دسمبر ۲۰۰۱

فہرست مضامین

تلاوت قرآن کے آداب

خرم مراد | دسمبر ۲۰۰۱ | فہم قرآن

Responsive image Responsive image

قرآن مجید بظاہر ایک عام سی کتاب ہے‘ انسانوں کی زبان میں لکھی ہوئی‘ کاغذ پر چھپی ہوئی‘ دو تختیوں کے درمیان مجلد۔ کسی اور کتاب سے بظاہر کوئی فرق بھی محسوس نہیںہوتا‘ لیکن یہ اپنی طرز کی منفرد کتاب ہے‘ اس کی کوئی مثال ہے‘ نہ نظیر!

قرآن مجیدکے ساتھ ہمارا تعلق کیا ہونا چاہیے؟ اس کو ہمیں کیسے پڑھنا چاہیے؟ اس کے لیے قرآن مجید نے ایک ہی لفظ استعمال کیا ہے اور وہ ہے تلاوت۔ ہم مطالعہ قرآن اور اس طرح کے بہت سے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ میں قرآن کے اتباع میں اسی اصطلاح کو استعمال کررہا ہوں‘ اگرچہ مطالعہ قرآن کے آداب و شرائط بھی عنوان بنا سکتا تھا۔

تلاوت کا مفہوم

تلاوت کے لفظ سے عام طور پر یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ آدمی سپارہ اٹھائے‘ قرآن اٹھائے اور پڑھے‘ یا نماز میں کھڑا ہو کر تلاوت کرے۔ لیکن تلاوت کا لفظ عربی زبان میں‘ جس مادے سے نکلا ہے‘ ت ل و سے ‘ اس کے معنی ہیں پیچھے آنا۔ پڑھنا تو ایک ثانوی عمل ہے۔ آپ غور کریںگے تو دیکھیںگے‘ پڑھنا تو ایسے ہے کہ ایک حرف کے بعد دوسرا حرف آئے‘ ایک لفظ کے بعد دوسرا لفظ آئے‘ ایک آواز کے بعد دوسری آواز آئے۔ اگر حروف کو اُلٹ پلٹ دیں‘ الفاظ کو اُلٹ پلٹ دیں‘ جملے اُلٹ پلٹ دیںتو کوئی بات سمجھ نہ آئے گی۔ ایک کے بعد دوسرے کا آنا بھی پڑھنے کا اور سمجھنے کا عمل ہے۔ لیکن اس کے معنی کے اندر بڑی وسعت ہے۔ اس کے معنی ہیں کہ دل و دماغ اس کے پیچھے لگ جائیں‘ زندگی بھی اس کے پیچھے لگ جائے اور قدم بھی اس کے پیچھے اٹھیں۔ وہی امام ہو‘ وہی نور ہو‘ وہی ہدایت ہو‘ وہی راہ نما ہو۔آدمی  پڑھے تو اُس کا دل بھی اُس کے اندر جذب ہو جائے‘ آنکھیں بھی اس کے اندر جذب ہو جائیں۔ زندگی کا کوئی گوشہ‘ کوئی پہلو تلاوت کے اثر سے خالی نہ رہے۔ تلاوت کے اس عمل سے‘ جب زبان الفاظ پڑھے گی تو آنکھیں بہنے لگیں گی‘ جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے‘ دل بھی کانپ اٹھے گا‘ عمل بھی بدل جائے گا اور سوچ میں بھی انقلاب آ جائے گا۔ یہ سب کچھ جب اس کے پیچھے لگ جائیں ‘ تو یہ تلاوت کا عمل ہوگا ۔ اس تلاوت کے نتیجے میں تبدیلی آتی ہے۔

انسان تو ایک بہت نامعلوم سی چیز ہے‘ ایک زمانہ تھا کہ وہ ناقابل ذکر شے تھا۔ ھَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّھْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًا o اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ ق نَّبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنٰہُ سَمِیْعًا بَصِیْرًا o (الدھر ۷۶: ۱-۲) ’’کیا انسان پر لامتناہی زمانے کا ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا؟ ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لیے ہم نے اُسے سننے اور دیکھنے والا بنایا‘‘۔ اگر انسان اپنے آپ کو قرآن کی آغوش میں ڈال دے‘ سپرد کردے تو وہ اس کو بالکل بلندیوں پر پہنچا سکتا ہے۔ اسی چیز کو حدیث میں کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز بندے سے کہے گا کہ قرآن پڑھتا جا‘ اور اُوپر چڑھتا جا‘ سہولت کے ساتھ‘ آسانی کے ساتھ۔ لہٰذا اگر اپنے آپ کو قرآن مجید کے سپرد کر دیا جائے تو عظمت و سربلندی کی کوئی انتہا نہیں ہے۔

