تیرھویں صدی عیسوی میں ‘ عرب مسلمان تاجروں کے ذریعے جزائر شرق الہند ]انڈونیشیا[ میں اسلام کی روشنی پہنچی۔ گذشتہ ۲۰۰ برس کے دوران مغربی استعمار میں سب سے پہلے پرتگالی ‘ ان کے بعد ہسپانوی اور آخر میں ولندیزی فوجوں نے انڈونیشیا کے جزائر پر قبضہ جمایا۔ ولندیزیوں نے یہاں کے کلچر کو مغربی اور عیسائی رنگ میں رنگنے کے لیے فوج اور پادریوں سے مدد لی۔ ۳ہزار سے زیادہ جزائر پر مشتمل‘ دنیا کا یہ سب سے بڑا مسلم ملک ۱۹۴۹ء میں آزاد ہوا۔
پوری مسلم دنیا میں ‘ انڈونیشیا ایک ایسا خطہ ہے ‘ جہاں پر مسلمان عورتوں میں دینی تبلیغ اور دینی تعلیم کا ایک بڑا وسیع اور مربوط نظام قائم ہے۔ اس نظام میں ’’مبلغہ‘‘ کا رول نہ صرف ایک دینی معلمہ کا سا ہے ‘ بلکہ وہ معاشرے کے باہمی تعلقات کی مضبوطی میں بھی ایک اہم عنصر ہے۔ دینی مبلغہ اسلام کا پیغام عام کرنے کے ساتھ معاشی‘ خانگی‘ طبی‘ سیاسی اور سماجی پہلوئوں پر بھی اپنی سامع خواتین کو رہنمائی دیتی ہے۔
انڈونیشیا میں دو طرح کے تعلیمی ادارے ہیں: ایک کو پینرنتران (pesantran)کہتے ہیں جہاں عام طور پر وہی تعلیم دی جاتی ہے‘ جیسی ہمارے ہاں عام اسکولوں میں رائج ہے‘ تاہم اس کے ساتھ بچے بچیوں کے لیے دینی تعلیم کا بھی خصوصی طور پر انتظام کیا جاتا ہے۔ دوسرے تعلیمی ادارے ’’مدارس‘‘ کہلاتے ہیں۔ یہ ہمارے دینی مدارس سے ملتے جلتے ہیں‘ مگر اپنے نصاب اور نظام کار میں ان سے زیادہ جدید ہیں۔ اس نظام میں خواتین ’’مبلغات‘‘ کا کردار بڑا منفرد ہے۔
انڈونیشی مسلم ’’مبلغات‘‘ کی دو قسمیں ہیں: پہلی کسی دینی معلم ’’کیائے‘‘ (kyai) کی بیوی ’’نیائے‘‘ (nyai) کہلاتی ہے‘ اور دوسری کو ’’استاذہ‘‘ کہتے ہیں۔ استاذہ دراصل معلمۂ قرآن ہوتی ہے۔ ’’نیائے معلمہ‘‘ اپنے شوہر یا والد کے سماجی اثرات کے پھیلائو کی بنیاد پر دینی تعلیم کا کام شروع کرتی ہے۔ اس کی مقبولیت میں بڑا حصہ اس کے شوہر کی معلمانہ قابلیت اور سماجی قبولیت کا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ’’استاذہ‘‘ خانگی دائرہ اثر سے بالا محض اپنی صلاحیت اور محنت کے بل پر دینی تعلیم پھیلاتی ہے۔
’’استاذہ‘‘ بچوں کو قرآن پڑھنا سکھاتی ہے ‘اور دین کے بنیادی موضوعات پر تعلیم دیتی ہے۔ اس کی کامیابی اور مقبولیت کا راز اس کی تقریری صلاحیت اور ’’مجلس تعلیم‘‘ کو منظم کرنے کی مہارت پر منحصر ہوتا ہے۔ ایسی مقبول اساتذہ میں سے بعض کو اپنے خانگی پس منظر کے باعث کام کی سہولت حاصل ہوتی ہے‘ لیکن بیش تر خاتون اساتذہ‘ اپنی بے پناہ محنت‘ لگن اور علمی قابلیت کے بل پر معاشرے میں توجہ اور احترام کا مقام حاصل کرتی ہیں۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ان مبلغات میں ایک قابل ذکر تعداد نومسلم خواتین کی ہے۔ نومسلم مبلغات میں اکثریت کا تعلق چینی نسل سے ہے۔ نومسلم مبلغات کی شہرت اور خواتین میں مقبولیت کا ایک سبب ان کا نومسلم ہونا بھی ہوتا ہے کہ: ’’انھوں نے سچے دل سے اسلام قبول کیا ہے اور اب دین اسلام کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کیے ہوئے ہیں‘‘۔
