آگرہ میں منعقد ہونے والی بہ ظاہر غیر نتیجہ خیز سربراہی ملاقات ایک ایسا تاریخی موڑ ثابت ہو سکتی ہے جس کے بڑے دُور رس اور فیصلہ کن اثرات صرف ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل ہی پر نہیں بلکہ پاک بھارت تعلقات‘ سارک ممالک کے مجوزہ معاشی اور ثقافتی امکانات‘ پورے ایشیا کے مستقبل کے سیاسی دروبست اور کچھ بعید نہیں کہ نئے عالمی انتظام و انصرام‘ سب پر مرتب ہوں۔ اس میں ذرا بھی مبالغہ نہیں کہ اگر پاکستانی قیادت اور قوم ان ۴۸ گھنٹوں میں ہونے والے تاریخ ساز واقعات اور ان کے بعد نکھر کر سامنے آنے والے رجحانات کا صحیح صحیح تجزیہ کر کے مستقبل کے لیے موثر حکمت عملی بنانے اور اس کے مطابق کام کا نقشہ تیار کر کے اس پر عمل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو ہو سکتا ہے کہ تاریخ‘آگرہ کو صرف اس تاج محل ہی کے واسطے سے یاد
نہ رکھے جو ساڑھے تین سو سال سے محبت‘ حسن تعمیر اور ذوق جمال کا ایک عالمی شاہکار اور برعظیم میں مسلم ثقافت اور سطوت کی لازوال یادگار ہے بلکہ یہ برعظیم کے مستقبل کے لیے ایک نئی شاہراہ کی یافت کے لیے ایک سنگ میل بھی بن جائے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ تاشقند‘ شملہ اور لاہور اپنے اپنے طور پر اہم ہونے کے باوجود پاک بھارت تعلقات اور پاکستانی سفارت کاری کی تاریخ میں ایک گونہ پسپائی (جسے ایک حد تک ہر موقع کے مخصوص حالات کی وجہ سے ’’قابل فہم‘‘ تو سمجھا جا سکتا ہے مگر مطلوب اور قابل فخر نہیں!) کی علامت بن گئے ہیں۔ اس پس منظر میں آگرہ ایک مختلف نمونہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جو کچھ ہوا اور جو امکانات اس کے جلو میں رونما ہوئے ہیں وہ ایک نئے نموزج مثالیہ (paradigm) کا نقطہ آغاز‘ ایک نئے فراز کے لیے آئینہ اور تعمیرنو کے لیے نشانِ راہ بن سکتے ہیں۔
زندہ قومیں نہ کامیابیوں پر بے قابو ہوتی ہیں اور نہ مصائب میں حواس باختہ‘ وہ ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھاتی ہیں اور ہر واقعے پر بصیرت کی نگاہ سے غوروفکر کرتی ہیں۔ وہ سیاسی حالات اور واقعات کی تحلیل اور تجزیے کا ایک ایسا اسلوب اختیار کرتی ہیں جس کی بنیاد حقیقت پسندی(realism) پر ہوتی ہے مگر اس کے ساتھ ان کی گرفت قومی تصورات اور مقاصد پر بڑی مضبوط رہتی ہے۔ یہ اُسی وقت ممکن ہے جب خالی خولی تصوریت (utopianism) اور پست ہمتی اور شکست خوردگی دونوں سے پہلو بچا کر حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے اور مستقبل کی تعمیر کے عزم کے ساتھ مطلوبہ سعی و جہد بھی کی جائے۔صحیح اور نتیجہ خیز حکمت عملی وہی ہے جسے اس طرح مرتب کیا جائے کہ پائوں زمین پر ہوں اور نگاہیں منزل مقصود سے نہ ہٹنے پائیں۔
ایک مدت کے بعد آگرہ میں پاکستانی قیادت نے بڑی حد تک ایک پرعزم ‘ حقیقت پسندانہ اور باوقار رویہ اختیار کیا‘ وقتی فوائد کے مقابلے میں اصل مقاصد اور اہداف کو اہمیت دی‘ قومی مفاد کے تحفظ اور اپنی ترجیحات کو اولیت دی‘ نمایشی اقدامات سے مسحور ہو جانے کی حماقت نہیں کی اور محض وقتی کامیابی اور ناکامی کے چکر سے نکل کر اصل ایشوز پر اپنی اور دنیا کی توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کی دوسری پالیسیوں اور اقدامات سے شدید اختلاف کے باوجود ہم آگرہ حکمت عملی کو مثبت‘ مفید اور خوش آیند سمجھتے ہوئے اس کی تحسین کرتے ہیں اور انھی خطوط پر مستقبل کی راہوں کی تلاش کو وقت کی ضرورت اور قومی مفاد کا تقاضا سمجھتے ہیں۔
یہ بہت ہی نازک اور فیصلہ کن مرحلہ ہے۔ سوال پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفاد اور ملّت اسلامیہ کے مستقبل کا ہے۔ نہ حکومت کو آگرہ کی پذیرائی کو اپنے اقتدار کے لیے جواز یا اسے طول دینے کا ذریعہ بنانا چاہیے اور نہ قوم اور خصوصیت سے تمام محب وطن اور اسلامی قوتوںکو‘ دوسرے امور میں اختلاف کے باعث‘ اہم تاریخی لمحات اور امکانات کو کسی صورت میں ضائع ہونے دینا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آگرہ کے نموزج مثالیہ کو غیر معمولی اہمیت دے رہے ہیں اور ان مذاکرات کا تجزیہ تمام ضروری پہلوئوں کو سامنے رکھ کر کرنا چاہتے ہیں تاکہ قوم اور اس کی قیادت کو ایک نئے آغاز کے لیے دعوت دیں اور ان تقاضوں کی طرف متوجہ کریں جس کا سبق اس ’’ناتمام کامیابی‘‘ سے ملتا ہے۔
آگرہ مذاکرات کے کئی پہلو ایسے ہیں جن کو ایک حد تک معمّا بھی کہا جاسکتا ہے اور ان ہی کھلے اور چھپے گورکھ دھندوں کی قفل کشائی کے ذریعے آگرہ ماڈل کے ضروری اجزا کی تفہیم ممکن ہے۔
