کچھ قومیں دنیا میں ترقی کرتی ہیں‘ غلبہ اور کامرانی اُن کے حصے میں آتا ہے‘ وہ دنیا پر چھا جاتی ہیں۔ تہذیب‘ تمدن‘ علم‘ ہر لحاظ سے انھی کا سکہ چلتا ہے‘ لیکن پھر مختلف انداز سے زوال کا شکار ہو جاتی ہیں۔ کچھ محض ماضی کی داستان بن کر رہ جاتی ہیں اور صرف تاریخ کے اوراق میں اُن کا ذکر پڑھا جا سکتا ہے۔ کچھ ایک لمبے عرصے کے لیے پستی اور گم نامی کے پردے میں چلی جاتی ہیں۔ کچھ ایسی ہوتی ہیں جو کبھی بھی‘ اس سے نہیں نکلتیں اور کچھ ایسی ہوتی ہیںجو طویل عرصے کے بعد پھر اُبھر کر سامنے آجاتی ہیں۔
یہ سوال ہر سوچنے والے انسان کو ہمیشہ ہی پریشان کرتے رہے ہیں۔ ان کا جواب بھی لوگ دیتے رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب اور اپنے نبیؐ کی معرفت دنیا کو ہدایت دی ہے اورجو آخری ہدایت ہمارے پاس موجود ہے اس میں بھی قوموں کے عروج و زوال سے کافی تفصیل کے ساتھ بحث کی گئی ہے۔ قوموں کا ذکر ہے‘ اُن کے کردار اور اُن کے افعال کا بیان ہے‘اُن پر عذاب آنے یا نجات پانے کا ذکر کیا گیاہے۔ یہ اس لیے ہے کہ انسان دنیا کے اندر ہمیشہ کسی گروہ‘ یا کسی قوم‘ یا کسی اجتماعیت کا حصہ بن کر رہتا ہے۔ لہٰذا اگر اُس کو راہِ راست پہ قائم رہنا ہے تو وہ اجتماعیت اور قوم سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ وہ پیدا ہوتا ہے تو اس صورت میں کہ دو انسان مل کر ایک خاندان کی اجتماعیت کو وجود میں لاتے ہیں۔ آنکھ کھولتا ہے توخاندان‘ محلہ‘ اسکول‘ ہر جگہ‘ اُس کی زندگی کا ہر گوشہ دوسرے انسانوںکے ساتھ تعلقات کے اندر بندھا ہوتا ہے۔ بہت ہی تھوڑی زندگی ہے جس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسان دوسرے انسانوں سے بالکل آزاد اور بے نیاز ہو کر گزارتاہے۔ لیکن یہ بھی باہر سے متاثر ہوتی ہے۔ دل میں خیالات اُٹھتے ہیں‘ غصہ آتا ہے‘ محبت ہوتی ہے‘ جذبات پیدا ہوتے ہیں‘ یہ سب باہر سے متاثر ہوتے ہیں۔ اسی لیے وہ لوگ جو کسی ایک خاص پہلو سے انسان کا مطالعہ کرتے ہیں جب وہ اجتماعیت کے نقطۂ نظر سے انسان کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ دراصل انسان اپنی قوم یا اپنے معاشرے یا اپنی اجتماعی زندگی کی پیداوار ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انسان تو ایک social animal ‘ یعنی معاشرتی حیوان ہے۔ حالانکہ معاشرے اور اجتماعیت کے لحاظ سے بہت سے جانور بھی بڑی زبردست اجتماعیت اور قومیت اپنے اندر رکھتے ہیں۔ اس کی ایک مثال شہد کی مکھیوں کی ہے۔ اگر آپ نے سنا یا پڑھا ہو تو آپ واقف ہوں گے کہ ان کے اندر کتنی زبردست اجتماعیت پائی جاتی ہے۔
قرآن مجید نے اپنے انبیا‘ اپنی دعوت‘ ایمان اور عملِ صالح کی مناسبت سے کامیابی کے جو مژدے سنائے ہیں اُن کی بنیاد پر‘ آج دنیا کے اندر اُس کی نافرمان قوموں کو غالب دیکھ کر ذہن میں سوال پیدا ہوتے ہیں۔ اس لیے اس موضوع کا بڑا گہرا تعلق ہدایت اور قرآن مجید کو سمجھنے سے ہے۔ اگر اصلاح و تغیر اور انقلاب کا کام کرنا ہے تو اُس کے لیے بھی اُن قوانین کو سمجھنا ضروری ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت اس سلسلے میں ہم کو دیے ہیں۔
انسان کی یہ عادت ہے اور صحیح ہے کہ جن چیزوں کو وہ نہیں جانتا اور سمجھنا چاہتا ہے‘ اُن کو وہ اُن کی معرفت جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرتا ہے جواُس کی فہم اور سمجھ کے دائرے کے اندر آتے ہیں۔ وہ یہ تو نہیں جانتاکہ قومیں کیوں پیدا ہوتی ہیں؟کیوںترقی کی منزلیں طے کرتی ہیں؟ اور کیوں زوال کے گڑھے میں جاگرتی ہیں؟ لیکن بہت سارے ایسے واقعات اور مظاہر موجود ہیں جو اسی عمل سے گزرتے ہیں اور انھیں وہ جانتا ہے۔ وہ درخت کا بیج بوتا ہے‘ اُس سے تنا نکلتا ہے‘ درخت جوان ہوتا ہے‘ اُس کے بعد خزاں کا شکار ہوتا ہے اور مٹی میں مل جاتا ہے۔ یہ بھی ایک عروج و زوال کی داستان ہے جو اُس کی نگاہوں کے سامنے برابر پیش آتی ہے۔ وہ روز یہ دیکھتا ہے کہ سورج آہستہ آہستہ نکلتا ہے‘ پھر اُس کی روشنی بڑھنا شروع ہوتی ہے‘ پھر وہ نصف النہار پر پہنچتا ہے‘ اور اُس کے بعد زوال کی طرف جانا شروع کرتا ہے اور آخرکار ڈوب جاتا ہے۔ عروج و زوال کا ایک اور مظاہرہ بھی اُس کے سامنے ہوتا ہے۔ وہ انسان کو دیکھتا ہے کہ وہ پیدا ہوتا ہے‘ بچہ ہوتا ہے‘ اس کے بعد جوانی کی قوتیں آتی ہیں‘ شباب کے عالم میں وہ زندگی گزارتا ہے‘ پھر اُس کے قویٰ مضمحل ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ سوچنے سمجھنے کی قوتیں جواب دینا شروع کر دیتی ہیں‘ جسم بھی جواب دینے لگتا ہے‘ بالآخر وہ بوڑھا ہوکر قبرکے گڑھے میں پہنچ جاتا ہے۔ عروج و زوال کے یہ منظر انسان کی نگاہوں کے سامنے رہتے ہیں۔ اِن کو وہ سمجھ سکتاہے اور دیکھ سکتا ہے۔ جب وہ بغیر کسی ہدایت کے غور کرتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ انھی میں سے کس طریقے یا ماڈل کے مطابق قومیں بھی اُٹھتی اور نیچے گرتی ہیں۔ یا پھر یہ رات اور دن کے چکر کی طرح ایک ناقابلِ مفر چکر ہے۔ اس سے کوئی بھاگ نہیں سکتا۔ دن کا کوئی لمحہ اُس انجام سے بھاگ نہیں سکتا جو اس کے لیے مقرر ہے۔ اگر ۱۲ بجے کے لیے عروج لکھا ہوا ہے تو ہمیشہ ۱۲ بجے عروج ہوگا اور چھ بجے شام کے لیے اگر زوال لکھا ہوا ہے تو اس وقت ہمیشہ زوال ہوگا۔
