برا بھلا کہہ دیا تو اس سے سب اعمال ضائع ہو جاتے ہیں۔ اس لیے کوشش ہونی چاہیے کہ دوسروں کو تکلیف پہنچانے سے بچا جائے--- خدمت خلق کے لیے یہ لازمی اور ناگزیر ہے۔ اگر آدمی کوئی کام بھی کرے‘ کسی کا بھی کرے‘ بڑی سے بڑی خدمت کرے اور اس کے بعد تکلیف پہنچا دے‘ توسب کچھ ضائع ہو جاتا ہے۔
  •  ماں باپ کی بہت خدمت کی لیکن بعد میں برا بھلا کہہ دیا‘ یا بدتمیزی کر دی‘ تو سب کچھ ضائع ہوجائے گا۔ یہ بات قصاص کے دائرے میں بھی آسکتی ہے۔
  • نوکر کا بہت خیال رکھا‘ اس کو کپڑے دیے‘ عید پررقم دی‘ لیکن کھڑے کھڑے اس کی بے عزتی کر دی‘ اس طرح آدمی نے جو کچھ کیا سب ضائع ہو سکتا ہے۔

اس لیے سب سے پہلی بات جس کے بارے میں انسان کو سوچنا چاہیے وہ یہ ہے کہ مجھ سے کوئی ایسی بات سرزد نہ ہو جس سے دوسروں کو ایذا پہنچے یا تکلیف ہو۔ یہ خدمت خلق کی وہ صورت ہے جو ہم میں سے ہر آدمی کر سکتا ہے۔ کسی کے بھی بس سے باہر نہیں ہے۔ اس میں نہ پیسہ لگتا ہے ‘ نہ وقت‘ بس صرف اپنے نفس کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ غصہ آ رہا ہے‘ انتقام لینے کو دل چاہ رہا ہے‘ اس وقت اپنے آپ کو قربان کر دینا‘ نفس پر قابو پا لینا‘ یہ بہت بڑی بات تو ضرور ہے لیکن خدمت خلق کی راہ میں بہرحال پہلی چیز ہے۔

راہِ خدا میں خرچ کرنا

خدمت خلق دینے‘ خرچ کرنے‘ انفاق اور ایتا کا نام ہے۔

کھانا کھلانا‘ علاج کرنا‘ خدمت کرنا اور عبادت کرنا--- سب اسی کے اندر آتا ہے۔ لیکن اصل چیز یہ کہ آدمی خود غرض نہ ہو بلکہ دینے کو تیاررہے‘ اور دینے کے اندر جو چیز آدمی کو سب سے پیاری ہے وہ ہے مال و دولت۔ ویسے تو وقت بھی ہے اور بھی بہت سی چیزیں انسان کو پیاری ہوتی ہیں لیکن عزت و آبرو کے بعد سب سے پیاری چیز پیسہ ہی ہوتا ہے۔ اسی لیے جہاں بھی خدمت خلق کا ذکر آیا ہے وہاں پر دولت کو سینت سینت کر رکھنے سے منع کیا گیا ہے ‘ یا اس کی برائی بیان کی گئی ہے۔ سورہ الھمزہ میں ہے:

وَیْلٌ لِّکُلِّ ھُمَزَۃِ لُّمَزۃِ نِ o الَّذِیْ جَمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَہٗ o (الھمزہ ۱۰۴: ۱-۲)

تباہی ہے ہر اس شخص کے لیے جو (منہ در منہ) لوگوں پر طعن اور (پیٹھ پیچھے) برائیاں کرنے کا خوگر ہے‘ جس نے مال جمع کیا اور اُسے گن گن کر رکھا۔

گویا مال جمع کرنا‘ اسے گن گن کر رکھنا‘ بنک بیلنس شمار کرتے رہنا‘ اور اپنا مال تھیلیوں اور تجوریوں میں بھر بھر کر رکھنا--- یہ ایک ناپسندیدہ عمل ہے۔ قرآن نے مال جمع کرنے اور اسے سینت سینت کر رکھنے کو اس بات سے بھی جوڑا ہے کہ ایسا شخص لوگوں کو طعنے دینے اور برا بھلا کہنے کا خوگر ہوتا ہے اور انھیں تکلیف پہنچاتا ہے۔ گویا دوسروں کو تکلیف پہنچانے کے پیچھے بھی مال کی محبت کا محرک کارفرما ہوتا ہے۔

ایک دوسرے مقام پر انسانی نفسیات کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب ہم انسان کو عزت اور نعمت دیتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ میرے ربّ نے مجھے عزت دار بنا دیا‘ اور جب آزمایش کرتے ہیں اور اس کا رزق تنگ کر دیتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ میرے ربّ نے مجھے ذلیل کر دیا۔ مگر حقیقت کیا ہے‘ اس کی نشاندہی قرآن یوں کرتا ہے:

کَلاَّ بَلْ لاَّ تُکْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَ o وَلاَ تَحٰٓضُّوْنَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ o وَتَاکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلاً لَّمًّا o وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا o (الفجر ۸۹: ۱۷-۲۰)

ہرگز نہیں‘ بلکہ تم یتیم سے عزت کا سلوک نہیں کرتے‘ اور مسکین کو کھانا کھلانے پر ایک دوسرے کو نہیں اُکساتے ‘ اور میراث کا سارا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو‘ اور مال کی محبت میں بری طرح گرفتار ہو۔

یہاں بھی مال کی محبت اور دوسروں کو تکلیف دینا‘ دونوں کا ذکر ساتھ ساتھ کیا گیا ہے۔

نیکی کی تعریف قرآن مجید میں‘ ایک مقام پر اس طرح سے کی گئی ہے:

لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ ……… وَاُولٰئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ (البقرہ ۲:۱۷۷)

نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یا مغرب کی طرف‘ بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یومِ آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر‘ مسکینوں اور مسافروں پر‘ مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے‘ نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔ اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اُسے وفا کریں‘ اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔

یہاں بھی اللہ‘ یوم آخر‘ ملائکہ‘ کتاب اور پیغمبروں پر ایمان لانے کے بعد جس بات کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ ہے اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور نادار و محتاج لوگوں پر خرچ کرنا۔ نماز‘ زکوٰۃ اور جہاد کا حکم اس کے بعد دیا گیا ہے۔ اس سے بھی راہِ خدا میں مال خرچ کرنے کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔

عَلٰی حبہٖ کے معنی ہیں: اللہ کی محبت میں دینا‘ مال کی محبت کے باوجود دینا۔ دونوں میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ مال کی محبت کے باوجود آدمی اسی وقت دے سکتا ہے جب مال سے زیادہ کوئی اور چیزپیاری ہوجائے‘ اور وہ ہے اللہ! اللہ کی محبت میں بھی آدمی اسی وقت دے سکتا ہے‘ جب مال کی محبت‘ اللہ کی محبت سے کم ہو۔ مقصد یہ ہے کہ جو مال اللہ نے ہمیں دیا ہے‘ جس سے ہمیں بڑی محبت ہے‘ اسے اللہ کی راہ میں دوسرے بندوں پر خرچ کرنا چاہیے۔ لہٰذا کنجوسی سے مال کو بچانے کے بجائے کھلے دل اور کھلے ہاتھ سے اللہ کی راہ میں دینا‘ یہ خدمت خلق کی دوسری صورت ہے۔ یہ چیز نہ ہو تو اجتماعی کاموں کی عمارت کھڑی کرنے سے خدمت خلق کے کام کا وہ حق ادا نہیں ہوتا جو اللہ اور رسولؐ نے ہم پر عائد کیا ہے۔

