پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم‘ پنجاب یونی ورسٹی میں شعبہ طبیعیات کے صدر‘ سائنس فیکلٹی کے ڈین اور متعدد دیگر ذمہ داریوں کے مناصب پر فائز رہ چکے ہیں۔ طبیعیات کے موضوع پر ان کے تحقیقی مقالات اور کتابیں برطانیہ اور امریکہ کے ممتاز جریدوں اور ناشرین نے شائع کی ہیں۔ پنجاب یونی ورسٹی سے سبک دوشی کے بعد‘ ان کی توجہ اردو میں تصنیف و تالیف کی طرف منعطف ہوئی۔ داراشکوہ احوال و افکار (تبصرہ: ترجمان نومبر ۱۹۹۶ء) اور قائداعظم محمد علی جناح: سیاسی و تجزیاتی مطالعہ(مارچ ۱۹۹۹ء) کے بعد اب ان کی زیرنظر کتاب منصّہ شہود پر آئی ہے‘ جس کا مقصد اس عمومی غلط فہمی کو رفع کرنا ہے کہ علامہ اقبال محض ایک شاعر اور فلسفی تھے جو زندگی بھر عملی سیاست سے الگ تھلگ اور گوشہ نشین رہے۔
پروفیسر محمد سلیم کو شکوہ ہے کہ اس عظیم مسلم مفکر اور شاعر کو ایک عالم نے خراج تحسین پیش کیا مگر سیاست میں ان کے عملی کردار کو عام طور پر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ ان کا موقف یہ ہے کہ علامہ نے یورپ سے واپسی (۱۹۰۸ء) کے تقریباً چار سال بعد‘ عملی سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا اور تادمِ وفات ‘ وہ اس میدان میں سرگرم عمل رہے۔ مصنف نے ۱۲-۱۹۱۱ء سے اقبال کی وفات تک ہندستانی سیاست کے اتار چڑھائو‘ مسلم لیگ اور کانگریس کی سرگرمیوں‘ تقسیم بنگال کی منسوخی‘ حادثہ کان پور ‘ تحریک خلافت اور تحریک عدم تعاون‘ پنجاب کونسل کے انتخابات‘ سائمن کمیشن‘ خطبہ الٰہ آباد‘ گول میز کانفرنس‘ تحریک کشمیر اور ۱۹۳۷ء کے انتخابات میں اقبال کی دلچسپیوں ‘ ان کے تحریری و تقریری ردعمل‘ اور موقع بہ موقع ان کی عملی شرکت کی تفصیل فراہم کی ہے۔
سیاست میں علامہ اقبال کی شرکت کا مقصد وحید‘ ہندی مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ اور ان کی مجموعی فلاح و بہبود تھا۔ ۱۹۲۳ء میں ان کے احباب نے اصرار کیا کہ وہ پنجاب کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیں مگر وہ آمادہ نہ ہوئے‘ لیکن تین سال بعد ۱۹۲۶ء میں یہ اصرار اتنا بڑھا کہ وہ رضامند ہو گئے۔ اس موقع پر ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ’’میں نے مسلمانوں کو صحیح زندگی کے مفہوم سے آشنا کرنے‘ اسلاف کے نقش قدم پر چلنے اور ناامیدی ‘ بزدلی اور کم ہمتی سے باز رکھنے کے لیے نظم کا ذریعہ استعمال کیا۔ میں نے ۲۵ سال تک اپنے بھائیوں کی مقدور بھر ذہنی خدمت کی۔ اب ان کی عملی خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کر رہا ہوں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں کبھی بھی اپنے مفاد کو قوم کے مقابلے میں ترجیح نہیں دوں گا‘‘۔