درخت اور انسان طبیعی وجود تو نہیں رکھتے لیکن ایک حیاتیاتی وجود ضرور رکھتے ہیں۔ یہ اِن ساری منازل سے گزرتے ہیں اور اس سے ان کو کوئی مفر نہیں ہے۔ جوان دوبارہ بچہ نہیں ہو سکتا‘ بوڑھا دوبارہ جوان نہیں بن سکتا۔ موت سے دوبارہ زندگی کی طرف واپسی نہیں ہوسکتی۔ یہ ایک ناگزیر عمل ہے۔
مفکرین نے عروج و زوال کے بارے میں جو بھی قوانین بنائے‘ تجویز کیے‘ سوچے‘ وضع کیے‘ وہ انھی چیزوں کے گرد گھومتے ہیں۔ ایک نظریہ cyclical ہے‘ یعنی ایک چکر ہے جس سے ہر قوم کو گزرنا ہے‘ اس سے کوئی مفرنہیں۔ ایک حیاتیاتی نظریہ ہے۔ دیگر نظریات بھی ہیں لیکن ہم ان کے اندر بڑے بڑے نظریات کو سمیٹ سکتے ہیں۔ یہ تمہید میں نے اس لیے باندھی ہے کہ قرآنِ مجید نے اس ضمن میں جو بالکل منفرد رہنمائی دی ہے‘ اُس کو بخوبی سمجھا جا سکے اور اُس کی جو گراں قدر قیمت ہے اُس کو بھی محسوس کیا جا سکے۔
قرآنِمجید جو پہلی بات بہت ہی وضاحت کے ساتھ بیان کرتا ہے وہ یہ ہے کہ فرد کی زندگی ایک حیاتیاتی چکر کے ساتھ بندھی ہوئی ہے: پیدایش‘ بچپن‘ جوانی‘ بڑھاپا اور موت۔ ہرآدمی کو اِس پورے چکر سے یا اس کے بعض مراحل سے گزرنا پڑے گا۔ بچپن کے بعدبھی مر سکتا ہے اور بوڑھا ہو کر بھی مر سکتا ہے۔ میں آیات کے حوالے نہیں دوں گا مگر قرآنِ مجید میں آپ کو‘ اس مضمون کی بہت ساری آیات مل جائیں گی۔ اُس نے کہا ہے کہ انسان کا جو آخری مقدر ہے وہ ہلاکت‘ یعنی موت سے دوچار ہونا ہے۔ کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِط (اٰل عمران ۳:۱۸۵) ’’ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے‘‘۔
اس عمل کا کوئی تعلق‘ اُس فرد کے اعمال سے‘ یا اُس کے اخلاق سے‘ یا اُس کے ایمان سے نہیں ہے‘ اور نہ اُس کی معنوی‘ اخلاقی‘ روحانی‘ علمی اور ایمانی زندگی سے ہے۔ وہ کافر ہو یا مسلمان‘ وہ نبی ہو یا شیطان‘ وہ مطیع و فرماں بردار ہو یا فاسق و فاجر‘ ہر ایک اس عمل سے گزرتا ہے۔ انسان کو اس عمل سے گزرتے ہوئے جو کچھ بھی پیش آتا ہے وہ بالعموم اُس کے اخلاقی اعمال کا نتیجہ نہیں ہوتا۔ اگر شراب پینے سے کسی کی صحت خراب ہوتی ہے تو شراب پینے کی ایک حیثیت اخلاقی ہے اور ایک طبیعی ہے۔ کوئی زہر کھائے گا تو مر جائے گا‘ شراب پیے گا تو اُس کا جگر خراب ہوجائے گا۔ اِس کا کوئی تعلق اُس کے اخلاقی فعل سے نہیں ہے بلکہ طبیعی اثر سے ہے جو رونما ہوتا ہے۔ کسی کو کینسرہوجاتا ہے‘ کوئی اور بیماری ہوجاتی ہے تو اس کا کوئی تعلق اُس کے اعمال سے نہیں ہے۔ اُس کو موت آتی ہے تو اس لیے نہیں آتی کہ وہ برے کام کرتا ہے بلکہ اس لیے آتی ہے کہ کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ ِط (اٰل عمران ۳:۱۸۵)۔یہ بڑی اہم اور پہلی بات ہے جس کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر آگے کی بات نہیں سمجھی جاسکتی۔
قرآنِ مجید برملا اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ اس کے برعکس قوموں کی زندگی اعمال اور اخلاق کے ساتھ بندھی ہوئی ہے۔ اگر اُن کو ترقی اور عروج نصیب ہوتا ہے تو وہ اخلاق اور اعمال کی وجہ سے ہے اور اگر وہ زوال کا شکار ہوتی ہیں تو وہ اعمال اور اخلاق کی وجہ سے ہی ہوتی ہیں۔ اِس میں کسی طبیعی چیز کو دخل نہیں ہے بلکہ اصل چیز اعمال ہیں۔ اصل قوت اخلاق کی قوت ہے۔ ایمان اور تقویٰ ہو تو آسمان اور زمین سے بھی نعمتوں کی بارش ہوگی۔ اگرقومیں استغفار کریں گی توآسمان سے بارشیں ہوں گی‘ زمین سے چشمے اگلیں گے اور کھیتیاں اگیں گی اور قوم پر بہار آئے گی۔ اگر ہلاکت اور زوال حصے میں آئے گا تووہ بھی اپنے اعمال کی وجہ سے ہی آئے گا۔ فَکُلاًّ اَخَذْنَا بِذَنْبِہٖم ج (العنکبوت ۲۹:۴۰) ’’آخرکار ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ میں پکڑا‘‘۔ فَھَلْ یُھْلَکُ اِلاَّ الْقَوْمُ الْفٰسِقُوْنَo (الاحقاف ۴۶:۳۵)‘ اِلاَّ الْقَوْمُ الظّٰلِمُوْنَ o (الانعام ۶:۴۷)‘ یعنی مجرموں‘ ظالموں‘ فاسقوں کے علاوہ کسی کو ہلاک نہیں کیا جاتا۔ ہلاکت‘ بربادی اور زوال‘ اگر ہے تو صرف اپنے اعمال کی وجہ سے ہے۔ یہ حقیقت بڑی نمایاں ہے‘ اور یہی قرآنِ مجید کی تعلیم کی‘ اور اس کے قانون کی بنیاد ہے۔ اس سے اور بہت ساری شاخیں پھوٹیںگی لیکن اس کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔
اس کا تعلق اس بات سے بھی ہے کہ قرآنِ مجید کی نظر میں انسانی زندگی دنیا تک محدود نہیں ہے بلکہ انسان کے لیے موت کے بعد بھی ایک اور دنیا اور ایک اور زندگی ہے۔ اُس دنیا میں اور اُس زندگی میں ہر فرد اپنی انفرادی حیثیت سے اپنے اعمال اور اپنے کارنامۂ زندگی کے لیے جواب دہ ہے۔ اگر یہاں اُس کو اپنے معنوی‘ اخلاقی اور روحانی اعمال کے لیے جزا اور سزا نہیں ملتی‘ تو یہ لازمی ہوا کہ ایک نقطۂ اختتام آئے‘ جہاں اُس کی مہلت عمل ختم ہو اور اُس کے بعد وہ اللہ کے سامنے حاضر ہو اور اپنے کارنامہ زندگی پر اجر و ثواب یا سزا پائے۔ چنانچہ اُس کی جو سوانحِ حیات ہے اُس کی تاریخ موت پر ختم نہیں ہوتی بلکہ موت کے بعد بھی جاری رہتی ہے۔ اگر اُس کو جزا اور سزا یہیں ملنا شروع ہو جائے تو موت کے بعد کا عمل مشکل ہو جائے گا۔ یہ ممکن بھی نہیں ہے کہ اُس کو اعمال کی جزا اور سزا یہاں مل سکے۔ اگرمولانا مودودیؒ کا ایک چھوٹا سا کتابچہ زندگی بعد موت کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ کیوں یہ ضروری ہے کہ انسان کی مہلت ِ عمل ختم کی جائے اور دنیا کا پورا نظام درہم برہم کیا جائے۔ دراصل اُس کا صحیح محاسبہ اُس کے بعد ہی ہوسکتا ہے۔ اس لیے کہ انسان کے اعمال کے اثرات بہت لمبے عرصے اور بہت دور کے دائرے پر محیط ہوتے ہیںجب تک کہ اُس کی زندگی اور یہ دنیا ختم نہ ہو‘ان کو سمیٹا نہیں جا سکتا ۔
دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کوئی قوم بحیثیت قوم اللہ کے سامنے‘ اپنے اعمال کی جواب دہی کے لیے آخرت کے دن کھڑی نہیں ہوگی۔ اس لیے کہ قوم کی مثال تو ایک دریا کی طرح ہے۔ وقت کے کسی لمحے میں بھی بہت سارے قطرات آتے ہیں‘ ملتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔ قوم کوئی ایسی چیز نہیں کہ اللہ تعالیٰ گردن سے پکڑ کر کہے کہ تم کسی چیز کے لیے جواب دہ ہو۔ اُس میں ہر طرح کے لوگ ہو سکتے ہیں۔ نیک بھی ہوسکتے ہیں اور بد بھی۔ اچھے بھی ہوسکتے ہیں اور برے بھی۔ سب کو ایک لاٹھی سے ہانکنا عدل و انصاف کا تقاضا نہیں ہے۔ البتہ ہرشخص اللہ کے سامنے الگ الگ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات بھی قرآنِ مجید میں واضح طور پر بیان فرما دی ہے۔ پاکستانی قوم بحیثیت مجموعی‘ یا کوئی جماعت بحیثیت مجموعی یا کوئی تنظیم بحیثیت مجموعی اللہ کے سامنے جواب دہ نہیں ہوگی۔ اُس قوم میں‘ اُس جماعت میں‘ اُس تہذیب میں جو افراد برائیاں کرتے رہے ہیں وہ اپنی برائیوں کے لیے اور جو نیکیاں کرتے رہے ہیں وہ اپنی نیکیوں کے لیے اللہ کے سامنے جواب دہ ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ وہاں انصاف کا ہو نہیں سکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ قوموں کا عرصۂ محشر دنیا میں ختم ہوجائے‘ اور افراد کا عرصۂ محشر موت کے بعد شروع ہو۔ اس لیے یہ ضروری ہوا کہ قوموں کے عروج و زوال اور ہلاکت و بربادی کی داستان اُن کے اعمال مرتب کریں اور افراد کے وجود کا جو عروج و زوال ہے وہ ایک طبیعی‘ حیاتیاتی عمل ہو‘ اور اُس کو طبیعی قوتوں سے متعین اور مرتب کیا جائے۔ یہ دوسرا بڑااصول ہے جو قرآنِ مجید نے بڑی کثرت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ قرآن مجید کے جس ورق کو اُٹھا کر دیکھ لیجیے‘ قومِ عاد کا ذکر ہو یا قومِ لوط کا‘ اگر نجات دی گئی تو انبیاء اور اُن کے ساتھیوں کو اُن کے اعمالِ صالحہ کی وجہ سے دی گئی اور برباد کیا گیا تو اِس وجہ سے کہ لوگ برائی کے راستے پر پڑے تھے۔ برائیاں مختلف قسم کی تھیں لیکن اپنے گناہوں کی وجہ سے پکڑے گئے اور برباد کیے گئے۔ کسی انسان کو موت اُس کے گناہوں کی وجہ سے نہیں آتی۔ کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِط (اٰل عمران ۳:۱۸۵)کے عمومی اور بے لاگ قاعدے کی وجہ سے آتی ہے۔
اگر یہ دوسرا قانون بھی اچھی طرح ذہن نشین رہے تو پھر یہ بات واضح اور صاف ہے کہ عروج و زوال کا انحصار اخلاق اور اعمال پر ہے۔ انسان اپنے اخلاق اوراعمال پر اختیار رکھتا ہے۔ اگر وہ اختیار نہ رکھتا ہوتا تووہ جواب دہ نہ ہوتا۔ اُس کو اختیار دیا گیا ہے کہ چاہے تووہ نیکی کرے اور چاہے تو برائی‘ چاہے تو ایمان لائے اور چاہے تو انکار کر دے‘ چاہے تو اللہ کو مانے اور چاہے تو نہ مانے۔ اس کے لیے یہ بات نہیں کہی جاسکتی کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کا ہونا ناگزیر ہے یا جس سے کوئی مفر نہیں ہے یا جس کو پلٹا نہیں جا سکتا یا واپس نہیں لوٹایا جاسکتا۔ اگر انحصار طبیعی عوامل کے اُوپر ہے خواہ درخت کی زندگی ہے یا انسان کی زندگی‘ تو یقینا ناگزیر ہے کہ انسان بچپن‘ جوانی اور بڑھاپے سے گزر کر قبر کے گڑھے میں جائے‘ اِس سے کوئی مفر نہیں ہے۔ اعمال اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتے لیکن اگر قوموں کی زندگی صرف اخلاق و اعمال کے اُوپر منحصر ہے‘ تو اخلاق اور اعمال چونکہ اُس کے اپنے اختیار میں ہیں‘ اس لیے یہ اُس کے اختیار میں ہونا چاہیے کہ اگر وہ اُن قوانین کی پابندی شروع کر دے جن سے اللہ تعالیٰ نے قوموں کے عروج کو وابستہ کیا ہے تو وہ عروج کی طرف جا سکے اور اگر وہ اُن قوانین کی خلاف ورزی شروع کر دے تو وہ زوال کی طرف جا سکے۔ یہ بالکل ایک ایسی بات ہے جس سے انکار ممکن نہیں ہے۔ ہم اس کو آسانی کے ساتھ‘ سوچ سکتے ہیں‘ سمجھ سکتے ہیں۔ یہی بات اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تمھارے اختیار میں ہے۔
وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ (الاعراف ۷:۹۶) ’’اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے‘‘۔ انسان کے ساتھ یہ وعدہ نہیں ہے کہ اگر وہ ایمان و تقویٰ اپنائے تو اُس کا بڑھاپا جوانی میں بدل جائے گا‘ یہ نہیں ہوگا۔ یا اُس پر رزق کے دروازے کھل جائیں‘ یہ وعدہ نہیں ہے۔ ایک مومن مفلسی کے عالم میں زندگی بسر کر سکتا ہے لیکن بستی والوں سے اور قوموں سے وعدہ ہے اگر وہ ایمان و تقویٰ کا راستہ اختیار کریں توآسمان و زمین سے برکتوں کے دروازے کھل جائیں گے۔ اگر استغفار کریں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے یہ نعمتیں عطا کرے گا‘ یعنی دنیوی وعدے بھی ہیں۔ یہ دراصل اسی قانون کا نتیجہ ہے کہ قوموں کی زندگی اخلاق اور اعمال پر منحصر ہے۔
اس کے بعد چوتھا قانون جو بڑا اہم ہے وہ اخلاق اور قانون کی وہ بڑی وسیع تعریف ہے جو قرآن مجید نے بیان فرمائی ہے۔ عام طور سے ہمارے ذہنوں میں یہ موجود نہیں ہوتی۔ اسی لیے ہمارے ذہنوں میں طرح طرح کے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ ایمان بھی اسی اخلاق کا حصہ ہے اور ایمان کے معنی یہ ہیں کہ کسی چیز کے ساتھ‘ اخلاص کے ساتھ وابستگی اور اُس کو ماننا۔ چنانچہ ایمان بالباطل بھی ممکن ہے اور ایمان بالحق بھی ممکن ہے۔ ایمان تو خود ایک صفت ہے‘ وفاداری کی‘ وابستگی کی‘ کسی چیز کو مان لینے کی اور اُس پر جم جانے کی۔ یہ اخلاقی صفت ہے۔ یہ باطل کے ساتھ بھی ہو سکتی ہے اور حق کے ساتھ بھی۔ جس کے ساتھ یہ ہوگی اُس کا وزن زیادہ ہوگا۔
نفاق بھی ایک صفت ہے کہ کسی چیز کو نہ ماننا‘ نہ ماننے کے برابر ہونا‘ اُس کو نہ ماننے پر جمنا‘ اور دل میں ہمیشہ دو روش ہونا۔ یہ حق کے ساتھ بھی ہوسکتی ہے اور باطل کے ساتھ بھی۔ جو وعدہ ایمان کے ساتھ ہے‘ وہ نفاق کے ساتھ نہیں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ نفاق کی روش ہو اور شیطان کے ساتھ ایمان کی روش ہو تو شیطانی ایمان غالب آئے گا اور نفاق شکست کھائے گا‘ اس لیے کہ اصل قیمت ایمان کی ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ آدمی جس قانون کو مانتا ہو اُس کی پابندی کرے۔ اگر آدمی اللہ کا قانون مانتا ہو اور اُس کی پابندی نہ کرتا ہو تو وہ اس کی سزا پائے گا۔ ایک آدمی اللہ کا قانون نہ مانتا ہو‘ اپنا بنایا ہوا قانون مانتا ہو‘ لیکن اُس کی پابندی کرتا ہو تو قانون کی پابندی فی نفسہٖ اپنے اندر وہ قوت رکھتی ہے جو اُس کو غلبہ عطا کر دیتی ہے۔ ایک آدمی اللہ کو ماننے والا ہو لیکن اُس کے لیے محنت کرنے کو تیار نہ ہو‘ اور ایک آدمی شیطان کو ماننے والا ہو اور شیطان کے لیے محنت کرنے کو تیار ہو تو محنت فی نفسہٖ ایک اخلاقی قوت ہے جو کام کرے گی اور اس کا نتیجہ سامنے آکر رہے گا۔ ایک آدمی حق کے اُوپر ایمان رکھتا ہو لیکن اُس کے لیے تحقیق و اجتہاد اور علم سے عاری ہو تو یہ حق اُسے کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ اگر ایک قوم باطل پر ایمان رکھتی ہے لیکن تحقیق و اجتہاد اور جدت اور نئے مسائل کے حل نکالنے سے آراستہ ہے تو وہ غلبہ پائے گی۔ ایک قوم اگر صبح شام استغفراللہ کا ورد کرتی ہے لیکن اُس کے اندر احتساب اور جرم کرنے والوں کے لیے سزا کا کوئی نظام نہیں ہے تووہ قوم دنیا میں مغلوب ہوگی اور وہ قوم جو استغفراللہ کا ورد تو نہیں کرتی لیکن اُس نے اپنی قوم کے لیے جو ضابطہ بنایا ہے‘ جو دستور بنایا ہے‘ جن ضوابط کا وہ اپنے آپ کو پابند سمجھتی ہے‘ اُن کی پابندی کرتی ہے ‘ اور اگر کوئی غلطی کا ارتکاب کرتا ہے تواُس کو سزا دیتی ہے اور اُس میں کوئی رعایت نہیں کرتی ہے خواہ وہ اُس کا وزیر ہو‘ صدرِ ریاست ہو یا عام مجرم ہو‘ تو وہ غالب ہو کر رہے گی۔ احتساب‘ اپنی غلطیوں کا ادراک اور اُن کے اوپر داروگیر‘ وہ اخلاقی صفات ہیں جواُس کو غلبے سے ہم کنار کریں گی۔
اگر یہ اصول واضح ہو جائے کہ اخلاق کا دائرہ عورت اور شراب تک محدود نہیں ہے بلکہ اخلاق کا دائرہ وقت کی پابندی‘ اپنے مقاصد کے ساتھ لگن‘ اُن کے لیے محنت‘ اُن کی جستجو‘ اپنی قوم کے اندر انصاف‘ لوگوں کی برابری‘ مظلوم کی داد رسی‘ یہ بھی وہ چیزیں ہیں جو اخلاق کے اندر شامل ہیں‘ تو پھر یہ سوال اُٹھانے کی ضرورت نہیں رہتی کہ وہ قومیں جو ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت سے خالی ہیں وہ کیوں آگے ہیں اور ہماری وہ قوم جو ایک قرآن بھی رکھتی ہے‘ اللہ پر ایمان کی دعوے دار بھی ہے‘ نمازیں بھی پڑھتی ہے‘ روزے بھی رکھتی ہے‘ زکوٰۃ بھی دیتی ہے‘ وہ کیوں مغلوب ہے۔ اگر اخلاق کی جامع تعریف کو سامنے رکھا جائے جس کی ایک تشریح تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں میں کی گئی ہے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بنیادی انسانی اخلاقیات سب سے اہم ہیں اور انھی کی بنیاد پر اسلامی اخلاق تعمیر ہوتا ہے۔ اسلامی اخلاق کی حالت بھی اگر اتنی زار ونزار ہو کہ نہ ایمان قابلِ اعتبار ہو‘ نہ تقویٰ اور احسان موجود ہو تو پھر قوم محض نام کا لیبل لگانے سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔ مذکورہ کتابچے میں مولانامودودیؒ لکھتے ہیں کہ: تانبے کے سکے پر اشرفی کی مہر لگا دیں تو بازار میںنہیں چلے گا اور اگر بُھس بھرے ہوئے سپاہیوں کو آپ وردی پہنا دیں تو وہ نہیں لڑ سکتے‘ خواہ وہ وردی ایمان کی ہو اور ایمان باللہ کی وردی ہو۔ لیکن اگر جسم کے اندر طاقت موجود ہے اور خالص سونا موجود ہے تو وہ بازار میں چل سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ خالص ہی بازار کے اندر چل سکتا ہے‘ منافقت بازار میں نہیں چلتی۔ یہ بھی وہ قانون ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دیا ہے کہ زبانی دعویٰ قابلِ اعتبار نہیں ہے‘ اصل چیز تو عمل ہے۔ لِنَنْظُرَکَیْفَ تَعْمَلُوْنَo (یونس ۱۰:۱۴) ’’تاکہ ہم دیکھیں کہ تم کیسا عمل کرتے ہو‘‘۔ وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰیo (النجم ۵۳:۳۹) ’’اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اس نے سعی کی‘‘۔
کوشش اور محنت کا بدلہ انسان کو ملتا ہے‘ اور تقویٰ عمل کا نام ہے اور عمل پوری زندگی پر محیط ہے۔ آدمی جس کو صحیح مانتا اور جانتا ہو‘ اسی پر عمل کرتا ہے۔ اُس میں سے بعض چیزیں غلط بھی ہو سکتی ہیں۔ وہ سمجھتا ہے کہ شراب پینے میں کوئی حرج نہیں ہے‘ وہ شراب پیتا ہے۔ اس کے خیال میں زنا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے‘ وہ زنا کرتا ہے۔ اگر وہ سمجھتا ہے کہ جھوٹی گواہی نہیں دینا چاہیے‘ وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتا اور اگر وہ سمجھتا ہے کہ غریب کی مدد کرنا چاہیے‘ وہ غریب کی مدد کرتا ہے‘ اور اپنی جیب سے پیسہ نکال کے دیتا ہے۔ اگر وہ سمجھتا ہے کہ قانون کی پابندی کرنا چاہیے‘ وہ قانون کی پابندی کرتا ہے۔ اگر وہ سمجھتا ہے کہ رشوت دینا گناہ ہے‘ نہ وہ رشوت دیتا ہے اور نہ لیتا ہے۔ یہ وہ اخلاق ہیں جن کی بڑی قدروقیمت ہے بلکہ بعض احادیث کی رو سے شراب‘ زنا اور دوسرے اعمال کے بہ نسبت ان اخلاق کی زیادہ قدروقیمت ہے۔
آج جو معاشرے دنیا میں غالب ہیں اگر اُن کے ساتھ مسلم معاشرے کا موازنہ کیا جائے تو صاف فرق محسوس ہوتا ہے۔ انصاف ہی کو لے لیجیے کہ مسلمان معاشرے میں اُس کا کیا حال ہے۔ انصاف تو بہت بڑی چیز ہے‘ ممکن ہے وہ دنیا کو انصاف نہ دیتے ہوں‘ مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہ کرتے ہوں لیکن اُن کے اپنے معاشرے میں تو انصاف ہے۔ اُن کے ہاں رشوت نہیں ہے۔ اُن کے ہاں کوئی کسی کا حق پامال نہیں کرسکتا۔ کوئی کسی کو ٹارچر سیل میں نہیں ڈال سکتا۔ کوئی کسی کو پکڑ کر مار پیٹ نہیں کر سکتا۔ اس کے علاوہ اُن کے ہاں بیوائوں‘ یتیموں‘ پنشن یافتہ لوگوں اور بے روزگاروں کی فلاح کے لیے ایک پورا نظام ہے۔ آدمی بیمار ہوتا ہے تو اس کا مفت علاج ہوتا ہے۔ اگر بے روزگار ہو جاتا ہے تو اُس کو الائونس ملتا ہے۔ یونی ورسٹی جاتا ہے اُس کا وظیفہ بندھ جاتا ہے۔ کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اُس کا وظیفہ بندھ جاتا ہے۔ یہ میں نے صرف چند مثالیںدیں ۔میرا مقصد مغرب سے مرعوب کرنا نہیں ہے بلکہ ذہن سے یہ بات نکالنا ہے کہ صرف شراب اور موسیقی اور ناچ گانا اور زنا وغیرہ ہی وہ چیزیں ہیں جن کی بنیاد پر قوموں کی قسمت کا فیصلہ ہوتا ہے۔ قوموں کے عروج و زوال میں صرف یہی فیصلہ کن امر نہیں ہے بلکہ اخلاق کا دائرہ بڑا وسیع ہے۔ اس ضمن میں حق پسندی اور خود احتسابی بھی بہت اہم ہے۔ لیکن مسلمان ممالک میں قوم کے احتساب کی کوئی مضبوط روایت موجود نہیں ہے کہ اس کے نتیجے میں کوئی جیل جائے۔ مغرب کے حوالے سے یہ ایک اہم پہلو ہے۔ اس کے علاوہ اور بہت سی اخلاقی اقدار ہیں جن کی وجہ سے دوسری قومیں ہم سے آگے ہیں۔
اگر قوموں کے عروج و زوال کے انھی موٹے موٹے اصولوں کو سامنے رکھا جائے تو قرآنِ مجید کی بیان کردہ بڑی بڑی بنیادیں سامنے آجاتی ہیں۔ انبیا کے بارے میں قرآنِ مجید نے یہ قانون بنایا ہے‘ اور یہ صرف انبیا کے بارے میں ہے اور کسی کے بارے میں نہیں ہے‘ کہ میرے رسول غالب ہوکر رہیں گے۔ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْط (المجادلہ ۵۸:۲۱) ’’اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب ہوکر رہیں گے‘‘۔
