اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام بندوں کو اور خصوصیت سے اہل ایمان کو جن نعمتوں سے نوازا ہے ان کا شمار ممکن نہیں۔ ان نعمتوں میں سے ایک خاص نعمت رمضان المبارک ہے جس میں ایک مہینہ مسلسل روزے کے ذریعے بندہ اپنے رب سے اپنے تعلق کو مضبوط تر کرتاہے۔ بھوک‘ پیاس‘ بے آرامی اور ضبط نفس کے ذریعے وہ روحانی اور اخلاقی قوت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اسے بہتر انسان اور اپنے مالک کا تابع فرمان بندہ بننے کے قابل بناتی ہے‘ دوسروں کے غم اور دکھ جاننے کے لائق ہی نہیں بناتی بلکہ اس کا تجربہ کراتی ہے‘ جو ہر فرد میں اُمت کا حصہ ہونے کا احساس بیدار اور مستحکم کرتی ہے اور اللہ کی ہدایت اور رہنمائی سے اسے جوڑنے اور اس کی روشنی سے زندگی کو روشن کرنے کے لائق بناتی ہے۔
روزے کی برکتوں اور نعمتوں کی کوئی انتہا نہیں لیکن اس کے پانچ پہلو ایسے ہیں جو اس عبادت اور اللہ کی اس عنایت کو ایک منفرد حیثیت بنا دیتے ہیں:
رمضان تو ہر سال انھی احساسات و جذبات کی آبیاری اور اُمت مسلمہ کو اس کی منزل اور مشن کے شعور کی تجدید اور ان کے حصول کے لیے جدوجہد کی تحریک دینے کے لیے آتا ہے تاکہ سونے والوں کو بیدار کرے اور سرگرم عمل لوگوں کو تیز تر سرگرمی کے لیے مہمیز دے۔ لیکن اس سال جس فضا اور جن حالات میں اُمت مسلمہ رمضان سے بہرہ ور ہو رہی ہے وہ بہت غیر معمولی ہیں اور رجوع الی اللہ‘ ذاتی تربیت و تزکیہ اور اجتماعی صف بندی کی فکرمندی کے ساتھ انفرادی اور اجتماعی زندگی کی خود احتسابی کے لیے ایک نادر موقع فراہم کر رہے ہیں۔ آج ہم عالمی پس منظر میں اس خود احتسابی کے ان چند پہلوئوں پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں جن کی طرف اس مبارک مہینے کی عبادات کے دوران توجہ نہ کرنا ایک خسارے کا سودا ہو سکتا ہے کہ روزہ تو ہے ہی اس لیے کہ ہر مسلمان مرد اور عورت اور بحیثیت مجموعی اُمت مسلمہ انفرادی اور اجتماعی تقویٰ حاصل کرے جو ہماری قوت کا اصل منبع ہے اور یہ سب اس لیے کہ اللہ کا کلمہ بلند و بالا ہو سکے۔
وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ (البقرہ ۲:۱۸۵) اور جس ہدایت سے اللہ نے تمھیںسرفراز کیا ہے‘ اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار اعتراف کرو اور شکرگزار بنو۔
ہدایت‘ فرقان اور تقویٰ کے اس منظر میں اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعلان اُمت کو جس کام کے انجام دینے کے لیے اُبھار رہا ہے وہ اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے‘ اس کے دین کو قائم کرنے اور حق کو باطل پر غالب کرنے کی جدوجہد ہے۔
روزہ‘ تقویٰ اور جہاد اللہ کے کلمے کی بلندی اور بالادستی کے قیام کا راستہ ہیں اور نماز‘ روزے ‘ حج اور زکوٰۃ کا رشتہ ایمان اور احتساب سے کٹ جانا یا کمزور ہو جانا ہی اُمت مسلمہ کی کمزوری‘ بے بسی اور محکومی کا باعث ہے جیسا کہ حدیث نبویؐ میں انتباہ کیا گیا ہے:
جس طرح کھانے والے ایک دوسرے کو دسترخوان کی طرف دعوت دیتے ہیں اس طرح عنقریب ایسا ہوگا کہ (دشمن) حکومتیں (لقمہ تر سمجھ کر) تم پر ٹوٹ پڑیں گی۔ ایک شخص نے سوال کیا: کیا ایسا ہماری قلت تعداد کی بنا پر ہوگا؟ آپؐ نے فرمایا: ’’نہیں‘ بلکہ تم اس وقت تعداد میں بہت زیادہ ہو گے لیکن تمھاری حیثیت خس و خاشاک سے زیادہ نہ ہوگی۔ دشمنوں کے دلوں سے تمھارا رعب اٹھ جائے گا اور تمھارے اندر ’’وھن‘‘ کی بیماری پیدا ہو جائے گی۔ آپؐ سے سوال کیا گیا ’’وھن‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ آپؐ نے فرمایا ’’دنیا کی محبت اور موت سے نفرت‘‘۔ (انتخاب حدیث ‘مولانا عبدالغفارحسن‘ص ۳۱۰)
آج ایک طرف دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکہ اور اس کے حواری افغانستان پر حملہ آور ہیں اور رمضان کے مقدس مہینے میں معصوم انسانوں کا خون بہا رہے ہیں اور دوسری طرف عالم یہ ہے کہ پوری اسلامی دنیا پر ایک سکتہ طاری ہے‘ کچھ سہمے ہوئے ہیں‘ کچھ منقار زیر ہیں‘ کچھ کانپ رہے ہیں‘ کچھ ہاتھ جوڑ کر دشمنوں کو کندھا فراہم کر رہے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو آگے بڑھ کر ظالموں کے دست و بازو بن رہے ہیں اور مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ بھی رنگ رہے ہیں اور مظلوموں کی لاشوں پر اپنے لیے تخت سجانے کے خواب دیکھ رہے ہیں--- تو کیا خود احتسابی کے لیے اس سے بھی زیادہ کسی سنگین لمحے کا انتظار کیا جا سکتا ہے؟
خود احتسابی کا آغاز اہل پاکستان کوخود اپنی ذات سے کرنا چاہیے۔افغانستان اور اُمت مسلمہ کے وسیع تر پس منظر میںخود احتسابی ہماری ذمہ داری ہے۔ اس کے ساتھ عالمی سطح پر بھی خود احتسابی وقت کی ضرورت ہے۔ ان تینوں سطح پر خود احتسابی ہی سے وہ راہیں سامنے آ سکتی ہیں جن پر چل کر موجودہ بحران سے نکلا جا سکتا ہے اور ایک بہتر مستقبل کے لیے جدوجہد ممکن ہو سکتی ہے۔
پاکستانی قیادت نے امریکہ میں ہونے والے ۱۱ ستمبر کے اندوہناک واقعے کے بعد ایک سوپر پاور کی دھمکی اور دبائو کے تحت حق و انصاف‘ عالمی قانون و روایات(conventions)‘ اسلامی وحدت اور ملّی حقوق و فرائض کے احکام و آداب اور خود ملک کے حقیقی اور دیرپا مفادات سے صرفِ نظر ہی نہیں کیا ان کی خلاف ورزی کی اور ان سے بے وفائی کا ارتکاب کرتے ہوئے گھٹنے ٹیکے اور چشم زدن میں خارجہ پالیسی میں ایسی قلابازی (U-turn)کھائی کہ دوست دشمن بن گئے اور جن کی دوستی کبھی قابل بھروسا نہ تھی اور جن سے بار بار ملک چرکے کھا چکا تھا ایک بار پھر انھی کے دامن کو تھامنے‘ اسی ’’کوئے ملامت‘‘ کے طواف کی ذلت قبول کرنے‘ انھی ٹھکرانے والوں سے کچھ ڈالروں کی بھیک مانگنے اور ان کی چاکری میں اپنے ستم زدہ مسلمان بھائیوں اور ہمسایہ ملک پر آگ اور خون کی بارش کرنے کے لیے راستے کھولنے اور فضائیں ہموار کرنے کا ’’جرأت مندانہ‘‘ اور ’’مبنی برحکمت‘‘ کارنامہ انجام دیا۔
