جون ۲۰۰۳

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| جون ۲۰۰۳ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

سید جعفر حسین ‘ متحدہ عرب امارات

’’عالمی امریکی استعمار ‘ اُمت مسلمہ اور پاکستان‘‘ (مئی ۲۰۰۳ئ) میں ایک جگہ لکھا گیا ہے: ’’فردِواحد کو آئین جیسی مقدس اور محترم دستاویز میں ٹاٹ کا پیوند لگانے کی اجازت نہیں‘‘۔اس سلسلے میں عرض ہے کہ مسلمانوں کا مقدس اور محترم آئین صرف قرآن ہے۔ جمہوری ملک کا آئین کبھی بھی مقدس نہیں ہو سکتا کیونکہ اس میں انسانوں کا عمل دخل شامل ہوتا ہے۔


رانا صابر نظامی ‘ الٰہ آباد

’’امریکی برطانوی مصنوعات کا بائیکاٹ‘‘ (مئی ۲۰۰۳ئ) میں اُمت مسلمہ کے نفع نقصان پر خوب روشنی ڈالی گئی ہے۔ البتہ یہ بائیکاٹ اس وقت کامیاب ہوگا جب متبادل مشروبات و مصنوعات مارکیٹ میں آجائیں۔ ملکی صنعت کاروںکو اس طرف توجہ دینی چاہیے اور اس موقع کو بھرپور استعمال کرنا چاہیے۔مسلمان اس وقت حالت ِ جنگ میں ہیں۔ لہٰذا زندگی کو سادہ سے سادہ بنانے کی ضرورت ہے۔ ترجیحات کا تعین کرکے جن اشیا کے بغیر گزارہ ہو سکتا ہے ان کا استعمال بند کر دیں‘ نیز سامان تعیش کو بالکل ترک کر دیں۔ حکومت بھی آگے بڑھ کر اقدام کرے۔ ’’بغداد کا المیہ: چند سبق‘‘ میں اقبال کا شعر٭(ص ۶۶) غلط شائع ہوگیا ہے۔

  • جی ہاں‘ یہ ہمارا سہو ہے جس پر ہم قارئین سے معذرت خواہ ہیں۔ درست شعر یوں ہے    ؎

ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے        پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے


عتیق الرحمان صدیقی ‘ ہری پور

’’خصائص سیدالانامؐ‘‘ (مئی ۲۰۰۳ئ) بہت موثر مضمون ہے۔ معلومات افزا بھی ہے اور فکرافروز بھی‘ نیز اسلوب نگارش بھی پُرتاثیر ہے۔ البتہ رسالت کی شہادت کے ضمن میں مصنف نے جن روایات کا سہارا لیا ہے استنادی پہلو سے وہ خاصی کمزور ہیں۔ سید سلیمان ندویؒ نے ایسی روایات کی صحت پر   سیرت النبیؐ جلد سوم میں تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ ترجمان کا دامن اگر ضعیف روایات سے پاک رہے تو زیادہ اچھا ہے۔


محمد بشیر جمعہ ‘ کراچی

وقت ‘ اللہ تعالیٰ کا ایک بیش بہا عطیہ ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر حسن صہیب مراد کے مضامین: (اپریل‘ مئی ۲۰۰۳ئ) نہ صرف دل چسپ ہیں بلکہ ان میں عملی باتوں کے ساتھ فکری رہنمائی بھی ہے‘ نیز تحقیقی لوازمہ ہے اور فلسفیانہ تناظر بھی۔


غلام قادر جتوئی ‘ کراچی

’’بغداد کا المیہ : چندسبق‘‘ اور ’’القدس براستہ بغداد‘‘ (مئی ۲۰۰۳ئ) بے حد معلومات افزا اور حقائق پر مبنی ہیں۔ یہود و نصاریٰ کی اسلام دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ملت اسلامیہ اور خصوصاً اس کے حکمرانوں کو اگر اب بھی ہوش نہیں آیا‘ اور اسلام کو صرف اپنے مفاد اور مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے تو وہ بھی صدام حسین کی طرح نشانِ عبرت بنا دیے جائیں گے!


عبدالخالق بٹ ‘ کراچی

’’کلام نبویؐ کی کرنیں‘‘ (اپریل ۲۰۰۳ئ) میں لکھا گیا ہے: ’’امیرالمومنین حضرت عمرؓ کو ایک مجوسی نے شہید کیا اور اس نے خودکشی کر لی۔ لیکن خود حضرت عمرؓنے ارشاد فرمایا کہ مدینہ کے مجوسیوں کو کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے۔ چنانچہ مدینہ میںکسی مجوسی کی نکسیر تک نہیں پھوٹی‘‘ (ص۳۳)۔ حالانکہ یہ بات خلافِ حقیقت ہے۔ بے شک حضرت عمرؓ نے بدلہ نہ لینے کا حکم دیا تھا مگر حضرت عمرؓکے صاحبزادے حضرت عبیدؓاللہ نے جوشِ انتقام میں حضرت عمرؓکے قاتل کی بیٹی‘ ایرانی سپہ سالار ہرمزان (جو گرفتار ہوکر مدینہ آئے اور پھر اسلام قبول کرکے وہیں بس گئے‘ یہ حضرت عمرؓ کے جنگی مشیر بھی تھے) اور ایک دوسرے مجوسی سمیت تین افراد کو قتل کر دیا تھا۔ بے شک یہ انتقام ایک بیٹے کی طرف سے تھا۔اسلامی حکومت یا اس کا کوئی اہلکار اس کام میں شریک نہیں تھا مگر یہ کہنا کہ ’’کسی کی نکسیر تک نہیں پھوٹی‘‘ خلافِ حقیقت ہے۔