لاہور اور کارگل ‘ واہگہ اور واشنگٹن‘ ۱۲ اکتوبر اور پاکستان کا حقہ پانی بند کرنے کی بھارتی اور عالمی مساعی وہ پس منظر ہیں جنھیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ پھر ایک اور منظرنامہ سامنے آتا ہے۔ ایک طرف جنرل پرویز مشرف کی طرف سے بھارتی قیادت سے ملنے کے لیے بے چینی کا اظہار اور دوسری طرف سے خاموشی ہی نہیں حقارت آمیزتعلّی کہ ’’فوجی حکمران سے بات نہیں کریں گے‘‘ اور ’’کارگل کے معمار کو خوش آمدید کہنے کی کوئی گنجایش نہیں‘‘۔ اس کے ساتھ جموں و کشمیر میں کچھ نئی لہریں اُبھرتی ہیں۔ ۲۴ جولائی ۲۰۰۰ء کو یکایک حزب المجاہدین کی اندرونی کمانڈ کی طرف سے غیر مشروط جنگ بندی کا دھماکا ہوتا ہے جو ۸ اگست تک سب کو ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا رکھتا ہے۔ بھارتی قیادت زبانی اعلانات کے باوجود اس سے کوئی بڑا فائدہ نہیں اٹھا پاتی اور یہ جنگ بندی بھارت کی طرف سے تنازع کشمیر کے اہم اور مرکزی فریق پاکستان کومذاکرات سے باہر رکھنے کی ضد میں ختم ہو جاتی ہے۔ پھر جامع مسجد دہلی کے امام رمضان المبارک میں نئی جنگ بندی کی اپیلیں کرتے ہیں اور بھارتی وزیراعظم رمضان کے نام پر ایک یک طرفہ جنگ بندی کا ڈراما رچاتے ہیں جو پانچ مہینے میں کسی پیش رفت کے بغیر ختم ہو جاتا ہے۔ مجاہد قوتوں کو بانٹنے اور متنازع بنانے کے لیے اس زمانے میں صرف بھارت اور کشمیری قیادت (عسکری اور سیاسی بشمول حریت کانفرنس) میں مذاکرات کے پتّے کھیلے جاتے ہیں لیکن وہ بھی غیر موثر رہتے ہیں۔
اس پورے عرصے میں جموںو کشمیر میں خون کی ندیاں بہتی رہتی ہیں اور نام نہاد جنگ بندی کے باوجود جان و مال کی تباہی میں اضافہ ہوتا ہے۔ مئی میں جنگ بندی تو ختم کی جاتی ہے مگر یکایک جنرل پرویز مشرف سے بات چیت شروع کرنے کا عندیہ دیا جاتا ہے اور چشم زدن میں نہ ’’فوجی قیادت‘‘ کا ’’نامحرم‘‘ ہونا باقی رہتا ہے اور نہ ’’سرحد پار دہشت گردی‘‘ سنگ راہ بنتی ہے۔ سربراہی ملاقات کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ سردوگرم دونوں قسم کی بیان بازیاں ہوتی ہیں--- کبھی ’’انسانیت‘‘ کی بات ہوتی ہے اور امن کی ضرورت اور غربت کے خلاف جنگ کا وعظ دیا جاتا ہے ۔ کبھی کشمیر کے ’’اٹوٹ انگ‘‘ ہونے کی رَٹ لگائی جاتی ہے اور کبھی اس سے بھی آگے بڑھ کر کشمیر کو ’’بھارتی قومیت کی علامت اور سالمیت کی ضرورت‘‘ قرار دیا جاتا ہے ۔ ساتھ ہی امام جامع مسجد دہلی بھی حرکت میں آجاتے ہیں کہ ۱۵ کروڑ مسلمانوں کے مستقبل کا انحصار کشمیر پر بھارت کے راج میں ہے اور ملک مذہب کے نام پر ایک اورتقسیم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
اس پس منظر میں جنرل پرویز مشرف کو بلانے اور ان کو ’’شملہ‘‘ اور ’’لاہور‘‘ کے راستے پر ڈالنے کی سوچی سمجھی سفارت کاری کو سمجھنا ضروری ہے۔
پاک بھارت مذاکرات کا اگر بے لاگ جائزہ لیا جائے اور ہزار سال پھیلے ہوئے مسلمان اور ہندو قیادتوں کے مذاکرات کی تاریخ کونظراندازکرتے ہوئے صرف ان ۵۴ برسوںکا مطالعہ کیا جائے تو اس میں ایک خاص اندازنظر آتا ہے۔ بھارت کی قیادت نے کبھی بھی اصل زمینی حقائق کو پیش نظر رکھ کر دیانت اور انصاف کے ساتھ معاملہ نہیں کیا۔ ’’بغل میں چھری‘ منہ میں رام رام‘‘ محض محاورہ نہیں ‘ایک تاریخی حقیقت ہے۔ چاپلوسی اور دھوکا دہی‘ ایک طرف وعدے اور عہدوپیمان‘ دوسری طرف وعدوں سے انحراف‘ وقت پڑنے پر جھک جانا اور موقع نکلتے ہی اکڑ جانا ان کا طریقہ واردات ہے۔تقسیم ملک کو ایک ہاتھ سے قبول کیا گیا اور دوسرے ہاتھ سے تقسیم کی لکیر کو مٹانے اور اکھنڈ بھارت کے خواب کی تجدید رقم کی گئی۔ بین الاقوامی قانون اور سرکاری معاہدات کی کبھی پاس داری نہیں کی گئی۔ تقسیم کے وقت جو اثاثے پاکستان کا حق تھے وہ آج تک اس کو نہیں دیے گئے۔ جموں و کشمیر کے معاملے میں بھی پہلے دن سے دھوکا‘ دوغلہ پن اور خیانت کے حربے استعمال کیے گئے اور یہی سلسلہ آج تک جاری ہے۔ پاکستان تو پاکستان خود شیخ عبداللہ کے ساتھ بھی جسے جموں و کشمیر پر قبضے کے لیے آلہ کار بنایا گیا‘ بالکل یہی معاملہ کیا گیا اور بالآخر اسے اپنے دوست جواہر لعل نہرو کے بارے میں کہنا اور لکھنا پڑا کہ وہ کشمیر کے معاملے میں میکاولی کی سیاست پر کاربند تھے۔ یہ تاریخی حقائق ہیں جن کی تائید میںناقابل تردید شہادتیں موجود ہیں ۔خود پنڈت نہرو کے اپنے بیانات اور ان کے قلم سے لکھے ہوئے نوٹس اور رودادیں شائع ہو چکی ہیں۔ (ملاحظہ ہو‘ Selected Works of Jawaherlal Nehru جلد ۲۸‘ آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس‘ دہلی)
