ملت اسلامیہ کی تاریخ میں بیسویں صدی میں دو ایسے اہم واقعات کا ظہور ہوا، جنھوں نے مغربی مفکرین اور خصوصاً مستشرقین کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ کیا اس جدید لادینیت کے دور میں ایک صدیوں پرانا سیاسی نظام، جس کی بنیاد انسانوں کی محدود عقل کی بنیاد پر وجود میں آنے والے قوانین پر نہیں بلکہ کئی سو سال پرانی الہامی شریعت پر ہو ، قابل عمل اور قابل نفاذ ہو سکتا ہے ؟ اس سوال کے اُبھرنے کا ایک بڑا سبب بیسویں صدی میں ابھرنے والی دو اہم اسلامی تحریکات اخوان المسلمون (۱۹۲۸ء) اور جماعت اسلامی (۱۹۴۱ء ) کی دعوت کا بنیادی نکتہ قرآن و سنت پر مبنی اسلامی معاشرہ اور ریاست کا قیام تھا، جو مغرب کی زمان و مکان کی غلام، لادینی سیاسی فکر سے براہِ راست ٹکراتا تھا۔
دوسرا اہم واقعہ ۱۹۴۷ء میں اللہ کی حاکمیت قائم کرنے کی غرض سے وجود میں آنے والی ریاست پاکستان کا قیام تھا ۔ جو اسلام کے نام پر اسلامی نظام حیات اور تہذیب ِ اسلامی کے احیا اور قیام کی ایک کوشش تھی اور جس کا سہرا برطانوی لادینی سیاسی نظام سے بخوبی آگاہ ، قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے سرتھا، جنھوں نے اپنے بیانات اور تقاریر میں یہ بات واضح کر دی تھی کہ پاکستان کا قیام مسلمانوں اور اس خطے میں اسلام کی بقا کے لیے ایک لازمی شرط ہے ۔
مغربی سیاسی فکر، کلیسائی عیسائیت سے بغاوت کے نتیجے میں وجود میں آئی، جس میں قانون سازی ، معیشت اورمعاشرت کو عوام کے نمایندوں کی مرضی کا تابع کر دیا گیا اور یہ تصور راسخ کرلیا گیا کہ لادینی جمہوریت ہی دور جدید کے مسائل حل کر سکتی ہے ۔ عیسائیت (یا دیگر مذاہب) کے دور کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ البتہ ذاتی سطح پر ایک فرد اگر چاہے تو وہ عیسائیت یا اپنے کسی بھی عقیدے اور مذہب کی تعلیمات کو اختیار کر سکتا ہے۔ گویا زمان و مکان کی حدود اور دائرہ کار کو ذاتی اور عوامی یا Public place میں تقسیم کر دیا گیا اور اسی تصور کو ’جدیدیت‘ اور تہذیب کے ’نقطۂ کمال‘ سے تعبیر کیا گیا۔
اس مغربی فکری تناظر میں تحریکات اسلامی کا قیام اور ان کے نصب العین میں فرد ،خاندان، معاشرہ اور ریاست کو صرف ایک اصول یعنی توحید کا تابع قرار دینا،مغربی ذہن کے لیے ناقابلِ فہم معاملہ تھا ۔ آج اسلام کے سیاسی نظام کے قیام کی ہر کوشش کو Political Islam یا ’سیاسی اسلام‘ جیسی توہین آمیز اصطلاح سے تعبیر کیا جاتا ہے ،جب کہ اسلامی سیاسی ، معاشرتی اور معاشی نظام کا قیام مستشرقین اور مغربی دانش وروں کی نگاہ میں ایک ناقابلِ عمل تصور ہے۔
’سیاسی اسلام‘ کی تعریف مغربی دانشوروں کی نگاہ میں اسلام کی وہ تعبیر ہے جس میں اسلام محض عبادات و رسومات تک محدود نہ ہو بلکہ وہ ذاتی حدود سے نکل کر عوامی حدود میں دخیل ہو اور معاشی ، سیاسی اور معاشرتی معاملات میں ’شریعت‘کے اطلاق کی کوشش کرے۔ مغربی لادینی جمہوریت، ذاتی اور عوامی دائروں کو ایک دوسرے سے الگ رکھنے پر ایمان رکھتی ہے اور یقینی حد تک یہ سمجھتی ہے کہ معاشی ترقی( Economic Development) اور معاشی فلاح (Economic Well being) صرف اس وقت ہو سکتی ہے جب معاشی، سیاسی، قانونی اور انتظامی اُمور میں مذہب کا کوئی دخل نہ ہو۔
یہ وہ بنیادی عنصری فرق ہے، جس کی بنا پر دنیا میں کوئی بھی اسلامی تحریک ، وہ اخوان المسلمون ہو، جماعت اسلامی ہو، نورسی تحریک ہو وغیرہ۔ اگر اس کے نصب العین میں فرد کی تعمیرِ سیرت کے ساتھ معاشرے، معیشت ،قانون اور سیاسی نظام کی اصلاح شامل ہے تو وہ ’رجعت پسند‘، ’بنیاد پرست‘ ، ’انتہا پسند‘ ، حتیٰ کہ ’تشدد پسند‘ کہلانے کی مستحق بن جاتی ہے۔اور اس پر Political Islam یعنی ’سیاسی اسلام‘ کا ٹھپہ لگا دیا جاتا ہے ۔اس فکر کے برخلاف اسلام اصولی طور پر لادینیت کی کوکھ سے پیدا ہونے والے ہر نظام کو چیلنج کرتے ہوئے معیشت، معاشرت، ثقافت، سیاست اور قانون، غرض یہ کہ ہر شعبۂ حیات کو ایک آفاقی عالم گیر اخلاقی ضابطے کا پابند بنانا چاہتا ہے۔ تحریک اسلامی کا یہ مزاج بیسویں صدی کی پیداوار نہیں ہے (یہ مستشرقین اور مغربی دانش وروں کی غلط فہمی ہے کہ تحریکاتِ اسلامی سامراجی نظام کے ردِ عمل کے طور پر وجود میں آئی ہیں یا یہ کہ یہ ایک ایشیائی معاملہ ہے)۔
اسلام کی تعلیمات اور تصور حضرت ابراہیم ؑسے لے کر خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تک توحید پر مبنی ہے۔ یہ تصور جو صرف ذاتی زندگی (personal space) میں نہیں بلکہ معاشی، قانونی، سیاسی، بین الاقوامی اور ثقافتی میدانوں میں الہامی تصور حلال و حرام ،قرآنی تصور تقویٰ،احسان، عدل، عفوو درگزر ،بین الانسانی تعاون البر اور منکر، فحش اور رذائلِ اخلاق کے خلاف منظم جدوجہد کا نام ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان تعلیمات کی تازگی میں نہ کوئی تبدیلی ہوئی اور نہ اس کی ضرورت تھی، کیونکہ اگر دین ابراہیمیؑ میں تقویٰ کا مطلب اللہ تعالی کی خشیت تھا تو شریعت محمدیؐ میں بھی یہ تصور جوں کا توں پایا جاتا ہے۔اگر صداقت کا مطلب دین ابراہیمیؑ میں طاغوت کے سامنے توحید کو بلاکسی معذرت و نظرثانی کےپیش کرنا تھا، تو آج بھی صداقت و امانت کا مفہوم وہی ہے۔ اخلاق ایک اضافی عمل نہیں ہے بلکہ اسلام اخلاق کو مطلق طور پر ایک عالم گیر فریضہ کے طور پر متعین کر دیتا ہے،جو اپنے اندر ہرپیش آنے والی صورتِ حال کا مقابلہ کرنے اور مشکلات و مسائل کو زیر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
قرآن نے اس جامع اور آفاقی اخلاق کو عملاً کر کے دکھانے والے کے لیے یہ کہا تھا: وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ۴ (القلم ۶۸:۴) ’’اور بے شک آپؐ اخلاق کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہیں‘‘۔ کیونکہ آپؐ نے ذاتی اخلاقی طرزِ عمل سے لے کر عسکری، سیاسی، معاشی، ثقافتی، قانونی ہرشعبہ میں مثالی اخلاقی طرز ِعمل کو عملاً نافذ کر کے وہ قابلِ عمل سنت قائم فرمائی جو ترقی اور خوش حالی لانے کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔
مغرب کے ’سیاسی اسلام‘ کے تصور کا ایک پہلو خواتین کے حقوق سے تعلق رکھتا ہے۔ مغربی مفکرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ’’جب تک خواتین کو مردوں کے شانہ بہ شانہ معاشی دوڑ میں شامل نہیں کیا جائے گا اور ان کا دائرہ کار صرف گھر کی چار دیواری تک محدود رہے گا ،ایک جدید معاشرہ اور ترقی یافتہ ماحول پیدا نہیں ہو سکتا‘‘۔اکبر الٰہ آبادی اور علامہ محمد اقبال نے سو سال پہلے قوم کو خبردار کر دیا تھا کہ خواتین کو ان کے اصل دائرہ سے نکال کر معاشی دوڑ میں شامل کرنے کے نتیجے میں کیا منظر نامہ وجود میں آئے گا؟
یہاں یہ بات واضح طور پر کہنے کی ضرورت ہے کہ اقوام متحدہ اور مغربی دانش وروں کے ہاں تعمیروترقی کا جو تصور بطور ایک قاعدے اور کلیے کے پیش کیا جاتا ہے، وہ عملاًصرف معاشی سرگرمی سے تعلق رکھتا ہے ۔ مثلاً اگر کسی ملک میں ۵۰ فی صد یا اس سے زیادہ تعداد میں خواتین معاشی دوڑ میں شامل ہوں تو اسے ترقی یافتہ ملک قرار دے دیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ تصور بھی ذہنوں میں بٹھا لیا گیا ہے کہ ’سیاسی اسلام‘ خواتین کو تعلیم ، معاشی سرگرمی اور سیاسی معاملات میں حصہ لینے کا اختیار نہیں دیتا ، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن و سنت نے ہر مسلمان خاتون پر حصولِ علم کو فرض قرار دیا ہے۔ پھر زندگی کو بہتر بنانے کے لیے جملہ معلومات کے حصول اور اپنی معاشرتی وثقافتی ذمہ داریوں کے ساتھ معیشت ،قانون سازی اور دیگر معاملات میں علم، تجربہ اور تخصص کی بنا پر حصہ لینے کو خواتین کے بنیادی حقوق میں شامل کیا ہے۔لیکن چونکہ یہ تمام حقوق ایک ’دین‘ دیتا ہے ، اس لیے دین کی پیروی کو ’قدامت پرستی‘ قرار دیا جاتا ہے ۔
جس چیز کو مغرب سمجھنے سے قاصر ہے وہ یہ ہے کہ مغرب میں جو اخلاقی، معاشرتی اور ثقافتی اضمحلال اور زوال واقع ہوا ہے ،اس کا ایک بڑا بنیادی سبب معاشی خوش حالی کے نام پر خاندان کی یکجہتی اور مرکزیت کا ختم کیا جانا ہے۔خواتین کو مردوں کے شانہ بہ شانہ معاشی دوڑ میں شامل کرنے کا قدرتی نتیجہ خاندان کا منتشر ہونا تھا۔اسلام وہ واحد دین ہے جس نے زکوٰۃ کی فرضیت مرد اور عورت دونوں پر واجب کی ، دونوں کے دولت کے پیدا کرنے ،خرچ کرنے، صرف کرنے کے ساتھ معاشی فوائد کے حصول کو دینی سرگرمی میں شامل کیا اور ساتھ ہی خاندان کو بھی تحفظ فراہم کیا ۔ یہ الگ بات ہے کہ تنگ نظری اور خود غرضی کی بنا پر خواتین کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کی ذاتی یا روایتی و قبائلی خواہش کو شریعت سے منسوب کر دیا جائے ، یا عملاً اس سلسلہ میں کوتاہی کی جائے۔
گویا’سیاسی اسلام‘ پر یقین رکھنے والے مغربی یا مشرقی مفکرین کا یہ تصور کہ اسلام کے نفاذ سے خواتین حقوقِ انسانی سے محروم کر دی جائیں گی ،مکمل طور پر بے بنیاد تصور ہے اور قرآن و سنت کی واضح ہدایات سے قطعاً مطابقت نہیں رکھتا۔ آج ابلاغ عامہ ہو یا علمی تحقیق کا میدان، ہر جگہ یہی بات دہرائی جا رہی ہے کہ ’طالبانائزیشن‘ ہی ’سیاسی اسلام‘ کی عملی شکل ہے اور اس میں خواتین کی تعلیم اور حقوق ِانسانی پر عمل کی کوئی گنجایش نہیں پائی جاتی۔
جس طرح یورپ کو سوویت یونین کے خوف اور جنگ عظیم کے اثرات نے بہت سے کام کرنے پر آمادہ کیا، جن میں NATO (ناٹو) کا قیام بھی شامل ہے۔ اسی طرح ’سیاسی اسلام‘ کو ایک خوفناک جِنّ یا عفریت قرار دے کر یورپی اقوام کو اسلام سے ذہنی طور پر متنفر کرتے ہوئے انھیں ’سیاسی اسلام‘ کے خلاف جا رحانہ اقدامات کے لیے آمادہ کیا جا رہا ہے ۔ یوں اسلام اور یورپی عوام کے درمیان ذہنی اور ثقافتی بُعد میں روز بروز اضافہ واقع ہو رہا ہے۔ اگرچہ دوسری جانب اسلام دشمن قوتوں کے بعض جارحانہ اقدامات نے خود اسلام کے بارے میں تجسس پیدا کیا ہے اور حقیقتِ حال معلوم کرنے کی خواہش کے ساتھ جن افراد نے قرآن کی طرف رجوع کیا ہے ، ان میں سے بڑی تعداد نہ صرف اسلام سے قریب آئی ہے بلکہ بعض نے اسلام پر ایمان لانے کا اظہار بھی کیا ہے۔
’سیاسی اسلام‘ کے حوالے سے یہ بات بھی بار بار دہرائی جا رہی ہے کہ اس کی قیادت روایتی علما نہیں کر رہے بلکہ سیکولر یونی ورسٹیوں سے فارغ ہونے والے ایسے نوجوان ہیں جو ماضی قریب یعنی ساٹھ کی دہائی میں اشتراکی فکر سے متاثر تھے اور کارل مارکس کو حُریت کا پیغمبر سمجھتے تھے۔ وہ اپنے موقف سے رجوع کر کے ’سرخ نظام‘ کی جگہ اب ’سبز نظام‘ یعنی نظامِ مصطفیٰ ؐکے علَم بردار بن گئے ہیں۔ لیکن ان میں چونکہ اشتراکیت زدہ افراد کی طرح انتہا پسندی اور تشدد کی طرف رجحان بھی پایا جاتا ہے،اس لیے یہ مغرب کے لیے خطرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی خطرناکی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ روایتی علما کی طرح محض عقیدے پر زور نہیں دیتے ۔یہ اسلام، سائنس اور ٹکنالوجی کو یکجا کر کے ایک نئے ’عادلانہ نظام‘ کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ یہ جدید معاشرے کی ایجاد کردہ سہولیات کا استعمال بھی کرتے ہیں اور اس کی بیخ کنی بھی کرنا چاہتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو: اولیورائے کی کتاب The Failure of Political Islam ،ص۳)۔ ’سیاسی اسلام‘ کو ناکام قرار دینے کی ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ سیاسی اسلام جغرافیائی حدود میں محدود تصور نہیں ہے بلکہ یہ عالمی تبدیلی کا داعی ہے اور مغرب کی لادینی تہذیب کے مقابلے میں وسائل اور اختیارات سے محروم ہے، اس بنا پر عملاً کامیاب نہیں ہوسکتا۔ یاد رہے یورپی ذہن میں ریاست کا تصور جغرافیائی حدود پر مبنی ہے اور اسلام کی عالم گیریت، ریاست کی بنیاد جغرافیائی سرحد کو قرار نہیں دیتی۔
اولیورر ائے ’سیاسی اسلام‘ کے جغرافیائی حدود سے ماورا اور پوری امت مسلمہ کی ایک باوقار قیادت کی یک جہتی کے تصور کو جدید تہذیب کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے، ’سیاسی اسلام‘ کو آمریت اور جبر سے تعبیر کرتا ہے ۔ اس کو اسلام میں مذہب اور سیاست کی عدم تفریق، یورپ کے ’تاریک دور‘میں چرچ کے مظالم کی یاد دلاتی ہے اور نفاذ شریعت کو کلیسا کی پاپائیت سمجھتے ہوئے وہ یہ نتیجہ اخذ کرتا ہےکہ مغربی سیکولر جمہوریت ہی انسانیت اور مسلمانوں کی فلاح اور ترقی کی ضمانت دے سکتی ہے۔ (ایضاً،ص ۱۳)
عالمی سطح پر دانش ورانہ حلقوں، بین الاقوامی کانفرنسوں، یورپی اور امریکی یونی ورسٹیوں کے شعبہ ہائے تقابلی سیاست ، عمرانیات ، مذہب، معیشت اور خصوصاً اسلام کےعصری انقلابی پہلو پر کام کرنے والے لوگوں کا ایک مخصوص نقطۂ نظر بنتا ہے۔ ان کے زیرانتظام چلنے والے تھنک ٹینکس کی تحقیقات کا مطالعہ کرے گا، پھر ان کے مذاکروں اور مکالموں میں جو فرد بھی شرکت کرے گا وہ ایک نہیں پندرہ بیس محققین کی زبان سے اعداد و شمار پر مبنی ’سیاسی اسلام‘ پر مقالات اور تقاریر سننے کے بعد اگر مکمل نہیں تو کم از کم نصف قائل ہو کر نکلے گا کہ واقعی سیاست میں اگر ’مذہب‘کا عمل دخل ہوا تو’سیاسی اسلام‘ ملک و ملت اور دنیا کو تباہ کر کے رکھ دے گا۔
مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک تاریخی طور پر ایک ایسی نفسیاتی اور معاشرتی فضا میں وجود میں آئے، جو فرانس اور برطانیہ کے مشرقِ وسطیٰ کا ایک نیا نقشہ بنا کر سلطنتِ عثمانیہ کی بندر بانٹ کر نے کا نتیجہ تھا ۔ اس لیے وہ اپنی قومی عصبیتوں میں ایسے گرفتار ہوئے کہ اپنی اصل تاریخ اور فکر سے لاتعلق ہو گئے اورروز ِاوّل سے استعماری فکر و تعلیم میں تربیت پانے کے سبب دین و سیاست کے عدم اتحاد کے تصور کو ہی حق و صداقت پر مبنی سمجھ بیٹھے۔
نہ صرف یہ بلکہ عیسائی اور یہودی ماہرین سماجی علوم نے ان کے دل و دماغ میں یہ بات کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے کہ کویتی ایرانی سے ، قطری مصری سے، سعودی یمنی سے ، عراقی شامی سے قومیت کی بنا پر برتر ہے۔ قومیت کے اس دو آتشہ زہر نے ہر اس فرد کو جو چاہے عربی دانی کا دعویٰ کرتا ہو، قرآن کریم کے اصولِ اخوت اور امت مسلمہ کے جسدِ واحد ہونے کی جگہ نسلی ،لسانی اور قبائلی تفریق کی بنا پر قومیت پرستی پراس حد تک یقین دلا دیا ہے اور ایسے اقوال ایجاد کر لیے گئے جو قرآن و سنت سے براہِ راست ٹکراتے ہیں، مثلاً حُبُّ الوطن من الإیمان (یعنی وطن سے محبت ایمان کا جز ہے)۔ایسے اقوال کو بنیاد بنا کر لادینی قومیت کے لیے راہیں نکالی گئیں اور اسلام کی عالم گیر فکرپر نقب لگائی گئی، جو اسلام دشمن قوتوں کا ہدف تھا۔
اس تناظر میں اگر پاکستان پر ایک نظر ڈالی جائے تو منظر نامہ فوری توجہ طلب نظر آتا ہے ۔ ۷۵سال سے معاشی پالیسی ہویا تعلیمی اور ثقافتی، تینوں محاذوں پر مقدور بھر کوشش کی گئی کہ برسرِاقتدارآنے والی پارٹی یا مقتدر قوت اپنے ذاتی مفاد کی پرستش کرے اور ملکی مفاد کو پس پشت ڈال دے۔ چنانچہ وسائل کی تقسیم اور اس سے زیادہ اہم وسائل کا درست استعمال کبھی حکمرانوں کی ترجیح نہیں رہا ۔وہ حضرات جو مثلا ًبلوچستان کے مجبور و مظلوم عوام کو غلام رکھنے کے لیے مشہور تھے، انھی سرداروں کو صوبے میں ترقیاتی منصوبوں پر عمل کرانے کے لیے منتخب کیا گیا جو نسلا ًبعد نسل انگریز کے وظیفوں پر پلتے رہے تھے۔ جنھیں انگریز نے اپنی وفاداری پر خطابات اور وسیع زمینی قطعات سے نوازا تھا۔ کیا کوئی صاحب ِعقل ایسے حکمرانوں سے یہ امید کر سکتا ہے کہ جو اپنے عوام کو ’کم تر انسان‘ اور اپنا ’غلام‘ سمجھتے ہوں ، وہ ان کے حقوق اور مفادات کا تحفظ کرنے کی صلاحیت رکھ سکتے ہیں؟ لیکن سب کچھ جاننے کے باوجود ہماری مقتدر قوتوں نے آنکھیں بند کر کے انھی کو اپنے سیاسی اتحادوں میں شامل کر کے ظلم و استحصال اور محرومی کے شجر کو پھلنے پھولنے دیا ۔
بانی ٔپاکستان قائداعظم نے ایک مرتبہ نہیں بارہا یہ بات دُہرائی تھی کہ اب یہاں نہ کوئی بنگالی ہوگا، نہ پنجابی، نہ بلوچی بلکہ سب پاکستانی ہوں گے اور انھیں ان کے حقوق دیے جائیں گے۔ ۱۱؍اگست کی وہ تقریر جس کا وظیفہ پاکستان کے یورپ زدہ دانش ور دُہراتے ہیں ، اسی تقریر میں قائداعظم نے عصبیت، چور بازاری، کرپشن اور چودھراہٹوں کے بخیے ادھیڑے تھے اور قوم کو اس کے اصل اندرونی دشمنوں سے آگاہ کیا تھا، لیکن قوم اگر انھی راہ زنوں کو راہنما بنا کر خوش ہو تو اس میں کوئی کیا کر سکتا ہے؟ خالق ارض و سما تو اسی صورتِ حال کی مناسبت سے فرما چکا ہے:’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی‘‘۔ (الرعد۱۳:۱۱)
پاکستان کے تناظر میں ’سیاسی اسلام‘کے تصور کو دیکھا جائے تو تقلید پسند روایتی علما اور مفکرین بغیر یہ تصور کیے کہ شریعت کے وہ اصول جنھیں وہ طلبہ کو حفظ کراتے ہیں ،کیا کہتے ہیں اور انھیں ہم کس طرح آج استعمال کر سکتے ہیں؟ ان دو کلمات پر مبنی اپنے طول طویل خطبوں سے لوگوں کے دل گرماتے ہیں: ’’ہر مسئلے کا حل ’خلافت‘اور شریعت کا نفاذ ہے‘‘۔ بلاشبہہ اپنی جگہ یہ بات بالکل درست ہے، لیکن کیا انھوں نے کبھی اس بات پر غور کرنے کی زحمت فرمائی کہ ’خلافت اور شریعت‘ ایک ایسے ماحول میں جہاں عوام کو ان تصورات کی کوئی آگہی نہ ہو، محض ان کے فرمانے کی بنا پر، وہ جو دو وقت کی روٹی سے بھی محروم ہیں ، ان کی بات پر یقین کرلیں گے؟سیاسی تبدیلی کو اُوپر سے نیچے تک، اور نیچے سے اُوپر تک کیسے نافذ کیا جائے گا؟ کیا محض تقریروں اور نعروں سے یہ عظیم کام انجام پاسکے گا؟کیا ماحول تیار کیے بغیر ایک انتہائی اعلیٰ نظام محض ایک سرکاری اعلامیہ سے نافذ کیا جا سکتا ہے؟
ان بنیادی سوالات کے معقول جوابات کے بغیر روایتی علما کی بات اثر نہیں کر سکتی۔ دوسری جانب وہ حضرات جو جوشِ ایمانی میں یہ سمجھتے ہیں کہ عوامی انقلاب ہی ہر مسئلے کا حل ہے،یا کسی مسلح سرگرمی سے اچانک قبضہ کر کے تمام برائیوں کی اصلاح ہو سکتی ہے، کیا وہ کبھی غور کرنے کی زحمت کرتے ہیں کہ خود مکہ مکرمہ میں انقلابی حکمت عملی کے بے انتہا روشن امکانات ہونے کے باوجود، ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکمت عملی پر کبھی توجہ فرمائی؟ اگر حضرت عمرؓ، حضرت حمزہؓ، حضرت علیؓ، ہر ایک قرآن کریم کی رو سے اپنے سے دس گنا افراد کے لیے کافی تھے، تو کیا ایک شب ایسی نہیں ہوسکتی تھی، جس میں تمام سردارانِ مشرکین کو تہہ تیغ کر کے اسلامی ریاست کے نفاذ کا اعلان مکہ ہی میں کر دیا جاتا اور وہ ساری آزمائشیں جو بدر و اُحد اور حنین و خندق کی تھیں، ان کی ضرورت ہی پیش نہ آتی؟
دین اسلام عقل و ہوش ،تاریخ، مقامی صورتِ حال، مستقبل کے نتائج کے ہر ہر پہلوپر غور کرنے کے بعد کوئی اقدام تجویز کرتا ہے۔ اسلام نہ جذباتیت کا غلام ہے اور نہ محض عقل کا پابند، یہ حکمتِ دین کی بنیاد پر فیصلے کرنے کا حکم دیتا ہے۔ بہرحال، اس جملۂ معترضہ سے قطعِ نظر پاکستان کے تناظر میں تقلید پسند علمااور مفکرین نے جو اپنے رسائل کے سرورق پر’ خلافت‘اور’شریعت‘کی اصطلاحات کو استعمال کرتے ہیں، وہ نقشۂ عمل پیش نہیں کیا، جسے قوم سمجھ سکتی اور جو قابلِ عمل (viable)بھی ہوتا۔
’ سیاسی اسلام‘ کو سب سے زیادہ ان پاکستانی دانشوروں نے اپنے لیے باعثِ رحمت سمجھا جو ذہنی طور پر پہلے ہی صبغتہ اللہ کی جگہ، اپنے آپ کو یورپ کے رنگ میں رنگ چکے تھے، اور پاکستان کی اکثر یونی ورسٹیوں میں اپنی اسی خام دانش کو بکھیرنے کا مقدس فریضہ انجام دے رہے تھے۔ انھوں نے نہ صرف اس تصور کو خود تسلیم کیا بلکہ قائداعظمؒ سے بھی منسوب کر دیا۔ پھر اس علمی بددیانتی کو اتنی مرتبہ دہرایا کہ آج اکثر یونی ورسٹیوں سے فارغ ہونے والے اساتذہ اورطلبہ یہی سمجھتے ہیں کہ قائداعظم ایک سیکولر انسان تھے اور سیکولر نظام کے حامی تھے ۔
وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ قائداعظمؒ ایک سچا، نڈر، بااصول اور کسی کے سامنے نہ جھکنے والا انسان تھا۔ جس نے کبھی ساری عمر ایک جھوٹا کیس بطور وکیل پسند نہیں کیا، اور جس نے کبھی دوغلی بات نہیں کی۔ اس نے سو سے زیادہ مقامات پر جو بات کہی، اس تمام تفصیل کو ان کے صرف دو خطبے بیان کر دیتے ہیں۔ اگر صرف یہ دو بیانات ہی قوم نے کھلے ذہن کے ساتھ پڑھ اور سمجھ لیے ہوتے تو آج ملک کا نقشہ کچھ اور ہوتا ۔یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ قائد کے یہ اور دوسرے بیانات کسی ’مظاہرے‘ یا ’علما کے دھرنے‘کے ردعمل میں نہیں دیے گئے، بلکہ ایک سوچنے سمجھنے والے اور ایک ایک لفظ ناپ تول کر بولنے والے شخص کے الفاظ ہیں:
In Pakistan we shall have a state which will be run according to the principles of Islam.It will have its cultural, political and economic structure based on the principles of Islam. The non-Muslims need not fear because of this, for fullest justice will be done to them.... they will have their full cultural, religious, political and economic rights safeguarde. As a matter of fact they will be more safeguarded than in the present day so-called democratic parliamentary form of Government.(Address at the Hostel Parliament of Ismail Yusuf College, Jogeshwari (Bombay), 1st February 1943. M.A Harris (ed) 1976, p.173.
پاکستان ایک ایسی ریاست ہوگی جسے اسلام کے اصولوں کے مطابق چلایا جائے گا۔ اس کا ثقافتی، سیاسی اور اقتصادی ڈھانچا اسلام کے اصولوں پر مبنی ہوگا… غیرمسلموں کو کسی قسم کے اندیشے میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے، ان سے پوری طرح عدل کا معاملہ کیا جائے گا۔ وہ مکمل طور پر اپنے ثقافتی، مذہبی، سیاسی اور معاشی حقوق میں محفوظ و مامون ہوں گے۔ درحقیقت انھیں آج کل کی نام نہاد پارلیمانی جمہوری حکومت سے زیادہ تحفظ ملے گا۔
یہ تین باتیں کہنے والا نہ توکبھی کسی کی دھمکی کے زیراثر تھا اور نہ دھمکی دی تھی، نہ وہ کسی جذباتی دباؤ میں یہ بات کر رہا تھا، کیونکہ وہ یہ بات ۱۹۴۵ء میں کہہ رہا ہے ۔ پھر وہ ایک نڈر شخص ہے جو یہی بات شملہ میں کہہ چکا ہے ، یہی بات علی گڑھ میں کہی کہ یہ نام نہاد مغربی پارلیمانی نظام ہمارے لیے ناکارہ ہے۔
اولیور رائے دیگر مفکرین کے پیمانے سے دیکھا جائے تو وہ شخص جس کی فکر اتنی واضح اور غیرمبہم طور پر اسلامی ہو،اسے کیا کوئی ذی ہوش شخص سیکولر قرار دے سکتا ہے؟
دوسرا اہم بیان جسے قوم سے جان بوجھ کر مخفی رکھا گیا وہ ۲۳ مارچ کو لاہور کے مشہورِ زمانہ کنونشن، جس میں قرارداد پاکستان منظور کی گئی تھی،اس کے اگلے دن کا واقعہ ہے ۔ ۲۴ مارچ ۱۹۴۰ء کو خواجہ عبدالرحیم جو چودھری رحمت علی کے ساتھی اور پاکستان کا نام تجویز کرنے والے نوجوانوں میں شامل تھے، انھوں نے اپنے گھر پر قائداعظم اور دیگر مسلم لیگی زعما کو چائے پر مدعو کیا۔ اس نشست میں جو گفتگو ہوئی وہ غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔ قائدا عظم نے ان سے کہا کہ ’’جو نام تم لوگوں نے ۱۹۳۰ء میں تجویز کیا تھا، اس پر ہندو پریس میں بڑی گفتگو ہو رہی ہے۔ خواجہ عبدالرحیم نے کہا: ’’پھر آپ کے خیال میں ملک کا نام کیا ہونا چاہیے ؟علامہ اقبال بھی اس نام کو پسند کر چکے ہیں‘‘۔ قائداعظم نے جواب دیا:
if you people and the Muslim nation likes this name I have no objection, except in the name you have on the pamphlet Pakstan add ‘I` which stands for Islam and is the link between these provinces.
اگر آپ لوگ اور مسلم قوم اس نام کو پسند کرتی ہے تو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں سوائے اس کے کہ آپ نے پمفلٹ پر جو نام ’پاک- ستان‘ لکھا ہے اس میں ’آئی‘ کا اضافہ کرلیں جو اسلام کی نمایندگی کرتا ہے اور ان صوبوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔
خواجہ عبدالرحیم نے قائد کا یہ پیغام چودھری رحمت علی کو جو ان دنوں کراچی میں تھے پہنچا دیا۔ (سلطان ظہیر اختر، شاید کہ ترے دل میں اتر جائے میری بات، راولپنڈی، تنظیم کارکنان پاکستان، ۱۹۹۸ء، ص ۲۳-۲۴)
پاکستان کے نام کی تاریخ کا یہ باب ۷۵سال سے قوم سے مخفی ہے۔ دوبارہ سوال یہی ہے کہ جو شخص ملک کے نام کو اسلام کے بغیر نامکمل سمجھتا ہو، وہ کس قسم کے پاکستان کا خواہش مند تھا؟ پھر ایک ماہر قانون دان منطقی طور پر یہ سمجھتا ہے کہ نئے ملک کے مجوزہ نام میں P جو پنجاب سے لیا گیا ،A جو افغانستان سے لیا گیا،Kجو کشمیر سے لیا گیا اور stan سندھ، بلوچستان کے لیے استعمال کیا گیا، لیکن ان سب صوبوں کو کیا چیز جوڑے گی ؟ ان کی عصبیتوں کو کون سنبھالے گا ؟ ان میں اتحاد کون پیدا کرے گا ؟ چنانچہ عقلی اور منطقی طور پر وہ یہ مشورہ دیتا ہے کہ چاہے علامہ اقبال نے یہ نام پسند کر لیا ہو، تب بھی اس میں اسلام کے لیے ’I‘ کا اضافہ کیا جائے۔
چودھری رحمت علی کے تحریر کردہ پمفلٹ Now or Never میں جو نام تجویز ہوا، وہ PAKSTANتھا۔( ملاحظہ ہو اصل خط کی نقل جس میں’ I‘کے بغیر ملک کا نام تجویز کیا گیا تھا)
Pakistan میں ’I‘ کا اضافہ قائداعظم کی خواہش پر ہوا اور ’I‘ سے مراد اسلام ہے۔
’سیاسی اسلام‘ پر ڈاکٹریٹ کے مقالے لکھنے والے مغرب زدہ پاکستانی دانش وروں کے سوچنے کے لیے صرف یہ دو اقتباسات کافی ہیں کہ وہ قائد کو کس کھاتے میں رکھنا پسند کریں گے۔ ’بنیاد پرست‘، ’مقلد‘، ’بند ذہن‘، ’روایت پرست‘، ’ سیکولر‘ یا ایک سچا، نڈر، بے باک ، دوٹوک بات کہنے والا؟ یا لنکن اِن سے بار ایٹ لا کرنے والا، برطانیہ کے نظام ،وہاں کی معیشت، معاشرت، ثقافت سے براہ راست آگاہ شخص، لیکن اس کے باوجود اسلام کو بغیر کسی معذرت اور تردد کے کھل کر ملک کا نظام قرار دینے والا روشن دماغ، ترقی پسند رہنما!
