دسمبر ۲۰۰۱

فہرست مضامین

مغربی میڈیا اور مسلم دنیا

محمد ایوب منیر | دسمبر ۲۰۰۱ | مطالعہ کتب

Responsive image Responsive image

Covering Islam  ایران کے انقلاب کی خبرنگاری کے پس منظر میں ۱۹۸۱ء میں برطانیہ سے شائع ہوئی۔ بعد ازاں ایک تفصیلی مقدمے کے اضافے کے ساتھ اسے ۱۹۹۷ء میں شائع کیا گیا۔ مجموعی طور پر ان کی تصانیف کی تعداد ۱۲ ہے۔ اس کے مصنف ایڈورڈ ڈبلیو سعید فلسطینی النسل اور مسیحیت کے پیروکار ہیں۔ اُن کے مضامین تحقیقی مجلوں اور روزناموں میں باقاعدگی کے ساتھ شائع ہوتے ہیں۔ آج کل کولمبیا یونی ورسٹی میں‘ انگریزی اور تقابلی ادب کے پروفیسر ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے حوالے سے اُن کی آرا کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے‘ تاہم اسلام‘ عالم عرب اور ارض فلسطین کے بارے میں کلمۂ خیر کہنے کی وجہ سے امریکہ میں  قلم کاروں اور تجزیہ نگاروں کی ایک بڑی تعداد انھیں متنازعہ شخصیت قرار دیتی ہے۔

فلسطین کے حوالے سے سعید کی متعدد کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ مغربی اور امریکی ذرائع ابلاغ کا تحقیقی اور ناقدانہ جائزہ مذکورہ کتاب کی خصوصیت ہے۔ اس کتاب کی مختصر تلخیص پیش کی جا رہی ہے۔ ۱۱ ستمبر کے بعد مغربی میڈیا کے رویے کے پس منظر میں اس کا مطالعہ دل چسپی کا باعث ہوگا۔


ایران میں امریکیوں کی یرغمالی سے خلیج کی جنگ اور عالمی تجارتی مرکز میں بم دھماکے تک‘ اور اب مغرب جس ہوّے کا شکار ہے اُس کا نام اسلام ہے۔ ذرائع ابلاغ‘ حکومتی ادارے‘ تعلیمی ماہرین اور فکرساز انجمنیں ایک ہی راگ الاپ رہی ہیں کہ اسلام دہشت گردی اور مذہبی مخبوط الحواسی (Hysteria)ہے‘  طرفہ تماشا یہ ہے کہ اسلامی ممالک کی جابرانہ حکومتیں‘ اپنی غیر نمایندہ حیثیت کا جواز فراہم کرنے کے لیے بھی ’اسلام‘ کا لیبل استعمال کرتی ہیں۔ ہم وہی کچھ دیکھتے ہیں جو ذرائع ابلاغ ہم کو دکھا رہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ نے اسلام کے چہرے کو مسخ کرنے اور بدترین انداز میں پیش کرنے کی جو منصوبہ بندی کی ہے اس کتاب میں اُس کا سرسری جائزہ لیا گیا ہے۔

گذشتہ ۱۶ برس میں عراق‘ ایران‘ سوڈان‘ صومالیہ‘ افغانستان اور لیبیا میں ایسے حوادث پیش آئے‘ جن سے مسلم ممالک کے خلاف فضا بنتی چلی گئی۔ ۱۹۸۳ء میں بم دھماکے سے امریکہ کے ۲۴۰ فوجی لبنان میں ہلاک کر دیے گئے‘ ایک مسلم گروہ نے اس کی ذمہ داری قبول کر لی۔ سوئٹزرلینڈ کے شہر لاکربی میں امریکن ایئرلائن کا طیارہ ۱۹۸۸ء میں تباہ کر دیا گیا اور اسلامی دہشت گرد اس کے مرتکب ٹھیرے‘ عالمی تجارتی مرکز ۱۹۹۳ء میں  حملہ کیا گیا اور اس کی منصوبہ بندی کا الزام نابینا شیخ عمر عبدالرحمن پر لگا دیا گیا‘ امام خمینی نے سلمان رشدی کو قتل کرنے والے کے لیے کروڑوں ڈالر انعام کا اعلان کر دیا۔ ۱۹۹۵ء میں اوکلاھاما شہر میں بم کا دھماکہ ہوا تو فوراً مسلم انتہاپسندوں کے بارے میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ چونکہ میں مسلمانوں کے بارے میں مضامین لکھتا ہوں‘ گمان کیا گیا کہ میں اوکلاھاما کے ملزموں کو ضرور جانتا ہوں۔ مارچ ۱۹۹۶ء میں امریکی صدر بل کلنٹن اور اسرائیلی وزیراعظم کی شرم الشیخ میں باضابطہ ملاقات ہوئی اور یہ اعلان کر دیا گیا کہ ہر دھماکے کے پیچھے حکومتِ ایران یا اسلام پسند ہوتے ہیں۔ ] ۱۱ ستمبر کے بم دھماکوں کے بعد یہ سہرا طالبان اور اُسامہ بن لادن کے سر بندھ رہا ہے۔[

