دولت کی فراوانی‘ وسائل پیداوارکی ترقی اور حیرت انگیز معاشی ارتقا کے باوجود انسانیت آج جس غربت و ناداری‘ بے کاری اور بے روزگاری‘ معاشی لوٹ کھسوٹ اور معاشرتی ظلم و ناانصافی سے دوچار ہے‘ وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اگر فقروفاقہ کا علاج اور افلاس و ناداری کامداوا محض دولت کی فراوانی اور وسائل پیداوار کی ترقی سے ہو سکتا تو بلاشبہ آج کی ترقی یافتہ دنیا میں کسی کو بھی غریب و مفلس اور بھوکا ننگا نہیں ہونا چاہیے‘ لیکن ایسانہیں ہے۔ معاشی ارتقا اور وسائل پیداوار کی محیرالعقول ترقی کے باوجودہر جگہ غربت و افلاس کا دور دورہ ہے‘ اور رات کو بھوکے سو رہنے والوں کی تعداد وقت گزرنے کے ساتھ گھٹ نہیں رہی ہے بلکہ بڑھ رہی ہے۔ یہ فطرت کی ظالمانہ تعزیر نہیں ہے بلکہ مروجہ معاشی نظام کاحصہ اور لازمی نتیجہ ہے۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اس کے پاس تمام مسائل حیات کا شائستہ اور قابل قبول حل موجود ہے۔ وہ عالمِ انسانیت کے اقتصادی پہلو پر خصوصی توجہ دیتا ہے کہ اسی سے سلسلۂ حیات وابستہ ہے۔ اس نے اعلیٰ اخلاقی قدروں کے فروغ سے جہاں انسان کی ذہنی اور روحانی کائنات کو منور کیا‘ وہاں معاشی اعتبار سے بھی باوقار زندگی گزارنے کا لائحہ عمل پیش کیا ہے۔
اقتصادیات یا اکنامکس کا سب سے مشکل مسئلہ یہ ہے کہ افرادِ قوم میں بہ لحاظ فقرو غنا کیوں کر ایک تناسب و توازن قائم کیاجائے۔ عہد قدیم سے لے کر آج تک کوئی انسانی دماغ اس عقدہ کی گرہ کشائی نہ کر سکا۔ کسی نے یہ رائے دی کہ جملہ املاک پر افراد کا مساوی حق تصرف اور یکساں حق ملکیت تسلیم کیا جائے۔ دور جدید کے ماہرین معاشیات نے یہ حل پیش کیا کہ ملک کی تمام دولت پر حکمران پارٹی کا قبضہ ہو
اور وہ لوگوں کو قوت لایموت مہیا کرنے کی ذمہ داری قبول کرے‘ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ عوام انفرادی اور شخصی ملکیت سے دستبردار ہو جائیں۔
آج کل ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کروڑوں ڈالر اس بات پر صرف کر رہے ہیں کہ جو آ چکے سو آچکے‘ اب آنے والوں پر دنیا کا دروازہ بند کر دیا جائے۔ قرآن حکیم نے ایک نئی راہ متعین کی۔ اس نے کہا کہ مساوات کا یہ مصنوعی خیال محال اور خلاف فطرت انسانی ہے‘ اس لیے کہ وَاللّٰہُ فَضَّلَ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ فِی الرِّزْقِ ج (النحل ۱۶:۷۱) ’’اور دیکھو اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں فضیلت عطا کی ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے اس اہم انسانی مسئلے کو یوں حل فرمایا کہ غریبوں کی خاطر امیروں پر ایک طرح کا ٹیکس لگایا اور اس کا نام زکوٰۃ رکھا۔ اسے دین کا تیسرا رکن بنایا اور عبادت کادرجہ دیا۔ اس کی وصول یابی میں‘ اور اس کے خرچ کرنے کی جگہوں میں ایسے عدل پرور نظام کی بنیادیں قائم کیں کہ جن کی مثال موجودہ دَور کے کسی بھی مذہب اور فکر میں نہیں ملتی۔ زکوٰۃ اس قسم کا کوئی ٹیکس نہیں ہے جو آج کل حکومتیں اپنی رعایا سے وصول کرتی ہیں۔ اس قسم کے جتنے ٹیکس عوام سے وصول کیے جاتے ہیں وہ ان منافع اور فوائد کے معاوضے میں لیے جاتے ہیں جو عوام کو حکومت کی سرپرستی سے حاصل ہوتے ہیں‘ لیکن زکوٰۃ اس قسم کا ٹیکس ہے جو محض غیر مستطیع افراد کی مالی اعانت کے لیے وصول کیا جاتا ہے اور اس کے معاوضے میں محصول دہندگان کو کوئی دوسرا فائدہ کسی اور شکل میں نہیںہوتا۔