اس پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے تحریک اسلامی کو کیا راستہ اختیار کرنا چاہیے؟ کیا وہ کسی نہ کسی طرح اقتدار میں آجانے کے راستے کو اختیار کرے، جس میں کچھ compromise (سمجھوتے) کرنے پڑیں یا وہ ’انقلابی‘بن کر سٹریٹ پاور کے ذریعے اقتدار میں آجائے ۔ یا پھر بجاطور پر وہ اپنے دستور میں واضح درج شدہ پالیسی کی پیروی کرتے ہوئے، بغیر کسی سازشی حربے کے، کھلے ماحول میں دستوری جدوجہد کے ذریعے ان منطقی مراحل کو اختیار کرے، جن کی دستور جماعت اسلامی خود وضاحت کرتا ہے۔ یعنی پہلے اس ذہن کو ہموار کرنا، جس میں شجر طیبہ کا بیج ڈالنا ہے، فکری اور عملی تطہیر، تربیت اور خاندان اور معاشرہ کی اصلاح کے نتیجے میں زمامِ کار کا صالح افراد کے ہاتھ میں آنا۔
اس پہلے مرحلے کو جب تک بنیادی اہمیت نہیں دی جائے گی جو دیوار بھی تعمیر ہوگی وہ آسمان تک جا کر بھی ٹیڑھی ہی رہے گی۔اولین ترجیح عظیم الشان جلوس اور جلسوں کی جگہ دلوں کی کائنات میں تبدیلی ہے، ذہنوں کا اتحاد ہے اور اَرواح کی یکجائی ہے۔ فکر کی اصلاح اور راستی ہے۔یہ کام محض خطبوں سے نہیں بلکہ باہمی ربط، قربانی، اخوت، باہمی امداد اور خصوصاً للہیت ہی سے ہوسکتا ہے۔ اطمینان قلب، ذکر الٰہی کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ ایسے قرآنی اجتماعات کی ضرورت ہے جن میں آخرت اور سنت پر عمل کو اُجاگر کیا جائے تاکہ عوام میں دین سے محبت اور دین کے لیے اپنے ذاتی مفاد کو قربان کرنے کی تڑپ اور طلب پیدا ہو۔ یہ کام محض جلسے، جلوس نہیں کر سکتے۔ یہ ایک سنجیدہ، گہرا، سوچا سمجھا، محنت طلب اور طویل المعیادکام ہے۔
دوسری اہم چیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی مرکزیت اور اس کی روح اور الفاظ کا تحفظ اور اس چیزسے عوام کو آگاہ کرنا ہے ۔کیونکہ ۹۹ فی صد پڑھے لکھے افراد بھی دستور پاکستان کی اسلامی دفعات سے مکمل طور پر لا علم ہیں ۔یہ دستورکا مطالبہ ہے کہ پاکستان میں نظام تعلیم ، معاشی نظام، سیاسی نظام، معاشرت، ثقافت، غرض ہر شعبۂ حیات کو اسلام کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے۔
نفاذ شریعت کسی سیاسی جماعت یا کسی گروہ کا مطالبہ نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کے بغیر دستور پاکستان نامکمل ہے۔اس دستوری فریضے کو سیکولر طبقے نے ایک متنازعہ مسئلہ جان بوجھ کر بنایا ہے اور اس میں دانش وروں کو الجھا کر رکھ دیا ہے، تاکہ دستور پاکستان پر عمل نہ ہو سکے ۔ اس لیے تحریک اسلامی کی ذمہ داری ہے کہ وہ پہلے اپنے کارکنوں کو دستور پاکستان کا شق وارشعور دے اور پھر اس دستور کے عملی نفاذ اور تحفظ کو اپنی ترجیح قرار دے ۔اس مطالبہ کی مخالفت سیکولرزم پر ایمان بالغیب لانے والا بھی نہیں کر سکے گا۔
تیسری اہم چیز اس قومی مرحلے میں اس کی قطعیت (polarity) ہے، جس میں تقسیم در تقسیم کو دُور کرنا کہ جس کا اس وقت ملک شکار ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ تمام ملکی ادارے قومی مفاد کو پسِ پشت ڈال کر قومی مفاد نہیں بلکہ ذاتی خواہش کی وفادارانہ اطاعت میں ایک فریق کو ’پاک باطن‘ اور دوسرے کو ’مکمل شیطانیت‘ ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔یہ امر نہ صرف انسانی عقل و عدل اور اسلامی شریعت کے منافی ہے، بلکہ جو بھی شریعت اسلام پر ایمان رکھتا ہو، اس کا فرض ہے کہ اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرے، چاہے اس سے اس کو سیاسی فائدہ ہو یا نقصان۔ یہ کتمانِ حق کسی بھی شکل میں مفید نہیں۔ ملکی یک جہتی اس وقت ہوگی جب اختلاف کو برداشت کرتے ہوئے ہر فریق کو اپنی بات کہنے کی آزادی ہو اور عوام بغیر کسی رکاوٹ کے حقائق پر مبنی تجزیہ کے بعد اپنی رائے استعمال کر سکیں۔
قطعیت کی نفی اور تقسیم محض سیاسی محاذ پر نہیں ہے ۔ یہ گھروں کے اندر تک پہنچ چکی ہے اور اسے دوبارہ ملکی اور قومی اتحاد میں تبدیل کرنا ایک اہم قومی فریضہ ہے ۔دو صوبے خاص طور پر اس کی شدت اور کرب کو دن رات محسوس کر رہے ہیں۔ موسم کی شدت میں گھر میں بیٹھنے والی خواتین تک سڑکوں پر آ کر اپنے رنج و الم کا اظہار کر رہی ہیں ۔اس صورتِ حال کو فوری طور پر محبت، رواداری، تحفظ، اخوت کے ماحول سے بدلنے کی ضرورت ہےاورموجودہ حالات میں تحریک اسلامی ہی وہ غیر جانب دار ملک گیر اور مؤثر تحریک ہے، جو اس قومی فریضہ میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے ۔
_______________
گذشتہ ۳۰ برسوں کے دوران ماہ نامہ ترجمان القرآن کی ادارت اور مشاورت سے وابستہ ممتاز محقق، استاد، دانش ور اور ماہر اقبالیات ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ۲۵جنوری ۲۰۲۴ء کو ۸۳ برس کی عمر میں انتقال کرگئے ہیں۔ احباب سے اپیل ہے کہ ان کی مغفرت اور خدمات کی قبولیت کے لیے دُعا فرمائیں۔ ادارہ
اعجاز القرآن کے بارے میں مفسرین وادبا و علما کی متعدد آراء ہیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ قرآنی اعجاز بیانی ہے یعنی قرآن پاک اپنے معانی اور پیغام کو اتنے واضح اور بلیغ انداز میں پیش کرتا ہے جو انس و جن کے بس میں نہیں ہے۔ یہی وہ اعجاز ہے جو حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کے معاصر کفار و مشرکین کے لیے چیلنج تھا۔ الفاظ، جملے اور ترکیبیں سب وہی تھیں جن کو عرب جانتے تھے لیکن ان کو قرآن میں جس طریقے سے جوڑا گیا تھا کہ وہ فصاحت و بلاغت کا نمونہ بن جائیں، وہ انسانوں کے بس میں نہیں تھا۔
قرآن کے اعجاز بیان کی ایک مثال یہ ہے کہ عربی زبان میں ’سنة‘ اور ’عام‘ دونوں سال کے لیے استعمال ہوتے ہیں لیکن ’سنۃ‘ وہ سال ہوتا ہے جس میں مصائب اور مصیبتیں ہوتی ہیں اور ’عام‘وہ سال ہے، جس میں آرام و آسایش ہو۔ قرآن پاک میں حضرت نوحؑ کے بیان میں ’سنۃ‘ (العنکبوت۲۹:۱۴)، اور مصری بادشاہ کے خواب کی تعبیر میں بھی لفظ ’سنة‘ اور ’عام‘ استعمال ہوا ہے (یوسف۱۲: ۴۶-۴۹)۔ دونوں آیتوں میں مشکل برسوں (Years)کے لیے’ سنۃ‘ اور آسان برسوں کے لیے ’عام‘ استعمال ہوا ہے۔
اسی طرح حضرت یوسفؑ کے زمانے میں مصر کے حاکم کے لیے ’ملک‘ (بادشاہ) کا لفظ قرآن پاک میں استعمال ہوا ہے،جب کہ دوسری جگہوں پر مصر کے حاکموں کے لیے ’فرعون ‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت یوسفؑ کے زمانے میں مصر کا بادشاہ ہکسوس قوم سے تھا۔ یہ لوگ غیرمصری تھے اور اپنے بادشاہوں کے لیے ’فرعون‘ کا لقب استعمال نہیں کرتے تھے ۔
تشريعی یا قانون سازی کے اعجاز کا مطلب ہے قانون سے متعلق امور کوبہت آسان اور جامع بنانا، نیز اسے مختصر ترین الفاظ میں ایسے بیان کر دینا جو آج بھی انسان کے لیے ناممکن ہے۔ قرآن پاک نے جو قوانین ہمارے لیے بنائےہیں، ان میں بہت حکمت ہے۔ ان میں عقل مند اور کم عقل، صحت مند اور بیمار، عالی ہمت اور کم ہمت سب کی رعایت کی گئی ہے۔ اس میں تدریج کابھی خیال رکھا گیا ہے جیسے شراب اور جوے کو دھیرے دھیرے حرام کیاگیا۔ قرض (دَین) اور مالی معاملات کے بارے میں بہت تفصیل سے بتا دیا گیا کہ جب قرض لو تو اسے لکھ لو، لکھنے والے کی صفت بھی بتائی اور لکھنے کی حکمت بھی بتا دی (البقرہ ۲: ۲۸۲)۔ اسلامی تشریع میں سفر و حضر کے لیے بھی الگ الگ قوانین ہیں، کمزور اور طاقت ور مسلمان کے لیے بھی رخصت اور عزیمت کا اصول ہے اور انتہائی مجبوری میں حرام اشیا کو کھانے کی بھی اجازت ہے۔
یہاں میں امریکی صدر رچرڈ نکسن کے بیرونی پالیسی کے مشیر رابرٹ ڈکسن کرین (م:۲۰۲۱ء) کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو قرآن پاک کی صرف ایک آیت دیکھ کر مسلمان ہو گئے۔ وہ پبلک لا اور انٹرنیشنل لا میں پی ایچ ڈی تھے اور ہارورڈ سوسائٹی آف انٹرنیشنل لا کے صدر رہ چکے تھے۔ انھوں نے بتایاکہ اسلامی مبادی کے بارے میں صدر نکسن نے جاننا چاہا تو سی آئی اے سے کہا گیاکہ اس کے بارے میں ایک نوٹ تیار کرے۔ سی آئی اے نے جو نوٹ تیار کیا وہ کافی طویل تھا چنانچہ صدر نکسن نے رابرٹ کرین سے کہا کہ وہ اس کو مختصر کر دیں۔ رابرٹ کرین نے یہ کام کر دیا، لیکن جو معلومات اس نوٹ کے ذریعے ان کے علم میں آئیں اس نے ان کو مجبور کیا کہ اسلام کے بارے میں مزید معلومات حاصل کریں اور بالآخر ۱۹۸۱ء میں وہ مسلمان ہو گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ جو کچھ قانون انھوں نے ہارورڈ لا اسکول میں پڑھا تھا وہ سب انھوں نے قرآن میں پایا لیکن قرآن میں ایک بنیادی اصول عدل و انصاف (Justice) کاہے جس کا ذکر قرآن میں باربار آتا ہے لیکن جو قانون انھوں نے ہارورڈ لا اسکول میں پڑھا تھا وہاں یہ تصور کبھی نظر نہیں آتا ۔ ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ ایک بار ایک یہودی ان کے ساتھ تھا جو قانون کا پروفیسر تھا۔ اس سے انھوں نے پوچھا کہ میراث کے بارےمیں امریکی قانون کتنا مفصل ہے؟ اس پروفیسر نے بتایا کہ میراث کے بارے میں امریکی قانون آٹھ جلدوں میں ہے۔ رابرٹ کرین نے اس پروفیسر سے کہا کہ اگر میں ایک میراث کا قانون دکھاؤں جو صرف دس سطروں میں ہو تو کیا تم مانو گے کہ اسلام دینِ حق ہے؟ اس پروفیسر نے ماننے سے انکار کر دیا کہ میراث کے قانون کو دس سطروں میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ اس پر رابرٹ کرین نے قرآن پاک کی وہ آیت (النساء ۴ : ۱۱-۱۲) اس پروفیسر کو پیش کر دی۔ وہ پروفیسر اس وقت خاموشی سے چلا گیا لیکن چند دن بعد وہ رابرٹ کرین کے پاس آیا اور کہا کہ ’’انسانی دماغ کے لیے ممکن نہیں ہے کہ تمام اقرباء کا خیال رکھتے ہوئے اتنی عمدگی اور عدل سے میراث کو تقسیم کرے کہ کسی بھی رشتہ دار کو چھوڑے بھی نہ اور نہ کسی کے ساتھ نا انصافی کرے‘‘۔ رابرٹ کرین کے مطابق وہ یہودی پروفیسر بھی کچھ دنوں بعد مسلمان ہو گیا ۔ ۳۴
اسلامی تشریعات سب کے لیے ہیں، افراد، اجتماعیت، حکومتیں، مرد، عورت، امیر و غریب، حاکم و محکوم، سیاسی، اقتصادی، دینی، اجتماعی سب امور کے لیے ہیں۔ اسلام نے نکاح کو ضروری قرار دیا، طلاق، میراث وغیرہ کے احکام بتائے، اور سب میں عدل وانصاف کا لحاظ کیا: وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۰۠ (البقرہ ۲: ۲۲۸)۔ شادی (زواج )کو مرد و عورت کے درمیان تعلق کو منظم کرنے کے لیے واجب قرار دیا تاکہ زندگی اور نسلیں چل سکیں۔ اسلام میں مرد و عورت دونوں پر ایک ہی طرح کی ذمہ داریاں ہیں: وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۰۠ (البقرہ ۲: ۲۲۸)۔
قرآن کے تشریعی اعجاز میں بنیادی مقام عقیدۂ توحید کا ہے جو پورے عقیدے کی بنیاد ہے۔ اس سے فرد، خاندان اور قوم کے سلوک کی بنیاد بنتی ہے اور اللہ کی بندگی کا حکم ہے:
اسلام نے اپنی بنیاد بہت مضبوط ارکان پر رکھی: صلوٰۃ،صيام،زکوٰۃ،حج، شوریٰ (وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰى بَيْنَہُمْ۰۠ الشوریٰ۴۲: ۳۸)، مساوات،عدل (كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ لِلہِ شُہَدَاۗءَ بِالْقِسْطِ۰ۡ (المائدہ۵: ۸)۔ اسلام میں شریعت کا دخل فرد، سوسائٹی اور اسٹیٹ کے ہرچھوٹے بڑے معاملات میں ہے۔ ہر ذمہ داری ایک امانت ہے جو ہر فرد کو پوری طرح ادا کرنی ہے ( اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۰ۙ… النساء۴: ۵۸)۔شریعت کا ربانی ہونا، اس کی قوت کا راز ہے۔ اسلامی قوانین سخت ہیں لیکن ان میں لچک بھی ہے۔ اس نے زمان و مکان کے لحاظ سے اجتہاد کی گنجایش بھی چھوڑی ہے۔ اسلام نے ان ارکان کے ذریعےایک مضبوط جماعت کی بنیاد رکھی۔
قرآن کے اعجاز کا ایک اہم پہلو ان سائنسی حقائق سے متعلق ہے جو کہ انسانی وجود، زمین، آسمان، فضا، سمندر، پہاڑوں وغیرہ کے بارے میں قرآن پاک میں مذکور ہیں ۔ یہ حقائق قدیم انسان کو تو کیا رسول اکرمؐ کے معاصر لوگوں کو بھی نہیں معلوم تھے۔ ان کا ادراک پچھلی دو تین صدیوں سے سائنسی ترقی اور نت نئے آلات کی ایجاد کی وجہ سے ہونا شروع ہوا ہے۔ لیکن سائنس حقائق کی بہت سی باتیں قرآن پاک نے پندرہ صدیوں پہلے بتا دی تھیں اور یہ پیشین گوئی بھی کردی تھی کہ اللہ پاک انسان کو کائنات میں اور خود اس کو اپنے اندر اپنی نشانیاں دکھائیں گے تاکہ اس کو معلوم ہوجائے کہ قرآن پاک برحق ہے (سَنُرِيْہِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ۰ۭ حم السجدہ ۴۱ : ۵۳)۔
قرآنی اعجاز کا یہ پہلوپرانے زمانے میں اتنا واضح نہیں تھا لیکن پچھلی چند صدیوں کے سائنسی انقلاب کی وجہ سے انسان خو د اپنے اندر، دنیا میں اور کائنات میں اللہ پاک کی نشانیاں دیکھتا ہے۔ اس کی بہت سی تفصیلات لوگوں نے کتابوں ، مضامین اور ویڈیوز میں بیان کی ہیں۔ خود میں نے اپنے ترجمۂ قرآن میں قرآن پاک کے تعارف کے ضمن میں ۲۰ ایسی سائنسی حقیقتوں کا ذکر کیا ہے جو انسان کو چند صدیوں پہلے معلوم نہیں تھیں ۔ ۳۵
اس فہرست میں سیکڑوں اضافے کیے جا سکتے ہیں اور یقینی طور پر آنے والی صدیوں میں جب انسان خود اپنے بارے میں، دنیا اور کائنات کے بارے میں مزید جانے گا تو یہ حقیقت اس کے سامنے اور واضح ہو جائے گی کہ یہ پوری کائنات اللہ پاک کے محکم قوانین کے تحت چل رہی ہے۔ اگر یہ قوانین نہ ہوتے تو اس سارے نظم و ضبط کی جگہ ، جو کائنات کو اتنے منظم طور سے چلانے کا سبب ہے، لاقانونیت اور افراتفری ہوتی جس کے ہوتے ہوئے کوئی معنی خیز زندگی یا ترقی نا ممکن ہوتی۔
مسلمانوں کا ایمان ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ پوری کائنات کا خالق ہے اور قرآن پاک اسی کا کلام ہے، اس لیے قرآن میں بیان کردہ باتیں سائنسی حقائق کے خلاف نہیں ہو سکتی ہیں۔ قرآن پاک سائنس کی کتاب نہیں ہے لیکن وہ علم حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے (العلق۹۶: ۳-۴) اور انسان کو دعوت دیتا ہے کہ اللہ کی کائنات کو دیکھے اور اس پر غور کرے (اٰل عمرٰن۳ : ۱۳۷؛ الانعام۶: ۱۱؛ الرعد۱۳: ۱۰۹؛ النحل۱۶: ۳۶؛ الحج۲۲: ۴۶؛ النمل۲۷: ۶۹؛ العنکبوت۲۹: ۲۰؛ الروم۳۰: ۹، ۴۲؛ الفاطر۳۵: ۴۴ وغیرہ)۔
جن کتابوں نے قرآن پاک میں مذکور بیانات کو سائنسی طور پر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ان میں سرفہرست فرانسیسی ڈاکٹر موریس بوکای(م: ۱۹۹۸ء) کی کتاب بائبل، قرآن اور سائنس‘ شامل ہے۔ ۳۶ انھی حقائق کی وجہ سے موریس بوکای اسلام لائے تھے۔ مسلمانوں میں قرآن پاک کے سائنسی اعجاز کے پرجوش مبلغ مصری پروفیسر زغلول النجار شامل ہیں جنھوں نے اپنے مقالات، لیکچروں اور ٹیلیویژن پر پروگراموں سے قرآن پاک کے سائنسی اعجاز کو ثابت کرنے کی کوشش کی۔ وہ سورۃ الانعام کی آیت ۶۷(لِكُلِّ نَبَاٍ مُّسْـتَقَرٌّ۰ۡوَّسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ۶۷) کا بطورِ خاص ذکر کرتے ہیں کہ قرآن پاک نے پیشین گوئی کی ہے کہ اس کے سائنسی بیانات مستقبل میں پہچانے جائیں گے۔ انھوں نے جن بہت سے سائنسی حقائق کا ذکر کیا ہے ان میں ایک یہ ہے کہ کائنات ایک عظیم انفجار(Big Bang) سے پیدا ہوئی ہے اور کرۂ ارضی میں سب سے زیادہ منخفض علاقہ بحر مُردار کا ہے (فِيْٓ اَدْنَى الْاَرْضِ الروم ۳۰ : ۳)۔ اسی طرح انھوں نے بتایا کہ قرآن پاک نے ایسی بعض باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے جو نزول آیت کے چند سال بعد وقوع پذیر ہوئیں جیسے رومیوں کے ہاتھ ایرانیوں کی شکست ( الۗمّۗ۱ۚ غُلِبَتِ الرُّوْمُ۲ۙ …الروم ۳۰ : ۱-۵)۔ یہ آیت ایرانیوں کی شکست سے چھ سات سال قبل نازل ہوئی ۔ ۳۷
قرآن پاک میں دوسرے بہت سے سائنسی اشارات ہیں، مثلاً:
∎ سورج کا اپنے مقررہ دائرے میں گھومنا: وَالشَّمْسُ تَجْرِيْ لِمُسْتَــقَرٍّ لَّہَا۰ۭ ذٰلِكَ تَــقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِــيْمِ۳۸ۭ (يٰسٓ ۳۶ : ۳۸)
∎ لوہا: وَاَنْزَلْنَا الْحَدِيْدَ فِيْہِ بَاْسٌ شَدِيْدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ (الحديد ۵۷ : ۲۵)
مُردار کا گوشت اور خون اور خنزیر کے گوشت وغیرہ کی تحریم (البقرۃ ۲ : ۱۷۳ ، المائدۃ ۵: ۳، الانعام ۶ : ۱۴۵)۔ صدیوں بعد اس تحریم کی حکمت معلوم ہوئی۔
∎ انفجار ِعظیم (Big Bang )کی خبر کہ آسمان اور زمین ملے ہوئے تھے اور ہم نے جدا کیا: اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰہُمَا۰ۭ (الانبیاء ۲۱ : ۳۰)
∎ کائنات پہلے دخان (دھواں یا اسٹیم)تھی، یعنی اپنی موجودہ شکل لینے سے پہلے کائنات کا مادہ دخان کی صورت میں تھا: ثُمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَاۗءِ وَہِىَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا اَوْ كَرْہًا۰ۭ قَالَتَآ اَتَيْنَا طَاۗىِٕعِيْنَ۱۱ (حم السجدہ۴۱: ۱۱)
∎ پانی سے ہر چیز بنائی گئی؛ پانی سے زندگی ہے: وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ …(الانبیاء ۲۱: ۳۰)
∎ کائنات مستقل پھیل رہی ہے: وَالسَّمَاۗءَ بَنَيْنٰہَا بِاَيْىدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ۴۷ (الذاريات ۵۱: ۴۷)
∎ ایک دن کائنات کو سمیٹ لیا جائے گا:يَـوْمَ نَطْوِي السَّمَاۗءَ كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ۰ۭ كَـمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُہٗ۰ۭ …… (الانبیاء ۲۱: ۱۰۴)
∎ جنین مختلف مراحل سے گزر کر پیدا ہوتا ہے، ولادت: خُلِقَ مِنْ مَّاۗءٍ دَافِقٍ۶ۙ يَّخْرُجُ مِنْۢ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَاۗىِٕبِ۷ۭ (الطارق۸۶: ۶ -۷)؛
∎ جنین کو مختلف مراحل میں پیداکیا گیا ہے: وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَـۃٍ مِّنْ طِيْنٍ۱۲ۚ ثُمَّ جَعَلْنٰہُ نُطْفَۃً فِيْ قَرَارٍ مَّكِيْنٍ۱۳۠ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَـلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَـلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْــمًا۰ۤ ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ۰ۭ (المؤمنون ۲۳: ۱۲-۱۴)۔ جنین میں ہڈیاں پہلے بنتی ہیں، اس کے بعد ہڈیوں پر گوشت یعنی عضلات بنتے ہیں جیسا کہ المؤمنون کی آیت میں آیا ہے۔
∎ کائنات ازلی نہیں بلکہ اسے اللہ نے پیدا کیا ہے: بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۭ وَاِذَا قَضٰٓى اَمْرًا فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَہٗ كُنْ فَيَكُوْنُ۱۱۷ (البقرہ۲ : ۱۱۷)
∎ ایک دن کائنات بکھر جائے گی (Big Crunch) : يَـوْمَ نَطْوِي السَّمَاۗءَ كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ۰ۭ كَـمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُہٗ۰ۭ …… (الانبیاء ۲۱: ۱۰۴)
∎ جانوروں کے پیٹ میں دودھ بننا: وَاِنَّ لَكُمْ فِي الْاَنْعَامِ لَعِبْرَۃً۰ۭ نُسْقِيْكُمْ مِّـمَّافِيْ بُطُوْنِہٖ مِنْۢ بَيْنِ فَرْثٍ وَّدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَاۗىِٕغًا لِّلشّٰرِبِيْنَ۶۶(النحل۱۶: ۶۶)
∎ بلند فضاؤں میں آکسیجن کم ہو جاتی ہے، اس لیے وہاں سانس لینے میں مشکل ہوتی ہے: وَمَنْ يُّرِدْ اَنْ يُّضِلَّہٗ يَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَيِّقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاۗءِ۰ۭ ……(الانعام۶: ۱۲۵)
∎ سمندروں کی نچلی سطحوں میں اندھیرا اور ایک کے اوپر ایک موجیں ہوتی ہیں: اَوْ كَظُلُمٰتٍ فِيْ بَحْرٍ لُّجِّيٍّ يَّغْشٰـىہُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِہٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِہٖ سَحَابٌ۰ۭ ظُلُمٰتٌۢ بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ۰ۭ اِذَآ اَخْرَجَ يَدَہٗ لَمْ يَكَدْ يَرٰىہَا۰ۭ ……(النور۲۴: ۴۰)
∎ پہاڑ زمین کی میخ ہیں جو زمین کی حرکت کو متوازن رکھتے ہیں: وَّالْجِبَالَ اَوْتَادًا۷ (النبا۷۸: ۷)؛ وَاَلْقٰى فِي الْاَرْضِ رَوَاسِيَ اَنْ تَمِيْدَ بِكُمْ ……(النحل۱۶: ۱۵)
∎ ہواؤں سے پولینیشن (بار آوری)ہوتا ہے: وَاَرْسَلْنَا الرِّيٰحَ لَوَاقِـحَ…(الحجر۱۵: ۲۲)
زمین اور پہاڑ گھومتے ہیں: وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُہَا جَامِدَۃً وَّہِىَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ۰ۭ ……(النمل۲۷: ۸۸)
∎ النجم الطارق (Pulsating Star) جیسے نیوٹرون ستارہ (Neutron star) جن سے نبض یا خفقان کی آواز آتی ہے:وَالسَّمَاۗءِ وَالطَّارِقِ۱ۙ وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا الطَّارِقُ۲ۙ النَّجْمُ الثَّاقِبُ۳ۙ (الطارق۸۶: ۱-۳ )
∎ ماحولیات میں خرابی انسانی اعمال کی وجہ سے ہوتی ہے: ظَہَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ۴۱ (الروم۳۰: ۴۱)
∎ مکڑی کا گھر سب سے کمزور ہوتا ہے: مَثَلُ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ اَوْلِيَاۗءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوْتِ۰ۖۚ اِتَّخَذَتْ بَيْتًا۰ۭ وَاِنَّ اَوْہَنَ الْبُيُوْتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَبُوْتِ۰ۘ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ۴۱ (العنکبوت۲۹: ۴۱)
∎ کوّا بہت ذہین ہوتا ہے: فَبَعَثَ اللہُ غُرَابًا يَّبْحَثُ فِي الْاَرْضِ لِيُرِيَہٗ كَيْفَ يُوَارِيْ سَوْءَۃَ اَخِيْہِ۰ۭ قَالَ يٰوَيْلَــتٰٓى اَعَجَزْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِثْلَ ہٰذَا الْغُرَابِ فَاُوَارِيَ سَوْءَۃَ اَخِيْ۰ۚ فَاَصْبَحَ مِنَ النّٰدِمِيْنَ۳۱(المائدہ۵: ۳۱)
(۱)نباتات میں بھی نر اور مادہ ہوتے ہیں: سُبْحٰنَ الَّذِيْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ كُلَّہَا مِـمَّا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ وَمِنْ اَنْفُسِہِمْ وَمِـمَّا لَا يَعْلَمُوْنَ۳۶ (يٰسٓ۳۶: ۳۶)
(۲) نباتات زمین سے مقررہ مقدار میں غذائیت کھینچتے ہیں: وَالْاَرْضَ مَدَدْنٰہَا وَاَلْقَيْنَا فِيْہَا رَوَاسِيَ وَاَنْۢبَتْنَا فِيْہَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍؚبَہِيْجٍ۷ۙ (قٓ۵۰: ۷)
∎ ستاروں کی منزلیں اور مقامات: فَلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ۷۵ۙ وَاِنَّہٗ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُوْنَ عَظِيْمٌ۷۶ (الواقعہ۵۶:۷۵-۷۶)
ستاروں اور کواکب کے درمیان قوت جاذبیت: اَللہُ الَّذِيْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ ……(الرعد۱۳: ۲)
∎ اللہ پاک نے زمین کو انسان کے رہنے کے قابل بنایا : وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىہَا۳۰ۭ (النازعات۷۹: ۳۰)
∎ اللہ پاک نے زمین و آسمان کو کنٹرول میں رکھا ہے: وَيُمْسِكُ السَّمَاۗءَ اَنْ تَقَعَ عَلَي الْاَرْضِ اِلَّا بِـاِذْنِہٖ۰ۭ ……(الحج۲۲: ۶۵)
∎ چاند کے مراحل: وَالْقَمَرَ قَدَّرْنٰہُ مَنَازِلَ حَتّٰى عَادَ كَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِيْمِ۳۹(یٰسٓ۳۶: ۳۹)
∎ چاند کی روشنی انعکاس ہے اور سورج کی روشنی براہِ راست: وَّجَعَلَ الْقَمَرَ فِيْہِنَّ نُوْرًا وَّجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا۱۶ (نوح۷۱: ۱۶)
∎ قرآن پاک نے یہ بھی بتایا ہےکہ دنیا میں ایسے سمندر اور دریا ہیں جن میں دو طرح کے پانی ہوتے ہیں اور وہ آپس میں ملتے نہیں ہیں۔مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيٰنِ۱۹ۙ بَيْنَہُمَا بَرْزَخٌ لَّا يَبْغِيٰنِ۲۰(الرحمٰن۵۵: ۱۹-۲۰)
∎ قرآن پاک نے یہ بھی کہا ہے کہ مستقبل میں اللہ پاک انسان کو خود اپنےجسم اور کائنات میں چھپی ہوئی نشانیوں سے باخبر کریں گے: سَنُرِيْہِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ۰ۭ …… (حم السجدہ۴۱: ۵۳)
∎ ہر انسان کی انگلیوں کے بصمات (نشان)الگ ہوتے ہیں ۔ اللہ پاک نےبتایا کہ وہ ان کو بھی واپس لانے پر قادر ہیں:بَلٰى قٰدِرِيْنَ عَلٰٓي اَنْ نُّسَوِّيَ بَنَانَہٗ۴ (القيامة۷۵: ۴)
∎ اللہ تعالیٰ رات میں سے دن نکالتا ہے: وَاٰيَۃٌ لَّہُمُ الَّيْلُ۰ۚۖ نَسْلَخُ مِنْہُ النَّہَارَ فَاِذَا ہُمْ مُّظْلِمُوْنَ۳۷ۙ (يٰس۳۶: ۳۷)
آسمان محفوظ چھت ہے: وَجَعَلْنَا السَّمَاۗءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا۰ۚۖ وَّہُمْ عَنْ اٰيٰـتِہَا مُعْرِضُوْنَ۳۲ (الانبیاء ۲۱: ۳۲)
∎ انسان کو تکلیف جلد یا کھال سے ہوتی ہے: كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّلْنٰھُمْ جُلُوْدًا غَيْرَھَا لِيَذُوْقُوا الْعَذَابَ۰ۭ……(النساء۴: ۵۶)
∎ انسان مکھی سے بھی کمزور ہے:وَاِنْ يَّسْلُبْہُمُ الذُّبَابُ شَـيْـــــًٔـا لَّا يَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُ۰ۭ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ۷۳ (الحج۲۲: ۷۳)
∎ انسان کو مٹی سے بنایا گیا ہے: وَاللہُ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ اَزْوَاجًا۰ۭ ……(فاطر۳۵: ۱۱)
عرب قمری کیلنڈر استعمال کرتے تھے جو ۳۵۶ دنوں پر مشتمل ہوتا ہے، جب کہ اہل کتاب شمسی کیلنڈر استعمال کرتے تھے جو کہ ۳۶۵ دنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔اس وجہ سے قمری سال شمسی سال سے ہر صدی میں تین سال کم ہو جاتا ہے۔ اسی لیے جب قرآن پاک نے اصحابِ کہف کے غار میں رہنے کی مدت بیان کی تو قمری سال کے لحاظ سے تین صدی کے لیے نو برسوں کا اضافہ کردیا، وَلَبِثُوْا فِيْ كَہْفِہِمْ ثَلٰثَ مِائَۃٍ سِنِيْنَ وَازْدَادُوْا تِسْعًا۲۵ (الکہف۱۸: ۲۵)
معاصر علما اور اسکالرز میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ قرآن پاک میں سائنسی اعجاز ہے کیونکہ ان کے نزدیک قرآن ایک دینی کتابِ ہدایت ہے، سائنسی کتاب نہیں۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ قرآن پاک کوئی سائنسی کتاب نہیں ہے اور نہ اس نقطۂ نظر سے اس میں سائنسی حقائق بیان کئے گئے ہیں بلکہ اس میں دوسری باتوں کے ضمن میں سائنسی اشارے ہیں اور وہ ایسی باتوں کے بارے میں ہیں جن کو جزیرۂ عرب تو کیا ساری دنیا میں اس وقت کوئی نہیں جانتا تھا۔ شیخ الازھر محمودشلتوت(م: ۱۹۶۳ء) اور ادیبہ ومفسرہ عائشہ عبدالرحمٰن (بنت الشاطئ، م: ۱۹۹۸ء) نے قرآن پاک کے سائنسی اعجاز کا انکار کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ قرآنی اعجاز لسانی (لغوی) ہے، علمی نہیں ہے۔ خالد منتصر (مصنف: الاعجاز العلمی) کا کہنا ہے کہ قرآنی اعجازلسانی (لغوی) ہے، علمی نہیں ہے۔ یہی رائے پرویز ہود بھائی (مصنف اسلام اور سائنس: دینی آرتھوڈکسی اور عقلی لڑائی) کی ہے ۔ ۳۸ یمنی عالم شیخ عبدالمجید الزندانی سائنسی اعجاز کے پرجوش حامی ہیں۔ انھوں نے اس مقصد کے لیے الهيئة العالمية للإعجاز العلمي في القرآن والسنة کے نام سے ایک بڑی تنظیم بنائی جس کا صدر مقام مکہ مکرمہ میں ہے۔
قرآن پاک کا علمی اعجاز برحق ہے لیکن اس میں مبالغہ آرائی نہیں ہونی چاہیے اور اس میں صرف ان چیزوں کو داخل کرنا چاہیے جو بالکل واضح ہیں۔ یہاں یہ بات بھی کہنی ضروری ہے کہ ہم قرآن پاک کے سائنسی معجزوں کی بہت بات کرتے ہیں لیکن خود سائنس میں بہت پیچھے ہیں۔ قرآن پاک کے سائنسی اعجاز کی جب ہم بات کرتے ہیں تو ہم انھی حقائق کو استعمال کرتے ہیں جن کا اکتشاف مغربی دنیا کے اسکالرز اور ریسرچ سنٹرز نے کیا ہے۔ ۳۹
غيبی اعجاز کا مطلب ہے قرآن کا ماضی، حال اور مستقبل کے تعلق سے ایسے امور کے بارے میں بتانا جسے جاننا نزول وحی کے وقت کسی انسان کے بس کی بات نہیں تھی۔ قرآن نے ماضی کی ایسی بہت سی باتیں بتائی ہیں جن کو اس وقت کا عرب اور غیرعرب نہیں جانتا تھا: تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْہَآ اِلَيْكَ۰ۚ مَا كُنْتَ تَعْلَمُہَآ اَنْتَ وَلَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ ھٰذَا۰ۭۛ …… (ھود ۱۱ : ۴۹)۔
قرآن پاک نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسرے لوگوں، بالخصوص منافقین کے دلوں کی باتیں یا ان کے آپس کے راز و نیاز کے بارے میں بھی بتایا: وَاِذَا لَقُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا۰ۚۖ وَاِذَا خَلَوْا اِلٰى شَيٰطِيْنِہِمْ۰ۙ قَالُوْٓا اِنَّا مَعَكُمْ۰ۙ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَہْزِءُوْنَ۱۴(البقرہ ۲ : ۱۴)۔
مکہ اور فتح مکہ سے پہلے کے مدینہ میں ایک عام آنکھ کو لگتا تھا کہ یہ چراغ اب بجھا کہ تب بجھا لیکن ان حالات میں بھی قرآن پاک بار بار رسول اکرمؐ سے کہتا ہے کہ کفار کے خلاف اللہ پاک اپنے پیغمبر ؐکا دفاع کریں گے (المائدہ۵ : ۶۷) ، کفار مغلوب ہوں گے (۳:۱۲)، قریش کو شکست ہو گی (۸:۳۶ ؛ ۹ : ۲-۳) ، اگر یہودی مدینہ چھوڑ کر جائیں گے تو منافقین قطعاً ان کے ساتھ نہیں جائیں گے(۵۹ : ۱۱-۱۲) ۔ صلح حدیبیہ کے سیاق میں اللہ تعالیٰ نے کہا کہ مسلمان مکہ میں داخل ہوں گے اور شعائر ادا کریں گے (۴۸ : ۲۷)۔ اللہ پاک نے اپنے نبی سے کہا کہ اللہ کی مدد ان کو ضرور آئے گی اور جب آئے گی تو لوگ جوق در جوق دین اسلام میں داخل ہوں گے (النصر۱۱۰: ۱-۳) ۔ اللہ پاک اپنے نبی کی حفاظت کریں گے (المائدہ۵ : ۶۷، ۹۹)۔ کفار ذلیل و خوار ہوں گے (المجادلۃ ۵۸ : ۵)۔ مشرکین قریش کو شکست ہوگی اور وہ پیٹھ دکھائیں گے (القمر۵۴: ۴۳-۴۵)
قرآن نے بتایا کہ حضور پاکؐ کے چچا ابولہب اور چچی کبھی ایمان نہیں لائیں گے اور وہ کفر پر مریں گے (اللّھب) ۔ اور حقیقت میں ایسا ہی ہوا،جب کہ ابولہب کے دونوں بیٹے عتبہ اور متعب فتح مکہ کے بعد ایمان لائے۔
