ستمبر ۲۰۰۱

فہرست مضامین

نائیجیریا : اسلامی قوانین کا نفاذ

محمد ایوب منیر | ستمبر ۲۰۰۱ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

براعظم افریقہ میں نائیجیریا کی حیثیت علاقائی طاقت کی ہے۔ تیل کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کا ۱۱کروڑ آبادی کا چھٹا بڑا ملک ہے۔ ۳۶ ریاستیں (یا صوبے) ہیں۔ ہائوسا‘ پوروبا اور اِکبو بڑے قبائل ہیں۔ ۹۰فی صد آبادی ۱۰ لسانی گروہوں میں منقسم ہے‘ تاہم چھوٹے لسانی گروہ ۴۰۰ صد کے لگ بھگ ہیں۔ ۱۹۹۱ء کی مردم شماری کے مطابق مسلمان ۴۹ فی صد ‘ مسیحی ۳۴ فی صد اور مظاہرپرست ۱۷ فی صد ہیں۔ ایسے بھی گھرانے ہیں جہاں تینوں مذاہب کے پیروکار اکٹھے رہتے ہیں۔ مصر کی فتح (۶۳۹ء) کے بعد اسلام تاجروں کے ذریعے اُن علاقوں میں پہنچا جو اب وفاقی جمہوریہ نائیجیریا کا حصہ ہیں۔ اس علاقے ہی میں مسلمانوں نے پہلی اسلامی یونی ورسٹی قیروان قائم کی جو موجودہ تیونس کا حصہ ہے اور کیمبرج یونی ورسٹی سے ۳۰۰ برس پہلے وجود میں آئی تھی۔ بورنو کی خلافت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ہزار سال تک اسلامی شریعت پر قائم رہی۔کہیں اور اسلامی نظام کے تسلسل کی ایسی مثال موجود نہیں۔

عثمان دان فودیو اس علاقے کی عظیم شخصیت ہیں۔ اُن کی حیثیت راہ نما‘ عالم‘ مفکر اور مجاہد فی سبیل اللہ کی ہے۔ انھوں نے ایک جماعت کی تشکیل کی اور ہائوسا سرداروں کے خلاف علَمِ بغاوت بلند کر دیا جو اسلام اور مقامی روایات کو آپس میں گڈمڈ کرتے چلے آ رہے تھے۔ ۱۸۰۳ء میں سوکوٹو کی اسلامی ریاست قائم ہوئی۔ ہائوسا زبان بولنے والی تمام مقامی جاگیریں پانچ برس کے اندر اندر اس اسلامی ریاست کا حصہ بن گئیں۔ شریعت محمدیہؐ کو بالادست قانون بنا دیا گیا‘ تجارت و کاروبار شریعت پر استوار ہوئے اور روز مرہ زندگی میں اسلامی تعلیمات پر عمل درآمد ہونے لگا۔ ۱۰۰برس تک شریعت اسلامی کا پھریرا یہاں لہراتا رہا۔ موجودہ شمالی نائیجریا کے کئی صوبے سابق مثالی اسلامی ریاست سوکوٹو کا حصہ رہے ہیں۔ عثمان دان فودیو کا انتقال ۱۸۱۷ء میں ہوا‘ لیکن اُن کی قائم کردہ ریاست ۱۰۰برس قائم رہی۔

اُنیسویں صدی کے آغاز میں اہل یورپ کی ہوس ملک گیری نے افریقہ کا نقشہ ہی تبدیل کر دیا۔ نائیجیریا‘ گھانا‘ سیرالون‘ گیمبیا‘ برطانیہ کے‘ گنی ‘بسائو اور کیپ وردے پرتگال کے‘ نائیجر‘ برکینا فاسو‘ مالی‘ ماریطانیہ‘ آیٹوری کوسٹ‘ سینی گال‘ ٹوگو‘ بینن اور گنی فرانس کے زیرنگیں آگئے۔ براعظم افریقہ واحد براعظم ہے جہاں مسلم ریاستوں کی اکثریت ہے۔