اسی اصول پر غور کرنے سے ذہن میں اٹھنے والے بہت سے سوالوں کا جواب مل جاتا ہے۔ چونکہ انبیا وہ واحد افراد ہیں جو کسی قوم پر اخلاقی طور پر اتمامِ حجت کرسکتے ہیں۔ ہم اور آپ جو دعوتی کام کرتے ہیں‘ اس کے لیے ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے حق ادا کر دیا اور اتمامِ حجت کر دی۔ انبیا چونکہ اتمامِ حجت کر دیتے ہیں اس لیے سید مودودیؒ کے الفاظ میں اگر کوئلے کی کان میں کوئی ہیرا باقی نہ رہے تو اِس کا مقدر اِس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے کہ اِس کو پھونک دیا جائے‘ جلا دیا جائے۔ چنانچہ جب انبیا ان سارے لوگوں کو چھانٹ لیتے ہیں تو کان کو جلا دیا جاتا ہے اور خدا کا عذاب ان پر مسلط کر دیا جاتا ہے۔ وَنَجَّیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَo (حم السجدہ ۴۱:۱۸) ’’اور ہم نے ان لوگوں کو بچا لیا جو ایمان لائے تھے اور گمراہی و بدعملی سے پرہیز کرتے تھے‘‘۔ گویا ان کی مساعی کے نتیجے میں ان کو نجات مل جاتی ہے۔ یہ قانون صرف انبیا کے ساتھ ہے‘ انبیا کے بعد اور لوگوں کے ساتھ نہیں ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ اور لوگوں کے ساتھ پوری کی پوری قوم کو سزا دی جاتی ہے۔ سوال کیا گیا کہ اُن میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں! قیامت کے روز لوگ اپنی اپنی نیتوں کے مطابق اٹھائے جائیں گے۔ اور اگر کوئی بلا آئے گی‘ کوئی عذاب اترے گا تو وہ یہ دیکھ کر نہیں اترے گا کہ اس گھر میں مومن رہتا ہے یا اس گھر میں کافر رہتا ہے‘ بلکہ جب قوم پر عذاب آئے گا تو سب کے سب اُس کا شکار ہوں گے۔ البتہ ایک فرد کے لیے یہ بات اس لیے اہمیت نہیں رکھتی کہ اس کا کام تو اس دنیا کی زندگی کے بعد ختم نہیں ہوا۔ اُس کو تو بہرحال مرنا ہی تھا خواہ وہ کینسر سے مرتا‘ یا ٹریفک کے کسی حادثے میں مرجاتا‘ یا بستر پر پڑا ہوا مرتا‘ یا معمولی زکام یا پائوں پھسلنا اس کی موت کا باعث ہوتا‘ یا اللہ کا عذاب اس کی ہلاکت کا سبب بنتا۔ لہٰذا دنیا میں موت کا آجانا یا ہلاکت کوئی سزا نہیں ہے۔ بے شمار نیک آدمی ہیں جو ہوائی جہازوں اور گاڑیوں کے حادثوں میں‘ کینسر سے اور بہت سارے امراض سے مر جاتے ہیں۔ یہ دنیا میں کوئی عذاب نہیں ہے۔ دنیا کا عذاب نہ کوئی عذاب ہے اور نہ دنیا کا نفع کوئی نفع ہے۔ فرد تو جانتا ہے کہ اصل چیز تو آخرت ہے اور وہاں پر لوگ اپنی نیتوں کے مطابق اٹھائے جائیں گے۔ یہاں اللہ تعالیٰ کے نبیؐ نے جزا و سزا کے قانون کو بھی واضح فرما دیا۔ یہ بڑا قیمتی قانون ہے۔
دنیا میں اگر کسی کو کوئی تکلیف ہے تو وہ بھی عارضی ہے اور اگر کوئی آرام ہے تو وہ بھی عارضی ہے۔ اگر یہاں پر نعمتیں ملتی ہیں تو اس کی بھی کوئی قدروقیمت نہیں ہے اور اگر یہاں پرسزا ملتی ہے تو اُس کی بھی کوئی قدروقیمت نہیں ہے۔ دنیا کی نعمتوں کے بارے میں تو قرآنِ مجید نے یہ فرما دیا کہ ہم کو اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ سارے کے سارے لوگ کافر ہوجائیں گے تو ہم اُن انکار کرنے والوں کے گھر‘ اُن کے دروازے ‘ اُن کی کھڑکیاں‘ اُن کی چھتیں‘ اُن کے بستر‘ اُن کے زینے‘ یہ سب سونے چاندی کے بنا دیتے۔ ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمارے لیے یہ سب مچھر کے پَرکے برابر بھی وقعت نہیں رکھتا‘ لیکن اس طرح اہل ایمان کی بڑی سخت آزمایش ہو جاتی اور کوئی بھی ایمان پر قائم نہ رہتا اس لیے ہم نے ایسا نہیں کیا۔ لہٰذا دنیا کی تکلیف کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ گزر ہی جاتی ہے۔ ایک سانس جب نہیں آتی تو کینسر کا بڑے سے بڑا درد ختم ہو جاتا ہے اور پھر کوئی تکلیف باقی نہیں رہتی۔ اگر دنیا میں لوگ عذاب میں شریک بھی ہیں تو بالآخر آخرت میں اپنا اجر پائیں گے۔ اس لیے کہ آخرت میں تو آدمی اپنی نیتوں اور اعمال کے مطابق اٹھائے جائیں گے۔ جو نیک ہوں گے وہاں پر اُن کے ساتھ پوری داد رسی کی جائے گی۔ یہ قانون اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دیا ہے۔
اس قانون کے تحت بعض قومیں ہلاک ہو جاتی ہیں۔ وَّجَعَلْنٰھُمْ اَحَادِیْثَج (المؤمنون۲۳:۴۴) ’’ہم نے ان کو ایک داستان بنا دیا‘‘۔ بعض قومیں قعرمذلت اور گم نامی میں چلی جاتی ہیں اور پھر زندہ ہوتی ہیں۔ اس میں اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ جو اُس کی دنیا کو بہتر طریقے سے چلا سکتا ہے‘ جو دنیا کے لوگوں کے لیے زیادہ بہتر‘ مفید اور باعث خیر ہو‘وہ اسے پستیوں سے نکال کر سربلندی عطا کرتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو مغربی اقوام میں بہت سی خامیاں ہیں۔ انسان اچھائیوں اور برائیوں کا مجموعہ ہوتا ہے‘ اس لیے ہر قوم میں اچھائیاں بھی ہوتی ہیں اور برائیاں بھی۔ لیکن عروج اور سربلندی اس کو ملتی ہے جو بحیثیت مجموعی انسانوں کے بنائو‘ تعمیر اور خیر کا باعث ہو۔ اس کی بہترین مثال وہ ہے جو سید مودودیؒ نے بناؤ اور بگاڑ میں دی ہے۔ اس پر اگر غور کیا جائے تو عروج و زوال کے حوالے سے ذہنوں میں اُٹھنے والے بہت سے سوالوں کا جواب مل جاتا ہے۔ اس کے مطابق باغ کا مالک اپنا باغ اُس کے سپرد کرے گا جو اُس کا نظام بہتر چلا سکتا ہو۔ جو لوگ اپنے ایک ایئرپورٹ کا نظام نہیں چلا سکتے‘ ایک میونسلپٹی کا نظام نہیں چلا سکتے‘ ایک شہر کو صاف ستھرا نہیں رکھ سکتے‘ ایک عدالت کا نظام پورے عدل و انصاف سے نہیں چلا سکتے‘ وہ لوگ پوری دنیا کی قیادت کے اہل کیسے ہو سکتے ہیں۔
