تربیت اور تعمیر شخصیت کے حوالے سے اب ہم ان عناصر کا مطالعہ کریں گے جن کا تعلّق فکرکی تربیت اور عقل سلیم سے ہے۔
الف- ایک شخص‘ گائوں سے اپنے رشتے دار کو شہر دکھانے کے لیے لے آیا۔ شہری نے اپنا مکان دکھایا۔ سب چیزیں حیران کن تھیں۔ مگر جب شہری نے اسے باتھ روم دکھایا تو اس کی حیرانی اور بھی بڑھ گئی۔ اسے وہاں کوئی بالٹی‘ ڈرم اور مٹکے وغیرہ نظر نہ آئے جن میں پانی بھرا ہوا ہو۔ وہ یہی سوچتا رہا کہ بہ ظاہر یہ لوگ اتنے ترقی یافتہ ہیں مگر بغیرپانی کے کیسے گزارا کرتے ہوں گے۔
گائوں کے شخص کے ذہن میں تہذیب و تمدّن کی ایک علامت پانی کا استعمال تھا۔ وہ اسے وہاں نظر نہیں آیا اس لیے فوراً ہی وہ حیرانی میں مبتلا ہو گیا۔ اس کی نظر ان پائپ لائنوں اورنلکوں کی طرف نہیں گئی جنھیںعقل نے سہولت کا ذریعہ بنایا کہ پانی بھرنے کی تکلیف سے انسان بچ جائے۔ بعض لوگوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی ہی سوچ میں گم ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک ان کا اپنا طریقۂ کار ہی سب سے بہتر ہوتا ہے‘ باقی لوگوں کو کم تر سمجھتے ہیں--- اپنی سوچ کے اس جال سے باہر آنے کی کوشش کیجیے۔
ب- ایک امریکی وسط ایشیا کے کسی علاقے میں گیا۔ وہاں ابھی تک بجلی نہیں پہنچی تھی۔ علاقے کے باسی سے گفتگو ہو رہی تھی۔ اس باشندے نے امریکی سے اپنے مٹی کے تیل سے جلنے والے فانوس کی طرف اشارہ کر کے پوچھا کہ کیا امریکہ میں یہ چیز استعمال ہوتی ہے؟اس نے جواب دیا: کہیں کہیں‘ بہت کم۔
باشندہ یہی سمجھا کہ امریکہ اتنا پس ماندہ ہے کہ وہاں روشنی کا یہ ذریعہ ابھی پہنچا ہی نہیں‘ اور اسے امریکیوں کی غربت پر افسوس بھی ہوا۔ مگر صورت حال یہ تھی کہ اس شخص نے مٹی کے تیل سے جلنے والے فانوس ہی کو ترقی کی علامت سمجھا تھا اور اسی کی امریکہ میں موجودگی کے متعلق سوال کیا تھا‘ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ میں بجلی اور توانائی کا استعمال ہو رہاتھا۔
ہم لوگوں کا معاملہ بھی مختلف نہیں ہے۔ ہماری بھی عجیب قسم کی کیفیت ہے۔ ہمارے اپنے ترقی کے تصورات ہیں‘انھی سے ہم دوسروں کو ناپتے ہیں۔ ہم نظارہ اور مشاہدہ نہیں کرتے‘ بس اپنے ہی قفس میں بند رہتے ہیں اور اسی کو کائنات سمجھتے ہیں۔ اپنے آپ کو اس ذہنی کیفیت سے نکالنے کی کوشش کیجیے اور اقدار کو ناپنے کے پیمانے تبدیل کیجیے۔
