۱۹۹۱ء کی خلیجی جنگ میں یہ حقیقت واضح ہو کر سامنے آئی تھی کہ میدانِ جنگ کے ساتھ ساتھ ایک جنگ ذرائع ابلاغ کے محاذ پر بھی لڑی جاتی ہے۔ ماضی میں بھی پروپیگنڈے کو جنگ میں خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے اور خصوصی ریڈیو اسٹیشن اور نیوز بلٹن اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں لیکن اب ٹی وی اور سیٹلائٹ چینلوں کے دور میں‘ جنگ کا منظر اور اس کے ساتھ پیش کرنے والوں کا زاویۂ نظر‘ ہر ہر گھر میں‘ آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ عراق پر امریکی و برطانوی حملے سے قبل کے زمانے میں اور دورانِ جنگ مغربی ذرائع ابلاغ نے جو کردار ادا کیا ہے‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ الجزیرہ چینل کے بارے میں بہت کچھ کہانیاں بیان کی جاتی ہیں لیکن عراق پر تھوپی گئی اس جنگ میں اس کی کارکردگی عملاً اتنی موثر تھی کہ دنیا بھر کے میڈیا کو اس پر انحصار کرنا پڑا‘ کوئی بھی اسے نظرانداز نہ کر سکا۔ اس کی قیمت انھوں نے اپنے نمایندے کی شہادت سے ادا کی۔ کاش! اس طرح کا ایک چینل انگریزی زبان کا بھی ہوتا جوپوری دنیا میں موثر انداز سے براہِ راست ابلاغ کا ذریعہ بنتا۔
مغرب نے آزادیِ فکر اور آزادیِ رائے کا پرچار کچھ اس انداز میں کیا ہے کہ ہمارے بعض دانش ور اپنے بنیادی عقائد اور قومی مفادات کے خلاف بولنے اور شبہات اٹھانے کو ہی
اس کا مظہر سمجھتے ہیں‘ جب کہ مغرب کی اپنی تنگ نظری کا یہ حال ہے کہ اس جنگ میں اس کا انتظام کیا گیا کہ کوئی خبر سی آئی اے‘ اور پینٹاگون سے کلیر ہوئے بغیر نہ جائے۔ ماہنامہ نیوز لائن نے عالمی ٹی وی نیٹ ورکس کے نمایاں اینکرپرسن کے لبوں کو امریکی جھنڈے سے سِی کر اسی حقیقت کا اظہار کیا کہ کوئی اظہار رائے میں آزاد نہ تھا (مارچ‘ ۲۰۰۳ئ‘ ص ۲۶)۔ پیٹر آرنیٹ جیسے نمایندے سے عراق سے ہمدردی میں دو بول بولنے پر معذرت کروائی گئی اور پھر واپس بلا لیا گیا۔ ایک دوسرے معروف اینکرپرسن کو اس لیے برطرف کر دیا گیا کہ اس نے کہا تھا کہ ۲ ہزار میل دُور سے بم باری کرنا بزدلی ہے۔
اصل مسئلہ تو عالمی سطح پر الیکٹرونک ہی نہیں‘ پرنٹ میڈیا پر بھی غیرمتعصبانہ اور سچائی پر مبنی نقطۂ نظر پیش کرنے کا ہے‘ اور صرف دورانِ جنگ ہی نہیں‘معمول کے حالات میں بھی۔ صورت حال کا ایک جائزہ اس مسئلے کی اہمیت کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوگا۔