دنیا کی قیادت کا اہل تو وہی ہوگا جو بنی نوع انسان کے لیے زیادہ مفید اور کارآمد ہوگا۔ مغرب کے حوالے سے یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ اُن کے اندر برائیاں نہیں ہیں۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ برائیاں بھی اپنا کام کر رہی ہیں اور بالآخر اُن کے زوال کا باعث بنیں گی لیکن دنیا کے اندرکوئی اچھا امیدوار نہیں ہے جو اللہ کو پسند ہو لیکن وہ بہتر امیدوار ہے۔ وہ بہترین امیدوار تو نہیں ہے لیکن مقابلتاً اچھا امیدوار ہے جو دنیا کی قیادت کا مستحق ہے۔ اس لیے کہ وہ اپنی محنت سے‘ اپنی جستجو سے‘ دنیا کو چلانے کے سلیقے سے‘ اپنی قوم کے اندر عدل و انصاف قائم کرنے سے‘ اس بات کا مستحق ہے کہ اسے دنیا کا انتظام سونپا جائے۔ وہ مسلمان حکمرانوں کے اخلاق اور کردار کے لحاظ سے سو گنا بہتر ہیں۔ اُن کے ہاں اگر ایک ’’واٹرگیٹ‘‘ اسیکنڈل ہو جائے تو صدر کو استعفا دے کر رخصت ہونا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں اگر ٹارچر سیل بھی بنے رہیںاُن میں انسانوں پر ظلم بھی کیا جائے اور ملک کے بڑے سے بڑے اصول اور ضابطے کو پامال کر دیا جائے پھر بھی حکمران کی حیثیت سے برقرار رہتے ہیں‘ اور آج بھی وہ اُسی دبدبے سے حکمران ہیں۔ اس کے مقابلے میں مغرب میں یہ روایت ہے کہ اگر کسی مجرم سے کسی وزیر کا تعلق ثابت ہو جائے‘ کوئی حادثہ ہو جائے تو وہ ایک دن بھی نہیں رہ سکتا۔ یہ اُن کے ہاں احتساب کی ایک صفت ہے۔ اسی کو محدود معنوں میں استغفار کہا جا سکتا ہے۔ وہ استغفراللہ تو نہیں کہتے لیکن پبلک لائف میں غلطی کرنے والے کو سزا ملتی ہے۔ پرائیویٹ زندگی میں ممکن ہے وہ ایمان دار نہ ہوں‘ زنا کرتے ہوں‘ شراب پیتے ہوں‘ عورتوں کے ساتھ بدکاریاں کرتے ہوں لیکن پبلک لائف میں وہ اس کو برداشت نہیں کرتے۔ اب بھی اگر اُن کو معلوم ہوتا ہے کہ اُن کا صدر یا وزیراعظم بہت زیادہ شراب پیتا ہے تو وہ اسے منتخب نہیں کرتے۔ وہ خود خواہ کتنی ہی برائیاں کرلیں‘ اپنے اہل کاروں میںنہیں دیکھنا چاہتے۔ اس لحاظ سے وہ بہتر قوم ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ اچھی قوم ہیں بلکہ دنیا میں موجود دوسری قوموں کے مقابلے میں بہتر قوم ہیں۔ اس لیے وہ دنیا کی امامت کے حق دار ہیں۔ یہی حال یہودیوں کا بھی ہے۔ یہودیوں کے بارے میں یہ سوال عام طور سے اٹھایا جاتاہے کہ وہ ذلت اور مسکنت کا شکار ہو جانے کے باوجود کیوں غالب ہیں؟ اُس کا سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود قرآنِ مجید میں فرمایا ہے: الا بحبلٍ من اللّٰہ وحبل من الناس (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۲) ‘ یعنی اللہ کی طرف سے رسی دراز کر دی جائے یا پھر لوگوں کے سہارے وہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اور آج اُن کا جو وجود ہے اور جس دم خم کا وہ مظاہرہ کرتے ہیں وہ اپنے بل پر نہیں بلکہ دوسری قوموں کے بل پر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے یہ قانون بھی واضح کر دیا ہے کہ جس قوم کو اپنے کام اور مقصد کے لیے وہ منتخب کرلے اور جس کو یہ ذمے داری دے دے‘ جسے ملازم رکھ لے اور جس سے employment contract پر دستخط لے لے‘ اُس سے ایک میثاق باندھ لے کہ تم میرے کام کروگے‘ میں تم کو اپنی امانت اور اپنی ہدایت سپرد کر رہا ہوں تو اُس کو جب ترازو میں تولا جائے گا تو سب سے پہلے یہ دیکھا جائے گا کہ وہ اپنے معاہدئہ ملازمت کی شرائط (terms of employment) کوکہاںتک پورا کر رہی ہے۔ اگر فردِ جرم عائد ہوگی تو اس لحاظ سے ہوگی۔ وہ کسی اور ذریعے سے دنیا میں ترقی نہیں کر سکتی۔ یہ بات بھی قرآنِ مجید میں اُس نے کھول کھول کر بیان کر دی ہے: فَبِمَا نَقْضِھِمْ مِّیْثَاقَھُمْ لَعَنّٰھُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوْبَھُمْ قٰسِیَۃًج (المائدہ ۵:۱۳) ’’پھر یہ ان کا اپنے عہد کو توڑ دالنا تھا جس کی وجہ سے ہم نے ان کو اپنی رحمت سے دُور پھینک دیا اور ان کے دل سخت کر دیے‘‘۔ وَضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُق وَبَآئُ وْبِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِط ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ (البقرہ ۲:۶۱) ’’آخرکار نوبت یہاں تک پہنچی کہ ذلت و خواری اور پستی و بدحالی ان پر مسلط ہو گئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھر گئے۔ یہ نتیجہ تھا اس کاکہ وہ اللہ کی آیات سے کفر کرنے لگے‘‘۔
