حضرت عروہؓ بن ابی الجعد بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریوں کا ایک ریوڑ جو براے فروخت لایا گیا تھا‘ دیکھا۔ مجھے ایک دینار دیا کہ ایک بکری خرید لائو۔ میں گیا اور ایک دینار میں ایک کے بجاے دو بکریاں خرید لیں۔ لے کر آ رہا تھا کہ راستے میں ایک شخض ملا جس نے بکری خریدنی چاہی۔ میں نے ایک بکری ایک دینار میں ان کو فروخت کر ڈالی۔ اس طرح ایک دینار اور ایک بکری لے کر آپؐ کے پاس حاضر گیا۔ بکری اور دینار پیش کرتے ہوئے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ ہے آپؐ کا دینار اسے وصول فرما لیجیے‘ اور یہ ہے آپؐ کی بکری۔ آپؐ نے (خوش ہو کر پوچھا) یہ کس طرح سے ہوگیا۔ میں نے واقعہ بیان کیا۔ سن کر آپؐ نے مجھے دعا دی‘ فرمایا: اے اللہ! اس کے سودے میں برکت عطا فرما۔ اس کے بعد میرا یہ حال ہوگیا کہ میں تھوڑی دیر کوفہ کے بازار میں کام کرتا ہوں اور گھر جانے سے پہلے ۴۰ ہزار کا نفع کما لیتا ہوں۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں اگر عروہ مٹی میں ہاتھ ڈالتے تو اس سے بھی نفع کما لیتے۔ (الفتح الربانی ۱۵‘۱۶)
روز مرہ دنیوی ‘ خصوصاً کاروباری معاملات میں دعا اور اس کی برکتوں کی کارفرمائی آج کل کے مادی ذہن عام طور پر قبول نہیں کرتے۔ نیک اور صالح افراد سے دعا کروانے کی روایت اگر محض رسم نہ ہو‘ اخلاص نیت اور توجہ الی اللہ کے ساتھ ہو تو یقین رکھنا چاہیے کہ نتیجہ خیز ہوگی۔ حضرت عروہؓ تو خوش قسمت تھے کہ انھیں اللہ کے رسولؐ کی دعا ملی۔ دینے والی ذات تو اللہ تعالیٰ کی ہے جس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں‘ وہ آج بھی اپنے بندوں کی دعائیں سنتا ہے بلکہ پکار پکار کر بلاتا ہے کہ مجھ سے مانگو۔
احادیث میںایسے بہت سے اچھے کاموں کا ذکر ملتا ہے جن کے ساتھ اللہ کے رسولؐ کے متعین وعدے ہیں۔
حضرت جبیربن مطعمؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یارسولؐ اللہ! کون سی جگہ تمام جگہوں سے بری ہے؟ آپؐ نے فرمایا: میں نہیں جانتا۔ جبریل علیہ السلام تشریف لائے تو آپؐ نے ان سے پوچھا: جبریل! کون سی جگہ تمام جگہوں سے زیادہ بری ہے؟ جبریل نے عرض کیا: میں نہیں جانتا اور اس وقت تک کچھ نہیں کہہ سکتا جب تک اللہ تعالیٰ سے پوچھ نہ لوں۔ جبریل واپس گئے اور پھر لوٹ کر آئے۔ کہا کہ میں نے اللہ عزوجل سے پوچھا کہ کون سی جگہ تمام جگہوں سے زیادہ بری ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: دنیا کے بازار۔ (الفتح الربانی‘ ۱۵‘۱۶)
بازاروں کو سب سے بری جگہ کیوں کہا گیا ہے؟ اور وہ بھی اس اہتمام سے کہ حضرت جبریل نے اللہ تعالیٰ سے پوچھ کے آکر بتایا۔ بازاروں میں دنیا اپنے تمام فتنوں کے ساتھ مجسم ہوتی ہے اور آنے والوں کو اپنی طرف کھینچتی اور لبھاتی ہے۔ (بڑے بازاروں‘ ڈیپارٹمنٹل اسٹوروں‘ میلوں اور مینا بازاروں کا تصور کریں)۔ ضروریات کے لیے بازار جانا ضروری ہے لیکن دکانیں آپ کی خواہشات کو جگا کر اسراف و تبذیر پر آمادہ کرتی ہیں۔ خریداروں کو مائل کرنے کے لیے کیا کیا طریقے اختیار کیے جا رہے ہیں‘ بیان کی ضرورت نہیں۔ سادگی کی ساری مہم بازار آکر ختم ہو جاتی ہے۔ بازار بندہ مومن کے لیے ایک فتنہ اور آزمایش ہیں جن سے اپنی حفاظت کرتے ہوئے گزرنا چاہیے۔