ابلاغ کے جدید ذرائع دوسری قوموں کو محکوم بنانے اور ان پر اجنبی تہذیب و ثقافت مسلط کرنے کے لیے بے دریغ استعمال کیے جا رہے ہیں‘ اور اس کا اولین ہدف مسلمان خصوصاً ترقی پذیر ممالک کے مسلمان ہیں۔ فوج کشی کے ذریعے دیگر اقوام کو نسل در نسل غلام بنانے کا سلسلہ اہل یورپ نے شروع کیا۔ فرانس‘ ہالینڈ‘ جرمنی‘ بلجیم‘ اٹلی اور برطانیہ نے دنیا کے ہرحصے میں لوگوں اور ملکوں کو غلام بنایا اور ان غلام ملکوں کو ’کالونی‘ کا نام دیا۔ یہ کام تین صدیوں تک جاری رہا۔ لیکن جدید دور میں ’’مہذب یورپ‘‘نے طریقۂ واردات تبدیل کیا‘ دوسری قوموں کوغلام بنانے کے لیے افواج کا استعمال ترک کر دیا گیا اور سیٹلائٹ کمیونی کیشن کو استعمال کیا گیا۔ پہلے افواج یلغار کرتی تھیں اور جسموںپر حکمرانی کی جاتی تھی‘ اب ذرائع ابلاغ یلغار کرتے ہیں اور ذہنوں کو مسحور کردیتے ہیں۔ اس وقت عالمی کاروبار زندگی کی امامت ریاست ہاے متحدہ امریکہ کر رہا ہے۔ دنیا بھر میں جو ٹیلی فون پائے جاتے ہیں ان کا ۵۷ فی صد امریکہ میںہیں۔ اخبارات‘ رسائل‘ فلم اور کیسٹ کے ذریعے جس قدر خبریں تیار کی جاتی ہیں اس کے ۵۷ فی صد کا منبع بھی امریکہ ہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم جو کچھ بھی سنتے ہیں یا دیکھتے ہیں یا اخبارات و رسائل میں پڑھتے ہیں یا محسوس کرتے ہیں‘ امریکہ کے ذرائع ابلاغ بالواسطہ یا بلاواسطہ اس میں شریک ہوتے ہیں۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ امریکہ سے شائع ہونے والا ہفت روزہ ٹائم دنیا کے ہر کونے میں پڑھا جاتا ہے۔ کم و بیش ہر ملک میں اس کے نمایندے موجود ہیں جن کی مجموعی تعداد کئی ہزار ہے۔ حکمران طبقہ‘ بیوروکریسی‘ امرا اور اخباری صنعت سے وابستہ ایک بڑی تعداد اس کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتی ہے۔ اس کی اشاعت ۵۰ لاکھ (قارئین ۳ کروڑ) ہے۔ دنیا بھر کے دو صد سے زائد نمایاں ترین قومی اخبار نیویارک ٹائمز‘ واشنگٹن پوسٹ‘ لاس اینجلس نیوز سروس سے خبریں وصول کرتے ہیں۔یونائیٹڈ پریس انٹرنیشنل (UPI) ۴۸ زبانوں میں خبریں جاری کرتا ہے۔ رائٹر کم و بیش ۱۰ ہزار اخبارات کو روزانہ خبریں فراہم کرتی ہے اور ایک ارب سے زائد افراد (تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ) ان خبروں کو موضوع بحث بناتے ہیں اور ان کے اثرات قبول کرتے ہیں‘ اور شعوری یا لاشعوری طور پر ان کے رنگ میں رنگتے چلے جاتے ہیں۔ برطانیہ سے شائع ہونے والے جریدے اکانومسٹ کے خریدار ۸ لاکھ ۴۵ ہزار ہیں۔ نیوز ویک کی اشاعت ۳۲ لاکھ اور۱۲ ایڈیشن نکلتے ہیں۔ وائس آف امریکہ سننے والوں کی تعداد ۹ کروڑ سے متجاوز ہے۔ بی بی سی کی نشریات سننے اور دیکھنے والے بلاشک و شبہہ کروڑوں میں ہیں۔ وال اسٹریٹ جرنل کی روزانہ اشاعت ۱۸ لاکھ ہے۔ ریڈرز ڈائجسٹ ۱۶ زبانوں میں شائع ہوتا ہے۔ وائس آف امریکہ کی نشریات ۵۲ زبانوں میں ہوتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں اسلامی دنیا سے شائع ہونے والے رسائل و جرائد کا جائزہ لیا جائے تو یہ افسوس ناک صورت حال سامنے آتی ہے کہ ساری اسلامی دنیا میں کوئی ایسا اخبار نہیں نکلتا جس کی روزانہ اشاعت ۱۵ لاکھ ہو۔ دنیا بھر کے ۵۰ سب سے زیادہ اشاعت والے اخبارات کا موازنہ دیکھنے سے معلوم ہوا کہ اسلامی دنیا سے شائع ہونے والا کوئی اخبار اس فہرست میں نہ آسکا۔