صدر سہارتو کے زمانے میں ان دینی مبلغات کی سرگرمیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا‘ کیونکہ حکومت کا خیال تھا کہ ’’مبلغہ خواتین کی تعلیم‘ تربیت‘ تہذیب اور ترقی کے لیے رضاکارانہ طور پر جو خدمت انجام دیتی ہے‘ وہ سرکاری اداروں اور ذرائع ابلاغ سے بھی ممکن نہیں‘‘۔ انڈونیشیا کی جدید تاریخ پر نظر رکھنے والے ماہرین کی رائے ہے کہ بہت سی مبلغات نے واقعتا اپنے اثرانگیز اسلوب بیان کے ذریعے خواتین کی نہ صرف تعلیمی ترقی کا گراں قدر کام کیا‘ بلکہ ان پر کسی بھی سیاسی یا مذہبی رہنما سے زیادہ گہرے اثرات مرتب کیے۔
انڈونیشیا میں اسلام کی دعوت‘ تبلیغ‘ تنظیم اور اجتماعی جدوجہد کرنے والی دو بڑی تحریکیں محمدیہ اور نہضۃ العلما کے نام سے معروف ہیں۔ ان میں محمدیہ کو ’’جدیدیت کی علم بردار‘‘ (modernist) اور نہضۃ کو ’’روایتی‘‘ (traditional)دھارے میں شمار کیا جاتا ہے۔ دونوں نے خواتین اور طالبات میں کام کے لیے علیحدہ تنظیمیں قائم کی ہیں۔ نہضہ کی طالبات کی تنظیم فتایۃ اور خواتین کی مسلمات ہے۔ اسی طرح ’’محمدیہ‘‘ کی طالبات کے لیے نصیحۃ اور خواتین کے لییعائشیۃ ہے۔
فتایۃ اور نصیحۃ‘ طالبات کی حد تک‘ دینی تعلیم‘ دنیاوی تعلیم اور سماجی بہبود کے کاموں میں فعال حصہ لیتی ہیں۔ خواتین کی تنظیمات مسلمات اور عائشیۃ کی سب سے بڑی سرگرمی پینگاژن (یعنی درس قرآن) اور مجلس تعلیم کا باقاعدگی سے انعقاد ہے۔ ان تنظیموں کی ترجیح اول یہ ہے کہ ان سے وابستہ خواتین‘ درس کی مجلسوں میں لازماً شرکت کریں‘ تاہم وہ عام خواتین کو بھی شرکت کے لیے باقاعدہ دعوت دیتی ہیں۔
ان مجلسوں کے نتیجے میں کئی اساتذہ‘ مقبول معلمات بن جاتی ہیں۔ بہت سی ’’نیائے‘‘ معلمات اور اساتذہ مذکورہ بالا تنظیموں سے تعلق رکھتی ہیں ‘ لیکن اس کے باوجود روایتی اور جدید دھارے سے متاثر ایک بڑی تعداد ایسی ’’نیائے معلمات‘‘ اور اساتذہ خواتین کی ہے‘ جو آزادانہ طور پر اپنا تدریسی و تعلیمی نظام کار منظم کرتی ہیں۔ ایسی مبلغات شہر کی پسماندہ ترین آبادیوں اور دُور دراز علاقوں میں اپنے کام کا آغاز کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ البتہ کچھ تدریسی حلقے شہر کی خوش حال آبادیوں میں بھی قائم کرتے ہیں۔ ان مبلغات کی درسی اور تبلیغی مصروفیات کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے ‘ کہ ایک مبلغہ ہفتے کا پہلا روز گھریلو خواتین میں‘ دوسرا روز طالبات میں‘ تیسرا روز پڑھی لکھی خواتین کی محفل میں‘ چوتھا روز مختلف دفاتر میں ملازمت سے وابستہ خواتین میں درس دینے کے لیے مخصوص کرتی ہے۔ باقی دنوں میں بعض اوقات خوشی اور غمی کی مجلسوں میں شرکت کرتی ہے۔