کسی بھی صاحب ایمان‘ خوددار اور باعزت فرد یا قوم کو یہ زیب نہیں دیتا کہ محض دبائو میں آکر‘ حقائق کا صحیح تعین اور تجزیہ کیے بغیر اور خود اپنی قوم اور اپنے دوست ممالک کو اعتماد میں لیے بغیر کوئی بھی بڑا فیصلہ کرے‘ چہ جائے کہ ایک ایسا فیصلہ جس کے بڑے دُور رس اثرات پوری قوم‘ ہمسایہ دوست ممالک‘ اُمت مسلمہ اور پوری انسانیت کے مستقبل پر مرتب ہونے والے ہوں۔ نیتوں کا علم تو اللہ تعالی ہی کو ہے لیکن قومی معاملات کے فیصلے رات کی تنہائیوںمیں بیرونی دھمکیوں کے تحت نہیں کیے جاتے۔ جنرل مشرف اور ان کے ساتھیوں نے ۱۴ ستمبر ۲۰۰۱ء کی رات کو جو اقدام کیا اور جس کے کچھ نتائج ان دس ہفتوں میں بھی سب کے سامنے آگئے ہیں اور نہ معلوم ابھی کیسے کیسے نتائج رونما ہونے والے ہیں اس کا بے لاگ احتساب ضروری ہے۔ سرکاری ذرائع اور درباری اہل قلم اس اقدام کو صحیح ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوڑی کا زور لگائے ہوئے ہیں لیکن حقائق اپنا لوہا منوا کر رہتے ہیں اور محض پروپیگنڈے کے گردوغبار سے تلخ حقیقتوں پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔
انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی‘ صحیح فیصلے وہی ہوتے ہیں جو آزاد فضا میں‘ بے لاگ غوروخوض ‘نفع و نقصان کے حقیقت پسندانہ ادراک‘ باہمی مشورے اور قوم کو اعتماد میں لے کر کیے جاتے ہیں کوئی فرد واحد عقل کل نہیں ہے اور چند افراد محض ’’ہم پر اعتماد کرو‘‘ کی بنیاد پر قوم کی قسمت سے نہیں کھیل سکتے۔ یہ تاریخ کا فیصلہ ہے اور خود ہمارا تجربہ۔ جب بھی بڑے بڑے فیصلے من مانے انداز میں ہوںگے‘ وہ بالآخر نقصان دہ اور تباہ کن ہوں گے۔ ۱۹۵۴ء کا امریکی حلقہ دفاع میں شرکت کا فیصلہ ہو یا ۱۹۶۶ء کا تاشقند کا معاہدہ‘ ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کامشرقی پاکستان میں فوجی اقدام کا فیصلہ ہو یا ۱۶ دسمبر کا ہتھیار ڈالنے کا معاملہ‘ فروری ۱۹۹۹ کا اعلان لاہور ہو ‘ ۴ جولائی کا کارگل سے پسپائی کا فیصلہ اور ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو چیف آف اسٹاف کی برطرفی کا اعلان سب قوم کے لیے نشاناتِ عبرت ہیں۔
۱- دباؤ کے تحت: یہ فیصلہ آزاد فضا میں اور مسئلے کے حسن و قبح کی بنیاد پر نہیں ہوا بلکہ ایک سوپر پاور کی دھمکی اور دبائو میں ہواہے۔ ہم کیسی ہی تاویلیں کریں لیکن اب سارے حقائق دو اور دو چار کی طرح کھل کر سامنے آگئے ہیں کہ ۱۱ ستمبر کے واقعے کے بعد امریکہ کے اصل مقتدر طبقے (establishment) نے طے کر لیا تھا کہ اس موقع کو اپنے اسٹرے ٹیجک مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرنا ہے اور اس کا آغاز اسامہ بن لادن‘ القاعدہ‘ افغانستان اور بالآخر اسلامی احیا کی تحریک کو (جسے کبھی سیاسی اسلام (political Islam)کہا جاتا ہے‘ کبھی اسلامی بنیاد پرستی (Islamic fundamentalism)اور کبھی عسکری اسلام (militant Islam)اور کبھی جہادی تحریک) دبانے اور اس کے لیے مقابلے کی قوتوں کو اُبھارنے سے کیا جانا ہے۔
اصل واقعے کی آج تک کوئی معروضی تحقیق نہیں ہوئی ہے اور نہ کرنے کا کوئی منصوبہ ہے۔ عدل و انصاف اور قانون کے مطابق مجرموں کے تعین اور سزا کی کوئی کوشش کی گئی ہے اور نہ اس کا کوئی ارادہ ہے۔ نیویارک کے عالمی تجارتی مرکز کے انہدام کے آدھ گھنٹے کے اندر اسامہ بن لادن کو گردن زدنی قرار دے دیا گیا اور پھر پروپیگنڈے اور جبروقوت کے ذریعے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کی ایک فضا بنا ڈالی گئی۔ کولن پاول نے اب صاف اعلان کر دیا ہے کہ ’’ہم نے ۱۳ ستمبر کو پاکستان کو الٹی میٹم دے دیا تھا کہ یا ہمارا ساتھ دو ورنہ تم کو بھی دہشت گرد ملک قرار دے کر تمھارے خلاف صف آرا ہو جائیں گے‘‘۔ جنرل پرویز نے ۲۴ گھنٹے کی مہلت مانگی مگر اس کے ختم ہونے سے پہلے ہی ۱۴ ستمبر کی رات ‘ صدر بش نے جنرل پرویز کو نیند سے بیدار کر کے الٹی میٹم کا جواب مانگا اور جنرل صاحب نے ’’تحویل قبلہ‘‘ کا کارنامہ معکوس انجام دیتے ہوئے ہتھیار ڈال دیے۔ اگر دہشت گردی کی تعریف (definition) کا کوئی متفق علیہ حصہ ہے تو وہ ’’سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے قوت یا قوت کے استعمال کی دھمکی‘‘ سے عبارت ہے اور اس تعریف پر صدر بش کی جنرل مشرف کو دھمکی اور ان سے اپنی مطلب براری مکمل طور پر صادق آتی ہے۔
کہا گیا کہ ’’یاتم ہمارا ساتھ دو ورنہ تم دہشت گردوں کی صفوں میں شمار کیے جائو گے‘‘۔ ساری دنیا کو من مانے انداز میں سفید اور سیاہ کے دو طبقوں میں بانٹ دیا گیا اور کہا گیا کہ ’’۲۱ وی صدی میں زندہ رہنا چاہتے ہو یا پتھروں کے عہد کی طرف لوٹنے اور کھنڈرات میں بدلنے کے لیے تیار رہو‘‘۔ ایسا نہیں ہے کہ سب نے اس دھمکی کے آگے سپر ڈال دی۔ دنیا کے ۱۸۹ ملکوں میں سے اکثریت نے صرف ان دو راستوں (options) آپشنز کو ماننے سے انکار کر دیا اور جن ممالک نے دہشت گردی کے خلاف محاذ میں شرکت پر آمادگی کا اظہار بھی کیا ان میں سے بھی بیش تر نے غیر مشروط تعاون کی حامی نہیں بھری۔ بلجیم کے وزیراعظم نے دھونس میں آنے سے انکار کر دیا اور اسے سیاسی دبائو (bullying)قرار دیا۔ برطانیہ کے پارلیمنٹ کے متعدد ارکان نے کھل کر بغاوت کی۔انڈونیشیا‘ ملائشیا‘ مصر‘ شام‘ ایران اور حتیٰ کہ سعودی عرب نے بھی اپنی زمین اور فضائی حدود استعمال کرنے سے انکار کر دیا اور ساری دھونس اور دبائو کے باوجود بمشکل ۴۵ ممالک نے امریکہ کے ساتھ مکمل یا جزوی طور پر اتحاد میں شرکت کی حامی بھری۔ان میں سے بھی اکثر کو اپنے اپنے ملکوں میں سخت مزاحمت سے سابقہ پیش آیا۔ آسٹریلیا اور جاپان کو دستور و قانون میں تبدیلی کرنا پڑی اور جرمنی حکومت کو اپنے وجود کے لالے پڑ گئے‘اعتماد کے ووٹ کا ڈراما رچانا پڑا اور حکومت چند ووٹوں سے ختم ہوتے ہوتے رہ گئی۔
ہمارے سامنے بھی صرف یہ دو ہی راستے نہیں تھے لیکن ہم نے ہر مشورے سے قبل اور کسی بھی نوعیت کی معلومات اور شہادتوں کے بغیر ۱۴ ستمبر کو امریکہ کے آگے سپر ڈال دی۔ نام نہاد مشاورت کا آغاز اس کے بعد ہوا ہے اور جنرل مشرف آن ریکارڈ ہیں کہ اس وقت تک کوئی معلومات اور شہادتیں ان کو نہیں دکھائی گئی تھیں۔بہ ظاہر جو بھی معلومات دی گئی ہیں (جو ناکافی اور حقائق سے زیادہ مفروضوں اور شبہات پر مبنی ہیں) وہ بھی خانہ پری کے لیے بعد میں دی گئی ہیں اور ہم نے شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا رویہ اختیار کیا ہے۔ جنرل مشرف کی ۱۹ ستمبر کی تقریر کا ویڈیو موجود ہے۔ اگر جنرل صاحب خود بھی اس کو ایک بار دیکھ لیں تو ان کے چہرے کا رنگ بتا رہا ہے کہ ان کا فیصلہ دبائواور دھمکی کے تحت ہے ‘آزادانہ نہیں۔