زکوٰۃ کی حکمت و مصالح: فرضیت زکوٰۃ میں اسلام نے کن مصالح کا لحاظ رکھا ہے؟ شاہ ولی اللہ دہلویؒ اس کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں: ’’تشریع زکوٰۃ میں بڑی بڑی دو مصلحتیں مضمر ہیں۔ ایک کا مآل تزکیہ نفس ہے ‘ وہ یہ کہ انسان کی اصل جبلت میںحرص اور بخل ودیعت کیے گئے ہیں (واحضرت الا نفس الشح میں اس کی تصریح ہے) اور تم جانتے ہو کہ بخل ایک قبیح ترین خلق ہے جس سے انسان معاد میں عذاب پاتا ہے۔ جس میں بخل نے جڑ پکڑ لی ہو وہ جب مرتا ہے تو اس کا دل مال و دولت کے ساتھ وابستہ اور اس کی طرف نگران رہتا ہے۔ یہی بات اس کے لیے عذاب کا موجب ہوتی ہے۔ جب آدمی زکوٰۃ دینے کا خوگر ہو جاتا ہے تو اس سے اس کا نفسِ رذیلہ بخل سے پاک ہو جاتا ہے۔ یہ بات انسان کے لیے آخرت میں نہایت مفید ثابت ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کے سامنے ہر وقت جھکے رہنے کے بعد جس کو شرع کی زبان میں اخبات کہتے ہیں‘دوسرے درجے پر سماحت یا سخاوت نفس آخرت میں نافع ترین چیز ہے۔ جس طرح اخبات کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان میں تطلع الی لجبروت (بارگاہ اقدس کی طرف نگران رہنا) کی صفت پیدا ہو جاتی ہے‘ اسی طرح سخاوت نفس کا نتیجہ یہ ہے کہ آدمی عالم مادی کے خسیس علائق سے نجات حاصل کر لیتا ہے۔ چونکہ سخاوت کی حقیقت یہ ہے کہ مَلکیت غالب ہو اور بہیمیت مقہور و مغلوب ہو کر رہ جائے‘ اس کا رنگ قبول کر لے اور اس کے احکام کی خوشی سے تعمیل کرے۔ اس ملکہ کو پرورش دینے اور تقویت پہنچانے کی تدبیر یہ ہے کہ ایسی حالت میں‘ جب کہ آدمی خود مال و دولت کا محتاج ہو اس کو مصارف خیر میں خرچ کرے‘ جو کوئی اس پر زیادتی کرے اس کو معاف کر دیا کرے‘ مکروہات دنیا اور شدائد کے پیش آنے پر صبر کو اپنا شیوہ بنا لے‘ خوشی سے ان تکالیف کو برداشت کرے اور آخرت پر یقین رکھنے کی وجہ سے عالم مادی کے واقعات اور حوادث کو پرکاہ کے برابر وقعت نہ دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے موقع بہ موقع ان سب باتوں کاحکم دیا اور ان امور میں جس کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے‘ یعنی مال و دولت کا خرچ کرنا‘ اس پر اسی نسبت سے بیش از بیش توجہ مبذول کی ہے۔ اس کے حدود وغیرہ بیان کیے ہیں اور اس کی اہمیت ظاہر کرنے کے لیے کلام مجید اور احادیث نبویہؐ میں نماز کے ساتھ ساتھ زکوٰۃ کا حکم دیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ قرآن کریم کی بعض آیات میں اس کا ذکر ایمان کے ساتھ آیا ہے۔ اہل نار سے جب کہا جائے گا کہ کس چیز نے تم کو آگ میںجھونکا؟ ان کا جواب یہ ہوگا کہ لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ o وَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَ o وَکُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَآئِضِیْنَ o (المدثر ۷۴: ۴۳-۴۵) ’’ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے‘ اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے‘ اور حق کے خلاف باتیں بنانے والوں کے ساتھ مل کر ہم بھی باتیں بنانے لگتے تھے‘‘۔
دوسری مصلحت جس پر تشریع زکوٰۃ مبنی ہے اس کا مآل نظام مدنیت کا بہتر طریقہ پر قائم رکھنا ہے۔ اس کی تشریح یہ ہے کہ مدنیت خواہ کتنے ہی چھوٹے پیمانے پر ہو‘ کمزور اور اپاہج اشخاص اور ارباب حاجت‘ غریبوں‘ مسکینوں پر مشتمل ہوتی ہے‘ نیز حوادث اور آفات سماوی و ارضی کا ہر ایک قوم کسی نہ کسی صورت میں نشانہ بنتی ہے۔ بنابرآں اگر اس بات کا التزام نہ ہو کہ غریبوں‘ مسکینوں اور ارباب حاجت کی دستگیری کی جائے تو اس کا نتیجہ قوم کی ہلاکت ہوگا۔ ایک اور بات بھی قابل غور ہے وہ یہ کہ تمدن کا نظام اس حیثیت سے بھی قوم کی مالی اعانت کا محتاج ہے کہ اس کو بہتر طریقے سے قائم رکھنے کے لیے مختلف قسم کے عہدے داروں اور مدبرین کی ضرورت ہے اور چونکہ ان لوگوں کی زندگی قوم کی فلاح و بہبود اور ان کی ضروریات کا انتظام کرنے کے لیے وقف ہوتی ہے‘ اس لیے یہ نہایت ضروری اور امر معقول ہے کہ ان کی وجہ کفاف اور ان کے روزینے کا بوجھ بیت المال پر ہو‘ جو زکوٰۃ اور صدقات ہی کے مجموعے کا نام ہے۔ اس قسم کے ٹیکس (اس سے ہماری مراد عشر اور زکوٰۃ ہے) جو قوم کی مشترکہ اغراض کے لیے ان پر عائد کیے جاتے ہیں‘چونکہ ان کا باقاعدہ ادا کرنا بعض کے لیے دشوار اور بعض کے لیے ناممکن ہوتا ہے‘ اس لیے یہ ضروری قرار پایا اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنت قائم کی کہ ا ن کے وصول کرنے کا اہتمام حکومت کیا کرے چونکہ ان دونوں مذکورہ مصلحتوں کے حصول کا آسان ترین طریقہ یہی تھاکہ دونوںکو ایک دوسرے میں مدغم کر دیا جائے‘ لہٰذا شرع نے یہی طریقہ اختیار کیا۔
اصل مشروعیت زکوٰۃ کے بعد اس بات کی ضرورت پیش آئی کہ اس کی مقدار کو معین کر دیا جائے۔ بصورت دیگر افراط و تفریط کے وقوع میں آنے کا احتمال غالب بلکہ یقینی تھا۔ تعیین مقدار کے لیے (جیسے کہ پہلے بھی اصول کلیہ کے ضمن میں اس کا بیان ہو چکا ہے) یہ ضروری ہے کہ نہ تو وہ مقدار اتنی تھوڑی ہو کہ اس کے ادا کرنے کا اس کو چنداں احساس نہ ہو‘ اور رذیلہ بخل کے ازالے میں وہ کچھ بھی موثر ثابت نہ ہو‘ اور نہ ہی وہ مقدار میںاس قدر زیادہ ہی ہو کہ اس کا ادا کرنا پہاڑ محسوس ہو۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ اس کو بار بار ادا کرنے کا درمیانی وقفہ نہ تو بہت زیادہ ہو جس کی وجہ سے اداے زکوٰۃ کے اصل مقصد میں خلل واقع ہو‘ اور نہ بہت کم ہی ہو کہ لوگوں کو اس کا ادا کرنا بوجھ محسوس ہو۔
منصفانہ مالیاتی نظام: جن اصولوں پر اقالیم صالحہ کے انصاف پسند سلاطین نے مالیہ اور ٹیکس کا نظام مبنی کیا ہے اور جن کو معقول پسند طبائع نہایت مناسب اور معقول سمجھتے ہیں‘ وہ چار ہیں:
(۱) یہ کہ مالیہ یا زکوٰۃ ان اموال سے وصول کیا جائے جن میں اضافہ ہوتا رہتا ہو۔ ان اموال کی حفاظت حکومت کا فرض ہے اور ان کی حفاظت ایک اہم فریضہ ہے جو اس کے ذمے عائد کیا گیا ہے۔ کیونکہ ان کی نشوونما بغیر اس کے متصور نہیں کہ ان کو شہر یا گائوں کے باہر لے جا کر چرایا جائے یا اگر وہ تجارت کا مال ہے تو اس کے لیے آدمی کو اکثر سفر کرنا پڑتا ہے (بہرحال ان کی حفاظت کی ضرورت پیش آتی ہے)‘ اور چونکہ ان میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اس لیے ان کی زکوٰۃ ادا کرنا ان کے مالکوں کو نہایت آسان معلوم ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ایسا کرنا الغرم مع الغنم کے اصول کے مطابق بالکل درست اور انصاف کی بات ہے (حکومت ملک میں امن قائم رکھ کر ان کی حفاظت کی ذمہ دار ہے اور اس کے عوض میں ان کو ایک خفیف سا ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے جو درحقیقت اضافہ ہی کا ایک جزو قلیل ہوتا ہے۔ اب کہیے اس میں کون سی بات عدل اور انصاف کے خلاف ہے)۔ ان اموال نامیہ کی تین قسمیں ہیں: (الف) چوپایہ جانور جو چراگاہوں میں چل پھر کر اپنا پیٹ بھرتے ہیں اور ان کی نسل بڑھتی رہتی ہو۔ (ب) کھیت اور باغات (ج) مالِ تجارت۔
(۲) جن لوگوں کے پاس خزانے ہوں اور وہ سونے چاندی میں لیٹتے ہوں‘ ان سے بھی حکومت کے اغراض کے لیے مناسب سالانہ رقم وصول کی جائے کیونکہ یہی لوگ ہیں جن کو حفاظت جان ومال کے لیے حکومت کی مدد کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ چوروں اور ڈاکوئوں کا انھی لوگوں کو ہر وقت خطرہ لگا رہتا ہے۔ ان لوگوں کے مصارف ویسے بھی کچھ کم نہیں ہوتے۔ اگرزکوٰۃ کی قلیل رقم ان پر اضافہ کی جائے تو ان کو اس کا کچھ بھی بوجھ محسوس نہ ہو۔