نہرو اور بھارتی قیادت پہلے دن سے جانتے ہیں کہ جموں و کشمیر کے عوام کی آزاد مرضی سے وہ کشمیر کو حاصل نہیں کر سکتے۔ انھوں نے استصواب کو ہمیشہ صرف دھوکا دینے کے لیے استعمال کیا اور آج بھی عوام کی رائے کا سامنا کرنے کو تیار نہیں۔ عین اسی وقت جب پنڈت نہرو عالمی راے عامہ سے عہدوپیمان کر رہے تھے اور خود اپنی پارلیمنٹ میں اپنی عزت کی قسم (word of honour) دے رہے تھے‘ وہ عوام کی رائے معلوم کرنے اور استصواب کروانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے ۔ انھوں نے اپنے شرکاے کار اور خود شیخ عبداللہ سے تحریری طور پر اس کا اظہار کیا اور مشورہ دیا کہ ان باتوں کو باہر نہ کہا جائے کیونکہ اس سے ہماری عالمی ساکھ خراب ہو جائے گی۔ بھارت کی سفارت کاری کو سمجھنے اور واجپائی کے جنرل پرویز مشرف پرسفارتی معاملے میں نوآموز ہونے کی پھبتی کی حقیقت کو جاننے کے لیے پنڈت نہرو سے لے کر واجپائی اور جسونت سنگھ کے دوغلے پن (duplicity)کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس لیے کہ کوئی بھی حکمت عملی جو خوش فہمی اور وعدوں کی متوقع پاس داری کی امید پر بنائی جائے غیرحقیقت پسندانہ ہوگی۔ صرف وہی حکمت عملی کامیاب ہو سکتی ہے جس میں نیک نیتی اور وعدوں کی پاس داری کے مفروضوں پر معاملات طے نہ کیے جائیں بلکہ اس میں خود نافذ ہونے والے طریق کار (self enforcing mechanism) موجود ہوں۔
بھارت کے دوغلے پن کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ جموں و کشمیر کے بارے میں پنڈت نہرو اور بھارتی قیادت کی حکمت عملی کو سمجھ لیا جائے۔ وہ ہر قیمت پر کشمیر پر اپنا قبضہ قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ استصواب رائے‘ تقسیم ریاست‘ خصوصی حیثیت (special status)سب اس کے لیے صرف ہتھکنڈے ہیں‘ مقصد یا پالیسی کے اجزا نہیں۔ اسی طرح سیزفائر (۱۹۴۸ء) ہو یا چین سے تصادم (۱۹۶۲ء) کے موقع پر پاکستان کی طرف سے کسی اقدام کی پیش بندی‘ ان سب کی حیثیت وقت گزاری اور محض کسی درپیش مشکل سے نکلنے کی کوشش سے زیادہ نہ تھی۔ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۶۴ء تک پنڈت نہرو کبھی استصواب اور کبھی مسئلے کے حل کا پختہ وعدہ کرتے رہے لیکن دراصل وہ کبھی بھی موجودہ حیثیت (status quo) سے ہٹنے کو تیار نہ تھے۔ جب بھی اس سے ہٹ کر کوئی بات ہوئی وہ ’’بین الاقوامی قانون‘ عالمی عہدوپیمان‘‘ بھارتی پارلیمنٹ میں عہدوپیمان‘ ہر چیز کو نظرانداز کرکے اپنی باتوں سے پھر گئے--- اور یہی وتیرہ آج تک قائم ہے۔
پنڈت نہرو ۳۱ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو پاکستان کے وزیراعظم لیاقت علی خان کو اپنے اور لارڈ مائونٹ بیٹن کے حوالے سے استصواب کے بارے میں لکھتے ہیں:
یہ عہد صرف آپ کی حکومت سے نہیں بلکہ کشمیر کے عوام اور دنیا سے بھی ہے۔
اس نوعیت کے دسیوں بیان پنڈت نہرو نے دیے۔ ۸ جولائی ۱۹۴۹ء کو اقرار کیا کہ "Kashmir is a world question" اور پھر ۷ اگست ۱۹۵۲ء کو بھارتی پارلیمنٹ میں اعلان کیا کہ:
یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ اگر یہ انڈیا کے علاوہ کسی دوسری قوم سے متعلق ہے تو اسے ایک بین الاقوامی مسئلہ ہونا ہی چاہیے‘ اور یہ دوسرے ملکوں سے متعلق ہے۔ یہ بین الاقوامی مسئلہ اس لیے مزید ہو جاتا ہے کہ دوسرے ملکوں کی ایک بڑی تعداد نے اس میں دل چسپی لی اور مشورے دیے… اس لیے اگرچہ کہ الحاق قانون اور حقائق کی نظروں میں مکمل ہے دوسری حقیقت بھی جس کا قانون سے کوئی تعلق نہیں ہے موجود ہے‘ یعنی کشمیر کے عوام سے یا اگر آپ پسندکریں تو دنیا بھر کے عوام سے ہمارا وعدہ۔ اس الحاق کی توثیق کی جا سکتی ہے‘ اسے منسوخ کیا جا سکتا ہے۔کشمیر کے عوام اگروہ چاہیں تو یہ کر سکتے ہیں۔
حتیٰ کہ ۱۹۶۲ء میں چین سے تصادم کے موقع پر ایوب خان‘ امریکی صدر کے نمایندے اور برطانوی سفارت کار سے مسئلے کوتیزی سے حل کرنے کا ایک بار پھر وعدہ کیا اور شیخ عبداللہ کو سفارت کاری کے لیے بیچ میں ڈالا لیکن یہ سب وقت گزاری کے لیے--- اور اب جو کاغذات شائع ہوئے ہیں ان میں صاف صاف لکھا ہے کہ ۱۹۴۷ء ہی سے نہرو کبھی بھی استصواب کے لیے تیار نہ تھے بلکہ صرف دھوکا دینے کے لیے یہ وعدے اور اعلانات کر رہے تھے۔ ۲۱ نومبر ۱۹۴۷ء کو پنڈت نہرو نے شیخ عبداللہ کو لکھا تھا کہ وہ خود بھی استصواب کے خلاف ہیں لیکن اس کے اظہار کا بیرونی دنیا پر خصوصاً اقوام متحدہ کے حلقوں میں بہت برا اثر ہوگا۔ اس لیے میرا آپ کو ذاتی مشورہ ہوگا کہ آپ کوئی ایسی بات نہ کہیں جس سے استصواب کی نفی ہوتی ہو۔ یہ بات اقوام متحدہ کی قراردادوں سے بھی پہلے کی ہے جو نہرو کے ذہن کی حقیقی عکاس ہے۔
