خدمت خلق کے کام کو اجتماعی طور پر کرنے کی ترغیب قرآن مجید میں دی گئی ہے۔ جہاں بھی یَحِضُّ کا لفظ آتا ہے‘ تحٰٓضُّوْنَ کا لفظ استعمال ہوا ہے‘ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ‘ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ کا لفظ آتا ہے--- ان سب مقامات پر اجتماعی کام کی ترغیب دی گئی ہے۔ اسی طریقے سے سورہ العصر میں صبر اور حق کی تواصی کا حکم دیا گیا ہے جس سے مفسرین نے پورے نظام خلافت کا قیام ضروری قرار دیا ہے۔ تَوَاصِیْ بِالْحَقِّ اور تَوَاصِیْ بِالصَّبْرِ کے لیے ضروری ہے کہ حکومت کا پورا نظام قائم ہو۔ ان سب مقامات پر اجتماعی کوشش کی طرف صاف صاف اشارہ ہے۔
اُس زمانے میں شعبے بنا کر منظم کام تو ریاست ہی کرتی تھی۔ لیکن اب معاشرے پھیل گئے ہیں اور وسیع تر ہوتے جا رہے ہیں۔ مختلف گروہ وجود میں آگئے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ مل جل کر اجتماعی طور پر منظم انداز میں کام کیا جائے۔ قرآن مجید میں اس کا صاف صاف حکم بھی دیا گیا ہے اور ترغیب بھی دی گئی ہے۔ اسی سے یہ بات نکلتی ہے کہ ہم مل جل کر شعبے بنا کر خدمت خلق کا کام کریں۔
اجتماعی اور منظم کام کرنے سے مراد محض قربانی کی کھالیں جمع کرنا نہیں ہے۔ ہم نے اس کو اتنا ضروری سمجھ لیا ہے کہ بہت سے مقامات پر جہاں قربانی کی کھالیں جمع نہیں ہوتی ہیں وہاں صرف اسی وجہ سے شعبہ خدمت خلق نہیں پایا جاتا۔ عام طور پر لوگوں کے ذہن میں وہی معنی بیٹھتے ہیں جو آدمی آنکھوں سے دیکھتا یا کانوں سے سنتا ہے۔ لوگوں کے ذہن میں خدمت خلق سے فوری طور پر شفاخانے اور چرم ہاے قربانی جمع کرنے کا تصور سامنے آتا ہے۔ خدمت خلق کا ایک جامع تصور ہے۔ یہ بھی اللہ کی بندگی اور عبادت کی طرح ایک فریضہ ہے جس میں ہر ایک کو حصہ لینا چاہیے۔ بعض کاموں کو منظم طور پر کرنے کے لیے شعبے قائم ہو سکتے ہیں اور مل جل کر کام کرنے کا سوچا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے منصوبے بھی بنائے جا سکتے ہیں۔ اس نوعیت کے بہت سے کام ہیں جو سب خدمت خلق کی تعریف میں آئیں گے۔ مثال کے طور پر وہ سب کام جن سے:
__ لوگوں کے مسائل حل ہوں‘
__ بھوکوں کو کھانا پہنچے‘
__ یتیموں کو سہارا ملے‘
__ جن لوگوں کی گردنیں غلاموں کی طرح لوگوں کے ہاتھوں میں پھنسی ہوئی ہوں‘ ان کی گردنیں آزاد ہو جائیں‘
__ جن مقروض افراد کی گردنیں قرض کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہوں‘ ان کے سر سے قرض کا بوجھ اُتارا جا سکے‘
__ بے روزگاروں کو روزگار مل جائے۔
یہ سب اس طرح کے کام ہیں جو مل جل کر منظم طور پر کیے جانے چاہییں۔ جو کام اکیلے اکیلے ہوتے ہیں‘ اگر مل جل کر کیے جائیں تو ۱۰ گنا زیادہ کام ہو سکتا ہے۔ جب لوگ مل کر بیٹھتے ہیں تو گروہ بناتے ہیں‘ تنظیم بناتے ہیں۔ تنظیم بنانے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ ایک اور ایک مل کر ۱۱ ہو جائیں۔ ایک اور ایک مل کر دو کی کوششیں دو کے برابر نہ ہوں بلکہ ۱۱ کی کوششوں کے برابر ہو جائیں‘ تب تنظیم کا مقصد پورا ہوتا ہے۔ جو چیز اضعافًا مضاعفًا‘ یعنی کئی گنا بڑھتی ہے وہ مل جل کر کام کرنے سے بڑھتی ہے۔ لیکن مل جل کر کام کرنے کو ہی اصل کام سمجھنا صحیح نہیں ہے۔ اسی طرح یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ ہم نے گھر پر بیٹھ کر خیرات کر دی اور لوگوں کو پوچھ لیا۔