ان درسی مجلسوں میں شرکت کرنے والی خواتین ایک بڑے کمرے میں نشست منعقد کرتی ہیں‘ جہاں پر ایمان و تقویٰ اور معاشی ‘ سماجی اور تعلیمی موضوعات پر درس کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اگرچہ مختلف عمروں اور مختلف سماجی و معاشی طبقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین ان درسوں میں شریک ہوتی ہیں‘ لیکن یہ سماجی اونچ نیچ ان کے باہم گھل مل جانے میں کوئی رکاوٹ نہیں پیدا کرتی۔
خواتین کی مجلس تعلیم کا حال: ایک غیر مسلم اسکالر خاتون لیزایم مارکوس نے انڈونیشی مسلم خواتین میں اس دینی سرگرمی کا جائزہ لینے کے لیے تحقیق کے دوران ایک ’’مجلس تعلیم‘‘ کا آنکھوں دیکھا حال لکھا‘ جو یہاں پیش کیا جا رہا ہے:
یہ صبح چھ بجے کا وقت ہے۔ شہر کے مضافات میں چاول کے کھیتوں کے بیچوں بیچ خواتین کا ایک گروپ آ رہا ہے۔ ان میں کچھ ادھیڑ عمر کی ‘ بعض نوجوان اور بقیہ درمیانی عمر کی عورتیں ہیں۔ زیادہ تر نے انڈونیشیا کا روایتی لباس پہن رکھا ہے ۔ کچھ نے پتلونیں پہنی ہوئی ہیں‘ لیکن اُوپرایسا ڈھیلا ڈھالا کرتا ہے جو گھٹنوں سے نیچے تک چلا گیا ہے۔ تمام عورتوں نے سر پر اسکارف اس طرح باندھ رکھا ہے کہ ان کے سر کا ایک بال بھی دکھائی نہیں دے رہا‘ جب کہ دوسرا اسکارف چادر کی طرح اپنے ارد گرد لپیٹ رکھا ہے۔ کچھ عورتوں نے سر پر اسکارف کے بجائے ٹوپیاں پہنی ہوئی ہیں۔ بعض نوجوان عورتوں نے اپنے کم سن بچوں کو بھی اٹھایا ہوا ہے۔ یہ سب عورتیں ’’مجلس تعلیم‘‘ میں شرکت کے لیے اجتماع گاہ آ رہی ہیں۔
اجتماع گاہ پہنچنے سے پہلے ہی ذرا بلند آوازیں سنائی دینے لگتی ہیں۔ یہ آوازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کی ہیں۔ البتہ ان میں سب سے نمایاں ترین آواز نعت پڑھنے والی خاتون کی ہے۔ یہ وہ خواتین ہیں جو قدرے پہلے اجتماع گاہ میں پہنچ چکی ہیں۔ ایسی اجتماع گاہوں کے مختلف نام بھی ہوتے ہیں۔ اس اجتماع گاہ کا نام ’’نورالاحیا‘‘ ہے۔ یہاں پہنچنے والی تمام ہی عورتیں ایک دوسرے کو خوش اخلاقی سے سلام کہتی اور خیریت دریافت کرتی ہیں۔ البتہ نوجوان عورتیں‘ بڑی عمر کی خواتین کی تعظیم کرنے کے لیے ان ہاتھوں کی پشت کو بوسہ دیتیں اور دعائیں لیتی ہیں۔ اب ہال کھچا کھچ بھر چکا ہے۔ ایک عورت نعت پڑھ رہی ہے‘ تاہم کچھ عورتیں درود شریف پڑھ رہی ہیں‘ اور باقی عورتوں کو آپس میں گفتگو کرنے کا ایک اچھا موقع ملا ہے جس سے وہ استفادہ کر رہی ہیں۔
