دستور میںدینی نظام کے جو بنیادی اصول اس قدر طویل کش مکش کے بعد منوائے گئے ہیں اب اصل کام ان کو ملک کے نظام میں عملاً نافذ کرانا ہے اور ان کا نفاذ بہرحال قیادت کی تبدیلی پر منحصرہے۔ اس موقع پر ایک صالح قیادت صرف اسی طرح بروے کار لائی جا سکتی ہے کہ ہم اپنے لائحہ عمل کے چاروں اجزا پر بہ یک وقت کام کریں اور توازُن کے ساتھ ان چاروں گوشوں میں کام کرتے ہوئے اس طرح آگے بڑھیں کہ افکار کی تعمیر و تطہیر ‘ صالح افراد کی تنظیم اور معاشرے کی اصلاح کا جتنا جتنا کام ہوتا جائے اسی نسبت سے ملک کے سیاسی نظام میں دین کے حامی عنصر کا نفوذ و اثر بھی بڑھتا جائے‘ اور سیاسی نظام میں حامی ٔ دین عنصر کانفوذ و اثر جتنا جتنا بڑھتا جائے اسی قدر زیادہ قوت کے ساتھ تطہیر و تعمیرافکار اور تنظیم عناصرِ صالحہ اور اصلاحِ معاشرہ کا کام انجام دیا جائے----
یہ لائحۂ عمل جس اسکیم پر مبنی ہے اس کی کامیابی کا سارا انحصار ہی اس کے توازُن پر ہے۔ اس کا ہر جز دوسرے اجزا کا مددگار ہے‘ اس سے تقویت پاتا ہے اور اس کو تقویت بخشتا ہے۔ آپ کسی جز کو ساقط یا معطل کریں گے تو ساری اسکیم خراب ہو جائے گی‘ اور اس کے اجزا کے درمیان توازُن برقرارنہ رکھیں گے تب بھی یہ اسکیم خراب ہو کر رہے گی۔
کامیابی کی صورت صرف یہ ہے کہ ایک طرف دعوت و تبلیغ جاری رکھیے تاکہ ملک کی آبادی زیادہ سے زیادہ آپ کی ہم خیال ہوتی چلی جائے۔ دوسری طرف ہم خیال بننے والوں کو منظم اور تیار کرتے جایئے تاکہ آپ کی طاقت اُسی نسبت سے بڑھتی جائے جس نسبت سے آپ کی دعوت وسیع ہو۔ تیسری طرف معاشرے کی اصلاح و تعمیر کے لیے اپنی کوششوں کا دائرہ اُتنا ہی بڑھاتے چلے جایئے جتنی آپ کی طاقت بڑھے تاکہ معاشرہ اس نظامِ صالح کو لانے اور سہارنے کے لیے زیادہ سے زیادہ تیار ہوتا جائے جسے آپ لانا چاہتے ہیں۔ اور ان تینوں کاموں کے ساتھ ساتھ ملک کے نظام میں عملاً تغیر لانے کے آئینی ذرائع سے بھی پورا پورا کام لینے کی کوشش کیجیے تاکہ ان تغیرات کو لانے اور سہارنے کے لیے آپ نے معاشرے کو جس حد تک تیار کیا ہو اُس کے مطابق واقعی تغیررُونما ہو سکے۔
ان چاروں کاموں کی مساوی اہمیت آپ کی نگاہ میں ہونی چاہیے۔ ان میں سے کسی کو کسی پر ترجیح دینے کا غلط خیال آپ کے ذہن میں پیدا نہ ہونا چاہیے۔ اِن میں سے کسی کے بارے میں غلو کرنے سے آپ کو پرہیز کرنا چاہیے۔ آپ کے اندر یہ حکمت موجود ہونی چاہیے کہ اپنی قوتِ عمل کو زیادہ سے زیادہ صحیح تناسب کے ساتھ ان چاروں کاموں پر تقسیم کریں‘ اور آپ کو وقتاً فوقتاً یہ جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ ہم کہیں ایک کام کی طرف اس قدر زیادہ تو نہیں جھک پڑے ہیں کہ دوسرا کام رُک گیا ہو‘ یا کمزور پڑ گیا ہو۔ اِسی حکمت اور متوازن فکر اور متناسب عمل سے آپ اس نصب العین تک پہنچ سکتے ہیں جسے آپ نے اپنا مقصدِ حیات بنا یا ہے۔ (تحریک اسلامی کا آیندہ لائحۂ عمل‘ ص ۱۶۶- ۱۶۷‘ ۱۹۹-۲۰۰)
خوب اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جن جزئیات پر آپ لوگ بحثیں کرتے ہیں وہ خواہ کتنی ہی اہمیت رکھتی ہوں مگر بہرحال یہ وہ چیزیں نہیں ہیں جن کو قائم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کو مبعوث کیا ہو اور اپنی کتابوں کو نازل کیا ہو۔ انبیا کی بعثت اور کتب الٰہی کی تنزیل کا مقصد ان جزئیات کو قائم کرنا نہیںہے بلکہ دین حق کو قائم کرنا ہے۔ ان کا اصل مقصد یہ رہا ہے کہ خلق خدا اپنے مالک حقیقی کے سوا کسی کے تابع فرمان نہ رہے۔ قانون صرف خدا کا قانون ہو‘تقویٰ صرف خدا سے ہو‘ امر صرف خدا کا مانا جائے‘ حق اور باطل کا فرق اور زندگی میں راہِ راست کی ہدایت صرف وہی مسلّم ہو جسے خدا نے واضح کیا ہے اور دُنیا میں اُن خرابیوں کااستیصال کیا جائے جو اللہ کو ناپسند ہیں اور ان خیرات و حسنات کو قائم کیا جائے جو اللہ کو محبوب ہیں۔
یہ ہے دین اور اسی کی اقامت ہمارا مقصد ہے اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے اسی کام پر ہم مامور ہیں۔ اس کام کی اہمیت اگر آپ پوری طرح محسوس کرلیں اور اگر آپ کو اس بات کا بھی احساس ہو کہ اس کام کے معطل ہو جانے اور باطل نظاموں کے دنیا پر غالب ہو جانے سے دنیا کی موجودہ حالت کس قدر شدت سے غضب الٰہی کی مستحق ہو چکی ہے ‘ اور اگر آپ یہ بھی جان لیں کہ اس حالت میں ہمارے لیے غضب الٰہی سے بچنے اور رضاے الٰہی سے سرفراز ہونے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ ہم اپنی تمام قوت خواہ وہ مال کی ہو یا جان کی‘ دماغ کی ہو یا زبان کی‘ صرف اقامت دین کی سعی میں صرف کر دیں تو آپ سے کبھی ان فضول بحثوں اور ان لایعنی افکار کا صُدور نہ ہو سکے جن میں اب تک آپ میں بہت سے لوگ مشغول ہیں۔ (دعوت اسلامی اور اس کے مطالبات‘ ص ۵۲-۵۳)