۱۹۰۳ء میں برطانوی افواج نے سوکوٹو ریاست کو شکست دے دی۔ جو معاہدہ ہوا اس میں طے پایا کہ شمالی ریاست سوکوٹو اور مشرقی ریاست بورنو کے باشندوںکے مذہبی معاملات میںمداخلت نہ کی جائے گی لیکن اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بدکاری‘ قتل اور سرقہ کی اسلامی سزائوں پر عمل درآمد روک دیا گیا۔ اسکولوں میں انگریزی زبان کی تدریس لازمی قرار دے دی گئی‘ عربی کی تدریس پر پابندی عائد کر دی گئی اور مسلم نظام تعلیم پس منظر میں چلا گیا‘ لیکن شرعی قوانین کی بالادستی کی بازگشت اس دَور میں بھی سنائی دیتی رہی۔

اکتوبر ۱۹۶۰ء میں نائیجیریا آزاد ہوا۔ مسلمان شمالی ریاستوں میں اکثریت میں ہیں ‘جب کہ جنوب اور جنوب مغرب میں عیسائی اور مظاہر پرست ریاستیں ہیں۔ نائیجیریا جو تیل‘ معدنیات اور زرعی وسائل سے مالا مال ہے وہ مثالی سیاسی استحکام حاصل نہ کر سکا جس کا وہ حق دار ہے۔ اس کی وجہ بیرونی سازشوں کے تحت باربار کے انقلابات‘ فوجی حکومتیں‘ بغاوتیں‘ لسانی و قبائلی تعصب اور قبائلی سیاست ہے۔ یوں نائیجیریا کی کہانی دیگر مسلمان ملکوں سے مختلف نہیں ہے جہاں عوام کو ان کی مرضی کی حکومت نہیں ملی۔ آغاز میں ہی حقیقی راہ نمائوں ابوبکرتفاوا بلیوا اور احمدوبیلوکو قتل کر کے ملک کو پٹڑی سے اتار دیا گیا۔  مغرب کی سرپرستی میں سیکولر نظام جاری رہا اور کرپشن میں دنیا میں دوسرا نمبر حاصل کیا۔ ۱۹۹۹ء میں اوباسانجو (مذہباً عیسائی)کے صدر بننے کے بعد جمہوری روایات کا آغاز ہوا تو عوام نے شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔ دستوری حدود کے اندر‘ بعض ریاستوں نے اس میں پیش قدمی کی۔

نائیجیریا کی شمالی مغربی ریاست زمفارا (سابقہ سوکوٹو) کے گورنر الحاج احمد ثانی یریما نے ۸ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو قانون سازی کے دو مسودوں پر دستخط کر دیے۔ اِن بلوں کے ذریعے نائیجیریا کے دستور اور قانون کے اندر دی گئی خودمختاری کو استعمال کرتے ہوئے اسلامی شریعت کے نظام کو زمفارا ریاست میں نافذ کر دیا گیا۔ مسلمانوں کے لیے شرعی عدالتیں قائم کر دی گئیں‘ حدود کا نفاذ کر دیا گیا۔ اس ریاست میں غیرمسلم حسب معمول ‘ عام کی عدالتوں اور ہائی کورٹوں کے ذریعے اپنے تصفیے کرانے میں آزاد ہیں۔ احمد ثانی یریما کا کہنا ہے کہ شرعی نظام مسلمانوں پر ۱۹۶۰ء سے قبل کسی نہ کسی طرح لاگو رہا ہے اور اِسی شرعی نظام کی بدولت سوکوٹو اور بورنو کی خلافتیں علاقے کی تمام ریاستوں سے زیادہ ترقی یافتہ اور وہاں کے عوام زیادہ تعلیم یافتہ تھے۔ اس ’سرکشی‘ کی بنا پر مسیحی اور مظاہر پرست الحاج احمد ثانی کے درپے ہو گئے‘ ان کو نائیجیریا کے دشمن اور بدترین مسلمان کے لقب سے پکارا گیا لیکن احمدثانی کا ایک ہی موقوف تھا کہ یہ قانون سازی نائیجیریا قانون کے مطابق ہے اور غیر مسلموں پر بہرصورت کوئی ظلم و زیادتی نہ ہوگی‘ بلکہ ریاست اُن کے حقوق کی زیادہ نگرانی کرے گی۔ کہا جانے لگا زمفارا ریاست وفاق سے علیحدگی کے لیے پرتول رہی ہے‘ نائیجیریا میں مذہبی جنگوں کا آغاز ہوجائے گا۔ مذہب کے نام پر جس طرح کی خانہ جگہ شمالی آئرلینڈ‘ الجزائر‘ سوڈان اور افغانستان میں جاری ہے‘ یہاں بھی جاری ہو جائے گی۔ یہ بھی کہا گیا کہ اگر شمالی ریاستیں اپنے آپ کو مسلمان ریاست کہلائیں گی تو جنوبی ریاستوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارئہ کار نہ ہوگا کہ وہ اپنے آپ کو عیسائی ریاستیں کہلائیں وغیرہ وغیرہ۔