تلاوت کی شرائط

تلاوت کے حقیقی مفہوم تک پہنچنے کے لیے کچھ شرائط اور کچھ آداب ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ان کو مختصراً  آپ کے سامنے بیان کروں۔ یوں سمجھیے کہ یہ زاد سفر ہے۔

۱- اس میں پہلی چیز یہ ایمان ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ اللہ کا کلام ہونے پر ایمان تو سب مسلمانوں کا ہے‘ لیکن اس ایمان کے کچھ مزید عملی تقاضے بھی ہیں جن کے بغیر ایمان ادھورا اور نامکمل ہے۔ اس ایمان کے بغیر یہ کتاب ہدایت اور رہنمائی کا کام نہیں کرتی۔ یہ ایمان سب کے لیے ضروری ہے‘ رسول کے لیے بھی ایمان رکھنا ضروری ہے۔ اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ط (البقرہ ۲:۲۸۵) ’’رسول اس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے اور جو لوگ اس رسول کے ماننے والے ہیں‘ انھوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کیا ہے‘‘۔

اس تفصیل میں جانے کی یہاں ضرورت نہیں ہے کہ بغیر ایمان کے ہدایت کیوں حاصل نہیں ہو سکتی۔ یہ فلسفہ اور منطق کے مسائل ہیں جو اس وقت میرا موضوع نہیں۔ ان سب کا جواب بھی دیا جا سکتا ہے۔ بہرحال پہلی چیز ایمان ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اسی ایمان کے بعد ہی وہ کیفیت پیدا ہوتی ہے جس سے آدمی اس کتاب کے لیے محنت کرنے کو تیار ہوتا ہے‘ اور جو تعلق‘ شوق اور اضطراب ہونا چاہیے‘ جو بے چینی ہونی چاہیے‘ وہ حاصل ہوتی ہے۔ جس کو آدمی اپنا خالق سمجھتا ہو‘ جس کی رحمت کا اُس کو یقین ہو‘ جس کی محبت کے اندر وہ غرق ہو‘ یہی احساس کہ اُسی کا نامہ اور خط میرے پاس آیا ہے‘ وہ ساری کیفیات پیدا کرتا ہے‘ جو کہ اس کتاب کے ساتھ تعلق کے نتیجے میں پیدا ہونی چاہییں۔

۲- دوسری چیز نیت کا اخلاص ہے۔ اس نیت کے علاوہ کہ اللہ سے ہی رہنمائی لینی ہے‘ اللہ سے قریب ہونا ہے‘ اللہ کی معرفت حاصل کرنا ہے‘ کوئی اور نیت قرآن کے بارے میں صحیح نہیں ہوسکتی۔کوئی اور نیت ہوگی تو وہ گمراہ بھی کر دے گی۔ یہ عجیب بات ہے کہ یہ کتابِ ہدایت گمراہ بھی کر دیتی ہے۔ فَیُضِلُّ اللّٰہُ مَنْ یَّشَآئُ وَیَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ ط (ابراھیم ۱۴:۴) ’’اللہ جسے چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے‘‘۔  یُضِلُّ بِہٖ کَثِیرًا لا وَّیَھْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًا ط (البقرہ ۲:۲۶) ’’اللہ ایک ہی بات سے بہتوں کو گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے اور بہتوں کو راہِ راست دکھا دیتا ہے‘‘۔ تلاوت کے لیے شرائط تو اور بھی ہیں لیکن نیت کا خالص ہونا بنیادی شرط ہے۔

۳- تیسری چیز حمد اور شکر ہے۔ اس لیے کہ جو عظیم الشان خزانہ اور نعمت اللہ تعالیٰ نے ہمارے ہاتھوں میں تھمائی ہے ‘ ہمارے سپرد کی ہے‘اس پر ہمارا دل حمد اور شکر کے جذبات سے لبریز ہونا چاہیے۔

وَقَالُوْا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ھَدٰنَا لِھٰذَا قف وَمَا کُنَّا لِنَھْتَدِیَ لَوْلَآ اَنْ ھَدٰنَا اللّٰہُ ج (الاعراف ۷:۴۳)

اور وہ کہیں گے کہ ’’تعریف خدا ہی کے لیے ہے جس نے ہمیں یہ راستہ دکھایا‘ ہم خود راہ نہ پا سکتے تھے اگر خدا ہماری رہنمائی نہ کرتا‘‘۔

