ایک طرف لیگل فریم ورک آرڈر (ایل ایف او) کے بارے میں پارلیمانی کمیٹی اپنی سفارشات مرتب کر رہی تھی اور دوسری طرف جنرل پرویز مشرف‘ وزیراعظم ظفراللہ جمالی‘ چودھری شجاعت حسین‘ شیخ رشیداحمد‘ چودھری پرویز الٰہی اور جنرل صاحب کے لے پالک ناظمین نے ایک کورس کی شکل میں یہ راگ الاپنا شروع کر دیا کہ عوام کو ایل ایف او سے کوئی دل چسپی نہیں ہے اور یہ کہ حزب اختلاف عوامی مسائل میں کوئی دل چسپی نہیں رکھتی اور ایک non-issue پر قوم اور پارلیمنٹ کا وقت ضائع کر رہی ہے۔ اس سیاسی ناٹک میں فوجی دھنوں کا اضافہ کرنے کے لیے یہ سُربھی شامل باجا کر دیے گئے کہ پوری فوجی قیادت جنرل صاحب کی وردی کی پشت پر ہے اور قوم کا اصل مسئلہ ایل ایف او اوراس کے نتیجے میں پارلیمنٹ اور سیاسی نظام پر بری فوج کے چیف آف اسٹاف کا تسلط نہیں بلکہ روزگار‘ افلاس اور امن و امان وغیرہ ہیں۔ یہ ایک خطرناک خلط مبحث ہے اور اس کا تجزیہ اور اصل ایشو کی تنقیح ازبس ضروری ہے۔
امن وامان‘ روزگار‘ غربت و افلاس بنیادی مسائل ہیں اور ان سے کسی کو انکار نہیں۔ یہ ہماری توجہ کا مرکز و محور ہیں اور ہونے چاہییں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے ان مسائل سے اغماض‘ حزب اختلاف نہیں برسرِاقتدار قوتیں برت رہی ہیں۔اگر امن و امان کی صورت حال خراب ہے‘ غربت و افلاس میں اضافہ ہوا ہے اور اگر بے روزگاری روز افزوں ہے تو اس کی بڑی وجہ موجودہ اور سابق حکومتوں کی غلط پالیسیاں اور شاہ خرچیاں ہیں‘ اور اس کی بڑی ذمہ داری خود فوجی حکومت پر آتی ہے جس نے معاشی استحکام کی آئی ایم ایف کی بتائی ہوئی پالیسی پر آنکھ بند کر کے عمل کیا اور پیداوارمیں اضافہ‘ زراعت کی ترقی‘ روزگار کی فراہمی‘ غربت سے نجات اور تقسیم دولت کی ناہمواریوں اور ناانصافیوں کی تلافی کی کوئی فکرنہ کی‘ اور اب اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے ایل ایف او پر حزب اختلاف کی گرفت اور تنقید کو ہدف بنا رہی ہے جو ماروگھٹنا پھوٹے آنکھ کے مترادف ہے۔ اس طرح قوم کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونکی جاسکتی۔
ایل ایف او کا مسئلہ بڑا بنیادی اور اصولی ہے۔ فرد کی زندگی کے معاملات ہوں یا ملک اور حکومت میں اصحابِ اختیار کا حق حکمرانی‘ سب کے باب میں بنیادی امر یہ ہے کہ جو بھی اقدام کیا جا رہا ہے اس کا جواز کیا ہے۔ مہذب معاشرہ اور جنگل میں فرق ہی قانون کی حکمرانی اور اختیار اور اقتدار کے لیے سندِجواز (legitimacy)کا ہے۔ آپ کو اپنی مِلک پر تصرف کا حق حاصل ہے اور دوسرے کی املاک پر دست درازی جرم ہے۔ نکاح اور زنا میں فرق عمل کا نہیں جوازِ عمل کا ہے۔ خود فوج میں اتھارٹی کی بنیاد دستور اور آرمی ایکٹ ہے۔ کسی کو اختیار نہیں کہ آرمی ایکٹ میں جو چاہے ترمیم کر لے یا اسے محض ایک نظری چیز قرار دے کر فوجیوں کے مسائل حل کرنے کے شوق اور دعوے کے ساتھ جوچاہے کھل کھیلے۔ خود جنرل مشرف نے جب اقتدار سنبھالا تو اس وقت تک ان کے اقتدار کو جواز میسر نہ تھا جب تک سپریم کورٹ نے مشروط جواز (validation) نہ دے دیا ‘اور اس سترپوشی کے پتے (fig leaf) کے سہارے وہ تین سال حکمرانی کرتے رہے اور خود ایل ایف او کا جواز بھی اس سے حاصل کررہے ہیں۔ دنیا میں جہاں بھی قانون کی حکمرانی ہے اصل ایشو صاحب ِ اختیار کے سندِ جواز ہی کا ہے۔ آج امریکہ قوت کے زور پر عراق پر قابض ہوگیا ہے لیکن اس کا اقتدار سندِجواز سے محروم ہے اور وہ دھونس اور دھاندلی ہی سے سہی اقوام متحدہ سے کسی نہ کسی شکل میں جواز حاصل کرنے کی سعی کر رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ایک اعلیٰ افسر مائیکل اسٹینر نے حال ہی میں اس مسئلے پر بڑی دل چسپ بحث کی ہے اور اس نے لکھا ہے کہ صرف اقوام متحدہ کے ذریعے ہی بین الاقوامی معاملات میں سندِجواز کا حصول ممکن ہے:
جہاں تک سندِ جواز کا سوال ہے اقوام متحدہ کو بالکل منفرد اخلاقی اختیار حاصل ہے کیونکہ اس کے ارکان سیاسی نظاموں اور اقدار کے وسیع تناظر کی نمایندگی کرتے ہیں۔ بیشتر دنیا کسی ایک ملک یا اتحاد کے مقابلے میں اقوام متحدہ پر زیادہ اعتماد کرتی ہے۔ اسی وجہ سے لوگ کسی آمریت یا خاندانی حکومت کے مقابلے میں جمہوریت پر زیادہ بھروسا کرتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ آمر وقت پر کام مکمل کرلیتے ہیں‘ لیکن احکامات کی تعمیل کا نظام‘سندِجواز نہ ہونے کی وجہ سے بالآخر بنیادوں سے اکھڑجاتا ہے۔ جیسا کہ سردجنگ میں مغربی جمہوریتوں کی فتح سے ثابت ہوتا ہے‘ تہذیبی اقدار میں شرکت کا احساس پیدا کرنے کی ان کی صلاحیت بالآخر زیادہ خوش حالی اور استحکام کی شکل میں سامنے آتی ہے۔ مستقل اخلاقی اختیار پر مستزاد‘ اقوام متحدہ کو کسی تنازعے کے اختتام کے بعد کسی نئے سیاسی نظام کو قائم کرنے کا منفرد قانونی اختیار بھی حاصل ہے… تاہم امن کا اصل انحصار سندِجواز پر ہے اور اس میں اقوامِ متحدہ کا کوئی ہمسر نہیں۔ (دی ڈیلی ٹائمز‘ مئی ۱۹‘ ۲۰۰۳ئ)
عراق میں فوجی تسلط حاصل کرنے کے باوجود امریکہ کو سندِجواز حاصل نہیں ہورہی۔ یہی مسئلہ ہمارا ہے۔ مسئلہ ٹرین چلانے یا عوامی مسائل حل کرنے کا نہیں‘ ان تمام کاموں کو انجام دینے والوں کے حق اختیار کا ہے۔ ایل ایف او اپنی ساری خامیوں کے باوجود جمہوریت اور دستوری نظام کی بحالی کے لیے ایک ذریعہ اور ایک پُل تو ہو سکتا ہے لیکن آپ سے آپ دستور کا حصہ نہیں بن سکتا‘ اور جب تک پارلیمنٹ اسے جس شکل میں چاہے اور جن ترامیم کے ساتھ قبول کرنا چاہے‘ قبول کر کے دستوری ترمیم کے ذریعے دستور کا حصہ نہیں بناتی پورا نظام سندِجواز سے محروم رہے گا۔
یہ دلیل مضحکہ خیز ہے کہ اصل مسئلہ عوامی مسائل کو حل کرنے کا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مسائل کے حل کرنے کے نام پر دستور‘ قانون‘ حق حکمرانی‘ ضابطے اور قاعدے کو بالاے طاق رکھ کرجو جو چاہے کرے۔ اگر اس دلیل کو مان لیا جائے تو پھر کل کوئی ڈاکو اس دلیل کی بنیاد پر لوگوں کی دولت کو لوٹنے کا ’’حق‘‘ تسلیم کرا سکتا ہے کہ وہ اس دولت کو غریبوں میں تقسیم کر رہا ہے۔ اسی ’’دلیل‘‘ کی بنیاد پر سامراجی اقوام دنیا کے دوسرے ممالک کو غلام بناتی تھیں کہ ان کی ترقی کا سامان کر رہی ہیں اور ریلوں کا جال بچھا رہی ہیں‘ سڑکیں بنا رہی ہیں اور بجلی کی روشنی فراہم کر رہی ہیں۔ اس سے کمزور اور لچر دلیل اور کیا ہوسکتی ہے؟