زمفارا کی ریاست کی طرف سے ان تمام اعتراضات کا یہ جواب دیا گیا کہ ۱۹۷۹ء‘ ۱۹۸۹ء اور ۱۹۹۹ء کے دستور کے مطابق ریاستوں کو یہ اختیار حاصل ہے۔ دستور کی دفعہ ۳۸ (۱) کی عبارت یہ ہے کہ ’’ہر شخص کو مذہب‘ افکار ونظریات اور ضمیر کی آزادی حاصل ہوگی‘ انفرادی طور پر بھی‘اجتماعی طور پر بھی۔ہر شہری کو یہ آزادی بھی حاصل ہوگی کہ اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق زندگی گزارے‘ اس پر عمل کرے‘ اس کی تبلیغ کرے اور اس کی اشاعت کرے‘‘۔ دستور میں یہ دفعہ موجود ہے کہ ریاستی گورنر (یا اسمبلی) کسی زیریں عدالت کو ختم کر سکتا ہے‘ یا لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے‘ ہائی کورٹ کے ماتحت عدالت کے طور پر ‘ کوئی اور عدالت قائم کر سکتا ہے۔ دستور کی دفعہ ۴(۷) ریاستی اسمبلی کو یہ اختیار دیتی ہے کہ ریاست میں امن و امان قائم رکھنے اور اچھی حکمرانی کے لیے ایسے قوانین وضع کرے جس سے عوام الناس کو زیادہ فائدہ پہنچے۔

الحاج احمد ثانی نے ایک مغربی رسالے کے نمایندے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ آپ انسانی حقوق کے پاس دار ہیں۔ ہم بھی انسانی حقوق کی نگہبانی اور پاس داری کر رہے ہیں۔ اس پر اعتراض کیاصرف اس لیے ہے کہ ہمارے پیش کردہ قانون کی بنیاد اسلامی ہے؟

اسلامک لیگل اسٹڈیز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ابراہیم سلیمان کے مطابق: ’’زمفارا میں اسلامی قوانین کے احیا کا سہرا اُن عظیم علما کے سر ہے کہ جنھوں نے نسل در نسل ‘ ایسے افراد تیار کیے جو اسلامی ریاست کے قیام اور اُس کا نظم و نسق سنبھالنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہے ہیں ۔انھوں نے شعور بیدار کیا ‘ اور ذہن تیار کیے۔ اس کا سہرا اُن حکمرانوںاور صاحب اقتدار لوگوں کے سر بھی ہے جنھوں نے عیش و عشرت کو خیرباد کہا‘ اپنے عوام کو جہالت سے علم کے راستے پر‘ بے انصافی سے شرعی انصاف کی راہ پر اور ذلت و نکبت سے شوکت و عظمت کے راستے پر ڈال دیا۔ اس موقع پر اُن لاکھوں مسلمانوں کا تذکرہ بھی ضروری ہے جنھوں نے (غیر شرعی قوانین کے خلاف) علَمِ جہاد بلند کیا ‘ صبر اور استقامت کا مظاہرہ کیا‘ محنت کے ذریعے معاشروں کو استواررکھا اور مخالفتوں کے اندھا دُھند ‘ ہلاکت خیز طوفان کے باوجود ایک پرامن معاشرہ‘ شریعت کی روشنی میں قائم کر کے دکھا دیا۔ (امپیکٹ انٹرنیشنل‘ لندن‘ اگست ۲۰۰۱ء)