عالمی نشریاتی اداروں اور ویب سائٹس کے ذریعے معلومات بہم پہنچانے والے اداروں کی اس قدر کثرت ہو چکی ہے کہ پرنٹ میڈیا بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ۵۶ مسلمان ممالک کے بڑے بڑے اخبار عالمی اطلاعاتی اداروں سے خبریں حاصل کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعے معلومات کی فراہمی اور وصولی کا جو سلسلہ شروع ہواہے وہ کسی بھی قسم کی پابندی سے مبرا ہے۔ عالمی نشریاتی اداروں اور انٹرنیٹ کے ذریعے جو کچھ اسلامی ممالک میں ہو رہا ہے اس کے اثرات کا اندازہ لگانابہت مشکل ہے۔
کمیونزم کے زوال سے قبل مغربی دنیا نے اپنی ساری قوتیں کمیونزم کے نظام کو غلط ثابت کرنے میں جھونک دی تھیں۔ اور اب‘ جب کہ کمیونزم زوال پذیر ہو چکا ہے تو ’’مہذب‘‘ اور ’’آزاد‘‘ دنیا نے یہ طے کر لیا ہے کہ اصل خطرہ ’’بنیاد پرستی‘‘ اور ’’فنڈامنٹلزم‘‘ ہی ہے۔ الجزائر میں کچھ افراد ٹریفک بلاک کرنے کی کوشش کریں‘ یا مصر کے کسی قصبے میں چند نوجوان اکٹھے ہوں اور پولیس پر پتھر پھینکیں‘ فلسطین میں مظاہرین اور یہودیوں کے درمیان جھڑپیں ہوں یا نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور ممبئی کے ٹریڈ سنٹر میں دھماکا ہو‘ اس کو فی الفور بنیاد پرستوں کی سازش قرار دے دیا جاتا ہے۔ عالمی نشریاتی اداروں میں اس کی اس طرح تشہیر کی جاتی ہے گویا کہ جنونیوں اور عقل و خرد سے محروم لوگوں کے انبوہ کثیر اس کائنات کی ایک ایک چیز کو آگ لگا دینے یا دریا برد کرنے کے لیے اپنے اپنے گھروں سے نکل چکے ہیں اور اگر اس خطرے کو نہ روکا گیا تو مہذب اور غیر مہذب دنیا ایک روز راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوجائے گی۔
عالمی ذرائع ابلاغ نے لوگوں کے ذہنوں کو کس طرح غلط راہ پر ڈالا‘ اس کی ایک مثال صومالیہ ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ آپریشن صومالیہ کے ۱۰۰ سے زائد افراد کے صومالیوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کا ۲۰ ماہ تک شدید پروپیگنڈا کرتے رہے لیکن ہلاک اور زخمی ہونے والے ان ۱۳ ہزار صومالیوں کا کبھی بھی ذکر نہ آیا جنھیں اقوامِ متحدہ کی افواج نے ’’امن و امان‘‘ قائم رکھنے کے لیے صفحۂ ہستی سے مٹا دیا۔ فرح عدید‘ صومالیہ کا ہر دلعزیز لیڈر رہا ہے اس کو جنگجو‘ وحشی‘ خون کا پیاسا سردار قرار دیا گیا۔ جب کئی لاکھ افراد نے موغادیشو میں اس کا استقبال کیا تو اس کا کہیں چرچا نہ ہوا۔ صدر صدام حسین نے کویت پر حملہ کیا تواس کے خلاف ۲۸ ممالک کی فوج تیار کی گئی اور جب اقوامِ متحدہ کی مختلف پابندیوں کے باعث ۵ لاکھ عراقی بچے فاقہ کشی کی نوبت کو پہنچے تو کسی نے ان کی حالت زار کی طرف توجہ نہ دی۔ کویت کی آزادی کے لیے امریکہ نے اہم کردار ادا کیا لیکن بوسنیا کے مظلوموں کو سربیا کی ظالمانہ کارروایئوں سے بچانے کے لیے کچھ نہ کیا گیا اور اسے خانہ جنگی قرار دیا گیا۔ مصر کے صدر اور وزیراعظم کو ’’انتہا پسندوں‘‘ کی طرف سے جارحانہ اقدامات کی دھمکیاں ملیں تو عالمی پریس نے بڑھ چڑھ کر اس کو شائع کیا لیکن جب حسنی مبارک کی حکومت نے جیلوں کو بے گناہ نوجوانوں سے بھر دیا اور ہزاروں شہریوں کو بغیر مقدمہ چلائے حوالۂ زنداں کیا اور ۱۰۰ کے قریب افراد کومقدمہ چلائے اور جرم ثابت کیے اور اپیل کا حق دیے بغیر خصوصی سماعت کی عدالتوں کے ذریعے پھانسی کی سزا دی گئی تو عالمی پریس میں سے کسی نے ان کے حق میں آواز بلند نہ کی۔ جب گوجرانوالہ کے ۱۲ سالہ ’’سلامت مسیح‘‘ کو گستاخیِ رسولؐ آرڈی ننس کے تحت گرفتار کیا گیا تو انسانی حقوق کی اس ’’خوف ناک‘‘ خلاف ورزی پر عالمی پریس نے پاکستان کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں مگر افغانستان کے قلعہ جنگی میں بم باری اور زیرحراست افغانوں کے قتلِ عام پر کسی کی آنکھ پُرنم نہ ہوئی۔ بوسنیا کا نائب وزیراعظم برسرِعام قتل کر دیا جاتا ہے یا پھر فلسطین کی مسجدابراہیم میں ایک شخص ۷۰ افراد کو اپنی گولیوں سے بھون کر رکھ دیتا ہے تو اسے ایک فرد کا ذاتی فعل قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں تاجکستان‘ الجزائر اور تیونس میں اختلاف رائے رکھنے والے لوگوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیے جاتے ہیں تواسے ’’ضروری کارروائی‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔
لیبیا کے دو باشندے امریکہ کاطیارہ لاکربی کے شہر میں تباہ کر دیتے ہیں تو پورا ملک اس کی سزا بھگتتا ہے اور اس کا عالمی پیمانے پر حقہ پانی بند کر دیا جاتا ہے۔ اقوامِ عالم کو لیبیا کے ساتھ تجارت نہ کرنے کا حکم دیا جاتا ہے اور کروڑوں ڈالروں کے اثاثے ضبط کر لیے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس امریکہ ایرانی طیارہ مار گراتا ہے جس میں ۱۵۰ افراد ہلاک ہوتے ہیں تو اس پر نہ شور بلند ہوتا ہے نہ واویلا مچتا ہے‘ نہ معاوضے کا مطالبہ ہوتا ہے‘ نہ امریکہ پر پابندیاں لگانے کی آوازیں بلند ہوتی ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ذرائع ابلاغ خبروں اور نشریوں کو امریکی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں اور کر رہے ہیں۔ اس کے خلاف وہ کیوں استعمال کریں؟