اسی دوران سفید لباس زیب تن کیے ہوئے ایک ’’کیائے‘‘ (دینی معلم‘ شوہر) اور ’’نیائے‘‘ (اس کی معلمہ بیوی) ہال میںداخل ہوتے ہیں‘ اور سب کو ’’السلام علیکم‘‘ کہہ کر ایک چوڑے بنچ پر بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں قرآن اور عربی کی کتب ہیں۔ بغیر کسی تاخیر کے نیائے ]معلمہ[ سورۃ فاتحہ پڑھتی ہے‘ اور اس کے ساتھ تمام عورتیں کورس کی صورت میں سورۃ فاتحہ کی تلاوت کرتی ہیں۔یہ سلسلہ صرف ایک بار پڑھنے سے رک نہیں جاتا بلکہ ’’نیائے‘‘ ]معلمہ[ کی رہنمائی میں وہ ۱۰ بار‘ سورہ فاتحہ پڑھتی ہیں ‘ ہر بار سورۃ مکمل کرنے کے بعد خدا کے حضور بخشش اور سلامتی کے لیے کسی ایک فرد کے لیے ایک جملے میں دعا کرتی ہیں‘ مثلاً حضرت آدم ؑ، حضرت ابراہیم ؑ، حضرت محمدؐ، حضرت خدیجہؓ، حضرت ابوبکر صدیق ؓ،حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز اور آخر میں خود مجلس تعلیم کی شرکا کے لیے دعا کرتی ہیں۔ جب فاتحہ کے ساتھ یہ دعائیہ عمل ختم ہوتا ہے تو ’’نیائے‘‘ ]معلمہ[ اپنے شوہر ’’کیائے ‘‘]معلم[ سے کہتی ہیں‘ وہ گذشتہ درس کا خلاصہ بیان کرے۔ جس کے بعد کیائے ]معلم[ قرآنی تفسیرجلالین سے عربی متن کی ایک ایک لائن پڑھتا ہے جس کا انڈونیشی میں ترجمہ اس کی بیوی‘ نیائے ]معلمہ[کرتی جاتی ہے۔ جونہی متن کا ترجمہ ختم ہوتا ہے تو پھر نیائے ]معلمہ[ اپنی علمی صلاحیت کی بنیاد پر اس متن کا موجودہ دینی‘ اخلاقی‘ سیاسی‘ ذہنی اور سماجی نوعیت کے روز مرہ مسائل سے تعلق جوڑتی ہے اور یہ عمل بڑا پرُتاثیر ہوتا ہے۔ ’’کیائے‘‘ ]معلم[ اگرچہ پورے درس میں زیادہ تر خاموش رہتا ہے‘ لیکن اپنی فاضل اہلیہ کے ساتھ اس کی موجودگی اس اعتبار سے اہم تصور کی جاتی ہے کہ وہ کسی دینی یا فقہی اُلجھن کو حل کرنے کے لیے اپنے فہم کے ساتھ‘ سامعین کو بروقت رہنمائی دے سکتا ہے۔
جب اس درس کے پہلے حصے کا اختتام ہوتا ہے تو ایک عورت پلاسٹک بیگ‘ اور دوسری لکڑی کا چھوٹا باکس اٹھا کر تمام عورتوںکے قریب سے گزرتی ہے۔ کم و بیش تمام ہی عورتیں اپنے پرس سے کچھ سکّے یا نوٹ نکال کر ان میں ڈالتی ہیں۔ پلاسٹک کا بیگ ان دونوں معلموں کے لیے اور لکڑی کا باکس اس اجتماع گاہ کی تعمیر و ترقی کے لیے ہوتا ہے۔ اس کے بعد درس کا دوسرا دَور شروع ہوتا ہے۔ اس مرتبہ پھر ’’کیائے‘‘ ]معلم[ امام غزالیؒ کی احیاء العلوم سے متن پڑھتا ہے اور ’’نیائے‘‘ ]معلمہ[ اس کا ترجمہ کر کے‘ مفصل تشریح کرتی ہے۔ اس تشریح کو بھی وہ موجودہ حالات سے جوڑتی ہے۔ تقریباً ساڑھے سات بجے یہ ’’مجلس تعلیم‘‘ اختتام کو پہنچتی ہے۔ جس کے بعد بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ سبھی کے لیے بخشش اور مغفرت کی دعا کی جاتی ہے۔ اس کے بعد عورتیں اُمڈ کر آتی ہیں اور نیائے ]معلمہ[ کے ہاتھوں کو بوسہ دیتی ہیں اور کیائے ]معلم[ کا شکریہ ادا کر کے ہال سے باہر نکلنا شروع کرتی ہیں۔
