سوال: بعض والدین سمجھتے ہیں کہ اولاد کی ضروریات کو پورا کر دیا جائے اور انھیں آسایشیں فراہم کر دی جائیں تو یہی ان سے محبت کا اظہار ہے اور شاید وہ سمجھتے ہیں کہ یہی محبت ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے والدین نے ہمیں زندگی کی ہر سہولت دی ہے لیکن انھوں نے شاید ہم سے اتنی امیدیں لگائی ہوتی ہیں جو ہمارے بس میں نہیں ہوتیں۔ محنت اور کوشش کے باوجود امتحان میں اگر اچھے نتائج نہ آسکیں تو طعنے دیے جاتے ہیں۔ کبھی کوئی اچھا کام کریں تو اس میں سو خرابیاں نکال دیتے ہیں‘ کبھی حوصلہ افزائی نہیں کرتے اور اپنی اولاد پر اعتماد نہیں کرتے۔دوسروں کی باتیں سن کر پہلے ہی دل بدگمانیوں سے بھرلیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں ڈر کے مارے اپنے ابو سے بات نہیں کرتی کہ کہیں وہ مجھے ڈانٹ نہ دیں۔ کبھی کھل کر ان سے بات نہیں کی۔ ان کے ساتھ میرا تعلق بالکل اجنبیوں جیسا ہے۔ انھوں نے کبھی ہمارے ساتھ مسائل پر بات نہیں کی اور نہ کبھی ہم نے ان سے کی۔ کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی‘ ہمیشہ حوصلہ شکنی ہی کی ہے۔ اگر کبھی ہمت بڑھاتے ہیں تو اتنی زیادہ امیدیں باندھ لیتے ہیں کہ ہمارے بس سے باہر ہوتی ہیں۔ اگر کبھی غلطی ہو جائے یا میری وجہ سے کوئی پریشانی آجائے تو کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ آخر ایسا کیوں ہوا۔
میرا دل چاہتا ہے کہ میرے والدین میرے معاملات میں دل چسپی لیں اور مجھ سے میرے مسائل کے بارے میں دریافت کریں۔ لیکن انھوں نے بچپن ہی سے مجھے اپنے سے اس قدر دور کر دیاہے کہ اب میں ان کے قریب ہونا بھی چاہوں تو نہیں ہوپاتی۔ ان کو مجھ پراعتماد ہی نہیں ہے۔ خواہ ہم اپنی جان لڑا دیں لیکن وہ مطمئن نہیں ہوتے۔ مجھے اپنی شادی کے حوالے سے زندگی کا ایک بڑا اہم فیصلہ کرنا تھا اور میرا بہت دل چاہا کہ میں اپنے والد سے اس کے متعلق خود بات کروں لیکن نہیں کرپائی۔ گھر پر والد صاحب کا ہی زیادہ کنٹرول ہے۔ ہر کام ان کی رضامندی لے کر کرنا ہوتا ہے۔ امی ہیں تو وہ بھی بھائیوں کا دم بھرتی ہیں خواہ وہ کیسا ہی کام کریں۔ بہن اور بھائی دونوںسے رویے میں فرق روا رکھا جاتا ہے۔ مجھ میں اتنا اعتماد نہیں ہے کہ میں کھل کر اپنے والد سے بات کر سکوں۔ وہ دنیا بھر کے لیے تو بہت اچھے ہیں‘ سب سے خوش اخلاقی سے پیش آتے ہیں لیکن گھر والوں سے بالکل مختلف رویہ ہے۔ ان کے خیال میں گھر والوں کی ضروریات پوری کر دینا ہی ان کے لیے کافی ہے۔ میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ والدین اور بچوں کا باہمی تعلق کیسا ہونا چاہیے اور اولاد کے حقوق کیا ہیں؟
جواب: اسلام کے اخلاقی اور معاشرتی نظام میں خاندان بنیادی اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس خاندان کے نظام میں سربراہِ خاندان مسئول‘ امیر اور قائد کے مقام پر فائز کیا گیا ہے۔ البتہ دین کے مجموعی نظام سے مناسب واقفیت نہ ہونے‘ اور خصوصی طور پر مقامی اور خاندانی روایات کی اندھی تقلید اور غلط العام تصورات کو بغیر کسی تحقیق کے ماننے کے نتیجے میں‘ ہمارے معاشرتی اور خاندانی نظام میں اکثر اوقات عدم توازن‘ ذمہ داری کا غلط استعمال اور بعض اوقات فرائض و حقوق کی صریح پامالی مشاہدے میں آتی ہے۔