حضرت عطاء بن فروخ ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ نے ایک آدمی سے زمین خریدی۔ اس کے بعد اس شخص نے آپ سے ملنے میں دیر کر دی۔ آپ اس سے ملے اور پوچھا کہ کیا مانع پیش آیا کہ رقم لینے نہیں آئے۔ اس نے جواب میں کہا کہ آپ نے اس سودے میں مجھے نقصان پہنچایا ہے۔ میں جس آدمی سے بھی ملا ہوں وہ مجھے اس پر ملامت کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا: کیا یہ چیز رقم کی وصولی میں مانع بن گئی ہے؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: تو اس میں کون سی مشکل ہے۔ آپ چاہیں تو سودا ختم کر دیں۔ آپ اپنی زمین واپس لے لیں اور چاہیں تو رقم وصول کر لیں۔ پھر فرمایا کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جنت میں داخل کرے گا ایسے شخص کو جو نرم ہو‘ خریدار ہو تو نرم‘ بائع ہو تو نرم‘ ادایگی کرنے والا ہو تو نرم‘ وصول کرنے والا ہو تو نرم۔ (الفتح الربانی)
ہم نے اپنی زندگیوں میں کتنی تلخیاں محض نرم خوئی اور نرم روی کی اس سنہری ہدایت کو ترک کرنے سے گھول رکھی ہیں۔ میاں بیوی کے معاملات ہوں‘ والدین اور اولاد کے معاملات ہوں یا کاروباری معاملات‘ اگر ہم اپنے کو دوسرے کی جگہ رکھ کر سوچ لیں تو ہمارے رویوں میں انقلابی تبدیلی آجائے۔ وہ سلوک کریں جو ہم اپنے ساتھ کیے جانا پسند کریں۔ کیا ہم چاہیں گے کہ ہمیں کوئی گالی دے‘ ہمارے اوپر آستینیں چڑھا لے؟ پھر ہم ایسا کیوں کریں۔ غیر ضروری مقدمات نے‘ جو محض کسی ردعمل میں دائر کیے جاتے ہیں‘ کتنوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ نرمی سے بات کی جائے تو آدمی اپنا حق چھوڑنے پر بھی تیار ہو جاتا ہے۔ لیکن بہرحال‘ تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے۔ نرمی کی تعلیم و تلقین بھی ہو‘ اور معاشرے کے رہنما اور بزرگ اس کا نمونہ بھی پیش کریں۔ طالب علم استادوں سے اور اولاد والدین سے نرمی کا سبق لیں۔
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دیہاتی سے ایک یا چند اُونٹ ’’ذخیرہ‘‘ نام کی کھجوروں کے عوض خریدے۔ یہ عجوہ کھجوروں کی ایک قسم ہے۔ سودا ہوگیا اور رسولؐ اللہ اسے اپنے گھرلے کر آئے اورکھجوریں تلاش کیں کہ قیمت ادا کی جائے لیکن نہ مل سکیں۔ رسولؐ اللہ باہر تشریف لائے اور فرمایا: اے اللہ کے بندے! ہم نے آپ سے اُونٹ کھجوروں کے عوض خریدے تھے لیکن کھجوریں دستیاب نہ ہو سکیں۔ دیہاتی نے یہ سن کر کہا: ہائے عہدشکنی! حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:لوگوں نے اسے ڈانٹ ڈپٹ شروع کی اور کہا کہ اللہ تجھے ہلاک کرے۔ کیا رسولؐ اللہ نے عہدشکنی کی؟ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ اسے کچھ نہ کہو‘ حق دار کو بات کرنے کا حق ہے۔ رسولؐ اللہ نے دیہاتی سے اپنی بات کو کئی بار دہرایا۔ جب آپؐ نے دیکھا کہ وہ اپنی نادانی کی وجہ سے آپؐ کی بات کو نہیں سمجھتا اور وہ یہی سمجھ رہا ہے کہ آپؐ اسے اس کا حق نہیں دے رہے تو آپؐ نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا: خویلہ بنت حکیم بن امیہ کے پاس ذخیرہ نام کی عجوہ کھجوریں ہیں تو ہمیں ادھار دے دیں۔ آدمی گیا پھر لوٹا اور عرض کیا کہ خویلہ کہتی ہیں کہ میرے پاس کھجوریں ہیں‘ میں دے دیتی ہوں۔ آپؐ وصولی کے لیے کسی کو بھیج دیجیے۔ رسولؐ اللہ نے اس آدمی کو کہا‘ جائو اس شخص کو اس کا حق پورے کا پورا دے دو۔ چنانچہ اس نے اس کا پورا حق دیا۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسولؐ اللہ صحابہ کرام کے حلقے میں تشریف فرما تھے کہ دیہاتی کا ادھر گزر ہوا۔ اس نے آپؐ کو دعا دیتے ہوئے کہا کہ اللہ آپؐ کو جزاے خیر دے۔ آپ ؐنے میرا حق پورے کا پورا بلکہ بہت عمدہ شکل میں دے دیا۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کو ان کا پورے کا پورا حق عمدہ شکل میں دینے والے اللہ کے ہاں قیامت کے روز بہترین بندوں میں شامل ہوں گے۔ (الفتح الربانی)
