ستمبر ۲۰۰۱

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| ستمبر ۲۰۰۱ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

کچھ صلہ رحمی کے بارے میں

سوال:  ہمارے گھرانے کی ایک طالبہ نے والدین سے خفیہ کورٹ میرج کر لی۔ بعد میں جب شادی کی تصدیق ہو گئی تو لڑکی نے اپنے اس اقدام پر شرمندگی کا اظہار کیا اور والدین سے معافی مانگی اور والدین سے کہا کہ لڑکے کوگھر بلوا کر مجھے طلاق دلوا دیں۔ لڑکے نے لڑکی کے گھر والوں اور اپنے وارثوں کی موجودگی میں یہ کہہ کر کہ چونکہ لڑکی بھی رہنے پر راضی نہیں اور اس کے والدین بھی رضامند نہیں تین طلاقیں زبانی اور تحریری دے دیں۔ اس واقعے کے ساتویں روز اس نے اپنے دوستوں کے ہمراہ لڑکی کو کالج سے اغواکرلیا۔لڑکی کے والدین نے مقدمہ کر دیا۔ جج کی موجودگی میں لڑکی نے اقرار کیا کہ میں نے اپنی مرضی سے یہ اقدام کیا ہے۔ میں والدین کے گھر اس وقت تک نہیں جائوں گی جب تک میری شادی اس لڑکے کے ساتھ نہ ہو جائے۔ جج نے لڑکی کو لڑکے کے حوالے کر دیا اور نکاح یا طلاق کا فیصلہ نہ دیا اور دوبارہ نکاح بھی نہ ہوا۔ اب اس لڑکی کا ایک بیٹا ہے۔ اس مسئلے پر علما کی طرف سے مختلف فتوے ملے ہیں:

۱- کیا لڑکی اور لڑکے کا نکاح قائم ہے‘ جب کہ لڑکے کے طلاق دینے کے بعد دوبارہ نکاح نہیں ہوا‘ اور طلاق کے سات دن بعد اس نے لڑکی کو اغوا کر لیا تھا؟

۲- لڑکی کے باپ نے اپنی بیوی سے کہا ہے کہ اگر تم بیٹی سے ملی ‘ یا خط و کتابت کی تو میں تمھیں طلاق دے دوں گا۔ بیٹی ماں کی طرف کبھی کبھار فون بھی کرتی ہے اور ملنے کے لیے بھی آجاتی ہے۔ کیا اس صورت میں لڑکی کی والدہ خاوند کی نافرمانی کی مرتکب ہو رہی ہے؟

۳- دونوں برادریوں میں مکمل قطع تعلق ہے اور کئی مرتبہ بات خون خرابے تک پہنچی مگر ٹل گئی۔ اب لڑکے والے صلح کرنے کے لیے بہت دبائو ڈال رہے ہیں اور اس کے لیے وہ ہر طرح کی شرائط ماننے کو تیار ہیں۔ وہ یہ پیش کش بھی کر چکے ہیں کہ ان کے خاندان کی لڑکی وہ کسی بھی لڑکے سے بیاہ لیں مگر لڑکی کے خاندان والے راضی نہیں ہوئے‘ جب کہ خاندان کے کچھ افراد اس مسئلے کا حل چاہتے ہیں۔ کیا یہ قطع تعلق جائز ہے؟

جواب:  آپ نے ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے ایک اہم مسئلے کی طرف متوجہ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نوعیت کے مسائل کا پیدا ہونا ظاہر کرتا ہے کہ ہم قرآن و سنت سے کتنی کم واقفیت رکھتے ہیں۔ ایک بالغ اور پڑھی لکھی لڑکی کا اپنے والدین سے چھپ کر کورٹ کے ذریعے نکاح کرنا اس بات کی علامت ہے کہ جس گھر میں اس نے پرورش پائی انھوں نے یا تو اسے محض ڈرا دھمکا کر رکھا حتیٰ کہ وہ بغاوت پر آمادہ ہوئی‘ یا اتنی آزادی اور غیر ذمہ داری سے اس کی پرورش کی کہ اس نے والدین کو شامل کیے بغیر اتنا بڑا فیصلہ کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی۔ دونوں صورتوں میں جہاں ایک طرف لڑکی غلطی کی مرتکب ہوئی اور بغیر ولی کی مرضی کے نکاح کر بیٹھی وہاں دوسری طرف والدین پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ انھوں نے اپنی بیٹی کو دین کی تعلیمات سے آگاہ کیوں نہیں کیا‘ اور اگر وہ کسی ذہنی اُلجھن کا شکار تھی تو اس پر سنجیدگی سے اس کے ساتھ تبادلۂ خیال کیوں نہیں کیا۔