(۳) حکومت کو ٹیکس اور زکوٰۃ دینے کے مستحق وہ لوگ بھی ہیں جن کو بغیر کسی محنت کے کوئی دفینہ وغیرہ مل جائے یا کہیں سے جواہرات اور بیش قیمت معدنیات کا خزانہ ان کے ہاتھ لگ جائے۔ ان لوگوں کو بھی اپنے مال سے تھوڑا سا حصہ حکومت اور بیت المال کو دینا ناگوار نہیں گزرتا۔
(۴) پیشہ ور لوگ جو روز مرہ کچھ کماتے رہتے ہیں‘ ان پر خفیف سا ٹیکس عائد کیا جائے توچونکہ ان لوگوں کی تعداد قوم میں بہت زیادہ ہوتی ہے‘ اس لیے اس ذریعے سے ایک معقول رقم کے بیت المال میں داخل ہونے کا یقین کیا جا سکتا ہے۔
اب چونکہ تجارتی مال عموماً دُور دراز ملکوں سے لائے جاتے ہیں (اور کچھ عرصہ انتظار کرنے کے بعد وہ نفع پر فروخت ہوتے ہیں‘اور مد (الف) کی نسلی افزایش بھی سال بھر گزر جانے پر موقوف ہے‘ اسی طرح کھیت اور باغات جو اموال نامیہ میں سب سے بڑھ کر مالیہ اور زکوٰۃ کا مآخذ ہیں سال بھر کے بعد ان سے پیداوار حاصل کی جاتی ہے یا کم از کم مختلف فصلوں میں مختلف قسم کے اناج اور پھل پک کر اور کٹ کر سال تک جملہ پیداوار مکمل ہو جاتی ہے‘ اس لیے زکوٰۃ کی وصولی کے لیے سال کی میعاد مقرر کرنا عین صواب اور امر مناسب تھا۔
پھر یہ امر بھی قابل غور ہے کہ زکوٰۃ دہندہ اور وصول کنندہ دونوں کے لیے اسی میںآسانی ہے کہ ہر ایک جنس کی زکوٰۃ اسی کا کچھ حصہ ہو‘ مثلاً اونٹوں کے گلے میں سے ایک اونٹنی لیجائے‘ اور گائے بیل‘ یا بھیڑ بکریوں کے ریوڑ سے وہی جنس یعنی گائے یا بکری وصول کی جائے‘‘۔ (حجۃ اللّٰہ البالغہ‘ تحقیق السید سابق‘ الجزء الثانی‘ ص ۴۹۷ - ۵۰۰‘ باختصار ‘ دارالکتاب الحدیثۃ بالقاہرہ)
اسلام میں زکوٰۃ کا مقام : دنیا کے تمام سچے مذاہب اگرچہ ابناے جنس کی خدمت اور حاجت مندوں کی اعانت کی ترغیب و تعلیم دیتے ہیں لیکن یہ اسلام ہی کی خصوصیت ہے کہ اس نے محض تلقین و تعلیم ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ہی ایک قسم کے سالانہ ٹیکس کا طریقہ قائم کر دیا جو اس ضروریات کو پورا کرے ‘ اور اس کو اس درجہ اہم قرار دیا کہ نماز کے بعد اس کا درجہ رکھا گیا اور قرآن کریم میں دونوں کو ایک ہی فہرست میں گنا کر اس کو بھی ایمان کی علامت قرار دیا۔ ھُدًی وَّبُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ o الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ (النمل ۲۷:۲-۳) ’’ہدایت اور بشارت ان ایمان لانے والوں کے لیے جو نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں‘‘۔
قرآن پاک کے مطابق اسلامی حکومت کے قیام کے بنیادی مقاصد میں اہم ترین اس نظام خیر کا رائج کیا جانا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
الَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ (الحج ۲۲:۴۱) یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیںتو وہ نماز قائم کریں گے ‘ زکوٰۃ دیں گے۔
ایک اور جگہ پر اس کو تقویٰ اور صداقت کی علامت قرار دیا گیا ہے:
وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ ج وَالْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عٰھَدُوْا ج وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاسَآئِ وَالضَّرَّآئِ وَحِیْنَ الْبَاْسِ ط اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ط وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۷۷) اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے ۔اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اسے وفا کریں‘ اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔
زکوٰۃ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لیے ادا کی جاتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہماری دنیاوی زندگی میں بھی بہت اہمیت کی حامل ہے۔ چونکہ اسلام دین اور دنیا کے حسین امتزاج کاخواہاں ہے اس لیے وہ ایسے اعمال صالحہ کی طرف جن کا تعلق افراد کی زندگی اور معاشرے کی بہتری سے ہو‘ خصوصی توجہ دیتا ہے۔ چنانچہ معاشرتی ہم آہنگی اور بھائی چارے کے قیام کے حوالے سے زکوٰۃ کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِط (التوبہ ۹:۱۱) ’’پس اگر یہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو تمھارے دینی بھائی ہیں‘‘۔
قرآن پاک میں ایک مقام پر اس کو معیت الٰہی کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے: وَقَالَ اللّٰہُ اِنِّیْ مَعَکُمْط لَئِنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَیْتُمُ الزَّکٰوۃَ (المائدہ ۵: ۱۲) ’’اور ان سے کہا تھا کہ میں تمھارے ساتھ ہوں‘ اگر تم نے نماز قائم رکھی اور زکوٰۃ دی‘‘۔ اسی لیے مانعین زکوٰۃ کے بارے میں صحابہ کرامؓ کے عظیم الشان مجمع میں حضرت صدیق اکبرؓ نے یہ فرمایا اور جمہور صحابہؓ نے اس پر صاد کیا: ’’بخدا میں نماز اور زکوٰۃ کے درمیان فرق نہیں کروںگا اور ان لوگوں سے ضرور جہاد کروں گا جو ان کے درمیان فرق کر رہے ہیں‘‘ (الامام احمد بن حنبل‘ مسند ‘ المجلد الاول‘ ص ۱۱‘ المکتب الاسلامی‘ بیروت ۱۹۶۹ء)۔ نیز اس بارے میں اسلام کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس نے فرضیت زکوٰۃ کی عظمت کو ان صاف الفاظ میں بیان کیا: کَیْ لاَ یَکُوْنَ دُوْلَۃًم بَیْنَ الْاَغْنِیَآئِ مِنْکُمْ ط (الحشر ۵۹: ۷) ’’تاکہ یہ نہ ہو کہ مال ودولت صرف تمھارے دولت مندوں کے گروہ ہی میں محدود ہو کر رہ جائے‘‘۔ اور بتایا کہ معاشی وسائل میں اس کا مقصد وحید یہ ہے کہ دولت سب میںتقسیم ہوتی رہے اور کسی ایک گروہ کی اجارہ داری میں ہو کر ہی نہ رہ جائے۔ چنانچہ نبی اکرم ؐنے اسی حقیقت کے پیش نظر حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن کا والی بنا کر ارکان اسلام کی وصیت فرماتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا: تؤخذ من غنیھم فترد علی فقیرھم‘ ’’(زکوٰۃ کا مقصد یہ ہے کہ) ان کے مال داروں سے وصول کی جائے اور ان کے محتاجوں پر تقسیم کر دی جائے‘‘۔ (الامام ابن حجر العسقلانی ‘ فتح الباری بشرح البخاری‘ الجزء السامع عشر‘ ص ۱۱۵‘ مصطفی البابی الحلبی‘ بمصر ۱۹۵۹ء)
الغرض زکوٰۃ‘ اجتماعی معاشی نظام کا ایک خاص اور اہم مالی جز ہے ۔ اسی لیے اس کے وصول کرنے کا حقیقی اور اصولی طریقہ حکومت کے نظم و انتظام کے ساتھ وابستہ کیا گیا اور اس کی تحصیل کا معاملہ حکومت کے ہاتھ میں دیا گیا ہے۔ نظام زکوٰۃ سے جہاںا للہ کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے وہیں انسان کی خود غرضی اور بخل و حرص کا ازالہ بھی ہوتا ہے اور خلق خدا کی خدمت کا اور محبوبیت کا موقع بھی فراہم ہوتا ہے‘ اور غریب اور امیر‘ مزدور اور آجر‘ کسان اور زمیندار‘ فرد اور ریاست کے مابین تعاون کی فضا قائم ہوتی ہے۔
اجتماعی کفالت کا جدید اور منفرد نظام: زکوٰۃ اسلام کے اجتماعی نظام کفالت کا ایک حصہ ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر یوسف القرضاوی اپنی شہرہ آفاق کتاب فقہ الزکوٰۃ میں لکھتے ہیں: ’’اس کفالت سے مغرب بہت ہی محدود دائرے میں متعارف ہے۔ وہ معیشت کے دائرے میں عاجز اور تنگدست لوگوں کی مدد کو اجتماعی کفالت کا نام دیتا ہے‘ جب کہ اسلام کی اجتماعی کفالت کا تصور اس سے کہیں زیادہ وسیع اور ہمہ گیر ہے‘ اور زندگی کے جملہ مادی اور معنوی پہلوئوں کو محیط ہے کہ اس اجتماعی کفالت میںا خلاقی‘ علمی‘ دفاعی‘ فنی‘ تہذیبی‘ سیاسی اور معاشی کفالت‘ غرض کفالت کے تمام پہلو اسلام کے نظام کفالت میں داخل ہیں۔ اسلام کا نظام کفالت صرف زکوٰۃ تک محدود نہیں ہے بلکہ زکوٰۃ اس اجتماعی کفالت کا ایک بڑا اور اہم شعبہ ہے۔