مصنف نے علامہ کی سیاسی زندگی کی جو تفصیل فراہم کی ہے اس کے مطابق علامہ نے پنجاب اسمبلی کی تین سالہ رکنیت کے دوران مسلمانوں کی نمایندگی کا حق ادا کر دیا۔ مسلم مفادات کو ہر چیز پر فوقیت دی۔ وہ پوری تیاری کے ساتھ اسمبلی کے اجلاسوں میں شریک ہوتے۔ ان کی تقریر عموماً گہری تحقیق‘ اعداد و شمار اور حقائق پر مبنی ہوتی تھی۔ اسی زمانے کا واقعہ ہے‘ ۳ مئی ۱۹۲۷ء کو کوچہ درزیاں لاہور میں ہندوئوں اور سکھوں نے نہتے مسلمانوں پر جو عشاء کی نماز پڑھ کر لوٹ رہے تھے‘ حملہ کر دیا اور تین مسلمان شہید کر دیے۔ علامہ اقبال نے یہ خبر سنی تو رات کے بارہ بج رہے تھے‘ مگر وہ موقع پر پہنچے اور صبح پانچ بجے تک اُس مکان میں بیٹھے رہے جہاں ابتدائی تفتیش ہو رہی تھی۔ دو گھنٹے کے وقفے کے بعد صبح سات بجے دوبارہ شیخ عبدالقادر کی معیت میں موقع واردات پر پہنچ گئے اور مسلمانوں کو اپنے آپ پر قابو رکھنے کی تلقین کرتے رہے۔ شام پانچ بجے تقریباً ۵۰ہزار مسلمانوں نے یونی ورسٹی گرائونڈ میں شہیدوں کی نماز جنازہ ادا کی۔ علامہ اقبال اور سر محمد شفیع لوگوں کو صبر و سکون سے کام لینے کی تاکید کرتے رہے۔ ۱۱ مئی ۱۹۲۷ء کوروزنامہ انقلاب لاہور نے لکھا کہ علامہ اقبال نے امن و امان برقرار رکھنے کے لیے اپنی سعی سے مسلمانان لاہور کی نمایندگی کا حق ادا کر دیا ہے۔ (ص ۳۲)
علامہ کی زندگی میں‘ اس طرح کے بیسیوں واقعات ملتے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے دکھ درد اور مسائل و مفادات کو اپنے آرام پر مقدم سمجھتے تھے۔ جب کوئی مسئلہ درپیش ہوتا‘ فوراً ‘جیسا بھی ممکن ہوتا‘ اقدام کرتے۔ اپنے شاعرانہ مزاج اور خرابی صحت کے باوجود‘ انھوں نے مسلمانوں کے مفادات کی خاطر ہمیشہ ایک مستعد‘ فعال‘ متحرک اور دردمند راہنما کا کردار ادا کیا۔ مسلم عوام بھی ان کے قدردان تھے۔
شاعر اور فلسفی ہونے کے باوجود وہ خداداد غیر معمولی سیاسی بصیرت رکھتے تھے۔ وہ انگریز حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ہندوئوں اور پنجاب کے برطانیہ نواز جاگیرداروں اور سکندرحیات کے عزائم کو بخوبی سمجھتے تھے۔ ان کی سیاست اصولی اور ملّی مفادات کے تابع تھی۔ مصنف نے ایک اہم نکتے کی طرف توجہ دلائی ہے‘ لکھتے ہیں: ’’اقبال جداگانہ انتخاب کے اصول کو ہندستان میں مسلمانوں کے قومی تشخص کے لیے لازمی سمجھتے تھے اور کسی صورت میں بھی اس سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہ تھے۔ یہی نکتہ اُن کی تمام سیاسی فکر کا محور تھا۔ اس لیے وہ کانگریس سے لڑتے‘ محمد علی جناح سے جھگڑتے اور محمد علی جوہر سے الجھتے رہے مگر اس اصول پر مستقل مزاجی سے قائم رہے‘‘۔