حمد اور شکر سے ہی سارے دروازے کھلتے ہیں۔ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَ زِیْدَ نَّکُمْ (ابراہیم ۱۴:۷) ’’اگر شکرگزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا‘‘۔ اور جس کو قدر ہی نہ ہو کہ کیا مل رہا ہے ‘ اس کے لیے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ دروازے اُسی کے لیے کھلیںگے‘ اُسی کو ملے گا جس کو قدر ہوگی‘جو شکر کرے گا۔ شکرکا حق ادا نہیں ہو سکتا بلکہ کسی بھی چیز کے شکر کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔ لیکن جو نعمت سب سے بڑی نعمت ہو‘ جو اس عارضی اور فانی دنیا کو لافانی زندگی میںتبدیل کر سکتی ہو‘ اس کا شکر بجا لائیں تو کیسے بجا لائیں! اس فانی زندگی کی کسی ایک نعمت کا بھی شکر ادا کرنا محال ہے۔ کوئی آدمی اگر چاہے کہ ہاتھ پائوں کا حق ادا کر دے‘ حق ادا نہیں کر سکتا‘ اور جو کتاب اس ہاتھ پائوں کو ہمیشہ کے لیے قائم کر دے گی‘ اس کتاب کا شکر کیسے ادا کیا جا سکتا ہے ۔لیکن پھر بھی شکر ادا کرنا ضروری ہے۔

۴- چوتھی چیز یہ اعتماد ہے کہ جو چیز بھی اس کتاب میں ہے‘ صحیح ہے‘ وہی میرے لیے نافع ہے‘ اسی میں میری بھلائی ہے‘ اسی میں خیر ہے ۔ ریب (شک) اور تذبذب‘ یہ دو مرض کینسر کی طرح کتاب کے ساتھ تعلق کو تباہ کرتے ہیں۔ اگر کوئی آدمی شک یا تذبذب میں مبتلا ہو‘ تو وہ اس کتاب سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ قرآن نے بار بار ایسے لوگوں کی نفی کی ہے‘ اور اسی لیے آغاز اس طرح کیا ہے کہ لاریب فیہ‘ اس بات میں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے‘ کوئی شک نہیں ہے۔ جس کو اس کے کلام الٰہی ہونے میں یا اس کی کسی بھی بات میں ذرا بھی شک ہو ‘ اس کے لیے یہ کتاب ہدایت نہیں ہے۔ جس میں تردد پیدا ہو گیا‘ وہ بھی اس کتاب سے ہدایت نہیں پا سکتا۔

۵- پانچویں چیز اطاعت ہے‘ یعنی انسان قرآن کے مطابق اپنے اندر تبدیلی اور تغیر لائے۔ لیکن آدمی جب اطاعت کرے گا تو اس سے گناہ بھی ہوںگے‘ نافرمانیاں بھی ہوںگی‘ آدمی پھسل بھی جائے گا‘ لیکن پہلے سے خود سپردگی کی کیفیت کہ جو یہ کتاب کہے گی‘ وہ میں کرنے کی کوشش کروں گا‘ آداب تلاوت میںسے ہے۔یہ کتاب نکتہ آفرینی یا ذہنی عیاشی کے لیے نہیں ہے۔ یہ کتاب تو شروع سے لے کر آخر تک عمل‘ کوشش اور محنت اور جدوجہد کے لیے آئی ہے۔ یہ کتاب تو آئی ہی اسی لیے ہے کہ انسان اس کے پیچھے چلیں‘ اس کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیں۔ یٰیَحْیٰی خُذِ الْکِتٰبِ بِقُوَّۃٍ ط (مریم ۱۹:۱۲) ’’اے یحییٰ‘ کتاب الٰہی کو مضبوط تھام لے‘‘۔ پھر اسی کا چرچا کریں‘ اسی کے پیچھے چلیں اور قرآن کے مطابق اپنے اندرتبدیلی اور تغیر لائیں۔ یہ اطاعت کا بنیادی تقاضا ہے۔

۶- چھٹی چیز یہ ہے کہ اس کتاب سے فائدہ اٹھانے میں جوخطرات لاحق ہوں ان سے بچنے کے لیے شیطان سے اللہ کی پناہ مانگو۔ شیطا ن تو گھات لگا کر بیٹھے گا۔ اس نے کہا ہے کہ دائیں سے آئوںگا‘ بائیں سے آئوں گا‘ آگے سے آئوں گا‘ پیچھے سے آئوں گا‘ اور اس طریقے سے‘ جسے یہ کتاب لے کر آئی ہے‘ جو لوگ اس پر چلنا چاہیںگے اُن کو ہٹانے کی کوشش کروںگا۔ ایسے میں پھر کون پناہ دے سکتا ہے‘ کون سہارا دے سکتا ہے‘ کس کے پاس فصیل اور قلعہ ہے جس میں ہمیں پناہ مل سکتی ہے سوائے اس کے کہ جس نے اس کتاب کو اتارا ہے۔ اس لیے قرآن کہتا ہے کہ جب کتاب پڑھو تو پہلے اللہ کی پناہ مانگ لو۔

فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ o (النحل ۱۶:۹۸)

پھر جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان رجیم سے خدا کی پناہ مانگ لیا کرو۔

قرآن پڑھنے کے لیے یہ حکم اسی بات کے پیش نظر آیا ہے۔ یہ زندگی کے لیے بڑی نازک اور اہم جستجو اور سفر ہے اور اس سفر میں بڑے خطرات ہیں۔ ان خطرات کا احساس‘ اُن کا ادراک اور شعور ضروری ہے اور اُن سے بچنے کے لیے تعوذ پڑھنا ناگزیر ہے۔

یہ چھ چیزیں بنیادی لوازمات کی حیثیت رکھتی ہیں‘ اور اس کتاب کے لیے زاد سفر ہیں اور ناگزیر ہیں۔ یہ ظاہری آداب تھے۔ اس کے بعد کچھ باطنی آداب ہیں۔

باطنی آداب

ہماری شخصیت کے دو حصے ہیں۔ ایک ظاہری ہے اور دوسرا باطنی۔ ایک جسم اور ہاتھ پائوں ہیں‘ اور دوسری اندرونی شخصیت ہے۔ یہ ہمارا دل اور قلب ہے۔ اس کو قرآن مجید نے قلب سے تعبیر کیا ہے۔ اس قلب کو تلاوت کے عمل میں شریک کیا جائے۔ یہ نہیں کہ آدمی زبان سے پڑھتا جائے اور دل کہیں اور گھوم رہا ہو۔ وہ کیا چیزیں ہیں جن سے دل بھی اس تلاوت کے عمل میں شریک ہو سکتا ہے؟ اب میں ان کا تذکرہ کروں گا۔

۱- خود اللہ تعالیٰ نے کلام پاک میں ذکر فرمایا ہے کہ اس کتاب کے پڑھنے والوں پر اس کے اثرات اور تجلیات مرتب ہوتی ہیں۔ اُن کو آپ ایک لحظے اور ایک لمحے کے لیے تازہ کر لیں۔ یہ تلاش کرنا آپ کے لیے مشکل نہیں ہے۔ اس حوالے سے قرآن کی بہت سی آیات ہیں۔

سورہ الانفال میں ہے کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو دل کانپ اٹھتے ہیں‘ اور جب کلام پڑھا جاتا ہے تو ایمان بڑھتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ سورہ المائدہ میں ہے کہ جب وہ کلام سنتے ہیں تو اُن کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ سورہ الزمر میں ہے کہ جب کتاب پڑھی جاتی ہے تو جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں‘ کھالیں نرم پڑ جاتی ہیں۔ سورہ بنی اسرائیل میں ہے کہ لوگ جب اس کو پڑھتے ہیں تو روتے ہوئے سجدوں میں گر جاتے ہیں‘ اور اُن کے خشوع میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ سورہ مریم میں بھی اس طرح کی آیات ہیں۔ جگہ جگہ اس طرح کے موضوعات ہیں۔ اگر تلاوت سے پہلے ان کو سامنے رکھا جائے اور ایک لمحے کے لیے آدمی یہ ذہن میں تازہ کر لے کہ قرآن کو پڑھنے والے ایسے تھے اور ان کی یہ کیفیت ہوتی تھی تو بہت مفید ہے۔ اگر ایسا نہ ہو سکے پھر بھی ان کیفیات کو اپنے اُوپر طاری کرنے کی کچھ کوشش کرنی چاہیے۔ یہ سوچنا چاہیے کہ اگر میں اس راستے پر آگے بڑھوں تو مجھے بھی ایسا کرنا چاہیے۔

۲- یہ سوچا جائے کہ اللہ میرے سامنے ہے‘ اُس کے سامنے بیٹھ کر میں قرآن پڑھ رہا ہوں اور یہ اُس کی کتاب ہے۔ قرآن مجید میں بار بار یہ حکم بھی آیا ہے کہ اُس کے سامنے کھڑے ہو کر بار بار تلاوت کرو۔ جس طرح بچہ اُستاد کے سامنے جو نگرانی کر رہا ہو‘ کھڑے ہو کر پڑھتا ہے تو اور ہی کیفیت ہوتی ہے‘ اور تنہائی میں پڑھتا ہے تو اور کیفیت ہوتی ہے۔ عبادت میں احسان کی منزل بھی یوں ہی حاصل ہوتی ہے کہ آدمی اس طرح بندگی کرے کہ گویا اللہ اس کے سامنے ہے اور وہ اسے دیکھ رہا ہے۔ لیکن یہ تو اللہ کی کتاب کا معاملہ ہے۔ یہ سب سے بڑی عبادت ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت نماز میں کی جائے۔ اس طرح کے بے شمار احکام قرآن میں دیے گئے ہیں‘ اور اللہ کا ذکر تو قرآن میں سب سے بڑھ کر ہے۔