یہ ضروری ہے کہ لوگ جمع ہوں‘ مل کر بیٹھیں‘ اہل محلہ کو جوڑیں‘ دوسروں کو بلائیں اور مل جل کر اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر سب مل کر یہ کام کریں تو یہی کام کتنا زیادہ پھیل سکتا ہے۔ اپنے اپنے محلّے میں کچھ لوگ کھڑے ہو جائیں اور دیکھیں کہ کون لوگ ضرورت مند ہیں‘ کون لوگ حاجت مند ہیں اور ان کی ضروریات کیا ہیں۔ اس کے بعد جو لوگ ان کی ضرورتیں پوری کر سکتے ہوں‘ ان سے رابطہ کرلیاجائے اور انھیں ترغیب دی جائے کہ وہ اپنے کمزور بھائیوں کی امداد کریں۔ اس تھوڑے سے کام سے بڑی برکت ہوگی اور بڑا کام ہوگا۔
لوگ تو تلاش میں ہوتے ہیں کہ کوئی مستحق ملے اور وہ اس کی مدد کر سکیں۔ اگر گائوں محلّے کے معتبر لوگ کھڑے ہوں‘ جو کہیں کہ ہم جانتے ہیں کہ فلاں یتیم ہے‘ بیوہ ہے اور وہ امداد کے مستحق ہیں تواسی گائوں اور محلّے سے ایسے لوگ مل جائیں گے جو خوشی سے آگے بڑھ کریہ کام کریں گے۔ ہر گائوں اور محلّے میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو مال دار اور غنی ہوتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تک پہنچا جائے اور ان سے مال لے کر اسی بستی کے فقرا میں تقسیم کر دیا جائے۔ دین میں خدمت کا بھی یہی اصول ہے کہ بستی میں جو لوگ صاحب ثروت ہوں‘ مال دار ہوں‘ ان سے وصول کر کے محتاجوں اور فقرا میں تقسیم کر دیا جائے۔ یہ کام زکوٰۃ کے علاوہ بھی ہو سکتا ہے۔ لوگ زکوٰۃ لے کر اس انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ ہم کو مستحق نہیں ملتے۔ اگر لوگوں سے صرف رابطہ کروا دیا جائے تو وہ امداد کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔
آج بھی مسلمانوں کے اندر بعض چیزوں کے بارے میں راسخ تصور پایا جاتا ہے کہ یہ ’’نیکی کا کام‘‘ ہے‘ مثلاً یتیم خانہ بنانا‘ کنواں کھدوانا‘ مسجد بنانا وغیرہ۔ اس حوالے سے مسلمان کے دل میں بڑا نرم گوشہ ہے۔ حدیث میں ہے کہ جس نے دُنیا میں مسجد بنائی اس نے جنت میں گھر بنایا۔ لوگ تعمیر مسجد کے لیے دل کھول کر چندہ دیتے ہیں۔ مسلمانوں کے کسی شہر میں چلے جائیں‘ اچھی اچھی عالی شان مسجدیں ملیں گی۔ ان کی تعمیر میں باہر سے ایک پیسہ بھی نہیں لگا ہوتا‘ سب کچھ مسلمانوں نے اپنی جیب سے دیا ہوتا ہے۔ وہ اس کام کے لیے پیسہ دیتے ہیں‘ لاکھوں لگاتے ہیں‘ اس لیے کہ ان کو یقین ہوتا ہے کہ اس میں اجر و ثواب ہے اور صحیح جگہ پیسہ لگ رہا ہے۔ اسی طریقے سے کنواں کھدوانا ہے۔ یہ بھی ایک ایسا کام ہے کہ مسلمان جانتا ہے کہ یہ بڑے ثواب کا کام ہے۔ مسلمان سبیل بہت لگاتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ جانتے ہیں پیاسے کو پانی پلانا بڑے ثواب کا کام ہے۔