آج مسلمانوں کو جس ذلت اور مسکنت کا سامنا ہے اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ یورپ والے آگے بڑھ گئے یا اس سے پہلے ساسانی آگے بڑھ گئے تھے بلکہ یہ اس لیے ہے کہ جو ہماری ملازم و وفادار قوم تھی‘ اُس نے ہماری آیات کے انکار کی روش اختیار کی‘ ہم سے بے وفائی کی‘ ہمارے راستے کوچھوڑا‘ چنانچہ ہم نے اس پر ذلت اور مسکنت مسلط کر دی۔
مسلمانوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی معاملہ ہے۔ اس لیے کہ اُس نے ان کو ملازم رکھا ہے۔ اور جب کسی کو ملازم رکھا جائے تو اُسے دیگر شرائط کے ساتھ شرائط ملازمت بھی پوری کرنی ہوں گی۔
ترکی نے ۱۹۲۰ء میں فیصلہ کیا کہ ہم مغرب کے سانچے میں ڈھل کے ہی ترقی کر سکتے ہیں۔ انھوں نے اپنے قوانین بدلے‘ لباس بدلا‘ رسم الخط بدلا‘ زبان بدلی‘ سب کچھ بدل دیا لیکن آج بھی یورپ کا ایک مردِ بیمار ہے۔ اس کے مقابلے میں جاپان نے بھی ایک فیصلہ کیا کہ ہمیں بھی آگے بڑھنا ہے‘ ترقی کرنا ہے لیکن اپنی اقدار کو ساتھ لے کر ترقی کرنا ہے۔ آج جاپان دنیا کی پانچ بڑی طاقتوں میں سے ایک بڑی طاقت ہے۔ ہم بھی کئی ’’پانچ سالہ منصوبہ‘‘ پاکستان میں نافذ کرچکے ہیں لیکن ہم ترقی سے محروم ہیں۔ اس لیے کہ ہمارے پاس کوئی مقصد نہیں ہے جس کے لیے کام کریں۔ مسلمان جب قوم بن جائے تو وہ اللہ کے علاوہ کسی مقصد کے لیے متحد نہیں ہو سکتی۔ قوموں کی زندگی میں اخلاق میں سب سے بڑھ کر ایمان ہے۔ چونکہ ہمارا ایمان ہی ناقص ہے اس لیے آگے بڑھنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایمان خواہ باطل پر ہی ہو مگر مضبوط ہو تو وہ عظمت اور سربلندی کا باعث ہوتا ہے۔
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے قوموں کے عروج و زوال کے یہ تمام قوانین بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیے ہیں۔یہ قرآنِ مجید کا ایک بڑا اہم باب ہے۔ اس باب کے تمام پہلوئوں کو کسی ایک گفتگو میں نہیں سمیٹا جاسکتا۔ اس کے اتنے پہلو ہیں کہ اس کا احاطہ بہت مشکل ہے۔ تاہم موٹے موٹے اصول میں نے بیان کر دیے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو قوموں کے عروج و زوال کے حوالے سے بیش تر سوالات کے جواب ان اصولوں اور قوانین کے اندر موجود ہیں۔ یہ قرآنِ مجید کے وہ قوانین ہیں جو جگہ جگہ بیان کیے گئے ہیں۔ کہیں ان کو مبہم نہیں رکھا گیا ہے بلکہ بار بار بیان کیا گیا ہے۔ یہ ہمارا قصور ہے کہ ہم اِن کو پڑھتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ ان پر غور نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے قوموں کے بارے میں کس طرح کھول کھول کر بیان کر دیا ہے کہ اُن کی عزت اور سربلندی‘ مادی قوت سے نہیں ہے بلکہ اخلاقی برتری سے ہے۔ قرآن میں آیا ہے کہ اگر صبر کی قوت ہوگی تو ایک آدمی ۱۰۰ پر غالب ہوگا۔ اگر معاملہ محض مادی قوت کا ہوتا تو۱۰ آدمیوں کو ایک آدمی نہیں ہرا سکتا۔ فرمایا: وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُھُمْ شَیْئًا ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۲۰) ’’مگر ان کی کوئی تدبیر تمھارے خلاف کارگر نہیں ہوسکتی بشرطیکہ تم صبر سے کام لو اور اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو‘‘۔
گویا اگر صبر ہو‘ جمائو ہو‘ ثبات ہو‘ اپنی چیز کے لیے جمنے کا حوصلہ ہو‘ آپس میں اتحاد ہو‘ انتشار نہ ہو تویہ وہ چیزیں ہیں جو دنیا کے اندر غالب کرنے والی ہیں۔ ایٹم بم‘ فیکٹریاں اور کارخانے اور مادی وسائل غلبے کی اصل وجہ نہیں ہیں۔ حقیقت مادی ترقی بھی اخلاقی ترقی کی وجہ سے ہوتی ہے۔اگر اخلاق میں زوال ہو تو کارخانے کام نہیں کرتے‘ وہاں بھی مال گھٹیا بنتا ہے جو برآمد نہیں ہو سکتا۔ بددیانت لوگ ہوں گے تو گھٹیا مال برآمد کریں گے۔ مزدور محنت نہیں کرتے‘ اس لیے کہ اُن کا اخلاق کمزورہوتا ہے۔ وہ دیانت داری سے اپنا فرض ادانہیں کرتے۔ اگر بددیانتی ہوگی تو سڑک بننے کے اگلے دن ادھڑ جاتی ہے‘ ایئرپورٹ بنتا ہے‘ اگلے دن ناقص نکلتا ہے۔ غرض دنیا میں بھی بغیر اخلاق کے ترقی نہیں ہو سکتی۔ محنت اور علم کی جستجو نہ ہو تو ایٹم بم نہیں بن سکتا‘ اسلحہ نہیں بن سکتا۔ یہ مادی قوت سے نہیں بنتے بلکہ اخلاقی قوت سے بنتے ہیں۔ ان کے پیچھے اصل کارفرما محرک قوت اخلاقی ہوتی ہے۔ اس لیے اصل قوت لوگوں کے اخلاق ہیں۔ جس نے برائی کمائی اُس کے حصے میں برائی آئے گی‘ جس نے بھلائی کمائی اُس کے حصے میں بھلائی آئے گی۔ فرد کے حصے میں تو موت کے بعد آئے گی لیکن قوموں کو جزا و سزا اسی دنیا میں مل جائے گی۔ یہی ان کے عروج و زوال کا اصل سبب ہے۔ یہ قرآن کے قوانین ہیں۔ ان پر جتنا غور کیا جائے گا‘ اتنی ہی اس حوالے سے الجھنیں دُور ہوں گی۔ ذہنی عقدے حل ہوں گے اور قوموں کے عروج و زوال کے حوالے سے بہت سے مسائل کی تہہ تک بآسانی پہنچا جا سکے گا۔ (کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)