مال نہیں‘ قلبی وسعت

مال دینے کے لیے مال کا ہونا ضروری ہے لیکن بہت زیادہ مال ہونا ضروری نہیں۔ بلکہ اصل ضرورت یہ ہے کہ دل کے اندر بہت سی جگہ ہو۔ دو پیسے بھی آدمی دے تو اس کے لیے بہت ہیں۔

نبی کریم ؐ نے اسی پہلو کو حدیث میں یوں واضح کیا ہے کہ ایک دن آئے گا کہ آدمی اللہ کے سامنے کھڑا ہوگا‘ درمیان میں کوئی پردہ نہ ہوگا‘ رُوبرو ہوگا اور آگ بھڑک رہی ہوگی۔ سوچے گا کہ آگ سے کیسے بچے؟ دائیں بائیں سہارا دیکھے گا۔ پھر دیکھے گا کہ جو کچھ مال میں نے دُنیا میں آگے بھیجا ہے اس میں سے کچھ نہیں ہے‘ سوائے عمل کے۔

پھر فرمایا: ’’آگ سے بچو--- اگر کھجور کا ایک ٹکڑا بھی دے کر بچ سکتے ہو تو بچو‘‘۔

یعنی آگ سے بچنے کے لیے خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا دیا جائے یا صرف ایک پیسہ‘ جو کچھ بھی ہو‘ دینا چاہیے۔ اللہ کے ہاں اجر مقدار کی بنا پر نہیں بلکہ دینے کی نوعیت کے لحاظ سے ملے گا۔ اگر اتنا مفلس اور قلاش ہو کہ کچھ بھی نہ دے سکے‘ تو کم از کم اس بات پر رنجیدہ تو ہو کہ میں دے نہیں سکتا۔ آنکھ میں آنسو اور دل میں افسوس ہی ہو کہ کاش میرے پاس کچھ ہوتا تو میں دے دیتا۔ اس کا بھی بڑا اجر و ثواب ہے۔

اپنا مال قربان کرنا‘ اللہ کی راہ میں دینا اورمال کی محبت دل سے نکالنا--- اس کے بغیر خدمت خلق نہیں ہو سکتی۔ مال کی محبت دل میں ہو تو آدمی وقت کے بارے میں بھی کنجوس ہوتا ہے‘ جسمانی صلاحیتوں اور توانائیوں کے استعمال میں بھی کنجوس ہوتا ہے اور ترجیحات بھی بدل جاتی ہیں‘ غرض بہت سی کنجوسیاں آجاتی ہیں۔ اسی طرح اگر مال کے بارے میں دل کھلا ہو تو ہر چیز کے بارے میں دل کھلا ہوتا ہے۔ جو بخیل ہوتا ہے اس کے کردار میں ہر طرح کی خرابیاں آجاتی ہیں۔ فیاض آدمی میں بڑی خوبیاں پائی جاتی ہیں--- دل اتنا کھلا ہو کہ جو دولت اللہ نے دی ہے‘ جتنا بھی دیا ہے‘ خواہ کھجور کا ٹکڑا ہی دے سکتا ہو‘ اللہ کی راہ میں دے۔ اتقوا النار ولو کان شقۃ--- یہ ہے خدمت خلق کی روح!

بھلی بات کہنا

تیسری چیز یہ ہے کہ آدمی ایسی بات کہے کہ جو دوسرے کے دل کو خوش کر دے‘ اس کو نفع پہنچائے۔

ایک حدیث میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ اگر کھجور کا ایک ٹکڑا بھی راہِ خدا میں دینے کے لیے نہ ہو تو اچھی بات کے ذریعے اس آگ سے بچو۔ کم از کم یہ بات تو ایسی ہے جو آدمی ضرور ہی کر سکتا ہے۔ ایک اچھی اور میٹھی بات منہ سے نکالنے میں نہ پیسہ لگتا ہے نہ دمڑی‘ بلکہ کچھ بھی نہیں لگتا۔ مسکرا کر ملنے سے‘ مسکرا کر دیکھنے سے‘ اچھی اور میٹھی بات کرنے سے کچھ بھی خرچ نہیں ہوتا۔ پھر آدمی اس میں بخل کیوں کرے‘ کنجوسی اور تنگ دلی کا مظاہرہ کیوں کرے۔

اچھی بات کر دینے سے آدمی کا دل کتنا خوش ہوتا ہے‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پیسے دینے سے وہ فائدہ نہیں ہوتا‘ جو میٹھی بات سے ہوتا ہے۔ پیسہ روک دینے سے دل پر وہ زخم نہیں لگتا جو کڑوی بات سے لگتا ہے۔ کڑوی بات کا زخم کسی طرح نہیں مٹتا۔ تلوار یا بندوق کا زخم دوائوں سے مٹ جاتا ہے‘ مندمل ہو جاتا ہے لیکن کڑوی بات کا زخم جب دل پر لگتا ہے تو کوئی مرہم اس پر کام نہیں کرتا۔ چنانچہ اگر کھجور کا ایک ٹکڑا بھی نہ ہو تو نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ‘ پھر اچھی بات سے اپنے آپ کو آگ سے بچائو۔

وسائل اور صلاحیتیں لگانا

خدمت خلق کی ایک صورت یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو جو وقت‘ جسم و جان‘ صلاحیتیں اور توانائیاں عطا کی ہیں‘ انھیں راہِ خدا میں لگائے۔ اس کی بے شمار صورتیں ہیں۔ نبیؐ نے اپنے زمانے کی مناسبت سے ان کو بیان فرمایا اور ان کی تعلیم دی ہے۔

آپؐ نے فرمایا کہ اگر بھائی کے ڈول میں پانی ڈال دو‘ تو یہ بھی خدمت خلق ہے۔ اگر کسی کو سواری پر ہاتھ پکڑ کر بٹھا دو‘ تو یہ بھی خدمت خلق اور صدقہ ہے۔ اگر اندھے کو راستہ نہیں ملتا‘ تم نے اسے راستہ بتا دیا تو یہ بھی خدمت خلق کا کام ہے۔ کسی کے لیے کچھ کما کر اس کی خدمت کر دی‘ مالی مدد کر دی‘ تو یہ بھی خدمت خلق ہے۔ کسی کو سودا سلف لا دینا‘ یہ بھی خدمت ہے۔ اس طرح کی بے شمار صورتیں ہیں جن سے آدمی اپنے جسم و جان سے خدمت کر سکتا ہے۔

محلّے کے اندر کوئی عورت بوڑھی ہے یا بیوہ ہے‘ جاتے جاتے اس کی طبیعت ہی پوچھ لی۔ یہ بھی بہت بڑی بات ہے جسے لوگ نہیں کرتے۔حالانکہ اس میں بھی بہت خدمت خلق ہے۔ ممکن ہے کہ اس نے کچھ منگوانا ہو۔ لیکن اتنا پوچھ لینا کہ ا مّاںسودا تو نہیں لانا--- یہ پوچھنابھی اس کے دل کو خوش کر دے گا۔ اس کی خوشی سے اللہ کا رسولؐ خوش ہوگا اور اللہ خوش ہوگا۔ یہ ایسی خوشی ہے جو نماز‘ روزہ یا تسبیح و تہلیل سے نہیں ہوتی بلکہ صرف اللہ کے بندوں کو خوش کرنے سے اللہ کو اور اس کے رسولؐ کو ہوتی ہے!

