سوال: میں اور میرے شوہر دونوں ملازمت کرتے ہیں۔ میرے شوہر مجھ سے ایک ایک پیسے کا حساب لیتے ہیں۔ میں اپنی مرضی سے کچھ خرچ نہیں کر سکتی‘ نہ اپنے اوپر‘ نہ اپنے بچوں پر۔قرآن پاک میں جہاں ماں باپ کے حقوق کا ذکر ہے اس کے مطابق کیا مرد اور عورت دونوں پر فرض نہیں ہے کہ اپنے ماں باپ کی خدمت کریں؟ اگر ایسا ہے تو کیا ہمارا معاشرہ عورت کو اجازت دیتا ہے کہ وہ شادی کے بعد اپنے ماں باپ کی خدمت کر سکے یا بہ وقت ضرورت ان پر خرچ کر سکے‘ یا پھر ان کی خدمت کی غرض سے انھیں اپنے گھر میں رکھ سکے؟ میں ایک ملازمت پیشہ خاتون ہونے کے باوجود یہ سب نہیں کر سکتی اور اپنے بیمار‘ ہسپتال میں داخل باپ کی کسی قسم کی امداد نہیں کر سکتی‘ بالخصوص مالی امداد جس کی انھیں سخت ضرورت بھی ہے۔ میرے ماں باپ مجھ سے ناراض بھی ہیں‘ جب کہ انھیں یہ معلوم ہے کہ ہم دونوں کی تنخواہ سے ہر ماہ ایک معقول رقم بچ جاتی ہے۔ کیا والدین کی خدمت کا قرآنی حکم صرف مردوں کے لیے ہے ؟اگر عورت کمائے تو کیااس کی کمائی پر بھی سب سے پہلا حق ماں باپ کا نہیں ہے؟
میرے شوہر نمازی ہیں‘ درس قرآن میں بھی جاتے ہیں‘ اور ترجمان القرآن بھی باقاعدگی سے پڑھتے ہیں لیکن جہاںعورت کے حقوق کا ذکر آتا ہے‘ نظرانداز کر جاتے ہیں۔ اگر ان سب کا اثر میرے شوہر پر نہیں ہو رہا جو کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں تو آپ معاشرے کے کن مردوں کو باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ عورت کے بھی کچھ حقوق ہیں۔ جب مردوں کی ذہنیت کو بدلا نہیں جا سکتا تو عورت کو بھی اندھیرے ہی میں رہنے دیں۔ اگر وہ سب کچھ جاننے کے بعد اپنے حق میں آواز اٹھائے گی تو زبان دراز کہلائے گی۔ بارہا دینی کتابوں میں پڑھا ہے کہ ایسی عورت جنت کی خوشبو تک نہ پاسکے گی جس کا شوہر اس سے ناراض ہو‘ اور یہ بھی کہ اچھی عورت وہ ہے جو شوہر کا ہر حکم بجا لائے۔ کیا عورت شوہر کے ہر طرح کے جائز اور ناجائز مطالبات صرف اس ڈر سے مانتی چلی جائے کہ اگر وہ ناراض ہو گیا تو خدانخواستہ وہ جنت سے محروم نہ ہو جائے‘ اور ہر طرح کاظلم برداشت کرتی چلی جائے‘ جب کہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھانا بھی گناہ ہے۔
مذہب کے بارے میں تفصیل سے پڑھنے اور اپنے حقوق جاننے کے بعد اور اپنے ساتھ ہونے والی مسلسل ناانصافیوں کو دیکھتے ہوئے میں ایک مسلسل ذہنی عذاب سے دوچار ہوں۔ کیا میںماں باپ کو ناراض رکھوں یا شوہر سے جھگڑا کر کے گناہ گار ہوں؟ میرے محدود علم کے مطابق تو میرے شوہرمیرے اور بچوں کی ضروریاتِ زندگی فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیں
جب کہ وہ تو الٹا مجھ سے میرے پیسے بھی لے لیتے ہیں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں میری رہنمائی کیجیے؟
جواب: آپ نے جو سوالات اٹھائے ہیں ان کا تعلق ہمارے معاشرے کے بعض بنیادی رجحانات سے ہے۔ ان رجحانات اور رویوں کا پایاجانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ صدیوں سے مسلمان چلے آنے کے باوجود ہم ابھی تک اسلام کو بحیثیت دین کامل ماننے پر آمادہ نہیں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی طرح عبادت اور چند مذہبی رسومات کی ادایگی سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم اپنے فرائض سے سبک دوش ہوگئے۔ اسلام کو دین ماننے کا مطلب یہ ہے کہ اسے عبادت کے ساتھ معاملات میں بھی رہنما بنایا جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ عبادات بھی معاملات کی ادایگی کی ایک شکل ہیں جنھیں ایک بندہ اپنے رب‘ خالق اور اللہ کے ساتھ اپنے معاملے کو مکمل عبدیت کی بنیاد پر ادا کرتا ہے۔ اسلام کی تعریف ہی یہ کی جاتی ہے کہ یہ حقوق اللہ اور حقوق العباد پر مشتمل ہے۔ اس کا حق یہ ہے کہ صرف اور صرف اللہ کو عبادت‘ استعانت اور حاکمیت کا مستحق مانا جائے‘ اور بندوں کا حق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی حدود کا خیال رکھتے ہوئے عباد اللہ کے حوالے سے جو ذمہ داری عائد ہوتی ہیں انھیں ادا کیا جائے۔
عباد الرحمن کے حوالے سے حقوق و فرائض میں سرفہرست والدین کا ذکر آتا ہے۔ قرآن پاک میں سورہ الاحقاف (۴۶:۱۵)‘ بنی اسرائیل (۱۷: ۲۳‘ ۲۴)‘ عنبکوت (۲۹: ۳-۸)‘ (البقرہ ۲:۲۱۵) اور لقمان (۳۱:۱۴‘ ۱۵) میں والدین کے حقوق ادا کرنے کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔
قرآن کریم نے واضح کر دیا ہے کہ والدین پر خرچ کرنا اولاد کے فرائض میں شامل ہے ۔اسی بات کو بخاری اور مسلم میں حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ سے یوں روایت کیا گیا ہے ’’اس زمانے میں جب قریش اور مسلمانوں کے درمیان صلح ہوئی تھی (صلح حدیبیہ)‘ میری (رضاعی) ماں میرے پاس آئی اور وہ ابھی اسلام نہیں لائی تھی بلکہ شرک کی حالت پر تھی‘ تو میںنے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میری ماں میرے پاس آئی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ میں اسے کچھ دوں تو کیا میںاسے دے سکتی ہوں؟ آپؐ نے فرمایا: ’’ہاں‘ تم اس کے ساتھ مہربانی کا سلوک کرو‘‘۔
یہ ہدایت غیر معمولی توجہ کی مستحق ہے۔ قرآن میں والدین اور اقربا پر خرچ کرنے کا حکم دیا گیا ہے‘ تو حدیث میں یہ بتایا گیا کہ اگر خونی یا رضاعی رشتہ کسی مشرک سے بھی ہو‘ جب بھی قرآنی حکم پر عمل ہوگا۔ پھر یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ محض شوہر یا مرد کے ماں باپ نہیں بلکہ عورت بھی اپنے رضاعی یا حقیقی ماں باپ پر خرچ کرنے کا شرعی حق رکھتی ہے۔
اس حدیث صحیح سے اسلام کے اصولِ تملیک کی تصدیق ہوتی ہے‘ یعنی عورت اپنی ملکیت پر تصرف کا پورا حق رکھتی ہے اور کسی کو اس سے حساب لینے یا پوچھنے کا حق نہیں کہ اس نے اپنی ملکیت کا کیا کیا۔ قبل اسلام کی جاہلی روایت کہ ایک عورت سے نکاح کے بعد عورت ہی نہیں اس کا تمام مال شوہر کی ملکیت بن گیا‘ اسلام کے بنیادی اصولوں سے ٹکراتی ہے۔ ایک کم پڑھا لکھا مسلمان بھی یہ جانتا ہے کہ ایمان کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جب ایک مسلمان مرد اور عورت شہادت کے ساتھ ارکان دین کو قائم کریں۔ چنانچہ نماز کا قائم کرنا اور زکوٰۃ کا دینا‘ رمضان کے روزے رکھنا اور حج کرنا معروف فرائض دین ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عورت کس مال میں سے زکوٰۃ دے کر ایمان مکمل کرے گی؟ کیا وہ شوہر کے مال پر زکوٰۃ دے گی یا جو اس نے کمایا یا کسی دوسرے ذریعے ‘ وراثت یا تجارت وغیرہ سے حاصل کیا ہے اس پر زکوٰۃ دے گی؟ جب تک عورت مال کی مالکہ نہ ہو اس پرزکوٰۃ بھی واجب نہ ہوگی‘ تو کیا زکوٰۃ کا حکم عورت کے لیے نہیں ہے!
ان اصولوں اور بنیادی قرآنی تعلیمات کی روشنی میں آپ خود غور کریں کہ جب اللہ کا حکم ہے کہ والدین پر خرچ کرو اور شوہر کا حکم ہو کہ اپنی کمائی میں سے بھی‘ جو کسی بھی قانون کے تحت شوہر کی ملکیت قرار نہیں دی جا سکتی‘ اپنے والدین پر خرچ نہ کرو تو کس کا حکم ماننا مسلمان پر فرض ہے۔
جہاںتک سوال شوہر کے ناراض کیے جانے کا ہے تو بلاشبہ سربراہ خاندان کی حیثیت سے وہ جس عزت‘ محبت و احترام کامستحق ہے وہ اسے لازماً ملنی چاہیے لیکن بیوی پر اس کے مطالبات کو قرآن و حدیث نے واضح کر دیا ہے ۔ہمارے معاشرے میں حتیٰ کہ تحریکی خاندانوں میں بھی ابھی تک بہت سے جاہلی تصورات پر عمل کیا جا رہا ہے۔ فقہ حنفی کا معروف موقف ہے کہ ایک شوہر اپنی بیوی سے نہ تواچھے کھانے پکانے کا مطالبہ کر سکتا ہے‘ نہ گھر کی صفائی ستھرائی اور کپڑوں پر استری‘ اور بدبودار موزوں کی دھلائی پراصرار کر سکتاہے۔قرآن و سنت کی روشنی میں وہ صرف یہ مطالبہ کر سکتاہے کہ وہ جب گھر میں داخل ہو تو بیوی کواچھے حلیے میں دیکھ کر اس کی آنکھوں میں ٹھنڈک آجائے (قرۃ العین)۔ وہ جب اسے بستر پر بلائے تو بیوی بلا شرعی عذر انکار نہ کرے کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ اگر وہ انکار کرے گی تو رات سے صبح تک فرشتے اس پر لعنت بھیجیں گے۔ یہاں یہ بات سمجھ لیجیے کہ اس کا اصل سبب نفسی تسکین نہیں ہے بلکہ اصل سبب پاک بازی اور عصمت کا تحفظ ہے۔ اگر ایک بیوی شوہر کی اس خواہش کو ردّ کرے گی تو ممکن ہے وہ ایک فطری خواہش کی تکمیل کسی غلط طریقے سے کرے۔ اس لیے برائی کا راستہ بند کرنے کے لیے واضح حکم دیا گیا ہے۔
حدیث سے ثابت ہے کہ حضور نبی کریمؐ نے ایک بیوی کو یہ حق دیا ہے کہ وہ شوہر کی استطاعت کے پیش نظر اس سے ایک خادم کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ گویا گھر کے کام جو ہم نے بیوی سے کرانے ضروری قرار دیے ہیں اگر وہ واقعی فرائض ہوتے تو خدمت گار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ قرآن تو یہاںتک کہتا ہے کہ اگر بیوی خود اپنی اولاد کو اپنا دودھ پلاتی ہے تو شوہر بیوی کے اس احسان کا احساس کرتے ہوئے اسے اس ’’خدمت‘‘ پر اچھا بدلہ تحائف یا رقم کی شکل میں دے۔
متعین طور پر یوں سمجھیے کہ ایک بیوی اپنی ذاتی کمائی یا اس رقم میں سے جو شوہر بطور جیب خرچ اسے دے‘ جب جہاں اور جتنا چاہے اپنی صواب دید سے خرچ کر سکتی ہے۔ اسے شوہر کی اجازت کی ضرورت نہیں۔ وہ خود اس کی ملکیت ہے۔ ہاں‘ شوہر جورقم گھر کے خرچ کے لیے دے‘ اسے گھر پر ہی خرچ ہونا چاہیے۔ اس میں بھی اگر کوئی رقم بچتی ہے تو باہمی مشورے سے گھر کے لیے یا بچوں کے لیے اس سے کوئی بھی چیز لی جا سکتی ہے۔ ماں باپ کی خدمت کے حوالے سے مرد اور عورت دونوں پر یکساں ذمہ داری ہے۔ شوہر اگر کسی ناجائز بات کا حکم دے اور بیوی کے انکار پر ناراض ہو تو بیوی پر اس کا کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ شریعت کا اصول ہے لاطاعۃ المخلوق فی معصیۃ الخالق- ہاں‘ خاندان کے معاملات خاندان کے اندر ہی محبت‘ احترام اور نرمی سے طے ہونے چاہییں۔ اس میں جھگڑے کی شکل پیدا کرنا مناسب نہ ہوگا۔
اسلامی شریعت شوہر کو بیوی اور بچوں کی ضروریات پوری کرنے کا ذمہ دار قرار دیتی ہے‘ جب کہ بیوی صاحب ِ مال ہونے کے باوجود شوہر یا بچوں پر خرچ کرنے کی مکلف نہیں ہے۔ اگر وہ اپنی خواہش سے ان پر یا شوہر پر خرچ کرتی ہے تو یہ اس کی جانب سے ایک صدقہ ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک صحابیہؓ نے حضور نبی کریمؐ سے صدقہ دینے کے بارے میں دریافت کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ اپنے شوہر کو دو کیونکہ وہ غریب ہے۔ یہ نہیں فرمایا کہ تمھارا جو مال ہے وہ خود بخود شوہر کا مال بن گیا۔ جو شوہر آخرت کی کامیابی چاہتے ہیں‘ انھیں اس دنیا میں اپنی بیویوں کے مال پر نہ تو قبضہ کرنا چاہیے اور نہ اپنی بیویوں کو اپنی ملکیت کو خرچ کرنے سے روکنا چاہیے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
س : صوبہ سرحد میں ضلع چارسدہ اور مردان میں رمضان المبارک اور عیدین ملک کے تمام حصوں سے مقدم اور اختلافی منائے جاتے ہیں۔ ان اضلاع میں دو ایسے مراکز ہیں جو عرصہ دراز سے ان فیصلوں کے لیے مشہور ہیں۔ یہ مراکز رویت ہلال کا فیصلہ کبھی رویت پر کرتے ہیںاور کبھی حساب پر۔ ان کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ صحیح طرزعمل کی طرف رہنمائی فرما دیں۔
ج : پاکستان کی مرکزی رویت ہلال کمیٹی علماے دین پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کا تقرر حکومت پاکستان کرتی ہے جو اگرچہ حکومت عادلہ کی شرائط پر پوری نہیں اترتی اور اسی وجہ سے مسلمانان پاکستان پر عادل حکومت کے قیام کے لیے جدوجہد کرنا شرعاً لازم ہے۔ چونکہ یہ مسلمان حکومت ہے‘ اس لیے اس کے مقرر کردہ احکام اور قضاۃ کے فیصلے شرعاً نافذ ہوتے ہیں اور ان کی پابندی ضروری ہے بشرطیکہ وہ شرعی احکام و قواعد سے متصادم نہ ہوں۔
ساری دنیا کے مسلمانوںکے لیے ایام رمضان و عیدین کی وحدت ضروری نہیں ہے۔ جس طرح ان کی نمازوں کے اوقات میں فرق ہوتا ہے‘ اسی طرح ان کے ایام رمضان و عیدین میں بھی فرق ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی حدود میںرمضان و عیدین کی وحدت کے لیے شرعی و فقہی قواعد کے مطابق صحیح طریقہ یہی ہے کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے کی پابندی کی جائے اور غیر سرکاری رویت ہلال کمیٹیاں رمضان و عیدین کا اعلان نہ کریں اور انفرادی طور پر کوئی عالم بھی اعلان نہ کرے۔ حکومت کی مقرر کردہ علاقائی کمیٹیوں میںسے اگر کسی کمیٹی کے سامنے چاند دیکھنے کی شہادت ہو جائے‘ اور اس کمیٹی نے اس شہادت کو شرعی قواعد کے مطابق قبول کر لیاہو‘ تو وہ اپنے فیصلے سے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کو ٹیلی فون یا فیکس یا کسی دوسرے معتمد ذریعے سے مطلع کرے اور ازخود اعلان نہ کرے تاکہ مرکزی کمیٹی علاقائی کمیٹی کے فیصلے کو پورے ملک میں نافذ کرے بشرطیکہ علاقائی کمیٹی کا فیصلہ شرعی قواعد سے متصادم نہ ہو۔ جب پورے ملک کے علماے دین اور مراکز فتویٰ مرکزی کمیٹی کے فیصلے پر عمل کرتے ہیں توصوبہ سرحد کے علما کو بھی چاہیے کہ وہ اس کے فیصلے کی پابندی کریں اور انفرادی فیصلے نہ کریں۔ (مولانا گوہر رحمان)