قرآن پاک نے ماضی کی ایسی بہت سی باتیں بتائی ہیں جن کو جاننے کا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی ذریعہ نہیں تھا اور اسی لیے قرآن پاک ان کو واقعات بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ اے پیغمبرؐ! جب یہ بات ہوئی تو تم وہاں نہیں تھے:ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْہِ اِلَيْكَ۰ۚ وَمَا كُنْتَ لَدَيْہِمْ اِذْ اَجْمَعُوْٓا اَمْرَہُمْ وَہُمْ يَمْكُرُوْنَ۱۰۲ (یوسف۱۲: ۱۰۲)
کچھ عیسائی اور یہودی اسکالرز اور مستشرقین نے دعویٰ کیا ہےکہ حضور پاکؐ نے قرآن پاک یہودی اور عیسائی مقدس کتابوں سے معلومات چُرا کر تیار کیاہے۔ یہ بات پوری طرح بوگس ثابت ہوتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن پاک میں ایسی باتوں یا ایسی تفصیلات کا ذکر ہے جو توریت یا انجیل میں موجود نہیں ہیں ، یا جن کا توریت و انجیل میں دوسرے طریقے سے ذکر ہوا ہے۔ ۴۰
قرآن پاک کی غیب کی اطلاع دینے کی ایک اہم مثال ایرانیوں پر رومن (بیزنطیوں) کی ’چند سال‘ میں فتح کی پیشین گوئی ہے (الروم۳۰:۱-۵)۔ چند سال کے لیے یہاں جو عربی لفظ استعمال کیاگیاہے وہ ’بضع‘ ہے جو عربی میں ۳ سے ۱۰ تک کے لیے استعمال ہوتا ہے اور واقعتاً رومیوں کی فتح اسی مدت کے اندر واقع ہوئی ۔
قرآن پاک میں مختلف مقامات پر ’زوجہ‘ اور ’امرأۃ‘ کا استعمال ہوا ہے، جیسے امْرَاَتُ الْعَزِيْزِ تُرَاوِدُ فَتٰىہَا عَنْ نَّفْسِہٖ۰ۚ (یوسف۱۲: ۳۰)؛ امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ۰ۭ (التحريم۶۶: ۱۰) اور دوسری جگہوں پر زوج/زوجہ/ازواج کا استعمال ہوا:وَمِنْ اٰيٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا …… (الروم۳۰: ۲۱)؛ وَاَصْلَحْنَا لَہٗ زَوْجَہٗ۰ۭ (الانبیاء۲۱: ۹۰)۔ اس میں بیانی اعجاز یہ ہے کہ ’امرأۃ‘ کا استعمال ان جگہوں پر ہوا ہے جہاں بیویوں نے خیانت کی جیسے نوحؑ اور لوطؑ کی بیویاں اور عزیز مصر کی بیوی۔ اس کے بالمقابل ’زوجہ‘ کا استعمال وہاں ہوا ہے جہاں بیوی کی تعریف مقصود ہے۔ ’زوجۃ‘ کا معنی یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے کثرت اولاد ہو۔ اس لیےجب حضرت زکریا نے اپنی لاولد بیوی کا ذکر کیا تو کہا: وَكَانَتِ امْرَاَتِيْ عَاقِرًا(مريم۱۹: ۵،۸ اور جب اللہ نے ان کی بیوی کو اولاد کے قابل بنا دیا تو کہا : وَاَصْلَحْنَا لَہٗ زَوْجَہٗ۰ۭ (الانبیاء۲۱: ۹۰)
∎ متکبرین کے جنت میں داخلے کو ناممکن قرار دیتے ہوئے قرآن پاک نے انتہائی بلاغت سے کہاکہ اُن کا جنت میں جانا اتنا ہی ناممکن ہے جتنا سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزرنا:
∎ وَلَا يَدْخُلُوْنَ الْجَـنَّۃَ حَتّٰي يَـلِجَ الْجَمَلُ فِيْ سَمِّ الْخِيَاطِ۰ۭ ……(الاعراف۷: ۴۰)
∎ جہنم کی بے پناہ وسعت کو یوں بیان کیا’’یاد کرووہ دن جب ہم جہنم سے پوچھیں گے تو بھرگئی؟ اور وہ کہے گی:کیا اور کچھ ہے؟‘‘: يَـوْمَ نَقُوْلُ لِجَہَنَّمَ ہَلِ امْتَلَاْتِ وَتَقُوْلُ ہَلْ مِنْ مَّزِيْدٍ۳۰ …قٓ۵۰: ۳۰)
∎ قرآن کریم نے پیشین گوئی کی کہ مستضعف مسلمانوں کی بالآخر فتح ہوگی:سَيُہْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ۴۵(القمر۵۴: ۴۵)
∎ قرآن کریم نے یہ بھی پیشین گوئی کی کہ مدینے کے کمزور مسلمان مسجد حرام (خانۂ کعبہ) میں داخل ہوںگے :لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَاۗءَ اللہُ اٰمِنِيْنَ۰ۙ مُحَلِّقِيْنَ رُءُوْسَكُمْ وَمُقَصِّرِيْنَ۰ۙ ……(الفتح۴۸: ۲۷)
∎ اللہ پاک مستضعف مسلمانوں کو تمکین (اقتدار) سے سرفراز کریں گے (… لَيَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِي الْاَرْضِ كَـمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۰۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَہُمْ دِيْنَہُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَہُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا۰ۭ ……(النور۲۴: ۵۵)۔ حضورپاکؐ کی زندگی میں یہ وعدہ پورا ہو گیا۔
∎ اللہ پاک نے اپنے نبی کو زمانۂ حاضر میں ہونے والی باتوں سے باخبر کیا جن کے بارے میں نبی کچھ نہیں جانتے تھے جیسے منافقین کی دسیسہ کاریاں(التوبہ ۹:۷۵-۷۸)۔
∎ اسی طرح اللہ پاک نے اپنے نبی کو عبداللہ بن أبیّ سلول کے قول کے بارے میں اطلاع دی کہ جب وہ مدینہ پہنچے گا تو وہاں کے طاقت ور وہاں کے کمزوروں کو نکال باہر کریں گے: يَقُوْلُوْنَ لَىِٕنْ رَّجَعْنَآ اِلَى الْمَدِيْنَۃِ لَيُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْہَا الْاَذَلَّ۰ۭ وَلِلہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ وَلٰكِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ۸ (المنافقون۶۳: ۸)۔ جب اس سے پوچھا گیا تو اس نے انکار کیا لیکن اللہ پاک نے اس کی تصدیق کی۔
∎ بالآخر اسلام کی کامیابی اور اس کا پھیلنا:يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللہِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَيَاْبَى اللہُ اِلَّآ اَنْ يُّتِمَّ نُوْرَہٗ وَلَوْ كَرِہَ الْكٰفِرُوْنَ۳۲ ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۰ۙ وَلَوْ كَرِہَ الْمُشْرِكُوْنَ۳۳(التوبہ۹: ۳۲-۳۳)
غیب کی باتیں جو اللہ پاک نے اپنےنبی کو بتائی ان میں کچھ ماضی بعید سے تعلق رکھتی ہیں جیسے عمران کی بیوی (اٰل عمرٰن۳: ۳۵) اور حضرت مریم (اٰل عمرٰن ۳: ۴۴) کا قصہ؛ بنی اسرائیل اور حضرت موسٰی کے واقعات اور گائے کا قصہ (البقرہ۲: ۶۷-)، حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کا خانۂ کعبہ کی تعمیر (البقرہ۲: ۱۲۷)، طالوت اورجالوت کا قصہ (البقرہ ۲: ۲۴۷)، بنی اسرائیل کا اپنے دشمنوں پر غلبہ (البقرہ۲: ۲۴۹-۲۵۲)، حضرت داؤد کی شہنشاہیت کا قیام (صٓ ۳۸ : ۲۳-۲۶)، عاد (ابراہیم۱۴ : ۹ ، ۲۵ :۳۸)، ثمود (اعراف۷ : ۷۳ ۔ ۷۹، التوبہ ۹ : ۷۰ ، ۶۱ : ۶۸) ، حضرت آدمؑ کی پیدائش (البقرہ۲: ۳۰)، حضرت آدمؑ کا ابلیس کے ساتھ معاملہ (البقرہ۲: ۳۴)، حضرت آدمؑ اور حواؑ کا جنت سے نکلنا (البقرہ۲: ۳۶)، موسٰی اور بنی اسرائیل کی مدد (الدخان۴۴ : ۳۰ ، ۳۲ -۳۳)، حضرت یوسفؑ کا قصہ (۶ : ۸۴ ، ۱۲ : ۴ - ۱۰۱ ، ۴۰ : ۳۴) ، حضرت موسٰی کا ولادت سے لے کر مصر سے بھاگنے، واپس آنے اور دعوت حق دینے کا قصہ (۲۰ : ۳۸۔ ۴۰ ، ۲۸ : ۱۴ ۔ ۲۲ ، ۲۸ : ۳۰ -۳۲)، قارون کا قصہ جس کے گھمنڈ اور جبروت کی وجہ سے اللہ پاک نے اسے زمین میں گاڑ دیا (۲۸ : ۷۶۔۸۲) وغیرہ۔
مختلف جگہوں پر اللہ پاک اس حقیقت کا ذکر کرتے ہیں کہ محمدؐ وہاں موجود نہیں تھے جب وہ واقعات ہو رہے تھے (اٰل عمرٰن ۳:۴۴؛ یوسف۱۲:۱۰۲؛ القصص۲۸: ۴۴-۴۶) وَمَا كُنْتَ لَدَيْہِمْ(یوسف ۱۲: ۴۴، ۱۲ : ۱۰۲) ، وَمَا كُنْتَ ثَاوِيًا فِيْٓ اَہْلِ مَدْيَنَ …… وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الطُّوْرِ (القصص ۲۸ : ۴۵-۴۶)
قرآن پاک کے معجزہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ پندرہ صدیوں کے گزرنے کے بعد بھی اس کا کلام آج بھی تروتازہ ہے۔ بار بار اس کو دُہرانے سے وہ باسی نہیں ہوتا۔ مسلمان ساری زندگی روز اس کی چھوٹی سورتیں اور بالخصوص سورۂ فاتحہ کو دن میں بار بار دُہراتے ہیں لیکن کبھی اُکتاتے نہیں اور نہ یہ کلام ان کو باسی لگتاہے، جب کہ کوئی انسانی کلام ہوتا تو انسان چند بار دُہرانے کے بعد ہی اس سے اُکتا جاتا ہے ۔ مستشرق لیون نے کہا ہے ’’قرآن کے جلال و عظمت کے لیے یہ کافی ہے کہ چودہ صدیوں کے گزرنے کے بعد بھی اس کے اسلوب میں کوئی تخفیف نہیں ہوئی ہے بلکہ وہ آج بھی تروتازہ ہے جیسے کہ وہ ابھی کل ہی وجود میں آیا ہو‘‘ ۔ ۴۱
قرآن پاک کے معجزہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اللہ کا یہ کلام انسانی کلام سے ہمیشہ الگ نظر آتا ہے۔ اگر آپ اسے انسانی کلام کے بیچ میں کہیں نقل کر دیں تو یہ بالکل الگ دکھائی دے گا۔ قرآن پاک کا معجزہ یہ بھی ہے کہ آغازِ اسلام سے آج تک ہر نسل میں لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگ اس کا اگر پورا نہیں تو ایک بڑا حصہ حفظ کرتے ہیں۔ یوں ہر نسل میں لاکھوں لوگ حافظ قرآن ہوتے ہیں۔
Miracle of the Quran: Significance of Mysterious Alphabets (1973)
The Computer Speaks: God’s Message to the World (1981)
Visual Presentation of the Miracle (1982
یہ قرآن پاک کے اعجاز کا ایک مختصر جائزہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک مختصر مضمون سے اس عظیم موضوع کا حق ادا نہیں ہو سکتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس سیمینار میں مختلف زاویوں سے اعجاز قرآن پر بحث کر کے اس کا ایک حد تک حق ادا کیا جائے گا۔
_______________
۳۴- ڈاکٹر حق ، Nixon’s Counselor Robert Dixon Crane's interesting true story، ۱۳جنوری ۲۰۲۲ء
۳۵- The Glorious Quran ،ظفر الاسلام خان، Pharos ،نئی دہلی، ۲۰۲۳، ص ۳۱-۳۳
۳۶- The Bible, The Quran and Science، Alaistair D Phannel ۔یہ کتاب پہلی بار ۱۹۷۶ء میں انگریزی زبان میں شائع ہوئی۔ بعد میں اس کے بہت سی زبانوں میں ترجمے ہوئے۔
۳۷- دیکھئے: میرا ترجمۂ قرآن پاک (عربی متن کے ساتھ) حاشیہ بر آیت ۳۰ : ۲-۶ (ص: ۶۰۶-۶۰۷)
دیکھئے میرے انگریزی ترجمۂ قرآن میں حاشیہ برائے آیت نمبر ۲۵ : ۵۳ (ص: ۵۴۸ -۵۴۹ )
۳۸- پرویز ہودبھائی، Islam and Science: Religious Orthodoxy and the Battle for Rationality ، لندن، ۱۹۹۱ء
۳۹- المبالغة في تصوير الإعجاز القرآني ، إسلام أون لاين۔
۴۰- ہم نے اپنے ترجمۂ قرآن (ص۳۳-۴۱) میں ایسے ۳۵ واقعات کا ذکر کیا ہے جن میں قرآن پاک کی روایت توریت و انجیل سے مختلف ہے۔ اس فہرست میں اور بہت اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
۴۱- عبدالمجيد الزندانی ، توحيدالخالق ، ص۱۳۲
’کارپس قرآنیکم‘ (Corpus Coranicum) کے حوالے سے ہمارے دو مضامین ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن (جون، جولائی ۲۰۲۰ء)میں شائع ہوئے تھے۔ یہ ایک جرمن فرنچ منصوبہ ہے، جو دراصل اس پراجیکٹ کا احیا ہے، جو قرآنِ مجید کا ایک کریٹیکل ایڈیشن (Critical Edition) شائع کرنے کی غرض سے مشہور جرمن مستشرق گوتھیلف برجیسٹریسر (Gotthelf Bergträsser: ۵؍اپریل ۱۸۸۶ء-۱۶؍اگست ۱۹۳۳ء) نے ۱۹۲۹ء میں شروع کیا تھا۔ ایک ایسے وقت جب جرمنی فاشزم کی طرف بڑھ رہا تھا، اس نے شرقِ اوسط ، شمالی افریقہ اور یورپ میں قرآن کے قدیم نسخوں کی تلاش اور اپنے لیسا کیمرے کی مدد سے ان کی تصاویر جمع کرنے کا کام شروع کیا۔ ۱۹۳۳ء میں وہ کوہ پیمائی کی ایک مہم کے دوران ہلاک ہوگیا۔ اس کے بعداوٹو پریٹزل (Otto Pretzl) نے اس پر پیش رفت کی ۔ یہ وہی شخص ہے جو پیرس میں ڈاکٹر محمد حمید اللہ ؒ [۱۹۰۸ء-۲۰۰۲ء]سے ملا تھا اور ان کو اپنے پراجیکٹ کی کچھ تفصیلات سے آگاہ کیا تھا۔ وہ ۱۹۴۱ء میں ایک فوجی مہم پر تھا جب جہاز کے حادثہ میں مارا گیا۔ اس کا جانشین اینٹن سپائیٹیلر (Anton Spitaler) تھا، جس کو اپنے پیش روؤں کے مقابلے میں ایک طویل عمر ملی اور ۹۳ برس کی عمر میں ۲۰۰۳ء میں فوت ہوا۔
۲۴؍اپریل ۱۹۴۴ء کو برطانوی بمباری کے باعث بویرین اکیڈمی آف سائنس کی وہ عمارت، جہاں اس پراجیکٹ کا دفتر تھا ملبے کا ڈھیر بن گئی تھی، اورمبینہ طور پر وہ نادر ذخیرہ بھی جوقدیم قرآنی نسخوں کی تصاویر پر مشتمل تھا ،برباد ہوگیا تھا ۔ اگلے ۶۰ برسوں تک دنیا بھر کےاہلِ علم یہی سمجھتے رہے کہ برگسٹریسا اور پریٹزل کی جمع کردہ قرآنی تصاویر کا ذخیرہ ضائع ہو چُکا ، لیکن حقیقت کچھ اور تھی۔ ۱۹۴۵ء میں جنگ ختم ہونے کے بعد سپائیٹیلر تعلیمی دنیا میں مشغول ہوگیا اور پلٹ کر بھی اس پراجیکٹ کا نام نہیں لیا جس کا وہ ڈائریکٹر رہا تھا۔ البتہ اپنی وفات سے کچھ سال پہلے اس نے اپنی شاگرد، جرمن مستشرق اور قرآنی لسانیات اور ساختیات کی مشہور محقق، پروفیسر انجیلیکا نُوَرتھ (Angelica Neuwirth)، کواطلاع دی کہ قدیم نُسَخِ قرآن کی تصاویر ضائع نہیں ہوئی تھیں بلکہ اس کے پاس محفوظ ہیں۔علمی دنیا کو اس ارادی جھوٹ کی افسوسناک اطلاع اورقرآنی نوادر کی موجودگی کی خوش خبری ۲۰۰۷ء کے اواخر تک ہی مل سکی، جب پروفیسر نُوَرتھ کی نگرانی میں یہ پراجیکٹ ’کارپس قرآنیکم‘ کے نام سے د وبارہ شروع ہوا۔ اس پراجیکٹ کی مدت ۱۸سال یعنی ۲۰۲۵ء تک ہے، جس کی توسیع کا خاصا امکان ہے۔
اہلِ کتاب کی ایک قلیل تعداد سمجھتی رہی ہے کہ تورات کی پانچوں کتابیں موسیٰ علیہ السلام کی لکھی ہوئی ہیں۔نشاتِ ثانیہ (Renaissance) کے بعد جب یورپ میں علمی سرگرمیاں شروع ہوئیں تو بائبل بھی تحقیق کا موضوع بنی۔ اس کے تضادات (contradictions)، تناقضات (discrepancies)، دہرے بیانات (doublets) ، مفارقتِ زمانی (anachronism)، عدم ار تباط (inconsistencies)، عدم تاریخیت (lack of historicity) ، اسالیب (dictions) اور ذخیرۂ الفاظ (vocabulary)کے تنوعات (diversities) پر غورو فکر شروع ہوا۔
کافی تحقیق کے بعد یورپی اور خاص طور پر جرمن علما کی توجہ اس طرف گئی کہ تورات کسی ایک مصنف کا متحد و مربوط کام نہیں ہوسکتا بلکہ کئی صدیوں میں کئی ہاتھوں اور مختلف ذرائع سے تشکیل پایا ہے۔ اس طرح جو فن پیدا ہوا۔ اس کو انتقادِ مآخذ (source criticism) کہتے ہیں۔ محققین کی کاوشوں کا نتیجہ اس نظریے کی صورت نکلا کہ ’تورات‘ چار آزادانہ مآخذات سے تالیف کی گئی ہے: یہوی (Yehwist) یا ’جے‘ مآخذ (J Source)[1] ، الوہی (Elohist)[2] یا ’ای‘ مآخذ (E Source) ، قسّیسی (Priestly) یا ’پی‘ مآخذ (P Source)[3] ، اوراستثناء (Deutronomy) یا 'ڈی' مآخذ (D Source)[4]۔ ان مآخذات میں سب سے پہلے 'J'وجود میں آیا جس کی تاریخ سلیمانؑ کے عہد (تقریباً ۹۵۰ ق م) میں متعین کی گئی۔ ‘E’ کچھ عرصہ بعد یعنی نویں صدی قبل مسیح میں لکھی گئی ، اور ‘D’ کی تالیف باد شاہ یسعیاہ (Josiah) کے عہد سے پہلے یعنی ساتویں یا آٹھویں صدی قبلِ مسیح میں ہوئی۔ آخر ی دستاویز یعنی' P' کا زمانہ قسیس عذرا یعنی پانچویں صدی قبل مسیح طے کیا گیا۔
اس طرح مختلف مراحل کے دوران ایڈیٹرز یا ’’ریڈیکٹرز‘‘ ان مختلف دستاویزات کی تالیف و تہذیب کرتے رہے۔ چنانچہ ایک ادارتی (Redaction) یا 'آر' مآخذ(R Source ) بھی وجود میں آیا اور اس کا تنقیدی مطالعہ انتقادِ ادارت ( Redaction Criticism) کہلایا۔ انتقادِ مآخذ (Source Criticism) کی مشق ہی سےمعلوم ہوا کہ ان مآخذات کے بھی مآخذات ہیں، جو کسی متن کے اندر ادبی اصناف جیسے تمثیل ، کہاوت ، تسبیح ، عشقیہ شعروغیرہ کی صورت میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ گویا ایک نسبتاً بڑے متن میں چھوٹی چھوٹی اصناف یا ژانرا (genre) شامل ہوتی ہیں۔ جب کسی صنف کی نشان دہی کی جاتی ہے تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس صنف کا انتخاب (pericope) کس سیاق میں آیا ہےاور متن کے مقصد سے کس طرح مناسبت رکھتا ہے۔ اس طرح کی تحقیق کو انتقادِ اصناف (Form Criticism) کہتے ہیں۔
انتقادِ کتبِ مقدسہ کایہ مثالیہ (paradigm) ۱۸۷۸ء سے بیسویں صدی کی ساتویں دہائی تک عالمی طور پر ایک مقبول بلکہ اجماعی نظریہ رہا۔عام طور پر اسے جرمن اسکالر جولیس ویلہاؤزن (Julius Wellhausen، م: ۱۹۱۸ء)کے ساتھ شناخت کیا جاتا ہے۔ اگرچہ اس سے قبل جرمن اسکالر جوہن گاٹفریڈآئزہان (Johann Gottfried Eichhorn،م:۱۸۲۷ء) اس کام کا آغاز کرچکا تھا۔ ۱۹۷۰ء کے عشرے کے آخر تک یہ اتفاق رائے البتہ باقی نہ رہا اور دوسرے نقطہ ہائے نظر سامنے آنے لگے، لیکن یہ ایک مختلف موضوع ہے۔
’عہد نامہ جدید‘ یا نصرانی بائبل کے معاملے میں بھی یہی ہوا۔ محققین پہلے مرحلے میں اس نتیجے پر پہنچے کہ ’انجیل یوحنا‘ (Gospel of John) کو چھوڑ کر جو کہ سب سے آخر میں لکھی گئی، باقی تینوں اناجیل: مرقس (Mark)، متی (Matthew)، اور لوقا (Luke)— کافی حد تک یکساں ہیں۔ اسی لیے ان کو اناجیلِ یکساں (Synoptic Gospels) بھی کہا جاتا ہے۔ مغربی علمائے اناجیل متفق ہیں کہ یہ یکسانیت اتنی زیادہ ہے کہ کسی طرح بھی اتفاقی نہیں ہوسکتی۔متون کی اندرونی شہادتوں سے معلوم کیا گیا کہ سب سے پہلے ’مرقس‘ لکھی گئی، پھر متی اور اس کے بعدلوقا۔ ان دونوں نے کافی حد تک مرقس پر انحصار کیا اورکچھ اپنا مواد بھی شامل کیا اور مزید مواد ایک اور ماخذ سے نقل کیا گیا، جس کی حقیقت کا علم نہیں۔ اس ماخذ کو انجیل 'ق' (Q-source)[5] کا عنوان دیا گیا۔ زیتونہ کالج کے پروفیسر ڈاکٹر علی عطائی اس انجیل ’ق‘ ہی کو اصل انجیل سمجھتے ہیں، جس کا ذکر قرآنِ عظیم میں کثرت سے آتا ہے۔ حسی طور پر اس انجیل کا کوئی وجود نہیں، لیکن کریٹیکل اسکالر اس کے وجود پراصرار کرتے ہیں۔
بائبل کے بعد مغربی علما قرآن کی طرف متوجہ ہوئے اور انھوں نے قرآنِ مجید کے کریٹیکل ایڈیشن پر کام شروع کردیا۔ ’کارپس قرآنیکم‘ ایک ایسی ہی کوشش کا عنوان ہے۔ قرآن کے کریٹیکل ایڈیشن سے مراد قرآن کے متن کا انتقادی جائزہ، اس کے ’ا رتقاء‘ —’ترمیم و اضافہ‘،’ تعدیل و تہذیب‘ —کو تاریخی اور علاقائی پس منظر کے ساتھ منضبط کرنا ہے۔ پروفیسرنُوَرتھ اگرچہ مسلم روایات کا احترام کرنے والی سکالر سمجھی جاتی ہیں، لیکن اس پراجیکٹ کے بارے میں ان کا یہی کہنا ہے کہ متنِ قرآن کے بارے میں اس پراجیکٹ کے ذریعے وہی انتقاد مقصود ہے، جو بائبل پر کیا جاتا رہا ہے۔
اوپر کے بیان سے معلوم ہوا، مغربی علما قرآنی متن کاتاریخی و ادبی تنقیدی مطالعہ کرنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ بہت سے معتبر علمائے مغرب اعتراف کرتے ہیں کہ قرآن لفظ بہ لفظ محفوظ ہے، لیکن یہ بات کہ یہ اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہےچونکہ سائنسی تحقیق کے دائرے سے باہر ہے، اس لیے ان کے لیے یہ ماننا ممکن نہیں۔ اس پراجیکٹ کی نگران پروفیسر انجیلیکا نُووَرتھ خود لکھ چکی ہیں:’’قرآنی نُسَخ کی نئی دریافتیں اس بات پر سوال اٹھانے کے بجائے الٹا تصدیق کررہی ہیں کہ قرآن ابتداء ہی سے ایک متنِ ثابت (fixed text) تھا اور اُن ہی سُورتوں پر مشتمل تھا، جو ہم آج بھی دیکھتے ہیں۔ وہ اسکالرز کامیاب نہ ہو سکے جو لسانیاتی بنیادوں پر قرآن کو ناقابلِ اعتبار ثابت کرنے کی کوششیں کرتے رہے تھے ‘‘۔ [6]
تاہم، ان کا کہنا یہی ہے کہ ’کارپس قرآنیکم‘ کا مقصد انتقادِ بائبل کی طرح کا مطالعہ ہے۔ گویا قرآنِ عظیم بھی بائبل کی طرح انسانی کلام ہے، جو ارتقاو تعدیل و تہذیب کے مراحل سے گزرا ۔ ایک طرف قرآن کو متنِ ثابت قراردینا، دوسری طرف تاریخی انتقاد کے طریقوں سے اس کے ابتدائی متن کو دریافت کرنے کی کوشش کرنا ، باہمی تضاد محسوس ہوتاہے۔مغربی علما کے لیے یہ تسلیم کرنا چنداں مشکل نہیں ہے کہ قرآن لفظ بہ لفظ محفوظ ہے لیکن یہ کہ اس کا مبداء وحیء الٰہی ہے، اس کے لیے ایمان و یقین درکار ہے جس سے وہ محروم ہیں۔
پراجیکٹ ’کارپس قرآنیکم‘ اپنے اختتام کے قریب ہے۔ ممکنہ طور پر اس کی مدت میں توسیع کی جائے گی کیونکہ جس مقصد کے لیے یہ شروع کیا گیا تھا وہ تاحال پورا نہیں ہوسکا ہے۔ البتہ اس سےکچھ خیر بھی برآمد ہوا ہے ۔ مثلاً، اس پراجیکٹ کےذریعے قدیم قرآنی نسخوں ، ان کے عکس اور ان کی جدید عربی خط میں ٹرانسلٹریشن تک رسائی مہیا ہوگئی ہے۔ قرآنیکم کی ڈیٹا بیس (data base) میں کسی بھی آیت کو منتخب کرکے سب سے قدیم نسخوں کا جائزہ لیا جاسکتا ہے جس میں وہ آیت آئی ہو۔ قراآءتِ متعددہ (Multiple Readings)[7]کو تاریخی ترتیب کے مطابق پیش کیا گیا ہے۔ متن کی تاریخ کی بنیاد پرپراجیکٹ ایک تاریخ وار شرح بھی پیش کرتا ہے جس میں ادبی انتقاد کے ساتھ ازمنۂ قدیم (Claasical Antiquity) و اواخرِ قدیم (Late Antiquity)سے متعلقہ متون بھی مہیا کیے گئے ہیں[8] ۔
یہ تمام متون ایک ڈاٹابیس میں ہیں، جس کا نام 'قرآن کے ماحول سے حاصل کردہ متون' 'Texts from the environment of the Qur'an' (TEQ) رکھا گیا ہے، بالکل اسی وزن پر جس طرح ۱۹۸۲ء میں ' عہد نامہ قدیم کے ماحول سے حاصل کردہ متون' ('Texts from the Environment of the Old Testament') نامی ڈیٹا بیس بنائی گئی تھی۔ اس طرح ’کارپس قرآنیکم‘ کا دعویٰ ہے کہ یہ پہلی کوشش ہے ،جو اس مسلم جماعت کی تشکیلِ ثانی کر رہی ہے ،جو نبی [صلی اللہ علیہ وسلم] اور ان کے اوّلین مخاطبین کے تعامل سے بنی تھی ۔ مختصر یہ کہ ، ڈیٹا بیس کے ذریعے فراہم کردہ دستاویزات کو مذہبی اور ثقافتی علم کی تشکیل نو کی کوشش کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے، جو اُبھرتی ہوئی مسلم جماعت کے پاس تھی۔ قرآنیکم کا دعویٰ ہے کہ اس کوشش کے ذریعے مکہ اور مدینہ منورہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اولین مخاطبین کے مابین تعامل کے طور پر ابتدائی مسلمان معاشرے کی ترقی اور تشکیل نو ہوئی ہے۔
ذیل میں ہم ایک قدیم قرآنی نسخہ کے اوپر قرآنیکم کی تحقیقی کاوش (contribution) کا تعارف اور اس پر اپنا تجزیہ پیش کریں گے:
انیسویں صدی کے وسط میں دمشق میں جرمن قنصل اور مشہورمستشرق یوہان گوٹفریڈ ویٹشائن (Johann Gottfried Wetzstein، م:۱۹۰۵ء) نےکثیر تعداد میں قدیم عربی مخطوطات،جو زیادہ تر قرآنی تھے، جمع کیےتھے۔ یہ نسخے آخرکار جرمنی کے مختلف اداروں میں پہنچے۔ مذکورہ مصحف جو حجازی خط میں لکھا گیا ہے غالباً تب سے ہی ٹیوبنگن یونی ورسٹی میں موجود ہے اور آن لائن ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔[9]
قرآنی مصحف Ma VI 165 کے کل ۷۷اوراق (Folio) ہیں، جن میں سورۂ بنی اسرائیل کی آیت۳۵ سےسورہ یٰس آیت۵۷ تک مسلسل لکھی گئی ہیں، جو پورے قرآن کا ۲۶ فی صد بنتا ہے۔ ورق کی جسامت 19.5 cm x 15.3 cm ہے، ہر صفحہ پر اٹھارہ تا اکیس سطورتحریر ہیں۔ حَرکات کا اظہار کسی بعد کے ہاتھ نے سرخ نقاط کے ذریعے کیا ہے: حرف کے اوپر سرخ نقطہ (—) ’زبر‘ کےلیے ، حرف کے نیچے (—) ’زیر‘ کے لیے ، اور حرف کے سامنے (— ) ’پیش‘ کے لیےاستعمال کیا گیا ہے ، جیسا کہ قدیم قرآنی نسخوں میں دیکھا گیا ہے۔ ’تنوین‘ کے لیے ایک کے بجائے دو سرخ نقاط استعمال کیے جاتے تھے۔آگے چل کر یہ حرکات جدید علامات کی صورت میں بھی ملتی ہیں یعنی ’زبر‘ (—َ)، ’زیر‘ (—ِ) ، اور ’پیش‘ (—ُ) البتہ یہ علامات سیاہ رنگ سے بنائی گئی ہیں اور ظاہر ہے کہ بعد کا اضافہ ہیں۔
ٹیوبنگن کایہ نسخہ بھیڑ (sheep)کی کھال سے بنے پارچے پر لکھا گیا ہے۔ جہاں تک اس کی عمر کا تعلق ہے، اس کے تین نمونے ۲۰۲۰ ءمیں ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کے لیے اوکسفرڈ کی لیبارٹری میں بھیجے گئے تھے، جہاں سے اس کا زمانۂ تحریر۶۴۸ء اور۶۷۴ء کے دوران معلوم کیا گیا۔ گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعدکم سے کم سولہ یا زیادہ سے زیادہ ۷۲برسوں کا عرصہ ہی گزرا ہوگا، جب اس مصحف کی تسوید ہوئی ہوگی۔ اس طرح یہ نسخہ، قرآنِ عظیم کے اوّلین نسخوں میں سے ایک ہے۔ یہ واضح رہنا چاہیے کہ ریڈیو کاربن طریقہ سے جانور کی موت کا زمانہ معلوم ہوتا ہے۔ تحریر پر اس کا اطلاق اس مفروضے پر کیا جا تا ہے کہ پارچے بہت مہنگے ہوتے تھے، اس لیے ان کو ذخیرہ کے طور پرزیادہ عرصہ تک رکھا جانا ممکن نہیں ہوتا ہوگا۔ گویا جانور کی موت اور تحریر کے درمیان بہت زیادہ عرصہ نہیں ہوتا ہوگا۔
نہ صرف اس نسخہ بلکہ دوسرے قدیم نسخوں سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ بالکل ابتدا ہی سے قرآن ایک کتاب کی صورت اسی ترتیب پرموجود تھا جس پر اب پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ پہلی صدی ہجری کے اس نسخہ پر سورۂ بنی اسرائیل آیت ۳۵سےسورہ یٰس آیت ۵۷ تک مسلسل لکھی گئی ہیں۔
یہاں دیئے گئے جدول میں نسخۂ ٹیوبنگن کے پہلے صفحے کا عکس دیا جارہا ہے۔ مقابل میں ’کارپس قرآنیکم‘ کی ٹرانسلٹریشن یعنی جدید عربی خط میں حرف بہ حرف نقل دی ہوئی ہے۔جدول کی دوسری صف میں ایک جانب ’مصحف المدینہ‘ کا متعلقہ متن دیا گیا ہے اور دوسری جانب ان رنگوں کی تعریف بیان کی گئی ہے، جن سے متن کو نشان زد کیا گیا ہے ۔
ٹرانسلٹریشن کی سطر ۵ اور ۲۰ میں زرد رنگ کے ذریعے بتا یا گیا ہے کہ یہاں ایک حرف غائب ہے،یعنی آیت ۳۷ میںالجِبَالَ کو الجبللکھا گیا ہے اور آیت ۴۶میں ءَاذَانِهِم کو ادنهم لکھا گیا ہے۔ اس پر راقم کا تجزیہ یہ ہے کہ قدیم قرآنی ہجاء میں درمیانی ’الف‘ اکثر محذوف ہوتا تھا۔ اسی وجہ سے اس کو خطِ ناقص (Scriptio Defectiva) کہا جاتا ہے۔ آج بھی ’مصحف المدینہ‘ میں اکثر درمیانہ ’الف‘ محذوف ہی ہوتا ہے اور کھڑے زبر کے ذریعے قاری کی رہنمائی کی جاتی ہے کہ ادائی کس طرح کرنی ہے۔ راقم کےگذشتہ مضمون (ترجمان القرآن، جون ، جولائی ۲۰۲۰ء) میں اس طرح کی کئی مثالیں دی جاچکی ہیں۔ چنانچہ زرد رنگ سے نمایاں کیا گیا مشاہدہ قرآنی تہجئہ کی ایک معروف خاصیت ہی کو ظاہر کررہا ہے نہ کہ نقص۔
گلابی رنگ کے ذریعے سطر ۵ میں قرآنیکم نے مٹادینے کے عمل کو نمایاں کیا ہے۔ یعنی کاتب نے آیت ۳۷میں لفظ 'سَيِّئُهُ' کے بجائے 'سياته' لکھ دیا تھا ، گویا نہ صرف ایک الف زائد بنادیا تھا بلکہ ایک شوشہ ’ت‘ کا بھی بنایا اور اس کے دو نقاط بھی ڈالے۔ بعد میں اس نے خود اصلاح کردی اور زائد حرف الف مٹادیا بلکہ حرف ’ت‘ کو بھی مٹادیا، جیسا کہ اس عکس میں دیکھا جاسکتا ہے: ۔ یہ جاننا خالی از فائدہ نہ ہوگا کہ اس لفظ کی قراءت 'سَيِّئَةً 'بھی لٹریچر میں مذکور ہوئی ہے ،جیسا کہ ابنِ مجاہدؒ (م:۳۲۴ھ) نے بیان کیا ہے کہ یہ ابن کثیر، نافع، اور ابو عمرو کی قراءت ہے۔[10] عین ممکن ہے کہ کاتب نے یہاں یہی قراءت استعمال کی ہو، پھر متنبہ ہو کر خود ہی تصحیح کردی ہو۔ کیونکہ قرآن کے قدیم نسخوں میں بسا اوقات ا یک ہی مصحف میں ایک سے زائد قراآت کا استعمال دیکھا گیا ہے۔ ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ کاتب خود ہی دوسری قراءت کو مٹاکر اس قراءت کو لکھ دیتا تھا، جس پر باقی ماندہ متن لکھا ہوتا تھا۔
سبز رنگ سےسطر ۱۵آیت ۴۴میں اضافی حرف’الف‘ کو نمایاں کیا گیا ہے، یعنی شَىْءٍ کو ساى لکھاہے۔ اس تہجئہ کی ایک مثال موجودہ مصاحف میں بھی موجود ہے۔ سورۂ کہف کی آیت۲۳ میں آتا ہے: وَلَا تَقُولَنَّ لِشَا۟یْءٍ إِنِّى فَاعِلٌ ذَٰلِكَ غَدًا۔ اسی طرح ’مصحف المدینہ‘میں شَىْءٍ (ھود۱۱: ۴، ۱۲، ۵۷، ۱۰۱، الانبیاء۲۱: ۳۰، ۸۱، الحج۲۲ :۶، ۱۷ )، لَشَىْءٌ (ھود۱۱: ۷۲)، شَىْءٌ (الحج ۱۱:۲۲) اور سِىٓءَ ( ھود۱۱: ۷۷ ) — سب اوّلین مصحف PaB میں سای کے طور پر آئے ہیں۔[11] گویا یہ اضافی حرف بھی کوئی عیب نہیں، بلکہ جانا پہچانا قرآنی تہجئہ ہے۔
آسمانی رنگ سے سطر۱۴ سے ۱۷ میں ’مصحف المدینہ‘ اور اس نسخہ کا تہجئہ مختلف بتایا گیا ہے۔ جہاں تک سطر ۱۴ کا تعلق ہے، راقم کو تو ’تصولوں‘ ویسا ہی لکھا نظر آرہا ہے جیساکہ ’مصحف المدینہ‘ میں ہے(تقولون)۔ البتہ سطر۱۷ میں کاتب سے سہو ہوا ہے، اور ’حلیما‘ کو نظر بظاہر ’خلیما‘ لکھ دیا ہے، یعنی حرف ’ح‘ کو ’خ‘ سے بدل دیا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ نقطہ صفحہ۲ کا ہو، جو اس صفحہ ۱ پر جھلک رہاہو۔
گہرے نیلے رنگ کے ذریعے سطور ۱۰، ۱۱، ۱۸، ۲۰ اور ۲۱ میں متن میں بظاہر تبدیلی کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ سب سے پہلے سطر ۱۰ کو دیکھتے ہیں ۔ پارچہ پریہاں آیت کے اختتام پہ سرخ رنگ کی علامتِ آیت دیکھی جاسکتی ہے۔ پھر اس علامت کے اوپر سرخ رنگ سے ہی حرف’م‘ صاف دیکھا جاسکتا ہے،جوابجد نظام الاعداد میں ۴۰ کا حرف ہے۔ گویا یہ ’م‘ آیت ۴۰ کی نشاندہی کررہا ہے۔ قدیم قرآنی نسخوں میں شمارِ آیات کے لیے ابجدی نظام کا استعمال ایک معروف مشاہدہ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مغربی علما ابجد نظام الاعداد سے واقف نہیں ہیں بلکہ قرآنیکم حرف ’م‘ کے اضافہ کو تغیر اس بنا پرکہہ رہا ہے کہ سرخ رنگ سے یہ اضافہ بعد کا ہاتھ کا ہے، جو صحیح ہے۔ اسی طرح سطور۱۱ ، ۱۸ ، اور ۲۱ میں’ ٱلْقُرْءَانَ‘ کا درمیانی الف موجود نہیں تھا، جس کا اضافہ کسی بعد کے ہاتھ نے گہرے سیاہ رنگ کی روشنائی سے کیا ہے۔ یہ تینوں مشاہدے درست ہیں۔ سطر ۲۰ میں يَفْقَهُوهُ وَفِىٓ ءَاذَانِهِمْ میں کاتب کے سہو کی وجہ سے حرف ’و‘ رہ گیا تھا جس کی اصلاح کردی گئی ہے، اگرچہ اسی کاتب نے کی ہو یا بعد کے کسی فرد نے۔
اگرچہ یہ ایک ہی صفحہ کا تجزیہ ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نسخۂ ٹیوبنگن کا یہ پہلا صفحہ بعینہ موجودہ قرآن سے مماثل ہے۔ تاہم کوئی صاحب ہمت کریں تو اس کام کو آگے بھی بڑھایا جاسکتا ہے۔ بہرحال متعدد قرآنی نسخ کے مطالعے سے یہ امر متحقق ہوچکا ہے کہ متنِ قرآن پہلے روز سے ہی مستحکم ہے اور یہ بات مغربی محققین بھی تسلیم کرچکے ہیں۔ یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے کہ وہ قرآن کی حفاظت کرے گا:اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر۱۵: ۹) ’’ اس ذکر کو ہم نے نازل کیا ہے اور ہم خود اس کے نگہبان ہیں‘‘۔
[1] یعنی تورات کے وہ حصے جن میں خدا کو ’یہوے‘ (Yehweh) کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ کیونکہ جرمن زبان میں حرف' Y ' کا تلفظ' J' سے ادا کیا جاتا ہے، اس لیے اس کو Jehovist-source یا مختصرا'ً J' ماخذ کہا جاتا ہے۔
[2] تورات کے وہ مقامات جن میں خدا کا نام ’الوہیم‘ (Elohim) ذکر کیا گیا ہے۔
[3] یہ تورات کی کتاب ’احبار‘ (Leviticus) ہے۔
[4] تورات کی کتاب ’استثناء‘ (Deutronomy) ہے۔