خلیل الرحمان ‘ لالہ موسٰی

گذشتہ ماہ تحریک اسلامی کے روشن ستارے ایک کے بعد ایک جہانِ فانی سے رحلت فرما گئے۔اناللّٰہ وانا الیہ راجعون۔ مولانا گوہر رحمن‘ مولانا مصاحب علی‘ مولانا جان محمد عباسی کے  سانحات ارتحال دل و دماغ پر گہرے زخم لگا گئے۔ آسمانِ دنیا پر روشن کردار و خیالات کے یہ روشن آفتاب بجھ گئے۔ نصف صدی سے انسانیت کے یہ معمار پیہم محنت اور لگن کے ساتھ اسلام‘ تحریک اسلامی اور پاکستان کی خدمت کرتے آ رہے تھے۔ ہم اندازہ نہیں کرسکتے کہ کتنا بڑا نقصان ہوگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان     رجال صادقون سے راضی ہو۔

محترم قاضی حسین احمد کی تحریر ’’عالمی امریکی استعمار‘ اُمت مسلمہ اور پاکستان‘‘ کی روشنی میں اُمت کی بیداری کا خواب حقیقت بنتا نظر آ رہا ہے۔ پروفیسر خورشیداحمد کے مقالے ’’بغداد کا المیہ: چند سبق‘‘ میں حکمرانوںاور عوام کے لیے یکساں سبق پوشیدہ ہیں۔ ’’اُمت کی تربیت‘‘ نے تو مایوسی کے سایے ختم کر دیے۔ ڈاکٹر حسن صہیب مراد کے مضمون: ’’وقت: اسلامی تصورات‘‘ نے دیرینہ آرزو پوری کر دی کہ دینی مضامین سائنٹفک انداز میں آئیں۔ اس مضمون کا انگریزی ترجمہ ہو تو خاصے کی چیز ہوگی۔


ظفراقبال سعید ‘ کراچی

ترجمان القرآن کے لیے ایک تجویز ہے۔ ایک حصہ تحقیقی‘ تنقیدی‘ فکری‘ علمی ہو۔اس میں اسی زبان میں مضامین ہوں۔ دوسرا حصہ آسان ‘عام فہم‘ دل چسپ اور رواں بیان اور زبان میں ہو۔ اب سوال اٹھے گا کہ ترجمان کا آغاز اور مقصد کیا تھا۔ دو باتیں ہیں: اس وقت دوسرا حصہ خطبات‘ سلامتی کا راستہ وغیرہ کی شکل میں آجاتا تھا۔ دوسرے‘ اس وقت غالباً پہلے حصے کی زیادہ ضرورت اور طلب تھی۔ اب حالات بدل چکے ہیں۔ دوسرے حصے کی بہت زیادہ ضرورت ہے اور آبادی کی طلب بھی ہے۔ اس کا طالب کہاں جائے اور کس طرح آپ کے پاس آئے!


سید فیاض الدین احمد ‘ برطانیہ

ترجمان القرآن کے مندرجات تو سب ہی اپنی اپنی جگہ پر اچھے ہوتے ہی ہیں‘ مگر ’’مدیرکے نام‘‘ آئے ہوئے خطوط کے اقتباسات سے بھی ہوا کے رُخ کا پتا چلتا ہے۔ہماری صفوں میں یہ فیشن چل پڑا ہے کہ ہر بات کی ذمہ داری اوروں پر ڈال دیتے ہیں اور یہ بھی اکثر کہا جاتا ہے کہ ’’ہمارے دشمنوں نے کیا کیا سوچ رکھا ہے اور ان کی کیسی گہری چالیں ہیں‘‘۔ خدارا سوچیے کہ سوا ارب مسلمانوں کوآخر کس نے روک رکھا ہے کہ وہ جذباتیت کی فضا سے نکل کر ٹھوس اور جامع اور دور رس منصوبہ بندی کریں۔ آج اور کل نہیں بلکہ آیندہ دس‘ بیس اور پچاس برسوں کی منصوبہ بندی کریں۔ افسوس کہ اغیار کے تھنک ٹینک جو سوچتے ہیں اور جو ideas وہ ہمیں ’’فروخت‘‘کرتے ہیں ہم اُن پر ردعمل کرنے لگتے ہیں۔ آگے بڑھنے اور پیش بینی کرنے کی ضرورت ہے۔خطرات کی نشان دہی ضروری ہے مگر روشن مستقبل کیسے حاصل ہو سکتا ہے‘ اس کی منزلوں کی نشان دہی اور راستے کے نقوش بھی بتانے کی ضرورت ہے۔ورنہ تو پھر ہم صرف ایک reactive (ردعمل کا مظاہرہ کرنے والی ) قوت بن کررہ جائیں گے حالانکہ مسلمان تو pro-ctive (آگے بڑھ کر اقدام کرنے والا) ہوتا ہے۔ اُس کا دین اُسے ہمیشہ آنے والے دن اور حالات کے لیے تیار کرتا ہے۔