مصنف کے نزدیک اقبال کی سیاسی جدوجہد اُن کے خلوص‘ وژن اور عملی سیاست میں ان کے شان دار کردار کی غماز ہے۔ ان کی تمام جدوجہد کا مقصد اسلامی شریعت کا نفاذ تھا جس کے لیے وہ آزاد مملکت کا قیام نہایت ضروری سمجھتے تھے (ص: ۱۶۴)۔ ان کے وژن کے سلسلے میں ایک دو اقتباسات غورطلب ہیں‘ فرمایا: ’’میری نصیحت ہے کہ آپ دل سے مسلمان بنیں‘‘--- ایک اور موقع پر کہا: ’’جب مسلمانوں کی تعداد صرف چند لاکھ تھی تو دنیا کی عظیم سلطنتیں ان کے قدم چومتی تھیں۔ آج جب وہ ۴۰کروڑ ہیں تو ہر جگہ کفار ان پر مسلط ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کو چھوڑ دیا ہے اور اُس کی روح سے کنارہ کش ہو گئے ہیں‘‘۔
اقبال کی سیاسی زندگی پر اس سے پہلے اُردو اور انگریزی میں متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں مگر پروفیسر محمد سلیم صاحب نے جس اختصار و جامعیت کے ساتھ اور علمی و سائنسی انداز میں اس موضوع کو پیش کیا ہے‘ ہماری نظر میں وہ اس سے پہلے کسی مصنف سے ممکن نہیں ہوا۔ ان کا اسلوب بے حد سادہ‘ صاف اور صریح ہے۔ آخر میں کتابیات اور اشاریہ شامل ہے۔ کتاب کا معیار طباعت اطمینان بخش ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
قبل ازیں تفہیم المسائل ہی کے نام سے شیخ القرآن مولانا گوہر رحمن کے شہرہ آفاق فتاویٰ کی پانچ جلدیں منظرعام پر آچکی ہیں۔ اب اسی نام سے پروفیسر مفتی منیب الرحمن صاحب کے فتاویٰ سامنے آ رہے ہیں۔ مفتی صاحب قرآن و سنت اور فقہی ذخیرے پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ بیدار مغز ہیں اور انھوں نے مختلف مسائل پر جس طرح کلام کیا ہے‘ اس سے ان کے فتاویٰ کی افادیت ظاہر ہوتی ہے۔ یہ ایک قیمتی علمی تحقیق ہے۔مصنف نے بعض مفتیان کرام کو ان کی غلطی اور لغزش پر فقہی دلائل اور حوالوں سے موثر تنبیہہ کی ہے۔
دعا بعد الاذان کے کلمات پر بحث کی ہے۔ احادیث سے کلمات دعا کو‘ اور اصولی دلائل سے اس دعا کی صحت کو ثابت کیا ہے۔ سورہ فاتحہ کے بعد سورہ قرآنیہ کی کتنی مقدار واجب ہے؟ اس پر فقہی فتاویٰ کے علاوہ معاصر مفتیان کرام کے فتاویٰ کے حوالوں سے تفصیلی بحث ملتی ہے۔ امام کاسُترہ تمام مقتدیوں کے لیے کافی ہے۔ جب امام کے آگے سُترہ ہو تو اگر کوئی مقتدیوں کی صف کے سامنے سے گزرے تو اس پر کچھ گناہ نہیں ہے لیکن جس آدمی کی ایک یا دو یا زیادہ رکعت رہ جائیں تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد‘ جب وہ آدمی اپنی بقیہ نماز پڑھے گا تو کیاایسی صورت میں اس کے سامنے سے گزرنے والا گنہگار ہوگا یا نہیں‘ جب کہ امام کے فارغ ہو کر چلے جانے کے بعد امام کا سُترہ اپنی جگہ موجود ہو؟ اس مسئلے پر دارالافتا دارالعلوم زکریا کراچی کے مفتی محمد نصراللہ احمد پوری نے فتاویٰ شامی کے حوالے سے فتویٰ دیا کہ مذکورہ شخص کے آگے سے گزرنے والا گنہگار نہیں لیکن مفتی منیب الرحمن نے انھیں متنبہ کیا کہ شامی کی پوری عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ شخص کے لیے اب وہ حکم نہیں ہے جو امام کی اقتدا کی صورت میںتھا۔ اب وہ منفرد ہے۔ اب نہ امام ہے نہ اس کا سُترہ۔ یہ وقیع‘ علمی اور تحقیقی بحث ص ۵۶ سے لے کر ص ۱۱۳ تک پھیلی ہوئی ہے۔ مفتی صاحب نے اپنے مدعا کو ثابت کرنے کا حق ادا کر دیا ہے۔