میں عرصۂ دراز سے تعلیم و تدریس اور تجزیہ و تحقیق سے منسلک ہوں‘ میرا یہ خیال ہے کہ اسلام کے ایک ارب سے زائد پیروکار درجنوں ممالک ‘ زبانوں‘ تہذیبوں‘ معاشروں اور روایات میں بٹے ہوئے ہیں۔ کسی ایک واقعے یا چند واقعات کو مجموعی طور پر ’اسلام‘ کے حساب میں درج کر دینا نامعقول بات ہے۔ کیا دیگر مذاہب کے ساتھ بھی ہمارا یہی رویّہ ہوتا ہے؟ بنیاد پرستی کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ یہ اسلام کے برابر ہے اور ہمیں جس چیز کے خلاف بھی جنگ لڑنا ہے وہ بنیاد پرستی ہے۔ نیویارک ٹائمز نے ۲۱ جنوری ۱۹۹۶ء کو سرخی جمائی، ’’سرخ خطرہ ٹل گیا‘ لیکن اسلام کا خطرہ منڈلا رہا ہے‘‘۔

۱۹۹۱ء سے امریکن اکیڈمی براے آرٹس و سائنس‘ بنیاد پرستی پر اپنی تحقیقی رپورٹیں شائع کر رہی ہے۔  The New Republic  اور The Atlantic جیسے تحقیقی جریدے اسلام کے خلاف اور اسرائیل کے حق میں مسلسل آواز بلند کر رہے ہیں۔

اسلام کے خلاف جو تہذیبی جنگ لڑی جا رہی ہے اُس میں ایک نمایاں ذکر نام ور برطانوی مستشرق برنارڈ لیوس کا ہے جس نے اب امریکہ میں سکونت اختیار کر لی ہے۔ پالیسی سازی کے وقیع جریدوں میں اُس کے مضامین شائع ہوتے ہیں۔ اُس کی سوچ کا حاصل ہے کہ عالم اسلام مجموعی طور پر مغرب کی ترقی اور ’’جدیدیت‘‘ کا مخالف ہے۔ مسلمان چونکہ مغربی نہیں ہو سکتے‘ اس لیے اچھے بھی نہیں ہو سکتے۔ یہی خیالات اسرائیل نواز دانش وروں مثلاً ڈینیل پائپس ‘مارٹن کریمر‘ ولیم ہنٹنگٹن اور پیری ملر کے ہیں۔ ان حضرات نے اسلام اور مغرب کے درمیان اجنبیت اور مخاصمت کی چٹانیں کھڑی کی ہیں۔ پیری ملر کے بارے میں عرض کرتا چلوں کہ وہ مشرق وسطیٰ اور اسلامی دنیا کے امور پر ربع صدی سے مضامین لکھ رہی ہے اور اپنے آپ کو ’’سند‘‘ کہلوانا پسند کرتی ہے جب کہ عربی اور فارسی زبان کی ابجد سے بھی اُسے آگاہی نہیں ہے‘ اس سے یہ اندازہ لگانا آسان ہے کہ اصل بات علمی تحقیقی تجزیہ نہیں بلکہ مخاصمت اور رگوں میں دوڑتی ہوئی اسلام دشمنی ہے۔

