ستمبر ۲۰۰۱

فہرست مضامین

کلام نبویؐ کی کرنیں

مولانا عبد المالک | ستمبر ۲۰۰۱ | فہم حدیث

Responsive image Responsive image

حضرت عبداللہ ؓہوزنی بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن حضرت بلالؓ سے حلب کے مقام پر ملا۔ میں نے عرض کیا: بلال! آپ مجھے رسولؐ اللہ کے نان و نفقہ کے بارے میں کچھ بتلایئے کہ وہ کیا تھا؟ انھوں نے جواب دیا: آپؐ کے پاس نفقہ کچھ نہیں ہوتا تھا۔ بعثت سے لے کر وفات تک یہی حال تھا۔ میں اس کا منتظم ہوتا تھا۔ آپؐ کے پاس جب کوئی مسلمان آتا تھا‘ آپؐ دیکھتے تھے کہ اس کا لباس نہیں ہے ‘تو آپؐ  مجھے حکم دیتے تھے۔ میں جاتا اور قرض لے کر اس کے لیے چادر خرید کر دیتا‘ اسے کھانا کھلاتا۔ اس طرح سے یہ سلسلہ جاری تھا کہ ایک مشرک شخص میرے پاس آیا اور کہا‘ بلال! میرے پاس مالی وسعت ہے‘ میرے سوا کسی اور سے قرض نہ لیا کرو۔ چنانچہ میں نے اس سے قرض لینا شروع کر دیا۔ ایک دن میں وضو کر کے اذان دینے کھڑا ہونے لگا تھا کہ وہی مشرک تاجروں کی ایک جماعت لے کر آپہنچا۔ جب دیکھا‘ تو آواز دی‘ اے حبشی! میں نے کہا: حاضر جناب! اس نے منہ چڑھایا اور مجھے نہایت سخت سست کہا۔ کہنے لگا‘ جانتے ہو مہینے میں کتنے دن رہ گئے ہیں؟ میں نے کہا‘ قریب آپہنچا ہے۔ کہنے لگا‘تیرے وعدے کے صرف چار دن رہ گئے ہیں۔ پھر میں تجھے قرض کے بدلے میں گرفتار کر لوں گا اور تجھے پہلے کی طرح دوبارہ بکریاں چرانے پر لگا دوں گا۔

اس کی گفتگو سن کر اور رویہ دیکھ کرمیں پریشان ہو گیا۔ انسان کو ایسی صورت حال سے جو بے چینی لاحق ہوتی ہے مجھے بھی لاحق ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عشاء کی نماز پڑھ کر اپنے گھر کی طرف واپس ہوئے تو میں نے بھی آنحضورؐ کے گھر مبارک کا رُخ کیا۔ اجازت مانگی‘ آنحضورؐ نے اجازت عنایت فرما دی۔ میں نے عرض کیا: یارسول ؐاللہ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان! جس مشرک سے میں قرض لیا کرتا تھا‘ اس نے مجھے یہ اور یہ سخت سست باتیں کہی ہیں۔ آپؐ کے پاس اس وقت ادایگی کے لیے کچھ نہیں ہے اور میرے پاس بھی کچھ نہیں۔ اس شخص کے رویے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے مجھے رسوا کرنا ہے ۔اس لیے آپؐ مجھے اجازت دے دیجیے کہ میں (وقتی طور پر) مدینہ کے باہر ان قبائل کے پاس چلا جائوں جو مسلمان ہو گئے ہیں‘ اور اس وقت تک ادھر رہوں جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؐ کے پاس اتنا مال نہ آجائے جس سے قرض کی ادایگی ہو سکے۔