[5] یہ جرمن لفظ quelle” “کا مخفف ہے جس کا معنی ہے:مآخذ۔ اس مآخذ کی نشاندہی سب سے پہلے Johannes Weiss (م:۱۹۱۴ء)نے کی تھی جس نے تجویز کیا تھا کہ یہ زبانی روایات پر مبنی مآخذ ہے۔
[6] Angelica Neuwirth, "Structural, Linguistic and Literary Features", Ch. 5 in Cambridge Companion to the Quran, Jane D. McCuliffe, ed.,
کیمبرج یونی ورسٹی پریس، کیمبرج، ۲۰۰۶ء، ص ۹۷-۱۱۴
[7] عالمِ اسلام کے جلیل القدر عالم ڈاکٹر محمدمصطفیٰ الاعظمی ؒ [۱۹۳۲ء-۲۰ دسمبر ۲۰۱۷ء]کے نزیک قرآن کی دوسری قراءت کے لیے Multiple Readings کی اصطلاح زیادہ مناسب ہے جبکہ معروف variant readings ہے۔ دیکھیے اُن کی کتاب:
THE HISTORY OF THE QURĀNIC TEXT From Revelation to Compilation A Comparative Study with the Old and New Testaments, اعظمی پبلشنگ ہاؤس ، ریاض، سعودی عرب، ۲۰۰۸
[8] زمانۂ قدیم (Classical Antiquity) سے مراد آٹھویں صدی قبلِ مسیح سے رومن ایمپائر کے زوال یعنی پانچویں صدی شمسی تک کا عرصہ لیا جا تاہے، جب کہ تیسری صدی شمسی سے ساتویں یاآٹھویں صدی شمسی کے عرصے کو أواخر ازمنۂ قدیم (late anti quity)کہتے ہیں، جس کے بعد پھر ازمنۂ وسطیٰ شروع ہوتا ہے۔
[9] http: idb.ub.uni-tuebingen.de diglit mavi165
[10] کتاب السبعۃ لابنِ مجاہد۔ ص ۳۸۰،بع دارالمعارف ،مصر۔
[11] مصحف PaB پر ملاحظہ کیجیے عالمی ترجمان القرآن ، جولائی ۲۰۲۰ء
ہم اسلامی شریعت میں یہ مطالعہ کرتے ہیں کہ عورتوں کا وراثت میں حق ہے،لیکن زمینی صورت حال اس کے برعکس ہے۔ کہیں وراثت کا حق لڑکیوں کو دیا ہی نہیں جاتا ہے۔ کہیں یہ حق دینے سے بچنے کے لیے والد محترم بیٹے کے نام پر پوری پراپرٹی ہبہ کردیتے ہیں۔ کہیں پراپرٹی کو باہر جانے سے بچانے کے لیے خاندانوں میں بے جوڑ رشتوں کا رواج ہے،تو کہیں بھائی صرف ایک دولاکھ روپے پکڑواکر پہلو تہی کرلیتے ہیں۔کہیں یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ لڑکیوں کی شادی پر پیسہ خرچ کردیا،وہی وراثت تھی،اور جہاں خاتون کو وراثت میں سے حصہ مل جائے تو شوہر محترم اس مال پر اپنا پورا اختیار سمجھتے ہیں،بیوی کو اس میں تصرف کی آزادی نہیں ہوتی۔
اسی طرح کا واقعہ سناتے ہوئے ایک خاتون نے بتایا کہ ان کے شوہرِ نامدار نے اپنے پیسے جمع کرکے اپنے نام پر پانچ لاکھ کی زمین خریدی،تاکہ گھر بناسکیں گے، لیکن تعمیر کے لیے پیسے نہیں تھے،اس لیے بیوی کو کہا کہ اپنے بھائیوں سے وراثت کا حصہ طلب کرے۔بھائیوں سے مانگنے میں کسی حد تک وہ کامیاب ہوئیں،۲۰لاکھ کی رقم لے کر شوہر کو دی اور شوہر صاحب نے گھر کی تعمیر کی۔چونکہ ان کی صرف دو بیٹیاں تھیں،بیٹا نہیں تھا۔اس واقعے کے دس سال بعد شوہر کا انتقال ہوگیا۔ چونکہ مکان شوہر کے نام پر تھا،اس لیے شوہر کے بھائی اور بیٹوں کا حصہ بنا۔وہ کہتی رہیں کہ اس گھر کی تعمیر میں بڑی رقم میری ذاتی خرچ ہوئی ہے،لیکن چونکہ ثبوت کوئی نہیں تھا،اس لیے ان کو حصہ دینا پڑا۔
دراصل یہی ہمارے معاشرے کا مسئلہ ہے کہ بیوی کو اس کا مال علیحدہ اسی کے نام پر رکھنے کی اجازت نہیں ہے ۔اس کے مہر یا زیورات کی رقم ہو یا وراثت کی،یا اس کی اپنی کمائی،شوہر حضرات اس کے مال کا حاکم خود کو سمجھتے ہیں۔
قرآن نے اس آیت کے ذریعے دونوں کی ذمہ داریوں کی اچھی طرح وضاحت فرمادی ہے:
مرد عورتوں پر قوّام ہیں ، اس بنا پر کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔(النساء ۴: ۳۴)
قوّام کا ترجمہ اکثر مترجمین نے لفظ’حاکم‘ سے کیا ہے۔حاکم کے مروجہ معنی مکمل حاکم کے آتے ہیں۔جس کی وجہ سے مسلم مردوں میں یہ احساس برسہا برس سے پنپ رہا ہے کہ بیوی کے مال،اس کی وراثت اور اس کی کمائی پر بھی شوہر کا حق ہے، جب کہ بیوی کو کمانے کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے شوہر کی اجازت لے۔ درحقیقت بیوی کا کمایا ہوا مال اس کا اپنا مال ہے،اسے پورا اختیار ہے کہ جو اس نے کمایا ہے،اس سے وہ صدقہ خیرات کرے یا اپنے قرابت داروں کی مدد کرے۔
اسلام نے خاندانی نظام اس طرح استوار کیا ہے کہ بیوی پر اندورن خانہ گھر کی دیکھ بھال، شوہر کی خدمت اور بچوں کی پرورش و پرداخت کی ذمہ داری ڈالی ہے اور شوہر کو بیوی کے نان و نفقہ اور دیگر ضروریات زندگی فراہم کرنے کا پابند کیا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دُوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیا ہے،اس کی تمنّا نہ کرو۔ جو کچھ مَردوں نے کمایا ہے اُس کے مطابق ان کا حصّہ ہے،اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے،اس کے مطابق اُن کا حصّہ۔ہاں، اللہ سے اس کے فضل کی دُعا مانگتے رہو، یقیناً اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔(النساء ۴:۳۲)
خواتین تعلقات کے معاملے میں احتیاط سے کام لیتی ہیں اور تعلقات کے بگاڑنے میں خوف کا شکار رہتی ہیں،اس لیے مجبوراً اپنا مال شوہر کو سونپتے ہوئے دلی آمادگی کا اظہار کرتی ہیں۔ مہر کی رقم بھی اس سے واپس لی جائے تو وہ بے چون و چراں شوہر کے حوالے کردیتی ہے۔وراثت میں بھی وہ تعلقات کی خرابی کے ڈر سے کوشش کرتی ہے کہ شوہر کے حوالے کردے۔
شریعت کا ایسے معاملات میں موقف بالکل واضح ہے،جسے مولانا رضی الاسلام ندوی نے نقل کیا ہے:’’اگر باپ اور بیٹا دونوں تجارت کریں،تو باپ اور بیٹے کے تجارت میں بھی شیئر کو علیحدہ علیحدہ لکھ لیا جائے،تاکہ تجارت علیٰحدہ ہونے پر انصاف کے ساتھ تقسیم ہوسکے۔ اسی طرح بیوی کے مال یا اس کے شیئر کو بھی واضح طور پر لکھ کر دستاویزی ثبوت رکھنا چاہیے۔‘‘
ایک مرتبہ دوران گفتگو ایک خاتون استاد نے بتایا کہ پچیس سال سے گورنمنٹ کالج میں ملازمت کر رہی ہوں،لیکن ابتدا ہی سے میری چیک بُک میرے شوہر کے ہی پاس رہی،کبھی میری تنخواہ پر میرا اختیار نہیں رہا۔میرے شوہر جب چاہیں مجھے پیسے لاکر دیں، لیکن کبھی میرے اختیار میں نہیں رہا کہ کچھ رقم نکال کر ذاتی طور پر خرچ کرسکوں۔ابتدا میں میرے لیے یہ بات اہم نہیں تھی کہ شوہر اور میرا پیسہ ایک ہی ہے۔ وہ جاب نہیں کرتے تھے، ان کا بزنس تھا،کبھی چلتا اور کبھی نقصان میں رہتے تو برسوں تک ہمارے درمیان کچھ نہیں خراب ہوا۔پھر یوں ہوا کہ اپنے بہن بھائی کی مدد کے لیے مجھے پیسوں کی ضرورت پیش آئی۔اپنے بینک سے رقم نکالنا چاہی تو شوہر کے سوال جواب سے اس قدر پریشان ہوئی کہ مجھے احساس ہوا کہ میرے اپنے پیسوں پر میرا حق نہیں ہے۔اسی بات پر ہمارے درمیان تنازع رہنے لگا۔ایک عالم سے پوچھا تو موصو ف نے فرمایا کہ ’’عورت کی ہر چیز کا مالک شوہر ہے۔وہ چاہے تو بیوی کو جاب کے لیے باہر نکلنے کی اجازت دے،چاہے تو نہ دے‘‘۔ یہ سن کر میں خاموش ہوگئی،اور آج پچیس سال سے خاموش ہوں،لیکن اپنے آپ کو میں آدھی پاگل سمجھتی ہوں۔میرے شوہر کی وفات کے بعد میرے بینک کا کارڈ میرے بیٹے کے پاس ہے،اور میں اپنے بیٹے سے واپس لینے میں بھی خوف کھاتی ہوں۔اب وہ خاتون ذہنی مریضہ بن چکی ہیں،کہ ان کا ان کے اپنے ہی پیسوں پر اختیار آج بھی نہیں ہے۔
یوں اندازہ ہوتا ہے کہ خواتین میں خود اپنے مال کی حفاظت یا اسے اپنے اختیار میں رکھنے کا شعور نہیں ہے،یا تو بھائی سے وارثت نہیں ملی ہے یا اس کی کمائی پر شوہر اپنا حق سمجھتا ہے۔
مولانا رضی الاسلام ندوی نے اپنی کتاب:عورت ، خاندان اور سماج میں لکھا ہے: اسلام نے عورت پر گھر کی ذمہ داری ڈالی ہے،لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلام نے عورت کے لیے کسبِ معاش کا دروازہ بالکل بند کر دیا ہے۔لڑکی شادی سے قبل باپ یا سرپرست کی اجازت سے اور شادی کے بعد اپنے شوہر کی اجازت سے معاشی سرگرمی انجام دے سکتی ہے۔ کسبِ معاش کی بنیادی طور پر دو صورتیں ہو سکتی ہیں :ایک براہِ راست معاشی سرگرمی کے ذریعے اور دوسرے بالواسطہ سرمایہ کاری کے ذریعے۔عورت ان دونوں صورتوں کو اختیار کر سکتی ہے۔وہ خرید و فروخت کر سکتی ہے، کاشت کاری کر سکتی ہے، صنعت و حرفت میں مصروف ہو سکتی ہے، اپنی کسی جائیداد، مکان و دکان وغیرہ کو کرایہ پر دے سکتی ہے،حدود شرع کی پابندی کرتے ہوئے کہیں ملازمت کر سکتی ہے،اپنی مزروعہ زمین کو بٹائی پر لگا کر پیداوار کی شکل میں منافع حاصل کر سکتی ہے۔ ان تمام صورتوں میں عورت جو کچھ کمائے گی اس کی وہ خود مالک ہو گی،شوہر کو اس پر قبضہ کرنے کا حق نہ ہوگا۔ایسی عورت کے مال دار ہونے کے باوجود شوہر پر اس کے اوراس کے بچوں کے اخراجات کی تکمیل واجب ہوگی۔عہد نبویؐ میں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ خواتین مختلف ذرائع سے مال کماتی تھیں اور اس کو آزادانہ طور پر خرچ کرتی تھیں۔حضرت شفاءؓ العدویہ اور حضرت اسماءؓ بنت مخرمہ، عطر فروخت کیا کرتی تھیں۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی بیوی زینب کچھ کاری گری سے واقف تھیں، جس کے ذریعے وہ اچھا خاصا کما لیتی تھیں ۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا:
’’کیا میں اپنا مال اپنے شوہر اور ان کے بچوں پر خرچ کر سکتی ہوں؟‘‘
یہی سوال ایک دوسری خاتون نے بھی کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا :
نَعَمْ لَهُمَا أَجْرَانِ: أَجْرُ الْقَرَابَةِ وَأَجْرُ الصَّدَقَةِ ،ہاں، ان دونوں کو دوہرا اجر ملے گا۔ ایک قرابت کا اجر اور دوسرے صدقے کا اجر۔
اگر تنگ دستی ہو،شوہر کے ساتھ اچھی دلی آمادگی کے ساتھ بیوی اپنا مال شوہر پر خرچ کرسکتی ہے۔گھر کے نظام کو بہتر بنانے اور ایک دوسرے سے تعاون کا ماحول بنانے کے لیے شوہر کے ساتھ مل کر بھی سرمایہ کاری کرسکتی ہے،تاہم اس خیال کے ساتھ کہ کسی کا استحصال نہ ہو۔
جہاں یہ شعور مردوں کے درمیان ہونا چاہیے کہ جو مال بیوی کو مہر یا تحفہ میں دیا گیا، یا جو زیورات بیوی اپنے ساتھ لائی ہے ،یا وراثت کا حق، یا اس کی اپنی کمائی، یہ تمام اموال بیوی کے ہیں،اور وہ ان کی مالک ہے۔ وہیں یہ شعور خواتین میں بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے مال کے استحقاق کا احساس رکھیں، ابتدا ہی سے وہ احساس دلائیں کہ یہ ان کا مال ہے۔
یہ غلطی اکثر خواتین کرتی ہیں کہ ابتدا میں اپنے شوہر کو دل کی آمادگی کے ساتھ مالک بنادیتی ہیں،اور تعلقات میں رنجش کے بعد وہ یہ اظہار کرتی ہیں کہ ’مجھ سے لے لیا گیا‘۔اس لیے بہتر ہے کہ شریعت کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کیا جائے۔شوہر کو مال دیں تو قرض کے بطور دیں اور اسے لکھ لیا کریں،تاکہ واضح رہے کہ آپ کو اپنی ملکیت کا احساس ہے۔اپنے مال سے صدقہ و خیرات ادا کریں تو اجازت نہ لیں،کیوں کہ اجازت لینے سے بھی یہ احساس دلاتی ہیں کہ شوہر ہی اس کے مال کا مالک ہے۔ہاں،کسی اجنبی کی مدد سے پہلے مشورہ ضرور کرلیں،تاکہ مستحق تک مدد پہنچانے میں شوہر کی مشاورت شامل رہے۔
سورئہ احزاب میں اہل ایمان مردوں اور عورتوں کے دس اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک وصف صدقہ کرنابھی ہے۔کہا گیا ہے :
وَالْمُتَصَدِّقِيْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ (الاحزاب ۳۳:۳۵ )صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں۔
جب خاتون کے مال میں مرد کو تصرف کی آزادی دی جائے تو اپنے مال سے بھی صدقہ کرنے کے لیے شوہر کی اجازت لازم کردی جاتی ہے۔
پڑھی لکھی باشعور خواتین بھی شرعی قوانین سے عدم واقفیت کی بنا پر اپنے اختیارات سے ناواقف رہتی ہیں،اور بعد میں اپنی غلطی پر پشیمانی کے احساس سے ذہنی حالت خستہ اور دل مجروح کرلیتی ہیں۔
عورت جس مال کی مالک ہے،اسلام نے اس میں تصرف کا اسے پورا اختیار دیا ہے۔ وہ اسے فروخت کر سکتی ہے، کرایہ پر لگا سکتی ہے، عاریت میں دے سکتی ہے،اس کا ہدیہ کرسکتی ہے،اسے وقف کر سکتی ہے، اسے بطور صدقہ و خیرات خرچ کر سکتی ہے۔ اس کے اولیا: ماں باپ ، شوہر ، بیٹے وغیرہ حسب ضرورت و موقع اسے مناسب مشورہ تو دے سکتے ہیں، لیکن اس پر اپنی مرضی نہیں تھوپ سکتے۔
عموماً یہ بات خواتین کے درمیان کہی جاتی ہے کہ ’’بھائی سے وارثت لینے کے بعد بھائی سے تعلقات خراب ہوجاتے ہیں،اور وراثت کا حق بھی شوہر کو سونپنا پڑتا ہے،عورت کا کچھ ہے ہی نہیں‘‘۔ اس غلط خیال کی تردید ہونی چاہیے اور یہ خاتون کی ملکیت کے احساس کو اُجاگر کرکے ہی ممکن ہے۔
خطبۂ جمعہ کو اس قدر غور سے سننے کی تلقین کی گئی ہے کہ ’’کہا گیا ہے کہ اگر کوئی دوران خطبہ شور کرے تو اس کو یہ کہنا کہ ' چپ ہوجاؤ بھی مناسب نہیں‘‘۔ ظاہر ہے خطبۂ جمعہ کی کافی اہمیت ہے، لیکن بدقسمتی سے ہم نے خطبۂ جمعہ کو وہ مرکزی اہمیت نہیں دی۔ ایک متفق علیہ حدیث ہے؛ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب جمعہ کے دن امام خطبہ دے رہا ہو اور تم اپنے پاس بیٹھے ہوئے آدمی سے کہو کہ’خاموش ہو جاؤ‘ تو (ایسا کہہ کر) تم نے خود ایک لغو حرکت کی‘‘۔فرشتے اس شخص کا نام اپنے رجسٹر میں نہیں لکھتے ہیں جو خطبۂ جمعہ شروع ہونے کے بعد مسجد آئے۔ رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو مسجد کے ہردروازے پرفرشتے کھڑے ہوکر پہلے آنے والے کو پہلے لکھتے ہیں۔ سب سے پہلے آنے والا شخص اس کی طرح ہے جس نے اونٹ قربان کیا ہو، اس کے بعد اس کی طرح جس نے گائے قربان کی، اور اس کے بعد جس نے مینڈھا قربان کیا، پھر اس کے بعد آنے والا اس کی طرح جس نے مرغی قربان کی ہو۔ پھر اس کے بعد آنے والا اس کی طرح ہے جس نے انڈا صدقہ کیا ہو،اور جب امام نکلے اور منبر پرپہنچ جائے تو وہ اپنے رجسٹر لپیٹ کر ذکر سننے آجاتے ہیں‘‘۔ (مسلم،۸۵۰)
جس قوم کے پاس خطبۂ جمعہ جیسا مؤثر (vibrant ) نظام ہو، اس کی بنیادی اقدار بہترین ہونی چاہئیں۔ وہ بہت زیادہ update ہونے چاہئیں۔ آج کے دور میں میڈیا کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کے پاس میڈیا نہیں ہے، لیکن خطبۂ جمعہ متبادل میڈیاکا کام دے سکتا ہے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کی جن ذرائع سے تربیت کرتے ان میں خطبۂ جمعہ کا کلیدی مقام تھا۔ جب اسلام عرب سے باہر پھیل گیا تو خطبۂ جمعہ کو مؤثر بنانے کے لیے علما نے یہ طریقہ اپنایا کہ دو خطبوں سے پہلے مقامی زبان میں تقریر ہوتی ہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی اکثریت یہ تقریر نہیں سنتی اور خطبۂ جمعہ ہونے سے چند منٹ پہلے مسجد پہنچ جاتے ہیں۔ اس طرح اس تقریر کی افادیت آہستہ آہستہ ختم ہوجاتی ہے۔ لوگ تیسرے خطبہ کو خطبۂ جمعہ میں شامل نہیں سمجھتے، تاہم خطبۂ جمعہ کی اہمیت ان کے نزدیک برقرار ہے اور وہ خطبہ کی اذان شروع ہونے سے ٹھیک پہلے مسجد پہنچ جاتے ہیں۔ جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ بہت سی جگہوں پر پہلا خطبہ مقامی زبان میں دیا جاتا ہے،جس سے لوگوں کی رہنمائی بھی ہو جاتی ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی لکھتے ہیں: ’’امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک غیر عربی زبان میں بھی خطبہ دیا جاسکتا ہے۔ ان کے دونوں شاگردوں امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ (صاحبین) کے نزدیک جو شخص عربی زبان پر قادر ہو، اسے عربی میں خطبہ دینا چاہیے۔ جو قادر نہ ہو اسے غیرعربی میں بھی خطبہ دینے کی اجازت ہے‘‘۔
عموماً فقہائے احناف کا فتویٰ اور عمل صاحبین کے مسلک پر ہے۔ بعض فقہا نے غیرعربی زبان میں بھی خطبہ دینے کی اجازت دی ہے۔ مثلاً علامہ عبدالحئی فرنگی محلیؒ نے اس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے (مجموعۃ الافتاوٰی،فصل:۲۵)۔ مولانا محمدعلی مونگیریؒ بانی دارالعلوم ندوۃ العلماء ،لکھنؤ نے بھی اس موضوع پر ایک مفصل رسالہ لکھا ہے، جس کا نام القول المحکم فی خطابۃ العجم ہے۔
موجودہ دور میں اس چیز کی شدید ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ خطبۂ جمعہ کو عوام کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ بنایا جائے۔ اس بنا پر بعض علما کہتے ہیں کہ جمعے کے دونوں خطبے تو عربی زبان ہی میں دیئے جائیں، البتہ خطبے سے قبل عوام کی زبان میں ان کے سامنے تقریر کی جائے، جس میں انھیں دین کی باتیں بتائی جائیں۔ اس طریقے کو اختیار کرنے سے عملاً جمعے کے تین خطبے ہوجاتے ہیں۔ اس لیے مناسب یہی ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کے مسلک کو اختیار کرکے خطبۂ اولیٰ کو اُردو میں دینا چاہیے۔
اس موقعے پر اسلامی فقہ اکیڈمی مکہ مکرمہ کے پانچویں سیمی نار منعقدہ ۸ تا۱۶؍ربیع الثانی ۱۴۰۲ھ میں منظور شدہ ایک فیصلے کا حوالہ دینا مناسب معلوم ہوتا ہے : ’’معتدل رائے یہ ہے کہ غیرعرب علاقوں میں جمعہ و عیدین کے خطبے کے صحیح ہونے کے لیے عربی زبان کی شرط نہیں ہے۔ البتہ بہتر یہ ہے کہ خطبے کے ابتدائی کلمات اور قرآنی آیات عربی زبان میں پڑھی جائیں، تاکہ غیرعرب بھی عربی اور قرآن سننے کی عادت ڈالیں اور عربی میں قرآن سیکھنا ان کے لیے آسان ہو۔ پھر خطیب علاقائی زبان میں انھیں نصیحت و تذکیر کرے‘‘۔ (مکہ فقہ اکیڈمی کے فقہی فیصلے، ایفا پبلی کیشنز، نئی دہلی، طبع دوم، ۲۰۰۶ء، ص۱۰۷ )
نمازِ جمعہ اور جمعہ کے خطبے اسلام کے عظیم شعائر میں سے ہیں، جن کا مقصد لوگوں کو وعظ ونصیحت کرنا اور ان کی رہنمائی کرنا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جمعہ کا اہتمام ہو، ہر بستی میں ایک ہی وقت خطبۂ جمعہ ہو۔ سب دوکانیں، کاروباری ادارے اور دفاتر اس وقت بند ہوجائیں اور پوری بستی کو یہ محسوس ہو کہ آج جمعہ ہے۔ اس کے بعد امام صاحب پہلا خطبہ مقامی زبان میں دیں اور دوسرا خطبہ عربی زبان میں دیں، اس طرح شعائر اسلام کی تعظیم ہو سکتی ہے۔ ورنہ یہ ہوتا ہے کہ آدھے لوگ اس مسجد میں جاتے ہیں جہاں ابتدائی وقت میں خطبۂ جمعہ ہوتا ہے اور آدھے لوگ وہاں جاتے ہیں جہاں آخری وقت خطبۂ جمعہ ہوتا ہے، اس طرح جمعہ کا اہتمام کہیں نظر ہی نہیں آتا۔ اب تو زیادہ تر مساجد اس وجہ سے ابتدائی وقت میں خطبۂ جمعہ رکھتے ہیں تاکہ وہاں زیادہ سے زیادہ لوگ نماز کے لیے آئیں اور مسجد کے لیے امداد بھی فراہم ہوسکے۔ نمازِ جمعہ کا اہتمام نظر آنا چاہیے۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللہِ وَذَرُوا الْبَيْعَ۰ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۹(الجمعة۶۲:۹)مومنو! جب جمعے کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف لپکو اور خرید وفروخت ترک کردو، اگر سمجھو تو یہ تمھارے حق میں بہتر ہے۔
ابن عباس ؓ فرماتے ہیں:’’اذان جمعہ کے بعد خرید وفروخت حرام ہے‘‘۔ امام ابن قیمؒ فرماتے ہیں:’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقۂ کار یہ تھا کہ آپ دیگر ایام کے مقابلے میں مخصوص عبادتوں کے ذریعے جمعہ کے دن کی تعظیم وتکریم کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ علمائے کرام کے درمیان یہ اختلاف ہے کہ جمعہ کا دن افضل ہے یا عرفہ کا دن‘‘۔(زاد المعاد ، ۱/۳۷۵)
اب،جب کہ یہ بات واضح ہے کہ خطبات جمعہ کی اتنی زیادہ اہمیت ہے تو پھر خطیب مسجد کی ذمہ داری بھی اسی حساب سے بڑھ جاتی ہے، تاکہ اس ہفتہ وار پروگرام سے بھر پور فائدہ اٹھایا جاسکے۔ بہتر یہ ہوتا کہ علاقے میں اہلِ علم کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو ہر جمعہ کو یہ طے کریں کہ اگلے جمعہ کو ہر مسجد میں کس موضوع پر خطبہ ہو؟ بہتر ہوتا کہ اہلِ علم ہر ہفتے ائمہ حضرات کو خطبۂ جمعہ کے لیے مواد بھی فراہم کرتے۔ خطبۂ جمعہ مختصر مگر جامع ہو۔ بدقسمتی سے خطیب صاحب ایسے بے سروپا قصوں، کہانیوں اور مبالغہ آمیز حکایات کا سہارا لیتے ہیں کہ تعلیم یافتہ لوگوں کی الجھن میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے، بلکہ ایسی کہانیوں کے باعث خطبا سے نفرت پیدا ہونے لگتی ہے۔ خطبۂ جمعہ کو اب اکثر مقامات پر صرف ایک تبرک کی حیثیت حاصل ہے۔ اسی طرح خطبہ میں دوسرے مسالک اور جماعتوں پر تنقید بھی کی جاتی ہے جس سے تفرقہ بڑھ جاتا ہے۔ موجودہ حالات میں جب امت مسلمہ رسوم ورواج میں پھنسی ہوئی ہے، ضرورت ہے کہ لوگوں کی رہنمائی کی جائے۔ جب رزقِ حلال کے حوالے سے بیداری کی کمی ہو تو ضرورت ہے رزق حلال پر زور دیا جائے۔ رشوت خوری، ذخیرہ اندوزی، اور ناپ تول پر کمی پر خطبہ دیا جائے تاکہ لوگ ان رذائل سے محفوظ رہیں۔ اسلام نے معاشرتی مسائل پر کھل کر اور تفصیل سے بات کی ہے۔ ضرورت ہے کہ معاشرتی مسائل پر بات چیت کی جائے۔ بغض، حسد، کینہ، غیبت وغیرہ کو بھی خطبۂ جمعہ کا موضوع بنایا جائے۔ سب سے بہتر ہے کہ قرآن کریم کا درس سورۂ فاتحہ سے شروع کیا جائے ہر ہفتہ ایک یا دو آیات کا ترجمہ اور تفسیر بیان کی جائے۔ خطبۂ جمعہ میں مقررین کو بہترین اسلوب میں اپنی بات رکھنی چاہیے۔
حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے مروی ہے:’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبۂ ارشاد فرماتے تھے، تو آپ کی آنکھیں سرخ ہوجاتی تھیں، آواز بلند ہوجاتی تھی، اور آپ کا غصہ شدید ہوجاتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ آپ کسی لشکر کو آگاہ فرمارہے ہیں ‘‘۔ (مسلم)
آج کل ہمارے گردوپیش میں جہاں مرد حضرات جمعہ پڑھنے کے لیے مساجد کا رُخ کرتے ہیں وہیں خواتین نمازِ جمعہ سے محروم رہ جاتی ہیں۔ لازم ہے کہ جہاں جہاں کوئی نئی مسجد تعمیر ہو رہی ہو وہاں خواتین کے لیے الگ سے جگہ رکھی جائے۔ اگر خواتین بھی خطبۂ جمعہ پابندی سے سنیں گی تو اس کے معاشرے پر بہترین مثبت اثرات پڑیں گے۔
ویسے تو ۲۰۱۹ء ہی میں بھارتی سپریم کورٹ کے عجیب و غریب فیصلے نے ایودھیا شہر میں واقع تاریخی بابری مسجد کی شہادت پر مہر لگادی تھی، مگر اب اس سال ۲۲جنوری کو اسی مسجد کی جگہ پر ایک بہت بڑے رام مندر کے افتتاح کے بعد یہ مسجد تاریخ کے اوراق میں گم ہوگئی۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے خود ہی اس مندر کا افتتاح کرکے بھارتی سیکولرازم کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ مندر کے افتتاح سے قبل اور بعد میں پورے ملک میں یاترائیں نکالی گئیں اور کئی جگہوں پر شرپسندوں نے مسلم محلوں میں شر انگیزی کی۔ مسجدوں کے سامنے ’جے شر ی رام‘ کے نعرے لگائے گئے۔ دفاتر میں ایک دن کی چھٹی دی گئی اور دیوالی کی طرح چراغاں کیا گیا، کیونکہ بتایا گیا کہ چار سو برسوں کے بعد بھگوان رام کو اپنا گھر نصیب ہوا ہے۔
اساطیری کہانی رامائن کے مطابق:جب بارہ سال کے بن باس کے بعد رام واپس ایودھیا شہر آگئے تھے، تو اس وقت بھی اس طرح کا جشن نہیں منایا گیا ہوگا، جو اس وقت منایا گیا۔ ایودھیا میں پجاری پرم ہنس اچاریہ نے مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر کا پتلا جلا کر اپنے دل کی بھڑاس نکال دی۔ مندر کے افتتاح کو پران پرتشٹھا کا نام دیا گیا، یعنی سیاہ پتھر سے بنی بھگوان رام کی جو مورتی اس مندر میں رکھی گئی، اس میں روح داخل کی گئی۔ ویسے ۱۹۴۹ء میں جب یہ قضیہ شروع ہوا تھا، تب بتایا گیا تھا کہ ’’بابری مسجد کے محراب میں بھگوان رام کی ایک چھوٹی سی مورتی نمودار ہوگئی‘‘، جس سے اخذ کیا گیا، کہ رام اسی جگہ پر پیدا ہوئے تھے۔سپریم کورٹ نے بھی مسمار شدہ بابری مسجد کی جگہ اسی مورتی یعنی رام للا کو دی۔ تاہم پولیس کا کہنا تھا کہ نرموہی اکھاڑہ سے تعلق رکھنے والے چندافراد عشا ء کی نماز کے بعد رات کی تاریکی میں دیوار پھاند کر مسجد میں گھس گئے اور مورتی محراب کے پاس رکھ دی، جس کی شکایت مسجد کے قریب رہائشی ہاشم انصاری نے درج کروائی ۔ اگلے دن پورے شہر میں افواہ پھیل گئی کہ بابری مسجد کی محراب میں رام کی مورتی نمودار ہوگئی ہے۔ مقامی انتظامیہ نے اس افواہ کی علّت کا تدارک کرنے کے بجائے مسجد پر ہی تالا چڑھا دیا۔ بعد میں ۱۹۸۰ء کی دہائی میں ہندوؤں کو پوجا پاٹ کرنے کی اجازت دی۔
ہندستان دھرم کے چار شنکر اچاریوں نے اس افتتاحی تقریب میں یہ کہہ کر شرکت کرنے سے منع کردیا کہ ’’ابھی مندر کی تعمیر نامکمل ہے اور اس میں کیسے مورتی میں روح ڈالی جاسکتی ہے؟ پوری تعمیر میں ابھی ایک سال اور لگ سکتا ہے‘‘۔ مگر مودی تاریخ میں اپنا نام درج کروانے کے علاوہ اس سال اپریل-مئی میں ہونے والے عام انتخابات میں ووٹروں کے دل لبھانے کے لیے ایجنڈے کو ترتیب دینے کے لیے بے چین تھے۔ ان کے رفقا نے تو اُلٹا شنکر اچاریوں پر ہی سوالات اٹھائے اور مودی ہی کو بھگوان ویشنو کا اوتار قرار دیا۔ جس طرح مودی کو اس مندر کے افتتاح کی جلدی تھی، لگتا ہے کہ عام انتخابات کے حوالے سے وہ خاصے فکرمند ہیں اور اقتدار میںواپسی کا ان کو شاید یقین نہیں ہے۔ ان کو معلوم تھا کہ اگر وہ انتخاب ہار جاتے ہیں یا کسی وجہ سے دوبارہ مسند پر بیٹھ نہیں پاتے، تو ان کی اپنی پارٹی ہی ان کی یاد کو ایسے کھرچ ڈالے گی، جیسے وہ کبھی پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ یہ اس جماعت کا وتیرہ رہا ہے۔ جو کچھ ایل کے ایڈوانی اور مرلی منوہر جوشی کے ساتھ ہوا، مودی کو شاید آئینے میں وہ سب نظر آرہا تھا۔
ہندو قوم پرست جماعتیں، خاص طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) تین متنازعہ ایشوز لے کر ہی انتخابی میدان میں اترتی ہے۔ یہ ایشوز تھے بابری مسجد کی جگہ ایک عظیم الشان رام مندر کا قیام ، جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کا خاتمہ، اور پورے ملک میں یکساں سول کوڈ کا نفاذ۔ پچھلے دس سالہ دور اقتدار میں مودی حکومت نے دو اہم وعدوں کو عملی جامہ پہنایا ہے۔ یکساں سول کوڈ، مسلمانوں کے بجائے قبائل اور ہندوؤ ں کے ہی مختلف فرقوں کو قابل قبول نہیں ہے، کیونکہ شادی بیاہ کی رسوم بھارت کے ہر خطے میں مقامی رواج کے ساتھ عمل میں آتی ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق: ’’بی جے پی کے پاس ہندو ووٹروں کو لام بند کرنے کے لیے تین اہم ہتھیار: ’’گائے، پاکستان اور مسلمان‘‘ ہوتے ہیں۔ ۲۰۱۴ء کے انتخابات میں ’’گائے کو تحفظ فراہم کرنا‘‘ ایک اہم ایشو تھا۔ گائے اب اس حد تک محفوظ جانور ہے، کہ شمالی بھارت میں کسانوں کے لیے درد سر بن چکی ہے۔ دودھ خشک ہونے کے بعد ان کو گھروں سے نکالا جاتا ہے، تو یہ دندناتے ہوئے بغیر کسی خوف کے کھیتوں میں گھس کر کھڑی فصلوں کو تہس نہس کرتی رہتی ہیں۔ چند برس قبل مدھیہ پردیش کے کسی شہر میں ایک ٹرک حادثہ میں کسی بزرگ خاتون کی جان چلی گئی، جو سڑک کے کنارے چہل قدمی کررہی تھی۔ ٹرک کے ڈرائیور نے بتایا کہ سڑک پر ایک گائے کو بچانے کے لیے اس نے فٹ پاتھ پر ٹرک موڑ دیا، جس سے بزرگ خاتون کی جان چلی گئی۔ اس کا استدلال تھا کہ اگر گائے کو ٹکر لگ جاتی تو وہ اور اس کا ٹرک ’ہجومی تشدد‘ کی نذر ہوجاتا۔ خاتون کی جان جانے سے کم از کم وہ اور اس کا ٹرک تو محفوظ رہا۔ گائے کا ایشو انتخابات میں کیش ہو چکا ہے، اب اس پتّے پر ووٹ کی بازی جیتنا مشکل ہے۔
بی جے پی نے۲۰۱۹ء میں ’پاکستان اور قومی سلامتی‘ کے ایشو کو لے کر بھاری منڈیٹ حاصل کرلیا۔ انتخابات سے بس چند ماہ قبل جنوری ۲۰۱۹ء میں رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق مودی حکومت خاصی غیر مقبول ہوگئی تھی اور ۵۴۳ رکنی ایوان میں بی جے پی ۲۰۰ سیٹوں کے اندر ہی سمٹ کررہ گئی تھی۔ مگر فروری میں کشمیر میں پلوامہ کے مقام پر فوجی ہلاکتوں اور پھر بالاکوٹ پر فضائیہ کے آپریشن نے تو فضا ہی بدل ڈالی اور انتخابی نتائج میں بی جے پی نے ۳۰۰کا ہندسہ عبور کرلیا۔ اب اس وقت پاکستان خود ہی اپنے گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر سیز فائر بھی کامیابی کے ساتھ رُوبہ عمل ہے۔ اب لے دے کے ایک ہی ایسا ایشو بچتا ہے، ’’وہ ہے مسلمان‘‘۔
رام مندر کے افتتاح کے لیے بھارتی وزیر اعظم کا خود موجود رہنا اور اس تقریب کو ’’صدیوں کی غلامی کا طوق اُتار پھینکنے‘‘ سے تشبیہ دینا ، واضح پیغام دے رہا تھا کہ اس بار ہدف براہِ راست مسلمان ہے۔ اس لیے رام مندر کے افتتاح کے دن کو پورے ملک میں دیوالی کی طرح منایا گیا۔بی جے پی کے لیے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ جنوبی بھارت میں اس کی دال گل نہیں رہی ہے۔ اگرچہ ریاست کرناٹک کے بغیر باقی جنوبی ریاستوں میں اس کا وجود پہلے سے ہی برائے نام تھا، مگر تلنگانہ، آندھرا پردیش اور تامل ناڈو میں وہ مقامی پارٹیوں کے کندھوں پر سوار ہوکر کسی طرح اپنا اُلو سیدھا کیا کرتی تھی۔ مگر یکے بعد دیگرے کرناٹک اور پھر تلنگانہ میں کانگریس کی جیت نے ان مقامی پارٹیوں کے غبارے سے ہوا نکال کر رکھ دی ہے اور تامل ناڈو میں اس کی اتحادی پارٹی ڈی ایم کے (DMK) بھی مضبوط پوزیشن میں ہے۔ لوک سبھا میں جنوبی بھارت کی ۱۳۲نشستیں ہیں۔
بی جے پی نے ۲۰۱۹ء میں جن۳۰۳نشستوں پرقبضہ کیا، ان میں ۳۰ سیٹیں جنوبی بھارت سے تھیں۔ ۲۲۴نشستوں پر اس کو ۵۰فی صد سے زیادہ ووٹ ملے تھے۔ حکومت سازی کے لیے لوک سبھا میں ۲۷۲سیٹیں رکھنا لازمی ہے۔ یعنی اس ہدف کو پار کرکے بی جے پی کے پاس اضافی ۳۱سیٹیں ہی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر بی جے پی شمالی بھارت کی سبھی ۲۲۴سیٹیں برقرار بھی رکھتی ہے، تو اس کو مزید ۴۸سیٹیں ساتھ ملانے کے لیے خاصی جدو جہد کرنی پڑے گی۔ پچھلی بار اس کو مہاراشٹرا، مغربی بنگال، اڑیسہ، تلنگانہ اور شمال مشرقی صوبوں سے کل ملا کر ۷۹سیٹیں حاصل ہوئی تھیں، جس نے اس کی تعداد کو تین سو سے اوپر پہنچایا دیا تھا۔