یہ احساس کہ میں اللہ کے سامنے ہوں‘ مستحضر ہونا چاہیے۔ قرآن کی آیات گواہ ہیں کہ تم کہیں بھی ہو ہم تمھارے ساتھ ہیں۔ فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا  (الطور ۵۲:۴۸) ’’تم ہماری نگاہ میں ہو‘‘۔ میں ہر بات سن رہا ہوں۔ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ o (قٓ ۵۰:۱۶) ’’ہم اس کی رگ گردن سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں‘‘۔ اگر دو ہوتے ہیں تو میں تیسرا ہوتا ہوں۔ تین ہوتے ہیں تو میں چوتھا ہوتا ہوں‘ کم ہوں یا زیادہ میں ساتھ ہوتا ہوں۔ تنہائی میں بیٹھے ہوں یا مجلس میں ‘ یا درس ہو رہا ہو‘ میں موجود ہوتا ہوں۔ یہاںتک کہ کوئی بھی کام کرتے ہو‘ قرآن پڑھتے ہو‘ ہم وہاں موجود ہوتے ہیں۔ یہ چیز ذہن میں اسی طرح تازہ رہنی چاہیے۔

۳- ہم یہ سوچیں کہ ہم اس کلام کو اللہ سے سن رہے ہیں‘ چاہے یہ بہت اونچا درجہ اور مقام ہو۔

امام غزالی احیاء العلوم میں لکھتے ہیں کہ ایک بزرگ نے کہا کہ پہلے میں اس کتاب کو ایسے ہی پڑھتا تھا۔ پھر میں نے سوچا کہ میں اس کو محمد رسولؐ اللہ سے سن رہا ہوں‘ تو میرے مزے اور کیفیت میں اضافہ ہوگیا۔ پھر میں نے سوچا کہ میں تو اس کو جبریل ؑ امین سے سن رہا ہوں‘ تو پھر یہ کیفیت اور دوبالا ہوگئی۔ اس کے بعد میں نے فرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے خود موجود ہوں‘ وہ میرے ساتھ ہی ہیں‘ وہی مجھے سنا رہے ہیں ‘ وہی اس کتاب کو نازل کر رہے ہیں‘ اس کے بعد میرا مزا اور لطف‘ میری کیفیت کا کوئی اندازہ نہ رہا۔ اس کیفیت کی جتنی بھی کوشش کریں کہ حاصل ہو جائے‘ کم ہے۔

۴- یہ احساس ہو کہ جو بھی کہا جا رہا ہے‘ اس کا ہر لفظ میرے لیے ہے۔ اگر اہل ایمان سے خطاب ہو رہا ہے تو بھی‘ اور اگر منافقین سے ہو رہا ہے یا کافروں سے ہو رہا ہے تو بھی ہمارے لیے ہے کہ ہم ایسے نہ بنیں۔ گویا ہر لفظ میرے لیے ہے۔ اگر ایک ایک حصے کو کاٹ کر الگ کرنا شروع کر دیا کہ یہ مہاجرین کے لیے ہے میں تو مہاجر نہیں ہوں‘ یہ انصار کے لیے ہے میں تو انصار نہیں ہوں‘ یہ یہودیوں کے لیے ہے میں تو یہودی نہیں ہوں‘ توساری کتاب کا ستیاناس ہو جائے گا۔ یہ سمجھنا چاہیے کتاب کا ہر لفظ میرے لیے ہے۔

۵- کتاب جب آدمی پڑھتاہے تو اللہ تعالیٰ سے گفتگو اور مکالمہ کرتا ہے۔ ایک حدیث میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: سورۃ الفاتحہ میرے اور بندے کے درمیان برابر تقسیم ہے۔ جب بندہ کہتا ہے کہ الحمدللّٰہ تو میں کہتا ہوں کہ بندے نے میری حمد بیان کی ہے۔ جب بندہ  الرحمن الرحیم کہتا ہے تو میں کہتا ہوں کہ بندے نے میری ثنا کی ہے۔ جب بندہ کہتا ہے کہ مالک یوم الدین تو میں کہتا ہوں کہ میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی ہے۔ اس کے بعد جب وہ کہتا ہے کہ ایاک نعبد وایاک نستعین ‘ اب میرے اور بندے کے درمیان معاہدہ ہوگیا‘ جو کچھ بھی مانگے گا میں اُس کو دوں گا۔ اُس کے بعد بندہ کہتا ہے کہ اھدنا الصراط المستقیم ‘ اے اللہ تو ہمیں سیدھا راستہ دکھادے۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بندہ قرآن مجید پڑھتا ہے‘ تو وہ اللہ تعالیٰ سے کلام کرتا ہے‘ مکالمہ کرتا ہے‘ اور یہ گفتگو آدمی اور اللہ کے درمیان چلتی رہتی ہے۔