نیکی اور خدمت خلق کے اس طرح کے بہت سے کام ہیں۔ اگر ان کی اہمیت‘ فضیلت اور ان کے لیے اللہ اور رسولؐ نے جو اجر رکھا ہے وہ لوگوں کو بتایا جائے تو یقینا لوگ ان راستوں میں‘ دل کھول کر خرچ کریں۔ اگر انھیں یہ بتایا جائے کہ فلاں کام کا کتنا اجر وثواب ہے‘ کتنا صدقہ جاریہ ہے‘ یا کنواں کھدوایا گیا تو جو پیاسا اس سے پانی پیے گا‘ قیامت تک اس کنویں سے آپ کو اس کا ثواب ملتا رہے گا‘ آپ کی آگ ٹھنڈی ہوتی رہے گی‘ جنت میں درخت اُگتے رہیں گے‘ میوے لگتے رہیں گے--- اگر اس طرح سے بات کی جائے تو وہ کہے گا‘ اچھا ‘میں یہ کنواں کھودنے میں ۱۰۰ روپے دے سکتا ہوں۔
اس طرح کی اجتماعی کوششوں سے کنواں کھد سکتا ہے‘ نہر کی صفائی ہو سکتی ہے‘ بہت سے کام ہو سکتے ہیں۔ اگر راستہ ٹھیک نہیں ہے‘ آپ کہتے ہیں کہ ہم مل جل کر راستہ ٹھیک کر دیتے ہیں۔ ۱۰ آدمی کدال لے کر کھڑے ہو جائیں کہ ہم راستے کو صاف کرتے ہیں۔ راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانے پر بھی جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ اگر کوئی کدال سے راستہ ٹھیک کر دے‘ لوگوں کے لیے چلنا پھرنا آسان ہو جائے‘ یہ بشارت اس کے لیے بھی ہے۔ اگر اس طرح سے لوگوں کی رہنمائی کی جائے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ مسلمان اس کے لیے آگے نہ بڑھیں۔
اس پر قیاس کرتے ہوئے اگر دیکھا جائے تو بہت سی ایسی اجتماعی صورتیں ہیں جن سے خدمت خلق کا کام کیا جا سکتا ہے۔ اگر عزم کریں تو یہ کام بڑے وسیع پیمانے پر ہو سکتا ہے۔
اس حوالے سے آخری بات یہ ہے کہ اس سارے کام کے اندر اگر کوئی اجر ہے تو وہ صرف اس صورت میں کہ یہ سارے کام صرف اللہ کے لیے کیے جائیں۔ اگر یہ کام اس لیے کیے جائیں کہ لوگ ہمارے شکرگزار ہوں‘ ہمارے ممنون ہوں‘ دعوت میں ہمارا ساتھ دیں‘ ہمیں ووٹ دیں--- ممکن ہے کہ یہ سارے فوائد حاصل ہوجائیں‘ ممکن ہے نہ ہوں‘ لیکن اجرضائع ہو گیا۔ اس لیے کہ اجر تو صرف اس صورت میں ہے کہ نیت یہ ہو:
اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ لاَ نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَّلاَ شُکُوْرًا o اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِنَّا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًا o (الدھر ۷۶:۹-۱۰) ہم تمھیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں‘ ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ‘ ہمیں تو اپنے ربّ سے اس دن کے عذاب کا خوف لاحق ہے جو سخت مصیبت کا انتہائی طویل دن ہوگا۔