اس بار ان صوبو ں میں کانگریس کے زیر قیادت نو زائدہ ’انڈیا‘ ( یعنی انڈین نیشنل ڈیولپمنٹ انکلوسیو الائینس)اتحاد کو خاصی سیٹیں ملنے کا امکان ہے۔ بی جے پی کے اپنے اندرونی سروے کے مطابق اگر اپوزیشن متحدہ ہوکر لڑتی ہے تو ۱۰۱؍ایسی سیٹیں ہیں، جن پر دوبارہ جیتنا مشکل ہے۔ اگرچہ ابھی اپوزیشن میں سیٹوں کے بٹوارے پر خاصی لے دے ہونے کے امکانات ہیں، مگر جس طرح ابھی حال ہی میں پارلیمنٹ اراکین کو تھوک کے حساب سے معطل کر دیا گیا اور تفتیشی ادارے اپوزیشن لیڈروں کو زچ کررہے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ وہ متحدہوکر انتخابات میں آر یا پار کی لڑائی لڑیں گے۔ اس وجہ سے بی جے پی کے لیڈروں کی نیند اُڑی ہوئی ہے۔ وہ اس تاک میں ہیں کہ کوئی ایسا ایشو ہاتھ آجائے ، جس سے ۲۰۱۹ءکی طرح پورے ملک کو سحر میں گرفتار کرکے ووٹ اس کی جھولی میں گر جائیں۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی رام مندر کا افتتاح ہے۔
بابری مسجد پر جب سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تھا، تو لگتا تھا کہ اب ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان دیرینہ تنازعات ختم ہو جائیں گے۔ ۸۰کی دہائی کے آخر میں جب اس قضیہ نے ایک خون ریز رُخ اختیار کیا تھا، تو کئی مسلم لیڈروں اور علما جن میں مولانا وحید الدین خان پیش پیش تھے، مشورہ دیتے تھے، کہ ’’فرقہ وارانہ ماحول کو ختم کرنے کے لیے مسلمانوں کو اس مسجد کی قربانی دینی چاہیے‘‘۔ مگر بقول سینئر صحافی عبدالباری مسعود، ’’یہ سہانا خواب اَدھورا ہی رہ گیا۔ اب تو ہر دوسرے دن کسی نہ کسی مسجد پر دعویٰ ٹھونک کر ہندو تنظیمیں عدالتوں کا رُخ کرتی ہیں‘‘۔ اس سلسلے میں ابھی تک وارانسی کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی عید گاہ مسجد پر عدالت نے شنوائی بھی شروع کردی ہے۔ گو کہ نوّے کی دہائی میں پارلیمنٹ نے عبادت گاہوں کی موجودہ حیثیت کو ۱۹۴۷ءکی پوزیشن میں جوں کا توں رکھنے کا قانون پاس کیا تھا، تاہم اس میں صرف بابری مسجد کو باہر رکھا گیا تھا۔ مگر اب عدالتوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون گو کہ موجودہ پوزیشن کو جوں کا توں رکھنے کی بات کرتا ہے، مگر یہ مسجد کسی اور عمارت یا عبادت گا ہ کے اوپر بنی ہے، اس کا فیصلہ کرنے یا تجزیہ کرنے سے نہیں روکتا ہے۔ ویسے اس پورے قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے، اور اس پر جلدیا بدیر کوئی فیصلہ آہی جائے گا۔ لیکن جس طرح کا فیصلہ بابری مسجد کے سلسلے میں آیا، اس کے بعد عدالت سے کس طرح کی توقع کرسکتے ہیں۔
مستقبل کا مؤرخ بھی حیران و پریشان ہوگا کہ اکیسویں صدی میں بھی کسی جمہوری ملک کی عدالت کوئی ایسا فیصلہ دے سکتی ہے!وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی حکومت میں مشیر اور تجزیہ کار موہن گوروسوامی کے مطابق: ’’عدالت کا فیصلہ کچھ اس طرح کا تھا کہ کسی کے مکان پر قبضہ کرنا اور اس کو مسمار کرنا غیر قانونی اور جرم ہے، مگر اس کی جگہ پر نئے مکان کی تعمیر جائز ہے اور اس میں کوئی رکاوٹ نہیں آنی چاہیے‘‘۔۲۰۱۹ء میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے استدلال کے بجائے عقیدے کو فوقیت دے کر متنارعہ زمین، اساطیری شخصیت، ہندو دیوتا رام للاکے سپرد کرکے، وہاں پر ایک مندر بنانے کے لیے راستہ صاف کردیا تھا۔
اس فیصلے میں بھی کورٹ نے ہندو فریق کے دلائل کی دھجیاں بکھیر دی تھیں۔ ان کی دلیل بھی رَد کردی کہ مسجد کسی مندر کو توڑ کر بنائی گئی تھی۔سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے اندر مورتیاں رکھنے اور مسجد کو منہدم کرنے کے واقعات کو بھی غیر قانونی اور مجرمانہ سرگرمی قرار دیا ۔ کورٹ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہاں بابری مسجد ایستادہ تھی اور نماز کا سلسلہ منقطع ہوجانے سے مسجد کا وجود ختم نہیں ہوجاتا۔عدالت نے مسجد کے نیچے کسی تعمیر کا تو اشارہ دیا ہے، مگر یہ تعمیر ۱۶ویں صدی کے بجائے ۱۱ویں صدی کی تھی۔ یہ بھی کہا ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ نے یہ نہیں بتایا کہ مسجد کی تعمیر مندر توڑ کر کی گئی تھی۔فیصلے کا دلچسپ پہلو یہ ہے، کہ عدالت نے فیصلہ ہندوؤں کے حق میں تو دیا، مگر مسمار شدہ مسجد کی زمین، ہندو فریقین کو دینے کے بجائے ، بھگوان رام کے سپرد کرنے کے احکامات صادر کر دیئے۔ پھر یہ بھی بتایا کہ چونکہ رام للا، نابالغ ہے، اس لیے اس کی سرپرستی کے لیے حکومت کو ایک ٹرسٹ بنانے کے لیے تین ماہ کا وقفہ دے دیا۔کورٹ نے بتایا کہ چونکہ رام للا کی مورتی بابری مسجد کی جگہ پر تعمیر کیے گئے عارضی مندر میں براجمان ہے، اس لیے وہ جگہ ان کی ملکیت ہے۔ کورٹ نے رام للا کو Juristic Personیعنی معنوی و اعتباری شخص، جس پر قانون کے سبھی حقوق و فرائض کا اطلاق ہوتا ہے، قرار دیا۔
بابری مسجد کا مقدمہ ایک سیدھا سادا سا ملکیتی معاملہ تھا۔مگر جج صاحبان نے برسوں کی عرق ریزی کے بعد قانون اور آئین کی پروا کیے بغیرکہا کہ Law of Limitations کا اطلاق ہندو دیوی،یوتائوں پر نہیں ہوتا ہے اور نہ ان جگہوں پر ہوتا ہے جہاں ان کی نشانیاں ہوں۔ دوسرے لفظوں میں کسی بھی جگہ پر کوئی شخص کوئی مورتی، چاہے وہ پتھرکا ٹکڑا یا کسی درخت کی شاخ یا پتا ہی کیوں نہ ہو، رکھ کر اس پر مالکانہ حقوق جتا سکتا ہے، چاہے اس جگہ کا مالک وہاں صدیوں سے ہی مقیم کیوں نہ ہو۔ اس فیصلے کا اعتبار اور بھی مضحکہ خیز ہو جاتا ہے، جب جج صاحبان نے یہ تسلیم کیا کہ ’’بھگوان رام کا جنم اسی مقام پر ہوا جہاں بابری مسجدکا منبر واقع تھا‘‘، اور یہ بھی کہا کہ ان کے مطابق: ’’رام آٹھ لاکھ سال قبل مسیح میں اس جگہ پر موجود تھے‘‘۔ مگر دوسری طرف دنیا بھر کے تاریخ دان اور آثار قدیمہ کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جنوبی ایشیا میں اتنی پرانی آبادی کے کوئی آثارابھی تک نہیں ملے ہیں۔
بھارتی سپریم کورٹ آزاد اور خودمختار ہی سہی، مگر جب اس طرح کامعاملہ یہاں پر پہنچتا ہے تو انصاف کی دیوی حقیقت میں آنکھوں پر پٹی باندھ لیتی ہے۔ اگر اس کو عدالتی بحث کا موضوع بنایا جاتا ہے، تو بہت سے مندروںاوردیگر عمارتوں کو توڑنا پڑے گا۔بھارت کے طول و عرض میں لاتعداد مندر تو بدھ مت اور جین مت کی عبادت گاہوں کو توڑ کر بنائے گئے ہیں۔ آٹھویں صدی میں آدی شنکر آچاریہ نے جب ہندو مت کے احیا کی خاطر ملک کے طول و عرض کا دورہ کرکے بدھ بھکشوؤںکے ساتھ مکالمہ کیا، تو بدھ عبادت گاہوں کو مندروں میں تبدیل کرایا۔ اشوکا [م:۲۳۲ ق م] اور کنشکا [پیدائش:۷۸ء]کے عہد حکومت میں تو بھارت کی کثیر آبادی بدھ مت اختیار کر چکی تھی، تو پھر آج بھارت میں بد ھ آبادی محض ۸۵ لاکھ یعنی کل آبادی کا اعشاریہ سات فی صد ہی کیوں ہے؟
بھارت میں ایک خطرناک نظیر پیش کر دی گئی ہے کہ مسلم دور کی کسی بھی عمارت کو لے کر تنازع کھڑا کر دیا جائے پھر محکمہ آثار قدیمہ سے کھدائی کرا کے اس کے نیچے کوئی ہندو اسٹرکچر بتا دیا جائے اور پھر اسے کھود ڈالا جائے۔ ہندی کے ایک معروف صحافی و سماجی کارکن شتیلا سنگھ نے اپنی ایک تصنیف ایودھیا۔رام جنم بھومی بابری مسجد وواد کا سچ میں انکشاف کیا ہے کہ کس طرح تین عشرے قبل ان کی موجودگی میں پرم ہنس رام چندر داس کی قیادت میں فریقین نے ایک فارمولے پر اتفاق کیا تھا۔ ’ویشوا ہندو پریشد‘ (VHP)کے سربراہ اشوک سنگھل جب اس فارمولے پر مہر لگانے کے لیے ہندو انتہا پسندو ں کی مربی تنظیم آرایس ایس کے سربراہ بالا صاحب دیورس کے پاس پہنچے ، تو ان کو خوب پھٹکار لگائی گئی۔ دیورس کا کہنا تھا ’’ رام مندر تو ملک میں بہت ہیں، اس لیے اس کی فکر (یعنی رام مندر کی تعمیر) چھوڑ کر اس کے ذریعے ہندو ؤں میں آرہی بیداری کا فائدہ اٹھانا ہے‘‘۔ یعنی اگر معاملہ سلجھ جاتا ہے تو فرقہ وارانہ سیاست کی آگ سرد ہوجائے گی اور اقتدار تک پہنچنے کا راستہ بند ہوجائے گا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق: بابری مسجدکا سانحہ اس خطے کی جدید تاریخ کے چھ بڑے واقعات میں سے ایک ہے۔ پہلا ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی، دوسرا ۱۹۲۰ء میں گاندھی کی قیادت میں کانگریس کا نیا آئین اور سوراج کا مطالبہ، تیسرا ۱۹۴۷ء میں برصغیر کی تقسیم اور آزادی، چوتھا ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کا وجود میں آنا‘ اور پانچواں ۱۹۸۴ء میں سکھوں کی مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹمپل پرحملہ اور چھٹا ۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کا انہدام‘ جو دراصل اعتماد کا انہدام تھا۔
بابری مسجد کے قضیے کا لاہورکی مسجد شہید گنج کیس کے ساتھ موازنہ کرنا بے جا نہ ہو گا۔ یہ کیس اور اس پر پاکستانی سوسائٹی کا رویہ ’ہندوستانی سیکولرازم‘ او ر اس کی نام نہاد لبرل اقدار پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔ ۱۷۶۲ء میں لاہور پر سکھوں کے قبضے کے بعد اس مسجد پر ان کے فوجیوں نے ڈیرہ ڈالا اور بعد میں اس کوگوردوارہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔ ۱۸۴۹ء میں جب پنجاب برطانوی عمل داری میں شامل ہوا تو مسلمانوں نے اس مسجد کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔ ’پریوی کونسل‘ نے Law of Limitation کو بنیاد بنا کر اس کا فیصلہ سکھوں کے حق میں کیا۔ ۱۸۵۰ء میں مسجد کے متولی نور احمد نے عدالت میں فریاد کی اور وہ ۱۸۸۰ء تک قانون کے مختلف دروازوں پر دستک دیتے رہے، مگر ہر بار Law of Limitation کا حوالہ دے کر عدالتیں ان کی اپیلوں کو خارج کرتی رہیں۔ ۱۹۳۵ء میں انگریز گورنر نے اس عمارت کو محکمہ آثار قدیمہ کے سپرد کرنے کی تجویز دی ‘ جس پر ابھی رائے عامہ ہموار ہو ہی رہی تھی کہ سکھوں نے رات کے اندھیرے میں مسجد کی عمارت ڈھا دی۔ جب بادشاہی مسجد لاہور سے ناراض مسلمانوں نے ایک پُرجوش جلوس نکالا تو کئی افراد لاہور کی سڑکوں پر گولیوں سے شہید کردیئے گئے۔ پورے لاہور میں کرفیو نافذکرنا پڑا۔ عدالتی فیصلے کو رَد کرنے کے لیے مسلم لیگ کے اراکین نے پنجاب اسمبلی میں قانون سازی کے ذریعے یہ جگہ مسلمانوں کے سپرد کرنے کی تجویز پیش کی۔ معروف قانون دان اور مؤرخ اے جی نورانی کے بقول قائد اعظم محمد علی جناح نے اسے رد کر دیا ۔ قائد اعظم کے شدید ناقد ہونے کے باوجود نورانی کا کہناہے کہ انھوں نے اس قضیے کو کبھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیںکیا، بلکہ قانون کی عمل داری کا پاس کیا۔ پاکستان بننے کے ۷۰ سال بعد بھی یہ گوردوارہ لنڈا بازار میں آب و تاب کے ساتھ کھڑا ہے، جب کہ شاید ہی اب کوئی سکھ اسے عبادت کے لیے استعمال کرتا ہو۔ لاہور میں جس طرح اس مسئلے نے جذباتی رُخ اختیار کیا تھا، آزادی کے بعداندیشہ تھاکہ اس کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، مگر کسی پاکستانی سیاستدان یا مذہبی شخصیت نے عدالت کا فیصلہ رد کرنے کی کوشش نہ کی۔
اس کے برعکس بھارتی عدلیہ کی جانب داری کا عالم یہ ہے کہ ایک سابق چیف جسٹس جے ایس ورما نے ’ہندوتوا‘ کو مذہبی علامت کے بجائے بھارتی کلچرکی علامت اور ایک نظریۂ زندگی بتایا ۔ انھوں نے ہندو انتہا پسندوںکے گورو ویر ساورکر یا گولوالکر کی تصنیفات کے بجائے مولانا وحیدالدین خان کی تحریروںپر اعتماد اور انحصار کر کے ہندو انتہا پسندی کو ایک جواز فراہم کردیا۔ ۱۹۹۲ء میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس وینکٹ چلیا کے طریق کار نے بھی مسجد کی مسماری کی راہ ہموارکی۔ وہ مسجد کو بچانے اور آئین و قانون کی عمل داری کو یقینی بنانے کے بجائے کار سیوکوں (مسجد کو شہید کرنے والے) کی صحت کے بارے میں زیادہ فکرمند تھے۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ ۱۹۹۸ء میں بی جے پی حکومت نے انھیں ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیشن کا سربراہ مقرر کردیا۔
نورانی نے اپنی کتابDestruction of Babri Masjid:A National Dishonour میں کئی حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کانگریس کے اندرا گاندھی کے دور اقتدارمیں ہی بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے کے لیے ’ویشوا ہندو پریشد‘ کے ساتھ ایک ڈیل ہوئی تھی۔اگرچہ پریشد نے اندرا گاندھی کی ہلاکت کے بعد اپنی تحریک روک دی، مگر راجیو گاندھی نے اس ڈیل کو پھر زندہ کیا،تاہم اس سے پہلے وہ مسلمانوں پر کوئی احسان کرنا چاہتے تھے۔ اس کے لیے ان کے حواریوں نے ایک مسلم مطلقہ خاتون شاہ بانو کا قضیہ کھڑا کرکے پارلیمنٹ سے ایک قانون پاس کروایا کہ مسلم پرسنل لا میں عدالت کوئی ترمیم نہیں کر سکتی۔مصنف کے بقول انھوں نے راجیو گاندھی کو مشورہ دیا تھا کہ اس قضیہ کو کھینچنے کا کو ئی فائدہ نہیں ہے، اور اس کو اینگلو محمڈن قانون کے بجائے شرعی قانون کے مطابق حل کیا جاسکتا ہے ،مگر وہ مسلمانوںکو سیاسی طور پر بے وقوف بنانے پر تلے ہوئے تھے، تاکہ پریشد کے ساتھ ڈیل کو آگے بڑھایا جاسکے۔ اور یہی ہوا۔
کانگریس پارٹی کے علاوہ دیگر سیکولر جماعتوں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی، جن کی سانسیں ہی مسلمانوں کے دم سے ٹکی ہیں، کا رویہ بھی افسوس ناک رہا ہے۔ ان دونوں پارٹیوں نے،جو پچھلے ۲۰برسوں سے اتر پردیش میں حکومت کر رہی ہیں ،بابری مسجد کی مسماری کے ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے میں کبھی کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔حتیٰ کہ ایک معمولی نوٹیفکیشن تک کا اجرا نہیں کرسکیں، جس سے خصوصی عدالت میں ان افراد کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا۔
یہ ہے بھارت میں سیکولرزم کا جنازہ اور ہندو نسل پرستی کا جادو!
کشمیریوں کے خصائل اور کردار پر بات کرتے ہوئے پنڈت نہرو نے کہا تھا: کشمیری بہت ذہین اور بہت سی صلاحیتوں کے حامل ہونے کے باوجود شرپسند نہیں ہیں، بلکہ یہ لوگ نرم خو اور آرام دہ طرزِ زندگی کے خواہش مند ہیں۔ جنھیں چند ایک چیزوں جیسے ایمان دار انتظامیہ اور سستی و مناسب غذا کے سوا دوسری چیزوں سے سرو کار نہیں، اور اگر انھیں یہ چیزیں فراہم کر دی جائیں تو یہ لوگ آپ کے مد مقابل ہرگز کھڑے نہیں ہوں گے۔ کہتے ہیں نہرو نے شیخ محمد عبداللہ سے یہ بھی کہا تھا: بھارت کشمیریوں کو سونے کی زنجیروں میں جکڑ لے گا یہاں تک کہ یہ لوگ آزادی اور حقِ خود ارادیت جیسے الفاظ ہی بھول جائیں گے۔
اگرچہ نہرو کی ان دونوں مبینہ باتوں سے مکمل طور پر اتفاق نہیں کیا جاسکتا لیکن اس سے بہرحال ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نہرو کیونکر مسئلہ کشمیر کو مذاکرات کے بہانے طول دینا چاہتے تھے، تاکہ وہ وقت حاصل کر کے کشمیریوں کو سونے کی زنجیروں میں جکڑ سکیں۔ ۱۹۵۲ء میں پنڈت نہرو نے ایک خط کے ذریعے شیخ عبداللہ سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے ذریعے متنازعہ الحاق کی توثیق کروا کر اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں، کیونکہ اس مسئلے کی وجہ سے ہی بھارت کے اپنے پڑوسی پاکستان کے ساتھ تعلقات کشیدہ تھے جو عالمی سطح پر بھارت کے لیے سبکی کا باعث بن رہے تھے۔ مگر شیخ عبداللہ کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ وہ دہلی کے ساتھ ’تیتر بٹیر والا‘ کھیل کھیل رہے تھے۔ چنانچہ جب وہ دلی جاتے تو بھارت کے حق میں بیان داغ دیتے، اور جب کشمیر میں ہوتے تو الحاق ہند کی مخالفت میں بیان دیتے۔اس پر مستزاد یہ کہ جب شیخ عبداللہ کے نہرو کے ساتھ اچھے تعلقات ہوتے تو اس وقت وہ خود کو ہندوستانی کہتے، لیکن جونہی نہرو کے ساتھ ان کی ذرا سی اَن بن ہو جاتی، تو وہ کشمیر کی آزادی کی بات کرنے لگ جاتے۔ شیخ عبداللہ کا یہ رویہ نہرو اور سردار پٹیل کو کسی بھی صورت میں قابلِ قبول نہیں تھا۔ ویسے بھی انھیں جو کام ان سے لینا تھا، وہ پہلے ہی لے چکے تھے۔ ان کے نزدیک اب شیخ عبداللّٰہ کی وہ اہمیت نہیں رہی تھی جو ۱۹۴۷ء تک تھی۔
اب پیمانے بدل چکے تھے اور بھارتی حکومت کشمیر میں نئے چہرے تلاش کر رہی تھی، جو ان کے منصوبوں کے عین مطابق کام کرسکیں۔ اس کام کے لیے کانگریس کی نظرِ انتخاب شیخ عبداللّٰہ کے قریبی ساتھی بخشی غلام محمد پر جا پڑی، چنانچہ ۱۹۵۳ء میں نہرو نے شیخ عبداللّٰہ کو کرسی سے اتار کر جیل میں ڈال دیا اور بخشی غلام محمد کو کشمیر کا وزیر اعظم بنا دیا۔ بخشی غلام محمد نے ’نیا کشمیر‘ کا نعرہ لگا کر کشمیر کی معاشی ترقی اور خوش حالی کا بیڑا اٹھایا اور حکومت کرنے لگے۔ اقتدار میں آتے ہی بخشی غلام محمد نے کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے ذریعے متنازعہ الحاق کی توثیق کرا دی اور اپنا سارا زور کشمیری قوم کو بھارتی یونین میں ضم کرنے میں لگا دیا۔ یہ انضمام صرف زمینی اور سیاسی نہ تھا بلکہ معاشی انضمام بھی تھا۔ اس مقصد کی خاطر بخشی حکومت کے لیے نئی دہلی حکومت نے اپنے خزانے کھول دئیے۔
شیخ عبداللّٰہ کے دور حکومت میں کشمیر کے ہوم سیکرٹری اور پھر ہوم منسٹر رہنے والے ڈی پی دھر، پنڈت نہرو کے خاص آدمی تھے۔ انھوں نے بقولِ شیخ عبداللّٰہ نہرو کو یہ مشورہ دیا کہ کشمیریوں کو سیاست بالکل بھی نہیں آتی، زیادہ سے زیادہ اگر انھیں کسی چیز کی فکر ہے تو وہ ہے مناسب اور دلکش کھانا۔ ڈی پی دھر کے بقول کشمیریوں کے دل تک پہنچنے سے پہلے ان کے معدے تک رسائی حاصل کرنی ہوگی۔ رفتہ رفتہ جب یہ لوگ بہترین کھانا اور مفت سہولیات حاصل کر کے آسان طرزِزندگی کے عادی ہو جائیں گے، تو لازماً آزادی کو بھول جائیں گے۔ دھر کے الفاظ میں They could be won over gastronomically ۔ یہ حکمت عملی برطانیہ کی چین میں اپنائی جانے والی ’افیون حکمت عملی‘ کے طرز پر تھی۔
بخشی غلام محمد نے اسی حکمت عملی کے تحت لوگوں کو غلامی کا خوگر بنانا شروع کیا۔ انھوں نے لوگوں کو سرکاری نوکریاں دینا شروع کیں اور ہر کس و ناکس کے لیے حکمنامے جاری کرنے شروع کیے۔ اس طرح رفتہ رفتہ کشمیری قوم کو ایک خاص Comfort Zone (گوشۂ عافیت) میں دھکیلا گیا۔ اس حکمت عملی کو Politics of Life کہا جاتا ہے، جس میں مقبوضہ علاقے کا باقی دنیا سے رشتہ کاٹ کر مکمل طور پر قابض ملک کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ فلسطین میں اسرائیل اور کشمیر میں بھارت اسی حکمت عملی کے ذریعے لوگوں کے عزم کو کمزور کر رہے ہیں۔ مشہور ہے کہ جب کوئی شخص بخشی غلام محمد کے پاس نوکری مانگنے جاتا تو بخشی صاحب وہیں بیٹھے بیٹھے ماچس کے ڈبے پر یا کاغذ کی پھٹی ہوئی سلپ پر اسے نوکری کا پروانہ تھما دیتے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ جو شخص بخشی کے دور میں بھی بھوکا رہا، وہ زندگی بھر پھر کبھی پیٹ بھر کھانا نہیں کھا سکتا۔اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بخشی دورِ حکومت میں پیسے اور سہولیات کی کتنی ریل پیل رہی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ معاشی آسودگی کے اعتبار سے بخشی دور حکومت کو کشمیر کا منفرد دور قرار دیا جاتا ہے۔
تاہم اس دور کے پیچھے دو وجوہ کارفرما تھیں: پہلی یہ کہ کشمیر میں تعمیر و ترقی کو فروغ دے کر اول تو دنیا کے سامنے یہ دلیل پیش کی جائے کہ کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ہے اور لوگ بھارت کے ساتھ الحاق کر کے خوش ہیں۔ دوم یہ کہ کشمیری قوم کو کمفرٹ زون میں دھکیل کر رام کیا جائے، تاکہ انھیں جذباتی طور پر بھارت میں ضم کیا جا سکے۔ یہ کشمیر میں استعماریت (Colonialism) کی طرف پہلا قدم تھا جس کا بی جے پی ’آبادکار استعماریت‘ (Settler Colonialism ) کے ذریعے اب کلائمکس چاہتی ہے۔
بخشی دور حکومت کے بعد ۱۹۶۲ء میں بھارت چین، ۱۹۶۵ء میں پاک بھارت اور ۱۹۷۱ء میں پھر دوسری پاک بھارت جنگ ہوئی۔ اسی دوران سقوطِ ڈھاکہ کا دل خراش واقعہ پیش آگیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ ذوالفقار بھٹو اور اندرا گاندھی کے درمیان ’شملہ معاہدہ‘ بھی ہوا۔ ان تمام تاریخی واقعات بالخصوص سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ’شملہ معاہدہ‘ کا مسئلہ کشمیر پر براہِ راست اثر پڑا۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد شیخ عبداللہ نے اندرا گاندھی کے ساتھ جو معاہدہ کیا، اسے ’اندرا عبداللہ ایکارڈ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ شیخ عبداللہ نے ۲۲ سال کی جدوجہد کو ’۲۲ سالہ صحرا نوردی اور سیاسی آوارہ گردی‘ کا نام دے کر اپنی طرف سے مسئلہ کشمیر کی بساط ہی لپیٹ دی۔
اس کے بعد ۱۹۸۴ء میں شہید مقبول بٹ کو تختۂ دار پر چڑھایا گیا۔ تحریکِ آزادئ کشمیر میں فیصلہ کن موڑ اس وقت آیا، جب ۱۹۸۸ء کے انتخابات میں ریکارڈ توڑ دھاندلیوں کے جواب میں کشمیری نوجوانوں نے جمہوری طریقوں سے مایوس ہو کر مسلح مزاحمت کا راستہ اختیار کرلیا۔ اس طرح کشمیر کی تاریخ میں عسکری تحریک کا آغاز ہوا اور کشمیر کی تحریک آزادی اپنے دوسرے دور میں داخل ہوگئی۔
اس وقت اگر آپ کشمیر کی آبادی کو تقسیم کریں تو آپ کا سابقہ چار نسلوں کے لوگوں سے پڑے گا۔ پہلی نسل وہ ہے، جس نے یا تو ڈوگرہ دور حکومت کے خلاف مزاحمت کی یا وہ اسی مزاحمت کے دوران پیدا ہوئے۔ یہی وہ نسل ہے جس نے تحریکِ آزادیٔ کشمیر کی بنیاد رکھی۔ بدقسمتی سے شیخ عبداللّٰہ اس نسل کے قائد ِکارواں تھے۔ یہ نسل تحریک آزادی کا اختتام، آزادی کی صبح پر نہیں کرپائی۔ شیخ عبداللّٰہ کی ایک غلطی نے کشمیری قوم کو آزادی کی منزل سے مزید سو سال دور کر دیا۔ بقول اقبال:
لیکن نگاہِ نُکتہ بیں، دیکھے زبوں بختی مری
’’ رفتم کہ خار از پاکشم ، محمل نہاں شد از نظر
یک لحظہ غافل گشتم و صد سالہ راہم دَور شد‘‘
دوسری نسل پہلی نسل کے لوگوں کی اولاد ہے، جو۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۵ء کے درمیانی عرصے میں پیدا ہوئی۔ یہی وہ نسل ہے جس نے ۱۹۸۸ء میں مسلح مزاحمت کا راستہ اختیار کیا تھا ۔ تیسری نسل جو۱۹۹۰ء اور ۲۰۰۴ء کے درمیان یعنی مسلح مزاحمتی تحریک کے عین شباب میں پیدا ہوئی۔ اور چوتھی نسل وہ ہے جو۲۰۰۴ء کے بعد پیدا ہوئی جب مشرف کا چار نکاتی فارمولا گفتگو کا موضوع بنا ہوا تھا۔ جہاں تک پہلی نسل کے لوگوں کا تعلق ہے، یہ لوگ اس وقت اپنی عمر کے آخری پڑاؤ میں ہیں، لہٰذا ان سے بھارت کو کسی قسم کا خطرہ نہیں ہے۔ دوسری نسل جس نے مسلح مزاحمتی تحریک میں حصہ لیا تھا، اس وقت تقریباً پچاس اور ساٹھ سال کی عمر کے درمیانی حصے میں ہیں۔ ان لوگوں نے مسلح مزاحمتی تحریک کے دوران بھارت کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کا بذاتِ خود مشاہدہ کیا ہے، یہ لوگ بھی اب بھارت کے لیے اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہیں۔
رہی آخری دو نسلیں جن میں ۱۹۹۰ءکی مسلح مزاحمتی تحریک میں پیدا ہونے والی نسل نے۲۰۰۸ء، ۲۰۱۰ء اور ۲۰۱۶ء کی تحریک کو جنم دیا، جب کہ آخری نسل جو ۲۰۰۴ء کے بعد پیدا ہوئی، ان تحریکات کے دور میں کم عمری کی وجہ سے حالات سے اتنی آگاہ نہیں ہے۔ البتہ مستقبل میں کشمیر کی تحریک آزادی کیا رُخ اختیار کرتی ہے؟ اس کا انحصار انھیں آخری دو نسلوں پر ہے۔ یہ بات بھارت کے منصوبہ ساز ادارے بھی بخوبی جانتے ہیں اور اسی وجہ سے تیسری نسل کے جوانوں کو ٹارگٹ کر کے یا تو ہیرو بنا کر چوتھی نسل کے سامنے پیش کیا جاتا ہے یا پھر انھیں آہستہ آہستہ منظر سے ہٹایا جاتا ہے۔ اس نسل کو رام کرنے کے لیے بھارت Stick and Carrot والی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
سب سے پہلے ’Carrot‘ یعنی ’نرم پالیسی‘ اختیار کرکے سکولوں اور کالجوں میں ان کی ذہن سازی کی جاتی ہے تاکہ یہ لوگ کسی بھی طرح سے نئی دہلی کے ’قومی دھارے‘ میں شامل ہو جائیں، اور جو لوگ اس حکمت عملی میں نہیں پھنستے انھیں ’سٹک‘ کے ذریعے مجبور کیا جاتا ہے۔ ’سٹک‘ کے معاملے میں صرف ڈرانا دھمکانا نہیں بلکہ دیگر بہت سے ذرائع ہیں ، جیسے جسمانی طور پر ٹارچر کرنا، ذہنی پریشان کرنا، قید و بند کی صعوبتیں، پی ایس اے ایکٹ لگا کر کریئر کو تباہ کرنا اور نشے کی لت میں مبتلا کروانا جیسے ہتھکنڈے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت جموں و کشمیر میں تقریباً ۱۳لاکھ ۵۰ہزار افراد نشے کی لت میں مبتلا ہیں، جن میں تقریباً ایک لاکھ خواتین بھی شامل ہیں،جب کہ دس سال قبل پوری ریاست میں یہ تعداد ایک یا ڈیڑھ لاکھ سے سے زیادہ نہیں تھی۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حالات کس سمت میں لے جائے جا رہے ہیں۔
نئی نسل کی ذہن سازی کے لیے کبھی بھارتی فلم انڈسٹری کا سہارا لیا جاتا ہے، کبھی کے اے ایس اور آئی اے ایس افسران کو ترقیاں دے کر نوجوان نسل کو ان کی دیکھادیکھی کشمیر کی بھارت نواز بیوروکریسی کی طرف مائل کیا جاتا ہے۔جان بوجھ کر طے شدہ منصوبے کے تحت کشمیر میں پہلے بے روزگاری کو بڑھاوا دیا جاتا ہے، پھر سروس سلیکشن بورڈ (ایس ایس بی) کے ذریعے سرکاری ملازمتوں کے لیے نوٹس نکالے جاتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آسامیاں پُر کرنے کے لیے پہلی فہرست میں آزادی پسند ملازمین کو ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگاکر نوکریوں سے برخواست کر دیا جاتا ہے اور پھر ان کی جگہ نئی آسامیوں کو پُر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح نوجوان نسل کو ٹارگٹ کر کے لیفٹیننٹ گورنر کی طرف سے خصوصی انعامات دلا کر انھیں ’یوتھ آئکون‘ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ صحافیوں کی ایک فوج اس مقصد کے لیے تیار کی گئی ہے، جو عوام کو روز مرہ کے جھمیلوں میں اُلجھائے رکھنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔
چوتھی نسل جو اس وقت شعوری طور پر خام ہے، تعلیمی اداروں میں مخصوص تاریخ پڑھا کر ان کی اسلامی روح فنا کی جا رہی ہے۔ بھارتی حکومت کی طرف سے ہر سال تقریباً پانچ ہزار کشمیری طلبہ و طالبات کو’پرائم منسٹرز اسپیشل اسکالرشپ اسکیم‘ (PMSSS) کے تحت وظائف فراہم کیے جاتے ہیں، جس کے پیچھے صرف یہ مقصد کار فرما ہے کہ کشمیر کی نوجوان نسل جب بھارتی ریاستوں میں مخلوط تعلیمی نظام میں پروان چڑھے گی، تو لازماً بھارت کے مشرکانہ ماحول کو اپنے اندر جذب کرلے گی۔ اس طرح سے بوائے فرینڈ، گرل فرینڈ کلچر کو فروغ ملے گا اور ان کی غیرت و حمیت فنا ہوجائے گی۔ پہلے ہی کشمیر میں نوجوان ’غمِ روزگار‘ کے مارے ہوئے ہیں، اس پر جب ’غم عشق‘ کا بھی اضافہ ہوگا تو اس کا نتیجہ ڈپریشن اور قنوطیت کی صورت میں نکلے گا۔ اور یوں نئی نسل اپنے اصلی مقصد سے دُور ہو جائے گی۔
بھارتی حکومت نے تقریباً تین سو سے زائد NGO's کو کشمیری طلبہ و طالبات کے لیے خصوصی پیکیجز مختص کرنے کی ہدایت کی ہوئی ہے اور ہر سال ان پیکیجز میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ یہ NGO's کبھی ’اُڑان‘ کے نام پر تو کبھی ’کھیلو انڈیا‘ پروگرامات کے تحت کشمیری طلبہ و طالبات کو نوکریوں کے بہانے باہر کی ریاستوں میں لے جاتے ہیں۔ اس کام کے لیے کشمیر کی خوب صورت دوشیزاؤں کو اوّلین ترجیح دی جاتی ہے اور اخبارات میں با ضابطہ طور پر اشتہارات دیئے جاتے ہیں۔ جب یہ لڑکیاں باہر کی ریاستوں میں پہنچتی ہیں تو وہاں آر ایس ایس کا ایک مخصوص گروہ انھیں اپنے جال میں پھانسنے کے لیے پہلے سے ہی تیار ہوتا ہے۔ بھارت میں اس گروہ کو’بھگوا لوّ ٹریپ‘ (Bhagva Love Trap) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جس کا مقصد بھولی بھالی مسلم بچیوں بالخصوص کشمیری لڑکیوں کو اپنی محبت کے جال میں پھنسا کر ان کا مذہب تبدیل کروانا ہوتا ہے۔ آرایس ایس اس کے لیے ان کی خصوصی معاونت کرتی ہے۔
کچھ سال پہلے تک کشمیر میں یہ قانون تھا کہ اگر کوئی کشمیری خاتون کسی غیر ریاستی باشندے سے شادی کر لیتی تو اسے وراثت میں کسی قسم کا حصّہ نہیں مل سکتا تھا، لیکن بھارت نے اس قانون کو ختم کرکے ردی کی ٹوکری میں ڈالتے ہوئے آر ایس ایس کے بھگوا اسکواڈ کو کھلی چھٹی دے دی ہے۔ جموں صوبہ کی ہزاروں ہندو لڑکیاں ایسی ہیں، جو بھارت کی دیگر ریاستوں میں شادیاں کر چکی ہیں اور اس طرح سے ان کے شوہروں کو بھی کشمیر میں مالکانہ حقوق حاصل ہوگئے ہیں۔ یہ مسئلہ ابھی تک تو اتنا خطرناک نہیں تھا، لیکن اگست ۲۰۱۹ء میں چونکہ دفعہ ۳۷۰ کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا ہے، اس وجہ سے صورت حال خوفناک ہوتی جارہی ہے۔ دفعہ ۳۷۰ کے ہوتے ہوئے کوئی بھی غیر ریاستی باشندہ کشمیر میں نہ تو زمین کے مالکانہ حقوق حاصل کرسکتا تھا اور نہ ووٹ ڈال سکتا تھا، لیکن اس کے خاتمے کے ساتھ ہی یہ شرط ختم ہو گئی ہے۔ اب بھارت کی کسی بھی ریاست کا باشندہ کشمیر میں زمین خرید بھی سکتا ہے اور ووٹ بھی ڈال سکتا ہے۔
آر ایس ایس اسی لیے دستورِ ہند بنتے ہی دفعہ ۳۷۰ کو ختم کروانا چاہتی تھی تاکہ کشمیر میں ہندوؤں کو بسا کر مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جاسکے، اور یہ امکان بھی دم توڑ جائے کہ اگر کبھی حریت پسند قیادت اور عالمی دباؤ کے تحت کشمیر میں ریفرنڈم کروانا پڑے تو اس وقت ہندو آبادی چونکہ اکثریت میں ہوگی، اس لیے ان کا ووٹ بھارت کے حق میں پڑے گا اور یوں کشمیری قوم کی غلامی کی رات مزید طویل ہو جائے گی۔