۲- قوم کی مرضی کے خلاف: یہ فیصلہ قوم کی مرضی کے بغیر ہوا اور اسے ہرگز قوم کی تائید حاصل نہیں۔ ان کا یہ دعویٰ کہ صرف ۱۰‘۱۵ فی صد عوام اس کے خلاف ہیں‘ حقائق پر مبنی نہیں۔ ۲۷ ستمبر کے نام نہاد یوم یک جہتی پر پوری سرکاری مشینری کی عوام کو اپنی تائید میں نکالنے کی بھرپور کوشش کے باوجود اسکول کے بچوں اور سرکاری ملازمین کے سوا کسی کو اپنی تائید میں میدان میں نہ لایا جا سکا۔ اس کے برعکس عوامی ہڑتالوں‘ ریلیوں‘ جلسوںاور جلوسوں کے ذریعے عوام کی بہت بڑی اکثریت نے پرُامن رہتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار ان کے اقدام کے خلاف کیا ہے ۔ افغانستان پر امریکہ کے ہوائی حملے کے بعد ۱۵ اکتوبر کے گیلپ سروے کے مطابق ۸۳ فی صد عوام نے طالبان سے یگانگت اور حملوں کی مذمت کی رائے کا اظہار کیا ۔یہی کیفیت ساری دنیا میں رائے عامہ کے جائزوں کی ہے حتیٰ کہ برطانیہ میں بھی مسلمانوں کی آرا کا تقریباً یہی تناسب ہے۔ ترکی‘ انڈونیشیا‘ ملایشیا‘ تھائی لینڈ بلکہ بھارت تک کے مسلمانوں کا یہی ردعمل ہے۔ اگر پاکستان میں بھی اس مسئلے پر عوامی ریفرنڈم ہو تو ۸۰ فی صد سے زیادہ لوگ امریکہ کے خلاف اور اس معاملے میں جنرل مشرف کے اس سے تعاون پر ناراض‘ نادم اور برافروختہ نکلیں گے۔
بلاشبہ یہ پالیسی عوامی تائید سے محروم ہے اور جن سیاسی لیڈروں نے مختلف وجوہ سے حکومت کی تائید کی ہے‘ ان کے اپنے پیروکاروں کی بڑی تعداد بھی اس مسئلے پر ان کے ساتھ نہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ یہ فیصلہ قوم کے اجتماعی ضمیر اور ملت اسلامیہ کی تاریخی روایات اور ایمانی کیفیات کے خلاف ہے۔ پاکستان ہی نہیں پوری دنیا میں یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے کہ جن حکومتوں نے اس معاملے میں بہ خوشی یا بہ جبر امریکہ کا ساتھ دیا ہے ان کے عوام کھلے بندوں ان کی اس روش سے برگشتہ ہیں اور برأت کا اعلان کر رہے ہیں۔ مجھے حال ہی میں (۹ تا ۱۱ نومبر ۲۰۰۱ء) آکسفورڈ میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا جس میں امریکہ کے دو سابق سفیر اور انڈر سیکریٹری آف اسٹیٹ (نائب وزراے خارجہ) شریک تھے۔ دونوں نے باقی شرکا کے اس احساس کا اعتراف کیا کہ خواہ قاہرہ ہو یا اسلام آباد‘ حکومتوں کا موقف ایک تھا اور گلی کوچوں (street opinion) میں گونجنے والی رائے بالکل دوسری تھی۔ یہ کیفیت مسلم ممالک کی قیادتوں اور مسلم عوام کے جذبات و احساسات میں مکمل عدم مطابقت کی یہ ایک واضح مثال اور ان قیادتوں کے اپنے عوام سے دُور ہونے کا کھلا ثبوت ہے۔
۳- ظلم اور دہشت گردی سے تعاون: ہم نے ایک ایسا موقف اختیار کیا جو حق و انصاف کے خلاف ہے اور کھلے کھلے ظلم اور سامراجی دہشت گردی کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔ ۱۱ ستمبر کو امریکہ مظلوم تھا اور ساری دنیا نے اس سے ہمدردی کا اظہار کیا اور ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون پر خودکش حملے کی بھرپور مذمت کی۔ لیکن امریکہ نے اصل دہشت گردوں کے تعین اور ان کے احتساب اور گرفت کے لیے دستور‘ قانون‘ اخلاق‘ بین الاقوامی روایات کے فریم ورک میں اقدام کرنے کے بجائے ایک نئی عالمی جنگ کا بلاجواز اعلان کر دیا اور بین الاقوامی دہشت گردی کے ذریعے ایک نئے سامراجی دَور کا آغاز کر دیا اور اس طرح ایک بار پھر ایک ظالم اور سامراجی طاقت کا کردار ادا کیا۔ ہم اس سے پہلے دلائل اور شواہد سے (ملاحظہ ہو ترجمان القرآن‘ نومبر ۲۰۰۱ء) یہ بات واضح کرچکے ہیں کہ دہشت گردی سے جنگ کے نام پر امریکہ جو کچھ کر رہا ہے وہ صریح ظلم‘ کھلی کھلی غنڈا گردی اور بدترین دہشت گردی ہے جس کا ارتکاب وہ خود اپنے دستور‘ قانون‘ اقوام متحدہ کے چارٹر‘ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے اور بین الاقوامی قانون‘ روایات اور اخلاق کوپارہ پارہ کر کے پوری ڈھٹائی سے انجام دے رہا ہے۔ اس نئی جنگ کا مقصد اس کے اپنے سیاسی مفادات اور مقاصد کا حصول ہے۔ وہ ۱۱ ستمبر کے واقعات کے نام پر دنیا کے غریب اور کمزور ممالک پر اپنے قبضے کو مستحکم کرنا اور ان کے مزید وسائل پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔
اس خونی کھیل پر سے ہر روز پردے اُٹھ رہے ہیں اور امریکہ اور یورپ میں اہل فکرونظر‘ حق و انصاف کے اس طرح خون بہانے اور ظلم اور جارحیت کا نیا باب رقم کرنے پر سراپا احتجاج بن رہے ہیں۔ بات صرف مسلمانوں کی نہیں ‘امریکہ میں کم لیکن یورپ اور باقی تمام دنیا میں بشمول اسلامی دنیا اس کے خلاف بے زاری کی لہر اٹھ رہی ہے۔ ابھی ۱۸ نومبر کو لندن میں جنگ کے خلاف ایک تاریخی مظاہرہ ہواجس میں شدید سردی میں ایک لاکھ افراد نے شرکت کی اور اس جنگ کو محض مفادات کی جنگ قرار دیا۔ برطانیہ کے سابق وزیر ٹونی بین (Tony Ben)برطانوی پارلیمنٹ کے متعدد ارکان‘ اخبارات کے مدیر‘ کالم نگار اور ملائشیا کے ڈاکٹر چندرا مظفر اور سیکڑوں عمائدین نے اس میں شرکت کی اور امریکی عزائم کا پردہ چاک کیا۔ اہل علم و صحافت اور سیاسی شخصیات کی بڑی تعداد‘ حتیٰ کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر میںہلاک ہونے والوں کے اعزہ بھی پکار اٹھے ہیںکہ افغانستان کے غریب عوام پر ہولناک بم باری ایک ظلم ہے اور اس انتقامی کارروائی اور جنگ زرگری کے ذریعے ہمارے مرنے والوں کے خون کا سودا نہ کیا جائے۔ ٹونی بین نے اس عالمی احساس کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
ان کارروائیوں کو آغاز میں صلیبی جنگ قرار دیا گیا۔ اب ہم کو بتایا جا رہا ہے کہ یہ اسلام کے خلاف کوئی مقدس جنگ نہیں ہے۔ اگرچہ آرچ بشپ آف کنٹربری نے اپنے مشرق وسطیٰ کے حالیہ دورے میں اس کو منصفانہ جنگ قرار دیا ہے جس کی حمایت اچھے عیسائیوں کو کرناچاہیے۔