یہ ایک مضافاتی علاقے کی مجلس تعلیم کا حال ہے‘ جب کہ ۱۹۹۰ء میں انڈونیشیا کے صرف ایک جزیرے بوگر(Bogor) میں خواتین کے درس قرآن یا مجلس تعلیم کے ۱۹ ہزار ۸ سو ۵۱ حلقے تھے‘ جن میں اب تک کم از کم ۲۰‘۲۵ فی صد ضرور اضافہ ہوا ہوگا۔
مختلف سطحوں پر مجلس تعلیم یا درس قرآن کے ایسے سلسلے چل رہے ہیں‘ مثلاً ’’کام باپا‘‘ مردوں کے لیے‘ ’’پینگوژن ریماجا‘‘ نوجوانوں کے لیے ‘ ’’پینگوژن گابنگن‘‘ مخلوط مجلس کے لیے اور ’’پینگاژن‘‘ صرف عورتوں کے لیے ہیں۔ ان درسی سرگرمیوں کے نقطہ ء آغاز کا تعین ذرا مشکل ہے‘ تاہم یہی خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا آغاز روایتی دھارے کی تنظیم نہضۃ نے نہیں بلکہ جدید دھارے کی محمدیہ نے کیا تھا۔ کیونکہ وہ روایتی طرزعمل سے ہٹ کر کام کرنے والی تنظیم قرار دی جاتی ہے۔ محمدیہ ۱۹۱۲ء میں قائم ہوئی اور اس نے ۱۹۱۷ء میں عائشیۃ تشکیل دی۔ اس تنظیم نے مسلمان عورتوں میں دینی‘ تعلیمی‘ تربیتی اور اصلاحی امور کو اولیت دیتے ہوئے ۱۹۲۲ء میں پہلی ’’مسجد براے خواتین‘‘ (ضلع کائومن‘ یوگی آکارتا) میں قائم کی۔ یہ مسجد خواتین کو نماز اور عبادت کی سہولت فراہم کرنے کے ساتھ خواتین کی عمومی دینی تعلیم کا مرکز بھی قرار دی گئی۔ اس کا مکمل انتظام و انصرام عائشیۃ کی دو خواتین کے ہاتھ میں تھا۔ خواتین کی دوسری مسجد ۱۹۲۶ء میں ’’مسجد اسطری‘‘ (گورٹ‘ جنوبی جاوا) میں قائم کی گئی۔ اس طرح محمدیہ نے عورتوں میں دینی تعلیم اور عبادت کے لیے علیحدہ مساجد قائم کرنے کی روایت متعارف کرائی۔
گھریلو خواتین کے درس یا مجلس تعلیم کے پروگرام زیادہ تر ان اوقات میں ہوتے ہیں جب انھیں گھر کے کاموں سے کچھ فرصت میسر ہوتی ہے‘ تاہم طالبات اور ملازمت پیشہ عورتوں کے لیے مغرب اور عشاء کے درمیان پروگرام کیے جاتے ہیں۔ مختلف اعداد و شمار کے مطابق جدید تعلیم یافتہ خواتین یا زیرتعلیم طالبات کی مقابلتاً بڑی تعداد ان پروگراموں میں شرکت کرتی ہے۔یہ پروگرام ۱۵روزہ یا ترجیحاً ہفت روزہ ہی کیے جاتے ہیں تاکہ دینی معلومات کی فراہمی کا تسلسل قائم رہے۔