ج- کہتے ہیں کہ جب آٹوموبائل (موٹرگاڑی) ایجاد ہوئی تو اس زمانے میں امریکہ ہی کا کوئی دیہاتی جاگیردار نیویارک شہر پہنچا۔ اس نے دیکھا کہ وہاں گاڑیاں جو کہ اپنے ابتدائی مرحلے میں تھیں اور گھوڑا گاڑی سے مشابہت رکھتی تھیں‘ کافی تیزی سے سفر کر رہی تھیں۔ اس دیہاتی نے معلومات حاصل کیں کہ وہ اتنی تیز کیسے چلتی ہیں۔ لوگوں نے بتایا ‘ان میں ہارس پاور مشین لگی ہوئی ہے۔ اس شخص نے معلومات حاصل کر کے کسی فیکٹری سے ہارس پاور مشین خریدی اور اپنے دیہات آگیا‘ اور پھر اس مشین کو اپنی سمجھ اور عقل کے مطابق گھوڑا گاڑی میں فٹ کر دیا اور اسے مع گھوڑا چلانے کی کوشش کی۔ گھوڑا اپنی عمومی رفتار سے بھاگ رہا تھا۔ دیہاتی پریشان تھا کہ ہارس پاور مشین کے لگنے کے باوجود اس کی گھوڑا گاڑی میں وہ تیزی پیدا نہیں ہوئی جو کہ نیویارک میں اس کے مشاہدہ میں آئی تھی۔
وہ شخص نیویارک کی گاڑی کی ہیئت اور ترکیب کا مطالعہ نہ کر سکا کہ اس ہارس پاور مشین کو لگانے کے لیے گھوڑے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ گاڑی کے نظام میں بنیادی تبدیلی کرنی پڑتی ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ گھوڑا گاڑی اور موٹرگاڑی دو مختلف نظاموں کی شکلیں ہیں۔ ایک کی چیز دوسری میں لگا کر کام نہیں چلایا جا سکتا ہے۔
کچھ یہی کیفیت ان لوگوں کی بھی ہوتی ہے جو کہ مغرب اور امریکہ ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں اور ان کی چند چیزوں کو ہمارے معاشرے میں فٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ جب کہ دونوں معاشروں کی بنیادیں بالکل مختلف ہیں۔ اس کے لیے ہمیں عقل کے استعمال کی ضرورت ہے۔
فکری طور پر شخصیت کی تعمیر کے لیے ہمیں درج ذیل عناصر کی تربیت کی ضرورت ہے:
۱- عقل انسانی: عقل انسان کے بڑے بڑے مسئلے حل کر دیتی ہے۔ ایک واقعہ ہے کہ کسی زیرتعمیر گیراج کی دیوار میں ایک سوراخ تھا۔ پرندہ سیمنٹ کی اس دیوار کے اندر سوراخ میں گر چکا تھا۔ یہ سوراخ تقریباً ۳۰ انچ گہرا‘ ۴ انچ لمبا اور ڈیڑھ انچ چوڑا تھا۔ گیراج کی تعمیر میں کام کرنے والے مزدور بہت پریشان تھے کہ اس بچے پرندے کو باہر کیسے نکالیں۔
ایک ۱۰ سالہ لڑکا وہاں کسی کام سے پہنچ گیا۔ اس نے یہ منظر دیکھا۔ کچھ دیر دماغ لڑانے کے بعد اس نے ریت کا ایک ڈولچہ لیا اور پھر مٹھی بھر کے آہستہ آہستہ ریت سوراخ میں گراتا گیا۔ سوراخ جیسے جیسے ریت سے بھرتا جاتا‘ بچہ اُوپر اٹھتا آتا۔ تقریباً ایک گھنٹے کی کوشش کے بعد اس لڑکے کی کوشش سے بچہ باہر نکل آیا۔
اس لڑکے نے یقینا اپنے ذہن کے ذریعے بہت سارے حل تلاش کیے ہوں گے۔ اس ترکیب کے استعمال نے اسے کامیابی عطا کی۔ بے شک اس نے عقل کو استعمال کیا۔ درحقیقت عقل سلیم کا یہ استعمال بہت سارے مسائل حل کر دیتا ہے۔