زکوٰۃ کو ہم جدید اصطلاح میں اجتماعی ضمانت کہہ سکتے ہیں‘ یعنی معاشرے کے اپنی آمدنی سے کوئی حصہ دیے بغیر ہی ریاست عام بجٹ سے افراد کی کفالت کی ضمانت دیتی ہے۔ اس لحاظ سے اسلام کا نظام زکوٰۃ‘ اجتماعی ضمانت کے سلسلے کا اولین قانون ہے‘ جو محض نفلی صدقات پر بھروسا نہیں کرتا بلکہ ہر ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کا حکومت کی سطح پر ایک نظام ہے تاکہ معاشرے کے ہر فرد کو لباس‘ غذا‘ رہایش اور ضروریات فراہم کی جا سکیں اور کوئی فرد اور اس کا خاندان‘ ضروریات زندگی سے محروم نہ رہے۔
اس طرح کی اجتماعی کفالت تک فکر مغرب کی رسائی بھی ابھی قریب کے عہد میں ہوئی ہے‘ اور اس جانب مغرب کو خدا ترسی اور کمزور کی ہمدردی نے متوجہ نہیں کیا ہے بلکہ خونی انقلابات اور اشتراکیت اور اشتمالیت کی طوفانی موجوں نے متوجہ کیا ہے مگر اس کے باوجود یورپ کی رسائی ابھی تک اس قدر جامع نظام کفالت کی جانب نہیں ہو سکی ہے جس کا تصور اسلام نے دیا ہے کہ ہر شہری اس کفالت میں شامل ہے‘ اور ہر شہری کی اور اس کے اہل خانہ کی بنیادی ضروریات کی تکمیل ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اور یہ کوئی انفرادی احسان اور خیرات کا سلسلہ نہیں ہے بلکہ زکوٰۃ اہل ضرورت کا ایک متعین حق ہے‘ جو دولت مندوں کے مال میں رکھاجاتا ہے‘ اور اسلامی حکومت اس حق کو وصول کرتی اور تقسیم کرتی ہے۔ یہ ایسا حق ہے جو کسی صورت ساقط نہیں ہوتا خواہ حکومت اس کی وصول یابی کی ذمہ داری نہ سنبھالے‘ یہ حق بدستور لازم رہتا ہے‘‘۔ (فقہ الزکوٰۃ‘ ج ۲‘ ص ۸۸۰-۸۸۳‘ باختصار مؤسسۃ الرسالۃ بیروت‘ ۱۹۹۱ء)
اسلامی معاشرے میں زکوٰۃ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ رقم طراز ہیں: ’’یہ مسلمانوں کی کواپریٹو سوسائٹی ہے۔ یہ ان کی انشورنس کمپنی ہے۔ یہ ان کا پراویڈنٹ فنڈ ہے یہ ان کے بے کاروں کا سرمایہ اعانت ہے۔ یہ ان کے معذوروں‘ اپاہجوں‘ بیماروں‘ یتیموں‘ بیوائوں کا ذریعہ معاش ہے اور ان سب سے بڑھ کر یہ وہ چیز ہے جو مسلمانوں کو فکر فردا سے بالکل بے نیاز کر دیتی ہے۔ اس کا سیدھا سادا اصول یہ ہے کہ آج تم مال دار ہو تو دوسروں کی مدد کرو‘ کل تم نادار ہو گئے تو دوسرے تمھاری مدد کریںگے۔ تمھیں یہ فکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں کہ مفلس ہو گئے تو کیا بنے گا؟ مر گئے تو بیوی بچوں کا کیا حشر ہوگا؟ کوئی آفت ناگہانی آپڑی‘ بیمار ہو گئے‘گھر میں آگ لگ گئی‘ سیلاب آگیا‘ دیوالہ نکل گیا تو ان مصیبتوں سے مخلصی کی سبیل کیا ہوگی؟ سفر میں پیسہ پاس نہ ہو تو کیونکر بسر ہوگی؟ ان سب فکروں سے صرف زکوٰۃ تم کو ہمیشہ کے لیے بے فکر کر دیتی ہے۔ تمھارا کام بس اتنا ہے کہ اپنی پس انداز کی ہوئی دولت میں سے ڈھائی فی صد دے کر اللہ کی انشورنس کمپنی میں اپنا بیمہ کرا لو۔ اس وقت تم کو اس دولت کی ضرورت نہیں‘ یہ ان کے کام آئے گی جو اس کے ضرورت مند ہیں۔ کل جب تم ضرورت مند ہو گے یا تمھاری اولاد ضرورت مند ہوگی تو نہ صرف تمھارا اپنا دیا ہوا مال بلکہ اس سے بھی زیادہ تم کو واپس مل جائے گا۔