آئرش ری پبلکن آرمی اور آئرلینڈ کی برطانیہ سے آزادی کے علم بردار گروہ پُرتشدد کارروائیوں پر عرصۂ دراز سے گامزن ہیں۔ صورت حال قابو سے باہر ہونے لگی تو اُس وقت برطانوی وزیراعظم جان میجر نے اعلان کر دیا کہ اگر آئرش صوبے کے لوگ ریفرنڈم کے ذریعے الگ ہونا چاہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ اس کے برعکس مقبوضہ کشمیر کے عوام نے ۸۵ ہزار افراد قربان کرا دیے ہیں‘ اربوں روپے کی فصلیں‘ فیکٹریاں‘ کاروبار اور املاک کو بھارتی فوجیوں نے ملیامیٹ کر دیا ہے‘ ہزاروںعورتوںکی فی الواقع عصمت دری ہوچکی ہے‘ پوری قوم بھارت کے پنجۂ استبداد سے آزادی کے لیے یک جان ہو چکی ہے لیکن عالمی ذرائع ابلاغ مجاہدین آزادی کو ’’مٹھی بھر شرپسند عناصر‘‘ انتہا پسند اور فرقہ پرست قرار دے کر ساری جدوجہد آزادی کو سبوتاژ کردیتے ہیں۔ اس دو رنگی کے ذمہ دار وہ یہودی عناصر اور ایجنسیاں ہیں جو ان عالمی رسائل و جرائد کے مالک اور پشت پناہ ہیں اور تمام فیصلے اپنی مرضی کے مطابق کرانا چاہتے ہیں۔
سی آئی اے کے ڈائریکٹر رابرٹ جے وزلی نے واشنگٹن حکومت کو ان ممالک کی فہرست پیش کی جو ایٹمی توانائی میں خود کفیل ہوا چاہتے ہیں یا ایٹمی صلاحیت حاصل کر چکے ہیں۔ پاکستان اور شمالی کوریا کا اس میں ذکر ہے لیکن اسرائیل کا اس میں کوئی ذکر نہیں ہے جس نے عرصۂ دراز سے ایٹم بم بنانے کی صلاحیت حاصل کر رکھی ہے۔
عالمی ذرائع ابلاغ کے دہرے معیاروں کی ایک ہلکی سی جھلک اُوپر پیش کردہ مثالوں سے واضح کی گئی ہے۔ سیٹلائٹ‘ ٹیلی وژن اور ۲۴ گھنٹے چلنے والی نشریات نے ترقی پذیر ممالک کے عوام کے ذہن کو اپنی مٹھی میں بند کر رکھا ہے۔ اس کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں ہوتی ہے۔ اس میں اسلامی تہذیب‘ اسلامی تمدن‘ اسلامی تاریخ‘ اسلامی کردار‘ اسلامی اخلاق کے خلاف ہرچیز موجود ہے۔ جینز سے لے کر جاز میوزک اور فری سوسائٹی تک کون سی چیز ہے جو ہمارے تمدن اور معاشرت کے مطابق ہے لیکن ہر لمحے مخلوط معاشرے‘ بے خدا تہذیب‘ مادہ پرستانہ ثقافت اور مادہ پرستی کی دوڑ میں ہمیں شریک کرنے کے لیے عالمی ذرائع ابلاغ کوشاں ہیں۔ فرانس اور برطانیہ میں دسویں جماعت کی اسکول کی مسلمان لڑکیوں کو اسکارف سے سر ڈھانپنے کے لیے اعلیٰ عدالتوں سے اجازت حاصل کرنی پڑتی ہے‘ جب کہ سیٹلائٹ نشریات کے لیے نہ کسی ملک سے اجازت لی جاتی ہے نہ میگا ٹرانسمیٹرنصب کرتے ہوئے اس چیز کا خیال ہی رکھا جاتا ہے کہ ان ممالک پر ان کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