آپؐ سے یہ باتیں عرض کر کے میں آپؐ کے پاس سے نکل آیا۔ اپنے گھر پہنچا تو اپنی تلوار ‘ تھیلا‘ جوتے اور ڈھال اپنے سرہانے رکھ لیں تاکہ صبح سویرے نکل جائوں۔ جب صبح طلوع ہونے لگی اور میں نے نکل جانے کا ارادہ کیا ہی تھا‘ دیکھا کہ ایک آدمی دوڑتا ہوا آ رہا ہے۔ زور زور سے بلال ؓبلالؓ کی آوازیں دے کر کہہ رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلا رہے ہیں‘ فوراً آپہنچو۔ میں پہنچا تو دیکھتا ہوں کہ چار اُونٹنیاں بیٹھی ہوئی ہیں۔ ان پر سازوسامان لدا ہوا ہے۔ آپؐ نے مجھے فرمایا: بلال ؓ،خوش خبری قبول کرو! اللہ تعالیٰ نے تمھارے قرض کی ادایگی کے لیے سازوسامان بھیج دیا ہے۔ پھر فرمایا: دیکھتے نہیں ہو چار اونٹنیاں سامان سے لدی بیٹھی ہیں۔ میں نے عرض کیا: ہاں ‘یارسولؐ اللہ!آپؐ نے فرمایا: یہ اونٹنیاں اور ان پر جو سازوسامان لدا ہوا ہے تمھارے لیے ہے۔ ان پر جو کپڑا اور غلہ ہے‘ فدک کے ایک بڑے آدمی نے ہدیہ بھیجا ہے۔ اسے وصول کر لواور اپنا قرض ادا کرو۔ چنانچہ میں نے امر کی تعمیل کی اور قرض چکا دیا (راوی نے واقعے کی مزید تفصیل بھی بیان کی)۔

میں آپؐ کے ارشاد کی تعمیل کر کے مسجد کی طرف گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ رسولؐ اللہ مسجد میں تشریف فرما ہیں۔ میں نے سلام عرض کیا۔ آپؐ نے فرمایا: بلالؓ!مال کا کیا بنا؟ میں نے عرض کیا: اللہ تعالیٰ نے رسولؐ اللہ کے تمام قرضوں کی ادایگی کا انتظام کر دیا۔ ادایگی ہو چکی ہے اب آپؐ  کے ذمے کوئی چیز باقی نہیں ہے۔ آپؐ نے سوال کیا: ادایگی کے بعد کچھ مال باقی بھی ہے؟ میں نے عرض کیا: ہاں‘ یارسولؐ اللہ۔ آپؐ نے فرمایا: دیکھو اسے بھی مستحقین میں تقسیم کر کے مجھے اس سے آرام پہنچائو۔ میں اپنے گھر کسی کے پاس نہیں جائوں گا یہاں تک کہ مجھے اس سے راحت نہ پہنچائو (یعنی کوئی فقیر مسکین آئے جو اسے لے جائے اور خرچ کرے)۔

میں نے عشاء تک انتظار کیا کہ کوئی مستحق آجائے لیکن کوئی نہ آیا۔ جب رسول ؐاللہ نے عشاء کی نماز پڑھ لی تو مجھے بلایا اور فرمایا: مال کا کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا: میرے پاس ہے‘ کوئی لینے کے لیے نہیں آیا۔ تب رسولؐ اللہ نے وہ رات مسجد میں گزاری (اس کے بعد راوی نے مزید تفصیل ذکر کی)۔ پھر اگلے دن آپؐ نے عشاء کی نماز پڑھی اور مجھے بلایا۔ پوچھا: مال کا کیا بنا؟ میں نے عرض کیا: اللہ نے آپؐ کو اس مال کے فتنے سے راحت دے دی۔ آپؐ نے یہ سن کر اللہ اکبر کہا اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ آپؐ نے اس کو خرچ کر دینے کا اہتمام فرمایا تاکہ کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ آپؐ اس دنیا سے اس حال میں رخصت ہو جائیں کہ یہ مال بچا رہے۔ اس کے بعد آپؐ گھر تشریف لے گئے۔ میں آپؐ کے پیچھے چل پڑا۔ آپؐ ازواج مطہرات میں سے ہر ایک کے پاس تشریف لے گئے۔ انھیں سلام کیا اور پھر وہاں تشریف لے گئے جہاں آج رات آرام فرمانا تھا۔ (ابوداؤد‘ حدیث نمبر ۳۰۵۵)