یہاں پھر سرمایہ داری اور اسلام کے اصول و مناہج میں کلی تضاد نظر آتا ہے۔ سرمایہ داری کا اقتضا یہ ہے کہ روپیہ جمع کیا جائے اور اس کو بڑھانے کے لیے سود لیا جائے‘ تاکہ ان نالیوں کے ذریعے سے آس پاس کے لوگوں کا روپیہ بھی سمٹ کر اس جھیل میں جمع ہو جائے۔ اسلام اس کے بالکل خلاف یہ حکم دیتا ہے کہ روپیہ اول تو جمع ہی نہ ہو‘ اور اگر جمع ہو بھی تو اس تالاب میں زکوٰۃ کی نہریں نکال دی جائیں‘ تاکہ جو کھیت سوکھے ہیں ان کو پانی پہنچے اور گردوپیش کی ساری زمین شاداب ہو جائے۔ سرمایہ داری کے نظام میں دولت کا مبادلہ مقید ہے‘ اور اسلام میں آزاد۔ سرمایہ داری کے تالاب سے پانی لینے کے لیے ناگزیر ہے کہ خاص آپ کا پانی پہلے سے وہاں موجود ہو‘ ورنہ آپ ایک قطرئہ آب بھی وہاں سے نہیں لے سکتے۔ اس کے مقابلے میںا سلام کے خزانۂ آب کا قاعدہ یہ ہے کہ جس کے پاس ضرورت سے زیادہ پانی ہو وہ اس میں لا کر ڈال دے اور جس کو پانی کی ضرورت ہو وہ اس میں سے لے لے۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں طریقے اپنی اصل اور طبیعت کے لحاظ سے ایک دوسرے کی پوری پوری ضد ہیں اور ایک ہی نظم معیشت میں دونوں جمع نہیں ہو سکتے‘‘۔ (اسلام اور جدید معاشی نظریات‘ ص ۸۶‘ ۸۷)
معاشی ترقی میں کردار: زکوٰۃ معاشی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ قرآن کریم نے علامتی اسلوب میںاس موضوع پر نہایت خوب صورت بحث کرتے ہوئے کہا ہے کہ: مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ط وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآئُ ط (البقرہ ۲:۲۶۱) ’’جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں‘ ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں اور ہر بال میں ۱۰۰ دانے ہوں۔ اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے‘ افزونی فرماتا ہے‘‘۔ چنانچہ معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ دولت اہل زر کے پاس منجمد ہو کر نہ پڑی رہے۔ چند اشخاص کے پاس دولت جمع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اکثریت بے وسیلہ ہوتی چلی جائے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مال دار اور نادار طبقات کے درمیان تضاد اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ ایک نہ ختم ہونے والی کشیدگی شروع ہوجاتی ہے جو بالآخر معیشت اور معاشرت دونوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔ زکوٰۃ کے خودکار نظام سے دولت کے ارتکاز میں کمی آتی ہے۔ اس کی مثال ایک ایسے پائپ سے دی جا سکتی ہے جس کے ذریعے ٹینکی کا ذخیرہ آب ایک حد تک پہنچتے ہی ازخود باہر آنے لگتا ہے اور پانی کی مقدار ایک خاص پیمایش سے زیادہ نہیں ہونے پاتی۔
جس طرح آبِ رواںصاف ستھرا ہوتا ہے‘ اسی طرح کسی خوش حال سوسائٹی کی پہچان یہ ہے کہ وہاں سرمایہ گردش میں رہے‘ اور وسائل حیات کی ہمہ وقت طلب و صرف کا سلسلہ جاری رہے۔ یہ کارِخیر نظام زکوٰۃ سے بخوبی سرانجام پاتا ہے۔ اس کے ذریعے اڑھائی فی صد دولت مال داروں کی آہنی تجوریوں سے مسلسل باہر آتی ہے۔ عوام کے ہاتھوں میں پہنچتی ہے تو ان کی قوت خرید میں اضافہ ہوتا ہے۔ یوں اشیا کی مانگ بڑھتی ہے جس کے سبب پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے‘ اور معیشت میں روز بروزترقی ہوتی ہے۔
نظام زکٰوۃ کی انفرادیت: بلاشبہ اسلام کا نظام زکوٰۃ تاریخ انسانیت میں جدید اور منفرد نظام ہے جس تک انسانی فکر کی کبھی رسائی نہیں ہوئی اور نہ کسی آسمانی شریعت نے اس قدر مفصل نظام وضع کیا۔
ڈاکٹر یوسف القرضاوی اپنی کتاب فقہ الزکوٰۃ میں لکھتے ہیں: ’’اسلام کا نظام زکوٰۃاجتماعی‘ سیاسی‘ اخلاقی اور دینی پہلوئوں کا حامل بے مثال مالی اور اقتصادی نظام ہے۔ مالی اور اقتصادی نظام اس لیے ہے کہ یہ ایک قسم کا محدود مالی ٹیکس ہے جو رؤسا پر عائد ہوتا ہے‘ جیسے زکوٰۃ الفطر اور آمدنیوں اور اموال پر عائد ہوتاہے‘ جیسے عام زکوٰۃ۔