اتنی شدت‘ قوت اور اصرار کے ساتھ کسی بھی دُوسرے مذہب کے بارے میں یہ بات نہیں کی گئی جو اسلام کے بارے میں کی گئی ہے کہ یہ مغربی تہذیب کا دشمن ہے۔ نیوزی لینڈ کے معروف پروفیسر جے بی کیلی کا خیال ہے کہ جب تک مسلمان علاقے مغرب کے زیرنگیں رہے‘ مغرب کو‘ اس کی روایات کو‘ اس کے روشن اور لبرل طرزعمل کو کوئی خطرہ لاحق نہ تھا۔ لیکن اب مسلمان ممالک کی آزادی سے ’ماڈرن ورلڈ‘ کو خطرہ لاحق ہے‘ اس لیے نوآبادکاری کی جو پالیسی چار سو برس پہلے اختیار کی گئی تھی اُس کی اب بھی ضرورت ہے۔ میں عرصہ دراز سے مسلم دنیا کے اہل حرف و دانش کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرا رہا ہوں کہ وہ اسلام اور اسلامی دنیا کے بارے میں مغربی اور امریکی دانش وروں اور قلم کاروں کی رائے سے سرسری نہ گزر جایا کریں۔ عالم عرب کی طرف سے تیل کی فراہمی معطل ہونے‘ امریکی سفارت خانے کے عملے کے ۴۴۴ دن یرغمال بننے اور خلیج میں جنگ چھڑنے کے موقع پر جو ’ابلاغی جنگ‘ لڑی گئی وہ کسی بھی نئے عنوان سے بھرپور طریقے سے امریکہ اور مغرب دوبارہ لڑ سکتا ہے۔ بلاشک و شبہ یہ جنگ بے حد موثر ہتھیار’ ذرائع ابلاغ ‘ہی سے لڑی جا سکتی ہے ]جس کا مظاہرہ آج کل اسامہ بن لادن کے نام سے ہو رہا ہے[۔

ذہن کس طرح تیار کیے جاتے ہیں‘ اس کی وضاحت اس مثال سے ہو جائے گی۔ کنسالیڈیٹڈ ایڈیسن آف نیویارک (کان ایڈ) نے نیویارک ٹیلی ویژن پر ایک اشتہار چلانا شروع کیا۔ تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم ’اوپیک‘ کے سیکرٹری جنرل یمانی ‘ قذافی‘ عرب قبائیں پہنے اور سروں پر پگڑیاں رکھے بہت سے لوگ‘ جن کے چہرے دُور سے پہچانے نہ جاتے تھے‘ نہ ہی اُن کے نام تحریر تھے لیکن تھوڑی سی دقت کے بعد یہ سمجھنا آسان تھا کہ یہ عرب چہرے خمینی‘ عرفات‘ حافظ الاسد اور تیل پیدا کرنے والے اسلام کے پیروکاروں کے تھے۔ ان تصاویر کے پس منظر سے صرف یہ آواز سنائی دیتی تھی کہ ’’امریکہ کا تیل ان کے قبضے میں ہے‘‘۔ ان کی تصاویر اس طرح دکھائی جاتی تھیں کہ یہ ہیں وہ Villain جنھوں نے امریکیوں کو رنج‘ دکھ اور اُداسی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اس مختصر اشتہار نے عربوں کے خلاف ایک فضا تیار کر دی کہ تیل کے ذخائر ان کے پاس رہنا‘ امریکہ کے لیے نقصان دہ ہے۔ اُس سے بھی زیادہ خوف ناک بات یہ تھی کہ تیل پیدا کرنے والے یہ ’اُجڈلوگ‘ اسلام کے پیروکار ہیں۔ ایران میں امام خمینی کے برپا کردہ انقلاب کے بعد مستشرقین نے ماضی کی علمی بحثوں اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات پر اعتراضات کے بجائے مسلمانوں کی تنگ نظری‘ رجعت پسندی اور ماضی کی طرف سفر کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ ۱۹۸۰ء تک دہشت گردی کا جامع اور کارگر لفظ دریافت ہو چکا تھا جب کہ بیسویں صدی کے آخری عشرے میں بنیاد پرست کی اصطلاح نے ماضی اور حال کی تمام ضروریات کو پورا کر دیا۔ میڈیا نے اس لفظ کو اس قدر اُچھالا کہ تمام حقائق پس منظر میں چلے گئے اور تمام دلائل دریا برد ہو گئے۔ مستشرقین نے جو سفر صدیوں میں طے کیا تھا‘ ذرائع ابلاغ نے‘ ٹی وی چینلوں نے‘ براہِ راست رپورٹوں نے‘ صحافیوں کے دوروں نے‘ تلاش حقیقت اسفار (fact finding travels)‘ اور مجالس دانش (think tanks) نے دس بیس برس میں وہ سفر طے کر لیا۔