یہ سب خدمت خلق کی انفرادی صورتیں ہیں جو ایک فرد اپنے ہاتھوں سے انجام دے سکتا ہے۔ ان کا ذکر پہلے اس لیے کیا گیا ہے کہ جو بھی اجتماعی کام ہیں خواہ کوئی شعبہ قائم کیا جائے‘ کوئی شفاخانہ بنایا جائے‘ کھالیں جمع کی جائیں‘ اسکول بنایا جائے‘ مدرسہ بنایا جائے‘ یا کوئی بھی کام کیا جائے--- یہ افراد ہی انجام دیتے ہیں۔ لیکن اگر یہ سمجھا جائے کہ ہم محض اجتماعی ڈھانچوں کے قیام سے خدمت خلق کا حق ادا کر دیںگے اور جو لوگ خدمت خلق کا فریضہ ادا کر رہے ہیں‘ خود ان کی ذات سے اس کی عکاسی نہ ہوتی ہو‘ تو یہ صحیح نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف اجتماعی ڈھانچے کھڑے کر دینے سے خدمت خلق کا حق ادا نہیں ہوتا۔ قرآن مجید سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ (جاری)

ترجمہ: میاں محمد اکرم

مسلم عیسائی مکالمے کا آغاز تو اسلام کی آمد کے ساتھ ہی ہوگیا تھا‘ لیکن صلیبی جنگوں نے اور بعد میں ان کے تذکروں نے اسے اپنا ایک آہنگ دیا۔ ماضی قریب میں یورپی ممالک میںمسلم ممالک سے جا کربسنے والے افراد اور خاندانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے رابطے کے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے۔ عملی رویے‘ روایت اور تاریخی پس منظر سے آزاد نہیں ہو سکتے۔ آنے والی صدی اور عہدحاضر کے اپنے تقاضے ہیں۔ دونوں طرف کی قیادت کے لیے یہ غوروفکر کا ایک اہم موضوع ہے تاکہ صحیح بنیادوں پر نقطۂ نظر تشکیل پائے‘ اپنے اپنے پیرووں کو اس کی تلقین کریں جو درست عملی رویے اپنائیں۔

یورپ کے پروٹسٹنٹ اور کیتھولک چرچوں کے اداروں KEN) اور (CCEE نے ایک مشترکہ ’’اسلام ان یورپ کمیٹی‘‘ قائم کی جس نے اکتوبر ۱۹۹۴ء اور مارچ ۱۹۹۵ء میں جینیوا میں اپنے اجلاس کیے اور رپورٹ تیار کی جس میں باہمی احترام اور تعاون پر مبنی ریسی پروسٹی (reciprocity) کو تعلقات کی بنیاد قرار دیا گیا تھا‘ یعنی جو رویہ اور سلوک ایک فریق اختیار کرے‘ دوسرے کو بھی وہی اپنانا چاہیے۔یہ ان کے نزدیک تعلقات کو صحیح خطوط پر استوار کرنے کی بہترین منطقی بنیاد تھی۔

اس پر محترم خرم مراد نے جو اس وقت اسلامک فائونڈیشن لسٹر کے ڈائرکٹر جنرل تھے‘ یہ موقف اختیار کیا کہ  ادلے کا بدلہ‘ جیسے کو تیسا‘ کوئی اچھی اخلاقی بنیاد نہیں۔ دین کی تعلیم تو یہ ہے کہ کوئی تمھارے ساتھ برا سلوک کرے پھر بھی تم اس کے ساتھ اچھا ہی سلوک کرو۔ دوسروں کو ان کے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کا موقع دینا اصل بات ہے۔ مضبوط استدلال کے ساتھ انھوں نے اپنا یہ موقف عیسائی قیادت کو ارسال کیا۔ یہ فائونڈیشن کے جریدے Encounter میں شائع کیا گیا (ستمبر ۱۹۹۶ء)۔ اس کی روشنی میں عیسائی قیادت نے اپنے موقف پر نظرثانی کی اور دستاویز میں یہ تبدیلی کی۔ کمیٹی کے سیکرٹری نے اسلامک فائونڈیشن کو یہ خط لکھا:

مجھے افسوس ہے کہ اب یہ ممکن نہیں کہ ہم خود خرم مراد کو جواب دے سکیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس تمام بحث و مباحثے کے بعد جو نئی دستاویز تیار ہوئی ہے‘ خرم مراد اس کی قدر کرتے۔ آپ دیکھیں گے کہ ہم نے اس میں خرم مراد کی تحریر سے اقتباسات لیے ہیں اور فیصلہ کیا ہے کہ عیسائی مسلم تعلقات کے لیے ریسی پروسٹی کے پورے تصور کو ہی مسترد کر دیں (۲۶ فروری ۱۹۹۷ء)۔

ہم محترم خرم مراد کی تحریر کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں جو عیسائی مسلم تعلقات کے حوالے سے ایک مستقل نوعیت کی حامل دستاویز قرار دی جا سکتی ہے (ادارہ)۔

میں نے اسلام اِن یورپ کمیٹی کی اس دستاویز کو بہت غور سے پڑھا ہے (Encounter‘ مارچ ۱۹۹۶ء)۔ مجھے یہ رپورٹ پڑھ کر خوشی ہوئی‘ اس لیے کہ آج کے دور میں ‘جب کہ ہر طرف باہمی نفرت‘ عدم رواداری‘ تنازعات‘ خوں ریزی اور نسل کشی کا دور دورہ ہے‘ خداے واحد کی زمین پر ’’ایسی بنیاد اورطریقہ معلوم کرنے کی اشد ضرورت ہے جو ہمیں اپنے اپنے خدا کی ایک دنیا میں ‘ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے کے قابل بنائے‘‘ (ص ۷۵)۔

آج ہمیں جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ ایک ایسے نئے اور تازہ نقطۂ نظر کی ہے جو علمی اور ابلاغی دنیا میں جاری بے ثمر اور فرسودہ بحثوں سے الگ ہو کر نئے راستے کا نقطۂ آغاز بن جائے۔ میرا احساس ہے کہ یہ دستاویز جو طویل غوروفکر کا نتیجہ ہے یہ توقع پوری نہیں کرتی۔ چرچ کے رہنما ذہن و قلب کی جس وسعت اور کشادگی پر اتنا زور دیتے ہیں‘ اور صحیح دیتے ہیں‘ اس کے ہوتے ہوئے یہ مشکل نہ ہونا چاہیے تھا۔ مجھے امید ہے کہ میں جو معروضات پیش کر رہا ہوں وہ ان پر غور کریں گے اور اگر اتفاق کریں گے تو اس دستاویز کے خلا اور تناقصات میں سے کچھ کو دُور کریں گے جو میرا خیال ہے کہ اس دستاویز میں موجود ہیں‘ کیونکہ سب کی خواہش ہے کہ یہ مکالمہ آگے بڑھے۔

دستاویز میں سب سے زیادہ زور ریسی پروسٹی پر ہے‘ لیکن کیا ریسی پروسٹی وہ جامع بنیادفراہم کر سکتی ہے جو ساتھ مل جل کر رہنے کے لیے‘ جو بنیادی طور پر ایک اخلاقی‘ روحانی اور معاشرتی تجربہ ہے‘ ضروری ہے؟ کیا یہ ہمارے ایمان و عقیدے کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے؟ میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی ریسی پروسٹی اچھے تعلقات کے فروغ کے لیے ایک کمزور‘ بہت ہی مبہم اور اخلاقی طور پر غیر اطمینان بخش بنیاد نظر آتی ہے۔