واقعات میں آتا ہے کہ ایک شخص پیاس کے باعث بہت پریشان تھا۔ اسے کنواں نظر آیا مگر ڈول نہیں تھا۔ وہ نیچے اترا ‘ پانی پیا اور باہر نکل آیا۔ اس نے دیکھا کہ ایک کتا پیاس کے مارے زبان نکالے کھڑا ہے۔ اس شخص کو احساس ہوا کہ اسے بھی میری طرح پیاس لگی ہوگی۔ ڈول تو نہیں تھا‘ مگر اس نے عقل استعمال کی۔ نیچے اترا‘ اپنے چمڑے کے موزے میں پانی بھرا اور اسے منہ سے پکڑ کراُوپر لے آیا اورکتے کو پانی پلایا۔ روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اس نیکی کے باعث بخش دیا۔ اس شخص نے کیا کیا۔ اسے احساس تھا‘ ہمدردی ہوئی‘ اور عقل کو استعمال کیا اور کامیابی کی بشارت ہو گئی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلّم نے اپنے ابتدائی زمانے میں حجراسود کا مسئلہ چادر کے ذریعے حل کر کے ایک بہت بڑی ممکنہ جنگ کو ختم کیا اور ہر ایک کومطمئن‘ شریک اور خوش کر کے سب کی جیت کا تصور دیا۔ انسان نے عقل کے استعمال سے نئی نئی غذائوں کے راز دریافت کیے‘ نئے نئے ریشوں سے لباس بنائے‘ بڑے بڑے پل‘ فلک بوس عمارتیں‘ کارخانے‘ گھر اور مختلف مقاصد کے لیے بے شمار چیزیں پیدا کر لیں۔ اس نے زمین سے معدنی چیزیں نکالیں اور انھیں لوہے‘ ایلومینیم‘ سیسے‘ تانبے‘ ٹین اور دوسری دھاتوں کی شکل دے دی۔ یہ دریافت کر لیا کہ ایندھن محفوظ طریقوں پر کیونکر جلایا جا سکتا ہے۔ عقل کے استعمال سے لاتعداد مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ نصب العین اور مقاصد زندگی کو سامنے رکھ کر اور اپنی ذات کے مفاد کو بیچ میں لائے بغیر یہ ممکن ہے کہ ہم اپنے ذہن سے کام لے کر اسے عقل سلیم بنا دیں۔
۲- عقل معیار ہے: عقل سب سے بڑی بخشش ہے۔وہ اللہ کی معرفت کا ذریعہ ہے۔ اسی سے نیکیوں کے اصول بنتے ہیں۔ انجام کا لحاظ کیا جاتا ہے‘ اور باریکیوں کو سمجھا جاتا اور فضائل حاصل کیے جاتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ کسی شخص کے اسلام کو اس وقت تک بلند مرتبہ نہ سمجھو جب تک کہ اس کی عقل کی گرفت کو نہ پہچان لو۔ ابوزکریا ؒ کا قول ہے کہ جنت میں ہر مومن اپنی عقل کے مطابق لذت حاصل کرے گا۔ حضرت امام احمد بن حنبل ؒ کا مقولہ ہے کہ عقل (انسان کی ایک طبعی صفت ہے جو اس کی ماہیت کے ساتھ) گڑی ہوئی شے ہے۔ محاسبی ؒ سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا: عقل ایک نور ہے۔ ایک تعریف یہ ہے کہ عقل ایک قوت ہے جس کے ذریعے سے معلومات کی حقیقتوں کو جدا جدا کیا جاتا ہے۔ ایک اعرابی سے عقل کے بارے میں پوچھا گیا۔ اس نے جواب دیا: عقل تجربات کا نچوڑ ہے جو بطور غنیمت ہاتھ لگ جائے۔ عقل فرق کو سمجھنے کا نام ہے۔ اسی عقل کا صحیح استعمال ہو اوردل میں خدا کا خوف پیدا ہو جائے تو انسان تقویٰ کی منزل پر پہنچ جاتا ہے اور یہی کیفیت حکمت کا سرچشمہ بن جاتی ہے جس سے علم و دانش کے سوتے پھوٹتے ہیں۔