ظاہری آداب

یہ تو وہ چیزیں ہو گئیں جو اندرونی طور پر دل کو شریک کرنے کے لیے بہت مفید ہو سکتی ہیں۔ تھوڑا تھوڑا جس قدر بھی بس میں ہو‘ ہم عمل کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے بعد کچھ ظاہری افعال بھی ہیں۔

جب کلام پڑھا جاتا ہے اور ہم سنتے ہیں کہ کوئی بات ہم سے کہی جا رہی ہے‘ کوئی ہم سے مکالمہ کررہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ اے میرے بندے‘ اے میری بندی اس کو سنو۔ جب ہم سے کہا جا رہا ہے تو پھر اس بات کا جواب بھی دیا جانا چاہیے۔ کوئی گونگا یا بہرا ہوگا تو جواب نہ دے گا‘ یا اندھا ہوگا جسے دکھائی نہ دے گا۔ قرآن نے خود کہا ہے کہ یہ لوگ اندھوں اور بہروں کی طرح قرآن سے گزر جاتے ہیں‘ ان پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ لیکن گوشت پوست کے انسان سے اُس کا محبوب‘ اُس کا رب‘ اُس کا مالک کلام کر رہا ہو اور اُس کا کوئی جواب اُس کی طرف سے نہ ہو۔ یہ بڑی عجیب بات ہے۔

دل کا جواب یہ ہے کہ اس پر وہی کیفیت طاری ہوجائے‘ جو کیفیت اس کلام کے اندر موجود ہے۔ زبان کا جواب یہ ہے کہ آیات سننے کے بعد ان کا جواب دیا جائے۔ بہت ساری آیات پر تو نبی کریم ؐ نے خود تعلیم دی ہے کہ جب وہ آیات پڑھی جائیں تو ان کا جواب دیا جائے۔ اگر آیت پڑھی جائے: اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنَ o(التین ۹۵: ۸) ’’کیا اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں؟‘‘ آدمی کہے:  بلٰی‘کیوں نہیں۔ فَبِاَیِّ اٰلاَ ٓئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ o (الرحمٰن ۵۵:۱۵)‘سنے تو بھی جواب دینے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس طرح کی اور بہت ساری آیات ہیں۔

یہ پہلو تو آیات کا جواب دینے کا ہے۔ لیکن جن صحابہؓ نے رات کی نماز میں نبی کریمؐ کے ساتھ شرکت کی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ آپؐ کی تلاوت قرآن کا انداز یہ تھا کہ اگر کہیں اللہ تعالیٰ کی صفات کا ذکر آتا تو آپؐ سبحان اللہ کہتے‘ کہیں اللہ تعالیٰ کے انعامات کا ذکر آتا تو الحمدللہ فرماتے‘ کہیں اُس کی نعمتوں کا ذکر آتا تو آپؐ رک کر اس کا سوال فرماتے‘ اور اُس کو مانگتے‘ اور کہیں اس کے عذاب کا ذکر آتا تو آپؐ اس پر پناہ مانگتے۔ آپؐ ہر چیز کا فوراً جواب زبان سے دیا کرتے۔

تلاوت آیات پر آنکھیں بھی جواب دیتی ہیں۔ اس کلام کی عظمت کا احساس ہو تو دل نرم پڑنے چاہییں‘ اور دل نرم پڑیں تو آنکھوں میں نمی آنی چاہیے۔ اس لیے حدیث ہے کہ قرآن پڑھو تو روئو‘ رو نہ سکو تو رونے کی کوشش کرو اور اگر ہو سکے تو اس کیفیت کو طاری کرو۔

قرآن کا ادب اور تعظیم ضروری ہے‘ اس میں قبلہ رو بیٹھنا‘ وضو کرنا‘ سر جھکا کر پڑھنا‘ یہ سب باتیں شامل ہیں۔ لیکن اس ادب کو اس حد تک نہ بڑھایا جائے کہ تلاوت کو ہی ترک کر دے‘ مثلاً یہ کہ وضو نہیںہے اور بغیر وضو کے تلاوت نہیں ہو سکتی۔

تلاوت کے بہت سارے مدارج ہیں۔ ایک درجہ ترتیل ہے جس کا قرآن نے خود حکم دیا ہے۔ وَرَتِّلِ الْقُرَآنَ تَرْتِیْلاً (المزمل ۷۳:۴) ’’اور قرآن کو خوب ٹھیر ٹھیر کر پڑھو‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ خوب ٹھیر ٹھیر کر پڑھے‘ سمجھ کر پڑھے‘ جذب کرکے پڑھے‘ اچھی طرح پڑھے‘ لحن کے ساتھ پڑھے اور ذوق اور شوق کے ساتھ پڑھے۔ ترتیل کا اردو یا انگریزی میں ترجمہ نہیں ہوسکتا۔ ترتیل میں یہ سب مفہوم شامل ہیں۔