آج آپ کا حق کسی حساب اقتدا کے پاس پھنس جائے تو آپ سو دفعہ سوچیںگے کہ طلب بھی کریں یا نہ کرنے میں ہی خیریت ہے۔ قربان جایئے اس معاشرے پر جو اللہ کے رسولؐ اور ان کے ساتھیوں نے قائم کیا تھا۔ اس معاشرے میں سب سے بڑی ہستی‘ حق مانگنے والے کے درشت رویے پر ٹوکنے والوں کو خود روکتی ہے اور اس کا حق اس کی مرضی کے مطابق ادا کرنے کی تدبیر کرتی ہے (آج کل ایک عام آدمی بھی کتنی آسانی سے حق کی ادایگی کو ٹال دیتا ہے اور ساری پریشانی حق مانگنے والے کے حصے میں آتی ہے)۔ اس اسوہ کو زندگی کے لیے راہنما بنایا جائے تو حقیقی اسلامی معاشرہ وجود میں آئے۔ حق دار کو اس کا حق ادا کرنا اور عمدہ طریقے سے ادا کرنا‘پُرسکون معاشرتی زندگی کی بنیاد ہے۔ آپ حق ادا کریں‘ آپ کے حق بھی ادا کیے جائیں گے۔ کوئی مظلوم اور شاکی نہ رہے گا۔
حضرت ابوسعیدخدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص باغات کے پھلوں کی خریداری کیا کرتا تھا۔ پھل آفت سے دوچار ہوگئے۔ جس کے نتیجے میں اُس شخص کو مالکوں کی رقوم کا تاوان دینا پڑگیا۔ مالکوں نے ادایگی کا مطالبہ کیا۔ نبیؐ نے مسلمانوں سے اس کے لیے صدقے کی اپیل کی۔ لوگوں نے صدقہ کیا لیکن تاوان کی ادایگی نہ ہوسکی۔ رسولؐ اللہ نے حق داروں سے فرمایا: یہ رقم وصول کرلو‘ تمھارے لیے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ (الفتح الربانی)
آج بھی اس طریقے کو اپنایا جاسکتا ہے۔ ایک یا چند افراد جو جائز کاروبار کی وجہ سے زیربار ہوجائیں‘ ان کے لیے زرتعاون جمع کیا جا سکتا ہے۔ اس طریقے کو اپنا کر افراد اور ملک کو سودی قرضوں کے بوجھ سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔ معاشرے میں اس روایت کو قائم کرنا چاہیے کہ مقروض ادایگی نہ کر سکتا ہو تو اس سے اسی قدر وصول کیا جائے جس قدر وہ دے سکتا ہے‘ باقی معاف کر دیا جائے۔ آپ کے اس فیصلے کے مطابق اگر ایسی اخلاقی روایت ڈال دی جائے تو انفرادی اور اجتماعی مشکلات بڑی حد تک ختم ہو جائیں۔
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مال تقسیم کر رہے تھے کہ ایک شخص آیا اور آپؐ پر ٹوٹ پڑا۔ آپؐ نے کھجور کی ایک شاخ سے اسے کچوکا لگایا جس سے اس کا چہرہ زخمی ہوگیا۔ رسولؐ اللہ نے اسے بلایا اور فرمایا: ادھرآئو اور اپنا قصاص لے لو۔ اس نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ میں نے معاف کر دیا۔ (الفتح الربانی‘ ۱۵‘ ۱۶)
جواسوۂ رسول کی پیروی کا دعویٰ کرتے ہیں ‘ اس آئینے میں اپنا چہرہ دیکھیں‘ ایسی صورت میں ہمارا ردعمل کیا ہوگا؟ شاید ہم اس شخص کو اس کا قصور بتائیں گے ‘ اپنی زیادتی تسلیم ہی نہ کریں گے۔ ہمارے ہاں تو غربا میں تقسیم کے موقع پر ہجوم ہو جائے تو لاٹھی چارج بھی کیا جاتا ہے۔
قصاص‘ اسلامی معاشرے کی بڑی حسین روایت ہے۔ قرآن کے مطابق اس میں ہمارے لیے زندگی ہے۔ یہ روایت زندہ اور نافذ ہو تو ظالم کا ہاتھ بڑھنے سے پہلے رک جائے۔ معاشرے سے ظلم و زیادتی کی بیخ کنی ہو جائے اور ہر شخص‘ مرد و عورت اپنے کو محفوظ و مامون سمجھے۔ تھانے میں ظلم کرنے والوں سے برسرِعام قصاص لیا جائے‘ تو کس کی مجال ہے کہ ظلم کرے۔ جب اللہ کا رسولؐ قصاص سے بلند نہیں‘ تو ان سے زیادہ معزز کون ہے جو اپنے کو قصاص سے بری سمجھے۔