اوّل‘ ریسی پروسٹی کا مطلب بہت آسانی سے‘ بالکل منفی معنوں میں‘ یعنی برائی کے بدلے میں برائی‘ لیا جا سکتا ہے۔ اس بات کو دستاویز نے خود تسلیم کیا ہے اور اسے بائبل کے خلاف ہونے کی بنیاد پر مسترد کیا ہے لیکن افسوس ہے کہ اس دستاویز میں اس سے بھی زیادہ اہم بات کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ اسلام اور عیسائیت کی مقدس کتابیں‘ قرآن اور بائبل‘ دونوںاس منفی بات کو مسترد کرنے سے بہت آگے بڑھ کر اس ریسی پروسٹی سے بھی منع کرتی ہیں جو صرف اچھائی کے بدلے میں اچھائی کی تعلیم دے۔ درحقیقت وہ اس سے بھی آگے بڑھ کر برائی کے بدلے میں اچھائی‘ اختیار کرنے پر شدت سے اُبھارتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو نیکی ہے‘ جس کی دین نے تعلیم دی ہے‘ خاص طور پر انصاف اور ہمدردی‘ وہ دوسروں کے ساتھ کرنا چاہیے خواہ دوسرا ہمارے ساتھ وہی نیکی کر رہا ہے یا نہیں۔ اگرچہ کہ وہ دوسرا ہمارا دشمن ہی کیوں نہ ہو یا ماضی میں اس نے ہمارے ساتھ کوئی بہت بڑی زیادتی ہی کیوں نہ کی ہو۔ اس بارے میں قرآن پاک یہ کہتا ہے: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو‘ یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے‘‘ (المائدہ ۵:۸)۔ ’’اور جب بات کہو‘ انصاف کی کہو خواہ معاملہ اپنے رشتے دار ہی کا کیوں نہ ہو‘‘ (الانعام ۶:۱۵۲)۔ اسی طرح یہ فرمایا گیا کہ لوگوں سے بھلی بات کہو (البقرہ ۲: ۸۳) ۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر قرآن یہ ہدایت دیتا ہے: ’’اور اے نبیؐ ‘ نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو‘‘ (حم السجدہ ۴۱:۳۴)۔

میں چاہتا ہوں کہ چرچ کے رہنما سوچیں: کیا ہم اتنی جرأت نہیں رکھتے کہ یہ اعلان کریں کہ ہمارے باہمی تعلقات کی راہ نما یہ بنیادی اخلاقی تعلیم ہو گی اور یہ ساتھ زندگی گزارنے کا اوّلین اصول ہوگا‘ نہ کہ ریسی پروسٹی کے لیے کوئی اپیل۔ افسوس تو یہ ہے کہ ریسی پروسٹی کا دکھانے کے لیے بھی کوئی نمونہ آج کی سیکولر ریاستوں کے علاوہ ان کے پاس نہیں ہے۔ کیا یہ بات اخلاقی لحاظ سے زیادہ برتر اور ثمرآور نہ ہوتی کہ وہ عیسائیوں کے ساتھ مسلمانوں کے برے سلوک کے اپنے احساس کے بارے میں اپنا استدلال‘ ریسی پروسٹی کے بجائے‘ مسلمانوں کے عقیدے اور کتاب کی بنیاد پر پیش کرتے۔ اس قسم کے دلائل کہ: ’’مسلمانوں کو اس بات کی اجازت ہونا چاہیے کہ وہ عیسائیت کو قبول کر سکیں کیونکہ ہم بھی عیسائیوں کو اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ وہ اسلام قبول کر لیں‘‘ ‘ عقیدے یا اخلاق کی بنیاد پر اپیل کے بجائے تجارتی لین دین کا رویہ محسوس ہوتا ہے۔ یہ دوسروں کو ان کی اقدار و روایات سے مخلص ہونے میں بھی کوئی مدد نہیں دیتا۔

دوم: ریسی پروسٹی میں کچھ سنگین خامیاں ہیں۔ زیربحث دستاویز میں ان مشکلات سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کی گئی ہے لیکن کوئی قابل اطمینان حل سامنے نہیں آتے۔ ریسی پروسٹی کا اظہار تو عملی رویوں سے ہی ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رواداری نہ پائے جانے کے بارے میں جو مثالیں دستاویز میں دی گئی ہیں وہ حقیقی اور ٹھوس رویے سے متعلق ہیں‘ تاہم آخر میں ذہن و قلب کی ریسی پروسٹی کی دعوت دی گئی ہے۔ لیکن اس سے کیا مراد ہے؟ یہ بالکل نہیں بتایا گیا۔ ہم اتنے وسیع المعانی اور مبہم وعظوں پر تکیہ نہیں کر سکتے‘ یہ خالی خولی لگتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خالی خولی نصیحتوں سے اچھے باہمی روابط کو فروغ نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی ان سے: ’’دنیا کو ناقابل بیان مصائب اور خوں ریزی سے بچایا جا سکتا ہے‘‘ (ص ۷۵)۔

اگر ہم مذہب کی تبدیلی‘ عبادت گاہوں کی تعمیر‘ سیاسی حقوق اور توہین کے قوانین جیسے معاملات میں رویے کی ریسی پروسٹی کے خواہاں ہیں توسب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ ہم کس فریق سے توقع کریں کہ وہ یہ رویہ اختیار کرے۔ مسلمان اور عیسائی دونوں غیر واضح وجود ہیں۔ مغربی ممالک عیسائی ریاستیں ہیں یا نہیں ہیں اور مسلمان ممالک اسلامی ہیں یا نہیں ہیں--- اتنا الجھا ہوا سوال ہے کہ دستاویزنے بھی اسے چھوڑنے کو ہی ترجیح دی ہے۔

درحقیقت ریسی پروسٹی سے متعلق اس قسم کے سوال اور دیگر معاملات ریاستوں اور حکومتوں کے دائرے میں آتے ہیں۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا مغرب کی سیکولر حکومتیں اپنے عیسائی ہونے کو کھلے عام تسلیم کر سکتی ہیں؟ اور کیا وہ عیسائیوں کی جانب سے یہ ذمہ داری لیں گی؟ اسی طرح‘ کیا مسلمان ریاستیں مسلمانوں کی جانب سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے پر تیار ہیں؟ شاید یہ ریاستیں اس کے لیے بخوشی تیار ہوجائیں لیکن ان مسائل پر وہ اپنے ہی عوام کے ساتھ مسلسل لڑائی جھگڑے میں مصروف ہیں۔

ریسی پروسٹی کی واضح حدود کار اور اس کے ذمہ دار افراد کی غیر موجودگی میں یہ مسئلہ لاینحل اور متنازع رہتا نظر آتا ہے۔ دستاویز نے معاملے کو اٹھایا تو ہے لیکن اس کے حل کے لیے کوئی اشارہ دیے بغیر ہی اسے چھوڑنا پڑا ہے۔

مثال کے طور پر کہا گیا ہے کہ: ’’یورپ اور شمالی امریکہ کے ممالک کو عموماً عیسائی ممالک تصور کیا جاتا ہے حالانکہ وہ عیسائی نہیں ہیں‘‘ (ص ۷۱)‘ جب کہ مسلمان ممالک مسلمان ہیں۔ مگر ہمیں سوچنا چاہیے کہ مغربی ممالک عیسائی ریاستیں کیوں نہیں ہیں؟ ان تمام ممالک میں سربراہ مملکت کے لیے عیسائی ہونا ضروری ہے۔بعض جگہ عملاً اور بعض جگہ قانوناً۔ اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سربراہ صرف مسلمان ہوسکتا ہے تو برطانیہ کے حکمران کے لیے بھی عیسائی ہونا ضروری ہے۔ اگر شاہ برطانیہ اسلام قبول کر لے تو کیا پھر بھی وہ برطانیہ کا بادشاہ رہ سکتا ہے؟ یقینا نہیں۔ تمام یورپی ممالک عیسائیت کو اپنے ’’قومی ورثے کا ایک نہایت اہم حصہ تصور کرتے ہیں‘‘ (ص ۷۱)۔ ان کا اپنے کلیسا کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے۔ سیاسی‘ قانونی‘ معاشی اور تعلیمی معاملات پر کلیسا سے باقاعدہ مشورہ کرتے ہیں اور کلیسا کی تنقید کے لیے بہت حساس ہوتے ہیں۔ اس بات کو یہ دستاویز بھی تسلیم کرتی ہے۔