پاکیزگی بھی ضروری ہے۔ اس کے لیے ہمارے ہاں دینی لفظ طہارت ہے۔ طہارت کے ایک معنی ظاہری طہارت کے ہیں جو فقہ کے احکام سے حاصل ہوتی ہے۔ اس کے دوسرے معنی باطنی طہارت کے ہیں۔ باطنی طہارت یہ ہے کہ دل ان چیزوں سے پاک ہو جو اللہ کو ناپسند ہیں۔ اخلاق ان چیزوں سے پاک ہوں جنھیں اللہ نے ناپسند فرمایا ہے۔ زبان اُن چیزوں سے پاک ہو جو اللہ کو ناپسند ہیں۔ مال ان چیزوں سے پاک ہو جن سے اللہ نے منع فرمایا اور حرام ٹھیرایا ہے۔ غذا اُس لقمے سے پاک ہو جو اللہ کے نزدیک ناپاک ہے۔ یہ بھی پاکیزگی کے معنی ہیں اور جب تک یہ نہ ہو قرآن اپنے دروازے نہیں کھولتا۔

اللہ سے تعلق بھی بہت ضروری ہے۔ سب کچھ اُس کے ہاتھ میں ہے‘ اور احادیث کے اندر

بے شمار دعائوںکی تعلیم دی گئی ہے۔ ان سب دعائوں کو آپ کتابوں سے حاصل کر سکتے ہیں۔ اُن کو یاد کر سکتے ہیں اور اُن کو پڑھنے کا اہتمام کر سکتے ہیں۔

قرآن کو سمجھنا بھی اہم ہے۔ یہ آپ نہ سمجھیں کہ سمجھے بغیر قرآن کا فائدہ حاصل نہ ہوگا۔ ہوگا توسہی لیکن پورا فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ لیکن صرف سمجھنا اور علم ہی کافی نہیں ہے اس لیے کہ بے شمار لوگ ہیں جو بغیر سمجھے بھی قرآن سے بہت کچھ حاصل کر لیتے ہیں‘ اور بہت سارے لوگ بہت کچھ سمجھنے اور علم حاصل کرنے کے باوجود اس سے کچھ حاصل نہیں کر پاتے۔

آپ نے شاید اپنے گھروں میں یا محلوں کے اندر دیکھا ہو کہ ایسے لوگ جو قرآن کا ایک بھی حرف اور معنی نہیں جانتے‘وہ کتاب کھول کر بیٹھ جاتے ہیں اور زار و قطار روتے ہیں اور پڑھتے ہیں اور پڑھتے چلے جاتے ہیں۔ اور وہ جو اس کی لغت اور معانی اور تفسیر کے امام ہوتے ہیں‘ وہ عرب جو اس کی زبان سے پوری طرح واقف ہوتے ہیں‘ وہ ملحد اور بے دین بھی ہوتے ہیں‘ اس لیے صرف زبان کا جاننااور سمجھ لینا کافی نہیں ہے۔ ظاہر ہے اس کے لیے ایمان اور بہت ساری چیزیں ضروری ہیں۔

میں نے تو اندھوں کو بھی دیکھا ہے کہ بے چارہ پڑھنا نہیں جانتا لیکن لائنوں پر انگلی پھیرتا جاتا ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں۔ یہ اللہ کا کلام ہے‘ دوسرے کلاموں کی طرح کا کلام نہیں ہے‘ اور نہ دوسری کتابوں کی طرح کی ہی کتاب ہے۔ البتہ سمجھنا بھی ضروری ہے۔ ہر مسلمان پر فرض ہے کہ خود قرآن کو سمجھے اور معنی معلوم کرے‘ اور پھر اس سے آگے بڑھے۔

تلاوت کی مقدار

تلاوت پر گفتگو میں یہ پہلو بھی آتا ہے کہ کتنی کثرت کے ساتھ پڑھے۔

یہ بات تو معلوم ہے کہ قرآن سارے انسانوں کے لیے آیا ہے‘ کمزوروں کے لیے بھی‘ قوی اور ضعیف کے لیے بھی‘ بوڑھوں کے لیے بھی ‘مردوں اور عورتوں کے لیے بھی۔ سب کے حالات مختلف ہوتے ہیں۔ اگر قرآن کہہ دیتا کہ نہیں اتنا پڑھنا ضروری ہے‘ تو پھر بڑی مشکل ہو جاتی‘ لہٰذا جتنا قرآن پڑھنا ضروری اور فرض ہے اس کے لیے اُس نے نمازیں فرض کر دیں۔ پانچ نمازوں میں قرأت ہو جاتی ہے اور قرآن پڑھ لیا جاتا ہے۔ باقی اُس نے کہہ دیا ہے کہ فَاقْرَئُ وْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ ط (المزمل ۷۳: ۲۰) ’’اب جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو ‘ پڑھ لیا کرو‘‘۔