اگر ہماری نیت اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ جو کچھ خدمت کرتے ہیں‘ کھانا کھلاتے ہیں‘ مسکرا کے بات کرتے ہیں اور کھجورکا ٹکڑا نکال کے دیتے ہیں‘ یہ صرف اللہ کی رضا اور آخرت میں نجات کے لیے ہے تو اجر ہے--- اگر نیت یہ ہوگی تو دوسرے فوائد بھی کئی گنا زیادہ بڑھ جائیں گے۔ اور اگر نیت یہ نہیں ہوگی تو آپ بیٹھ کے بار بار یہ الزام دیتے رہیں کہ ہم نے تو اتنا کام کیا لیکن اس کے باوجود لوگ ہمیں ووٹ نہیں دیتے‘ دوسروں کو دیتے ہیں۔ یہ تجربہ جو آپ کو ہوتا ہے‘ اور بار بار ہوتا ہے کہ لوگ بات نہیں سنتے‘ ہمارا ساتھ نہیں دیتے‘ ہمارے لیے کھڑے نہیں ہوتے‘ یہ بھی نیت کی خرابی کا نتیجہ ہے۔ آپ کی نیت ا س کے علاوہ کچھ نہیں ہونی چاہیے کہ صرف اللہ کو خوش کرنا ہے۔ ہمارا کسی پر کوئی احسان نہیں ہے جو اس پر جتانا ہو یا ہم پر کوئی احسان نہیں ہے جو اتارنا ہو۔ صرف اللہ کی رضا اور خوشنودی مقصود ہونی چاہیے۔ قرآن مجید میں ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآئَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ ط (البقرہ ۲:۲۰۷) دوسری طرف انسانوں ہی میں کوئی ایسا بھی ہے جو رضاے الٰہی کی طلب میں اپنی جان کھپا دیتا ہے۔
اللہ کی رضا کی تلاش میں‘ کسی جزا اور شکرگزاری کی توقع کے بغیر صرف آخرت میں اللہ کے عذاب سے بچنے کے لیے انسانوں کی خدمت کرنا‘ نیت صرف یہی ہونی چاہیے۔ اس کا اجر بھی آخرت میں پورا ملے گا اور دُنیا کے اندر بھی بڑی نعمتیں حاصل ہوں گی۔ ان خدمات اور کاوشوں کے ذریعے جو اجتماعی برکتیں اور اثرات آپ چاہتے ہیں یعنی غلبہ دین اور عوام کا رجوع‘ وہ بھی ان شاء اللہ اس سے ظہور پذیر ہوگا۔ لیکن اس کی بنیادی شرط یہی ہے کہ خدمت خلق کا جو کام بھی کریں‘ وہ بس اسی نیت اور ارادے سے کریں کہ اللہ ہم سے خوش ہو جائے‘ ہم اس کے عذاب سے بچیں ‘اور آخرت میں جب پہنچیں تو بندوں سے نہیں بلکہ اللہ سے ہم کواجر ملے۔ بندے جو کچھ بھی آپ کے احسان مند ہوں گے‘ آپ کی تعریفیں کریں گے وہ سب تو یہیں ختم ہوجائیں گی۔ جہاں آپ مٹی میں گئے‘ آپ کی تعریفیں ختم۔جو کچھ بھی آپ خوش ہوئے‘ لذت لی‘ کچھ بھی آپ کے ساتھ نہیں جائے گا‘ صرف نیت آپ کے ساتھ جائے گی۔
اللہ کی رضا کی نیت سے انسان جو کچھ کرتا ہے‘وہ بڑھتے بڑھتے اتنی بڑی جنت بن جائے گا جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ نیت بہ ظاہر معمولی سی بات ہے‘ وہی چھوٹی سی نیت‘ کہ یہ کام صرف اللہ کے لیے ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں جو اکرام کرے گا اس کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے:
فَوَقٰھُمُ اللّٰہُ شَرَّ ذٰلِکَ الْیَوْمِ ………… وَّکَانَ سَعْیُکُمْ مَّشْکُوْرًا (الدھر ۷۶:۱۱-۲۲) پس اللہ تعالیٰ انھیں اُس دن کے شر سے بچا لے گا اور انھیںتازگی اور سُرور بخشے گا اور اُن کے صبر کے بدلے میں اُنھیں جنت اور ریشمی لباس عطا کرے گا۔ وہاں وہ اُونچی مسندوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے۔ نہ اُنھیں دھوپ کی گرمی ستائے گی نہ جاڑے کی ٹھر۔ جنت کی چھائوں ان پر جھکی ہوئی سایہ کر رہی ہوگی‘ اور اس کے پھل ہر وقت ان کے بس میں ہوں گے (کہ جس طرح چاہیں انھیں توڑلیں)۔ اُن کے آگے چاندی کے برتن اور شیشے کے پیالے گردش کرائے جا رہے ہوں گے‘ شیشے بھی وہ جو چاندی کی قسم کے ہوںگے‘ اور ان کو (منتظمین جنت نے) ٹھیک اندازے کے مطابق بھرا ہوگا۔ ان کو وہاں ایسی شراب کے جام پلائے جائیں گے جس میں سونٹھ کی آمیزش ہوگی‘ یہ جنت کا ایک چشمہ ہوگا جسے سلسبیل کہا جاتا ہے۔ ان کی خدمت کے لیے ایسے لڑکے دوڑتے پھر رہے ہوں گے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے۔ تم اُنھیں دیکھو تو سمجھو کہ موتی ہیں جو بکھیر دیے گئے ہیں۔ وہاں جدھر بھی تم نگاہ ڈالو گے نعمتیں ہی نعمتیں اور ایک بڑی سلطنت کا سروسامان تمھیں نظر آئے گا۔ اُن کے اُوپر باریک ریشم کے سبز لباس اور اطلس و دیبا کے کپڑے ہوں گے‘ ان کو چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے‘ اور ان کا ربّ ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا۔
یہ ہے تمھاری جزا اور تمھاری کارگزاری قابل قدر ٹھیری ہے۔
یہ سب کچھ صرف اس صورت میں حاصل ہو سکتا ہے کہ لاَ نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَّلاَ شُکُوْرًا o (الدھر ۷۶:۹) ’’ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ‘‘۔ اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِنَّا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًا (الدھر ۷۶:۱۰) ’’ہمیں تواپنے رب سے اس دن کے عذاب کا خوف لاحق ہے جو سخت مصیبت کا انتہائی طویل دن ہوگا‘‘۔ یعنی ہمیں تو اپنے ربّ سے بس اسی دن کا ڈر لگا ہوا ہے جو دن بڑا سخت‘ نحوست والا‘ اُداسی کا اور رنج و غم کا دن ہے۔ ہم سمجھیں کہ ہم جو بھی کام کر رہے ہیں‘ یہ بندوں کی خدمت نہیں ہے بلکہ اللہ کی خدمت ہے۔ یہ اللہ کی بندگی ہے۔ یہ اللہ کا حق ہے‘ بندوں کا حق نہیں ہے۔ اور اگر آپ نے بندوں کے حوالے سے وہ کام نہیں کیے جو کرنے کے ہیں تو ان کے لیے بندے نہیں‘ اللہ تعالیٰ روزِمحشر خود کھڑا ہو جائے گا اور آپ کا دامن پکڑ لے گا‘ اور آپ سے گریبان میں ہاتھ ڈال کے پوچھے گا کہ یہ کام کیوں نہیں کیا؟
ایک حدیث میں اس کی بڑی اچھی تصویر کھینچی گئی ہے:
اللہ تعالیٰ قیامت کے روز بندے سے پوچھے گا: --- کہ میں بھوکا تھا تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا‘ میں پیاسا تھا تو نے مجھے پانی نہیں پلایا۔ مختلف احادیث میں مختلف الفاظ ہیں۔ ایک جگہ آتا ہے کہ میں بے لباس تھا تو نے مجھے کپڑا نہیں پہنایا‘ میں بیمار تھا تو نے میری عیادت نہیں کی--- اور ہر بات پر بندہ حیران ہو جائے گا کہ اَے ربّ العالمین! تو کیسے بھوکا ہو سکتا ہے؟ تو کیسے پیاسا ہو سکتا ہے؟ تو کیسے بے لباس ہو سکتا ہے؟ اور تو کیسے بیمار ہو سکتا ہے؟ اس پر اللہ کہے گا: نہیں‘ میرا فلاں بندہ بھوکا تھا‘ میرا فلاں بندہ پیاسا تھا‘ میرے فلاں بندے کے پاس پہننے کے لیے کپڑے نہیں تھے‘ میرا فلاں بندہ بیمار تھا‘ اور اگر تو اس کو کھلاتا پلاتا‘ عیادت کرتا تو آج اس کو یہاں پاتا---!
دراصل اللہ کی بندگی کا اصل راستہ یہی ہے!