۳- ذہانت‘ فہم اور ذکاوت: ذہن وہ قوت ہے جو آرا حاصل کرنے کے لیے مستعد اور تیار ہوتاہے۔ فہم کی تعریف یہ ہے کہ کسی قول کو سنتے ہی اس کے معنی کا علم ہو جائے۔ ذکاوت فہم کی قوت کی تیزی کا نام ہے۔ اس کے معنی سمجھ کی پختگی کے بھی ہیں۔
۴- عقل کی تکمیل کے لیے ضروری صفات: علامہ ابن جوزی ؒ فرماتے ہیں کہ کسی عاقل کی عقل پر اس کی مناسب موقع پر خاموشی اور سکون اور نیچی نظر اور برمحل حرکات سے استدلال کیا جا سکتا ہے۔ عقل مند اپنے فیصلے میں‘ خواہ کھانے پینے کے معاملے میں یا کسی قول و فعل کے معاملے میں‘اسی امر کو اختیار کرے گا جو انجام کے اعتبار سے اعلیٰ ہوگا‘ اور جس چیز سے نقصان ہوگا اس کو ترک کر دے گا‘ اور اسی کام کی تیاری کرے گا جس کا پورا ہونا ممکن ہو۔
حضرت ابوالدرداء ؓ سے مروی ہے‘ انھوں نے لوگوں سے کہا کہ کیا میں عاقل کی علامتیں بتائوں؟ وہ یہ ہیں کہ اپنے سے بڑے کے ساتھ تواضع سے پیش آئے‘ چھوٹے کو حقیر نہ سمجھے۔ اپنی گفتگو میں بڑائی کے اظہار سے بچے۔ لوگوں کے ساتھ معاشرت میں ان کے آداب معاشرت کو ملحوظ رکھے اور اپنے اور خدا کے درمیان تعلّق کو سخت اور مضبوط رکھے تو وہ عقل مند ہے۔ وہ دُنیا میں اس تعلّق کو ہر نقصان سے بچاتا ہوا پھرتا ہے۔
وہاب بن منبہ سے منقول ہے کہ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے فرمایا: اے بیٹے! انسان کی عقل کامل نہیں ہوتی جب تک اس میں دس صفات نہ پیدا ہو جائیں :
مکحول سے حضرت لقمان کا یہ قول مروی ہے‘ جو انھوں نے اپنے بیٹے سے فرمایا کہ انسان کے شرف و سرداری کی بنا حسنِ عقل پر ہے ۔ جس کی عقل اعلیٰ درجے کی ہوگی وہ اس کے تمام گناہوں کو ڈھک دے گی اور اس کی تمام برائیوں کی اصلاح کر دے گی۔ اس کو رضاے الٰہی حاصل ہو جائے گی۔ کسی کا قول ہے کہ بڑائی کی بات یہ ہے کہ کسی بڑے شخص کی عقل زبان سے بڑھی ہوئی ہو‘ یہ نہیں کہ زبان عقل سے بڑھی ہوئی ہو۔
۵- مثبت انداز فکر: حسن ظن‘ خوش گمانی اور مثبت انداز فکر تعمیر و ترقی شخصیت کے لیے اہم ہیں۔فکر کا یہ انداز انسان کو مایوسی سے بچاتا ہے اور توانائی فراہم کرتا ہے۔ ایک گلاس میں نصف پانی ہو اور باقی خالی ہو تو مثبت فکر انسان کے لیے وہ آدھا بھرا ہوا ہے‘ جب کہ منفی فکر انسان کے لیے آدھا خالی ہے۔ اوّل الذکر شخص کی یہ سوچ زندگی کے عمومی معاملات پر حاوی ہوتی ہے۔ وہ تلخ و نامساعد حالات میں بھی امید اور اچھائی کا پہلو تلاش کرتا ہے۔ وہ ہر مشکل کو موقع سمجھتا ہے اور اسی سے اپنا راستہ تلاش کرتا ہے۔ دوسری طرف منفی فکر کا انسان عموماً قنوطیت‘ مایوسی اور احساس کمتری کا شکار رہتا ہے۔ ہر معاملے کے برے پہلو سے اس کی فکر اور قوت عمل میں کمزوری آتی ہے ‘وہ اولوالعزم نہیں رہتا۔ مثبت انداز فکر انسان میں قوت پیدا کرتا ہے۔ اس قوت کے ذریعے وہ اندھیروں میں ستاروں کی روشنی سے اپنا راستہ تلاش کرتا ہے۔
۶- شکر: شکر کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی نعمتوں کو اس کی پسندیدہ چیزوں میں استعمال کیا جائے۔ ہروہ انسان جس نے کسی چیز کو ایسے کام میں استعمال کیا جس کے لیے وہ پیدا نہیں کی گئی تو اس نے اللہ کی نعمتوں کا کفران (ناشکری) کی۔ شریف انسان سے رذیل کام لینا بھی کفرانِ نعمت ہے۔ بہترین صلاحیتوں کے افراد سے معمولی معمولی کام لینا بھی کفرانِ نعمت ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہمیں جو وسائل (انسانی اور مادّی) دیے گئے ہیں ان کا صحیح انداز سے جائزہ لیں اور ان وسائل کو ان کے اوصاف اور قوتوں اور قابلیتوں کے مطابق استعمال کریں۔ یہ شکر کی عملی کیفیت ہے۔ دل کا شکر یہ ہے کہ نیکی اور بھلائی کا ارادہ کرے اور تمام مخلوق کا بھلا چاہے۔ زبان کا شکر یہ ہے کہ اللہ کی تعریف کرتا رہے۔ اللہ نے جو نعمتیں دی ہیں ان کا احساس کرے۔ ایک قول ہے کہ نعمت ایک جنگلی جانور ہے اسے شکر کی زنجیروں سے باندھ کر رکھو۔ مثبت اندازِ فکر ‘ حسن ظن اور شکر‘ قوت عمل پیدا کرتے ہیں۔ انھیں اپنے مزاج کا حصہ بنا لیجیے۔
۷- احساس وجود: اپنے وجود کا احساس اور اس کے تقاضوں کی سمجھ بھی ضروری ہے۔ ہر انسان سونے اور چاندی کی کانوں کی مانند ہے۔ بات اسے استعمال کرنے اور اخذ کرنے کی ہے۔ اس سے انسان صاحب زر‘ زیور اور زیرک بن سکتا ہے۔ وجود کا احساس غصے اور سختی کے ساتھ حکم دینے سے نہیں کرایا جا سکتا۔ مگر اپنے ماحول میں ہم جو کرنا چاہتے ہیں اس میں کامیابی ضروری ہے۔ ہمیں دوسروں کے سامنے فوراً جھک نہیں جانا چاہیے۔ ہماری جو معلومات ہیں اور جس چیز کو ہم صحیح سمجھتے ہیں اس پر عمل بھی ہونا چاہیے۔ جب پھول اپنی خوشبو پھیلا سکتے ہیں‘ پانی زمین کو نرم کر سکتا ہے‘ ہوائیں پتوں کو ہلا سکتی ہیں تو پھر ہم اپنے اخلاق اور قوت نافذہ سے اپنے ارد گرد اور معاشرے میں تبدیلی کیوں نہیں لا سکتے۔ دوسری طرف اگر اپنی غلطی کا احساس ہو جائے تو پھر بحث‘ ہٹ دھرمی کی علامت ہے اور ایسے موقع پر اعتراف میں عظمت ہے۔