آپ جانتے ہیں کہ پہلے رات کی نماز فرض تھی۔ آدھی رات کو‘ اُس سے کچھ زیادہ‘ اُس سے کچھ کم لوگ کھڑے رہا کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہاں‘ ہم کو معلوم ہے کہ تم میں مریض بھی ہوں گے‘ لوگ تلاش معاش میں بھی سرگرم عمل ہوں گے‘ اور بعض راہ حق میں جہاد کے لیے بھی مصروف ہوں گے‘ اس لیے ان سب کی وجہ سے کہہ دیا کہ اس میں سے جو بھی آسانی کے ساتھ پڑھ سکو پڑھو۔ نماز قائم کرو‘ زکوٰۃ دو‘ اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔

کتنا پڑھا جائے اس کا کوئی ایک معیار نہیں۔ اس لیے کہ مختلف لوگوں کے مختلف طریقے رہے ہیں۔بعض لوگ ایک ماہ میں ایک قرآن ختم کرتے تھے‘ اسی کے حساب سے پارے بنائے گئے۔ بعض لوگ ایک ہفتے میں قرآن ختم کرتے تھے‘ اسی کے حساب سے قرآن کی سات منازل ہیں۔ بعض لوگ صرف نمازوں میں پڑھتے تھے‘ اس لحاظ سے اس کے رکوع بن گئے۔ اس کی کوئی مقدار طے نہیں ہو سکتی کہ کتنا پڑھیں۔

کس وقت پڑھیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس وقت بھی ہو سکے پڑھیں‘ آنائَ لیل وآنائَ النھار‘ ’’رات کی گھڑیوں میں بھی‘ دن کی گھڑیوں میں بھی‘‘۔ جو وقت بھی میسر آجائے۔ کچھ لوگ اپنی جیب میں بھی قرآن کے مصحف رکھتے ہیں کہ جہاں موقع مل جائے پڑھ لیتے ہیں۔ اگر یاد ہو تو راستہ چلتے ہوئے بھی قرآن پڑھا جا سکتا ہے‘ سواری میں سوار ہو کربھی پڑھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح سوتے ہوئے یا سونے کے بعد اُٹھ کر بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ بہت سارے مواقع ہوتے ہیں‘ لیکن یہ بات قرآن نے خود کہی کہ اس کے لیے پڑھنے کا سب سے بہترین وقت سحر کا وقت ہے۔ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْھُوْدًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۷۸) ’’کیونکہ قرآن فجر مشہود ہوتا ہے‘‘۔ رات کو پڑھنے کی بھی تاکید کی گئی ہے۔ اِنَّ  نَاشِئَۃَ الَّیْلِ ھِیَ اَشَدُّ وَطْاً وَّاَ قْوَمُ قِیْلاً o (المزمل ۷۳: ۶) ’’درحقیقت رات کا اٹھنا نفس پر قابو پانے کے لیے بہت کارگر اور قرآن ٹھیک پڑھنے کے لیے زیادہ موزوں ہے‘‘۔ اور ویسے بھی فرمایا گیا ہے کہ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْھُوْدًا ‘ قرآن فجر میں پڑھا جاتا ہے تو فرشتے اس میں حاضر ہوتے ہیں اور نبی کریمؐ سے روایت ہے کہ آپؐ فجر کی نماز میں طویل رکعتیں پڑھا کرتے تھے‘ کم سے کم ۵۰ آیات۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن خواہ کثرت کے ساتھ پڑھا جائے‘ یا کم پڑھا جائے لیکن کوئی دن ایسا نہ ہونا چاہیے جو تلاوت کے بغیر گزرے۔ قرآن سے مستقل تعلق قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ نماز کے باہر‘ بہت تھوڑا پڑھے لیکن باقاعدگی کے ساتھ پڑھے۔ تھوڑا عمل جو باقاعدگی کے ساتھ ہو‘ وہ اللہ کو زیادہ مرغوب اور پسند ہے۔

اللہ مجھے ‘ آپ کو‘ ہم سب کو صحیح معنوں میںقرآن کی تلاوت کرنے‘ اس پر عمل کرنے اور اس کی طرف دعوت دینے والا بنا دے۔ آمین! (کیسٹ سے تدوین :  امجدعباسی)