اس حقیقت کو فراموش کر دیا گیا ہے کہ ایک ارب سے زائد مسلمان‘ سیکڑوں لسانی گروہوں اور درجنوں ممالک میں منقسم ہیں۔ اب صرف ایک ہی بات ببانگ دہل کہی جا رہی ہے کہ اہل اسلام کی دہشت گردی اور بنیاد پرستی امن عالم کے لیے خطرہ ہے‘ مسلمان کم از کم جہاد کے نام سے شہروں اور آبادیوں کو سبوتاژ کرنا چھوڑ دیں۔ ۲۶ جنوری ۱۹۹۱ء کو لاس اینجلس ٹائمز کی رپورٹر اور ’ماہر اسلام‘ روبن رائٹ نے تحریر کیا کہ امریکہ اورمغربی حکومتوں کے افسران ایک مشترکہ حکمت عملی طے کر رہے ہیں تاکہ ’اسلامی چیلنج‘ کا بھرپور مقابلہ کیا جا سکے۔ بش انتظامیہ کے ایک بڑے افسر نے کہا: ’’تیس چالیس سال پہلے ہم نے کمیونزم کا جس طرح مقابلہ کیا تھا‘ آج اسلام کا مقابلہ کرنے کے لیے اُس سے کہیں زیادہ مستعدی (smartness)کا مظاہرہ کرنا ہوگا‘‘۔

یورپ کے برعکس‘ امریکہ میں اسلام کے بارے میں غیر متعصب تحقیقی ریسرچ کرنے والے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تازہ ترین خبر کے عنصر نے پِتّا مار کام کی صلاحیت ختم کر دی ہے۔ ایک حادثے یا اقدام کی خبر آتی ہے اور خبر رساں ایجنسیاں اپنے ٹینکوں اور اسلحہ کے ساتھ اُمت مسلمہ پر چڑھ دوڑتی ہیں۔ اسرائیل ایک مذہبی ریاست ہے ‘ وہ مذہب کی بنا پر وجود میں آئی ہے‘ اس کے اندر مذہبی جنون کسی بھی دوسری قوم سے زیادہ ہے لیکن ذرائع ابلاغ کی بدولت‘ اسرائیل کے مذہبی خبط اور فلسطینیوں کے قتل عام کی خبریں‘ رنگ آمیزی کے ساتھ ہی ملتی ہیں۔ فلسطینی اگر قتل بھی ہوتے ہیں تو اُس کی خبر یوں شائع ہوتی ہے کہ شرپسند فلسطینیوں کا ہنگامہ‘ چار ہلاک ہوگئے۔

امریکہ کا میڈیا ‘ برطانوی اور فرانسیسی میڈیا سے مختلف ہے۔ اس کی وجہ مختلف معاشرے‘ مختلف قارئین و ناظرین ‘ مختلف ادارے اور مختلف مفادات ہیں۔ ہر امریکی رپورٹر کو یہ احساس رہتا ہے کہ میرا ملک دُنیا کی واحد عالم گیر قوت ہے اور ہمارے ملک کے جو مفادات ہیں وہ دوسرے ممالک کے نہیں ہیں‘ اور پریس کی آزادی ایک اچھی چیز ہے تاہم امریکی مفاد اُس سے بھی زیادہ اہم ہے۔ اُن صحافیوں کا تو تذکرہ چھوڑ دیجیے کہ جو امریکہ کے خفیہ تحقیقاتی ادارے سی آئی اے کے باضابطہ ملازم ہیں‘ دیگر صحافیوں کی غالب اکثریت بھی ایک طے شدہ فریم ورک پر یقین رکھتی ہے اور اُس کے خدوخال بہرحال واشنگٹن سے وضع کیے جاتے ہیں۔ جو بھی امریکی دیگر ممالک کے حالات کی رپورٹنگ کرتے ہیں اُس میں سے ’’ہم‘‘ کا عنصر کبھی بھی خارج نہیں ہوتا‘ اس سلسلے میں سیکڑوں افراد اور درجنوں رسائل و جرائد کا نام لیا جا سکتا ہے‘ یہ کوئی راز بھی نہیں۔