اجتماعی نظام اس لیے ہے کہ یہ درحقیقت معاشرے کے تمام افراد کے لیے ایک نظام تامین ہے جس سے ہر فرد معاشرہ کو مصائب وآفات سے تحفظ ملتا ہے‘ اور انسانی اخوت و یک جہتی وجود میں آتی ہے۔ زکوٰۃ کا سیاسی پہلو یہ ہے کہ ریاست زکوٰۃ کی تحصیل اور توزیع کے فرائض انجام دیتی ہے۔
چونکہ زکوٰۃ قلوب کی تطہیر کرتی ہے اور اغنیا کے نفوس کو بخل اور دنائت سے پاک کرتی ہے اور نارِحسد کو بجھا کر محبت و اخوت پیداکرتی ہے ‘اس لیے یہ ایک اخلاقی نظام بھی ہے۔
اس امر میں توکوئی شبہ ہی نہیں کہ زکوٰۃ ایک دینی نظام ہے۔ اس لیے کہ زکوٰۃ فریضہ اسلامی ہے‘ اور اس کا مقصد ہی ایمان کو تقویت دینا اور اللہ کی اطاعت کے لیے تیار ہونا ہے‘ اور اس لیے کہ زکوٰۃ دین اسلام کا ایک رکن ہے جس کی مقادیر اور مصارف دین ہی نے مقرر کیے ہیں‘ اس لیے بھی کہ اس کا ایک حصہ اعلاے کلمۃ اللہ اور دعوت دین میں صرف ہوتا ہے‘‘۔ (فقہ الزکوٰۃ‘ ج ۲‘ ص ۱۱۲۰-۱۱۲۱)
زکوٰۃ کی ایک نمایاں خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے سید ابوالحسن علی ندویؒ لکھتے ہیں: ’’زکوٰۃ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس اُمت کے ساتھ لطف و رحمت کا معاملہ اور نعمت نبوت کا ثمرہ اور نتیجہ ہے جس کا بار سب سے کم اور برکت سب سے زیادہ ہے۔ اس لیے کہ وہ اغنیا سے وصول کی جاتی ہے اور فقرا کو لوٹا دی جاتی ہے‘‘۔ (الارکان الاربعۃ‘ ص ۱۲۲‘ دارالفتح‘ بیروت ۱۹۶۸ء)
مزید لکھتے ہیں: ’’اس کے برعکس جو ٹیکس موجودہ حکومتوں میں لگائے جاتے ہیں وہ زکوٰۃ کی عین ضد ہیں۔ یہ ٹیکس (خواہ ظالمانہ ہوں یا عادلانہ‘ کم ہوں یا زیادہ) زیادہ تر متوسط طبقہ اور غربا سے وصول کیے جاتے ہیں اور اغنیا و امرا کی طرف لوٹا دیے جاتے ہیں‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۱۲۱)
زکٰوۃ اور ٹیکس میں فرق: زکوٰۃ اور ٹیکس کے فرق کو بھی سمجھ لینا چاہیے۔ مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ رقم طراز ہیں: ’’زکوٰۃ کے متعلق پہلی بات یہ سمجھ لینی چاہیے کہ یہ ٹیکس نہیں ہے بلکہ ایک عبادت اور رکن اسلام ہے‘ جس طرح نماز‘ روزہ اور حج ارکانِ اسلام ہیں۔ جس شخص نے بھی کبھی قرآن مجید کو آنکھیں کھول کر پڑھا ہے وہ دیکھ سکتا ہے کہ قرآن بالعموم نماز اور زکوٰۃکا ایک ساتھ ذکر کرتا ہے اور اسے اُس دین کا ایک رُکن قرار دیتا ہے جو ہر زمانے میں انبیاے کرام کا دین رہا ہے۔ اس لیے اس کو ٹیکس سمجھنا اور ٹیکس کی طرح اس سے معاملہ کرنا پہلی بنیادی غلطی ہے۔ ایک اسلامی حکومت جس طرح اپنے ملازموں سے دفتری کام اور دوسری خدمات لے کر یہ نہیں کہہ سکتی کہ اب نماز کی ضرورت باقی نہیں کیونکہ انھوں نے سرکاری ڈیوٹی دے دی ہے‘ اسی طرح وہ لوگوں سے ٹیکس لے کر یہ نہیں کہہ سکتی کہ اب زکوٰۃ کی ضرورت باقی نہیں کیونکہ ٹیکس لے لیا گیا ہے۔ اسلامی حکومت کو اپنے نظام الاوقات لازماً اس طرح مقرر کرنے ہوںگے تاکہ اس کے ملازمین نماز وقت پر ادا کر سکیں۔ اسی طرح اس کو اپنے ٹیکسیشن کے نظام میں زکوٰۃ کی جگہ نکالنے کے لیے مناسب ترمیمات کرنی ہوگی۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ حکومت کے موجودہ ٹیکسوں میںکوئی ٹیکس اُن مقاصد کے لیے اُس طرح استعمال نہیں ہوتا ہے جن کے لیے قرآن میں زکوٰۃ فرض کی گئی ہے اور جس طرح اس کے تقسیم کرنے کا حکم ہے‘‘۔ (رسائل و مسائل‘ حصہ سوم‘ ص ۳۰۷-۳۰۸)
آج اگر ہم اپنی مادی مشکلات سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اسلام کے اس آزمودہ نظام زکوٰۃ کی برکات سے استفادہ کرنا ہوگا جس کے چشمہء شفا پر عرصۂ دراز سے ہم نے اپنے ہاتھوں سے بھاری پتھر رکھ چھوڑا ہے۔