آپ کے سوالات اسی عدم توازن اور اپنے اختیارات و فرائض کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ جو سوالات آپ نے اٹھائے ہیں انھیں اسی ترتیب سے لیتے ہوئے جواب درج کیا جا رہا ہے۔
جہاں تک والدین کی طرف سے بچوں سے توقعات اور اُمیدیں قائم کرنے کا سوال ہے‘ یہ ان کا ایک جائز حق ہے لیکن وہ کتنی اور کہاں تک یہ امیدیں کر سکتے ہیں؟ اس کو قرآن کریم نے واضح الفاظ میں انفرادی وسعت سے پکارا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَھَاط (البقرہ ۲:۲۸۶)‘ یعنی اللہ تعالیٰ کسی نفس پر اس کی وسعت (برداشت) سے زائد بوجھ نہیں ڈالتا۔ اسی بنا پر ہر وہ شخص جو کسی دوسرے پر نگراں ہو اس پر بھی لازم ہو جاتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کلّی اختیارات کے باوجود ہر ہر فرد و مخلوق کی استطاعت دیکھ کر اس پر ذمہ داری ڈالتا ہے اور اس سے توقع رکھتا ہے تو اپنے محدود اختیارات کے ساتھ ایک باپ یا ماں‘ ایک دفتر کا نگراں اپنے ماتحت‘ اولاد یا اپنے عملے سے کس بنیاد پر ان کی صلاحیت اور وسعت سے بڑھ کر اُمید رکھ سکتا ہے۔
اسے یوں سمجھیے کہ ایک ذہین طالبہ جوعام حالات میں چھ گھنٹے روزانہ اپنے گھر پر مطالعے کے بعد فرسٹ کلاس نمبر حاصل کرسکتی ہو‘ اگر مزید دو گھنٹے محنت میں اضافہ کر دے تو توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ فرسٹ کلاس فرسٹ آجائے۔ لیکن ایک سست اور نااہل طالب علم جو آٹھ گھنٹے محنت کے بعد بھی پہلی جماعت سے آٹھویں جماعت تک مستقل مزاجی سے تھرڈ ڈویژن ہی لاتا رہا ہو‘ اس سے یہ توقع قائم کرنا کہ مزید دو گھنٹے محنت کرکے فرسٹ کلاس لے آئے گا‘ حقیقت ِ واقعہ کے خلاف ہے۔ اس مثال کی روشنی میں اولاد اور والدین دونوں اپنا جائزہ لے کر طے کر سکتے ہیں کہ ان کی توقعات حقیقت سے کتنی قریب یا بعید ہیں۔
سوال کا دوسرا پہلو کہ محنت اور کوشش کے باوجود اگر فرسٹ کلاس نہ آسکے یا فرسٹ کلاس آجائے اور دونوں صورتوں میں محنت کا اعتراف تو کجا‘اُلٹا اسے نظرانداز کیا جائے‘ یہ والدین کی طرف سے صریح ناانصافی‘ زیادتی‘ اور عدل کے اسلامی اصول کے منافی ہے۔ اپنی اولاد کی کوشش‘ محنت اور سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے یہ والدین کا فرض ہے کہ وہ ان کی محنت کا اعتراف کریں اور کسی تحفے یا حوصلہ افزائی کے چند کلمات کے ساتھ ان کی کوشش کا اعتراف کریں۔