آپ نے خط میں جو تفصیلات تحریر کی ہیں وہ بہت تکلیف دہ ہیں خصوصاً ایسے گھرانوں میں جو خود تحریک اسلامی سے وابستہ ہوں۔ اس قسم کے مسائل کا کھڑا ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ ہمیں اپنی تعلیم و تربیت اور اولاد کی تعلیم و تربیت کو اولین مقام دینا ہوگا ورنہ گھر اور معاشرے کو تباہی سے نہیں بچایا جا سکتا۔ سوالات جس ترتیب سے آپ نے تحریر کیے ہیں اسی ترتیب سے جوابات عرض کیے جا رہے ہیں۔

۱- اگر لڑکے نے دبائو یا خوف کی بنا پر لڑکی کو طلاق دی تو طلاق واقع نہیں ہوئی اور نکاح برقرار رہا۔ اس صورت میں دوبارہ نکاح کی ضرورت نہیں۔ دوبارہ نکاح صرف اس شکل میں ہوگا جب دو مرتبہ طلاق دی گئی ہو اور پھر رجوع کیا گیا ہو۔

۲-  لڑکی کے والد اپنی اہلیہ کو کسی غیر شرعی کام کا حکم دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ قطع رحم غیر شرعی ہے‘ صلہ رحمی شریعت کا تقاضا ہے۔ ایک ماں اور بیٹی کا تعلق رحم کا ہے‘ اسے قطع کرنے پر مجبور کرنا غیر شرعی مطالبہ ہے جس پر عمل کرنے کے لیے والدہ مکلف نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ کہنا کہ ’’دے دوں گا‘‘ اور یہ کہنا کہ ’’طلاق واقع ہو جائے گی‘‘ دو مختلف چیزیں ہیں۔ اول الذکر مبہم ہے ‘ جب کہ ثانی الذکرقطعی واضح ہے۔ آپ نے جو معلومات تحریر کی ہیں ان میں ابہام ہے۔ اس لیے اگر والدہ نے لڑکی سے فون پر بات کی یا لڑکی ان سے ملنے گھر چلی آئی اور اس نے بات کی تو ابہام کی وجہ سے والدہ کو طلاق نہیں ہوگی۔ اگر والدہ والد کی غیر شرعی خواہش کی پیروی کرے گی تو گناہ اور اللہ کی نافرمانی کی مرتکب ہوگی۔ اس کے مقابلے میںشوہر کی ناجائز بات نہ ماننا جرم شمار نہیں ہوگا۔

۳- اب‘ جب کہ لڑکی صاحب اولاد بھی ہے‘ عقل کا تقاضا یہ ہے کہ دونوں خاندانوں میں صلح ہو اور لڑکے کے خاندان والے لڑکی کے والد سے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے کہ انھیں لڑکی کو کالج سے زبردستی نہیں اٹھانا چاہیے تھا‘ دل کو صاف کریں۔ لڑکی کے والد کو بھی چاہیے کہ ان کے عذر کو قبول کرتے ہوئے انھیں معاف کر دیں ‘ اور دونوں خاندانوں میں غیر مشروط طور پر اخوت و بھائی چارے کی فضا پیدا کریں‘ نیز دونوں جانب کے ذمہ دار افراد کسی نفلی عبادت کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے استغفار کریں۔ اسی طرح لڑکی اور لڑکا بھی اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے نفلی روزے اور صدقے کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے استغفار کریں۔ لڑکی کے والدین کو جو تکلیف پہنچی ہے صدق دل سے ان سے معافی مانگتے ہوئے آیندہ کبھی ان کے حکم کی خلاف ورزی نہ کرنے کا عہد کریں۔