۸- تجزیاتی صلاحیت: حالات و واقعات کا تجزیہ کرنا‘ ان کے اسباب پر غور کرنا‘ نتائج کی جانب دیکھنا اور اس کے مطابق لائحہ عمل تیار کرنا بہت ضروری ہے۔ اسے آپ تجزیاتی صلاحیت کا نام دے سکتے ہیں۔ کسی بات کے مثبت اور منفی پہلو پر غور کرنا اور اپنے نصب العین اور مقصد زندگی کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ضروری ہے۔
۹- ارادہ و عزم: اپنے ارادے اور عزم کو بلند رکھیے اور اپنے عزائم کو صالح بنایئے اور ان کی عملی تنفیذ (عمل درآمد) کی کوشش کیجیے۔ محض عزم باندھنے اور عمل نہ کرنے سے دُنیا میں کوئی کام نہیں ہوتا۔ مشکلات سے ڈرنا نہیں چاہیے‘ یہ تو انسان کو بنانے کے لیے آتی ہیں۔ ناکامیوں اور اندھیروں سے گھبرانا نہیں چاہیے‘ یہ تو ستاروں کی چمک کے اظہار کے لیے ضروری ہیں۔ شاہراہ حیات پر جب سرخ سگنل نظر آئے تو اسے ناکامی مت سمجھیے‘ چند لمحے آرام کیجیے اور سبز سگنل کا انتظار کیجیے۔ ان لمحوں میں قوت جمع کرنے کی کوشش کیجیے۔ مشکلات ہمیشہ نہیں رہتی ہیں‘ یہ تو قرب خداوندی کا باعث ہوتی ہیں۔ حبس سے مت گھبرایئے‘ یہ تو بارش کی علامت ہے۔ بس عزم کیجیے‘ اپنے مقاصد حاصل کیجیے۔
رابندر ناتھ ٹیگور نے عزم کی مثال دی ہے: شام کا وقت تھا اور سورج غروب ہو رہا تھا۔ ڈوبتے ہوئے سورج نے پوچھا :ہے کوئی جو میری جگہ لے۔ کسی جھونپڑے میں ایک دِیا تھا--- وہ ٹمٹما رہا تھا۔ اس نے جواب دیا: ہاں‘ میں کوشش کروں گا۔ اس نے اس گھر کی کائنات کو روشن کر دیا۔
اپنی مقدور بھر کوشش کیجیے اور ضرور کیجیے۔ نتائج کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیکھیے۔ نیت صاف ہوگی‘ محنت صحیح رُخ پر ہوگی اور وفاداری ہوگی تو پھر نتائج تو جو مطلوب ہیں وہی آتے ہیں بلکہ اس سے بہتر‘ اور اگر کسی وجہ سے نہ بھی مل سکیں تو آخرت کو کتنی دیر ہے۔ جس کی رضا کے لیے محنت کی ہے اس کے ہاں تو اجر باقی ہے اور وہ تو اپنے ظرف کے مطابق اجر دیتا ہے ؎
موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے
قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے
عزم کی ایک اور تمثیل ہے کہ کسی پہاڑ سے چشمہ پھوٹا اور پھر میدان میں ندی کی صورت اختیار کر گیا۔ میدان میں ایک شخص ٹہل رہا تھا۔ وہ اس منظر سے محظوظ ہو رہا تھاکہ پانی اپنا راستہ کیسے بناتا ہے۔ اس کی نظر ندی میں بہتے ہوئے ایک بچھو پر پڑی۔ اسے اس جانور پر ترس آیا۔ اور اس نے اسے نکال لیا۔ بچھو نے اپنا کام دکھایا‘ ڈس لیا‘ اور کود کر پھر ندی میں چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس شخص کو پھرخیال آیا اور اس نے پانی میں ہاتھ ڈال کر بچھو کو نکال لیا۔ بچھونے اپنا وہی کردار دہرایا۔ تھوڑی دیر بعد اس شخص کو بچھو کی جان کا پھر خیال آیا۔ اس نے جان بچانے کی کوشش کی اور بچھو نے اپنا وہی رویہ اختیار کیا۔ ایک اور شخص جو اس منظر کو دیکھ رہا تھا‘ اس سے رہا نہ گیا اور اس نے کہا: ’’ارے یہ حیوان ہے‘ اپنی حیوانیت نہیں چھوڑے گا ‘تم اپنی جان کیوں ہلاکت میں ڈال رہے ہو‘‘۔ بچھو کی جان بچانے کی کوشش کرنے والے شخص نے کہا:
’’جب ایک حیوان اپنی حیوانیت نہیں چھوڑ سکتا تو میں انسان اپنی انسانیت کیسے چھوڑ سکتا ہوں‘‘۔
یہ شخص اپنی انسانیت اور انسانی کردار کے بارے میں پرُعزم تھا اور اس نے عمل کر کے بھی دکھا دیا۔ ہم جس معاشرے میں ہیں وہاں درندگی‘ سفاکی‘ حیوانیت‘ بدعنوانی اور بے حیائی ہے۔ ہم جن کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں وہ احسان فراموش بن جاتے ہیں۔ ہم جن کی معاش میں مدد کرتے ہیں وہ ہمارا استحصال کردیتے ہیں۔ ہم جنھیں تربیت پرواز دیتے ہیں وہ اڑتے ہوئے ہمیں اپنے پنجوں میں جھپٹ لیتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ آج کل ماحول کو دیکھ کر یہ شعر یاد آتا ہے ؎
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
لیکن پھربھی فطرت انسانی کا تقاضا ہے کہ بروں کے ساتھ ہم برے نہ بنیں بلکہ اپنی انسانیت کو نہ چھوڑیں۔ مکافات عمل کا انتظار کیجیے۔زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے۔
۱۰- جوکھم (Risk): دنیا میں ہر کام کے کرنے میں جوکھم ہے۔ ہم میں یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ ہم اس جوکھم کا اندازہ کر لیں اور اپنے معاملات کی تیاری اس کے مطابق کریں۔ چھٹی حِس ‘ ذہنی صلاحیتوں میں ایک اہم حِس ہے۔ قدآور شخصیات میں یہ حِس کارفرما ہوتی ہے۔
فرض کیجیے آپ سو رہے ہیں اور چولہے میں آگ روشن چھوڑ دی۔ ایک شرارہ اُڑا اور اس نے مکان کو جلا ڈالا۔ ایسی حالت میں آپ کا یہ عذر نہیں سنا جائے گا کہ ’’اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔ میں نیند کی حالت میں کس طرح چنگاریاں اور شرارے اُڑنے سے روک سکتا تھا‘‘۔ اس معاملے میں آپ سے کہا جائے گا کہ آپ کو معلوم تھا کہ آپ عنقریب سونے والے ہیں اور نیند کی تیاری کر چکے ہیں اور اس بات کا علم تھا کہ اس حالت میں حواس کا شعور معطل ہو جاتا ہے‘ اس لیے ضروری تھا کہ اپنے بیداریِ حواس کے وقت ان ذرائع کا سدباب کرتے جن کی وجہ سے نیند کے وقت یہ حادثہ پیش آیا‘ یعنی اوّل آگ بجھاتے اور پھر سوتے۔
تدبیر یہ ہے کہ اُونٹ کو کھونٹے سے باندھیں اور اس کے بعد توکل کریں۔ بغیر کھونٹے سے باندھے اُونٹ کو چھوڑ دیں گے تو یہ آپ کی نادانی ہوگی اور آپ غیر ضروری جوکھم سے اپنا اور نہ معلوم کس کس کا امتحان لینے کی کوشش کر رہے ہوں گے۔