اس صورت حال کے بارے میں مسلمان جو کچھ محسوس کرتے ہیں--- اور یہ اہمیت رکھتا ہے--- اس کا دستاویز میں کوئی تذکرہ نہیں۔ یعنی یہ کہ عالمی سطح پر یہ ریاستیں کھلا کھلا عیسائی موقف اختیار کرتی ہیں۔ عیسائی مشنریوں اور غیر سرکاری تنظیموں (N.G.O)کو کھلے طور پر امداد فراہم کرتی ہیں‘ اور ان کے خلاف کیے جانے والے اقدامات سے بچانے کے لیے اپنی پوری طاقت استعمال کرتی ہیں‘ اور مسلمان ممالک میں عیسائیوں کے مسائل پر عیسائیوں کے ساتھ کھڑی ہوتی ہیں۔ عام طور پر ان ممالک میں قانون سازی اور عدالتی امور میں عیسائیوں کے حق میں مداخلت کرتی ہیں۔

ایک مثال دیکھیں: اگر پاکستان میں ایک عیسائی پر ملکی قانون کے تحت توہین رسالتؐ کا مقدمہ چلایا گیا تو مغربی ممالک کے صدور‘ وزراے اعظم‘ وزراے خارجہ‘ سفارتی نمایندے اور ذرائع ابلاغ موقع پر کود پڑے اور ہر ممکن طریقے سے اس میں مداخلت کی‘ مقدمے کی سماعت پر اثراندازہوئے‘ اور قانون توہین رسالتؐ کو تبدیل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ ہو سکتا ہے کہ اعلیٰ مقاصد کی علم برداری ان کے پیش نظر ہو‘ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ صرف اس لیے اس معاملے میں چیمپئن بننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایک انسان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے اور اس کے حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے؟ اگر ایسا ہے تو ہم اس مداخلت کو خوش آمدید کہتے ہیں کیونکہ ہر انسان کے حقوق مقدس ہیں اور انھیں پامال نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہر ایک کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے۔

حیرانی اس وقت ہوتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ سارا شور وغوغا اور دبائو صرف سلامت مسیحوں‘ تسلیمہ نسرینوں اور اسی قماش کے لوگوں کے لیے ڈالا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں سیکڑوں اور ہزاروں عبداللہ اور محمد اور علی نامی لوگوں کے معاملے میں ایسا کبھی نہیں کیا گیا جن کو مسلسل اذیتیں دی جاتی ہیں اور انصاف سے محروم رکھا جاتا ہے۔ لاکھوں کروڑوں مسلمان اپنے ہی ممالک میں‘ اپنے بنیادی حقوق سے محروم چلے آرہے ہیں۔ یہ سب کچھ کرنے والی حکومتیں ان مغربی ممالک کی معاونت‘ امداد اور سہاروں سے قائم ہیں جن کے بارے میں دستاویز میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ عیسائی نہیں ہیں۔ان لوگوں کے حق میں تو کوئی سرگوشی بھی سنائی نہیں دیتی اور اگر ہوتی ہے تو وہ تائید وتحسین کی ہوتی ہے۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا کم طاقت ور نام نہاد مسلم ریاستیں اسی انداز میں طاقت ور ملکوں کی حکمرانی میں دخیل ہو سکتی ہیں؟ یقینا نہیں۔ اس پر ہمیں افسوس ہوتا ہے ۔ ہمیں شک گزرنے لگتا ہے کہ روشن خیالی اور سیکولرزم صرف نمایشی نعرے ہیں اور درونِ خانہ یہ ممالک پوری طرح عیسائی ہیں‘ خاص طور پر جب معاملہ اسلام کا ہو یا مسلمانوں کا۔ اس صورت حال پر دیانت داری سے غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔

مسلمان ممالک کی صورت حال کو بھی صحیح طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ صرف انقلابی عنصر کا نقطۂ نظر ہی نہیں ہے کہ یہ حکومتیں اسلامی نہیں ہیں بلکہ سب مسلمان سمجھتے ہیں کہ ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی نہیں گزار رہے جو ہم کو گزارنا چاہیے۔ اگر موقع دیا جائے تو تقریباً تمام لوگ نفاذ شریعت کے حق میں ووٹ دیں گے۔ عیسائیوں کے حوالے سے کچھ ناانصافیاں موجود ہیں جن کی کوئی مسلمان تائید نہیں کرتا لیکن یہ اِکا دکا ہیں‘ جب کہ اس سے زیادہ سنگین ناانصافیاں اور مظالم مسلمان حکومتوں کی طرف سے مسلمان عوام پر روا رکھے جا رہے ہیں۔

ریسی پروسٹی ایک متنازع فیہ بحث ہے‘ جو ایسی ہی رہے گی‘ کیونکہ اس بات پر اتفاق رائے کا ہونا کہ ’’اچھے سلوک ‘‘سے کیا مراد ہے اور ریسی پروسٹی کے کیا معنی ہیں‘ مشکل ہے۔

آیئے تبدیلی مذہب کے حق کو لیں۔ یہ بات درست ہے کہ اسلامی قانون جیسا کہ وہ اس وقت ہے ایک مسلمان کو ‘ جو اس قانون کو تسلیم کرے‘ کسی دوسرے مذہب مثلاً عیسائیت کو قبول کرنے سے منع کرتا ہے۔ یہ موقع نہیں ہے کہ اس قانون کے درست یا غلط ہونے پر بحث کی جائے یا اس قانونی مسئلے پر ازسرنو غور کیا جائے… یہاں مجھے صرف ریسی پروسٹی سے بحث ہے۔ یہ بات درست ہے کہ مغرب میں کسی عیسائی کے قبول اسلام میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے یا بہت کم رکاوٹ ہے۔ لیکن کیا ایسا روشن خیالی اور انسانی آزادی کے احترام کا نتیجہ ہے یا اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ریاست اور معاشرے کی نظر میں مذہب اتنا بے حیثیت ہوچکا ہے کہ ان کی نظر میں تبدیلی مذہب یا ارتداد بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں؟ لیکن مغربی عیسائی ممالک مسلمانوں کے درمیان کفر و ارتداد کو نہ صرف برداشت کرتے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں‘ لیکن یہ آزاد رو اور روشن خیال ریاستیں یا معاشرے کسی ایسے ’’مذہب‘‘ یا ’’مذہبی عمل‘‘ یا عبادت کے طریقے کو برداشت نہیں کرتے جو ان کے خیال میں ان کی اقدار اور قوانین سے جنھیں وہ اہم سمجھتے ہیں‘ انحراف یا تجاوز کرنے والے ہوں۔ مثال کے طور پر وہ یہودیت یا سامیت کے خلاف کچھ بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے لیکن اس کے مقابلے میں اظہار رائے کی آزادی کے نام پر اسلام یامسلمانوں اور عربوں کو برا بھلا کہنے کی اور اسلام دشمنی کی پوری اجازت دیتے ہیں اور اس بات کو ہرگز برا نہیں سمجھا جاتا (گویا کہ عرب سامی النسل نہیں ہیں)۔ وہ ہر قسم کے سیاسی رجحانات کے لیے آزادی کو برداشت کرتے ہیں‘ مگر جیسا کہ امریکہ میں ہوا‘ کمیونسٹ پارٹی کو خلاف قانون قرار دے دیتے ہیں۔ وہ اسلام قبول کرنے یا مسلمان ہو جانے کا حق تو دے سکتے ہیں لیکن مسلمان خواتین کو حجاب پہننے کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ہیں جیسا کہ فرانس میں ہوا۔ اور اسی طرح حلال ذبیحہ کرنے کا حق نہیں دیتے‘ جیسا کہ جرمنی میں ہے۔ نماز جمعہ کے لیے کام میں وقفے کا حق دینے کے لیے تیارنہیں‘ جیسا کہ برطانیہ میں ہوتا ہے۔