حالات کی شدت بتا رہی ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس اس مسئلے کو اپنی مرضی کے مطابق انجام تک پہنچانا چاہتے ہیں اور کشمیر کو ہندو سٹیٹ بنانے کے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے جا رہے ہیں۔ پنڈتوں کو الگ کالونیوں میں بسانے کے بعد اب اسرائیلی طرز پر فوجی کالونیوں (Sainik Colonies) بنائی جا رہی ہیں۔ پیر پنجال صوبہ کے مسلمانوں کو دبانے کے لیے وہاں VDC یعنی ’ولیج ڈیفنس‘ کمیٹیاں پہلے سے ہی موجود تھیں، اب انھیں مزید مضبوط کیا جا رہا ہے۔ کل کو اگر VDC's کے یہ مسلح غنڈے پیر پنجال میں مسلمانوں کا قتلِ عام شروع کردیتے ہیں تو کون ہے جو انھیں روک سکتا ہے؟ جموں صوبہ جہاں پہلے سے ہی ہندوؤں کی اکثریت ہے، VDC's کا ہونا کس بات کی طرف اشارہ کررہا ہے؟ ابھی گذشتہ مہینے ہی فوج نے پونچھ ضلع میں تیرہ نوجوانوں پر ٹارچر کیا، جن میں تین نوجوان زیر تشدد ہی شہید ہوگئے۔
سوشل میڈیا پر کشمیری مسلمانوں کی جاسوسی کی جا رہی ہے کہ کون کیا کر رہا ہے، کس سے رابطے میں ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ جس جس پر حکومت کو آزادی پسند ہونے کا شک ہوتا ہے اسے زینتِ زنداں بنا دیا جاتا ہے۔ ایک طرف ہندوؤں کو مضبوط کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف کشمیر میں موجود آزادی پسند تنظیموں خواہ وہ اسلامی ہوں یا قوم پرست، سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جا رہا ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کشمیر میں کسی بھی قسم کی آزادی پسند تحریک کو برداشت نہیں کرنا چاہتی ہے۔ پہلے جماعت اسلامی پر پابندی عائد کر دی گئی، پھر جے کے ایل ایف کو ملک مخالف قرار دے کر غیر قانونی قرار دیا گیا اور اب مسلم لیگ اور تحریکِ حریت پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ گوتم نولکھا کے بقول بھارت جب کشمیریوں پر جمہوری طریقے بند کر دے گا، تو لازماً اس کا نتیجہ عسکری تحریک کی صورت میں نکلے گا۔
اس وقت کشمیر میں تقریباً آٹھ سے نو لاکھ بھارتی فوج موجود ہے۔ اس کے علاوہ انتخابات اور امرناتھ یاترا کی سیکورٹی کے نام پر الگ سے فوج منگوائی جاتی ہے، آخر اتنی فوج کا کشمیر جیسی وادی میں کیا کام؟ جب ایک چھوٹی سی وادی میں آٹھ نو لاکھ فوج موجود ہو، ولیج ڈیفنس کمیٹی کے نام پر مسلح جتھے ہوں، آر ایس ایس کے غنڈوں کی کثیر تعداد میں نفری ہو، وہاں کس قسم کے خوف کا ماحول ہوگا؟ اس کا اندازہ آپ فلسطین کی صورتِ حال دیکھ کر لگا سکتے ہیں۔
اسی خوف تلے کشمیر میں نفسیاتی امراض بالخصوص خواتین میں روز بہ روز بڑھ رہے ہیں۔ Poly Cyst Ovarian Syndrome اس وقت وادئ کشمیر میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ حرکت قلب بند (Cardiac Arrest ) ہونے کے کیسوں میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ ان حالات کی یلغار میں اگر وادی کو بذریعہ ٹرین بھارت کی دیگر ریاستوں سے جوڑا جا رہا ہے تو سمجھ جانا چاہیے کہ آر ایس ایس اور بھارت کے منصوبہ ساز ادارے کیا کرنے جا رہے ہیں۔ آخر بھارت اتنا بیوقوف بھی نہیں ہے کہ جو کشمیری مسلمان ان سے آزادی مانگتے ہیں اور ان پر پتھر برساتے ہیں، ان کے لیے وہ ۲۸ہزار کروڑ کی لاگت سے ٹرین کی سہولت فراہم کرے۔
بھارتی ریاستوں کے لوگ اس وجہ سے بھی کشمیر نہیں آتے تھے کہ بس، ویگن یا کار کے ذریعے کشمیر کا سفر دشوار گزار ہے، لیکن ٹرین کی آمد کے ساتھ یہ مشکل بھی ختم ہو جائے گی اور غیرریاستی لوگ مزدوروں اور سیاحوں کے نام پر سیلاب کی مانند کشمیر کا رخ کریں گے۔ نہرو نے سچ کہا تھا کہ بھارت کشمیریوں کو سونے کی زنجیروں میں جکڑ دے گا، اور زنجیر چاہے سونے کی ہو یا لوہے کی، ہرصورت میں یہ غلامی کی علامت ہوتی ہے۔ ٹرین سروس بھی کشمیریوں کے لیے غلامی کی زنجیر سے کم نہیں ہے۔ اس سروس کے بحال ہوتے ہی بھارت کی مختلف ریاستوں سے لوگوں کو لا لا کر وادی میں بسایا جائے گا اور انھیں ولیج ڈیفنس کمیٹیوں کے نام پر مسلح کیا جائے گا، پھر جب بھارتی فوج، آر ایس ایس کے غنڈے اور یہ ہندو جتھے کشمیری مسلمانوں کا خون بہا رہے ہوں گے تو انھیں فسادات کا نام دے کر دبا دیا جائے گا۔ ۱۹۴۷ء میں جموں میں کیا جانے والا قتلِ عام، اس کی زندہ مثال ہے، جب تقریباً پانچ لاکھ مسلمانوں کا نسلی صفایا کیا گیا اور پھر اسے تاریخ سے غائب کر کے کسی کو بھنک بھی نہیں پڑنے دی گئی۔ آج کشمیر کی نئی نسل کو جموں قتلِ عام کے بارے میں بالکل بھی نہیں پتہ کہ وہاں کیا ہوا تھا۔ بالکل اس طرح جیسے ایک سال کے دوران مکتی باہنی اور بھارتی مداخلت کاروں کے ہاتھوں مشرقی پاکستان میں غیربنگالیوں کا ہولناک قتل عام کروا کے اس کا تذکرہ غائب کرادیا گیا۔
ان دنوں کشمیر میں انتخابات کا بگل بجایا جا رہا ہے اور کشمیر کو پھر سے ریاست کا درجہ دینے کی باتیں ہو رہی ہیں۔کشمیر کی بھارت نواز سیاسی جماعتیں اپنی بازی گری کے کرتب دکھانے میدان میں اُتری ہوئی ہیں۔ اس بار ان کا منشور ہے: ’دفعہ ۳۷۰ کو دوبارہ واپس لاکر رہیں گے‘۔ اب اس نام پر کشمیری عوام کو فریب دیا جا رہا ہے کہ اگر کشمیری عوام انھیں ووٹ دیتے ہیں تو وہ دفعہ۳۷۰ کو واپس لا کر رہیں گے، جب کہ نریندر مودی نے دو ٹوک الفاظ میں یہ بات کہی کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت دفعہ ۳۷۰ کو واپس نہیں لا سکتی۔ انتخابات میں چاہے نیشنل کانفرنس جیتے، پی ڈی پی جیتے یا پھر الطاف بخاری کی پارٹی جیت جائے۔ یا اگر یہ ساری جماعتیں متحد ہوکر بھی جیت جائیں، تب بھی انھیں دلی کے سامنے ناک رگڑنے پر مجبور کیا جائے گا۔ لہٰذا، کشمیر کے موجودہ انتخابات اس طرح سے بے حیثیت ہو کر رہ جاتے ہیں۔
اب رہا سوال نئی دہلی میں کون سی حکومت بنتی ہے؟ اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ اگر مرکز میں کانگریس کی حکومت آتی ہے تو اس سے بھارت کے مسلمانوں کو کچھ آسانی تو مل سکتی ہے، لیکن کشمیریوں کے لیے کسی قسم کی راحت (relaxation )نہیں ہوسکتی۔ بی جے پی ہو یا کانگریس ، کشمیر میں ’ہندوتوا‘ کلائمکس پہ لے جانا دونوں صورتوں میں طے ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ بی جے پی یہ کام کھل کے اور جلدی کرنا چاہتی ہے، جب کہ کانگریس آہستگی سے اور سیکولرازم کا لبادہ اوڑھ کر کرنا چاہتی ہے۔
۸ جولائی ۲۰۱۶ء کو بھارت کی ریاستی دہشت گردی نے بُرہان مظفروانی کو شہید کردیا اور اس کا نام ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا۔میں اُس زمانے میں نئی دہلی میں پاکستان کا ہائی کمشنر تھا۔ بُرہان وانی کی شہادت کے بعد تقریباً چار ماہ تک مقبوضہ جموں وکشمیر میں مسلسل احتجاج ہوتا رہا،اور بھارتی سیکورٹی فورسز نے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا تاکہ آزادی کی آواز کو دبایا جاسکے۔ اس مقصد کے لیے پیلٹ گنز کا بھی بے دریغ استعمال کیا اور بے شمار معصوم کشمیری بچوں، عورتوں اور شہریوں کو بینائی سے محروم کردیا گیا۔
’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘ ___ یہ نعرہ سیّد علی شاہ گیلانیؒ نے دیا ، جسے مقبوضہ کشمیر کے ہرگھر میں محسوس کیا جاسکتا ہے اور اس کی آواز سنی جاسکتی ہے۔ بلاشبہہ یہ آواز آتی رہے گی، اس لیے کہ کشمیریوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ہم نے بھارت کے غاصبانہ قبضے سے جان چھڑانی ہے اور جب تک آزادی نہیں مل جاتی، ہم اپنی یہ جدوجہد جاری رکھیں گے۔ اکثر لوگ مجھ سے سوال پوچھتے ہیں کہ کشمیریوں کی جدوجہد تو واضح ہے کہ وہ کہاں کھڑے ہیں، لیکن ہمیں بتایئے کہ کشمیر کاز کے حوالے سے پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ پھر یہ سوال بھی پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان میں کس حکومت نے مسئلہ کشمیر کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا، اور کس حکومت، کس قیادت یا کس سیاست دان نے کشمیر کاز کو بہتر طریقے سے آگے بڑھایا؟
آپ کے سامنے کشمیر کے حوالے سے میں پاکستانی سفارتی محاذ کی نسبت سے چندحقائق بیان کروں گا، جو عام طور پر لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ ہم یہ دیکھیں گے کہ آج جہاں کھڑے ہیں، یہ معاملہ کیسے شروع ہوا؟ اور کس طرح ہماری حکومتیں اپنے اصولی موقف سے بہت پیچھے ہٹ گئی ہیں؟
پہلی سفارتی پسپائی: ۶جنوری ۲۰۰۴ء کو اسلام آباد میں سارک سربراہی کانفرنس ہونا تھی۔ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے بھارت کے اُس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی پاکستان آئے تھے اور پاکستان میں حکمران صدر جنرل پرویز مشرف سے ان کی ملاقات ہوئی تھی۔ اس کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔ اس اعلامیے میں جو الفاظ استعمال کیے گئے، اس نے کشمیرکاز کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔ اس اعلامیے میں صدرجنرل پرویزمشرف نے بھارتی وزیراعظم کو یہ یقین دلایا:
Pakistan will not permit in territory under Pakistan's control to be used to support terrorism in any manner.
یعنی پاکستان اپنے زیرانتظام آزاد جموں و کشمیر مع گلگت و بلتستان کو بھارت کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گا۔
مطلب یہ کہ دانستہ یا نادانستہ طور پر پاکستان نے اس بات کو تسلیم کرلیا کہ یہاں سے لوگ جاکر مقبوضہ جموں و کشمیر میں ’دہشت گردی‘ کرتے ہیں۔ یہ پہلی بار ہوا کہ یہاں سے حقِ خود ارادیت کی آئینی جدوجہد کو بھارت کی شکایت کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ آج تک بھارت اس اعلامیے کو استعمال کرتا ہے اور اس نے بڑی چالاکی سے جموں و کشمیر کی جدوجہد کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑ دیا۔ جس کے نتیجے میں بعدازاں امریکا نے بھی ۲۰۱۷ء میں حزب المجاہدین جوکہ مقامی تنظیم تھی، اسے دہشت گرد تنظیم قراردے کر پابندی لگادی۔ چنانچہ اس اعلامیے سے سفارتی سطح پر پسپائی کا سفر شروع ہوا۔
دوسری سفارتی پسپائی: صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنے زمانۂ اقتدار میں پس پردہ سفارت کاری کا آغاز کیا اور اس میں چار نکاتی فارمولا پیش کیا۔ بلاشبہہ سفارت کاری میں لینا دینا ہوتا ہے اور گفتگو کرتے ہوئے بعض جگہ دوطرفہ مفاہمت بھی کرنی پڑتی ہے، لیکن جو غلطی صدر مشرف سے ہوئی وہ یہ کہ انھوں نے پبلک میں آکر یہ بتایا کہ ہم اپنے اصولی موقف سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ اصولی موقف یہ تھا کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے تحت جموں و کشمیر میں استصواب رائے کروایا جائے۔ لیکن جب آپ عوامی سطح پر اصولی موقف سے پیچھے ہٹتے ہیں تو سفارت کاری میں آپ کے پاس لینے دینے کے لیے کچھ نہیں باقی بچتا، کیونکہ جو کچھ لینا دینا تھا وہ مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی آپ نے دے دیا،تو اب مذاکرات کس بات پر کیے جاسکتے ہیں؟
یہ اتنی بڑی غلطی تھی کہ اس کی وجہ سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں حُریت کانفرنس دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ سیّد علی شاہ گیلانیؒ نے بجاطور پر اس فارمولا کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح تو ہم پاکستان کے اصولی موقف سے پیچھے ہٹ جائیں گے۔ لیکن حُریت کانفرنس کا دوسرا حصہ جو میرواعظ عمر فاروق کی قیادت میں تھا اس نے یہ تسلیم کرلیا۔ بعد میں ہم نے دیکھا کہ جیسے ہی ۶جنوری ۲۰۰۴ء کو بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی پاکستان سے واپس گئے تو ۲۲جنوری ۲۰۰۴ء کو ان کی میرواعظ صاحب کی حُریت کانفرنس کی قیادت سے ملاقات ہوئی۔
اس طرح صدر پرویز مشرف نے اپنی ایک بات سے کئی صدمے پہنچا ڈالے۔ ایک تو وہ پاکستان کے اصولی موقف سے عوامی سطح پر پیچھے ہٹ گئے اور مذاکرات کے لیے کچھ باقی نہ بچا۔ دوسرایہ کہ حُریت کانفرنس تقسیم ہوگئی۔ مجھے معلوم ہے کہ ان دونوں حصوں کو قریب لانے کے لیے دہلی میں ہمیں کتنی محنت کرنا پڑی۔بُرہان مظفروانی کی شہادت کے بعد ہمیں کچھ کامیابی ملی اور حُریت کانفرنس کی متحدہ قیادت سامنے آئی، جس میں سیّد علی گیلانی ، یاسین ملک اور میرواعظ عمرفاروق شامل تھے۔
گویا کہ صدر پرویز مشرف نے ایک طرف کشمیر کاز کو دہشت گردی کے ساتھ ملا دیا اور دوسرا مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے چارنکاتی فارمولا کو عوامی سطح پر زیربحث لائے جس نے پاکستان کے اصولی موقف کو بڑا شدید نقصان پہنچایا۔ سفارتی سطح پر ہم ایک صحیح پوزیشن میں بھارت کے ساتھ بات چیت کرسکتے تھے، لیکن بدقسمتی سے ہم نے اپنی پوزیشن خود ہی کمزور کرڈالی۔ اس طرح پس پردہ سفارت کاری میں جنرل صاحب کی مہم جوئی کے نتیجے میں تو مسئلۂ کشمیر پر کم بات ہوئی اور زیادہ تر بات دہشت گردی پر ہوتی رہی۔
مسئلہ کشمیر ایک جائز (legitimate ) اور حل طلب مسئلہ ہے، اس کو دہشت گردی کے ساتھ نہیں جوڑا جاسکتا۔ لیکن جنرل مشرف کی نامناسب سفارت کاری اور بیان بازی نے بنیادی غلطی کردی اور پھر اسی دوران مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان جنگ بندی لائن پر انڈیا کو باڑ لگانے کی بھی اجازت دے دی۔
تیسری سفارتی پسپائی: اس کے بعد ۱۶ جولائی ۲۰۰۹ء کو پاکستان اور بھارت کی طرف سے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا، جب کہ پاکستان میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی اور یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھے۔ ’غیر جانب دارانہ تنظیم‘ (NAM)کی سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لیے وہ شرم الشیخ، مصر گئے، جہاں بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ سے اُن کی ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کے بعد ایک اعلامیہ جاری ہوا۔ ماضی میں پاکستان اور انڈیا کے جو اعلامیے جاری ہوتے رہے، مثال کے طور پر ۲۰۰۴ء کے اعلامیے کو لے لیجیے، جو صدر پرویز مشرف اور وزیراعظم واجپائی کی ملاقات کے بعد جاری ہوا۔ اس میں یہ کہا گیا:
The two leaders are confident that the resumption of composit dialogue will lead to peacful settelment of all bilateral issues including Jammu and Kashmir.
اس مشترکہ اعلامیے میں الفاظ ’بہ شمول جموں اور کشمیر‘ (including Jammu and Kashmir) کو ایک خاص اہمیت حاصل تھی۔ ہم نے ہمیشہ یہی بات کہی تھی کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل مسئلہ تو جموں و کشمیر ہے، اور باقی سب جزوی مسائل ہیں۔ ایک بار جموں و کشمیر کا تنازع حل ہوجائے تو پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی ایسے بنیادی اختلافات نہیں ہیں، جو دُور نہ ہوسکیں بلکہ وہ سب اختلافات آسانی کے ساتھ حل ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ ۲۷؍اکتوبر ۱۹۴۷ء سے جموں و کشمیر ہی بنیادی مسئلہ تھا، سیاچن ہو یا سرکریک، یہ تو سب بعد کی پیداوار ہیں۔
جموں و کشمیر کو ہم ہمیشہ مشترکہ اعلامیے میں مرکزی اہمیت دیتے رہے ہیں، لیکن ۱۶جولائی ۲۰۰۷ء کو شرم الشیخ میں جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا، پہلی مرتبہ اس کی سفارتی زبان تبدیل کی گئی:
Singh said that India was ready to discuss all issues with Pakistan including all outstanding issues.
گویا اس مشترکہ اعلامیے میں بھارتی وزیراعظم یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ ’’بھارت تمام مسائل پر بات چیت کے لیے تیار ہے‘‘۔مطلب یہ ہوا کہ اپنی جگہ جموں و کشمیر کی اہمیت ختم کرکے اسے آپ نے باقی مسائل کے ساتھ لاکر کھڑا کردیا، جیساکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ثقافتی یا تجارتی اور دیگر مسائل رہے ہیں۔
بدقسمتی سے یہ پہلی بار ہوا کہ پاکستان کے مشترکہ اعلامیہ میں کشمیر کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اس سے پہلے ۲۸مئی ۱۹۹۸ء کو جب پاکستان اور بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے تھے تو سلامتی کونسل نے ایک قرارداد ۱۱۷۲، ۶جون ۱۹۹۸ء میں منظور کی۔ اس کے پیرا نمبر ۵ میں بڑے واضح طور پر یہ کہا گیا:
UN Security Council encourages both Pakistan and India to find mutally acceptable solution that address root causes of those tentions including Kashmir.
یعنی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بھی اس بات کا احساس اور ادراک ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی تنازع جموں و کشمیر ہی ہے۔مگر یہ کیونکر ہوا کہ ہم نے شرم الشیخ میں جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا اس میں جموں و کشمیر کا ہی ذکر نہیں کیا؟
چوتھی سفارتی پسپائی: ۲۰۱۵ء میں روس کے شہر’ اوفا‘ میں شنگھائی آرگنائزیشن کی سربراہی کانفرنس ہوئی، اس وقت پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف تھے۔ کانفرنس کے دوران بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ان کی ملاقات ہوتی ہے۔ ۱۰جولائی ۲۰۱۵ء کو یہ مشترکہ اعلامیہ دونوں وزرائے اعظم کی ملاقات کے بعد جاری ہوا۔ اس میں بھی ویسا ہی معاملہ ہوا، جو شرم الشیخ میں ہوا تھا۔ اس اعلامیہ میں بھی کشمیر کا ذکر حذف کردیا گیا۔
بنیادی طور پر ہم نے بہت کمزور مذاکرات کیے اور یک طرفہ طور پر ’دہشت گردی‘ کے مسئلے کو ہم نے خاص اہمیت دی۔ بلاشبہہ دہشت گردی کے مسئلے پر پاکستان، بھارت کے ساتھ کوئی معذرت خواہانہ رویہ نہیں رکھتا،اس مسئلے پر بھارت کے ساتھ ہمارے بہت زیادہ خدشات ہیں، جو وہ پاکستان میں کر رہا ہے۔ یہاں مَیں بات یہ کر رہا ہوں کہ مشترکہ اعلامیہ میں ایک توازن ہونا چاہیے، مگر وہ توازن یہاں بگڑ گیا۔ یہاں پر کشمیر کا کہیں ذکر نہیں کیا اور all outstanding issues لکھ دیا گیا، جو شرم الشیخ اعلامیہ میں لکھا گیا تھا۔
ڈپلومیسی میں جب ایک بات مثال بن جاتی ہے تو پھر اسے بار بار پیش کیا جاتا ہے۔ اگر ہم نے شرم الشیخ اعلامیہ میں یہ سفارتی زبان اختیار نہ کی ہوتی تو شاید اوفا میں بھی استعمال نہ ہوتی۔ چونکہ شرم الشیخ میں ہم نے بھارت کو موقع دے دیا تھا تو اس لیے بھارت نے اسی بنیادپر کہا کہ آپ نے پہلے بھی اس سفارتی زبان سے اتفاق کیا تھا، تو اب آپ اس سے کیوں پیچھے ہٹ رہے ہیں؟ لیکن، یہ ماننا ہمارے لیے لازم نہیں تھا، اور اگر کوشش کرتے تو ہم اس مشترکہ اعلامیہ میں جموں و کشمیر کو شامل کرسکتے تھے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم کوئی اعلامیہ جاری ہی نہ کرتے۔ اس طرح شرم الشیخ کی مثال اوفا میں دُہرائی گئی۔
اس کے بجائے اگر ہم بی جے پی کے منشور کو سامنے رکھتے کہ مودی حکومت کے مقبوضہ جموں و کشمیر میں کیا عزائم ہیں؟ اور ذرا سخت موقف اختیار کرتے۔ اس وقت ایسی کوئی صورتِ حال بھی نہیں تھی کہ پاکستان کوئی مجبور تھا کہ ہم نے ہرصورت میں بھارت کے ساتھ مذاکرات کرنے تھے۔ سبق یہ ہے کہ جب آپ اپنے اصولی موقف سے ایک بار پیچھے ہٹ جاتے ہیں تو پھر اس کی بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔
اوفا کی میٹنگ کے بعد ۲۰۱۵ء میں مجھے اسلام آباد بلایا گیا اور وزیراعظم نواز شریف صاحب نے کہا کہ اسلام آباد میں افغانستان کے معاملات پر ’ہارٹ آف ایشیا کانفرنس‘ ہونے والی ہے۔ آپ کو یہ ذمہ داری دی جاتی ہے کہ انڈین حکومت کو قائل کریں کہ اس کانفرنس میں سشما سوراج تشریف لائیں۔
پاکستان کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر سرتاج عزیز صاحب نے اسی سال اگست ۲۰۱۵ء میں اپنے ہم منصب سے ملنے کے لیے بھارت جانا تھا، لیکن وہ نہیں جاسکے تھے کیونکہ بھارت کی حکومت نے حُریت کانفرنس کے رہنمائوں سے ان کی ملاقات کروانے سے انکار کردیا تھا۔ ہمارا مطالبہ یہی تھا کہ اگر سرتاج عزیز صاحب آئیں گے تو وہ کشمیری رہنمائوں سے ملاقات ضرور کریں گے۔ چونکہ بھارت اس تجویز کو ماننے پر تیار نہ ہوا تو وہ دورہ منسوخ کر دیا گیا۔ اس لیے ایک لحاظ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تنائو پیدا ہوگیا تھا۔ ان حالات میں مجھے یہ کہا گیا کہ اس بات کو یقینی بنائوں کہ ۹-۱۰دسمبر ۲۰۱۵ء کو افغانستان پر ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں سشما سوراج شرکت کریں۔ بہرحال میں نے کوشش کی اور بھارت کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ بھارتی وزیرخارجہ پاکستان جائیں گی۔ لیکن اس سے پہلے انھوں نے ایک شرط رکھی، جو ہم نے مان لی کہ ’’دونوں ممالک کے نیشنل سیکورٹی افسران کی ایک پس پردہ ملاقات بنکاک، تھائی لینڈ میں ہوگی‘‘۔ ۶دسمبر ۲۰۱۵ء کو یہ ملاقات ہوئی اور اس میں دہشت گردی کے مسائل پر بات چیت ہوئی اور خاص طور پر ممبئی حملہ زیربحث آیا اور بعد میں اس ملاقات کی خبر بھی دے دی گئی۔
سشما سوراج اس کانفرنس میں شرکت کے لیے ۹دسمبر کو پاکستان آئیں اور اس کانفرنس کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔ اوفا کے بعد یہ تیسرا اعلامیہ تھا، جس میںہم نے باقاعدہ یہاں تک کہہ دیا کہ:
Under the dialogue including peace and security, CBM, Jammu & Kashmir, Siyachen, Sircreek, Wular Barrage, economic and commercial cooperation, counter terrorism, narcotics control, humantarian issues, people to people exchange and religious terrorism....
گویا کہ ۸ستمبرکو ہونے والے ’جامع مذاکرات‘ (Composite dialogue) کو یہاں لاکر جمع کردیا گیا۔ اب تو واضح ہوگیا کشمیر کی حیثیت وہی ہے جو عوامی سطح پر لوگوں کے میل جول کی ہے یا پھر باہم تجارتی سرگرمی کی ہے۔ جب آپ ایک مسئلے کی اہمیت کم (downsize )کردیں گے تو پھر بھارت کیسے سنجیدہ لے سکتا ہے یا دُنیا کیسے کشمیر کے معاملے کو سنجیدہ لے سکتی ہے؟ جب یہ مذاکرات ہورہے تھے تو میں بھی ان میٹنگوں میں شریک تھا۔ اب یہ مذاکرات کس طرح سے ہورہے تھے، یہ الگ کہانی ہے۔
دفتر خارجہ میں سرتاج عزیز صاحب سے سشما سوراج کی کافی طویل ملاقات ہوئی جو پانچ گھنٹے پر پھیل گئی۔ اس ملاقات کے دوران تُو تُو مَیں مَیں بھی ہوئی اور تنائو بھی پیدا ہوا۔ آخرکار بھارت نے ہمیں جو draft دیا تھا ہم نے من و عن اسی کو تسلیم کرکے اسے بھارت کی خدمت میں پیش کر دیا:’ ’ٹھیک ہے جو آپ کہتے ہیں لکھ دیجیے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں‘‘۔ یہ تیسرا اعلامیہ ہے جس میں سفارتی سطح پر مسئلہ کشمیر پر پسپائی اختیار کی گئی۔
پہلا اعلامیہ جنوری ۲۰۰۴ء، دوسرا اعلامیہ جولائی ۲۰۰۹ء کی شرم الشیخ کا ہے، تیسرا اوفا میں جولائی ۲۰۱۵ء کا اور پھر چوتھا دسمبر ۲۰۱۵ء کا یہ اعلامیہ ہے۔ آپ کو بالکل ایک تسلسل نظر آرہا ہے کہ پرویز مشرف کے زمانے سے لے کر ۲۰۱۵ء میں نواز شریف وزارتِ عظمیٰ تک کس طرح کشمیر پر ایک لحاظ سے سمجھوتے کیے گئے۔ کچھ باتیں جو پبلک میں کہنے کی نہیں ہوتیں، حکمرانوں نے وہ بھی کہہ ڈالیں، جس کی وجہ سے بھارت نے بھی پاکستان کو سنجیدہ نہیں لیا۔ دُنیا بھلا کشمیر کے معاملے کو کیا سنجیدہ لیتی، جب کہ ہمارے مقتدر حضرات خود کشمیر کے معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے تھے۔ اس طرح ایک تسلسل کے ساتھ مختلف حکومتوں نے کشمیر سے کھلواڑ کیا جو کہ نہیں کرنا چاہیے۔ سفارت کاری میں ایسی ایسی غلطیاں کیں جو نہیں ہونی چاہییں تھیں۔
پانچویں سفارتی پسپائی: اب آجاتے ہیں ۵؍اگست ۲۰۱۹ء پر۔ بھارت نے کشمیر پر جو کیا یہ ہمارے لیے صدمے کی بات تو تھی، مگر حیران کن بات نہیں تھی۔ یہ نظر آرہا تھا کہ کیا کچھ ہونے جارہا ہے، لیکن اس سے صرفِ نظر کیا گیا، مگر ایسا کس بنیاد پر کیا؟ کچھ معلوم نہیں اور پھر اس کے بعد ہم نے کیا کیا؟
ہم بھارت سے اپنے تعلقات کو نچلی سطح پر لے آئے اور اپنا ہائی کمشنر واپس بلالیا۔ ہم نے بھارت کے ساتھ اپنی تجارت بند کرلی۔ تین ماہ کے لیے فضائی حدود کو بھارت کے لیے بند کردیا۔ اس کے بعدہم نے اور بھی اقدامات کیے، مگر جن کا تسلسل برقرار نہیں رہ سکا۔ وزیراعظم عمران خان نے یہ کہا تھا کہ ہم کشمیر سے یکجہتی کے لیے ہرجمعہ کی نماز کے بعد کھڑے ہوں گے، لیکن اسے جاری نہ رکھ سکے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ ساری چیزیں ختم ہوگئیں۔
ایک طرف یہ کہا: ’’بھارت کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں ہوسکتے، جب تک بھارت ۴؍اگست ۲۰۱۹ء کی صورتِ حال کو بحال نہیں کرتا۔ اس نے آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵-اے کو ختم کیا ہے۔ وہ ان اقدامات کو واپس لے، تب ہم بھارت کے ساتھ مذاکرات کریں گے‘‘۔ لیکن ہوا کیا؟ بھارت کے ساتھ بیک چینل پر بات چیت جاری رہی اور اس کے نتیجے میں ہم سب کے لیے وہ ایک بہت بڑا دھچکا تھا، جب ۲۵فروری ۲۰۲۱ء کو بھارت کے ساتھ ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا کہ ملٹری ڈائرکٹر جنرل آپریشن کے درمیان لائن آف کنٹرول پر فائربندی معاہدہ کرتے ہیں۔ یاد رہے نومبر ۲۰۰۳ء سے فائربندی پر ہماری بھارت کے ساتھ ایک رسمی معاملہ فہمی تھی، لیکن فائربندی برائے نام ہی تھی اور لائن آف کنٹرول پر فائرنگ ہوتی رہتی تھی اور بھارت کی جانب سے اس کی بہت زیادہ خلاف ورزیاں ہوئیں۔
یہاں پر میں آپ کو ذرا ماضی میں لے جاتا ہوں۔ ۲۰۱۵ء میں وزیراعظم نواز شریف نے جب اقوام متحدہ سے خطاب میں ۲۱ستمبر ۲۰۱۵ء کو مسئلۂ کشمیر کے حوالے سے متعدد تجاویز دیتے ہوئے یہ کہا کہ کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر ہماری فائر بندی کی formal understanding ہے اور ہم اسے فارمل معاہدے میں تبدیل کردیں۔
ان کی تقریر کے بعد بھارت کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اجیت دول سے مَیں ملنے گیا کہ معلوم کروں کہ بھارت کا کیا ردعمل ہے؟ لیکن انھوں نے اس کا کوئی حوصلہ افزا جواب نہیں دیا اور کہا کہ’’ چھوڑیئے یہ وقت نہیں ہے ان باتوں کا‘‘۔ وہی بھارت جو ۲۰۱۵ء میں سیزفائر انڈرسٹینڈنگ کو ایک معاہدے کی شکل دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھا، وہ ۲۰۲۱ء میں ہمارے ساتھ یہ معاہدہ کرتا ہے۔ ہم نے وہ معاہدہ کیوں کیا؟ مجھے اس کی ابھی تک سمجھ نہیں آئی۔ اگرچہ وہ ایک مناسب معاہدہ تھا لیکن اس کا وقت بہت غلط تھا۔ ۲۰۱۹ء کے بعد یہ معاہدہ کرنا بنتا ہی نہیں تھا۔ پھر اسی طرح ’کرتارپور کوریڈور‘ بنانا بھی نہیں بنتا تھا۔
ایک طرف یہ پوزیشن لی کہ ہم بھارت سے کوئی معاہدہ نہیں کریں گے اور دوسری طرف بیک چینل پر بھارت سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ اس سے دُنیا کو معلوم ہوگیا کہ یہ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ۔ اس لیے ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد دُنیا سے جس ردعمل کی توقع کی جارہی تھی، وہ نہیں ہوا۔ اس کی بنیادی وجہ وہ سب اقدامات ہیں جوگذشتہ سولہ برسوں سے کیے جارہے تھے۔
پھر ایک اور دلچسپ بات ہوئی کہ نومبر ۲۰۱۹ء میں شنگھائی کارپوریشنز کے نیشنل ایڈوائزرز کی میٹنگ تھی۔ اس موقعے پر ہماری جانب سے پاکستان کا ایک نیا سیاسی نقشہ جاری کیا گیا۔ اس نقشے میں جہاں مقبوضہ جموں و کشمیر، گلگت، بلتستان اور لداخ کو ایک متنازعہ خطے کے طور پر پیش کیا، جو کرنا بھی چاہیے تھا، لیکن اس کے ساتھ جوناگڑھ کو بھی ایک متنازع علاقہ کے طور پر پیش کردیا۔ جوناگڑھ گجرات (انڈیا) کا علاقہ ہے۔ ۱۹۴۷ء میں اس وقت کے نواب مسلمان تھے، اور انھوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کردیا ، جب کہ ریاست کی اکثریت ہندو آبادی پر مشتمل تھی۔ بعد میں بھارت کی فوجوں نے وہاں قبضہ کیا اور پھر ریفرنڈم کروایا۔ چونکہ اکثریت ہندوئوں کی تھی، انھوں نے کہا کہ ہم بھارت کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اس وقت جوناگڑھ کا پنڈورا باکس کیوں کھول دیا گیا؟ لیکن سوال یہ ہے کہ ان حالات میں اس سوال کو اُٹھانے کی کیا اہمیت ہے؟ آپ کیوں جموں و کشمیر پر اپنے موقف کو کمزور کر رہے ہیں؟
کشمیر کے اصولی موقف سے پسپائی کے یہ مختلف مراحل ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم کسی ایک حکومت یا کسی ایک شخصیت کو الزام نہیں دے سکتے۔ یہ ایک تسلسل ہے جو کہ جاری تھا اور جاری ہے۔ ہم نے مسلسل سفارتی غلطیوں پر غلطیاں کیوں کیں؟ کوئی اقدام کرنے سے پہلے ہم نے سوچ بچار کیوں نہیں کی؟
سفارت کاری ایک بڑا مشکل فن ہے۔ جو اسے معمولی کھیل سمجھتے ہیں اور بس چند دوست احباب کی باہم رواداری کے معاملے کے طور پر لیتے ہیں، وہ صرف اپنے ساتھ ہی نہیں، اپنی ریاست کے ساتھ بھی مذاق کرتے ہیں۔ خاص طور پر ایسے تنازعات کہ جن سے لوگوں کی براہِ راست جانیں وابستہ ہوتی ہیں۔ کشمیر کوئی علاقائی تنازع تو نہیں ہے۔ یہ ایک کروڑ ۲۰ لاکھ کشمیریوں کی آزادی کا معاملہ ہے۔ آپ کس طرح اس کو اتنا ہلکا لے سکتے ہیں؟
یہ بات ضرور معلوم کرنی چاہیے کہ اگر صدر جنرل پرویز مشرف نے چار نکاتی فارمولا دیا تو اس کے پیچھے کیا حکمت عملی کارفرما تھی؟ کیا دفتر خارجہ کے اس وقت کے لوگ صدر مشرف کو مشورہ نہیں دے سکتے تھے؟ اگر دیا تو کس نے اور کس بنیاد پر اسے وزن نہ دیا؟ اور کیا اس کے اصل فریق کشمیری قیادت کو اعتماد میں لیا گیا؟
آگے کیا کرنا ہے؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے۔ امرواقعہ یہ ہے کہ ہمارے مسائل کا تعلق اندرونِ ملک کے حالات سے ہے۔ جب تک ہمارے ملکی حالات بہتر نہیں ہوں گے، جب تک ہم اچھی حکمرانی کا مظاہرہ نہیں کرتے، کرپشن کو ختم نہیں کریں گے، اپنی معیشت کو ٹھیک نہیں کریں گے، سیاسی عدم استحکام سے جان نہیں چھڑائیں گے، اس وقت تک ہم سفارتی میدان میں کامیابیاں حاصل نہیں کرسکیں گے۔