اسامہ بن لادن کو نیویارک کے واقعات کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے لیکن اس پر مقدمہ چلائے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔اس لیے کہ امریکہ کسی ایسے جنگی جرائم کے ٹربیونل کا مخالف ہے جس کو امریکی شہری پر مقدمہ چلانے کا اختیار ہو۔ بہرحال سابق صدر کلنٹن اور صدر بش پہلے ہی یہ احکامات جاری کر چکے ہیں کہ اسامہ بن لادن کو دیکھتے ہی گولی مار دی جائے۔ یہ بالکل واضح ہے کہ امریکہ بن لادن کو عدالت میں کیوں نہیں لانا چاہتا۔ یقینا وہ اپنے دفاع میں بتائے گا کہ افغانستان پر حملہ کے بعد روسیوں کو نکالنے کے لیے خود سی آئی اے نے اسے ایک حریت پسند (یا دہشت گرد) کی حیثیت سے اسلحہ اور رقم فراہم کی تھی۔
دہشت گردی کی مذمت میں سلامتی کونسل کی قرارداد سے قطع نظر‘ یو این چارٹر میں امن کو درپیش خطرات سے نمنٹنے کے لیے جو طریقۂ کار بیان کیا گیا ہے‘ اسے ترک کر دیا گیا ہے۔ نیٹو نے دفعہ ۵ کو متحرک کر کے اپنے کو ان ذمہ داریوں سے بری نہیں کر لیا ہے جو معاہدہ نیٹو میں یو این چارٹر کی پابندی کرنے کے حوالے سے اس پر عائد ہوتی ہیں--- موسم سرما کے قریب آنے پر ہزاروں لاکھوں افراد کے فاقوں اور سردی سے مرنے کے امکانات پیدا ہو رہے ہیںاور ہمیں یہ یقین دلایا جا رہا ہے کہ یہ منصفانہ جنگ ہے جو ہم جیت سکتے ہیں اور جیتنا چاہیے۔
شاید ہمیں اپنے آپ سے یہ پوچھنا چاہیے کہ کیا ہم اپنی خاموشی سے انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب میں شریک ہو رہے ہیںکیوں کہ وہ لوگ جو پہلے ہی بہت تکلیف اٹھا چکے ہیں اب پھر اپنی سرزمین پر تکلیف اٹھا رہے ہیں صرف اس لیے کہ کیسپین کا تیل امریکہ کی مارکیٹ میں لانے کے لیے ان کی زمین کی فوری ضرورت ہے۔ (دی ارجین لندن‘ ۱۲ نومبر ۲۰۰۱ء)
سر جان پلجر(Sir John Pilger) کئی کتابوں کا مصنف ہے اور بی بی سی ٹی وی اور روزنامہ مرر کا چیف بین الاقوامی نامہ نگار رہا ہے۔ وہ لکھتا ہے:
دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک کھلا دھوکاہے۔ افغانستان میں تین ہفتے کی بم باری کے بعد بھی امریکہ میں حملوں میں ملوث کوئی ایک دہشت گرد نہ گرفتار ہوا اور نہ ہلاک۔اس کے بجائے دنیا کی غریب ترین اقوام میںسے ایک اور سب سے زیادہ مصیبت زدہ قوم کو دنیا کی طاقت ور ترین قوم کے ذریعے دہشت گردی کا اس حد تک نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ کہ امریکی پائلٹوں کے لیے ’’غیر یقینی‘‘ فوجی اہداف ختم ہوگئے‘ اور اب وہ کچے گھروں‘ہسپتالوں‘ ریڈکراس کے گوداموں اور مہاجرین کو لے جانے والی بسوں کو تباہ کر رہے ہیں۔
۱۱ ستمبر کے سانحے میں جو افراد براہ راست ملوث ہیں‘ ان میں سے کوئی بھی افغانی نہیںہے۔ بیش تر سعودی ہیں جنھوں نے منصوبہ بندی اور تربیت بہ ظاہر جرمنی اور امریکہ میں حاصل کی۔ وہ کیمپ جن کے استعمال کی طالبان نے بن لادن کو اجازت دی تھی ایک ہفتہ قبل خالی ہو چکے تھے۔ طالبان خود امریکہ اور برطانیہ کے پرداختہ ہیں۔ ۱۹۹۰ء میں وہ قبائلی فوج جس نے انھیں تیار کیا اسے سی آئی اے نے فنڈ فراہم کیے اور ایس اے ایس نے انھیں روس سے لڑنے کے لیے تربیت دی۔
منافقت صرف یہیں تک نہ نہیں۔ جب طالبان نے ۱۹۹۶ء میں کابل پر قبضہ کیا تو واشنگٹن نے کوئی تبصرہ نہ کیا۔ کیوں؟ کیونکہ طالبان کے لیڈروں کو جلد ہائوسٹن‘ (ٹیکساس) میںان سے معاملہ کرنا تھا جہاں تیل کی کمپنی یونی کول کے اعلیٰ افسران کو ان کا استقبال کرنا تھا۔ امریکی حکومت کی خفیہ منظوری سے کمپنی نے انھیں تیل اور گیس کی فراہمی میں وافر منافع دینے کی پیش کش کی جو امریکہ سوویت وسطی ایشیا سے افغانستان تک پائپ لائن کی تعمیر کے ذریعے چاہتا تھا۔
ایک امریکی سفارت کار نے کہا: طالبان غالباً سعودیوں کی طرح ترقی کے راستے پر چل پڑیںگے۔ اس نے واضح کیا کہ افغانستان تیل کی ایک امریکی کالونی بن جائے گا‘ اس میں مغرب کے لیے بہت منافع ہوں گے۔ کوئی جمہوریت نہ ہو اور نہ خواتین کی کوئی قانونی حیثیت‘ ہم اس صورت حال میں گزارا کر سکتے ہیں۔
اگرچہ سودا ناکام رہا ‘ تاہم یہ جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ کی اہم ترین ترجیح رہی جو تیل کی صنعت میں ڈوبا ہوا ہے۔ بش کا خفیہ ایجنڈا کیسپین کی تہ میں تیل اور گیس کے ذخائر کا استحصال کرنا ہے جو دنیا کے محفوظ ذخائر میں سے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق امریکہ کی توانائی کی بہت زیادہ بڑھی ہوئی ضروریات کے لیے آیندہ ایک نسل کے لیے کافی ہوں گے۔ یہ تب ہی ہو سکتا ہے اگر پائپ لائن افغانستان سے گزرے اور امریکہ کی امید بر آئے۔
عراقیوں اور فلسطینیوں اور افغانیوں کا المیہ ایک حقیقت ہے جو مغرب کے اکثر میڈیا میں ان کے خاکے کے برعکس ہے۔ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے مسلمان عالمی دہشت گرد تو کیا ہوتے‘ ان کی عظیم اکثریت خود اس کا شکار ہے۔ یہ اپنے ممالک یا قریبی علاقوں کے قیمتی قدرتی وسائل کے سبب مغرب کے استحصال کا شکار ہیں۔
یہ جنگ دہشت گردی کے خلاف نہیں ہے۔اگر ایسا ہوتا تو رائل میرینز اور ایس اے ایس فلوریڈا کے ساحلوں پر حملہ آور ہوتے جہاں سی آئی اے کے پروردہ دہشت گردوں اور لاطینی امریکہ کے سابق آمروں اور سفاکوں کو دنیا کے کسی اور خطے کے مقابلے میں زیادہ پناہ دی جاتی ہے۔
تاہم بے طاقتوں کے خلاف طاقت ور کی جنگ نئے بہانوں‘ نئے خفیہ ایجنڈوں اور نئے جھوٹوں کے ساتھ جاری ہے۔ اس سے پہلے کہ کوئی اور بچہ تشدد سے یا فاقہ کشی کی وجہ سے خاموشی سے ہلاک ہو جائے‘ اس سے پہلے کہ مشرق ومغرب دونوں جگہ نئے جنونیوں کی تخلیق کی جائے‘ یہ وقت ہے کہ برطانیہ کے عوام اپنی بات کو بھرپور طریقے سے منوائیں اوراس پرفریب جنگ کو بند کروائیں۔ (دی مرر‘ ۲۹ اکتوبر ۲۰۰۱ء)
مغرب کے درجنوں دانشور اس ظالمانہ جنگ کو صریح ظلم اور سامراجی دہشت گردی قرار دی ہے۔ جگہ کی قلت کے باعث ہم صرف ان دو اقتباسات پر اکتفا کرتے ہیں۔ البتہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں ہلاک ہونے والے ایک سابق فوجی افسر کی بیوی امبرایمنڈسن کا خط ضرور پیش کرنا چاہتے ہیں جو ۷ اکتوبر کی بم باری کے بعد شائع ہوا ہے اور دکھی انسانیت کے دل کی آواز ہے۔وہ انسان خواہ مشرق میں ہو یا مغرب میں‘ افغانستان میں یا امریکہ میں۔ لیکن اس کی آواز نہ صدربش کے دل میں اتر رہی ہے اور نہ جنرل مشرف کے ضمیر کو جھنجھوڑ پا رہی ہے!