ریاست زمفاراکے بعد نائیجیریا کی دیگر نو اسلامی ریاستوں نے بھی اپنی حدود کے اندر شرعی قوانین کے نفاذ کا اعلان کر دیا ہے۔ ضرورت ہے کہ نائیجیریا کے اس تجربے کا تفصیل سے اور براہ راست مطالعہ کیا جائے تاکہ معلوم ہو کہ اس کے اثرات وہاں کے عوام کی زندگی پر کیا پڑے ہیں اور کیا عملی مشکلات پیش آرہی ہیں۔ اسلامی تحقیقی اداروں اور مسلم ممالک کی جامعات کو اس طرح کے موضوعات پر تحقیق کے لیے انسانی اور مالی وسائل فراہم کرنا چاہییں۔

ترکی: فضیلت پارٹی پر پابندی کے بعد

مسلم سجاد

ترکی میں دستوری عدالت نے ۲۲ جون ۲۰۰۱ء کو فضیلت پارٹی پر جو پابندی لگائی اس کے اثرات ترکی کی سیاسی زندگی سے زیادہ خود پارٹی پر ہوئے ہیں۔ ترکی میں ۵۵۰ کے ایوان میں ۱۰۲ ممبران فضیلت پارٹی کے ہیں۔ فیصلے میں صرف دو ممبران کی رکنیت ختم کی گئی اور باقی سب کی رکنیت قائم رکھی گئی کہ وہ نئی پارٹی بنائیں یا پہلے سے موجود کسی دوسری پارٹی میں شامل ہو جائیں۔

فضیلت پارٹی کے گذشتہ کنونشن میں اربکان کے حمایت یافتہ رجائی قوطان کی صدارت کے باقاعدہ مقابلے سے پارٹی میں روایت پسند اور اصلاح پسند یا ماڈرنسٹ رجحانات کا واضح اظہار ہوا تھا۔ ترکی میں ہر شخص جانتا ہے کہ حالیہ فیصلے میں سابقہ فیصلے کے برخلاف سیاسی سرگرمیوں پر پابندیاں نہ لگانے کی وجہ ہی یہ تھی کہ پارٹی میںتقسیم واقع ہو۔ رجائی قوطان کی سربراہی میں سعادت پارٹی کے قیام کا اعلان ہو چکا ہے جس میں فضیلت کے سابقہ ۵۱ ممبران کے علاوہ بعض دوسری پارٹیوں کے ممبران بھی شامل ہیں۔ اسے نجم الدین اربکان کی پشت پناہی حاصل ہے۔ قوطان نے پارٹی کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ دوسری مادہ پرست پارٹیوں اور ہمارے درمیان واضح فرق ہوگا۔ ہم اخلاقی اور قومی اقدار کے وفادار رہیں گے۔ مذہبی آزادی کی حمایت کریں گے لیکن ترک ریاست کی سیکولر بنیاد کو چیلنج نہیں کریں گے۔