یہ دُعا اور اُمید ہے کہ ان شاء اللہ کشمیریوں کو ان کا حقِ خود ارادیت ضرور ملے گا۔ تحریکوں میں اُتارچڑھائو آتا رہتا ہے، لیکن اگر ایمان پختہ ہو اور عزم راسخ ہو تو کوئی طاقت کامیابی سے روک نہیں سکتی۔ بقول اقبال ؎
پُر دَم ہے اگر تُو تو نہیں خطرئہ اُفتاد
شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
۵ جنوری پاکستان کے لیے خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ تعجب ہے کہ ملک میں حکومت اور عوامی سطح پر اس مسئلے کو اُٹھانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی، جو سخت تشویش ناک ہے۔ پاکستان کی حکومت کو ملک اورعالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو مؤثرانداز میں اُٹھانے کا فوری اہتمام کرنا چاہیے۔ (ادارہ)
۵جنوری کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، جس کا تعلق حقِ خود ارادیت، امن، انصاف اور کشمیریوں کے انسانی وقار سے ہے، جس سے وہ گذشتہ سات عشروں سے محروم چلے آرہےہیں۔ ہرسال ۵جنوری کو عالمی برادری، خصوصاً اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو یاد دہانی کروائی جاتی ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانب دارانہ استصواب رائے کے ذریعے کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کو یقینی بنانے کے وعدے اورذمہ داریوں کو پورا کرے۔ کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (UNSC) کی قراردادوں میں اسے اس کا پابند کیا گیا ہے۔ حقِ خود ارادیت ایک بنیادی انسانی حق ہے، اور اس کا مطالبہ کرنا کوئی غیرقانونی عمل نہیں ہے کیونکہ دنیا کے بہت سے ممالک نے جدوجہد کر کے اسے حاصل کیا ہے۔ لیکن یہ انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ بھارت کئی برسوں سے کشمیریوں کو اُن کے اس بنیادی اور جائز حق سے محروم کر رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی قرارداد ۵ جنوری ۱۹۴۹ء کو اقوام متحدہ کے کمیشن برائے ہندستان اور پاکستان (UNCIP) کے اجلاس میں منظور کی گئی تھی (دستاویز۱۱۹۶/۵)۔ یہ قراردادیں بالترتیب ۲۳دسمبر اور ۲۵ دسمبر۱۹۴۸ء کو ہندستان اور پاکستان کی حکومتوں سے موصول ہوئی تھیں۔ ۱۳؍ اگست ۱۹۴۸ء کو کمیشن کے تحت منظور کی گئی قرارداد میں درج ذیل اُصولوں کو ضمیمہ کی حیثیت حاصل ہے:
۱- ریاست جموں و کشمیر کے ہندستان یا پاکستان کے ساتھ الحاق کے سوال کا فیصلہ آزادانہ اور غیر جانب دارانہ رائے شماری کے جمہوری طریقے سے کیا جائے گا۔
۲- استصواب رائے کا انعقاد اس وقت کیا جائے گا، جب کمیشن کو معلوم ہوگا کہ کمیشن کی ۱۳؍اگست ۱۹۴۸ء کی قرارداد کے حصہ اوّل اور دوم میں طے شدہ جنگ بندی اور عارضی جنگ بندی پر عمل درآمد کیا جارہا ہے اور رائے شماری کے انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔
۳- (الف) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، کمیشن کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے، استصواب رائے کے لیے ایک افسر (Plebiscite Administrator) کو نامزد کرے گی، جو بین الاقوامی حیثیت کی حامل ایک اعلیٰ شخصیت ہو گی۔ انھیں حکومت جموں و کشمیر کی طرف سے باضابطہ طور پر اس عہدے پر تعینات کیا جائے گا۔
(ب) رائے شماری کا منتظم ریاست جموں و کشمیر سے وہ اختیارات حاصل کرے گا، جو وہ استصواب رائے کے انعقاد اور غیر جانب داری کو یقینی بنانے کے لیے ضروری سمجھتا ہے۔
(ج) رائے شماری کے منتظم کو ضروری عملے یا معاونین اور مبصرین کے تقرر کا اختیار حاصل ہوگا۔
۵جنوری ۱۹۴۹ء کو UNCIP نے اس قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کیا۔ کمیشن کے ارکان میں ارجنٹائن ، بیلجیم، کولمبیا، چیکوسلواکیہ اور امریکا شامل تھے۔
کشمیری سات عشروں سے خون کے آنسو روتے ہوئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی تعمیل کے منتظر ہیں، لیکن اس کے برعکس ان کے جائز حق کے حصول کی جدوجہد میں انھیں ہراساں اور قتل کیا جاتا ہے۔ کسی بھی قانونی کارروائی سے استثنا کے ساتھ ' بھارتی ' افواج کو عطا کردہ صوابدیدی اختیارات، بھارت کی جان بوجھ کر اختیار کردہ ریاستی پالیسی کا حصہ ہیں۔ اس کے نتیجے میں ظالمانہ گرفتاریاں، نظربندی، ماورائے عدالت قتل، معصوم شہریوں کے قتل کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ انسانیت کے خلاف ان جرائم کا اصل محرک کشمیری عوام کو بنیادی حقِ خودارادیت کی جدوجہد ترک کرنے پر مجبور کرنا ہے اور اس نسل کشی کو روکنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جارہے۔
مظلوم کشمیریوں کو انصاف فراہم کرنے کے لیے کوئی عدالت نہیں ہے کیونکہ جموں و کشمیر میں عدلیہ بھی شدید دباؤ میں کام کر رہی ہے۔ معتبر ذرائع سے پتہ چلتا ہے کہ جج خوف کے عالم میں، سیکورٹی فورسز کے اقدامات کو چیلنج کرنے سے گریزاں ہیں۔ (سپریم کورٹ کا مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے مودی حکومت کے فیصلے کو برقرار رکھنا اس کا واضح ثبوت ہے)۔
مظلوم کشمیری اپنی سرزمین پر نیلے ہیلمٹ والے افسران کو جو ہندستان اور پاکستان میں اقوام متحدہ کے ملٹری آبزرور گروپ (UNMOGIP) کے ایک حصے کے طور پر کام کررہے ہیں، اس اُمید کے ساتھ دیکھتے ہیں کہ اُن کا مقدمہ زندہ ہے اور ایک دن وہ آزادی کا سورج دیکھیں گے۔ مگر اس سمت میں شاید ہی کوئی پیش رفت ہوئی ہو بلکہ حالات روز بروز خراب ہوتے جارہے ہیں۔ بھارت ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کا احترام نہ کرنے پر بضد اور عمل درآمد کے لیے تیا ر نہیں۔ کنٹرول لائن پر، فوج میں ملازمت کے دوران، اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کے ساتھ کام کرتے ہوئے، میں نے ذاتی طور پر دیکھا تھا کہ اقوام متحدہ کے پرچم بردار 'یو این ملٹری آبزرور جب لائن آف کنٹرول کے قریب ہماری طرف اپنے مشن کو انجام دے رہے تھے تو بھارتی فورسز نے ان پر فائرنگ کی اور انھیں خبردار کیا کہ وہ لائن آف کنٹرول کے قریب نہ آئیں۔
’ہندوتوا‘ کے فلسفے کو فروغ دینے والے بھارتی وزیر اعظم مودی نے ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کو خطے کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرکے اور اسے یک طرفہ طور پر ہندستانی ریاست کا حصہ بنا کر اپنے تمام پیش روؤں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کی اس بدترین غیر قانونی اور یک طرفہ کارروائی کے ساتھ بھارت مقبوضہ کشمیر میں آبادیاتی اور سیاسی تبدیلیوں کی انجینئرنگ کر رہا ہے، تاکہ کشمیریوں کو اپنے ہی وطن میں ایک بے اختیار اقلیت میں تبدیل کیا جا سکے۔
حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر طے شدہ اصول و ضوابط کے مطابق ترتیب دیا گیا ہے، جسے نہ تو اتفاق رائے کے بغیر تبدیل کیا جا سکتا ہے اور نہ کوئی رکن ریاست یک طرفہ طور پر ایجنڈے کو تبدیل کر سکتا ہے۔ نئے سال کے آغاز کے موقعے پر اقوام متحدہ اور عالمی برادری سے درخواست ہے کہ وہ صورتِ حال کا نوٹس لیں اور مظلوم کشمیریوں کے دُکھوں کا مداوا کریں تاکہ ۲۰۲۴ءکو پُرامن سال بنایا جا سکے۔ یہ اقوام متحدہ کی ۵جنوری ۱۹۴۹ء کی قرارداد پر اس کی حقیقی روح کے مطابق عمل درآمد سے ہی ممکن ہے۔
۱۹۲۲ء کے موسم بہار میں ۲۲ سالہ آسٹریا نژاد نوجوان یہودی لیوپولڈ کو ان کے چچا دوریان کی جانب سے ایک خط موصول ہوا کہ فوراً برلن چھوڑ کر میرے گھر ا ٓجاؤ۔ ان کا پتھروں سے بنا قدیم طرزکا یہ گھر یافا کے داخلی راستے پر قدیم فلسطینی قصبہ میں واقع تھا۔ چچاکی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ۱۹۲۲ء کی گرمیوں کی ایک دھندلی صبح، محمد اسد مشرق کے راستے پر رواں بحری جہاز کے لکڑی کے عرشے پر کھڑے تھے۔یہی یہودی نوجوان اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہے اور علّامہ محمد اسد (۱۹۰۰ء-۱۹۹۲ء)کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اس سفر کے دوران محمد اسد کو عربوں سے میل ملاقات کا پہلا تجربہ ہوا۔لگتا تھا کہ یہ نوجوان، اپنے لیے مستقبل میں چھپے امکانات کو تلاش کرنا چاہتا ہے۔ اس یادگار سفر کے تقریباً دو برس بعد اور مسلمان ہونے سے دو برس پہلے محمد اسد واپس جرمنی لوٹے تو ان کے ساتھ روزانہ کی ڈائری کے وہ اوراق بھی تھے، جو انھوں نے جرمن زبان میں لکھے تھے۔ بلادِ مشرق کے بارے میں ان کے تاثرات خصوصاً ان کی منزلِ اوَلین،القدس کے مشاہدات پر مشتمل ڈائری کے یہ اوراق بعد میں جرمن زبان میں (Unromantisches Morgenland) ’غیر رومانوی مشرق‘ کے نام سے شائع ہوئے۔
کتاب کی کہانی محمد اسد اور صہیونی تحریک کے اس وقت کے روسی نژاد لیڈر حائیم وائزمین (م:۱۹۵۲ء) کے درمیان گرما گرم مباحثے سے شروع ہوتی ہے۔ وائز مین بعد میں قابض اسرائیلی ریاست کے پہلے صدر بھی بنے۔ دونوں کے درمیان یہ مکالمہ بیت المقدس میں واقع محمد اسد کے ایک دوست کے گھر پر ملاقات کے دوران ہوا تھا۔ محمد اسد کا موقف تھا کہ فلسطین پر عربوں کا حق اصلی ہے اور یہ کہ صہیونی تحریک اپنی فکر و فلسفہ کے لحاظ سے عقل ومنطق اور دلیل و استدلال سے قطعی محروم ہے۔ یہود،عرب ۔ اسرائیل کش مکش کو یک رخے انداز میں دیکھ رہے ہیں۔
اس کتاب میں اہم ترین اور قابل توجہ بات محمد اسد کی صہیونی تحریک کی مذمت بلکہ مخالفت کرتی ایک قطعی رائے ہے، حالانکہ یہ رائے ان کے مسلمان ہونے سے قبل کی ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب میں ایسے بہت سے مضامین بھی درج کیے ہیں جن میں وہ عربوں کو یہودیوں کے منصوبوں اور ان کے نتائج سے باخبر کرتے ہیں۔ جس چیز نے انھیں دلی صدمہ سے دوچار کیا، وہ اہل یہود کا فوج در فوج فلسطین کی طرف نقل مکانی کرنا اور اس سلسلے کو اتنا بڑھانا تھا کہ وہ یہاں پر اکثریت حاصل کر لیں۔
محمد اسد کی یہی آزادانہ آراء تھیں، جن کی وجہ سے ان کے موقف کو یہودیوں نے ’یہود مخالف‘ (Anti-Sematic) قرار دے دیا تھا۔ محمد اسد ، اسرائیل کے قیام کے منصوبے کو ناکام صہیونی منصوبے سے تعبیر کرتے ہیں۔ وہ صہیونی تحریک کے ممبران کو اپنے عقیدے اور اپنے اُوپر عائد ہونے والے اخلاقی فرائض کی پامالی اور ان سے خیانت کا مجرم گردانتے ہیں، حالانکہ ابھی اسد کا اپنا دین بھی یہودیت ہی تھا۔
محمد اسد مذکورہ نتیجۂ فکر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ابتدا ہی سے میرا خیال تھا کہ فلسطین میں یہود کی مصنوعی آباد کاری کی سوچ کا بدترین پہلو یہ ہے کہ اس سے یورپی معاشروں کی مشکلات اور سماجی پیچیدگیوں کا رُخ ایک ایسے خطے اور ملک کی طرف مڑجائے گا جو ان یہودیوں کے بغیر زیادہ خوش حال ہے۔ اگر یہود یہاں آکر نہ بسیں تو یہ خطہ خوش حال تر رہے گا۔اسی طرح محمداسد نے یہودیوں کے قومی وطن کی نوید سنانے والے ۱۹۱۷ء کے بالفور ڈیکلریشن کو انتہائی وحشیانہ اور قساوت قلبی پر مبنی سیاسی چال سے تعبیر کیا اور کہا کہ یہ ان استعماری طاقتوں کی ’لڑاؤ اور حکومت کرو‘ پالیسی کی آزمودہ شکل ہے اور اسی دیرینہ پالیسی کو کامیاب بنانے کے لیے یہ بدنام زمانہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے۔
محمد اسد اس وقت اگرچہ نسلاً یہودی تھے، تاہم ان کا یہودی ہونا انھیں حالات و واقعات کا معروضی انداز میں جائزہ لینے اور اس پر لکھنے سے کبھی نہیں روک سکا۔ وہ ڈس انفارمیشن اور حقائق کو مبہم رکھنے کے سخت خلاف تھے۔ وہ نتائج کی پروا کیے بغیر حقائق کا اظہار کرنے کو فرض سمجھتے تھے، اسی لیے برطانوی صہیونی گٹھ جوڑ کو نمایا ں کرنے میں مصروف رہے۔ یورپ کے کئی بڑے اخباروں میں فلسطین میں یہودی نو آباد کاری اور اس کے مضمرات و خطرات کے بارے میں مسلسل لکھتے رہے۔ صہیونیوں کے اس پروپیگنڈے کی تردید کرتے رہے کہ یہودی، فلسطین میں اکثریت میں ہیں اور سرزمین ِ فلسطین ایک امر واقعہ کے طور پر یہودیوں کا قومی وطن (Jewish Homeland)بن چکا ہے جسے دنیا کو تسلیم کر لینا چاہیے۔
یورپی باشندے مذکورہ صہیونی پروپیگنڈے کے دھوکے میں آگئے، حتیٰ کہ محمد اسد ابتداً خود بھی اسی پروپیگنڈے کا شکار تھے اور جب تک بنفسِ نفیس خود جاکر ارضِ فلسطین کا مشاہدہ نہ کر لیا، انھیں ادراک ہی نہ ہوا کہ حقیقت وہ نہیں ہے جو بیان کی جا رہی ہے بلکہ اصل معاملہ کچھ اور ہے۔ چنانچہ انھوں نے یورپی معاشرے کے سامنے بھی صہیونی پروپیگنڈے کا پول کھولنے کا بیڑا اُٹھایا اور اس مسئلے پر مضامین لکھنے شروع کیے۔انھوں نے لکھا کہ ’’فلسطین میں یہود کی پوزیشن اس فرد کی سی نہیں ہے، جو ایک عرصہ تک بھولا بھٹکا رہا ہو اور اب شام کو واپس اپنے ہی گھر لوٹ رہاہو،بلکہ ان کی کوشش ہے کہ زور زبردستی، دھونس دھاندلی اور جائزو ناجائز، غرض ہر طرح سے اس سرزمین پر قابض ہوں اور یورپی قومی ریاستوں (Nation States)کے دھوکے میں آ کر فلسطین کو اپنا قومی وطن بنا لیں‘‘۔
محمد اسد نے لکھا: ’’یہود کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ فلسطینیوں کے در پر اجنبیوں کی طرح کھڑے ہیں۔ ایسے میں مجھے ہرگز کوئی تعجب نہیں ہوگا اگر عرب اپنے وطن کے عین دل میں ایک (’یہودی قومی ریاست‘) کے قیام کے تصور کی مزاحمت کریں‘‘۔
ایک اور جگہ کہتے ہیں:’’میں اگرچہ یہودی ہوں، لیکن میرا موقف صہیونیت دشمنی ہے۔ میں نے بڑی طاقتوں خصوصاً برطانیہ عظمیٰ کے غیراخلاقی موقف کی ہمیشہ مذمت کی ہے، اس لیے کہ برطانیہ یہودی مہاجروں کو دنیا کے کونے کونے سے جمع کر کے فلسطین میں دھکیل رہا ہے تا کہ ان کی یہاں اکثریت ہو جائے اور اس سرزمین کے اصل، جائز اور قانونی وارثوں سے اس خطۂ ارضی کو بزور چھین لیں جو مدتوں سے یہاں رہتے چلے آرہے ہیں۔ ہر ایسی مجلس میں جہاں عرب یہودی تنازعہ زیر بحث ہوتا، میں خود بخود اپنے آپ کو عربوں کی صف میں کھڑا پاتا۔ بہت سے ان یہودیوں کے لیے میرا موقف سمجھنا انتہائی مشکل ہوتا، جن سے اتفاقاً میری ملاقات ہو جاتی یا فلسطین میں رہتے ہوئے مختلف تہواروں پر ہم کہیں اکٹھے ہوتے۔ وہ سمجھ نہیں پاتے تھے کہ مجھے ان عربوں میں ایسی کیا بات دکھائی دیتی ہے، جنھیں وہ انتہائی پسماندہ سمجھتے تھے، بالکل اسی نظر سے دیکھتے تھے جیسے کوئی یورپی باشندہ، وسطی افریقہ کے اجڈ اور گنوار باشندوں کو دیکھتا ہے۔ عرب ذہن کیا سوچتا ہے؟ اس سے انھیں کوئی سروکار نہ تھا، نہ ان میں سے کوئی یہ تکلف ہی کرتا تھا کہ عربی زبان ہی سیکھ لے۔
محمد اسد نے اپنی اس کتاب میں جو کچھ لکھا ہے اس کی اہمیت محض اس وجہ سے نہیں ہے کہ ان کی مذکورہ رائے کی بنیاد منطقی اسباب پر تھی، ہرگز نہیں۔ درحقیقت یہ اس عینی شاہد کا بیان ہے، جسے ان نتائج تک واقعی،حقیقی اور آنکھوں دیکھے زندہ واقعات و حوادث نے پہنچایا تھا۔ محمد اسد خود ان واقعات اور ان کی جزئیات کا حصہ رہے ہیں۔ گویا یہ اس زمانے کے احوال و واقعات کے بارے میں ایک باخبر صحافی کے ایسے رپورتاژ ہیں جو انتہائی باریک بینی اور دقت نظری سے مرتب کردہ تھے، زمینی حقائق پر مبنی اور نتائج بھی عقلی استدلال سے پُر۔
محمد اسد لکھتے ہیں: ’’ان دنوں ایک عام یورپی باشندہ، فلسطینی عربوں کے بارے میں کیا جانتا تھا؟عملاً کچھ بھی نہیں۔ جب یورپی یہودی فلسطین آئے تو اپنے ساتھ بہت سے غلط العام جذبات و احساسات بھی لے کر آئے۔ان میں سے جو بھی صاف نیت اور تھوڑی سی عقل و شعور کا مالک ہوگا، وہ ضرور اقرار کرے گا کہ ارض فلسطین پر عربوں کی موجودگی کے بارے اسے کچھ معلوم نہیں تھا۔ میں خود بھی ارضِ فلسطین پر آنے سے قبل ہرگز یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ عرب سرزمین ہے جو عربوں ہی کی ہے۔ بس یہاںکے بارے میں کچھ مبہم سی معلومات تھیں کہ چند عرب لوگ بھی یہاں رہتے ہیں اور ان عربوں کے بارے میں میرا تصور یہ تھا کہ یہ عرب قبائلی بدو ہوں گے خیمہ بدوش، کبھی یہاں کبھی وہاں پڑاؤ ڈالنے والے اور صحرائی میدانوں میں اونٹ چرانے والے۔میں نے گذشتہ چند برسوں میں فلسطین کے بارے میں اگر کچھ پڑ ھا تو وہ صہیونیوں کا لکھا پروپیگنڈا لٹریچر ہی تھا، جس میں ان کا اپنا موقف ہی دیا ہوتا تھا۔میں نہیں جانتا تھا کہ فلسطین کے شہر، عرب شہر ہیں جن میں عرب رہتے بستے ہیں۔ ۱۹۲۲ء میں یہاں آبادی کا تناسب کچھ اس طرح تھا کہ ایک یہودی کے مقابلے میں پانچ عرب اور اس کا سیدھا سادہ مطلب یہی تھا کہ یہ ایک عرب ملک ہے‘‘۔
اس طرح صہیونی تحریک کی جانب سے اسرائیل کے قیام کے غیر قانونی اعلان سے ربع صدی قبل محمد اسد صہیونی سازشوں کو بے نقاب کر رہے تھے اور اس واضح وژن کے ساتھ، جس میں خوف اور تردد کا ادنیٰ سا شائبہ بھی نہیں تھا، پوری تفصیلات اور بھرپور اعتماد کے ساتھ۔ اس لیے کہ انھوں نے عینی شاہد کے طور پر، صحافی کے طور پر، ایک رپورٹر اور ادیب کے طور پر بچشم سر خود مقبوضہ فلسطین کو دیکھا تھا۔اس مشاہدے اور تجربے نے یورپی قلم کاروں کے ہاتھوں پہلے سے بنائی ہوئی اس مسخ شدہ تصویر کو تبدیل کر کے رکھ دیا جس کی بنیاد غلط معلومات اور فلسطین کے بارے میں یہودی پروپیگنڈا پر تھی جو دن رات وہ کرتے رہتے تھے۔
تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہود اور ان کا پروپیگنڈا ہی اُس دور میں معلومات اور خبروں کا واحد ذریعہ تھا کہ جب انفارمیشن اور خبروں کے ذرائع خال خال ہی تھے۔ یہی وجہ تھی کہ محمد اسد جس اخبار میں اپنے مراسلات بھیجتے تھے، وہ بڑے اہتمام کے ساتھ ان کے مضمون کے آخر میں یہ لکھنا نہیں بھولتا تھا کہ’’مقالہ نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے‘‘ ۔ اس کی ایک وجہ شاید ان اداروں میں یہود ی اثر و نفوذ بھی تھا۔
محمد اسد کے دورۂ فلسطین کی ایک اہم یادگار ان کی اس وقت صہیونی تحریک کے رہنما حائیم وائز مین کے ساتھ ملاقات بھی تھی۔ اس گرماگرم بحث سے محمد اسد کی صہیونی تحریک کے بارے میں ذاتی رائے بھی معلوم ہوتی ہے اور صہیونی تحریک کی ان کوششوں کے بارے میں آگاہی بھی ملتی ہے، جو وہ فلسطین اور پورے عرب کی صورت مسخ کرنے، اور پھر اس مسخ شدہ تصویر کو عالمی رائے عامہ کے ذہنوں پر مسلط کرنے کے حوالے سے کر رہی تھی۔ اس سطحی صہیونی عقل و منطق کا اندازہ بھی اس سے بخوبی ہو جاتا ہے، جو وہ فلسطین پر ناجائز قبضہ کے جواز کے طور پر رکھتے تھے۔ اس مکالمے سے ہم یہ اندازہ بھی لگا سکتے ہیں کہ دنیا کے اس پُرآشوب خطّے اور اس میں رہنے والے قبائل اور نسلوں کے بارے میں محمد اسد کی اپنی معلومات کس قدر وسیع اور گہری تھیں۔
گفتگو کا آغاز اس وقت ہوا جب وائز مین ان مالی مشکلات پر شکایت کناں تھے جو فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے میں آڑے ا ٓرہی تھیں کہ ’’فلسطین سے باہر رہنے والے لوگ ہماری باتوں اور اپیلوں پر کان نہیں دھر رہے‘‘۔ محمد اسد کہتے ہیں کہ اس سے مجھے خیال گزرا کہ یہ بھی دیگرصہیونیوں کی طرح فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے میں ناکامی کا بوجھ بیرونی دنیا پر ڈالنا چاہتے ہیں۔ بات چیت کے دوران خاموشی کا ایک وقفہ آیا تو میں نے اسے غنیمت جانتے ہوئے ایک سوال اُچھالا:’’ اور یہاں رہنے والے عربوں کا کیا ہوگا؟‘‘ مجھے لگا جیسے میں نے کوئی پہاڑ جیسی غلطی کر دی ہو، یہودی محفلوں کے لیے بالکل اجنبی سا سوال پوچھ کر۔
ڈاکٹر وائز مین نے آہستہ آہستہ اپنا چہرہ میری طرف پھیرا اور میرا ہی سوال دُہرا دیا: ’’عربوں کا کیا ہوگا؟‘‘ میں نے اپنا سوال خود ہی مکمل کیا کہ ’’فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن کیسے بنا پائیں گے، جب کہ عربوں کی طرف سے ہمیں شدید مخالفت کا سامنا ہے اور اس پر طرہ یہ کہ وہ اکثریت میں بھی ہیں؟‘‘ یہودی لیڈر نے اپنے کندھے اچکائے گویا جواب دے رہے ہوں اور پھر خشک لہجے میں بولے: ’’ہمیں امید ہے کہ چند برسوں بعد وہ اکثریت میں نہیں ہوں گے‘‘۔
میں نے جواباً کہا: ’’اس امر کی کوشش تو آپ برسوں سے کر رہے ہیں اور یقینا مجھ سے زیادہ حقائق کو بھی جانتے ہیں لیکن کیا اس معاملے کا اخلاقی پہلو تو کبھی آپ کو شرمسار نہیں کر دے گا؟ کیا آپ کو فکر ہے کہ اس خطے میں ساری ساری زندگیاں گزارنے والی قوم کو ان کے گھر بار اور علاقے سے نکال دینا بہت بڑی غلطی ہوگی؟
وائز مین نے اپنی آنکھوں کی بھنویں سکیڑیں اور جواب دیا: ’’یہ ہماری زمین ہے اور ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں کر رہے کہ غلطی سے جوعلاقہ ہم سے چھن گیا تھا، وہی اب ہم واپس لے رہے ہیں‘‘۔ میں نے جواب دیا: ’’لیکن آپ لوگ تقریباًد و ہزار برس تک اس خطے سے دور تھے۔ ہاں، ٹھیک ہے اس سے قبل اس خطے پر آپ کی حکومت رہی، لیکن پورے خطے پر نہیں اور وہ بھی کوئی ۵۰۰ برس سے بھی کم عرصے کے لیے صرف۔ آپ کی منطق کو اگر قبول کر لیا جائے تو کیا عرب بھی اندلس کی واپسی کا مطالبہ نہیں کر سکتے؟ انھوں نے تو اندلس پر ۷۰۰ برس سے زیادہ عرصہ تک حکومت کی ہے اور ابھی انھیں وہاں سے نکلے پانچ سو برس بھی نہیں ہوئے؟‘‘ اس پر وائز مین کا صبر جواب دے گیا اور وہ کہنے لگے: ’’یہ سب بے کار کی باتیں ہیں۔ عربوں نے اندلس پر جنگ مسلط کی تھی۔ اندلس کبھی بھی ان کی سرزمین نہیں رہا۔ زیادہ معقول اور آخری بات یہ ہے کہ اندلسیوں نے خود انھیں نکال باہر کیا تھا‘‘۔
میں نے ان کی دلیل کا جواب دیتے ہوئے کہا: ’’معاف کیجیے گا، لگتا ہے تاریخی تناظر کے اعتبار سے غلط موقف بنایا جارہا ہے۔ آپ کچھ بھی کہہ لیں مگر حقیقت یہ ہے کہ عبرانی بھی جنگجو بن کر فلسطین میں داخل ہوئے تھے اور ان سے پہلے طویل مدت تک سامی اور غیر سامی قبائل فلسطین میں رہتے آ رہے تھے۔ عموری،فلسطینی، موابی،حتی اور عبرانیوں کی ان سے جنگ کے بعد بھی مسلّمہ تاریخی حقیقت یہی ہے کہ یہ قبائل فلسطین ہی میں رہتے بستے رہے۔اسی طرح یہودا اور اسرائیل، دونوں یہودی مملکتوں کے اندر بھی یہ لوگ بستے رہے۔یہ لوگ اس وقت بھی اس سرزمین میں بس رہے تھے، جب رومیوں نے ہمارے یہودی اسلاف کو ارضِ فلسطین سے بے دخل کیا تھا اور یہی لوگ آج بھی فلسطین کی سرزمین پررہ بس رہے ہیں‘‘۔
میری گرم جوشی دیکھ کر ڈاکٹر وائز مین مسکرا دیے اور غالباً بے بس ہوکر گفتگو کا رُخ دوسری طرف موڑ کر دیگر موضوعات پر بات کرنے لگے‘‘۔
بقول محمد اسد: ’’مجھے اس ملاقات اور اس کے نتائج پر کوئی خوشی نہیں ہوئی۔ مجھے ہرگز توقع نہیں تھی کہ صہیونی منصوبہ عقل و منطق اور دلیل و حجت سے اس قدر عاری ہوگا۔مجھے امید تھی کہ میری طرف سے عرب مسئلہ کا دفاع اس صہیونی منصوبے کے بارے میں اس کے خالقوں کے ذہن میں شک و شبہہ پیدا کردے گا یا کم سے کم اس کی کامیابی کے بارے میں عدم یقین کی کیفیت تو ضرور ہی پیدا ہوگی، جن سے ان میں یہ احساس جنم لے گا کہ ان کے منصوبے کی عربوں کی طرف سے مزاحمت اخلاقی طور پر بر حق ہے، لیکن اس کے برعکس میں نے اپنے آپ کو چبھتی نظروں کی ٹھنڈی دیواروں میں گھرا ہواپایا۔ایسی نظریں جو میری جرأت اور بے باکی کی مذمت کر رہی تھیں۔ ان امور پر اظہارِ تشکیک ان کے نزدیک جرم تھا، جن میں شک و شبہہ مکمل طور پر ناقابلِ قبول ہو۔ ان کے نزدیک یہودیوں کا ان کے آباؤ اجداد کی سرزمین فلسطین پر حق فائق تھا۔
صہیونی تحریک کے رہنما کی اپنی دلیل ایک ۲۲ سالہ نوجوان صحافی کے سامنے نہ ٹھیرسکی۔ یہی نہیں بلکہ وہ جواب دینے سے کترانے لگا اور بات کا رُخ محض اس لیے موڑ دیا کہ اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا اور نہ وہ اس موضوع پر مزید گفتگو کا متحمل ہو سکتا تھا۔اپنے انھی خیالات، منطقی استدلال اور عملی مشاہدے کی بنیاد پر محمد اسد فلسطین میں یہودیوں کے انجام اور ان کی ریاست کے جلد یا بدیر، زوال کی توقع رکھتے تھے۔
شامی نامہ نگار حیدر الغدیر ۱۹۷۹ء میں مراکش میں محمد اسد کے ساتھ اپنی ایک ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے ان کا قول دہراتے ہیں: ’’یہود ایک ایسی احمق قوم ہیں، جنھوں نے اپنی تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور نہ اپنی غلطیوں ہی سے کچھ سیکھا ہے۔ ان میں غرور بھی ہے اور لالچ بھی اور یہی دو چیزیں ہلاکت خیز ہوتی ہیں۔ ان کی مثال اس بندر کی سی ہے جس نے ایک بوتل میں بند بادام دیکھے تو انھیں کھانے کے لیے جھٹ سے اپنا ہاتھ بوتل میں ڈال کر مٹھی بھر لی اب لگا زور لگانے کے ہاتھ باہر نکالے، لیکن کوئی چارہ نہیں تھا۔اتنی عقل تھی نہیں کہ بادام چھوڑے، مٹھی کھولے اور ہاتھ نکال لے۔ باداموں کا لالچ بھی اسے مٹھی میں بھرے بادام چھوڑنے نہیں دے رہا تھا۔ لہٰذا وہ اسی حالت میں رہا، یہاں تک کہ اس کا مالک آگیا اور اس نے مار مار کر اس سے بادام چھڑوائے اور اس کا ہاتھ آزاد کرایااوربندر کو اپنے لالچ کی سزا ملی۔ بس ایسی ہی صورتِ حال فلسطین میں یہودیوں کی بھی ہے۔ ان کے لالچ کی سزا انجامِ کار ان کی منتظر ہے۔ انھیں بھی بالکل اسی طرح مجبوراً فلسطین کو چھوڑنا پڑے گا جیسے لالچی بندر کو مار کھا کھا کر بادام چھوڑنے پڑے تھے‘‘۔
تصور کریں اگر ایران، شام، لبنان یا ترکی - روس اور چین کی مکمل سفارتی حمایت اور مسلح مدد اور ارادے کی قوت کے ساتھ ساتھ وسائل سے بھی لیس ہو اور تل ابیب پر تین ماہ تک دن رات بمباری کرے، دسیوں ہزاروں اسرائیلیوں کو قتل کرے، لاتعداد کو معذور اور لاکھوں کو بے گھر کرے اور پورے شہر کو غزہ کی طرح ناقابلِ رہایش ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردے۔
صرف چند لمحوں کے لیے یہ تصور کریں کہ: ایران اور اس کے اتحادی تل ابیب کے آبادی والے حصوں، ہسپتالوں، عبادت گاہوں، اسکولوں، یونی ورسٹیوں، لائبریریوں اور ایسی کوئی بھی جگہ جہاں انسان آباد ہوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنارہے ہیں، تاکہ یقینی طور پر زیادہ سے زیادہ شہری ہلاکتیں ہوں۔ اور دنیا کو یہ بتائیں کہ وہ صرف اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور ان کی جنگی کابینہ کو تلاش کر رہے ہیں۔
اپنے آپ سے پوچھیے کہ امریکا، برطانیہ، یورپی یونین، کینیڈا، آسٹریلیا اور جرمنی اس خیالی جنگی منظر نامے کے جواب میں ۲۴ گھنٹوں کے اندر اندر کیا کریں گے؟
اب حقیقت کی طرف واپس لوٹ آئیےاور اس حقیقت پر غور کریں کہ ۷؍ اکتوبر سے پہلے (اور اس تاریخ سے بھی پہلے کے کئی عشروں تک) تل ابیب کے مغربی اتحادیوں نے نہ صرف یہ دیکھا ہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ کیا کیا ہے،بلکہ ان اتحادیوں نے اسے فوجی سازوسامان، بم، گولہ بارود اور سفارتی امداد فراہم کرنے کے ساتھ مکمل پشت پناہی بھی کی ہے، جب کہ فلسطینیوں کے قتل عام اور نسل کشی پر امریکی ذرائع ابلاغ اسرائیلی جارحیت کے حق میں نظریاتی جواز بھی پیش کرتے آ رہے ہیں۔
مذکورہ بالا خیالی جنگی منظر نامے کو موجودہ عالمی نظام ایک دن کے لیے بھی برداشت نہیں کرے گا۔ اسرائیل کی پشت پر امریکا، یورپ، آسٹریلیا اور کینیڈا کی فوجی غنڈا گردی کے مقابلے میں ہم بے بس لوگ، فلسطینیوں کی طرح کسی شمار میں نہیں لائے جاتے۔ یہ صرف ایک سیاسی حقیقت نہیں ہے بلکہ وہ شے جو’مغرب‘ کہلائی جاتی ہے، اس کے ’اخلاقی‘ وجود اور فلسفہ کائنات کا ایک لازمہ ہے۔
ہم میں سے وہ لوگ جو یورپ کے اخلاقی تخیل کے دائرہ کار سے باہر رہتے بستے ہیں، وہ ان مغربیوں کی فلسفیانہ کائنات میں شمار نہیں کیے جاتے: عرب، ایرانی اور مسلمان؛ یا ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا کے لوگ - ہم یورپی فلسفیوں کے لیے کوئی حقیقی وجود نہیں رکھتے،سوائے اس کے کہ ہم ایک مابعد الطبیعیاتی خطرہ ہیں، جسے ہر طور پر فتح کر لینا یا خاموش کر دینا چاہیے۔
ایمانویل کانٹ اور جارج ولہیم فریڈرک ہیگل سے لے کر، ایمینوئل لیوناس اور سلووج زیزیک کے بعد بھی، ہم یا تو عجیب و غریب چیزیں ہیں، اشیا ہیں یا وہ معلوم چیزیں ہیں، جن کو سمجھنے کی ذمہ داری مستشرقین کو سونپی گئی تھی۔ اسی طرح، اسرائیل یا امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں کے ہاتھوں، ہم میں سے ہزاروں افراد کا قتل، یورپی فلسفیوں کے ذہنوں میں ذرا بھی رُک کر سوچنے کا باعث نہیں بنتا۔
اگر آپ کو اس پر شک ہے، تو آپ معروف یورپی فلسفی جرگن ہیبرماس (Jurgen Habermas) اور اس کے چند ساتھیوں پر ایک نظر ڈالیں، جو حیران کن بے شرمی کے ساتھ ظالمانہ بدمعاشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کے قتل عام کی حمایت میں سامنے آئے ہیں۔ اب سوال یہ نہیں ہے کہ آیا ہم ایک انسان کے طور پر ۹۴ سال کے ہیبرماس کے بارے میں کیا سوچیں بلکہ سوال یہ ہے کہ ہم ان کے بارے میں ایک سماجی سائنس دان، فلسفی اور تنقیدی مفکر ہونے کے ناطے کیا سوچیں؟
دنیا اسی قسم کے سوال ایک اور بڑے جرمن فلسفی، مارٹن ہائیڈیگر کے بارے میں اس کی نازی ازم کے ساتھ انسانیت سوز وابستگی کی روشنی میں پوچھتی آ رہی ہے۔ ہمیں بھی اسی طرح ہیبرماس کی متشدد صہیونیت اور اس کے پورے فلسفیانہ منصوبے اور ان کے اہم نتائج کے بارے میں، ایسے اہم سوالات پوچھنے چاہئیں۔
اگر ہیبرماس کے اخلاقی تصور میں فلسطینیوں جیسے لوگوں کے لیے دُنیا میں ذرا برابر بھی جگہ نہیں ہے، تو کیا ہمارے پاس اس کے پورے فلسفیانہ منصوبے کو قبائلی یورپی سامعین کے علاوہ، باقی انسانیت سے متعلق سمجھنے کی کوئی وجۂ جواز موجود ہے؟
ایک کھلے خط میں ممتاز ایرانی ماہر عمرانیات آصف بیات نے ہیبر ماس کو لکھا ہے: ’’جب غزہ کی صورتِ حال پر بات کرنے کا وقت آتا ہے تو ہیبر ماس ’اپنے ہی خیالات سے متصادم‘ بات کرتا ہے۔ میں اس بات سے اختلاف کرتا ہوں۔ فلسطینی زندگیوں سے بے خبری اور سفاکانہ لاتعلقی کی صہیونیت سے پوری طرح مطابقت رکھتی ہے۔ یہ اس عالمی نظریہ سے بالکل مطابقت رکھتا ہے جس میں غیر یورپی لوگ، مکمل طور پر انسان نہیں ہیں، یا محض ’انسان نما جانور‘ ہیں، جیسا کہ اسرائیلی وزیر دفاع یاو گیلنٹ نے سر عام کہا ہے۔
