’’معاصر اسلامی فکر: چند غور طلب پہلو‘‘ (اکتوبر‘ نومبر ۲۰۰۱ء) میں جن مسائل کی نشان دہی کی گئی ہے ان پر مختلف سطحوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سید مودودیؒ، جماعت اسلامی اور تجدید و احیاے دین کی بین الاقوامی سب تحریکوں نے دَور جدید کے تقاضوں کے مطابق اسلام کے عالمی و دائمی احکام و تصورات کی تفسیرو تعبیر کی ہے مگر ہنوزبہت کام باقی ہے۔ بقول ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی: ’’جب تک اسلامی انقلاب کی اس جیسی بنیادی فکری ضرورتوں کو پورا نہیں کیا جاتا عصرِحاضر کے مزاج کی اصلاح ناممکن ہوگی‘‘۔ (نومبر‘ ص ۵۹)
اس تحقیقی اور اجتہادی کام کی سب سے زیادہ ذمہ داری ان اساتذہ پر عائد ہوتی ہے جو مختلف ممالک کے مختلف اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے اداروں اور جامعات سے وابستہ ہیں اور جہاں غیر ضروری موضوعات پر تحقیقی مقالات لکھوا کر اُمت کے وسائل کو ضائع کیا جا رہا ہے۔ احیاے اسلام کی تحریکوں سے وابستہ تحقیقی اداروں کو ان ضروری مسائل پر تحقیقی اور اجتہادی کام کی منصوبہ بندی اولین ترجیح دے کر کرنا چاہیے۔ آئی پی ایس‘ ادارہ معارف اسلامی کراچی و منصورہ اور کئی ادارے مختلف محاذوں پر برسرپیکار ہیں لیکن اب بھی کئی محاذوں پر دشمن کا مقابلہ کرنے والا کوئی نہیں ہے!!
پروفیسر خورشید احمد صاحب نے اشارات (نومبر‘ ا۲۰۰ء) میں افغانستان کے مفلوک الحال اور مظلوم مسلمانوں کے مقدمے کی وکالت کا حق ادا کر دیا ہے‘ اور ثابت کیا ہے کہ امریکہ ماوراے عدالت افغانیوں کے قتل کا مجرم ہے‘ اور افغانستان پر بم باری ریاستی دہشت گردی کی ہولناک مثال ہے۔اللہ تعالیٰ پروفیسر صاحب کو اس کاوش کا اجرعظیم عطا فرمائے۔
القاعدہ تنظیم کو القائدہ (نومبر ۲۰۰۱ء) لکھا گیا۔ قاعدہ (بنیاد - Base) عربی کا معروف لفظ ہے۔ ایمن الظواھری القاعدہ کے معروف رہنما ہیں۔ انھیں ایمان الزہراوی لکھا گیا۔ قطر کے امیر کا نام حمد بن خلیفہ آل ثانی ہے انھیں محمدالثانی لکھا گیا۔ خواہش ہوتی ہے کہ ترجمان میں ایسے سہو نہ ہوں۔ بہرحال ‘ اصل اہمیت قوم و ملک کی رہنمائی اور حقائق سامنے لانے کی ہے۔ الحمدللہ‘ ترجمان القرآن اس حوالے سے ’’امامِ مجلات‘‘ ہے۔
مولانا عبدالمالک نے مطالعہ حدیث میں رمضان میں ۱۰ گنا اجر کے حوالے سے ۷۰۰ کے بجائے ۷ ہزار لکھا (نومبر ۲۰۰۱ء)‘ جب کہ اضافہ تو ۷۰ گنا ہوتا ہے اور یوں ۷۰۰ کا معاملہ ۴۹ ہزار تک پہنچتاہے۔ سچ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شان کریمی کی کوئی نہایت نہیں ہے!