۱۱ ستمبر کو جب دنیا بے یقینی اور خوف کے عالم میں نظارہ کر رہی تھی‘ میرا شوہر کریگ اسکاٹ ایمنڈسن جو امریکہ کا فوجی افسرتھا پینٹاگون میں اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اپنے ۲۸ سالہ شوہر اور دو نوجوان بچوں کے باپ کو کھونا ایک تکلیف دہ اور الم ناک تجربہ ہے۔ اس کی موت عظیم قومی نقصان کا ایک حصہ ہے اور مجھے یہ جان کر سکون ہوتا ہے کہ اتنے بہت سے دوسرے میرے غم میں شریک ہیں۔ میں نے اس تاریخی المیے کے ایک حصے کے طور پر کریگ کو کھو دیا ہے‘لیکن میرا غم اس خوف سے بڑھ جاتا ہے کہ اس کی موت کو دوسرے معصوم مظلوموں کے خلاف تشدد کرنے کا جواز فراہم کرنے میں استعمال کیا جائے گا۔ میں نے قومی رہنمائوں سمیت کچھ امریکیوں کی غصے میں بپھری لفاظی سنی ہے۔ وہ رہنما جو مسئلے کے حل کے لیے بہت زیادہ انتقام اور سزا کا مشورہ دے رہے ہیں‘ میں ان رہنمائوں پر واضح کرنا چاہتی ہوں کہ مجھے اور میرے خاندان کو غم و غصے کے ان الفاظ سے کوئی سکون نہیں ملتا۔ اگر وہ اس ناقابل فہم سفاکی کا جواب دوسرے معصوم انسانوں کے خلاف تشدد برت کر دینا چاہتے ہیں تو انھیں میرے شوہر کے لیے انصاف کے نام پر ایسا نہیںکرنا چاہیے۔ ایسی لفاظی اور انتقام کے فوری اقدامات میرے خاندان کی تکلیف کو صرف بڑھا سکتے ہیں‘ اور ہم کو اپنے پیاروں کو اس طرح یاد رکھنے میں جو ان کے لیے قابل فخر ہو‘ محروم کر سکتے ہیں اور امریکہ کے ایک امن ساز قوت کی حیثیت کا تمسخر اڑاتے ہیں۔
کریگ اپنی موت کے انتقام کے لیے پرتشدد ردعمل ہرگز نہ چاہتا‘ اور میں نہیں سمجھ سکتی کہ اس سے کوئی خیر کیسے برآمد ہو سکتا ہے۔ ہم تشدد کا مسئلہ تشدد سے حل نہیں کر سکتے۔ انتقام ایک خود بخود چلنے والا چکر ہے۔ میں قوم کے رہنمائوں سے کہتی ہوں کہ ایسا راستہ اختیار نہ کریں جو زیادہ وسیع نفرتوں کی طرف لے جائے‘ جو میرے شوہر کی موت کو قتل و غارت کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کی وجہ بنا دے۔میں ان سے اپیل کرتی ہوں کہ اس ناقابل فہم المیے کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ حوصلہ لائیں جس سے تشدد کا یہ چکر توڑا جا سکے۔ میں ان سے کہتی ہوںکہ وہ اپنی توجہات دنیا میں امن و انصاف کے لیے کام کرنے پر مرکوز کریں۔ (انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘۱۳ اکتوبر ۲۰۰۱ء)
یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ یہ جنگ صریح ظلم پر مبنی ہے اور گذشتہ ۷ ہفتوں میں افغانستان میں جو کچھ ہوا ہے اس نے ثابت کر دیا ہے کہ اصل مقصد افغان عوام کی کمر توڑنا‘طالبان کے اقتدار کو ختم کرنا اور دنیا کے تمام ممالک اور اقوام کو دہشت زدہ کرنا ہے کہ یا ہمارے ساتھ رہو ورنہ تمھارا حشر بھی ایسا ہی کر دیا جائے گا۔ افغانستان پر اس وقت تک ۵ ہزار سے زیادہ ہوائی حملے ہو چکے ہیں جن میں ۵ لاکھ سے زیادہ بم گرائے جا چکے ہیں اور اس میں چپے چپے پر بم باری (Carpet bombing)کے علاوہ امریکی جنگی خزانے کا ایٹم بم کا برادر نسبتی Daisy Cutterبے دردی سے استعمال کیا گیا ہے جو ۱۵ ہزار پونڈ المونیم اور دوسرے کیمیاوی مواد کو زمین سے ۳ فٹ بلندی پر ۱۰ ہزار درجہ فارن ہائٹ گرمی پر ایک آتشیں ہیولے کی شکل میںجنم دیتا ہے اور یہ آگ کا بادل ایک میل تک اس کی زد میں آنے والی ہر شے کو بھسم کر دیتا ہے۔ جو انسان یا اشیا اس کی گرفت میں نہیںآتیں لیکن تپش کی زد میںہوتی ہیں وہ جگر کے سرطان یا سماعت سے محرومی کا شکار ہوجاتی ہیں۔ یہ تہذیب کے وہ تحفے ہیں جو امریکہ نے افغانستان کے عوام کو دیے ہیں ۔ اس جنگ میں ہم نے نہ صرف ان کی تائید کی ہے بلکہ ان کو فضائی حدود ہی نہیں زمینی سہولت بھی فراہم کی ہے اور مغربی اخبارات نے تفصیل سے بار بار لکھا ہے کہ کس طرح جنگی ہیلی کوپٹروں نے ہمارے فراہم کردہ ہوائی اڈوں سے پرواز کی ہے اور پاکستان کی زمین کو اپنی چھائونی کے طور پر استعمال کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ میں ہماری شرکت اثم و عدوان اور ظلم و بربریت میں تعاون کے مترادف ہے۔
۲۱ اور ۲۲ نومبر کے برطانیہ کے اخبارات نے اطلاع دی ہے کہ اب تک لاتعداد شہریوں کے علاوہ ۵سے ۱۰ ہزار طالبان شہید کیے جا چکے ہیں‘ جن میں ایک ہزار کے قریب پاکستانی‘ عرب اور دوسرے رضاکار بھی شامل ہیں اور مزار شریف ‘ کابل اور دوسرے مفتوحہ علاقوں میں شمالی اتحاد کے جنگ جو‘ جو ۴ سال تک ایک انچ زمین پر بھی قبضہ نہ کر سکے تھے اب امریکی بم باری اور امریکی فوجی مشیروں کی رہنمائی میں نصف سے زیادہ افغانستان پر قبضہ کر چکے ہیں اور ہر جگہ انتقام کی آگ بھڑکا رہے ہیں اور ہزاروں انسانوں کو ہلاک کر رہے ہیں۔ ان کی لاشوں کا مثلہ کر رہے ہیں اور اپنے ان مسلمان اہل وطن کو بے گوروکفن سڑکوں اور کھلیان میں بے آبرو کر رہے ہیں۔ قندوز کے محاذ پر شمالی اتحاد کی قیادت ہی نہیں امریکی وزیر دفاع بھی کہہ رہے ہیں یا ہتھیار ڈالو ورنہ موت کے لیے تیار ہو جائو۔ ہتھیار ڈالنے پر بھی جان کی امان نہیں اور جنگی قیدی بھی بنانے کے لیے ہم تیار نہیں۔ اسلام توبہت اعلیٰ تعلیمات کا دین ہے۔ یہ تو مغرب کے جنگی قانون اور جنیوا کنونشن کی صریح خلاف ورزی ہے‘ یہ ظلم اور آتش انتقام کا وہ مقام ہے۔ جس پر جنرل پرویز بھی چیخ اٹھے ہیں اور اپنے کیے پر نادم ہوں نہ ہوں‘ اب ٹونی بلیر اور کولن پاول سے درخواستیں کر رہے ہیں کہ رحم کرو اور کم از کم باعزت انخلاء کا راستہ دو۔
۴- قومی مفادات یا امریکی مفادات: جنرل پرویز نے اپنی اس پالیسی کے لیے ’’قومی مفاد‘‘ کے گھسے پٹے نعرے کا بھی سہارا لیا ہے اور یہ وہ مظلوم سہارا ہے جو برسرِاقتدار ہر گروہ اپنے ہر جائز و ناجائز اقدام کے لیے ہمیشہ کرتا چلا آیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس ’’قومی مفاد‘‘ کا تعین کون کرے گا اور خود قوم کا بھی اس میںکوئی دخل ہے یا جس کا دائو چل جائے بس اس کو قومی مفاد کے نام پر اپنا کھیل کھیلنے کا حق ہے؟
کہا گیا ہے کہ ہم نے اپنی ایٹمی تنصیبات کی حفاظت‘ کشمیر کی جدوجہد کی بقا اور مکمل تباہی سے بچنے کے لیے یہ اقدام کیا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا فی الحقیقت کوئی ایسا خطرہ تھا کہ امریکہ پاکستان پر حملہ کر دیتا؟ حقیقت یہ ہے کہ محض ایک دھمکی اور خوف کا منظر پیدا کر کے امریکہ نے اپنا مقصد حاصل کر لیا۔ ورنہ کیوبا جو امریکہ سے دو قدم پر ہے اس کو بھی بار بار دھمکیاں دی گئیں مگر اس کا بال بھی بیکا نہ کیا جا سکا۔ پاکستان پر حملہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ بھارت کو استعمال کیا جا سکتا تھا مگر نہ ہم اتنے کمزور اور بے یارومددگار ہیں اور نہ بھارت اتنا احمق اور عاقبت نااندیش ہے کہ اس آسانی سے خودکشی پر تیار ہو جاتا۔ بین الاقوامی سطح پر تنہائی کی دہائی بھی دی گئی ہے مگر یہاں بھی دنیا کے ممالک کی اکثریت نے امریکہ کا ساتھ نہیں دیا ہے اور دنیا کے ہر ملک میں امریکہ کی اس جارحیت کے خلاف تحریک اٹھ رہی ہے۔ ہم نے حق و انصاف کی بنیاد پر دنیا کی رائے اور ہم خیال ممالک کو متحرک کرنے کا سوچا بھی نہیں۔ پوری عرب دنیا اور تیسری دنیا کے تمام ممالک حتیٰ کہ یورپ کے کئی ممالک اس امریکی دہشت گردی اور محاذ آرائی کی پالیسی کے مخالف ہیں۔ مسلم عوام اور دنیا کے عام امن پسندانسان اس کے خلاف ہیں۔ ہم نے خود کو ان سب سے حتیٰ کہ اپنے عوام اور افغانستان میں اپنے دوستوں سے اپنے کو کاٹ کر تنہا کر لیااور خوش ہیں کہ ہمیں جرأت مندی کے تمغے دیے جا رہے ہیں اور وہ جو کل تک آپ کو گالیاں دے رہے تھے‘ آپ کے ساتھ فوٹو کھنچوانے تک کو تیار نہ تھے اور آپ کو دولت مشترکہ ہی نہیں مہذب برادری سے آپ کو‘ آپ کی وردی کی وجہ سے نکالنے کے لیے پر تول رہے تھے‘ وہ آج اپنے مفاد کی خاطر اب آپ کے ساتھ شیروشکر ہیں اور آپ کی پیٹھ تھپک رہے ہیں۔ یہ مفاد کا کھیل ہے‘ محبت نہیں۔ اب بھی ان کا رویہ یہ ہے کہ بقول آپ کے آپ کو یقین دہانی کرائی گئی کہ جنگ مختصر ہوگی لیکن دوسرے ہی دن آپ کی تردید کر دی گئی کہ کس نے یقین دہانی کرائی ہے؟ اور آپ بھی ’’جب تک ضرورت ہو‘‘ کا سجدہ سہو کرنے لگے۔ ایک بات شہری آبادی کی حفاظت اور محدود نشانوں کی بھی کہی گئی لیکن سب نے دیکھ لیا کہ نشانہ کون کون تھا--- شہری آبادی‘ ہسپتال‘ مسجدیں‘ مدرسے‘ ریڈ کراس کے گودام‘ اقوام متحدہ کے دفاتر‘ الجزیرہ ٹی وی کا مرکز :