استنبول کے سابق میئر طیب اردگان کی قیادت میں دوسری پارٹی کے قیام کا اعلان جلد ہی متوقع ہے۔ سیکولر پریس میں اسے ماڈرنسٹ قرار دیا جا رہا ہے۔ انھوں نے گذشتہ دنوں پورے ملک کا دورہ کیا ہے۔ وہ اپنا یہ امیج بنا رہے ہیں کہ’’اختلاف‘‘ کے بجائے ’’اتفاق‘‘ کے علم بردار ہیں اور محدود طبقات کے بجائے عوام الناس کو اپیل کرتے ہیں شاید اس طرح وہ جرنیلوں کی ناراضی سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ایک تجزیے کے مطابق اس تقسیم سے اسلامی قوتیں کمزور ہوں گی۔ اس لیے کہ دونوں کا حلقۂ انتخاب ایک ہی طرح کے ووٹر ہیں۔ سیکولر میڈیا نے اسی لیے اس کی خوب حوصلہ افزائی کی ہے۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق اسلام پسند ووٹروں میں سے ۷۴ فی صد ماڈرنسٹ اور ۱۴ فی صد روایتی پارٹی کو ووٹ دیں گے۔ دوسری طرف ‘ اسی سروے کے مطابق اگر ابھی انتخابات کروا دیے جائیں تو موجودہ حکومتی پارٹیوں میں سے کوئی بھی مطلوبہ ۱۰ فی صد ووٹ حاصل نہ کر سکے گی۔

ایک دوسرے تجزیے کے مطابق وسیع تر سیاسی‘ معاشی اور تہذیبی پس منظر میں اس ’’تقسیم‘‘ کو ’’ضرب‘‘ یعنی اضافہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس لیے کہ اس وقت اسلامی فکر اور سرگرمیاں ہی وسعت پذیر ہیں۔ اسلامی سیاسی فکر کو ترک معاشرے کے ہر طبقے میں غیر معمولی پذیرائی مل رہی ہے‘ جب کہ سیکولر نقطۂ نظر ‘ نظری اور عملی ہر لحاظ سے زوال پذیر ہے۔

یہ بات اب واضح ہو چکی ہے کہ سیکولر مقتدر طبقہ ملک کو اچھی حکمرانی دینے میں ناکام رہا ہے‘ سیاست‘ معیشت اور کلچر ہر لحاظ سے۔ مغرب سے درآمد شدہ نظریات اور ادارے ترکی کے مسلم معاشرے میں جڑ نہیں پکڑ سکتے۔ عوام کی عظیم اکثریت کے لیے اسلام ان کی زندگی اور تاریخ کا اہم ترین حصہ ہے۔ یہ محض ایک موہوم احساس نہیں بلکہ جیتا جاگتا اور توانا شعور ہے جو فعال کردار ادا کر رہا ہے۔

۱۹۵۰ء کے بعد ترکی میں بڑے پیمانے پر شہرکاری (urbanization)ہوئی ہے۔ اس کا فائدہ اسلامی قوتوں کو ملا ہے۔ اسلامی فکر کا علمی‘ سیاسی اور تہذیبی نشوونما ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ ۳۰ برس میں اسلامی تحریک ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن گئی ہے۔ ملک کی متنوع غیر سرکاری تنظیموں اور اجتماعی سرگرمیوں کی قیادت متوسط طبقے کے تعلیم یافتہ شہری کر رہے ہیں جن کا اسلام سے سرگرم اور فعال تعلق ہے۔

اس نقطہء نظر سے اسلامی تحریک میں تقسیم کو دراصل توسیع اور ملک کے ہر حصے میں تمام طبقات تک پہنچنے کی سبیل قرار دینا چاہیے لیکن تقسیم ایک حقیقت ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ دونوں پارٹیاں فہم و فراست سے آگے بڑھیں۔

یہ تسلیم کیا جانا چاہیے کہ اربکان اور ان کے ساتھیوں نے جدید عہد میں اسلامی تحریک کو آگے بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ آج ترکی کے لیے بقا اور عروج کا راستہ صرف یہی ہے کہ نئی ریاستی فکر تشکیل پائے جو ملک کے وسائل اور تخلیقی قوتوں کو متحرک کر دے۔ یہ صرف اسلامی فکر اور اقدار کو ازسرنو دریافت کرنے سے ہی ہو سکتا ہے۔