فوجوں کی نقل و حرکت‘ منظم جماعتوں کی سرگرمیاں اور بڑے بڑے اداروں کے کام دیکھ کر عموماً لوگ یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ اصل چیز جماعتی تنظیم ہے‘ افراد چاہے جیسے بھی ہوں‘ تنظیم اگر مکمل اورمستحکم ہے تو کامیابی اس کے قدم چوم کر رہتی ہے۔ اسی طرح اجتماعی نظامات کی قیل و قال اور مختلف اجتماعی فلسفوں کی کاغذی بحثیں سن کر اور پڑھ کر بہت سے لوگ اس غلط فہمی میں پڑ جاتے ہیں کہ اجتماعی نظام ہی سب کچھ ہے‘ وہ اگر صحیح اور منصفانہ ہو اور پُرزور جدوجہدسے قائم کر دیا جائے تو انسانیت کی فلاح یقینی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف تنظیم‘ تنظیم کا شور برپا ہے اور دوسری طرف اجتماعی نظاموں پر سرگرم علمی و نظری بحثیں ہو رہی ہیں۔ گویا ایک اچھی منظم جماعت کا وجود میں آجانا اور ایک مکمل اجتماعی نظام کو پالنا ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔ حالانکہ درحقیقت جماعتی تعلیم ہو یا اجتماعی نظام‘ اس کی صحت اور اس کے بقا و استحکام کا سارا انحصار اُن افرادکی سیرت و کردار پر ہوتا ہے جو اس ظاہری عمارت کے اندر اینٹوں کی طرح جوڑے جاتے ہیں۔ اگرچہ ضبط و نظم کے قاعدے اور اجتماع کے اصول بھی اپنے اندر بہت کچھ اہمیت رکھتے ہیں‘ لیکن سیلابِ حوادث کا اصل مقابلہ اور عملی زندگی کی آزمایشوں کا حقیقی سابقہ قاعدوں اور اُصولوں سے نہیں بلکہ ان کو چلانے والے افراد سے پیش آتا ہے۔ دنیا کی امتحان گاہ میں ضابطے اور اصول نہیں اُترتے‘ افراد اُترتے ہیں اور انھی کی طاقت وہ آخری طاقت ہوتی ہے جس پر امتحان کے فیصلے کا مدار ہوتا ہے۔ جماعتی ضبط خواہ کتنا ہی مکمّل ہو اور اجتماع کے اصول چاہے کتنے ہی صحیح ہوں‘ لیکن اگر انفرادی سیرتیں عمدہ اور پختہ نہ ہوں تو نہ ضابطے اور قاعدے کسی کام آتے ہیں نہ اصول۔ زمانے کا طوفان بندکی ایک ایک اینٹ کوآزماتا ہے اور جہاں چند کمزور اینٹیں اُسے مل جاتی ہیں وہیں سے رخنہ پیدا کر کے اپنا راستہ نکال لیتا ہے‘ پھر نہ انجنیری کے وہ اصول کچھ بنا سکتے ہیں جن سے بند کی تعمیرمیں کام لیا گیا ہو اور نہ وہ بندشیں ہی سیلاب کا منہ پھیرسکتی ہیں جن سے اینٹوں کو جوڑا گیا ہو۔ (’’اشارات‘‘، ابوالاعلیٰ مودودی‘ ترجمان القرآن‘ جلد ۲۲‘ عدد ۶‘ جمادی الآخر ۱۳۶۲ھ‘ جون ۱۹۴۳ئ‘ ص ۳)