۴- قطع تعلق کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے اس لیے نفس کا شیطان اس پر جتنا بھی اُبھارے ہمیشہ تعلقات کو جوڑنے اور قریب لانے کی کوشش کی جائے۔ قرآن کریم نے حضرت سیدہ عائشہؓ پر جھوٹ باندھنے کے حوالے سے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو جو ہدایت کی ہے وہ ہر اہل ایمان کے لیے مشعل راہ ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ ایک صحابی کی‘ جو ان کے عزیز بھی ہوتے تھے‘ کفالت کرتے تھے اور جب انھیں معلوم ہوا کہ ان کی صاحب زادی اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہؓ پر جھوٹ باندھنے والوں میں وہ بھی شامل تھے تو انھوں نے ان کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ علم ہوا تو آپؐ نے اس پر ناراضی کا اظہار فرمایا۔ اسلام کا اصول یہ ہے کہ جو رشتے دار آپ سے اچھی طرح پیش آتا ہے اگر اس سے آپ اچھی طرح پیش آئے تو کون سا کمال کیا۔ ہاں‘ جو آپ کو تکلیف پہنچائے اور آپ اس پر لطف و محبت کریں توتب آپ صحیح معنوں میں صلہ رحمی اور اقربا کے ساتھ محبت کا مطلب سمجھے۔ اس لیے اس سخت حادثے کے باوجود قطع تعلق نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تعالی ہم سب کو اس صورت حال کا مقابلہ کرنے اور صبروحکمت کے ساتھ اس اُلجھن سے نکلنے اور آیندہ اتفاق و محبت اور نیکی کے ساتھ رہنے کی توفیق دے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)

فرقوں کی حیثیت

س :  براہ مہربانی ایک نومسلم کے اس سوال کا جواب دیجیے جو مجھ سے کیا گیا:

مسلمانوں میں فرقے کیوں ہیں‘ مالکی‘ حنفی‘ شافعی وغیرہ اوراسی طرح شیعہ سنی؟ کیا اسلام کئی طرح کا ہے؟ اگر ایک جیسا ہے‘ تو یہ فرقے کب‘ کیسے اور کیوں بنے؟ کیا یہ زمانہ اوّل اسلام میں بنے یا بعد میں؟ کیا یہ جائز ہیں؟ ان میں صحیح راستے پر کون ہے؟

ج:  اسلام اللہ تعالیٰ کا آخری دین ہے جو قرآن و سنت‘ اجماع اور تعامل اُمت کی شکل میں مکمل طور پر محفوظ ہے۔ اسلام دشمنوں نے اسلام کو مٹانے‘ اس میں تحریف کرنے اور اسلام کے نام پر ایک اُمت کے مقابلے میں اُمتیں کھڑی کرنے کی کوششیں کیں‘ جیسے قادیانی وغیرہ لیکن ناکام ہوئے۔ اُمت مسلمہ کو دھوکا نہ دیا جاسکا اس لیے کہ قرآن و سنت میں مومن و کافر کے درمیان فرق پوری طرح واضح ہے۔ الحمدللہ! اس وقت اسلام پوری طرح محفوظ ہے اور دنیا بھر میں پھیلی ہوئی عظیم الشان اُمت مسلمہ بھی اسی اسلام پر قائم ہے جو قرآن   و سنت‘ اجماع اور تعامل اُمت کی شکل میں ثابت ہے۔

دنیا کے مختلف مذاہب میں سے ہر مذہب بہت سے فرقوںمیں بٹا ہوا ہے۔ ان کے پاس ان کا اصل دین اور اصل کتابیں محفوظ نہیں ہیں۔ وہ براے نام اپنے مذہب سے وابستہ ہیں اور باہم متصادم ہیں۔ چند باطل عقائد اور بے جان مذہبی رسوم کے علاوہ ان کے پاس نظام نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں اسلام عقیدے‘ عبادت‘ معاشرت‘ معیشت‘ سیاست‘ تمدن‘ اور نظام زندگی کی حیثیت سے پوری طرح محفوظ ہے۔ اسلام کے ماننے والوں میں مختلف ناموں سے جو مسلک اور گروہ ہیں ان کا آپس میں اختلاف براے نام ہے اور چند عقائد و عبادات کی تعبیر اور طریقوں میں اختلاف تک محدود ہے۔ وہ بھی ایسا نہیں ہے کہ انھیں باہم متصادم کر دے۔ ان کے درمیان نظام زندگی کے سلسلے میں کوئی بنیادی اختلاف نہیں ہے۔ حنفی‘ شافعی‘ مالکی اور حنبلی مسالک کا اختلاف علمی اور فروعی ہے۔ یہ چاروں اُمت مسلمہ کے مجتہدین اور رہنما ہیں اور تمام کے تمام سب مسالک والوں کے نزدیک محترم ہیں۔ ان کے اختلافات حق و باطل کے اختلافات نہیں ہیں بلکہ اولیٰ یا غیراولیٰ اور راجح اور مرجوح کے اختلافات ہیں۔ یہ اجتہاد اور فہم دین کا اختلاف ہے۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ اختلافات رونما ہوئے اور آپؐ نے ان کو جائز قرار دیا۔