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
ایک اور بات بڑے طمطراق سے یہ بھی ہوئی تھی کہ ہمیںضمانت دی گئی ہے کہ افغانستان میں ایسی وسیع البنیاد حکومت وجود میں آئے گی جس میں سب کی نمایندگی ہو اور یہ کہ شمالی اتحاد کو‘جو کھلے کھلے پاکستان کا مخالف اور روس کا حلیف ہے‘ فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ لیکن ہوا وہی جس کا خطرہ تھا۔ ۱۰نومبر کو صدر بش اور جنرل مشرف مشترکہ پریس کانفرنس میں اعلان کر رہے تھے کہ شمالی اتحاد کو کابل میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا مگر ۶نومبر کو شمالی اتحاد کو پیش قدمی کے لیے سبز جھنڈی دکھائی جا چکی تھی اور امریکی طیاروں کی چھائوں میں اور امریکی فوجی مشیروں کی رہنمائی میں وہ یہ بازی سر کر رہے تھے۔
یہ ایک ناخوش گوار حقیقت ہے کہ پاکستان نے جو کچھ۲۲سال کی قربانیوں سے حاصل کیا تھااسے ۲۲ گھنٹے میں امریکہ کے آگے جھک جانے کی ہمالہ سے بڑی غلطی نے پادر ہوا کر دیا۔ روس جو مقصد ۱۹۲۰ء سے ۱۹۸۹ء تک کی سیاسی اور عسکری کارروائیوں سے حاصل نہ کر سکا تھاوہ امریکہ کی ۷ اکتوبر کی فوجی یلغار کے باوجود حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اب افغانستان کی سیاست میں روس کا کردار غیر معمولی اہمیت کا حامل ہوگا۔ یہ خطرات افق پر منڈلا رہے ہیں کہ خدانخواستہ اب افغانستان میں ایک نہیں کئی بیرونی طاقتوں کے حلقہ اثر (areas of influence)وجود میںآئیں گے‘ کچھ حصے پر روس کا اثر غالب ہوگا‘ کچھ پرایران کا اور کچھ پر امریکہ کا۔ پاکستان جس strategic depth کے خواب دیکھ رہا تھا وہ قصہ پارینہ بن جائیں گے اور جس مغربی محاذ کی طرف سے مطمئن تھا وہ ایک بار پھر پریشانی کا باعث ہو سکتا ہے۔ اور پاکستان کی آیندہ کی سلامتی پالیسی کو مشرقی اور مغربی دونوں محاذوں کی فکر کرنا ہوگی۔ جس طوائف الملوکی کی طرف افغانستان جا رہا ہے‘ اس کے اثرات سے خود پاکستان کو محفوظ رکھنا ایک نیا دردسر بن جائے گا۔
ایک بات ماضی کی غلطیوں اور محرومیوں کی تلافی کی بھی ہوئی تھی مگر ایف-۱۶ کی بات کر کے دیکھ لیا گیا کہ کس طرح پاکستان کے منہ پر طمانچہ مارا گیا کہ ایف-۱۶ کی بات کرنے والے کون ہوتے ہو؟ معاشی امداد اور قرضوں کی معافی کے بھی بہت خواب دیکھے گئے اور پلائو پکائے گئے مگر حاصل کیا ہوا--- چند ملین ڈالر کی امداد‘ایک ارب کے پیکج کی نوید‘ اور ورلڈ بنک کا بیان کہ ہم سے ۵.۲ ارب کے ریلیف کی توقع نہ رکھو--- اور اس کے ساتھ ملک میں قیمتوں کا بڑھنا‘ بے روزگاری میں اضافے‘ سرمایہ کاری میں جمود‘ بلکہ جو برآمدات ہو رہی تھیں ان میں بھی تعطل اور زیرتکمیل آرڈ تک کا اتلاف جس کے نتیجے میں معیشت کو دو ڈھائی ارب ڈالر کے خسارے کا اندیشہ ہے۔ بجٹ کا خسارہ بھی بڑھ رہا ہے اور توازن ادایگی کا بھی--- خدا نہ کرے مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ’’سو جوتے اور سو پیاز‘‘ دونوں ہی اس ’’جرأت مند‘‘ قیادت کے نتیجے میں قوم کی قسمت میں لکھے ہیں۔
ایٹمی تنصیبات کی بھی بات ہوئی ہے لیکن اگر امریکی اخبارات اور خصوصیت سے نیویارکر میں مشہور صحافی ہیسٹ (Heist)کی رپورٹ صحیح ہے تو ہماری ایٹمی تنصیبات تک رسائی اور حفاظت کے نام پر سارے انتظامات ان پر گرفت کے لیے کیے جا چکے ہیں اور جو فوجیں اس وقت افغانستان میں مصروف ہیںا ن کا کام وہاں تک محدود نہیں--- تیرے نشتر کی زد شریان قیس ناتواں تک ہے!
کشمیر کے بارے میںبہت کچھ کہا گیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کے حکم پر بعض جہادی تنظیموں پر پابندی لگا دی گئی اور ان کے حسابات کو منجمد کر دیا گیا ہے جب کہ لبنان تک نے امریکہ کے سارے دبائو کے باوجود حزب اللہ پر پابندی یا حسابات کی بندش سے صاف انکار کر دیا۔ امریکی وزیردفاع‘ قومی سلامتی کی مشیراور برطانوی وزیر دفاع تینوں نے بھارت کے خلاف دہشت گردی کے عنوان سے ایسی مبہم باتیں کی ہیں جو کان کھڑے کرنے والی ہیں۔ کشمیر میں بھارت کا ظلم اور دہشت گردی اس زمانے میں کئی گنا بڑھ گئے ہیں اور معصوم انسانوں اور مجاہدین کی شہادت اور آبادیوں کی تباہی میں اضافہ ہوا ہے۔سارے آثار یہ ہیں کہ فلسطین ہو یا کشمیر‘ باہر سے کسی حل کو مسلط کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ کیا یہی اسٹرٹیجک معاملات کاوہ تحفظ ہے جسے قومی مفاد کا نام دیا گیا ہے؟
طالبان کی خوبیاں اور کمزوریاں اپنی جگہ--- ہم طالبان سے کمزور تو کسی اعتبار سے بھی نہ تھے‘ مگر انھوں نے اپنی عزت اور اپنی روایات کے پاس میں جان کی بازی لگا دی اور کسی دبائو میں آنے سے انکار کر دیا۔ بجا‘ ان کو بڑے نقصانات اٹھانے پڑے اور واحد سوپر پاور کی یلغار کا ۳۷ دن مقابلہ کرنے کے بعد بہت سے علاقوں سے پسپا ہونا پڑا اور پتا نہیں کہ جن ۴‘ ۵ صوبوں پر ان کا قبضہ ہے اسے باقی رکھ سکیںگے یا نہیں اور کیا گوریلا جنگ ہوگی یا اس کا امکان نہ ہوگا‘ لیکن اتنی بات واضح ہے کہ انھوں نے جان اور مال پر عزت اور ایمان کو فوقیت دی۔ ان کے لیے خطرات ہم سے کہیں زیادہ تھے اور ان کی مشکلات اور مجبوریاں بھی ہم سے بہت بڑھ چڑھ کر تھیں مگر انھوں نے مقابلے کا‘ خواہ وہ محدود مقابلہ ہی کیوں نہ ہو‘ راستہ اختیار کیا‘ لیکن ظلم اور ظالم کا چہرہ سب کے سامنے بے نقاب کر دیا:
سودا قمار عشق میں خسرو سے کوہ کن
بازی اگرچہ پا نہ سکا سر تو دے سکا
کس منہ سے اپنے آپ کو کہتا ہے عشق باز
اے روسیاہ تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا
اس پوری بحث میں بے چارے اسلام کی بھی اچھی خاصی گت بن گئی ہے۔ فرمایا گیا ہے کہ ہم نے یہ فیصلہ عین اسلامی ہدایات اور تاریخی روایات کے مطابق کیا ہے ۔کچھ دلائل تو وہی گھسے پٹے ہیں جن میں مظلوم صلح حدیبیہ پر طبع آزمائی کی جاتی ہے اور بیچارے میثاق مدینہ کی گوشمالی کی جاتی ہے‘ لیکن کچھ دور کی کوڑیاں نئی لائی گئی ہیں جن میں حکمت اور چھوٹی برائی قابل ذکر ہیں۔ یہ اسلام اور مسلم اُمت پر ایک ظلم ہوگا کہ اس ظالمانہ کارروائی کے لیے اسلام کے نام پر جواز فراہم کرنے کی اس جسارت کو چیلنج نہ کیا جائے اور اس کے پاے چوبین کو بے نقاب نہ کیا جائے۔
۱- اُمت مسلمہ‘ حق کی گواہ : اسلام نے اس اُمت کو حق کا شاہد اور گواہ بنایا ہے اور اس کا فرض منصبی ہے کہ عدل و انصاف قائم کرے اور کسی حال میں بھی عدل وا نصاف کا دامن نہ چھوڑے‘ خواہ معاملہ اپنوں کا ہو یا حتیٰ کہ دشمن کا۔ قرآن کا حکم ہے: وَاِذَا حَکَمْتُمْْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ ط (النساء ۴: ۵۸) ’’جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو‘‘۔
ہم نے اس معاملے میں کھلے طور پر انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا‘ ظلم اور زیادتی کرنے والوں کا ساتھ دیا اور اپنے دوستوں کو چھوڑ کر ان پر حملہ کرنے والوں کی صف میں شامل ہو کر اللہ کے عذاب کو دعوت دی ہے۔
۲- قومی ریاست کا مقام: اسلام نے فرد یا ملک کے لیے مختلف شناختوں (identities) کی نفی نہیں کی بلکہ کچھ حدود میں ان کو نہ صرف باقی رکھا بلکہ معتبر قرار دیا ہے البتہ سب کو ایک بالاتر شناخت کے‘ جو ایمان اور تقویٰ سے عبارت ہے‘ تابع کیا ہے:
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ط اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہَ اَتْقٰکُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ o (الحجرات ۴۹:۱۳) لوگو ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور پھر تمھاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار رہے۔ یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔
آج کی قومی ریاست ایک جدید سیاسی اکائی ہے لیکن حبّ وطن اپنی اخلاقی اور نظریاتی حدود میں ایک اسلامی قدر ہے۔ اگر اُمت مختلف ملکوں میں بٹی ہوئی ہے تو ملک اور ملت دونوں کے حقوق میں ہم آہنگی اور پاس داری اسلامی اصولوں کے مطابق ممکن بھی ہے اور ضروری بھی۔ اس لیے کہ اس نئی اکائی کے باوجود اُمت کا ایک نظریاتی وجود ہے اور مسلمان عوام کا اجتماعی ضمیر اور ان کے قلوب کی دھڑکن کی مماثلت اس گئے گزرے دَور میں بھی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ قرآن نے صاف کہا ہے کہ وَاِنَّ ھٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاِحدَۃً وَّاَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُوْنِ o (المومنون ۲۳:۵۲) اور یہ اُمت ایک ہی اُمت ہے اور میں تمھارا رب ہوں پس مجھ سے ڈرو۔
یہی وجہ ہے کہ جہاد کے مسائل میں تمام ہی فقہی مکاتیب کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر کسی ایک اسلامی حصے پر غیر مسلم حملہ کریں تو دوسرے حصوں کے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ ان کی یاوری اور اعانت کے لیے اس طرح اٹھ کھڑے ہوں جس طرح خود اپنی آبادیوں کی حفاظت کے لیے اٹھتے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے موطا کی شرح میں لکھا ہے کہ اگر ایسی حالت پیدا ہو جائے کہ غیر مسلموں نے اسلامی ملکوں کا قصد کیا اور مسلمانوں اور کافروں میں لڑائی شروع ہوگئی تو جہاد فرض ہوگیا اور جب دشمنوں کی طاقت ان ممالک کے مسلمانوں سے زیادہ قوی ہوئی اور ان کی شکست کا خوف ہو تو یکے بعد دیگرے تمام مسلمانان عالم پر جہاد فرض ہو گیا‘ خواہ کوئی پکارے یا نہ پکارے ‘‘۔ (بحوالہ مسئلہ خلافت از مولانا ابوالکلام آزاد)
قرآن و سنت کے ان تمام احکام کو بدقسمتی سے پاکستان کی قیادت نے یکسرنظرانداز کر دیا بلکہ ان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے کو امریکی حملہ آوروں کی صف میں شامل کر لیا۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!
۳- میثاق مدینہ کی مثال : امریکیوں سے احتلاف (coalition)کے لیے میثاق مدینہ کی مثال دی گئی ہے۔ جنرل مشرف نے اپنی ۱۹ ستمبر والی تقریر میں مدینہ کے پہلے ۶سال کی تاریخ یاد دلائی ہے لیکن کاش انھوں نے میثاق مدینہ کامطالعہ کر لیا ہوتا اور مدنی زندگی کے پہلے ۶ سالوں کی تاریخ پر سرسری نظر بھی ڈال لی ہوتی تو ایسی فاش غلط بیانی کے مرتکب نہ ہوتے۔ میثاق مدینہ دراصل مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست کے دستور کا خاکہ ہے جس کا نصف مسلمان قبائل نصف یہودی قبائل کے بارے میں ہے۔ اس میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو ریاست کا حاکم اور تمام فیصلوں کے لیے آخری سند تسلیم کیا گیا ہے۔ کیا امریکہ سے ہمارے عہد و پیمان اور صدر بش کی بنائی ہوئی کولیشن کی یہی حیثیت ہے؟ اصل حکم اور فیصلہ کرنے والا کون ہے؟ ہمارا شمار تو مصاحبین میں اور صرف حکم برداری کرنے والوں میں ہے۔ کیا میثاق مدینہ میں مسلمانوں کی یہی حیثیت تھی؟ کہا جا سکتا ہے کہ میثاق کا اصل مقصد قریش کے مقابلے کے لیے حفاظت اور مہلت کا حصول تھا۔ اگر محض دلیل کے لیے بھی یہ بات مان لی جائے تو سوال یہ ہے کہ ہم کس کے مقابلے کے لیے کمرہمت کس رہے ہیں۔ بھارت اس کولیشن کا رکن رکین ہے اور کشمیر میں مسلمانوں کے سینے پر مونگ دلنے میں مصروف ہے۔ کیا میثاق مدینہ میںکوئی ایسا بھی شریک تھا؟ کیا افغانستان کی حیثیت قریش والی ہے جن کے مقابلے کے لیے ہم امریکہ کے حلیف بن رہے ہیں؟
۶ سال کی تاریخ کا بار بار ذکر کیا گیا ہے لیکن کیا جنرل صاحب اور ان کے دینی مشیروں کو اس کا علم نہیں کہ ان ۶ سالوں میں میثاق مدینہ پر دستخط کرنے والے یہودیوں کا کردار کیا تھا۔ کیا شوال ۲ ہجری ہی میں غزوہ بنی قینقاع واقعہ نہیں ہوا جس میں معرکہ بدر کے فوراً بعد بنوقینقاع کے یہودیوں نے اعلان جنگ کیا‘ ۱۵ دن تک محاصرہ رہا اور بالآخر بنوقینقاع کے یہودی خود اپنے حلیف عبداللہ ابن ابی کی سفارش پر جلاوطن نہیں کیے گئے۔ پھر کیا ۳ ہجری میں بنونضیر کی طرف سے کش مکش کا آغاز نہیں ہوا جو ۴ہجری میں غزوہ بنونضیر پر منتج ہوا اور بالآخر بنونضیر بھی مدینہ چھوڑ گئے۔ پھر انھی ۶ برسوں میں تیسرے بڑے یہودی قبیلے بنوقریظہ نے بھی بدعہدی کی‘ معرکہ آرائی ہوئی اور بالآخر تلوار کو ان کا بھی فیصلہ کرنا پڑا۔ تاریخ کا آنا کانا مطالعہ ایک خطرناک جسارت ہے جس کے جنرل صاحب مرتکب ہوئے ہیں۔
۴- صلح حدیبیہ سے استدلال : صلح حدیبیہ بھی ہماری تاریخ کے ان مظلوم واقعات میں سے ایک ہے جسے ہر پسپائی اختیار کرنے والا اپنی بزدلی اور بے تدبیری کے لیے ڈھال بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ معاہدہ تاشقند ہو یا کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو کا معاہدہ‘ کارگل ہو یا ۱۴ ستمبر کی پسپائی‘ سب ہی صلح حدیبیہ کا سہارا لیتے ہیں حالانکہ یہ صلح وہ ہے جسے قرآن نے فتح مبین کا پیش خیمہ قرار دیا ہے اور فی الواقع بھی وہ فتح کی باب کشا ثابت ہوئی۔ اس صلح کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جان نثاروںکے ساتھ بیت اللہ کے عمرہ کے لیے تشریف لائے تھے اور آپؐ نے رکاوٹ کو تلوار سے دُور کرنے کے بجائے اللہ کے حکم سے ایک سال کے بعد معاہدے کے ذریعے اس سعادت کو حاصل کرنے کی بات طے فرمائی--- اس فریم ورک کا امریکہ کے جال میں پھنسنے اور ایک مسلمان ملک کے خلاف ایسے الزامات کی تائید میں جوحقائق اور اصول انصاف کے مطابق ثابت نہیں ہوئے‘ فوج کشی کے لیے کندھا دے دینے کا کیا تعلق ہے؟ پھر سب سے بڑھ کر حضوراکرمؐ نے فرمایا کہ وہ یہ معاہدہ اللہ کے حکم سے کر رہے ہیں۔ آج کس پر یہ وحی نازل ہوئی ہے اور کس دلیل کی بنیاد پر اسے اسلام کے لیے کسی فتح اور پاکستان کے لیے کسی کامیابی اور حصول عظمت کا زینہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
بلاشبہ حکمت دین کا بڑا اہم اصول اور پالیسی سازی کے لیے رہنما اصول ہے۔ لیکن حکمت اور حماقت اور حکمت اور بزدلی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ حکمت عبارت ہے ایمان و فراست‘ صبرواستقامت‘ جرأت و قوت اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے یکسوئی اور مسلسل جدوجہد سے۔ ہم نے ۱۴ ستمبر کے بعد حکمت کے نام پر ان میدانوں میں کون سا تیر مارا ہے۔ ہماری حکمت کا تو یہ حال ہے کہ قدم قدم پر ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور جس جس بات کو ضمانت سمجھ رہے ہیں وہ ہمارے منہ پر ماری جا رہی ہے اور ہم ’’اسی تنخواہ پر کام کرنے‘‘ کی رضامندی کا اعادہ کیے جا رہے ہیں۔ اس کا نام حکمت نہیں اور نہ اس کا کوئی تعلق قومی غیرت اور آزادی و سلامتی سے ہے۔ اسے حکمت کا نام دینا حکمت کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔
۵- چھوٹی بڑی برائی کی منطق: آخری دلیل وہی چھوٹی اور بڑی برائی والی ہے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ یا تو ان ساری ترک تازیوں کو حکمت ‘ میثاق مدینہ اور صلح حدیبیہ کے ہم پلہ قرار دیا جا رہا تھا اور کہاں پھسل کر چھوٹی برائی کا وعظ شروع ہو گیا۔ اگریہ حکمت اور قومی مفاد کا تقاضا تھا تو پھر چھوٹی برائی کیسی؟ اور اگر یہ چھوٹی برائی ہے تو پھر ان ارفع اصولوں کی مٹی کیوں پلید کی جا رہی ہے ؟ دوسروں کو جذباتی کہنا آسان ہے لیکن عقل کی بات کرنا بھی کوئی ایسا آسان نہیں!