اقوام متحدہ کو معاملہ بھیجنے کا مشورہ لارڈ مائونٹ بیٹن نے ۸ دسمبر ۱۹۴۷ء کو دیا ہے اور معاملہ وہاں
یکم جنوری ۱۹۴۸ء کو پہنچا ہے۔ پاکستان نے اپنا کیس دو ہفتے بعد پیش کیا اور پنڈت نہرو نے ۲۳ دسمبر ۱۹۴۸ء کو استصواب کے سلسلے میں UNCIPکی تجویز اس لیے قبول کی کہ سیزفائر ہو سکے۔ سیزفائر اس وقت بھارت کی ضرورت تھی۔
غلام محمد نے ۱۹۵۳ء میں لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے پنڈت نہرو سے کشمیر کے مسئلے پر تصفیے کی کوشش کی۔ اس موقع پر پنڈت نہرو پاکستان میں بھارت کے سفیر سی سی دیسائی کو in strict confidence لکھتے ہیں:
میں جانتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ غلام محمد تصفیے کے لیے بے چین ہے اور اس کے لیے کچھ آگے جانے کے لیے بھی تیار ہے۔ یہ ایک خوش آیند اپروچ ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ اس سال موسم خزاں میں ریاست جموں و کشمیر میں استصواب کا انعقاد کیا جائے‘ سرے سے ممکن ہی نہیں۔ ذاتی طور پر مجھے اس کے علاوہ کوئی راستہ نظر نہیں آتا کہ دونوں فریق جزوی تبدیلیوں کے ساتھ جوں کی توں صورت حال قبول کر لیں۔ بلاشبہ اگر کوئی معاہدہ ہوا تو کئی باہمی فوائد بھی ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی فطری طور پر مجھے یہ کہنے میں بڑا تکلف ہے کہ ہم استصواب منعقد نہیں کریں گے۔ یہ وعدہ خلافی محسوس ہوگی اور میں اس کا مجرم نہیں بننا چاہتا۔
اس سے بھی پہلے دل کی بات نہرو نے ایک نہایت خفیہ خط میں شیخ عبداللہ کو ۲۵ اگست ۱۹۵۲ء کو لکھی تھی۔ اس میں اصل عزائم کا یوں اظہار کیا گیا ہے:
’’ہم فوجی اور صنعتی طاقت کی حیثیت سے پاکستان سے برتر ہیں لیکن یہ برتری اتنی بڑی نہیں ہے کہ جنگ یا جنگ کا خوف جلد نتائج پیدا کر دے۔اس لیے ہمارے قومی مفاد کا یہ تقاضا ہے کہ ہم پاکستان کے ساتھ پرامن پالیسی اختیار کریں اور اس کے ساتھ ہی اپنی طاقت میں اضافہ کریں۔ طاقت کا منبع صرف مسلح افواج نہیں بلکہ ان کی پشت پر موجود صنعتی اور اقتصادی طاقت ہے۔ جیسے جیسے ہماری طاقت میں اضافہ ہوگا‘ اور امید ہے کہ ایسا ہوگا‘ پاکستان میں ہم کو دھمکی دینے یا ڈرانے کا رجحان کم ہوتا جائے گا اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ محض حالات کے دبائو کے تحت وہ ایسا حل قبول کرنے پر آمادہ ہو جائے گا جسے ہم منصفانہ سمجھتے ہیں خواہ کشمیر میں یا کہیں اور‘‘--- وہ چاہتا تھا کہ ’’شیخ عبداللہ اور اس کے ساتھی واضح اور سخت رویہ رکھیں اور بنیادی مسائل کے بارے میں کوئی بحث نہ کریں۔ اگر ہمارا یہ رویہ ہو تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اقوام متحدہ کیا سوچتی ہے یا پاکستان کیا کرتا ہے‘‘۔ (جلد ۱۹‘ ص ۳۳۰-۳۳۲)
یہ ہے بھارت کی اعلیٰ ترین قیادت کا اصل چہرہ۔ کانگریس کے پنڈت نہرو ہوں یا بی جے پی کے اٹل بہاری واجپائی--- ذہن‘ عزائم اور سفارت کاری کا اسلوب ایک ہی ہے۔ اسے سمجھے بغیر بھارت کی قیادت سے معاملہ کرنا اندھے کنویں میں چھلانگ لگانے کے مترادف ہے۔
جولائی ۲۰۰۱ء کے مذاکرات مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے نہیں‘ پاکستان کو ایک بار پھر بحالی اعتماد کے نمایشی کھلونوں میں اُلجھانے اور سب سے بڑھ کر جموں و کشمیر میں تحریک مزاحمت کی کمر توڑنے اور پاکستان اور کشمیری عوام اور سیاسی اور جہادی قیادت کے درمیان بے اعتمادی اور بُعد پیدا کرنے کے لیے کیے گئے تھے۔ بھارتی قیادت کا خیال تھا کہ جنرل پرویز مشرف کے کاندھوں پر اپنے زعم میں سند جواز کی خلعت ڈال کر اور بڑے تام جھام سے ان کا استقبال کر کے انھیں بھی نوازشریف کی طرح خوش نما وعدوں اور دل فریب ثقافتی‘ سیاسی اور معاشی امکانات کے سبز باغ دکھا کر لائن آف کنٹرول پر کوئی معاملہ طے کرا لیں گے۔ لیکن جنرل پرویز مشرف نے اس جال میں پھنسنے سے انکار کر دیا اور سرزمین ہند پر ۱۴ جولائی کو پہلا قدم رکھنے سے ۱۷ جولائی نصف شب واپسی تک ایک ہی موقف رکھا کہ آئو اور جو اصل متنازعہ مسئلہ ہے اس پر بات چیت کرو ۔یہ مسئلہ حل ہو جائے گا تو باقی تمام معاملات بھی طے ہو جائیں گے۔ اگر اس کے بارے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوتی تو باقی سب لاحاصل ہے۔
جسے ہم آگرہ ماڈل کہتے ہیں اس کے پانچ اجزا ہیں:
۱- مقصد اور اہداف کے بارے میں ایک واضح لائن اور اسی کی روشنی میں ترجیحات کا تعین--- اصل نزاع مسئلہ جموں و کشمیر پر ہے۔ اس سے ہٹ کر کسی معاملے میں اُلجھنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔
۲- جموں و کشمیر کا مسئلہ محض زمینی تنازع نہیں بلکہ ریاست جموں و کشمیر کی اصل حیثیت (status)کا تعین ہے جو آج تک معلق ہے۔ قانونی اور سیاسی اعتبار سے بھی اور جموں و کشمیر کے عوام کے جذبات و احساسات کے اظہار کی صورت میں بھی۔ یہ فیصلہ جموں و کشمیر کے عوام کو اپنی آزاد مرضی سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کرنا ہے۔ بھارت اور پاکستان فریق مسئلہ ہیں لیکن آخری فیصلہ صرف جموں و کشمیر کے عوام ہی کو کرنا ہے۔ اس لیے ان سے مشورہ اور بالآخر انھیں فیصلے میں شریک کرنا ناگزیر ہے۔
۳- پاکستان کی کسی بھی قیادت کو یہ اختیار نہیں کہ قوم کے متفقہ تاریخی موقف سے ہٹ کر کوئی راستہ اختیار کرے یا ان کو مشورے میں شریک اور مکمل اعتماد میں لیے بغیر کوئی اقدام کرے۔ اس لیے مذاکرات سے پہلے پوری قوم کو اعتماد میں لیا گیا اور مذاکرات کے بعد ان کو پوری صورت حال سے مطلع کیا گیا۔
۴- بھارت سے معاملہ کرنے میں جہاں یہ ضروری ہے کہ وہاں کی قیادت سے بات کی جائے‘ وہیں جمہوری اصولوں اور بھارت کے اپنے دعووں کی روشنی میں ضروری ہے کہ بھارت کے عوام‘ وہاں کی صحافت‘ وہاں کے دانش ور اور پالیسی پر اثرانداز ہونے والے تمام عناصر سے بھی مکالمہ ہو۔ محض بند کمروں میں ایک دوسرے سے روایتی بات چیت کو مذاکرات کا سب کچھ (be all and end all) نہ سمجھ لیا جائے بلکہ کھلی بحث ہو‘ عوام تک پہنچا جائے اور راے عامہ کو بھی ان امور کے لیے تیار کیا جائے جن پر امن‘ ترقی اور دوستی کا انحصار ہے۔
۵- بات چیت کھلے ذہن سے ہو۔ طریق کار اور عملی اقدامات کے لیے نئے راستے تلاش کرنے کے لیے آمادگی ہونی چاہیے لیکن اصل مسئلے کو پس پشت ڈال کر اور صرف ضمنی چیزوں پر ساری قوت اور وقت صرف کرنا پہلے بھی لاحاصل رہا ہے اور اب بھی غیرمفید ہوگا۔ اس لیے مرکزی مسئلے ہی کو مذاکرات کا ہدف بنایا جائے۔ اور یہ کام دلیل کی قوت سے‘ انصاف کے مطابق‘ عالمی قانون اور عہدوپیمان کا پاس کرتے ہوئے اور عوام کی مرضی کے مطابق انجام دیا جائے۔ یہ جمہوریت کی روح ہے‘ یہی عدل و انصاف کا تقاضا ہے اور اسی طرح دیرپا امن اور مستقل دوستی کی راہیںہموار ہو سکتی ہیں۔
یہ پانچ اجزا مل کر آگرہ ماڈل بنتے ہیں اور تاشقند‘ شملہ اور لاہور تینوں میں جو سقم تھا اور جس کی وجہ سے وہ عملاً غیر موثر رہے اس کی تلافی کرتے ہیں۔ اگر کوئی نیا آغاز (break through)ممکن ہے تو وہ اسی طریقے سے --- اور یہی وہ چیز ہے جو واجپائی اور ان کی ٹیم کو ہضم نہ ہو سکی۔ پہلے توکچھ ضبط اور رواداری کا مظاہرہ کیا گیا لیکن پھر پارٹی کی میٹنگ اور پارلیمنٹ میں پھٹ پڑے اور شرافت‘ انسانیت اور سفارتی اور سیاسی آداب کو بالاے طاق رکھ کر جنرل پرویز مشرف کے عسکری ذہن(military mindset)‘ کمانڈوانداز سیاست‘ تاریخ اور سفارت کاری سے عدم واقفیت‘ سیاسی ناتجربہ کاری سے لے کر رخصت کے وقت ان کے چہرے کے رنگ اور خدوخال سب پر برس پڑے۔ صدر پرویز مشرف مشترک اعلامیہ تو حاصل نہ کر سکے لیکن وہ اپنی قوم‘ جموں و کشمیر کے عوام اور تحریک آزادی کے جان فروشوں اور پوری دنیا کے سامنے سرخرو ہوئے ۔ انھوں نے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا اور ساری دنیا کی توجہ ایک بار پھر اصل مسئلے پر مرکوز کرا دی۔ اسے محض media coupقرار دینا کم ظرفی اور حقیقت سے نظریں چرانا ہے۔ آگرہ ماڈل کا اصل حاصل یہ ہے کہ:
سب کے سامنے یہ حقیقت آگئی ہے کہ مذاکرات براے مذاکرات ایک لاحاصل شے ہیں۔ نیز محض بے معنی اعلامیے نہ ماضی میں مسائل کے حل کی راہ میں معاون ہوئے ہیں نہ آج ہو سکتے ہیں۔ گذشتہ ۵۴ برسوں میں اعلیٰ سطح کے مختلف مذاکرات میں ۱۰۰ سے زیادہ اعلامیے جاری ہو چکے ہیں مگر بے فائدہ۔ آیندہ اگر مذاکرات کو کارآمد ہونا ہے تو اصل مسئلے پر بات چیت اور اس کے حل کے لیے تیار ہونا ہوگا۔
آگرہ کے دو دن میں پاکستان اور کشمیر کی جدوجہد آزادی نے جو کچھ حاصل کر لیا وہ شملہ سے لاہور تک ۳۰ برس میں حاصل نہیں ہو سکا تھا۔ مذاکرات میں پاکستان کے موقف کے بعد جن باتوں کا اب کھلے بندوں اعتراف ہو رہا ہے ان میں کشمیر کی مرکزیت‘ کشمیری عوام کا اپنے مستقبل کو طے کرنے کا حق‘ کشمیر میں بھارتی زیادتیاں سب پر گفتگو ہورہی ہے اور خود یہ سوال اٹھائے جانے لگے ہیں کہ اگر کشمیر کا مسئلہ کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا تو اقوام متحدہ میں بھارت کیوں گیا تھا‘ استصواب کی تجویز کو کیوں مانا اور کیوں اس سے فرار کی راہ اختیار کی‘ دستور میں دفعہ ۳۷۰ اور دفعہ ۲۵۳ کی پرویژن کیوں رکھی گئی۔
