اس میں شک نہیں کہ قرآن کا تحقیقی مطالعہ کرنے‘ اور اسلام کے مزاج میںگہری بصیرت حاصل کرنے کے لیے قرآن کی ترتیب نزول سے واقف ہونا بہت کچھ مفید ہے‘ لیکن اس معاملے میں اتنا مبالغہ کرنا درست نہیں ہے کہ قرآن کی موجودہ ترتیب کو غلط یا ناقص کہا جائے‘ اور نزول ترتیب کے علم پرقرآن کے فہم کو موقوف سمجھا جائے‘ اور یہ گمان کیا جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے‘ بلکہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کو ایک صحیح ترتیب کے ساتھ ہم تک پہنچانے میںکوتاہی برتی۔ اس قسم کی باتیں عموماً محض نئی نئی تحقیق کے خمار کا نتیجہ ہوتی ہیں ورنہ معمولی غوروفکر سے بھی آدمی یہ بات بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ قرآن صرف ریسرچ اسکالرز ہی کے لیے نازل نہیں ہوا ہے بلکہ عام لوگوں کی ہدایت بھی اس کے پیش نظر ہے‘ اور عام ہدایت کے لیے اس کی موجودہ ترتیب‘ نزولی ترتیب کی بہ نسبت بدرجہا زیادہ بہتر ہے۔ اگر اسے ترتیب نزول کے مطابق مرتب کیا جاتا تو کم از کم ایک ہزار سورے بنتے‘ اور اس ترتیب کو سمجھنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ناگزیر ہوتا کہ ہر شخض کو قرآن کے ایک ایک نسخے کے ساتھ اس وقت کی تاریخ کا بھی ایک ایک نسخہ دیا جاتا‘ اور اس تکلف کے باوجود قرآن کی تلاوت میں وہ روانی اور وہ تاثیر نہ ہوتی جو اب ہے‘ بلکہ بعد کی نسلوں کے لیے وہ محض ڈاکٹریٹ کی ڈگری لینے والوں کا سا ایک خشک تحقیقی مقالہ بن کر رہ جاتا۔
جناب مصنف کا گمان یہ ہے کہ قرآن کی موجودہ ترتیب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابۂ کرام نے بطور خود دے لی ہے‘ اور صحابہؓ نے بھی اسے کسی سوچے سمجھے ہوئے نقشہ پر مرتب نہیں کیا‘ بلکہ جنگ اور بدامنی کی گھبراہٹ میں بس یوں ہی جلدی سے جمع کر ڈالا۔ حالانکہ اگر وہ روایات سے قطع نظر کر کے خود قرآن ہی کے مضامین پر غور کریںتو انھیں اندازہ ہو جائے کہ جو کلام اس طرح متفرق طور پر مختلف حالات میں تقریباً ربع صدی تک نازل ہوتا رہا‘ اسے سمیٹ کر ایک مجموعہ بنا دینا خود متکلم کے سوا کسی کے بس کا کام تھا ہی نہیں۔ نفسِ قدوس دعوتِ اسلامی کے آغاز سے لے کر اس کی تکمیل تک ایک خاص نقشے پر اپنی آیات سے اِس دعوت کی رہنمائی کرتا رہا‘ وہی اور صرف وہی یہ جان سکتا تھا کہ اِن متفرق آیات کے اندر داخلی ربط کیا ہے اور انھیں ایک مستقل دائمی ہدایت کے لیے جوڑ کر ایک وحدت بنا دینے کی صحیح صورت کیا ہے.... زیادہ صحت کے ساتھ اگر کچھ کیا جا سکتا ہے تووہ صرف اتنا ہی ہے کہ دعوتِ اسلامی کے مختلف ادوار متعین کر کے ان کے مطابق سورتوں کے الگ الگ مجموعے بنا لیے جائیں ‘ اور یوں کہا جائے کہ فلاں مجموعہ فلاں دَور کا معلوم ہوتا ہے۔ (ترتیب نزول قرآن‘ از پروفیسر محمد اجمل خاں پر تبصرہ‘ سید ابوالاعلیٰ مودودی‘ ماہنامہ ترجمان القرآن‘ جلد ۱۹‘ عدد ۴‘۵‘ ۶‘ شوال‘ ذی القعدہ‘ ذی الحجہ ۱۳۶۰ھ‘ دسمبر ۱۹۴۱ء‘ جنوری فروری ۱۹۴۲ء‘ ص ۱۰۴-۱۰۵)