فلسطینیوں کی زندگیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے، ہیبرماس کی صہیونیت ہائیڈیگر کے نازی ازم سے جا ملی ہے۔ فلسطینیوں کو سراسر نظر انداز کرنے کے اس رویے کی جڑیں جرمن اور یورپی فلسفیانہ تخیلات میں بہت گہری ہیں۔ عام حکمت کے مطابق ’ہولوکاسٹ‘ کے جرم میں شرم کے مارے جرمنوں نے اسرائیل کے لیے ٹھوس وابستگی پیدا کر لی ہے۔لیکن باقی دنیا کے لیے، جیسا کہ جنوبی افریقہ کی جانب سے بین الاقوامی عدالت انصاف میں پیش کی گئی شاندار دستاویز سے ثابت ہوتا ہے، جرمنی میں نازی دور میں جو کچھ کیا گیا، اور اب صہیونی دور میں جو کچھ کیا جارہا ہے، میں مکمل مطابقت ہے۔
یقینا ہیبرماس کی پوزیشن صہیونیوں کے ہاتھوں فلسطینی قتل عام کے لیے جرمن ریاست کی پالیسی کے مطابق ہے۔ یہ &’جرمن بائیں بازو‘ ; کی نسل پرستانہ دشمنی، اسلام دشمنی رویوں کے بھی بالکل مطابق ہے، جو وہ عربوں اور مسلمانوں سے کرتے ہیں۔ اور یہ ان کے اس رویے کے بھی مطابق ہے، جس کی بنا پر وہ اسرائیلی غیر قانونی آباد کاروں کی فلسطینی نسل کشی کی حمایت کرتے ہیں۔
ہمیں اس بات پر معاف رکھیے، اگر ہم یہ بات سوچ رہے تھے کہ جرمنی ہولوکاسٹ کی تاریخ پر شرمندہ ہے، نہیں بلکہ وہ نسل کشی کی بیماری میں مبتلا ہے، کیونکہ اس پوری صدی (نہ کہ صرف پچھلے ایک سو پندرہ دن) میں اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کے قتل عام میں جرمنی بالواسطہ ملوث رہا ہے۔
یورو سینٹرزم (Eurocentrism) کا الزام جو یورپی فلسفیوں کے تصورِ دنیا کے خلاف مسلسل لگایا جاتا ہے، وہ محض ان کی سوچ کی ایک علمی خامی کی طرف اشارہ نہیں ہے، بلکہ یہ ان کی اخلاقی پستی کی ایک مستقل علامت ہے۔ ماضی میں متعدد موقعوں پر میں نے یورپی فلسفیانہ سوچ کی اس لاعلاج نسل پرستی کی طرف نشان دہی کی ہے اور آج بھی ان کے مشہور نمایندوں کے سامنے نشاندہی کرتا رہتا ہوں۔
یہ اخلاقی پستی محض ایک سیاسی غلطی یا نظریاتی خلا پر مشتمل نہیں ہے۔ یہ ان کے فلسفیانہ تخیلات میں گہرائی سے لکھی گئی ہے، جو ناقابل تلافی طور پر ایک وحشیانہ قبائلی سوچ ہے۔ آج کی دنیا، یورپی نسلی فلسفے کی جھوٹی نیند سے بیدار ہو چکی ہے۔ آج ہم نے یہ آزادی فلسطینیوں جیسے مصائب میں گھرے لوگوں کے ہاتھوں حاصل کی ہے۔
یہاں، ہمیں مارٹنیک کے ایک عظیم الشان شاعر ایمی سیزائر (Aime Cesaire)کے ایک بیان کو دُہرانا چاہیے؛ &’’ہاں، یہ سود مند ہوگا، اگر ہم طبی لحاظ سے، ہٹلر کے اقدامات اور ہٹلرازم کا تفصیلی مطالعہ کریں اور بیسویں صدی کے بہت ہی ممتاز، انتہائی انسان دوست، انتہائی مسیحی بورژوا کے سامنے یہ انکشاف کیا جائے کہ اپنے اندر موجود ایک ہٹلر سے وہ ناواقف ہے، وہ ہٹلر اس کے اندر بستا ہے، وہ ہٹلر اس کا شیطان ہے، اور اس کے خلاف آواز اٹھانا اس کے لیے متضاد عمل ہے، اور وہ اس پر قائم نہیں رہ سکتااور یہ کہ دل کی گہرائیوں میں وہ جس چیز کے لیے ہٹلر کو معاف نہیں کرسکتا وہ بذات خود اس کا جرم نہیں جو اس نے انسانیت کے خلاف کیا، اور نہ یہ انسانیت کی بے توقیری پر مبنی رویہ ہے، بلکہ دُکھ صرف اس بات پر ہے کہ یہ جرم ایک سفید فام آدمی کے خلاف ہوا، جس میں سفید فام آدمی کی تذلیل ہوئی اور یہ حقیقت اس میںمضمر ہے کہ اس نے نوآبادیاتی طریق کار کا اطلاق یورپ پر کیا جو اس وقت تک صرف [عرب، ہندستانی اور افریقیوں کے لیے مخصوص تھا]‘‘۔
فلسطین، آج نوآبادیاتی مظالم کی ایک توسیع ہے جس کا حوالہ سیزائر نے اپنی تحریرمیں دیا ہے۔ ہیبرماس اس بات سے لاعلم دکھائی دیتا ہے کہ اس کی فلسطینیوں کے قتل عام کی توثیق کرنا مکمل طور پر اُس نسل کشی سے مطابقت رکھتا ہے، جو اُس کے آباؤ اجداد نے نمیبیا میں ہریرو اور نِما قبیلوں کی کی۔ اس ضرب المثلی شتر مرغ کی طرح، جرمن فلسفی بھی اپنے سروں کو یورپی فریبوں کے اندر پھنسائے ہوئے ہیں، جو یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ دنیا اسے نہیں دیکھ رہی۔
میری نظر میں، ہیبرماس نے کچھ بھی کہا، وہ حیران کن یا متضاد نہیں کہا ہے۔ بالکل معاملہ اس کے برعکس ہے۔ وہ اپنے فلسفیانہ حسب نسب کی لاعلاج قبائلیت کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ ہے، جس نسب نے غلطی سے آفاقی رنگ اختیار کرنے کا دعویٰ کر رکھاتھا۔
دنیا نے اب اس نام نہاد ’آفاقیت‘ کے غلط داغ سے خود کو صاف کر لیا ہے۔ ہیبر ماس اور اس قبیل کے لوگوں کے مقابلے میں دیگر فلسفی جیسا کہ ڈ یموکریٹک رپبلک آف کانگو کے وی وائی موڈیمبے،ارجنٹائن کے میگنولو یا اینرک ڈوسل یا جاپان کے کوجن کراتانی کے پاس آفاقیت کے کہیں زیادہ جائز دعوے ہیں۔
میری رائے میں، فلسطین پر ہیبرماس کے بیان کا اخلاقی دیوالیہ پن، یورپی فلسفے اور باقی دنیا کے درمیان نوآبادیاتی تعلق میں ایک اہم موڑ ہے۔ دنیا یورپی نسلی فلسفے کی جھوٹی نیند سے بیدار ہوچکی ہے۔ ہم نے یہ آزادی آج فلسطینیوں جیسے مصائب میں گھرے لوگوں کے طفیل حاصل کی ہے، جن کی طویل، تاریخی بہادریوں اور قربانیوں نے آخرکار &’مغربی تہذیب‘ کی بنیادیں، جو بے شرم وحشت و درندگی پر کھڑی تھیں، منہدم کر دی ہیں۔(مڈل ایسٹ آئی)
مذہب و نسل کی بنیاد پر انسان سے نفرت کی تمام شکلیں قابلِ مذمت ہیں لیکن امریکا میں خاص طور پر اکثر یہ ہوتا ہے کہ اسرائیلی حکومت کے تمام ناقدین کو ’یہود دشمن‘ (Antisemitists) قرار دے کر ان کا محاسبہ ہوتا ہے،جب کہ ’عرب دشمنی‘ کے واقعات کو بڑی آسانی سے نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ پہلی عرب اسرائیل جنگ سے بھی پہلے کا ہے اور ۱۹۳۰ء کے عشرے سے یہود پسند گروہ یہ مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ ’ارضِ فلسطین سے مسلمانوں اور عیسائیوں کو نکالا جائے‘۔ یہ مذہبی اور نسلی تعصب نہ صرف برداشت کیا گیا بلکہ جب امریکی صدر [۵۴-۱۹۴۵ء] ہیری ٹرومین جیسے سیاست دانوں نے فلسطین کی غیر یہودی اور عرب آبادی کے تحفظات کو مکمل نظر انداز کرنا شروع کیا، تو اُس دن سے لے کر آج تک یہ امریکی خارجہ پالیسی کا باقاعدہ حصہ بن گیا۔
چونکہ اسرائیل اپنی اچھی خاصی غیر یہودی آبادی کے باوجود خود کو یہودی ریاست قرار دیتا ہے، اس لیے اس کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والا ہر فرد بڑی آسانی سے ’یہود دشمن‘ قرار پاکر مطعون ٹھیرتا ہے۔ اس رویے کا نقصان عربوں کو ہوتا ہے جو اپنے خلاف پائے جانے والے تعصب یا مسئلہ فلسطین پر بات کریں تو فوراً ’یہود دشمن‘ قرار پاتے ہیں کیونکہ اسرائیلی برادری تاریخی طور پر امریکی میڈیا اور تعلقات عامہ کے دیگر اداروں میں اپنے رسوخ کے باعث الفاظ اور بیانیے کی اہمیت سے بہتر طور پر واقف ہے۔ یہ ’عرب دشمنی‘ کی ایک واضح مثال ہے کہ اسرائیلی وزارتِ دفاع، وزارتِ داخلہ اور کئی منتخب نمایندے کھلم کھلا یہ مطالبہ کر چکے ہیں کہ ’’فلسطینیوں کو غزہ سے نکال کر مصر کی جانب دھکیل دیا جائے‘‘۔
اسرائیلی حکومت کی جارحیت کے ناقدین کو خاموش کرنے کے لیے ’یہود دشمنی‘ کا بطور ہتھیار استعمال نہ صرف اسرائیل غزہ جنگ میں نمایاں ہے بلکہ اس کے اثرات امریکا میں بھی واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں، جو اسرائیلی ریاست کا سب سے بڑا سرپرست اوراس بات کا ضامن ہے کہ اسے اپنے جنگی جرائم کی سزا نہ مل سکے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی اسرائیلی حکومت کے ناقدین کو خاموش کروانے کا فریضہ امریکا نے سنبھال رکھا ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکا نے غزہ میں ’انسانی بنیادوں پر فوری جنگ بندی‘ کی قرار داد کو ویٹو کردیا تھا جس نے یہ حقیقت مزید آشکارا کر دی کہ اقوام متحدہ انسانی حقوق جیسے بنیادی معاملات پر بھی طاقت ور ممالک کے سامنے بے بس ہے۔
’یہود دشمنی‘ کا یہ استعمال ہمیں یونی ورسٹیوں میں بھی نظر آتا ہے، جہاں طویل عرصے سے یہودی طلبہ کو فلسطینی ہم مکتبوں کے مقابلے میں بہتر حقوق اور سہولیات حاصل ہیں۔ میں ۱۹۷۰ء کی دہائی میں یونی ورسٹی آف الینائی (University of Illinois) میں عرب طلبہ کی تنظیم، عرب اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (ASO) کی قیادت کر چکا ہوں۔اس عہدے پر مجھے یونی ورسٹی انتظامیہ کی جانب سے مسلسل مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ۔ اکثر ہماری تقریبات کے لیے فنڈز دینے سے انکار کر دیا جاتا یا فلسطین پسند سمجھے جانے والے مقررین کو مدعو کرنے کی اجازت نہ ملتی۔ اس کے مقابلے میں اسرائیل کے حق میں ہونے والی تقریبات کو اکثر یونی ورسٹی کی مالی معاونت حاصل ہوتی۔
جب ہم اسرائیلی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرتے تو ہمیں نہ صرف اساتذہ بلکہ یونی ورسٹی کے اخبار کی جانب سے بھی ’یہود دشمن‘ قراردیا جاتا۔ اسی صورتِ حال کے باعث میں نے میڈیکل کو چھوڑ کر صحافت کو پیشہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ آج فلسطین کے حق میں احتجاج کرنے والوں کے لیے یونی ورسٹیوں کی صورتِ حال اس سے بھی بری ہے۔ اس صورت حال کی تشکیل میں امریکی میڈیا کے تعصبات کا کلیدی کردار ہے۔
۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کو اسرائیل میں ہونے والے پُر تشدد واقعات کے بعد سے امریکا کی اسرائیل پسند تنظیموں کی پوری کوشش ہے کہ تل ابیب کے رد عمل اور اس کے ناجائز اور ناروا مظالم پر ہونے والی ہر تنقید کو ’یہود دشمنی‘ قرار دے کر دبا دیا جائے۔ ۷؍اکتوبر کو حماس کے حملے کو اسرائیل نے اپنے غصے کا جواز بناتے ہوئے وسیع پیمانے پر بلا امتیاز جنگی کارروائیاں کی ہیں، جن کے نتیجے میں ۲۲ہزار سے زیادہ شہری اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ ان میں ۸ہزاربچے بھی شامل ہیں۔ ۷؍اکتوبر کے بعد سے اسرائیل غزہ کے تقریباً ۷۰ فی صد گھروں کو مسمار کرچکا ہے۔
اس ضمن میں جو بھی اسرائیلی حکومت کی خونخوار پالیسی کی جانب اشارہ کرتا ہے، اسے ’یہود دشمن‘ قرار دے کر سختی سے خاموش کروا دیا جاتا ہے۔ کوئی یونی ورسٹی بھی اس یک طرفہ ظلم سے محفوظ نہیں ہے۔ ہارورڈ جیسی مؤقر یونی ورسٹی کی پہلی سیاہ فام خاتون صدر کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا گیا۔ ڈاکٹر کلاڈین گی پر ان الزامات کے ساتھ حملہ کیا گیا کہ انھوں نے یونی ورسٹی میں ’یہود دشمنی‘ کو جگہ دی ہے۔ تاہم، اس کے ساتھ یونی ورسٹی میں پائے جانے والی ’عرب دشمنی‘ کے جذبات یا اسرائیلی مظالم کے حق میںہونے والے مظاہروں کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا، پھر ’عرب دشمنی‘ کو مکمل طور پر نظر انداز کیا۔ اس یلغار اور دیگر پروفیسروں، اسرائیل پسند تنظیموں، میڈیااور دائیں بازو کے اراکین کانگریس کی جانب سے یوں ہراساں کیے جانے کے بعد کلاڈین نے مستعفی [۲جنوری ۲۴ء] ہونے کا فیصلہ کر لیا۔
ڈاکٹر کلاڈین کا جرم کیا تھا؟ دراصل انھوں نے یونی ورسٹی میں ’یہود دشمنی‘ کے الزامات کا ایک متوازن جواب دینے کی کوشش کی اور کہا کہ’ ’یہود دشمنی تشدد پر اُبھارنے والے جذبات کا نام ہے۔ یہ سلامتی کے اصولوں کے خلاف اور ہراسمنٹ سے متعلق ہارورڈ کے قوانین سے متصادم ہے‘‘۔ انھوں نے قبول کیا کہ یونی ورسٹی میں اسرائیل پسند اور فلسطین پسند گروہوں کی جانب سے ’بے جا اور بے سوچا سمجھا بیانیہ‘ تشکیل دیا جا رہا ہے۔ لیکن اس بیانیے میں ہمیں ’عرب دشمنی‘ یا فلسطین مخالف جذبات کا کہیں ذکر نہیں ملتا، جس کی مخصوص سیاسی وجوہ ہیں۔ مزید برآں اس سے عیسائی مذہب رکھنے والے عربوں کے تحفظات کا ازالہ بھی نہیں ہوتا، چنانچہ اصل پالیسی وہی ہونی چاہیے جو ’عرب دشمنی‘ اور ’یہود دشمنی‘ دونوں کا تدارک کر سکے۔
اسرائیلی مظالم کے خاتمے کے لیے اٹھنے والی ہر آواز دبا دی جاتی ہے، جب کہ حماس پر الزامات کی بازگشت امریکا میں ہر سطح پر سنائی دے رہی ہے۔ اس غیر متوازن صورتِ حال کا باعث یہی ہے کہ ’یہود دشمنی‘ کو ایک ایسا ہتھیار بنا لیا گیا ہے، جس کی وجہ سے اسی قدر ہولناک جرائم اور اسرائیل کے خلاف ہونے والے واقعے سے کہیں زیادہ فلسطینی بچوں اور عورتوں کی قتل و غارت گری نظر انداز کی جا رہی ہے۔
فرانز کافکا کا یہ قول مشہور ہے:’’شاید تم ہر اس شے کو کھو دو جس سے تمھیں محبت ہے، لیکن آخر میں محبت کسی اور صورت میں تمھارے پاس لوٹ آئے گی۔‘‘ میری رائے میں یہی اصول دیگر انسانی جذبات مثلاً نفرت، بے زاری، غصے اور انتقام پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اربوں ڈالر کی عسکری اور معاشی امداد اور ہر ممکن طریقے سے فلسطینیوں کی نسل کشی میں معاون بننے والے امریکی حکام کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے۔
پوری دنیا اس صورتِ حال کو دیکھ ، سن اور پڑھ رہی ہے اور امریکی ریاست کو براہ راست فلسطینیوں کی خون ریزی کا حصہ بنتے ہوئے دیکھ کر لوگوں کا غصہ بڑھ رہا ہے۔ سیٹلائٹ ڈیٹا کی مدد سے اندازہ لگاتے ہوئے ایسوسی ایٹڈ پریس کا کہنا تھا: ’’غزہ میں اسرائیلی جارحیت نے ۲۰۱۲ء سے ۲۰۱۶ء کے درمیان شام کے شہر حلب میں ہونے والی تباہی، یوکرینی شہر ماریوپول کی بربادی، اور دوسری جنگ عظیم میں اتحادیوں کی جانب سے جرمنی پر ہونے والی بمباری کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اب یہ جنگ حالیہ تاریخ کی سب سے ہولناک اور خون ریز جنگ بن چکی ہے‘‘۔
مرنے اور ملبے میں دب کر لاپتہ ہونے والے ہزاروں شہریوں سے کہیں زیادہ تعداد ان کی ہے جو زخمی یا معذور ہو چکے ہیں۔ ان میں ہزاروں بچے بھی شامل ہیں۔ یونیسف کے مطابق ’’کتنے ہی بچے ایسے ہیں جو اپنی ٹانگ یا بازو کے نقصان کو رو رہے ہیں۔ غزہ کی یہ تکلیف ٹیلی ویژن اور دیگر تمام ممکنہ ذرائع مواصلات پر براہِ راست دکھائی جا رہی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ساری دنیاکے لوگ فلسطینی بچوں کی تکلیف میں شامل ہیں، لیکن اس نسل کشی کو روکنے کے لیے کوئی قدم اٹھانے سے قاصر ہیں‘‘۔
اگرچہ تمام یورپی ممالک اپنی رائے کو بدلتے ہوئے غزہ میں مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کر چکے ہیں،لیکن واشنگٹن نے ایسے تمام مطالبوں کو رد کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ۱۸؍اکتوبر کو جنگ بندی کے لیے کی جانے والی پہلی سنجیدہ کوشش کو ’ویٹو‘ کرتے ہوئے امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ کا کہنا تھا کہ ’’اسرائیل کو اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج آرٹیکل ۵۱کے مطابق اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔‘‘یہ منطق ساری دنیا کے سامنے غزہ کی جنگ کا پس منظر واضح ہونے کے بعد بھی امریکی حکام کی جانب سے کئی موقعوں پر دُہرائی جا چکی ہے۔ خودغرضی پر مبنی یہ منطق بین الاقوامی اور انسانی حقوق کے خلاف ہے، جن کے مطابق جنگ کے دوران بھی نہتے شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا جاسکتا اور نہ جنگ کا شکار ہونے والے عام شہریوں تک امداد کی رسائی کو روکا جاسکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بننے والوں میں اکثریت عام شہریوں کی ہے اور اس میں بھی ۷۰ فی صد تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ مزید برآں، اسرائیل کے غیر انسانی اقدامات کے باعث غزہ کی بچ جانے والی آبادی کو اب قحط کا سامنا ہے، جس کی مثال ہمیں فلسطین کی حالیہ تاریخ میں اس سے قبل نہیں ملتی۔ چنانچہ اسرائیل خوراک، ادویات، ایندھن اور دیگر فوری ضرورت کی اشیا کا قحط پیدا کر کے واشنگٹن کے اپنے قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ بیرونی امداد سے متعلق امریکی قانون کے سیکشن ۶۲۰۱ کے مطابق: ’’کسی ایسے ملک کو امداد نہیں دی جائے گی جس کے متعلق صدر کو یہ علم ہو کہ یہ بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر امریکی امداد کی رسائی میں رکاوٹ ڈال رہا ہے یا ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے‘‘۔
امریکا میں بائیڈن حکومت نے مجبور کرنا تو درکنار، اسرائیلی حکومت پر یہ زور بھی نہیں دیا ہے کہ وہ فلسطینیوں کی حالیہ نسل کشی کے دوران انسانیت کے بالکل بنیادی قوانین کا احترام کرے۔ اس کے برعکس صدر بائیڈن اس جنگ کو طول دینے کے لیے درکار تمام وسائل اسرائیلی حکومت کو مہیا کر رہے ہیں۔
اسرائیلی چینل ۱۲ پہ ۲۵دسمبر کی رپورٹ کے مطابق تقریباً ۲۰بحری بیڑے اور ۲۴۴کے قریب امریکی ہوائی جہاز، ۱۰ ہزار ٹن سے زائد اسلحہ و بارود اسرائیل پہنچا چکے ہیں۔ اس فوجی رسد میں تقریباً ۱۰۰؍ایسے ۲ہزارپاؤنڈ کے بنکر شکن بم بھی شامل ہیں، جو اس جنگ میں مسلسل استعمال ہوتے آرہے ہیں اورہر دفعہ سیکڑوں شہریوں کی ہلاکت کا باعث بنتے ہیں۔ جنگ کے آغاز سے اب تک امریکا نے جو قابل ذکر قدم اٹھایا ہے، وہ بحیرہ احمر میں ’آپریشن پراسپیریٹی گارڈین‘ کے نام سے ایک اتحاد کی تشکیل ہے، تا کہ اسرائیل سے آنے جانے والے بحری جہازوں کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔
گمان غالب ہے کہ امریکا نے اپنے ماضی، عراق جنگ اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ وغیرہ سے کچھ نہیں سیکھا ہے، کیونکہ یہ آج بھی اسرائیلیوں ، فلسطینیوں، عربوں اور مسلمانوں کی حمایت میں توازن پیدا کرنے میں ناکام ہے۔ دوسری طرف کچھ امریکی حکام حقیقت سے بالکل ہی لاتعلق نظر آتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس میں گذشتہ ماہ ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی کا کہنا تھا کہ ’’آپ مجھے کسی ایک ملک، دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کا نام بتا دیں جو امریکا سے زیادہ فلسطینیوں کے دکھ درد کا مداوا کرنے کی کوشش کر رہا ہو، تو مجھے یقین ہے کہ آپ نہیں بتا سکیں گے‘‘۔ لیکن یہ سوال موجود ہے کہ بدنام زمانہ اسمارٹ بم، بنکر شکن بم، اور ہزاروں ٹن اسلحہ بارود ’فلسطینیوں کے دکھ درد کا مداوا‘ کیسے کر سکے گا؟
اگر جان کربی فلسطینیوں کی نسل کشی میں اپنی ریاست کے کردار سے لاعلم ہیں تو میرے خیال میں امریکی خارجہ پالیسی کا بحران ہماری توقعات سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ اگر وہ اس سب سے باخبر ہیں، جو کہ انھیں ہونا چاہیے، تو امریکا کا اخلاقی بحران ہماری حالیہ تاریخ کی بدترین مثال ہے۔ امریکی سیاست کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں انتظامیہ کی تمام تر توجہ اسی بات پر رہتی ہے کہ ان کا کوئی عمل یا بے عملی آیندہ انتخابات میں ان کی جماعت کے لیے کن مضمرات کا باعث بنے گی۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تاریخ نہ ہر چارسال بعد نومبر کی ایک مقررہ تاریخ سے شروع ہوتی ہے اور نہ اس پر اس کا خاتمہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ کافکا نے کہا تھا، ’’آخر میں محبت کسی اور صورت میں تمھارے پاس لوٹ آئے گی‘‘۔ ان کی بات درست ہے لیکن نفرت بھی اسی طرح واپس آ سکتی ہے جس کا اظہار عجیب و غریب طریقوں سے ہوتا ہے۔ خود امریکا کو اپنے تجربات کی بنیاد پر سب ملکوں سے زیادہ اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے تھا، مگر وہاں کوئی مردِ دانش یہ بات کرتا دکھائی نہیں دیتا۔
ہر مسلمان کا دل رنجیدہ ہے۔ ہر توحید پرست کا دل زخمی ہے۔ ہر بندۂ مومن کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ مگر یہ رنجید گی، یہ زخم اور آنسوؤں کی برکھا، کسی بندوق کی گولی، بم کے ٹکڑے یا تلوار کے وار کا نتیجہ نہیں ہے۔ یہ بے چارگی دراصل حرمین الشریفین سے نسبت رکھتی ہے۔
اگر کوئی عام تنازع نہ ہو توریاستوں کے درمیان سفارتی اور تجارتی تعلقات کے فروغ میں کسی کے لیے اعتراض کی کوئی بات نہیں ہوتی۔ لیکن ہر ملک محض تجارت کی منڈی اور سفارت کی مسند پر نہیں جھول رہا ہو تا، بلکہ ان مفادات کے ساتھ اپنی تاریخ و تہذیب کے کچھ سوالات بھی پیش نظر رکھتا ہے۔ سعودی عرب کی مادی ترقی پر سبھی مسلمان خوش ہیں، لیکن سعودی عرب محض دوسو ملکوں میں سے ایک ملک نہیں ہے۔ حرمین الشریفین کی مناسبت سے یہ ملک پہچان اور بڑے منفرد تقاضے رکھتا ہے، جس سے نہ وہ چھٹکارا پا سکتا ہے اور نہ مسلم دنیا کی توقعات کو وہاں کے حکمران روند سکتے ہیں۔
جیسا کہ اس تحریر کے شروع میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کےدل خون کے آنسورو ر ہے ہیں تو اس تلخ نوائی کا حوالہ یہ ہے کہ بھارت میں ایک ایسی حکومت اپنے مسلم دشمنی پر مبنی ایجنڈے کو تیزی سے آگے بڑھا رہی ہے، جو: مسلمانوں کو قتل و غارت میں جھونکنے، مسجدوں کو شہید کرنے، ہجومی قتل عام کی سرپرستی کرنے، مسلمان عورتوں کی بے حرمتی کرنے کے واقعات کو بڑھاوا دینے اور بہت سے نوجوانوں کو مقدمات کے بغیر جیلوں میں پھینک دینے جیسی کارروائیوں میں مصروف ہے۔
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (RSS) کی سرپرستی میں قائم اس بدنام حکومت کی وزیر برائے اقلیتی اُمور، سمرتی ایرانی، جن کے ہمراہ خارجہ امور کے وزیر مملکت مرلی دھرن بھی تھے، انھوں نے مدینہ منورہ کا دورہ کیا ۔ سمرتی نے اُسی روز یعنی ۸جنوری کو اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر بڑی خوشی سے اپنی نوعدد تصویریں شائع کرتے ہوئے لکھا ’’آج میں مدینہ کے تاریخی سفر پر نکلی، جو اسلام کے متبرک ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ اس میں مسجد نبویؐ کے اطراف کی زیارت کرنے کے ساتھ ہی احد پہاڑ اور مسجد قبا کی بیرونی حدود شامل ہیں‘‘۔ انڈین سرکاری نشریاتی ادارے ’دوردرشن‘ نے اس دورے کو غیر معمولی اور تاریخی واقعہ قرار دیتے ہوئے کہا: ’’یہ پہلا موقع ہے کہ جب ایک غیر مسلم وفد کا استقبال مدینہ میں کیا گیا، جس سے انڈیا اور سعودی عرب کے غیرمعمولی رشتوں کی عکاسی ہوتی ہے‘‘۔
مراٹھی زبان میں ہندو نسل پرست اخبار سناتن پرابھات نے ۱۲ جنوری کی اشاعت میں فخریہ لہجے میں لکھا:’’بھارتی یونین وزیر سمرتی ایرانی نے مسلمانوں کے مقدس شہر مدینہ کا دورہ کیا،جہاں عورتیں سر ڈھانپ کر جاتی ہیں، وہاں سمرتی اپنی ساڑھی میں ملبوس گئی اور اپنے سر کو بالکل نہیں ڈھانپا۔ سعودی عرب نے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا، لیکن پاکستان والے اس بات پر ضرور پریشان ہیں۔‘‘ بی بی سی لندن نے اس استقبال کو ’’غیر معمولی تاریخی واقعہ‘‘ قرار دیا۔
بنگلہ دیشی تسلیمہ نسرین نے اپنے بیان میں لکھا، ’’میں سمرتی کو سلام پیش کرتی ہوں کہ اس نے سر نہیں ڈھانپا‘‘۔ جرمن ٹیلی ویژن کے مطابق:’’ایک بھارتی میڈیا پرسن نے لکھا ہے: آپ نے ایک کٹر مسلم ملک میں سر نہ ڈھانپ کر اپنی حقیقی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے‘‘ ۔
جواہر لال نہرو کے ہاتھوں ۱۹۳۷ء میں جاری کردہ اخبار قومی آواز (۱۴جنوری ۲۰۲۴ء) کے مطابق: ’’۲۰۲۱ ء میں ولی عہد نےمدینہ منورہ میں غیر مسلموں کے لیے داخلے سے متعلق بورڈ ہٹادیےتھے۔ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ اس دورے کے پیچھے وزیر موصوفہ کی اپنی ذاتی خواہش تھی یا سعودی حکام کی جانب سے خود کو لبرل دکھانے کی ایک کوشش؟ بہر حال، اس واقعے سے اتنا اندازہ ہو گیا ہے کہ سعودی حکام آنے والے دنوں میں یہ عمل مکہ مکرمہ میں بھی دکھا سکتے ہیں۔ ویسے سمرتی ایرانی کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے کبھی بھی اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی کو چھپانے کی کوشش نہیں کی، بلکہ جہاں اور جب جب موقع ملا ہے کھل کر اپنی ذہنیت کا مظاہرہ کیا‘‘۔ یہی اخبار مزید لکھتا ہے: ’’سمرتی کے دورے سے پہلے تک سعودی حکمرانوں نے بھی حرم مکہ کی طرح حرم مدینہ میں بھی غیر مسلموں، کے داخل ہونے پر پابندی عائد کر رکھی تھی، اور اس پالیسی کے تحت حدودِ حرم پر باضابطہ علانیہ بورڈ لگائے جاتے تھے، جس میں حرم مدینہ کے راستوں پر ’’صرف مسلمین‘‘ (Only Muslims)کے بورڈ لگا ئےجاتے تھے۔اب ۹۴ سال بعد اچانک مدینۃ الرسول میں غیرمسلموں کو عزت و احترام سے بلانا کیا ظاہر کرتا ہے؟‘‘
اسی طرح اُردو العربیہ ڈاٹ نیٹ (۴؍مئی۲۰۲۱ء) کا یہ شذرہ دیکھیے: ’’سعودی عرب کی حکومت نے مذہبی رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مدینہ منورہ میں داخلے کے راستوں پر غیرمسلموں، اور مسلمانوں کے لیے مختص راستوں کی راہ نمائی کے لیے لگائے گئے بورڈوں پر اصطلاحات تبدیل کرنا شروع کر دی ہیں۔ اس ضمن میں پہلی تبدیلی لفظ ’غیرمسلم‘ کے بجائے ’حدود حرم‘ کی شکل میں سامنے آئی ہے۔ ماضی میں یہ عبارت مدینہ منورہ کے تقدس کے پیش نظر اپنائی گئی تھی کہ ’حرمِ مکی‘ کی طرح ’حرمِ مدنی‘ میں بھی غیر مسلم داخل نہیں ہوسکتے تھے‘‘۔ بی بی سی (۹جنوری ۲۰۲۴ء) کےمطابق: ’’سعودی ’ای ویزہ‘ ویب سائٹ کے مطابق غیر مسلم افراد کو مدینہ کی سیر کی دعوت دی جاتی ہے، تاہم مسجد نبویؐ کے احاطے میں ان کا داخلہ ممنوع ہے‘‘۔
ان تفصیلات کا مقصد یہ ہے کہ چودہ سو سال سے اختیار اور نافذ کیے گئے فیصلے اور روایت کو ختم کرنے کا مقصد کیا ہے؟ کیا حرمِ مدنی کے حوالے سے حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کے فیصلے کو تبدیل کرنا پیش نظر ہے؟ اور کیا اس کا سبب واقعی مغربی دنیا کے سامنے لبرل بننے کی خواہش ہے؟
تین احادیث نبویؐ الجامع الصحیح سے مطالعے کے لیے درج کی جاتی ہیں:
l…’’ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، ان سے ثابت بن یزید نے بیان کیا، ان سے ابوعبدالرحمٰن احول عاصم نے بیان کیا، اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مدینہ حرم ہے فلاں جگہ سے فلاں جگہ تک (یعنی جبل عیر سے ثور تک )۔ اس حد میں کوئی درخت نہ کاٹا جائے نہ کوئی بدعت کی جائے اور جس نے بھی یہاں کوئی بدعت نکالی اس پر اللہ تعالیٰ اور تمام ملائکہ اور انسانوں کی لعنت ہے‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب فضائل المدینہ،حدیث: ۱۸۶۷) [یعنی حرم مدینہ کا بھی وہی حکم ہے، جو مکہ کے حرم کا ہے۔ امام مالک اور امام شافعی اور احمد بن حنبل اور اہل حدیث کا یہی مذہب ہے]۔
l…’’ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن بلال نے، ان سے عبید اللہ نے، ان سے سعید مقبری نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مدینہ کے دونوں پتھریلے کناروں میں جو زمین ہے وہ میری زبان پر حرم ٹھہرائی گئی۔ حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ نبی کریمؐ بنوحارثہ کے پاس آئے اور فرمایا بنوحارثہ ! میرا خیال ہے کہ تم لوگ حرم سے باہر ہو گئے ہو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مڑ کر دیکھا اور فرمایا کہ نہیں بلکہ تم لوگ حرم کے اندر ہی ہو۔(رقم: ۱۸۶۹)
l…ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالرحمان بن مہدی نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے، ان سے اعمش نے، ان سے ان کے والد یزید بن شریک نے اور ان سے علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے پاس کتاب اللہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس صحیفہ کے سوا جو نبی کریم ؐ کے حوالے سے ہے اور کوئی چیز (شرعی احکام سے متعلق ) لکھی ہوئی صورت میں نہیں ہے۔ آنحضرتؐ نے فرمایا: مدینہ عائر پہاڑی سے لے کر فلاں مقام تک حرم ہے، جس نے اس حد میں کوئی بدعت نکالی یا کسی بدعتی کو پناہ دی تو اس پر اللہ اور تمام ملائکہ اورانسانوں کی لعنت ہے…آپؐ نے فرمایا کہ تمام مسلمانوں میں سے کسی کا بھی عہد کافی ہے۔ اس لیے اگر کسی مسلمان کی (دی ہوئی امان میں دوسرے مسلمان نے ) بدعہدی کی تو اس پر اللہ تعالیٰ اور تمام ملائکہ اور انسانوں کی لعنت ہے۔ نہ اس کی کوئی فرض عبادت مقبول ہے، نہ نفل۔(رقم:۱۸۷۰)
ہمیں اس بات سے غرض نہیں کہ مملکت سعودی عرب مادی ترقی کے لیے کن راستوں کا انتخاب کرتی ہے (اگرچہ اسلامی شریعت اس معاملے میں بھی واضح احکامات بیان کرتی ہے)۔ تاہم، یہ ضرور عرض کیے دیتے ہیں کہ حرمین الشریفین کسی بادشاہ کی ملکیت نہیں ہیں اور نہ اسلامیانِ عالم اُن کی رعایا ہیں۔ اس لیے وہ تقریباً دو ارب مسلمانوں کے جذبات و احساسات کا احساس کریں اور چودہ سو برس کی تاریخ کا احترام کریں۔ مدینہ منورہ کو ٹورسٹ سنٹر بنانے سے اجتناب برتیں، اور ایسے راستے نکالنے کے لیے درباری علما کی فتویٰ نویسی پر اعتماد کرنے کے بجائے، اللہ اور اس کے رسولؐ سے اپنی محبت کو فروغ دیں، کہ جس پر وہ عشروں سے کاربند چلے آئے ہیں۔
اسی طرح اُن علما اور دانش وروں سے درخواست ہے کہ وہ وہاں کانفرنسوں میںجا کر محض میزبانی کا لطف نہ اٹھائیں بلکہ جس دین کی بنیاد پر وہ یہ اعزاز حاصل کرتے ہیں، اس کی تعلیمات کے مطابق حکمرانوں تک اپنے سچے اور حقیقی جذبات پہنچا کر، انھیں غلط فیصلوں سے منع کریں۔
جنوری ۱۹۶۴ء کو صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں کی حکومت نے جماعت اسلامی پاکستان پر پابندی عائد کردی، دفاتر سربمہر کردیئے، امیرجماعت اسلامی مولانا مودودی سمیت مرکزی مجلس شوریٰ کے ارکان کو گرفتار کرلیا اور ماہنامہ ترجمان القرآن کا ڈیکلریشن منسوخ کرکے اشاعت روک دی۔ اس لیے ترجمان القرآن، فروری ۱۹۶۴ءسے جون ۱۹۶۴ء تک شائع نہیں ہوا۔(ادارہ)