یہ مدینہ طیبہ کا حال ہے جہاں آپؐ حکمران بھی ہیں‘ مال و دولت کی آمد بھی ہے‘ اموال غنیمت‘ زکوٰۃ و صدقات اور ہدیے اور تحفے بھی آرہے ہیں لیکن انھیں اپنی ذات اور گھر پر نہیں بلکہ فقرا اور مساکین اور جہاد فی سبیل اللہ میں خرچ کر دیا جاتا ہے۔ اپنے اخراجات کے لیے قرض لے کر گزارا ہو رہا ہے۔ آنے والا مال دوسروں کو دیا جاتا ہے اور اپنے لیے توکل اور قرض پر گزارا ہے۔ آپؐ کا نمونہ بے نظیر اور بے مثال ہے‘ سب سے حسین اور سب سے اعلیٰ نمونہ!

حق داروں کو پورا اطمینان ہے کہ حکومت سے اپنے حق کا اسی طرح مطالبہ کرسکتے ہیں جس طرح ایک عام آدمی سے۔ مشرک قرض خواہ کو بھی اطمینان ہے کہ مجھے اپنے حق کی وصولی کے لیے سخت رویہ اختیار کرنے پر کچھ نہیں کہا جائے گا۔ مسلمان اپنی جگہ یہ تصور رکھتے تھے کہ حق دار اگر سخت رویہ اختیار کرتا ہے تواس کا جواب سختی سے نہیں بلکہ عدل و انصاف سے دینا ہے۔ اس بنا پر حضرت بلالؓ قرض کی ادایگی کے انتظام تک مدینہ سے باہر منتقل ہونے کے لیے تیار ہو گئے۔ حق کی بالادستی کی ایسی مثال کوئی پیش کر سکتا ہے!

مال جمع کرنے اور سمیٹ سمیٹ کر رکھنے کی چیز نہیں بلکہ مستحقین تک پہنچانے کی چیز ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب تک مال تقسیم نہیں کر دیا گھر میں داخل نہیں ہوئے۔ اگر سیرت رسولؐ کا یہ پہلو عام مسلمانوں کی زندگی میں آجائے تو معاشرے کے لیے مسائل پیدا ہی نہ ہوں۔


حضرت سہل ؓبن ابی حثمہ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ ؓبن سہل اور حضرت محیصہؓ بن مسعود خیبرگئے (یہ ان دنوں کی بات ہے جب خیبرفتح ہو گیا تھا اور یہود سے صلح ہو گئی تھی)۔ ایک جگہ پہنچ کر وہ ایک دوسرے سے (قضاے حاجت کے لیے) الگ ہوگئے۔ (کچھ دیر بعد جب حضرت عبداللہؓ نہ آئے تو حضرت محیصہؓ ان کی تلاش میں گئے) دیکھا کہ وہ خون میں لت پت پڑے ہیں۔ حضرت محیصہؓ نے حضرت عبداللہؓ کے کفن دفن کا انتظام کیا‘ اور فارغ ہو کر مدینہ طیبہ آگئے۔