ایک برطانوی فلم ساز اینتھونی تھامس نے ’شہزادی کی موت‘ کے نام سے فلم بنائی جس میں دکھایا گیا کہ ایک برطانوی شہری‘ ایک سعودی شہزادی کے عشق میں مبتلا ہو گیا‘ بعدازاں وہ شہری غائب ہو گیا۔ ایک صحافی نے اس جوڑے کے بارے میں جاننے کے لیے فلسطین‘ لبنان اور سعودی عرب کا سفر کیا‘ سیکڑوں لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور باتوں ہی باتوں میں اُن سب سے یہ کہلوا لیا کہ وہ سب کس ظلم‘ زیادتی‘ جکڑبندی‘ حکومتی گرفت‘ خبررساں اداروں کی تفتیش کا شکار ہیں اور غیر انسانی زندگی گزار رہے ہیں۔ بلاشک وشبہ فلم کا مقصد بھی یہی تھا۔ حکومت سعودی عرب نے اس فلم پر پابندی لگانے کی بات اُٹھائی تو اخبارات و جرائد نے اور ٹیلی ویژن چینلوں نے ہفتوں تک اس فلم کو موضوع بحث بنائے رکھا اور اپنے عوام کو بہرطور یہ دکھایا کہ مسلم عوام جبرکی زندگی گزار رہے ہیں۔

اس کے پندرہ برس بعد ’امریکہ میں جہاد‘ کے نام سے ایک دستاویزی فلم ۱۹۹۵ء میں جاری کی گئی جس میں دکھایا گیا کہ اسلام کے نام پر دہشت گردی‘ قتل و غارت‘ لوٹ مار اور ہیبت و دہشت پھیلانے والے سیکڑوں درندے امریکہ میں پناہ گزیں ہو چکے ہیں۔ ضروری ہے کہ عوام اور حکومت مل کر اس عفریت کا سدّباب کریں۔ بعدازاں یہ معلوم ہوا کہ سی آئی اے کے دماغ ان فلموں کی تیاری اور مقبولیت میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔

امریکہ کے ابلاغی و اطلاعاتی ادارے مسلم دنیا سے کیا سلوک کر رہے ہیں یا آیندہ کیا سلوک کر سکتے ہیں۔ اس کی بھرپور اور موثر ریہرسل وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف کر چکے ہیں۔ ۴ نومبر ۱۹۷۹ء کو ایرانی طلبہ نے امریکی سفارت خانے پر قبضہ کر لیا اور سفارت خانے کے عملے کو یرغمال بنا لیا۔ امریکن براڈ کاسٹنگ کارپوریشن (ABC) کئی ماہ تک شام کا خصوصی بلیٹن ’امریکہ زیر حراست‘ کے نام سے نشر کرتا رہا۔ PBS کی طرف سے مسلسل تجزیے جاری کیے جاتے رہے۔ والٹر کرون کائیٹ روزانہ ایک پروگرام دیتا رہا‘ جس کا عنوان تھا: ’حراست کا کون سا دن‘۔ ابوالحسن بنی صدر‘ صادق قطب زادے‘ زیرحراست لوگوں کے والدین کے انٹرویو‘ ایران میں مظاہرے کی روزانہ رپورٹ‘ تاریخ اسلام پر تین منٹ کا پروگرام‘ معزول شاہ کا ہسپتال سے براہ راست مکالمہ‘ سوویت اقدامات‘ آیندہ کے امکانات جیسے درجنوں موضوعات مختلف مکاتب ہاے فکرکی نمایاں شخصیات کی آرا اور اُن کے تبصروں کو اس تسلسل کے ساتھ نشر کیا گیا کہ گویا امریکی سفارت خانے کے ۵۰ افراد کی اہمیت شاید ۵۰ ریاستوں سے بھی زائد ہے اور گستاخی کرنے والی اسلامی حکومت‘ ناقابل معافی۔