ہم مان لیتے ہیں کہ اہون البلیتین ایک فقہی اصول ہے اور کچھ حالات میں اسے اختیار کرنا پڑتا ہے لیکن یہ اس وقت لاگو ہوتا ہے جب کوئی تیسرا راستہ ممکن نہ ہو۔ ہم بتا چکے ہیں کہ ایک اور راستہ ممکن تھا اور ایک نہیں ایک سو سے زیادہ ملکوں نے اسے اختیار کیا بلکہ مصر‘ ایران اور سعودی عرب تک نے وہ راستہ اختیار نہیں کیا جو ہم نے کیا۔ بھارت کی دہائی بے موقع ہے۔ جغرافیائی اعتبارسے ہماری پوزیشن اسٹرٹیجک تھی اور ہے۔ بھارت کی کوئی سرحد افغانستان سے مشترک نہیں۔ وہ ساری اچھل کودکے باوجود کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا تھا اور اگر ہم سے چھیڑ چھاڑ کرتا تو نہ صرف منہ کی کھاتا بلکہ عالمی جنگ کا نقشہ بدل جاتا اور چین‘ یورپ اور اسلامی ممالک کا رویہ بالکل دوسرا ہوتا۔ ان زمینی حقائق کی روشنی میں صدر بش کے اس کلیے کو تسلیم کر لینا کہ راستے صرف دو ہیں اور ان میں سے پسپائی کے راستے کو چھوٹی برائی قرار دے کر اختیار کر لینا فقہی اصول کے اعتبار سے ناقابل قبول اور ماروںگھٹنا پھوٹے آنکھ کے مترادف ہے۔
اس بحث کو ختم کرنے سے پہلے میثاق مدینہ اور صلح حدیبیہ کی بات کرنے والوں کو تاریخ میں غیر مسلم طاقتوں سے معاہدات کے انجام کی یاد دلانا بھی ضروری محسوس ہوتا ہے۔ دورِ رسالت مآبؐ سے لے کر آج تک‘ اور خصوصیت سے دور جدید کی مغربی اقوام نے استعماری غلبے سے لے کر اب تک‘ جو کچھ مسلمان ممالک بلکہ تمام غیر مغربی اقوام اور خصوصیت سے کمزور ممالک کے ساتھ کیا ہے اس سے صرف نظر کرنا اور ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جاتے رہنا کوئی حکمت کا شاہکار نہیں۔ امریکہ نے اپنے گذشتہ پچاس سال میں جس طرح ہم سے اور دوسروں سے اپنی دوستی نبھائی ہے اس سے آنکھیں بند کرنا خود فریبی ہی نہیں خودکشی کا راستہ ہو سکتا ہے۔ ان کا حال تو یہ ہے کہ:
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
ہم دنیا سے کٹنے اور کسی قسم کی بھی تنہائیت (isolationism)کے قائل نہیں اور اچھے اور برے دنیا میںہر جگہ موجود ہیں۔ افغانستان پرامریکہ کی دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھانے والوں میں مسلمانوں کے ساتھ بہت سے غیر مسلم اور مشرق ہی نہیں مغرب کے اہل علم و دانش‘ سیاست کاراور عوام بھی شامل ہیںاور ہم اس کی قدر کرتے ہیں لیکن امریکہ کی قیادت جو سیاسی کھیل کھیل رہی ہے اور یہود‘ ہنود‘ اور نصاریٰ جو چالیںتاریخ میںچلتے رہے ہیں ان کو نگاہ میں نہ رکھنا اور بڑی معصومیت سے ہر ٹھوکر پر میثاق مدینہ اور صلح حدیبیہ کی گردان کرنا بھی فراست اور دیانت کا راستہ نہیں۔ جس قرآن نے حکمت‘ دوستی‘ امن اور انسانیت کے لیے رحمت بننے کا درس دیا ہے اور اہل کتاب میں سے اچھے لوگوں کی قدر کی تعلیم دی ہے اسی میں یہ ابدی رہنمائی بھی موجود ہے کہ اپنی آنکھیں کھلی رکھو‘ اہل ایمان کے مقابلے میں کفار کو دوست نہ سمجھو‘ دوسروں کی چالوں کو ٹھیک ٹھیک سمجھو‘ اور حق و باطل کی کش مکش میں اپنا کردار اللہ کے دین کے مصالح کے مطابق ادا کرو۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوا الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ ط (النساء ۴:۱۴۴)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق نہ بنائو۔
وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَھُوْدُ وَلاَ النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَھُْمْ ط (البقرہ ۲:۱۲۰)
اور یہ یہود و نصاریٰ تم سے ہرگز خوش نہ ہوں گے جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو۔
اللہ تعالیٰ نے اس اُمت اور اس کی قیادتوں کو قیامت تک کے لیے متنبہ کر دیا ہے کہ اپنی آنکھیں کھلی رکھیں‘ صرف اللہ سے وفاداری کارشتہ استوار کریں‘ سب سے معاملہ کریں مگرخدا اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی ہدایت اور روشنی کے مطابق کریں۔ دوستی اور دشمنی‘ الحاق اور انحراف‘ صلح اور جنگ‘ تعاون اور عدم تعاون سب کا فیصلہ اللہ کے دین کے احکام اور اُمت مسلمہ کے مصالح کے مطابق کریں اور مخالفین کی چالوں اور فتنہ سامانیوں سے خبردار رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں تاریکی میں نہیں چھوڑا ہے‘ سب حالات کے لیے ہمیں رہنمائی سے نوازا ہے ___ اگر ہم اس ہدایت کو نظرانداز کر تے ہیں اور اپنی خواہشات یادوسروں کی ترغیبات کا شکار ہو جاتے ہیں تو ذمہ داری ہماری ہے اور اس کے نتائج بھی ہمیں ہی بھگتنا ہوں گے۔
جنرل مشرف اور ان کے ساتھیوں نے ۱۴ ستمبر کو امریکہ کے آگے سپر ڈال کر ملک و ملت کو ایک بہت ہی خسارے کے راستے پر ڈال دیا ہے جس کی قیمت اس قوم کو برسوں ادا کرنا پڑے گی۔ جن اُمیدوں پر انھوں نے یہ بازی لگائی وہ حباب کی مانند ہیں اور بہت سے حباب تو ان چند ہفتوں ہی میں پادر ہوا ہو چکے ہیں ۔ جس دلدل میں انھوں نے قوم کو پھنسا دیا ہے وہ زیادہ ہی تباہ کن ہوتی جا رہی ہے۔ اگر اس راستے میں کچھ وقتی اور جزوی فوائد بھی ہوں تب بھی نقصانات اور مفاسد کا پلڑا اتنا بھاری اور ان کی نوعیت اتنی گھمبیر ہے کہ اسے پاکستان کی ۵۴ سالہ تاریخ کا سب سے افسوس ناک اور نقصان دہ اقدام قرار دینا ہوگا۔ ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء کے بعد یہ ہماری تاریخ کا سیاہ ترین فیصلہ ہے۔ ۱۶ دسمبر والے سانحہ کے بعد تو پاکستان اور بنگلہ دیش میں دوستی اور تعاون کا ایک نیا دَور شروع ہو گیا لیکن اس اقدام کے جو اثرات ہمارے ایمان کے ساتھ ہماری آزادی‘ سلامتی‘ معیشت‘ ایٹمی صلاحیت‘ کشمیر کی تحریک آزادی و الحاق پاکستان اور علاقے کے ممالک سے تعلقات پر مترتب ہوں گے ان کے تصور سے روح کانپ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے ہوئے ان مہیب خطرات کے ادراک اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے نئی حکمت عملی اورنئی قیادت کی دعا ہمارے دل کی آواز ہے۔ یہی وہ پکار ہے جس کی طرف ہم ملک کے عوام کو دعوت عمل دیتے ہیں۔