’’خدمت خلق‘‘ کا لفظ قرآن مجیدیا احادیث میں کہیں نہیں آیا بلکہ اس کے لیے صدقہ‘ خیر‘ بِّر یا نیکی اور مختلف نام آئے ہیں۔ اس ضمن میں جو تفصیل بیان ہوئی ہے وہ سب وہی ہے جو خدمت خلق کے تحت آتی ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ خدمت خلق کا جو تصور ہم نے اپنے ذہنوں میں قائم کر رکھا ہے وہ بڑا محدود اور ناقص ہے۔ اس کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کام پر جو اجر و ثواب ہے ‘ اس کا تصور کیجیے‘ کتنا عظیم الشان ہے--- اس کے حصول کی فکر کرنی چاہیے۔
یہ کام دراصل اپنی ذات سے شروع کرنے کا ہے‘ لیکن اپنی ذات پہ رُک جانے کا نہیں ہے بلکہ ذات سے آگے بڑھ کر سب کو ملا جلا کر جمع کرنے کا ہے کہ سب اس کارخیر میں شریک ہوں۔ اگر آپ کی کوشش سے کوئی دوسرا آدمی خدمت خلق کے کام میں شریک ہو جاتا ہے تو‘ بغیر اس کے کہ اس کے اجر میں کوئی کمی ہو‘ آپ کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کا عجب مظاہرہ ہے۔ اگر آپ کے کہنے سے کسی نے گائوں میں کنواں کھدوا دیا تو صرف اس کو ثواب نہیں ملے گا‘ قیامت تک آپ کو بھی ملے گا۔ مَنْ دَلَّ اِلَی الْخَیْرِ‘ جس نے نیکی کی طرف رہنمائی کی اس کا اجرکَفَاعِلِہٖکرنے والے کی طرح ہے۔ اس کے اپنے اجر میں کوئی کمی نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ کے خزانے میں کوئی کمی نہیں ہے کہ کسی کو دے گا تو حساب کر کے کم کرلے گا‘ یا ایک کو دے گا تو دوسرے کا کاٹ لے گا‘ نہیں‘ جتنا ایک کو دے گا‘ دوسرے کو بھی اتنا ہی دے گا۔ دوسروں کوملا کر کام کرنے سے‘ اپنا اجر بھی اضعافًا مضعافًا کی طرح کئی گنا‘ دُگنا‘ چوگنا‘ آٹھ گنا بڑھتا جاتا ہے۔ یہ اس طرح کا حساب ہے۔
کسی بادشاہ نے ایک حساب دان سے پوچھا: میں کچھ دینا چاہتا ہوں‘ کیا دوں؟ اس نے کہا: حضور مجھے تو کسی چیزکی ضرورت نہیں ہے اللہ کا دیا‘ آپ کا دیا‘ سب کچھ میرے پاس ہے۔ بادشاہ نے کہا: پھر بھی میں تمھیں کچھ دینا چاہتا ہوں۔ اس نے کہا: پھر آپ ایسا کریں کہ شطرنج کی ایک بساط لیں جس میں ۶۴ خانے ہوتے ہیں اور اس میں آپ پہلے خانے میں چاول کے دو دانے رکھ دیں اور پھر ہر خانے میں اس کو دگنا کرتے جائیں۔ اس طرح صرف ۶۴ خانے آپ چاول سے بھر دیں‘ یہ میرے لیے کافی ہے۔ جب حساب کیا تو معلوم ہوا کہ اگر دو کو ۶۴ دفعہ دُگنا کرتے جائیں تو کوئی حساب دان بغیرکمپیوٹر کے اس کا حساب نہیں کر سکتا۔ اسی طرح جب اللہ تعالیٰ کہتا ہے: اضعافًا مضعافًا‘ یعنی دگنا‘ چوگنا‘ آٹھ گنا‘ ۱۶ گنا‘ ۱۰۰ گنا‘ ۷۰۰ سو گنا اور یُضْعِفُ مَنْ یَّشَاء--- جس کو چاہتا ہے مزید بڑھاتا ہے‘ تو ہمارے پاس خدا کے اجر و ثواب کو شمار کرنے کی کوئی حد نہیں ہے۔ کوئی حساب نہیں کر سکتا کہ اجتماعی کام کرنے سے کتنا اجر بڑھتا ہے۔
خدمت خلق کا کام اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ جب ہم اس کام کے ذریعے عالم انسانیت کے لیے اللہ کے نبیؐ کی طرح رحمت بن جائیں گے تو اس وقت ہمارے وہ خواب بھی پورے ہوں گے جو ہم دُنیا میں دین کے غلبے اور اس کی اقامت کے لیے دیکھتے ہیں۔ ان شاء اللہ! (کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)
(کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت: ۵ روپے ۔ سیکڑہ پر خصوصی رعایت۔ منشورات‘ منصورہ‘ لاہور)