اولاد پر اعتماد کا معاملہ بھی دو طرفہ ہے۔ بعض اوقات اولاد اپنے اوپر ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی (over confidence) کی بنا پر یہ سمجھتی ہے کہ والدین ہمیں بچہ سمجھتے ہیں‘ اس لیے ہم سے مشورہ نہیں کرتے۔ لیکن دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض معاملات میں والدین بھی اسی قسم کی زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہوتے ہیں اور اس خوف کی بنا پر کہ اگربچوں کے علم میں ہماری وہ حماقتیں بھی آئیں جوانسان ہونے کی بنا پر وہ کربیٹھتے ہیں تو ہمارا بھرم و اثر کم ہو جائے گا‘ بہتریہی سمجھتے ہیں کہ بچوں سے مشورہ ہی نہ کیا جائے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے یہ درست نہیں ہے۔
قرآن کریم نے تمام امور میں مشورہ کرنے کا حکم دیا ہے‘ چنانچہ وشاورھم فی الامر‘ اور وامرھم شوریٰ بینھم کے واضح الفاظ سے نہ صرف حکومت کے ذمہ داروں‘ اداروںکے سربراہان بلکہ خاندان کے سربراہ کو بھی یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہر اہم معاملے میں مشورہ کیا جائے۔ اگر ایک ماں روزانہ کھانے کے وقت بچوں سے یہ پوچھتی ہے کہ کل کیا پکوایا جائے تو ایک باپ بھی یہ مشورہ کر سکتا ہے کہ گھر کی تعمیر‘ کسی چیز کی خرید و فروخت‘ کسی کاروباری مشکل ‘ کسی کا رشتہ ‘ غرض تمام خاندانی امور میں دوسروں کی رائے کیا ہے۔ اسلام کا مدّعا آغاز سے یہی تھا کہ گھر کے اندر شوریٰ ہو تاکہ یہ شوریٰ طرزِ حیات کا جزو بن جائے اور گھر کے باہر کے معاملات میں بھی اس پر عادتاً عمل کیا جانے لگے۔والدین کا اولاد سے کوئی مشورہ نہ کرنا‘ ایک غلط حکمت عملی ہے۔ ہمیں اس کی اصلاح کرنی چاہیے۔ یہ ایک معروف بات ہے کہ شادی بیاہ کے معاملے میں لازمی طور پر مشورے کے بعد ہی فیصلہ کیا جانا چاہیے۔
والد سے خائف ہو کر بات نہ کرنا اور اجنبیوں کی طرح ان سے رویہ بنا لینا اسلامی تصورِ خاندان کے منافی ہے۔ اس شرم و حیا کے ساتھ‘ جو ایک لڑکی اپنے باپ سے رکھتی ہے‘ اس کا کھل کر بلاتکلف باپ سے بات کرنا اور بہت سے معاملات میں اپنے اختلاف کا اظہار کرنا اس کا اسلامی فریضہ ہے۔ امر بالمعروف کا حکم تنہا کسی فریق کے لیے نہیں بلکہ ہر فریق معاملہ کے لیے ہے۔ بیوی کی طرف سے شوہر کے لیے اور شوہر کی طرف سے بیوی کے لیے اس کا کرنا فریضہ ہے۔ اسی طرح اولاد اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔
جس طرح والدین پر اولاد کو نصیحت کرنا فرض ہے‘ ایسے ہی اولاد پر والدین کو مشورہ دینا‘ انھیں مختلف امور پر متوجہ کرنا فرض کر دیا گیا ہے۔ باپ کے لیے خصوصی طور پر اپنی لڑکیوں کے حوالے سے‘ احادیث میں جو اشارے اور تعلیمات ملتی ہیں وہ ہمارے لیے بہت قابلِ غور ہیں۔
ایک حدیث میں صادق و امین صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جس شخص نے اپنی دولڑکیوں کی تربیت اچھی طرح کی اور وہ بلوغ کو پہنچ گئیں‘ یعنی اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کے قابل ہوگئیں توقیامت میں وہ شخص اور حضور نبی کریمؐ اتنے قریب اور ساتھ ہوں گے جیسے ہاتھ کی دو انگلیاں۔ گویا ایک باپ اپنی لڑکیوں سے محبت‘ نرمی‘ بھلائی اور ان کی صحیح اسلامی تربیت کر کے حضور نبی کریمؐ سے جنت کا وعدہ لے سکتا ہے اور لڑکیاںذریعہ نجات بن سکتی ہیں۔ ظاہر ہے یہ کام باپ اور بیٹی کے درمیان حجابات کی دیواریں کھڑی کر کے نہیں ہوسکتا بلکہ ان دیواروں کو منہدم کرکے باہمی اعتماد اور ہمت افزائی سے ہی ہو سکتا ہے۔