سینٹ لوئیس ڈسپیچ نے ۷ نومبر کو ایک مذاکرہ منعقد کیا جس کی بحث کا خاتمہ اس جملے پر ہوا‘ ’’اسلام، امریکہ کے مفادات کے لیے نقصان دہ اور اس کا دائمی دشمن ہے‘‘۔ وال سٹریٹ جرنل نے اداریہ میں لکھا: ’’یہ مغربی تہذیب کی ناکامی ہے کہ دُنیا کی غالب آبادی بشمول مسلمان‘ مہذب خیالات سے محروم ہیں‘‘۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کولمبیا یونی ورسٹی کے پروفیسر جے سی ہیوروز نے کہا کہ ’’مسلم (شیعہ) ہونے کا مطلب ہی امریکہ مخالف ہونا ہے‘‘۔

۶ جنوری ۱۹۸۰ء کو نیویارک ٹائمز نے لکھا: ’’جہاں کہیں بھی جنگ‘ قتل‘ تنازعہ‘ خوف ہوگا وہاں اسلام کا کردار ضرور ہوگا‘‘۔

جملۂ معترضہ کے طور پر عرض کروں گا کہ بہت سے اہم امریکی اور یورپی نامہ نگاروں کی سرتوڑ کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح ایک ’سٹوری‘ فائل کر دی جائے۔ جس علاقے میں اُن کو تعینات کیا گیا ہوتا ہے وہ اس کی زبان نہیں جانتے۔ اُس علاقے کی روایات اور تاریخ سے واقف نہیں ہوتے۔ بغیر کسی تربیت کے وہ ایران یا ترکی یا مصرکی رپورٹنگ شروع کر دیتے ہیں۔ ظاہر ہے پھر متضاد اور متصادم خبریں ہی موصول ہوتی ہیں جو اخبارات کے قارئین کی پیاس کو مصنوعی طور پر بجھاتی رہتی ہیں۔

اس کا میں ایک اور پہلو سے بھی جائزہ لینا چاہتا ہوں کہ آخر اسلام کے خلاف اتنی آوازیں بلند کیوں ہو رہی ہیں۔ اگرچہ میں امریکہ کا جائزہ پیش کر رہا ہوں لیکن یورپ کی کیفیت بھی اس کے قریب قریب ہے۔ امریکہ میں جتنے لوگ پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرتے ہیں اُن میں سے ایک فی صد کا موضوع مشرق وسطیٰ ہوتا ہے۔ ایک ہی سال میں مشرق وسطیٰ گریجویٹ کورسز میں داخلہ لینے والوں کی تعداد ۶۴۰۰ اور انڈرگریجویٹ کورسز میں داخلہ لینے والوں کی تعداد ۲۲۳۰۰ رہی ہے۔ جو چیز مدتوں سے سکھائی جا رہی ہے اور پڑھائی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام قرونِ وسطیٰ سے تعلق رکھتا ہے‘ یہ تباہ کن ہے‘ اور اسلام ہمارے کلچر اور ماحول کا دشمن ہے۔

میں پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ مغرب میں جو کچھ کہا جا رہا ہے ’’اسلام‘‘ وہ نہیں ہے۔ جتنی معلومات بھی دی جا رہی ہیں وہ معلومات نہیں تشریحات ہیں۔ عربی زبان جانے بغیر آپ مراکش کے حالات کی اصل تصویر سے کس طرح آگاہ ہو سکتے ہیں اور اگر آگاہ ہو بھی جائیں تب بھی یقین سے یہ کہنا کہاں درست ہوگا کہ اہل مراکش کے جو خیالات ہیں وہی اسلام کا اصل منشا اور مقصود ہیں۔ واقعات کی نامہ نگاری کرنے والے کے ساتھ پیش آنے والے حادثات‘ اُس کی پسند ناپسند اور اُس کی کمزوریاں بھی تو مختلف منظر پیش کریں گی‘ لہٰذا ضروری ہے کہ اسلام کا علمی سطح پر مطالعہ کیا جائے۔ اسلامی ممالک کی نامہ نگاری‘ جذباتیت‘ تعصب‘ بند ذہن اور خودسری سے ہٹ کر کی جائے۔

اہل اسلام پر مسلسل اینٹیں برسا کر ردّعمل کو آپ شدید کر سکتے ہیں‘ ڈیڑھ ہزار سال کی خلیج کو پاٹ نہیں سکتے‘ صرف نئے دشمن پیدا کر سکتے ہیں۔

Covering Islam) ‘ ایڈورڈ سعید‘ ناشر: Vintage ‘ برطانیہ۔ صفحات: ۲۰۲۔ قیمت: ۹۹.۷ پائونڈ سٹرلنگ)