اسلامی نقطۂ نظر سے بھی اگر آپ غور کریں تو آپ دیکھیں گے کہ ایمان کے بغیر اچھے اعمال بھی قابل قبول نہیں۔ اہل کفر کی تو دلیل ہی یہ ہوتی ہے کہ نیک کام کرو‘ خدا اور رسول پر ایمان کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن قرآن کا فیصلہ یہی ہے کہ ایمان کے بغیر اعمال اکارت ہیں اور بظاہر نیکی اور خدمت کے کام بھی ‘سمت درست ہوئے بغیر‘ اور سندِجواز جو ایمان سے حاصل ہوتی ہے اس کے بغیر‘ قابلِ قبول نہیں۔
مَثَلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرِبِّھِمْ اَعْمَالُھُمْ کَرَمَادِنِ اشْتَدَّتْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍط لاَ یَقْدِرُوْنَ مِمَّا کَسَبُوْا عَلٰی شَیْ ئٍط ذٰلِکَ ھُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ o (ابراھیم ۱۴:۱۸) جن لوگوں نے اپنے رب سے کفر کیا ہے ان کے اعمال کی مثال اس راکھ کی سی ہے جسے ایک طوفانی دن کی آندھی نے اڑا دیا ہو۔ وہ اپنے کیے کا کچھ بھی پھل نہ پا سکیں گے۔ یہی پرلے درجے کی گم گشتگی ہے۔
وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اَعْمَالُھُمْ کَسَرَابٍ بِقِیْعَۃٍ یَّحْسَبُہُ الظَّمْاٰنُ مَآئًط حَتّٰیٓ اِذَا جَآئَ ہٗ لَمْ یَجِدْہُ شَیْئًا (النور ۲۴:۳۹) جنھوں نے کفر کیا ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے دشت ِ بے آب میں سراب کہ پیاسا اس کو پانی سمجھے ہوئے تھا مگر جب وہاں پہنچا تو کچھ نہ پایا۔
جس طرح ایمان کے بغیر اچھے اعمال بے سود ہیں اسی طرح سندِجوازکے بغیر زندگی کے تمام میدانوں میں کسی خیر کی کوئی توقع نہیں۔ ایل ایف او کے سلسلے میں اصل ایشو اس سندِجواز کا فقدان ہے۔ حزبِ اختلاف کی پوری کوشش ہے کہ افہام و تفہیم کے ذریعے دستور اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو قائم کرے تاکہ ملک کا ہر ادارہ دستور کے فریم ورک میں اپنے فرائض انجام دے سکے۔ عوام کے مسائل کے حل کا یہی صحیح طریقہ ہے اور یہی عوام کی دلی خواہش ہے جنھوں نے جنرل صاحب کے حسب منشاپارلیمنٹ منتخب نہیں کی بلکہ اپنی مرضی کے مطابق اپنے نمایندے بھیجے‘ اور ساری دھاندلی اور لوٹاکریسی کے باوجود جنرل صاحب کی پارٹی کو دستور میں من مانی تبدیلی کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہو سکا۔ اب انھیں سیدھے سیدھے عوام کے فیصلے کو قبول کر لینا چاہیے اور ان حدود کے اندر ملک کے معاملات کو چلانے کی کوشش کرنی چاہیے جو دستور اور عوام کی رائے نے متعین کیے ہیں۔ اسی میں ملک اور فوج دونوں کی بھلائی ہے---
کیا وہ قوم کو مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ وہ تصادم کا راستہ اختیار کرے جس کا آخری نتیجہ تو ان شاء اللہ عوام کی فتح ہی کی شکل میں رونما ہوگا لیکن اس میں فوج اور اس کی قیادت کی ساکھ بُری طرح مجروح ہو جائے گی جو ملک کی سلامتی کے لیے ایک خطرہ ہو سکتا ہے۔ اس سے بچنا سب کے لیے اولیٰ ہے۔ جنرل صاحب کو ضد اور ہٹ دھرمی کا راستہ اختیار کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے اور ملک کو تصادم اور انتشار سے بچانے کے لیے اس راستے کی طرف پیش قدمی میں قوم سے تعاون کرنا چاہیے جو حزب اختلاف اور خصوصیت سے متحدہ مجلس عمل نے اختیار کیا ہے۔