تو کیا میرے کلیسا کے دوست اس بات سے اتفاق کریں گے کہ اصل مسئلہ تبدیلی مذہب‘ عقیدے کی آزادی‘ اظہار رائے کی آزادی یا انسانی حقوق کا نہیں ہے۔ یہ حقوق کہیں بھی مطلق یا بے قید نہیںہیں۔ ہر جگہ کفر و ارتداد کو اختیار کرنے پر پابندیاں ہیں۔ اس طرح صرف حقوق ہی دائو پر  نہیں لگے ہیں‘ بلکہ کچھ دوسرے سوالات بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں‘ یعنی یہ کہ: ۱- تبدیلی کس (مذہب) سے کس طرف؟ ۲- کفر یا انکار کس (مذہب) کے خلاف؟ ۳- کس قسم کی بات پر پابندیاں؟

اس پس منظر میں دیکھا جائے تو مسلم ممالک کے رویے اور قوانین جو مغربی عیسائی ممالک سے مختلف نظر آتے ہیں‘ درحقیقت بہت زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ وہ ان ممالک میں اس لیے موجود ہیں کہ مسلمانوں کے لیے ان کا ایمان اب بھی اہمیت رکھتا ہے اور نہ صرف ان کے دلوں کی دنیا کے لیے‘ بلکہ ان کی سماجی اور سیاسی زندگی کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ شاید اسی لیے مغربی ممالک دوسرے تمام انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو نظرانداز کر دیتے ہیں اور ان کا سارا زور سیاسی اور معاشی اہمیت رکھنے والوں پر ہوتا ہے۔ یہ رویے اور قوانین اسی نسبت سے بدلیں گے جس نسبت سے لوگوں کی نظر میں اسلام کے عقیدے کی اہمیت اور مرکزیت کم ہو گی۔ آخر اب بھی‘ دو بڑے مسلمان ممالک--- انڈونیشیا اور بنگلہ دیش میں عیسائیت کو اختیار کرنے پر کوئی رکاوٹ نہیں ہے یا بہت کم ہے۔

میں نے تبدیلی مذہب کے سوال کو کچھ زیادہ تفصیل سے لیا ہے کیونکہ میں محسوس کرتا ہوں--- اور اگر میں غلط ہوں تو میری تصحیح کی جائے ---کہ دستاویز کے استدلال میں اسے مرکزی اہمیت حاصل ہے: ’’عیسائیوں کو سب سے بڑی شکایت اسلام سے عیسائیت کو قبول کرنے کے سوال پر ہے‘‘ (ص ۷۴)۔ مگر کیا مسلمانوں کے ذہن وقلب میں ریسی پروسٹی کے لیے جذبہ بیدار کرنے کے اس ابتدائی اقدام میں کیا ہمارے سامنے بڑا اور اہم کام مسلمانوں کو عیسائی بنانے کا حق ہے؟ اس بات کو ماننا مشکل ہے‘ مگر یہ موجود ہے۔ دوسری صورت میں‘ اس کی کیا توجیہ کی جائے!

ایک تنازع یہ بھی ہے کہ دراصل کون کیا کر رہا ہے؟ میرا خیال ہے کہ یہ بے فائدہ بحث ہے۔دستاویز میں یہ بات درست طور پر کہی گئی ہے کہ دونوں اطراف سے یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ ان کا رویہ درست ہے‘ جب کہ دوسرے کا نہیں ہے۔ اگر باہمی تعلقات کی بنیاد اسی پر ہے‘ نہ کہ ریسی پروسٹی سے ماورا عقیدے‘ اخلاق اور اقدار پر مبنی معیار پر تو یہ مسئلہ باقی رہے گا۔

مسلمانوں کے خلاف کس طرح امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے اور ان کے حقوق کو کس طرح پامال کیا جاتا ہے‘ اس پر آواز بلند کرنے کے بجائے‘ میں کچھ ایسے معاملات پر اپنی گزارشات پیش کروں گا جن کا تذکرہ دستاویز میں مسلمانوں کے رویے کے حوالے سے کیا گیا ہے۔

قانون توہین رسالتؐ:  پاکستان میں قانونِ توہینِ رسالتؐ کے بارے میں اندرون پاکستان اور بیرون ممالک کے عیسائی اور بڑی بڑی عیسائی قوتیں شدت سے یہ چاہتی ہیں کہ یہ قانون مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔ بڑے پیمانے کی عوامی مزاحمت کا اندیشہ نہ ہوتا تو پاکستان کی حکومتیں دبائو کے آگے جھک چکی ہوتیں۔ لیکن میں قانون کی مخالفت کی وجوہات کو اخلاص سے سمجھنا چاہتا ہوں۔

کیا عیسائی توہین رسالتؐ کا ارتکاب کرنا چاہتے ہیں؟ مجھے امید ہے کہ وہ ایسا نہیں چاہیں گے۔

کیا وہ سمجھتے ہیں کہ توہین رسالتؐ کوئی گناہ اور جرم نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ ایسا نہیں سمجھتے۔ کیونکہ کفر و ارتداد سے متعلق قوانین آج بھی ان کی کتب میں موجود ہیں گو کہ متروک ہیں۔ اس لیے ان کے ہاں مذہب پر عمل بھی متروک ہو گیا ہے۔

دنیا کے ہر قانون میں ایک معمولی آدمی کی اہانت کو بھی قابل سزا جرم سمجھا جاتا ہے۔ کیا ایک ایسے شخص کے معاملے میں یہ جرم نہیں ہے جس سے ایک ارب سے زائد مسلمان اپنی جان اور اپنے والدین سے بھی بڑھ کر محبت کرتے ہیں اور جن کی توہین کو یہ لوگ اپنی توہین سے بھی بڑا جرم تصور کرتے ہیں۔

اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین مقصود نہیں ہے اور اسے جرم تسلیم کیا جاتا ہے تو صرف قانون کے غلط استعمال کا استدلال رہ جاتا ہے۔ یقینا اس قانون کے غلط استعمال کی بعض مثالیں ہیں‘ میں ان کی مذمت کرتا ہوں لیکن کیا قانون کا غلط استعمال اس قانون کو ختم کر دینے کے لیے کافی بنیاد فراہم کرتا ہے؟ کیا قاتل کو سزاے موت دینے کا قانون اس لیے ختم کر دیا جائے کہ پاکستان میںاس کا غلط استعمال ہوتا ہے؟ اور مسلمان مسلمان سے اپنے باہمی تنازعات میں اسے ایک دوسرے کے خلاف اور باہمی بدلے لینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ قانون کے غلط استعمال کے امکانات کو ہر ممکن حد تک روکنے کے حوالے سے مکالمہ جاری رہنا چاہیے۔ امید ہے کہ میرے دوست اس بات کو محسوس کریں گے کہ عیسائیوں کا اس قانون کے خلاف شوروغوغا کتنا بے بنیاد ہے۔

نفاذ شریعت: ہر جگہ مسلمانوں کی یہ دلی خواہش ہے کہ وہ شریعت کے مطابق زندگی گزاریں۔ یہ خواہش ان کے ایمان اور اساسی دستاویزات (قرآن و سنت) کا بنیادی تقاضا ہے۔اس معاملے میں مسلمانوں سے تعاون کرنے اور ان کی اس خواہش کا احترام کرنے کے بجائے عیسائی اس پر معترض ہوتے ہیں اور نفاذ شریعت کی راہ میں نہ صرف رکاوٹ بنتے ہیں بلکہ ایسی کوششوں کو رکوانے کے لیے بین الاقوامی دبائو بھی ڈلواتے ہیں۔ ہم مسلمانوں کے لیے یہ رویہ ناقابل فہم اور ریسی پروسٹی کے بالکل برعکس ہے۔ اتنا شوروغوغا کیوں؟

کیا ایک عیسائی مملکت میں بہت سے قوانین‘ خاص طور پر پرسنل لا بائبل یا عیسائی شریعت (جیسی کچھ بھی وہ ہے) سے ماخوذ نہیں ہیں؟ یقینا‘ ایسا ہی ہے۔ کیا وہ صرف اس لیے جائز اور دستوری قوانین نہیں ہیں کہ عیسائی قانون ساز اداروں اور عدالتوں نے انھیں نافذ کیا ہے اور انھیں درست قرار دیا ہے۔ یقینا ایسا ہی ہے۔

کیا مسلمانوں کو ان قوانین کی پابندی کسی چون و چرا کے بغیر کرنا پڑتی ہے؟ یقینا ایسا ہی ہے۔

پھر یہی پیمانے مسلم ممالک کے لیے کیوں نہیں ہیں؟

کیا جمہوریت کا‘ جسے مغرب جمہوریت تسلیم کرتا ہے‘ یہ تقاضا نہیں ہے کہ عوام کو اپنے معاملات چلانے کے لیے قوانین بنانے کا حق حاصل ہے؟ یقینا انھیں کوئی ایسے قوانین نہیں بنانا چاہییں جو کسی اقلیت کے عقیدے اور مفادات کے خلاف ہوں‘ لیکن کیا کسی اقلیت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ۹۹ فی صد اکثریت کو ویٹو کر دے اور ان قوانین کے نفاذ سے ان کو روکے جنھیں وہ نافذ کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ اتنے دیانت دار ہیں کہ انسانی عقل کے بجاے الہامی رہنمائی کو اپنا مآخذ قرار دیتے ہیں۔

امید ہے کہ میرے عیسائی دوست مذکورہ بالا سوالات پر سنجیدگی سے غور کریں گے۔ اس لیے کہ ریسی پروسٹی کا حقیقی مفہوم آخرکار اس کے علاوہ کچھ نہ نکلے گا کہ اپنے اپنے عقیدے اور روایات کے مطابق زندگی گزارنے کے جذبے کا احترام کیا جائے‘ جیسا کہ مذکورہ بالا دستاویز میں تسلیم کیا گیا ہے۔

اسلام پر نظرثانی: دوسرا اہم نکتہ جس پر دستاویز میں زور دیا گیا ہے یہ ہے کہ: ’’مسلمان اپنے بنیادی مآخذ کا ازسرنو جائزہ لیں کہ ساتویں صدی کے مقابلے میںآج کی بالکل مختلف دنیا میں انھیں کس طرح سمجھا جائے--- بیسویں صدی کے اواخر کے حالات میں ان روایات کے تحت اللہ تعالیٰ کو ہم سے کس طرح کی زندگی گزارنا مطلوب ہوگا ‘‘(ص ۷۵)۔

مسلمانوں سے اسلام پر ازسرنوغور کرنے کی یہ فوری اپیل اس صورت میں قابل فہم ہو سکتی ہے کہ ہم اس نتیجے پر پہنچیں کہ اسلام پر اس طرح کے ازسرنو غور کے بغیر اس طرح کی ریسی پروسٹی روبہ عمل نہیں آسکتی جس کا تصور اس دستاویز میں پیش کیا گیا ہے۔

اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں‘ اور میں سمجھتا ہوں کہ کوئی صاحب فکر مسلمان ہر دور میں‘ اور آج کے دور میں بھی‘ اس نوعیت کے مسلسل غوروفکر کی ضرورت سے انکار نہیں کر سکتا ہے۔ کوئی مسلمان بھی اس ذمہ داری سے پہلوتہی کرنا یا بچنا نہیں چاہے گا۔ آج امت کو اپنے احیا کے لیے خود اس فکر نو کی ضرورت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی فکر نو مسلمانوں کے ایمان کا بنیادی تقاضا ہے۔ لیکن میں چاہوں گا کہ میرے عیسائی دوست اس اہم مسئلے کے بعض پہلوئوں پر غوروفکر کریں۔

اوّل: ہمیں یہ تشخیص کرنا چاہیے کہ ساتویں صدی کے عرب کے مقابلے میں آج کی بیسویں صدی میں دنیا کس انداز سے مختلف ہو گئی ہے۔ ٹکنالوجی اور فطرت کی تسخیر کی نوعیت اور پیمانے کے لحاظ سے؟ یقینا۔ تنظیموں اور باہمی تبادلوں کی ہیئت کے لحاظ سے؟ یقینا۔ زندگی کی آسایشیں اور لوگوں کو حاصل متبادلات کے پیمانے کے لحاظ سے؟ یقینا۔ طبعی دنیا کے بارے میں علم کی مقدار کے لحاظ سے؟ یقینا۔ لیکن کیا انسانی فطرت بدل گئی ہے؟ کیا اس کے اندر گناہ کرنے کا رجحان ختم ہو گیا ہے یا کم ہو گیا ہے؟ یقینا ایسا نہیں ہے۔ اگر کچھ ہوا ہے تو صرف یہ کہ فخر‘ خود کفالت‘ جارحیت‘ تلون مزاجی‘ حرص اور نفرت وغیرہ جیسے عناصر میں اضافہ ہوا ہے۔ کیا انسان کے اندر اللہ کے ساتھ ساتھ بہت سے دوسرے خدا بنانے‘ اور درحقیقت خود اپنے کو سب سے بڑا خدا قرار دینے کا رجحان ختم ہو چکا ہے؟ کیا چوری‘ زنا اور قتل و غارت جیسے جرائم کم ہو گئے ہیں؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ کسی تازہ جائزے میں ان تمام پہلوئوں کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔

دوم‘ اسلام کے معنی ہیں اپنے آپ کو پوری طرح اللہ کی سپردگی میں دے دینا۔ وہی اللہ جو ساتویں صدی کا خدا بھی تھا اور بیسویں صدی کا خدا بھی ہے ‘ اور آنے والے ہزاریے کا بھی ہوگا۔ وہی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خدا ہے۔ اس لیے مسلمان جب بھی اللہ کی مرضی کی تعبیر اور تفہیم اور اس کے رسولؐ کی سنت میں اس کے اظہار کا نیا جائزہ لیں گے ‘ وہ ان باتوں میں سے جنھیں وہ آج بھی اللہ کی مرضی کے مطابق سمجھتے ہیں‘ صرف اس لیے تبدیل نہیں کر دیں گے کہ وہ بات بیسویں صدی کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتی‘کیا ان کا فریضہ یہ نہ ہونا چاہیے کہ وہ حالات کو تبدیل کریں بجائے اس کے کہ وہ اللہ کی مرضی کو تبدیل کر دیں۔

سوم: مسلمانوں نے حال ہی میں ۳۰۰ سالہ نوآبادیاتی غلامی سے آزادی حاصل کی۔ اب ایک تو وہ زوال کا شکار ہیں۔ دوسرے‘ انھیں اپنے ایمان‘ اقتدار اور تہذیب سے دور بھی کیا گیا ہے اور آزادی کے فوراً بعد سے انھیں نئے ورلڈ آرڈر اور عالمی معیشت کے جال میں الجھا دیا گیا ہے۔ ہر بیرونی طاقت‘ جو اتفاق سے‘ بہ یک وقت مغربی بھی ہے اور عیسائی بھی‘ ان کا دم گھوٹ رہی ہے۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ آزاد نہیں ہیں‘ دبائو میں ہیں۔ ان حالات کی وجہ سے غوروفکرکے اس عظیم الشان کام کو سنبھالنے کے لیے نہ عزم ہے نہ ارادہ‘ نہ صلاحیت ہے نہ ادارے‘ اور سب سے اہم بات: نہ ہی آزادی!

چہارم: صرف وہی نئی فکر قائم رہے گی جسے مسلمان واقعی اسلامی تسلیم کریں‘ جنھیں ایسے ادارے اور شخصیات انجام دیں جو علم و تقویٰ کے حامل ہوں۔ اسلام اور جمہوریت میں عدم مطابقت کے بارے میں جو کچھ کہا جائے‘ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی قوانین کی تشکیل کا عمل جمہوری عمل رہا ہے‘ جسے مسلمانوں نے بالعموم قبول کیا‘ وہ باقی رہے‘ جنھیں نہیں کیا وہ نہ رہے‘ مٹ گئے۔ امید ہے کہ ہمارے دوست اس بات کو محسوس کریں گے کہ مسئلہ یہ ہے کہ آج تک اسلام اور مسلمانوں کو بیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے اور نام نہاد نظرثانی کے لیے جو کوششیں بھی ہوئی ہیں وہ ان مطلق العنان آمروں نے کی ہیں جو اپنے لباس‘ کھانے پینے کے طریقوں‘ رہنے سہنے کے انداز‘ غوروفکر کے پیمانوں اور حکمرانی کے طریقوں‘ ہر لحاظ سے مغربی اور عیسائی نظر آتے ہیں۔ اس لیے مسلمان چیخ اٹھتے ہیں کہ یہ سب غلط ہو رہا ہے (Muslim cry: foul)۔ عیسائیوں کو احساس شکست ہوتا ہے‘ اس لیے کہ ان کا اسلام میں کسی سینٹ پال کے ظہور کا وژن عملی شکل اختیار نہیں کرتا۔ پھر تو ناصر‘ ایوب‘ سوئیکارنو اور بھٹو جیسے لوگ بھی وہ کچھ دینے میں ناکام رہتے ہیں جو عیسائی سمجھتے ہیں کہ ریسی پروسٹی کا تقاضا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مسلمان ایک دفعہ آزاد ہو جائیں اور اہل افراد اس کام کو کریں ‘تومسلمان کفر و ارتداد‘ توہین رسالتؐ ‘حدود‘ اقلیتوں کے حقوق اور انسانی حقوق جیسے امور پر دوبارہ غور میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔ اس وقت بھی بحث جاری ہے لیکن مذکورہ شرائط پوری نہ ہوں تو یہ نتیجہ خیز نہیں ہو گی۔

ریسی پروسٹی کا بہت کچھ تعلق طاقت کے توازن سے بھی ہے۔ چرچ کے رہنمائوں نے نقطۂ آغاز کے طور پر سیکولر ممالک میں ریسی پروسٹی کی نشان دہی کی ہے۔ یہ غلط نقطۂ آغاز ہے۔ اس لیے کہ یہ ایک فریب اور دھوکا ہے۔ مملکتوں کے درمیان ریسی پروسٹی کی کیا بات کی جائے‘ جب غیر مساوی ریاستوں کی جانب سے شہریوں کے ساتھ مساویانہ سلوک نہ کیا جاتا ہو۔ مثلاً یوسف رمزی کو پلک جھپکتے میں کسی قانونی چارہ جوئی کے شائبے کے بغیر امریکہ کے حوالے کیا جاتا ہے لیکن کیا پاکستان بھی اسی طریقے سے اپنے مجرم امریکہ سے طلب کر سکتا ہے!

عدم توازن سے مذہبی صورت حال پر بھی اسی طرح کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مسلمان محسوس کرتے ہیں کہ طاقت ور عیسائیوں کے مقابلے میں وہ کمزور ہیں۔ مسلمانوں کی یہ تصویر پیش کی جا رہی ہے کہ وہ دوسروں پر اپنی رائے ٹھونسنے والے‘ ضدی‘ رواداری سے عاری‘ کتابوں کو جلانے والے‘ دہشت گرد اور نہ جانے کیا کیا ہیں۔ ان کے عقیدے کو پرتشدد‘ عیاشی اور قتل و غارت کو فروغ دینے والا کہہ کر بدنام کیا جاتا ہے۔ اگروہ توہین رسالتؐ پر احتجاج کریں تو ان کو وعظ کیا جاتا ہے کہ اگر وہ برطانوی شہری بننا چاہتے ہیں تو بائبل کا مطالعہ کرنا پڑے گا۔

آخر میں‘ میں ایک قابل افسوس پس نوشت:

بوسنیا میں جو نسل کشی کی گئی ہے کیا اس پر اس دستاویز میں apart from Bosnia (یعنی بوسنیا سے قطع نظر) کے الفاظ کے علاوہ کچھ اور نہیں لکھا جاناچاہیے تھا؟ جہاں اجتماعی قتل ہوئے‘ اجتماعی قبریں بنیں اور اجتماعی زیادتی کے لاتعداد واقعات ہوئے اور جہاں ان کی ثقافت کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی‘ کیا مہذب اور روشن خیال عیسائی یورپ کے وسط میں مسلمانوں پر ہونے والے اس ظالمانہ اور غیر انسانی سلوک پر مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہ تھی؟

بوسنیا میں مسلمانوں کے بڑے پیمانے پر قتل عام کے پس منظر میں‘ کیا مسلمانوں اور عیسائیوں کی مشترکہ امدادی ایجنسیوں کا کام یہ یقینی بنانے کے لیے کافی ہے کہ دنیا کو ناقابل بیان مصائب اور خون خرابے سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ محض ریسی پروسٹی سے کچھ نہیں ہوگا۔ مجھے خوشی ہو گی کہ اگر مجھے بتایا جائے کہ اگر ایسا ہو سکتا ہے تو کس طرح ہو سکتا ہے۔میں کلیسا کے رہنمائوں سے پھر عرض کروں گا کہ وہ اپنی دستاویز پر دوبارہ غور کریں گے تو شاید وہ مجھ سے اتفاق کریں کہ اس پیچیدہ معاملے میں نئے نقطۂ نظر کی ضرورت ہے۔

میری رائے میں دستاویز میں لکھے گئے الفاظ ’’باہمی احترام اور تعاون پر مبنی تعلقات‘‘ (ص ۷۰)‘ میں بعض جملوں کا اضافہ کر کے اس طرح سے تحریر کیا جانا چاہیے:

for each others faith and their right and endeavour to live by their

faith as they understand it.

تعلقات جو ایک دوسرے کے عقیدے کے باہمی احترام اور تعاون اور ان کے عقیدے کے مطابق‘ جیسا بھی وہ اس کو سمجھتے ہوں‘ زندگی گزارنے کے ان کے حق اور کوشش پر مبنی ہوں۔

کیونکہ بالآخر ان سب بحثوں کا مرکزی نکتہ‘ تمام تلخیوں اورتمام جھگڑوں کا بنیادی سبب ایک دوسرے کا اس طرح سے احترام اور تعاون کے لیے تیار نہ ہونا ہے کہ ہر ایک اپنی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی زندگی گزار سکے۔