خواتین کے پروگراموں میں آیات قرآنی اور ان کے ترجمے کو بار بار دہرانے پر زور دیا جاتا ہے‘ تاکہ آیات ‘ ان کا مفہوم اور ان میں پوشیدہ پیغام کی تاثیرشرکا کے ذہن نشین ہو جائے۔ اگرچہ اکثر درسی مجالس کسی موضوع یا موقع کے حوالے سے منسوب کی جاتی ہیں‘ لیکن ان مواقع پر خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے‘ مثلاً جشن نزول قرآن‘ استقبال رمضان‘ لیلۃ القدر‘ میلادالنبی‘ رجبان ‘ وغیرہ۔ دینی مدارس یا مستحق لوگوں کی مدد کے لیے ’’ایک گلاس چاول‘‘ جیسے سلسلے بھی ساتھ ہی ساتھ چلتے ہیں‘ تاکہ عام فرد کو بوجھ کا احساس بھی نہ ہو اور رضاکارانہ طور پر بڑے پیمانے پر خوراک جمع کر لی جائے۔ یہ مسئلہ صرف خوراک کی اشیا تک محدود نہیں بلکہ بہت سی عورتیں بہ یک مشت رقم دینے کے بجائے قسطوں میں عطیہ دے کر دینی تعلیم کے نظام کو ایک مستحکم معاشی بنیاد فراہم کرتی ہیں۔ خواتین کا یہ ایثاراور شوق اس درجے بڑھا ہوا ہے کہ مردوں اور نوجوانوں کے دینی سلسلہ ہاے درس کے بہت سے اخراجات انھی کے ذریعے پورے ہوتے ہیں‘ بلکہ بعض مدرسے یا مساجد تو صرف ایک ایک مبلغہ کی محنت سے جمع شدہ وسائل سے قائم ہوئی ہیں۔
دینی معلمات اس پہلو پر خصوصی توجہ دیتی ہیں کہ وہ جس علاقے یا جس طبقے میں خطاب کریں‘ ان کی اپنی زبان اور انھی کے محاورے میں کلام کریں تاکہ سامعین اپنائیت محسوس کریں۔ ان مجلسوں میں بعض عورتیں روایتی طور پر بوتلوںمیں صاف پانی بھر لاتی ہیںکہ حاضرین کی دعا سے یہ پانی شفا کا باعث بن سکتا ہے۔ اس سے فائدہ ہوتا ہے یا نہیں‘ لیکن پانی بھری بوتلوں پر دم اور دعا کی مشق روز افزوں ہے کہ یہ پانی کے پینے سے شوہر توجہ دینے لگ جائے ‘ بچے پڑھائی میں دلچسپی لیں‘ بچوں کو نماز سے تعلق ہو جائے‘ زچگی کا زمانہ سہل رہے‘ کاروبار اور قرض کی الجھنیں دُور ہو جائیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ دینی معلمات اور مبلغات ‘ اپنی حاضرین کو توجہ دلاتی ہیں کہ: ’’اس محفل کو فرشتوں کا سایہ‘ خدا کی رحمت اور رسولؐ خدا کی خوشنودی حاصل ہے۔ آپ اپنی ان بہنوں کے لیے صراط مستقیم کی دعا کریں جو اس وقت ڈسکو ڈانس کلبوں‘ جمناسٹک کے اداروں‘ سینما ہالوں اور بازاروں‘ کلبوں میں اپنا حال اور اُخروی مستقبل خراب کر رہی ہیں‘‘۔ ان کلمات سے کلاس میں شریک عورتیں ایک خاص قسم کی قلبی طمانیت حاصل کرتی ہیں۔
انڈونیشی معاشرے میں معلمہ‘ مبلغہ یا استاذہ کا کردار مرکزیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ معلمہ اپنے شوہر کے ہمراہ دینی خدمت انجام دیتی ہیں۔ استاذہ آزادانہ طور پر خود اس میدان میں پیش رفت کرتی ہیں، ’’نیائے‘‘ اور ’’استاذہ‘‘ کو معاشرے کا وہ طبقہ قرار دیا جاتا ہے جو خواتین میں تعلیم و تربیت کے ذریعے توازن پیدا کرتا ہے۔ ایک مبلغہ اس امر کا خصوصی اہتمام کرتی ہے کہ وہ بہترین عربی اور شان دار انگریزی بول سکے۔ اس مقصد کے لیے ریفریشر کورسز اور سمعی و بصری اعانات سے بھی استفادہ کرتی ہیں۔ ان کا شوق اور منصبی ذمہ داریاں انھیں محنت کے لیے اُبھارتی ہیں۔ بلاشبہ ان کی تعلیمی قابلیت اور تعلیمی اسناد بھی انھیں وقار دیتی ہیں۔ لیکن مشاہدہ ہے کہ یہ چیز ثانوی ہے۔ اصل چیزیں دوسری ہیں جو انھیں مقبولیت اور اثرانگیزی کا جوہر عطا کرتی ہیں ‘ وہ یہ ہیں:
۱- دین کا علم (چاہے اس کے لیے کوئی اعلیٰ درجے کی سند لی گئی ہے یا نہیں)
۲- اپنی تقریر میں قرآن کی آیات کا برمحل حوالہ دینا اور احادیث نبویؐ سے استدلال کرنا ۔
۳- سماجی زندگی اور سماجی مسائل سے واقفیت کا ثبوت دینا (یہ چیز ان کی تقریروں سے خود بخود ظاہر ہو جاتی ہے کہ وہ حالات حاضرہ اور قومی یا مقامی زندگی سے کس قدر واقف ہیں۔ اس کے لیے وہ جدید اخبارات و رسائل کا مطالعہ کرتی ہیں)۔
۴- گفتگو میں عربی اور انگریزی زبان میں مختلف تحریروں سے استفادے کا اظہار۔
۵- تقریر کے دوران کسی لطیفے اور ہلکی پھلکی بات سے سامعات کو اچانک ہنسا کر ماحول کو بوجھل بننے سے محفوظ رکھ سکیں اور تقریر سنتے سنتے عورتیں اچانک کھل کھلا کر ہنسنے پر مجبور ہو جائیں۔
پانچویں چیز کو چاروں خصوصیات کے ساتھ ایک اہم مقام حاصل ہے۔
بہت سی مقبول مبلغات کی تقریروں کے کیسٹ‘ بڑے بڑے پاپ میوزک سنٹروں پر دستیاب ہیں اور ان کی مانگ میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ان مبلغات کا تعلق محمدیہ‘ نہضۃ اور آزاد حلقوں سے ہے۔ طریق کار اور اسلوب بیان ایک جیسا ہے۔ ان کی تقریروں کے مرکزی موضوعات میں: عبادت‘ تقویٰ‘ عورت کا مقام‘ سماجی بہبود اور سماجی انصاف شامل ہیں۔ خواتین میں ان مبلغات کی شہرت اور مقبولیت بڑھتی جا رہی ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جس پر مغربی حلقے اور خاص طور پر عیسائی مشنری سخت پریشان ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ عورتوں میں دین سے وابستگی کا یہ سلسلہ اُن ]مشنریوں[کے بہت سے منصوبوں پر پانی پھیر رہا ہے۔ اگرچہ مبلغات میں ایک طاقت ور غیر روایتی یا جدید لہر بھی کام کر رہی ہے‘ تاہم اپنی تمام تر جدیدیت کے باوجودیہ ویسی ’’جدید‘‘ بن نہیں سکتی کہ دین کے مصالح اور اہداف کی تعبیر کو اُلٹ پلٹ کر رکھ دے‘ بلکہ تجزیہ یہی بتاتا ہے کہ گاہے آزاد روی کا جذبہ رکھنے کے باوجود یہ معلمات جب قرآن کھول کر درس دیتی ہیں تو پھر ان میں اور روایتی طرزفکر رکھنے والی دینی معلمات میں کوئی خاص فرق رہ نہیں جاتا۔ خواتین میں دینی تعلیم‘ تبلیغ اور تربیت کا مسلم دنیا کا یہ غالباً سب سے موثر اور وسیع ادارہ ہے (ماخوذ :
The Muballighah: Religion in Indonesia by Lies M. Marcose ‘ مجلہ Dossiers شمارہ ۷‘۸‘ پیرس)۔