تفسیر‘ حدیث اور فقہ میں ان اختلافات کو علمی انداز میں بیان کیا جاتا ہے۔ تمام فقہا کی آرا اور ان کے دلائل کا ذکر کیا جاتا ہے اور کسی کے خلاف طعن و تشنیع اور گالی گلوچ کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا۔ اس وقت دنیا میں مسلمانوں کے بڑے طبقے دو ہیں: ۱- سنی‘ ۲- شیعہ۔

سنیوں میں دیوبندی‘ بریلوی اور اہل حدیث تین گروہ ہیں جو قرآن و سنت اور شریعت کے نفاذ پر متفق ہیں۔ ان میں نظام کی تفصیلات کے بارے میں بنیادی اور اصولی اختلاف نہیں ہے۔ کسی کے نزدیک اس کی فقہی آرا دوسروں پر لازم نہیں ہیں۔ ریاست پاکستان کا ایک آئین ہے‘ جس پر تمام مسلمان متفق ہیں۔ اس آئین میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت‘ نبیؐ کی رسالت و نبوت‘ مسلم کی تعریف‘ مسئلہ ختم نبوتؐ، اسلامی نظام کانفاذ‘ شریعت کے معیار پر پورا اترنے والی اسلامی حکومت کا قیام شامل ہیں‘ اور ان مسائل میں شیعہ مکتب فکر اہل سنت والجماعتہ کے ساتھ متفق ہے۔ شیعہ حضرات کا اہل سنت والجماعت کے ساتھ بعض عقائد میں اختلاف کے باوجود اسلامی نظام اور شریعت کے نفاذ پر اتفاق ہے۔ ۳۱ علما کے ۲۲ نکات‘ ملّی یک جہتی کونسل کا ۱۷ نکاتی ضابطہ ء اخلاق وغیرہ پر سب متفق ہیں۔ سابقہ دَور حکومت میں حکومت پاکستان کی قائم کردہ اتحاد بین المسلمین کمیٹی اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر سب کا اتفاق ہے۔ اختلاف کا تعلق صرف شخصی معاملات سے ہے‘ اجتماعی نظام پر سب متفق ہیں۔

آپ اپنے دوست کو یہ کہہ کر مطمئن کریں کہ دنیا میں پھیلی ہوئی اُمت مسلمہ اور اس کے مختلف حصے چند مسائل میں اختلاف کے باوجود نظام زندگی کے معاملے میں پوری طرح متحد ہیں۔ پاکستان میں حکومتی سطح پر اسلامی نظریاتی کونسل میں تمام مکاتب فکر موجود ہیں اور ان کی سفارشات متفقہ ہیں۔ اس لیے آپ چند مسائل میں عارضی اختلافات کو حقیقی اور بنیادی اختلافات نہ سمجھیں۔ اُمت مسلمہ کے مسالک میں اختلافات کی نوعیت معمولی ہے۔ ان میں سے کوئی بھی دوسرے کی فقہی آرا کو باطل قرار نہیں دیتا بلکہ اپنی فقہی آرا کو راجح اور دوسرے کی فقہی آرا کو مرجوع قرار دیتے ہیں۔ سب کی بنیاد قرآن و سنت‘ اجماع اور تعامل اُمت ہے۔ اُمت مسلمہ اس وقت بھی اسی طرح واضح راستے پر ہے جس طرح اس وقت تھی ‘جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے واضح راستے پر چھوڑ گئے تھے۔ آپؐ نے فرمایا:  ترکتم علٰی المحجۃ البیضاء لیلھا کنھارھا، میں تمھیں واضح راستے پر چھوڑ کر جا رہا ہوں جس کی رات اس کے دن کی طرح ہے۔ آج اگر کوئی باطل گروہ اسلام میں کوئی رخنہ ڈالنا چاہے تو کامیاب نہیں ہو سکتا۔ پوری دنیا میں علما موجود ہیں جو قرآن کو اچھی طرح جانتے ہیں اور حق و باطل میں پوری طرح تمیز کر سکتے ہیں۔ امید ہے کہ یہ چند سطریں آپ کے دوست کے استفسار کا کافی جواب ہوں گی۔ (مولانا عبدالمالک)