بی بی سی ورلڈ سروس‘ سی این این اور دیگر عالمی نشریاتی اداروں نے استعماری ممالک کا پیغام آسان انداز میں سمجھانے کے لیے لسانی تدریس (language teaching) کے مسلسل پروگرام شروع کر رکھے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ دنیا بھر کے ۸۰ کروڑ افراد انگریزی زبان جانتے ہیں اور زمین پر چلنے والا ہر پانچواں شخص کسی نہ کسی حد تک انگریزی سے آگاہ ہے۔ یہ چیز تو سب جانتے ہیں کہ زبان کے ساتھ ہی تہذیب کے معیار بدلتے ہیں‘ ثقافت کی قدریں بدلتی ہیں‘ سوچ کے انداز بدلتے ہیں‘ فکر کے اطوار بدلتے ہیں‘ لباس کی ساخت بدلتی ہے‘ مکانوں کی طرز تبدیل ہوتی ہے‘ خیروخوبی کے معیار بدلتے ہیں‘ مقصدِزندگی بدلتا ہے۔ ترقی کے نام پر ہمیں جو کچھ سکھایا جاتا ہے اس کی بدولت اپنا مذہب دقیانوس‘ اپنی زبان فرسودہ‘ اپنے طریقے پیچیدہ‘ اپنی روایات ناقابلِ فہم اور اپنی رسومات مضحکہ خیز محسوس ہونے لگتی ہیں۔ معیارِ زندگی اور ’’ڈالر کی تلاش‘‘ میں پاکستان ہی نہیں بلکہ بہت سے اسلامی ممالک کے ’’گنج ہاے گراں مایہ‘‘ یورپ کے تحقیقی اداروں سے وابستہ ہو چکے ہیں۔ صرف امریکہ کے اندر پاکستان کے تقریباً ۵۰ ہزار ڈاکٹر موجود ہیں۔ دنیا کے جتنے نام ور مسلمان سائنسدان ہیں وہ سب غیرملکی لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ کے زیراثر وہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کی معراج یہ ہے کہ ’’معیارِ زندگی‘‘ کو بہتر بنایا جائے اور وہ اس طرح ممکن ہے کہ اپنی صلاحیتیں مہنگے داموں فروخت کی جائیں۔
امریکی ذرائع ابلاغ نے اس چیز پر اتفاق کر لیا ہے کہ روس کے زوال کے بعد اب کسی اور ’’فتنے‘‘ کو سر اُٹھانے کا موقع نہ دیا جائے۔ میوزک‘ فلم‘ اسپورٹس‘ ریسرچ‘ پالیٹکس‘ سائنس و ٹکنالوجی کے بارے میں لاتعداد ویب سائٹس‘ ہزارہا کیسٹ اور فلمیں دنیا بھر میں انتہائی سستے داموں فراہم کی جاتی ہیں۔ سیکڑوں کے حساب سے بچوں کے لیے مووی کارٹون تیار کیے گئے ہیں اور بچوں کے لیے کہانیاں تیار کی گئی ہیں۔ ان کے اندر عموماً کسی لمبی داڑھی والے شخص کو Devil (شیطان)‘ Dragon (بلا) اور Titan (عفریت) بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ ان میں سے کسی ایک میں بھی خدا‘ آخرت‘ قومی ذمہ داری‘ حسن اخلاق کا ذکر نہیں ہوتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری نسلِ نو کا ایک حصہ پاکستان کو اپنا ملک تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے‘ اس کی خدمت کا سوال تو ایک طرف رہا۔
مغربی تہذیب اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے ثقافتی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومتوں کی پوری پوری مشینری درکار ہے۔ لیکن عالم اسلام کے حکمران اس یلغار کا مقابلہ کرنا تو کجا‘ محسوس ہوتا ہے کہ شاید‘ اس کے مضر اور دیرپا اثرات تک سے واقف نہیں۔ لیکن تمام کی تمام ذمہ داری حکمرانوں کے سر ڈالنا بھی کوئی دانش مندی نہیں ہے۔ ضرورت ہے کہ محب وطن عوام اس طوفانِ بلاخیز کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر سطح پر منظم ہوں اور اس کے مضراثرات کو مٹانے کے لیے جدوجہد بھی کریں۔