بھارت کے معروف اخبارات و رسائل ہندوستان ٹائمز‘ فرنٹ لائن‘ ٹائمز آف انڈیا‘ انڈین ایکسپریس‘ کشمیر مانٹیر اور اکنامک اینڈ پولٹیکل ویکلی میں اے جی نورانی‘ نیجا چودھری‘ پرافل بدوائی‘ کے بالگوپال‘ اے این رام اور دیگر متعدد مضمون نگاروں نے کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور بھارت کے موقف پر تیزوتند سوالات اٹھائے ہیں۔ ہندستان ٹائمز کے عوامی سروے شاہد ہیں کہ بھارت کے عوام کی ۸۱ فی صد اکثریت نے آگرہ مذاکرات کے بعد اعتراف کیا ہے کہ اصل مسئلہ کشمیر کا مسئلہ ہے۔
آگرہ مذاکرات میں پاکستان کے واضح اور دو ٹوک موقف نے بھارت کی کشمیر پالیسی کے تضادات اور مغالطوں کا پردہ بالکل چاک کر دیا ہے اور یہ حقائق دنیا کے سامنے آگئے ہیں :
۱- اصل تنازع جموں و کشمیر کی ریاست کی قانونی حیثیت کے بارے میں ہے جسے بھارت اپنے عالمی عہدوپیمان کو یک طرفہ طور پر توڑ کر ایک نقائص سے پرُ (flawed) اور ناقابل دفاع دستاویزالحاق (instrument of accession) کے سہارے اپنا ’’اٹوٹ انگ‘‘ قرار دینے کی رَٹ لگا رہا ہے اور جس کے خلاف جموں و کشمیر کی آبادی کی عظیم اکثریت ایک ریاست گیر تحریک مزاحمت اور جہادآزادی میں مصروف ہے۔
۲- جسے بھارت ’’سرحد پار دہشت گردی‘‘ قرار دیتا ہے وہ دراصل ایک عوامی جدوجہد اور قومی تحریک آزادی ہے جسے قوت کے ذریعے کچلنے کے لیے بھارت بدترین ریاستی دہشت گردی کا مرتکب ہو رہا ہے ۔اس کے نتیجے میں ۷۰ سے ۸۰ ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں‘ ہزاروں گھر اور بازار نذرآتش کر دیے گئے ہیں‘ ہزاروں خواتین کی جبری اور اجتماعی آبرویزی کی گئی ہے‘ ہزاروں افراد جیلوں میں محبوس ہیں اور لاکھوں گھربار چھوڑنے پر مجبور کیے گئے ہیں۔
۳- پاکستان کا اس جدوجہد سے گہرا تعلق ہے اور اس مسئلے میں وہ ایک شریک کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کا اور جموں و کشمیر کے عوام کا مستقبل ایک دوسرے سے وابستہ ہے اور محض معاشی مفادات یا وقتی مصالح کی بنا پر وہ اپنے تاریخی کردار سے دست بردار نہیں ہو سکتا۔ پاکستان بھی امن اور معاشی ترقی کا اتنا ہی خواہش مند ہے جتنا دنیا کا کوئی دوسرا ملک‘ لیکن امن‘ انصاف کے بغیر اور معاشی ترقی ‘سیاسی آزادی‘ قومی سلامتی و وقار اور جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے حق خود ارادیت کی قیمت پر گوارا نہیں کی جا سکتی۔
۴- جموں و کشمیر کا مسئلہ محض زمین کا تنازع یا سیاسی و معاشی مفادات کا کھیل نہیں۔ یہ سوا کروڑ انسانوں کی آزادی اور حقوق کا مسئلہ ہے اور پاکستان کی اپنی سلامتی اور بین الاقوامی عہدوپیمان سے اس کا تعلق ہے۔ اسے اقوام متحدہ کی قراردوں‘ بھارت اور پاکستان کی قیادتوں کے وعدوں اور جموں و کشمیر کے عوام کی آزاد مرضی کے مطابق طے کرنے ہی میں سب کی خیر اور فلاح ہے۔
۵- بھارت نے آج تک جس طرح اس مسئلے کو اُلجھایا اور فرار کی راہیں نکالی ہیں وہ نہ اس کے اپنے طویل المیعاد مفاد میں ہے اور نہ جموں و کشمیر اور پاکستان کے عوام کے لیے قابل قبول۔ جموں و کشمیر کے عوام کی بھارت سے دُوری اور نفرت ایک ناقابل تردید حقیقت ہے اور اسے محض کسی بیرونی سازش کا شاخسا نہ کہہ کر رفع دفع نہیں کیا جا سکتا۔ اسے حقائق کا سامنا کرناہوگا اور جتنی جلدی یہ تنازع قانون‘ انصاف اور جمہوری اصولوں کے مطابق طے ہو جائے اتنا ہی سب کے لیے بہتر ہے۔ کوئی قوم‘ بہ ظاہر خواہ کتنی ہی طاقت ور اور بڑی ہو‘ کسی ایسی قوم کو مستقل اپنی محکوم نہیں رکھ سکی اورنہ رکھ سکتی ہے جو آزادی کی طلب گار اور اس کے حصول کے لیے جدوجہد اور قربانی دینے کو تیار ہو۔
۶- بھارت دوسروں کو تاریخ سے ناواقفیت اور سفارت کاری کے آداب سے محرومی کا طعنہ دیتا ہے لیکن جو رویہ اس نے خود اختیار کیا ہے وہ تاریخ کے حقائق سے انحراف اور ڈپلومیسی نہیں‘ دوغلے پن اور کھلی کھلی دھوکا دہی پر مبنی ہے۔ ان ہتھکنڈوں سے کچھ عرصے کے لیے کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے لیکن یہ کاروبار مستقل نہیں چل سکتا۔ جموں و کشمیر کے عوام اپنے حقوق کے حصول کی جنگ میں قربانیاں دے چکے ہیں اور ان کے حصول کے لیے جس طرح سینہ سپر ہیں اس میں بھارت کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ خوش دلی سے یا بالآخر مجبور ہو کر ان کو ان کے وہ حقوق دے جو اس نے غصب کر رکھے ہیں۔ بھارت جموں و کشمیر میں ہر اعتبار سے ایک سامراجی کردار ادا کر رہا ہے۔ اس کی حیثیت ایک قابض قوت (occupying power)کی ہے۔ وہاں کے عوام ہی اپنے مستقبل کافیصلہ کر سکتے ہیںاور یہ حق ان کو جتنی جلد مل جائے‘ اتنی ہی جلد علاقے میں امن قائم ہو سکتا ہے اور پاک بھارت دوستی کا ایک دَور شروع ہوسکتا ہے۔
یہ وہ اثرات ہیں جو آگرہ کو ایک نئے ماڈل کا درجہ دیتے ہیں۔ اس کا یہی وہ پیغام ہے جس پر بھارتیہ جنتا پارٹی چیں بہ جبیں ہے ‘ اور کے ایل ایڈوانی صاحب نے جموں میں فوج کو نئے اختیارات سے نوازا ہے۔ وہاں ڈاڈا جیسے ظالمانہ قانون کو نافذ کیا جا رہا ہے اور واجپائی صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ ہم تحریک کو قوت سے دبانے کی صلاحیت اور ہمت رکھتے ہیں۔
ان حالات میں ہم کچھ نئے خطرات کے سایے بھی اُبھرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور ان کا ادراک بھی ضروری ہے۔
۱- پاکستان پر امریکہ اور دوسری طاقتوں کا دبائو بڑھے گا کہ اس آزاد پالیسی سے پسپائی اختیار کرے اور بھارت کے ساتھ کوئی نہ کوئی معاملہ طے کرے۔ امریکی وزارت خارجہ کی جائنٹ سیکرٹری کا حالیہ دورہ اور پاکستانی خارجہ سیکرٹری کا واشنگٹن جانا اس کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ بہت نازک مرحلہ ہے اور اس میں آگرہ ماڈل سے انحراف اور کسی بھی درجے کی پسپائی ملک کے لیے اور تحریک آزادی کے لیے بہت نقصان دہ ہو سکتی ہے۔
خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ اندرون خانہ ‘ امریکہ اور بھارت سے جو بات چیت جاری ہے کہیں اس کا ایک شاخسانہ یہ بھی نہ ہو کہ مختلف انداز میں جہادی سرگرمیوں کو لگام دینے کے لیے ان کے مالی وسائل پر گرفت تنگ کی جائے۔ اندیشہ ہے کہ یہ کام بڑی چابک دستی سے اور جہاد کشمیر کی سرپرستی اور تائید کے دعووں کے ساتھ شروع کیا جائے گا تاکہ کوئی بڑا عوامی ردّعمل نہ ہو۔ اس کی حیثیت ویسی ہی ہوگی جو چور گھر میں داخل ہونے سے پہلے چند پتھر پھینک کر کرتا ہے کہ اہل خانہ بیدار ہیں یا سو رہے ہیں۔ حکومت اور قوم دونوں کے لیے اس میں بڑی آزمایش ہے اور ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ یہ حکومت کے اخلاص‘ وژن اور ہمت کے امتحان کا وقت ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ حکومت بھی کیا کارگل کی بلندی کے بعد واشنگٹن کی پسپائی کا راستہ اختیار کرے گی یا آگرہ کو سری نگر میں آزادی کے پرچم کی سربلندی تک جاری رکھے گی۔
معاشی کارڈ کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے اور مزید استعمال کیا جائے گا‘ معاشی پابندیوں کونرم کرنے کا دلاسہ بھی دیا جائے گا۔ یہ سب جانے بوجھے طریقے ہیں۔ حکومت کو اس دام سے بچنے اور آگرہ ماڈل کو آگے بڑھانے میں کوئی کوتاہی نہیں کرنا چاہیے۔
۲- ہم جموں و کشمیر میں بھارت کی طرف سے قوت کے بھرپور اور جارحانہ استعمال کے امکانات بھی دیکھ رہے ہیں۔ کھسیانی بلی صرف کھمبا ہی نہیں نوچتی--- بدن بھی نوچنے پر اتر آتی ہے اور اس کے قوی امکانات ہیں۔ کشمیر کی تحریک مزاحمت کے لیے سخت امتحان ہے اور اسے اس کے لیے ضروری تیاری اور پیش بندی کرنی چاہیے۔
۳- پاکستان میں بھی تخریب کاری میں اضافے کے خطرات نظر آ رہے ہیں۔ اس کا بھی امکان ہے کہ اس سے پیدا ہونے والی صورت حال میں حکومت پر دبائو ڈالا جائے کہ خود جہادی تحریکوں پر پابندی لگائی جائے یا کم از کم ان کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ اس سلسلے میں حکومت کے کچھ بیانات تشویش میں اضافے کا باعث ہو رہے ہیں۔ فرقہ واریت‘ خون خرابہ یا تخریب کاری کا کوئی تعلق جہاد کشمیر سے نہیں‘ یہ اس جہاد کو کمزور کرنے کی ایک بھارتی سازش کا حصہ ہیںاور اس کا مقابلہ حکومت‘ جہادی تنظیموں اور خود عوام کو کرنا چاہیے۔
۴- ہم یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ بھارت نواز لابی ایک بار پھر متحرک ہو گی اور دفاعی اخراجات‘ امن و امان کے مسائل‘ غربت اور بے روزگاری ‘ قرضوں کا بوجھ اور معاشی مشکلات کے نام پر کشمیر کے مسئلے پر سمجھوتہ اور امریکہ اور بھارت کے نقشہ کار سے ہم آہنگی کی باتیں کی جائیں گی۔ آگرہ مذاکرات نے اس لابی پر ایک ضرب لگائی تھی لیکن یہ پھر متحرک ہو رہی ہے اور سیکولر عناصر اس کا آلہ کار بن رہے ہیں۔ یہ اندرونی کش مکش ملک کو کمزور کرنے اور جہاد کشمیر کو سبوتاژ کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ اس کا تدارک ضروری ہے ۔اس کا ذریعہ تصادم نہیں صحیح قومی موقف پر پوری قوم کو متحرک کرنے کی جدوجہد ہے۔ افہام و تفہیم کے ساتھ عوامی تحرک اس چیلنج کا جواب ہے۔
ہم حکومت کو بھی مشورہ دیں گے کہ وہ آگرہ میں اختیار کی جانے والی حکمت عملی پر ڈٹ جائے اور کارگل کے ساتھ جو کچھ واشنگٹن میں ہوا اس سے سبق لے اور اس سوراخ سے دوبارہ ڈسے جانے کے سارے امکانات کو ختم کر دے۔ اس کے لیے فوج اور قوم میں تعاون کی ضرورت ہے جو اسی وقت پوری طرح حاصل ہوسکتا ہے جب فوج سیاسی کردار کو جلد از جلد سمیٹے اور سرحدوں کو موجودہ اور پیش آنے والے خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے یک سو ہو کر سرگرم عمل ہو جائے۔ قومی مشاورت کے ذریعے اندرونی مسائل کو حل کرنے کی طرف فوری توجہ دی جائے۔ قوم کی طاقت کا اصل منبع اللہ پر بھروسے کے بعد قومی مقاصداور اہداف پر مکمل یک جہتی کا حصول ‘اور ایمان‘ آزادی اور عزت کی حفاظت کے لیے قومی شعور کو بیدار کرنا اور ملی یک جہتی کا حصول ہے۔ اس کے لیے اخلاقی اور نظریاتی بیداری اور ملی مقاصد کی آبیاری وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اقبال نے اسی حقیقت کی طرف قوم کو متوجہ کیا تھا کہ ؎
حرف اس قوم کا بے سوز‘ عمل زار و زبوں
ہو گیا پختہ عقائد سے تہی جس کا ضمیر
اس کے ساتھ معاشی حالات کی اصلاح اور بیرونی ممالک پر انحصار میں کمی بھی ایمان‘ آزادی اور عزت کی حفاظت کے لیے ضروری ہیں۔ پاکستان نظریاتی‘ اخلاقی‘ عسکری اور معاشی اعتبار سے جتنا مضبوط ہوگا اتنا ہی وہ جموں و کشمیر کی تحریک آزادی کی تقویت کا سامان فراہم کرسکے گا۔ پاکستان اور تحریک آزادی کشمیر میں جو یک جہتی اور اعتماد باہمی آگرہ مذاکرات کے بعد رونما ہوا ہے اسے مستحکم کرنے اور ترقی دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے جہادی قوتوں کی تائید کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر میں سیاسی جدوجہد کو موثر بنانے اور تمام سیاسی قوتوں کو ایک نکتہ یعنی بھارتی تسلط سے نجات پر جمع کرنے اور متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم کو اپنے کشمیری بھائیوں اور بہنوں پر پورا بھروسہ اور اعتماد ہے۔ پاکستانی قیادت کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس اعتماد کو مزید ترقی دیں اور جس طرح جموں و کشمیر کا مسلمان پاکستان میں اپنا مستقبل دیکھ رہا ہے اسی طرح ہم بھی ان کو یقین دلائیں کہ وہ اس امت کے عظیم فرزندوں کی طرح اپنے معاملات کی خود اپنے عقائد‘ عزائم اور روایات کے مطابق صورت گری کر سکیں گے اور خود پاکستان کی تعمیر و ترقی میں بھرپور کردار ادا کر سکیں گے۔
آگرہ ماڈل مشاورت باہمی‘ قومی مقاصد پر یکسوئی اور جرأت مندانہ استقامت‘ بیرونی دراندازیوں سے حفاظت‘ عوام پر اعتماداور اصولوں پر سمجھوتہ کاری کے اجتناب سے عبارت ہے۔ آگرہ کا پیغام یہ ہے کہ ملکی معاملات کو بھی انھی اصولوں اور بنیادوں پر طے کیا جائے اور جموں و کشمیر کی تحریک آزادی کی بھی انھی کے مطابق تائید و تقویت کا سامان کیا جائے۔ بھارت اور پوری دنیا کے عوام تک اپنے موقف کو دلیل اور دانش مندی سے پہنچانے اور اس کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش بھی اس کا ایک اہم حصہ ہے تاکہ حکومتوں اور مفاد پرست عناصر کو عوامی دبائو کے ذریعے اہل حق کو ان کا حق ادا کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں میڈیا کا کردار بھی بڑا اہم ہے اور اس کو حق کے لیے مسخرکرنا ایک اہم ہدف ہے۔ عالمی میڈیا نے کشمیر کے کاز کے سلسلے میں مجرمانہ غفلت برتی ہے اور بھارت کو اس سلسلے میں بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے کہ اس نے دنیا سے حقائق کو چھپائے رکھا ہے۔ آگرہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ میڈیا کی قوت کو مظلوموں کی مدد اور انصاف اور آزادی کے حصول کے لیے استعمال کرنا ضروری ہے۔ آج کی دنیا میں جتنی اہمیت سیاسی اور جہادی سرگرمیوں کی ہے اس سے کچھ کم اہمیت میڈیا کے ذریعے دنیا کی رائے عامہ کو باخبر کرنے اور متحرک کرنے کی نہیں ہے۔ ان تمام اہداف کے حصول کے لیے ایک مربوط اور مختلف جہتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ آگرہ کو محض ایک واقعہ نہیں رہنا چاہیے‘ اسے ایک تحریک میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے لیے جان کی بازی لگا کر ہی اہل جموں و کشمیر کو زندگی کا پیغام دیا جا سکتا ہے--- بلکہ خود اہل پاکستان اور پوری امت مسلمہ کے لیے اپنا صحیح مقام حاصل کرنے کے لیے یہی راستہ ہے: ایمان‘ اتحاد‘ قوت کا استحکام اور جہاد فی سبیل اللہ! جگر نے اس پیغام کو کتنے سادہ مگر ایمان افروز انداز میں ایک شعر میں سمو دیا ہے:
یہ مصرع کاش! نقش ہر در و دیوار ہو جائے
جسے جینا ہو مرنے کے لیے تیار ہو جائے