بعض مسائل پر مفتی منیب الرحمن صاحب نے متعدد دیگر جیّد علما اور مفتیانِ عظام سے اختلاف کیا اور دلائل کے ساتھ انھیں توجہ دلائی تو انھوں نے اپنے فتاویٰ سے رجوع کر لیا۔ اسی طرح قضاء عمری ‘ بزرگان دین کے مزارات پر عقیدت‘ فیکٹری میں نماز جمعہ‘ حضرت خضر علیہ السلام کی نبوت‘ مفتی محمد یوسف لدھیانوی صاحب سے اختلاف اور دیگر مسائل پر سیرحاصل‘ سلیس اور عام فہم انداز میںقابل قدر بحث کی گئی ہے۔ اصحاب علم کے لیے یہ ایک مفید علمی مجموعہ ہے۔ طلبہ‘ اساتذہ‘ مفتیان کرام اور عوام سب کے لیے اس میں استفادے کا سامان ہے۔ (مولانا عبدالمالک)
عبدالماجد دریابادی کی حیوانات قرآنی کے بعد ‘ یہ ایک نئی کوشش ہے کہ احادیث میں جن حیوانات کا ذکر آیا ہے ‘ ان کا تذکرہ ایک جگہ جمع کر دیا جائے۔ مصنف نے اپنی کتاب قرآنی جانوروں کا انسائیکلوپیڈیا کا حوالہ دیا ہے جس کی وجہ سے وہ اس کتاب میں بعض جانوروں کی تفصیل میں نہیں گئے۔ (یہ کتاب تبصرہ نگار کی نظر سے نہیں گزری۔)
کتاب میں ۶۰ جانوروں کا تذکرہ ہے۔ ہر جانور کا عربی‘ پشتو‘ انگریزی اور اردو نام دیا گیا ہے۔ عام معلومات کے بعد‘ متعلقہ احادیث اور سیرت کے واقعات کا ذکر ہے (براق کے حوالے سے واقعہ معراج کی تفصیلات مل جاتی ہیں)۔ مطالعے کے بعد یہی تاثر ہوا کہ سیرت کی ایک کتاب پڑھی ہے۔جانوروں کے بارے میں متنوع اور دل چسپ معلومات ملتی ہیں۔ ہر باب کے آخرمیں حوالے دیے گئے ہیں۔ آغاز میں جانوروں سے حسن سلوک پر ایک مضمون ہے۔ (مسلم سجاد)
عبدالرشید صدیقی لسٹر یونی ورسٹی (برطانیہ) کی اسلامک سوسائٹی کے زیراہتمام مسلسل دو عشرے سے خطبہ جمعہ دیتے ہیں۔ انھوں نے ۳۰ موضوعات پر چار چار‘ پانچ پانچ صفحات کے یہ خطبے تحریر بھی کر دیے اور یوں ایک موثر پیش کش کے ذریعے ان سے استفادے کا دائرہ وسیع ہو گیا۔ ہر خطبے کا آغاز کسی قرآنی آیت سے ہوتا ہے۔ موضوع پر آیات و احادیث بھی پیش کی گئی ہیں۔ اندازِ بیان عام فہم‘ اور دلوں کو اٹھانے والا ہے۔ خطبہ اوّل اور ثانی کے عربی متن کے ساتھ‘ انگریزی ترجمہ بھی شامل ہے۔ علم پہلا موضوع ہے‘ اور اُمت آخری۔ عقائد‘ ارکان‘ ہجرت‘ دعوہ‘ جہاد‘ تزکیہ‘ سیرت‘ اخوت‘ استغفار سب ہی اہم موضوعات ہیں۔ ایک طرف تو عالم اسلام اور عالم مغرب میں ان انگریزی خطبوں کی افادیت ہے‘ دوسری طرف یہ پاکستان ‘ بھارت اور بنگلہ دیش جیسے ممالک میں انگریزی اخبارات و رسائل اور کالجوں کے مجلوں کے لیے مختصر مضامین کے طور پر بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔ پروفیسر خورشیداحمد نے پیش لفظ میں جمعہ اور جمعے کے خطبے کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے اور تجویز دی ہے کہ ۲۲ مزید خطبے بھی تیار کیے جائیں تاکہ سال کے ۵۲ جمعوں کے لیے ہو جائیں۔ (م - س)