مدینہ پہنچے تو حضرت عبدالرحمن ؓبن سہل اور ابن مسعود ؓکے بیٹے حضرت محیصہؓ اور حضرت حویصہؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مقدمہ لے کر پہنچ گئے۔ حضرت عبدالرحمنؓ بات کرنے لگے تو نبیؐ نے فرمایا: بڑوں کو بات کرنے دو۔ حضرت عبدالرحمنؓ دونوں سے چھوٹے تھے۔ چنانچہ وہ خاموش ہو گئے۔ حضرت حویصہؓ سب سے بڑے تھے‘ اس لیے پہلے حضرت حویصہؓ اور پھرحضرت محیصہؓ نے بات کی۔ آپؐ نے فرمایا: تم قتل کے عینی گواہ پیش کر سکتے ہو؟ کہنے لگے: گواہ تو ہمارے پاس نہیں ہیں۔ پھر آپؐ نے فرمایا: کسی معین آدمی کے بارے میں قسمیں اُٹھا کر کہہ سکتے ہو کہ وہ قاتل ہے‘ تاکہ قاتل تمھارے سپرد کر دیا جائے۔ انھوں نے جواب دیا: ہم نے دیکھا نہیں ہے‘ پھر کیسے قسمیں اُٹھا سکتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: پھر یہود کو قسمیں دے کر ان کی قسموں پر فیصلہ کرنا ہوگا (کہ وہ مدعاعلیہ ہیں اور مدعا علیہ کوقسم دی جاتی ہے)۔ انھوں نے جواب دیا: ہم یہود کی۵ قسموں پر راضی نہیں ہیں وہ بڑے بڑے جھوٹ بولتے ہیں۔ اس معاملے میں بھی وہ جھوٹی قسمیں اُٹھا لیں گے۔ رسول ؐاللہ نے یہود سے اس سلسلے میں بات کی تو انھوں نے قسم اٹھا کر قتل سے صاف انکار کر دیا۔ تب رسولؐ اللہ نے حضرت عبداللہؓ کی دیت سو اُونٹ بیت المال سے ادا کی۔ (بخاری‘ مسلم‘ موطا‘ ابوداؤد‘ ترمذی‘ نسائی بحوالہ جامع الاصول احادیث‘ ۷۸۱۲ -۷۸۱۳)

مسلمانوں اور یہود میں دینی‘ مذہبی اور سیاسی اختلاف تھا اور ہے۔ یہود سے متعدد جنگیں بھی ہو چکی تھیں۔ ان کے علاقے میں ایک مسلمان قتل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کے قتل کے واقعات کئی اور بھی پیش آئے۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا مقتولوں کے ورثا یا دوسرے مسلمانوں نے کسی نے بھی یہودی پر بلوے نہیں کیے۔ کسی یہودی کو قتل نہیں کیا‘ کسی کی دکان اور مال کو نقصان نہیں پہنچایا حتیٰ کہ دیت کا مطالبہ بھی نہیں کیا حالانکہ یہ بات یقینی تھی کہ یہود کا علاقہ ہے‘ وہاں یہود کے علاوہ کوئی اور موجود نہیں ہے‘ غالب گمان یہی ہے کہ یہود قاتل ہیں۔ لیکن چونکہ کوئی گواہ نہیں‘ یہود اقراری بھی نہیں‘ اس لیے بلاثبوت کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ مقتول کے ورثا اور دیگر مسلمانوں نے جذبات سے مغلوب ہو کر کسی پر دھاوا نہیں بولا۔اسلام اور اُمت مسلمہ کا یہ امتیاز ہے۔ اہل کفر پہلے بھی مذہبی دیوانگی کا شکار ہوئے اور آج بھی وہ مذہبی جنون میں مبتلا ہیں۔ کہیں کوئی ہندو‘ عیسائی قتل ہو جائے اور شبہ پیدا ہو جائے کہ کسی مسلمان کے ہاتھوں قتل ہوا ہے تو پھر مسلمانوں کی خیر نہیں رہتی‘ مسلمان آبادی پر دھاوا بول دیا جاتا ہے۔ بچوں‘ عورتوں‘ ضیعفوں اور بیماروں کو‘ مسجدوں اور مدارس کو قتل و غارت گری‘ وحشت اور درندگی کا شکار بنایا جاتا ہے۔ مسلمانوں میں بھی کبھی یہ بیماری آجاتی ہے لیکن یہ مذہبی دیوانگی ان میں دراصل دوسری قوموں سے آئی ہے۔ وہ بھی کبھی مسلکی اور لسانی بنیادوں پر ایک دوسرے کی جانوں اور مالوں کے درپے ہو جاتے ہیں۔ اسلام کیا ہے؟ وہ کیا سبق دیتا ہے؟ اس کا نمونہ مذکورہ واقعہ پیش کرتا ہے۔ یہود سے شدید دشمنی کے باوجود بلاثبوت ان پر کسی نے ہاتھ نہیں اٹھایا۔


حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حسن ظن حسن عبادت ہے۔ (ابوداؤد‘ حدیث نمبر ۴۹۹۳)