اگر آپ کے والد آپ سے بات کرنا پسند نہیں کرتے تو آپ کو اپنے آپ کو خود اپنے والد سے بات کرنے پر آمادہ کرنا چاہیے۔ آپ کا خوف بے بنیاد ہے۔ اسے بغیر کسی تاخیر کے ذہن سے نکال کر اللہ پر اعتماد کرتے ہوئے ان سے احترام و محبت کے ساتھ بات کیجیے تاکہ یہ برف پگھلے اور آپ کی صحیح شخصیت آپ کے والد کے علم میں بھی آسکے۔
آپ کے والد کے اس رویے کا تعلق ممکن ہے کہ خود آپ کی والدہ کا ایک روایتی گھریلو خاتون کی طرح شوہر کی اندھی اطاعت سے بھی ہو۔ انھوں نے گھریلو معاملات میںآپ کے والد کی ہربات کو مشورہ اور تبادلۂ خیالات کے بغیر مان لینے کا رویہ رکھا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کے والد خود کو ایک مطلق العنان بادشاہ کی طرح گھر پر حاکم سمجھتے ہوں اور محض نان نفقہ فراہم کر دینے کے بعد ایک آمر کی طرح ہر بات پر اصرار کرنے کے عادی ہوں‘ اور اس بنا پر آپ سے کسی بات میں مشورہ لینے کی ضرورت نہ سمجھتے ہوں۔ لیکن اگر وہ اپنی بیٹی کو تو نظرانداز کریں اور بیٹوں کو اہمیت دیں تو یہ رویہ بھی اسلام کے منافی ہے۔ اولاد میں تفریق اور خصوصی طور پر جنس کی بنیاد پر تفریق‘ اسلام کے منافی ہے۔ آپ کو علم ہے کہ حضور نبی کریمؐ اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہؓ کا کتنا خیال کرتے تھے اور جب وہ آتی تھیں تو ان کے لیے اُٹھ کرکھڑے ہو جاتے اور پیشانی کو بوسہ دیتے تھے۔ ہمارے لیے دلیل اگر کوئی ہے تو وہ کتاب و سنت ہی سے ہے۔ اس لیے سیدہ فاطمہؓ کا اپنے والد سے جا کر ملازم کا مطالبہ کرنا‘ یہ ثابت کر دیتا ہے کہ بلاکسی خوف کے انھوں نے اپناحق طلب کیا۔ یہی شکل آپ کو اختیارکرنی چاہیے۔
اسلام بے جا قسم کے حجابات اور تکلفات کو پسند نہیں کرتا۔ اللہ پر اعتماد کرتے ہوئے اور سنت پر عمل کرتے ہوئے آپ کو اپنے والد سے براہِ راست بات کرنی چاہیے اورانھیں اللہ کے خوف کے ساتھ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے تقاضے کے طور پر‘ بغیر کسی برہمی کے‘ آج تک آپ کو نظرانداز کرنے کی غلطی کے اعتراف کے ساتھ آپ کے ساتھ محبت اور اعتماد کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔
حضور نبی کریمؐ باہر والوں کے ساتھ ہی نہیں‘ بلکہ گھرکے اندر انتہائی شفیق و رحیم تھے۔ آپ کے والد اگر چاہتے ہیں کہ قیامت میں اللہ کے رسولؐ سے قربت ملے تو انھیں خود اپنے رویے کی اصلاح کرنی چاہیے اور عفو ودرگزر سے کام لیتے ہوئے ماضی کو بھلا کر اپنی بیٹی اور بیٹوں کے ساتھ مودت و رحمت کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔عظمت اور بڑائی اسی میں ہے۔ فاصلے پیدا کر کے مصنوعی طور پر اپنی بڑائی کے احساس میں مبتلا ہونے میں نہیں ہے۔ (پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد)