ہمارے ہاں رواداری کا لفظ بالعموم فراخ دلی‘ وسیع القلبی‘ بردباری‘ تحمل یا toleranceکے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مصنف نے زیرنظر کتاب میں بعض اکابر کے بیان کردہ اصطلاحی مفہوم کے حوالے بھی دیے ہیں‘ جن کی روشنی میں اِس وقت پاکستانی مسلمانوں سے زیادہ شاید ہی کوئی قوم روادار ہوگی--- مصنف کا خیال ہے کہ اسی رواداری کے نتیجے میں پاکستان میں غیر مسلموں کو ہر طرح کی رعایات‘ سہولتیں اور حقوق حاصل ہیں لیکن افسوس ہے کہ اب اس رعایت کا خطرناک حد تک غلط استعمال ہو رہا ہے۔
بخاری صاحب ‘ اس سے قبل رواداری اور مغرب تالیف کر چکے ہیں۔ (تبصرہ: ترجمان القرآن‘ جون۲۰۰۰ء)--- زیرنظر کتاب بھی اسی تسلسل میں بڑی کدوکاوش اور محنت شاقہ سے تالیف کی گئی ہے اور موضوع سے متعلق مختلف اصحاب کی‘ وقتاً فوقتاً شائع ہونے والی تحریروں کو بھی بڑی خوب صورتی سے کتاب میں سمیٹ لیا گیا ہے۔ ابواب و مباحث پر ایک نظر ڈالنے سے جامعیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ رواداری کا مفہوم‘ رواداری: تہذیب اسلامی کا ایک اہم وصف‘ پاکستان میں اقلیتیں اور غیر مسلم ممالک میں مسلم اقلیتوں کی حالت ِ زار‘ پاکستانی اقلیتوں کی مذہبی و تبلیغی سرگرمیاں‘ قادیانی اقلیت‘ اقلیتوں کے سیاسی‘ معاشی اورمذہبی حقوق اور ہماری رواداری‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں غیرمسلم اقلیتوں کی گرفت‘ قومی غیرت و آزادی کے خلاف ہونے والی سازشیں اور رواداری کے نام پر ہماری بے حسی اور بے حمیتی--- وغیرہ۔
مصنف کا خیال ہے کہ ہماری رواداری‘ ایک درجے میں فتنہ بن چکی ہے۔ اس کا آغاز اکبر کے ’’دین الٰہی‘‘ سے ہوا اور اب پاکستان میں موجود اقلیتوں کے ’’مخصوص افراد‘‘ رواداری کی آڑ میں ہماری ہی جڑیں کھوکھلی کرنے میں مصروف ہیں--- مولانا زاہد الراشدی نے سوال اٹھایا ہے کہ پاکستان میں مسیحی اقلیت کو آخرکون سا حق حاصل نہیں ہے؟ شہریت ‘ کاروبار‘ ملکیت زمین و مکان و جایداد ‘ شراب نوشی‘نقل و حرکت‘ تحریر و تقریر‘ تعلیم‘ ووٹ‘ الیکشن‘ تنظیم سازی اور مذہبی تبلیغ وغیرہ کے حقوق تو حاصل ہیں--- البتہ انھیں نبیؐ کی شان میں گستاخی کا حق حاصل نہیں ‘ اور نہ ہم رواداری کے نام پر انھیں یہ حق دینے کے لیے تیار ہیں۔ دورِحاضر میں انسانی حقوق کے نام پر بہت گرد اڑائی جارہی ہے‘ مگر کیا گستاخی بھی انسانی حق ہے؟ اللہ پاک کے پیغمبروں کی اہانت‘ انسانی حقوق میں شامل نہیں (ص ۲۲۴)--- محمد عطا ء اللہ صدیقی صاحب نے مقدمے میں لکھا ہے: کتاب پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ پاکستان اقلیتوں کے لیے جنت ہے کیوں کہ یہاں اقلیتوں کو شعائر اسلامی کا مذاق اُڑانے اور ہر طرح کی اشتعال انگیز مہم جوئی کی اجازت ہے۔
محمد صدیق شاہ بخاری نے ملّی دردمندی اور ایک گہرے جذبہ حمیت کے ساتھ‘ مگر توازن و اعتدال سے موضوع کا احاطہ کیا ہے۔ مسلم مذہبی طبقے‘ سیاست دانوں اور صحافتی حلقوں کے ہاں پائی جانے والی عدم رواداری کی بھی بجا طور پر نشان دہی کر دی ہے۔
یوں تو ساری کتاب ہی اپنے موضوع پر ایک معلومات افزا اور دل چسپ دستاویز ہے کیوں کہ اس سے پہلے رواداری کے موضوع پر ایسی جامع کتاب کبھی مرتب نہیں کی گئی ‘مگر کتاب کے بعض حصے بے حد چشم کشا اور عبرت انگیز ہیں اور ’’اے کشتۂ ستم! تری غیرت کو کیا ہوا‘‘ کی دعوت ہیں۔ (رفیع الدین ہاشمی)
اُمت مسلمہ کے لیے اسوئہ حسنہ ‘ اطاعت و اتباع ذاتِ نبویؐ ہے‘ اور حدیث و سنت ہی اس کا بنیادی ذریعہ ہے۔ ائمہ حدیث نے حدیث کی صحت و ثقاہت کے لیے ایسے کڑے معیار قائم کیے ہیں کہ شاید ہی علوم اسلامیہ کے کسی دوسرے فن میں اس کی مثال ملتی ہو‘ جیسے: اصولِ روایت و درایت‘ اسناد کا علم‘ جرح و تعدیل اور فن اسماء الرجال وغیرہ۔ اس کے علاوہ حدیث نبویؐ سے کماحقہ استفادے کے لیے معجم (انڈکس) و اشاریے بھی مرتب کیے ہیں۔
سترھویں اور اٹھارھویں صدی عیسوی میں مستشرقین نے علومِ اسلامیہ بالخصوص علوم الحدیث پر مختلف اعتراضات کیے۔ جواب میں ائمہ حدیث اور محققین اسلام نے ان کے اعتراضات کا مدلل جواب دیا مگریہ کام زیادہ تر عربی اور اُردو زبانوں میں ہوا ۔ انگریزی میں خالص علمی و تحقیقی کام جن محققین نے کیا ان میں ڈاکٹر محمدحمیداللہ‘ ڈاکٹر احمد حسن‘ ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی‘ ڈاکٹر زبیراحمد صدیقی‘ اور زیرنظر کتاب کی مصنفہ ڈاکٹرجمیلہ شوکت صاحبہ شامل ہیں۔ڈاکٹر صاحبہ علومِ اسلامیہ کی استاذ ہیں اور علوم الحدیث پر خصوصی مطالعے کا ذوق رکھتی ہیں۔ آپ نے مسندامام اسحٰق بن راھویہ پر تحقیقی کام کر کے کیمبرج یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند لی تھی۔ زیرنظرکتاب ان کے حسب ذیل علمی و تحقیقی مقالات کا مجموعہ ہے جو مختلف علمی جرائد میں شائع ہوتے رہے:
۱- علوم الحدیث‘ تجزیاتی مطالعہ‘۲- اقسامِ کتب حدیث ‘ ۳- تحمل حدیث کے اسالیب‘ ۴- اخذ حدیث کے لیے سفر‘ ۵- علمِ حدیث میں اسناد کا مقام‘ ۶- مطالعہ مسانید دوسری و تیسری صدی ہجری‘ ۷- مطالعہ المصنفات دوسری و تیسری صدی ہجری‘ ۸- اطراف الحدیث وغیرہ۔
ڈاکٹر صاحبہ نے علوم الحدیث کے ان اہم فنون کے بارے میں بنیادی مآخذ و مصادر سے مواد جمع کیا ہے اور پھر اسے بڑے عمدہ انداز میں مرتب کیا ہے۔یوں تو سبھی مقالات اپنی نوعیت میں معیاری ہیں‘ مگر مطالعہ مسانید اور مطالعہ المصنفات خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے کتب حدیث کی ان دو اقسام کے ارتقا اور مناہج پر عمدہ گفتگو کی ہے اور اس ضمن میں جامع اور بھرپور معلومات پہنچائی ہیں۔ اُردو یا انگریزی میں اس سے قبل ان دو موضوعات پر ایسی معیاری علمی و تحقیقی تحریر نظر سے نہیں گزری۔ بلاشبہ یہ دونوں مقالات پڑھنے سے تعلّق رکھتے ہیں۔ معروف محقق ڈاکٹر ظفراسحق انصاری نے اپنے پیش لفظ میں علم حدیث میں محققین کے کام کے جائزے کے ساتھ انگریزی زبان میں اب تک کے کام کی تفصیل رقم کی ہے۔ کتاب کے شروع میں مفتاح المراجع اور آخر میں بنیادی مآخذ کی تفصیلی فہرست دی گئی ہے۔ حدیث و علوم الحدیث کے طلبہ‘ محققین اور علومِ اسلامیہ سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے یہ ایک عمدہ کتاب ہے۔ (حافظ محمد سجاد تترالوی)
سفیرختم نبوت مولانا منظور احمد چنیوٹی نے ۱۹۹۰ء میں دارالعلوم دیوبند میں ردّ قادیانیت کے موضوع پر تربیتی لیکچر دیے تھے‘ جنھیں مولانا سلمان منصورپوری نے جو ایک باصلاحیت اور ماہر عالم دین اور مفتی ہیں‘ مرتب کر دیا ہے۔ مولانا منظور احمد چنیوٹی نے ان پر نظرثانی کی اور ڈاکٹر علامہ خالد محمود صاحب سے نظرثالث کروائی اور ترامیم و اصلاح کے بعد انھیں زیرنظر کتابی شکل میں شائع کر دیا۔عالمی شہرت کے حامل متعدد اہل علم اور زعماے ملّت نے مولانا کی علمی کوشش کی تعریف کی ہے۔ پیش لفظ مولانا عبدالحفیظ مکّی (مکّہ مکرمہ) کا اور مقدمہ (۹۵صفحات) ڈاکٹرخالد محمود صاحب کا ہے ۔کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے: اوّل: مرزا غلام احمد قادیانی کی زندگی اور اس کے دعاوی کاتعارف‘ دوم: قادیانیوں سے بحث کے لیے تعین موضوع اور موضوعات کی ترتیب‘ سوم: مرزا غلام احمد قادیانی کا دجل و کذب‘ چہارم اور پنجم: حضرت عیسٰی علیہ السلام کا رفع و نزول‘ ختم نبوت کے دلائل اور ان پر اعتراضات کے جوابات۔
مولانا منظور احمد چنیوٹی کو ردّ قادیانیت کے ساتھ خصوصی لگن ہے۔ ان کا یہ جذبہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سرد پڑنے کے بجائے بڑھتا چلا گیا ہے۔ وہ ہمیشہ قادیانیوں کے تعاقب کے لیے فکرمند رہے اور مفکر اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ‘ مولانا محمد یوسف بنوریؒ ‘ اور دیگر علما کے ذریعے مسلسل کوشش کرتے رہے کہ قادیانی حج اور عمرے کے بہانے اور ملازمتوں کے نام پر سعودی عرب اور حرمین شریفین نہ جا سکیں۔ چنانچہ انھوں نے بہت سے قادیانیوں کی نشان دہی کی اور ان کا داخلہ سعودی عرب میں بند کرا دیا۔ اسی طرح اپنے ادارہ دعوت وارشاد چنیوٹ‘ بلکہ پاکستان کے دیگر مدارس اور سعودی عرب میں بھی‘ طلبہ کو قادیانیت سے متعارف کرنے اورانھیں علمی و تربیتی کورسوں سے گزارنے کے لیے مسلسل کوششیں کیں۔ جامعہ اسلامیہ بنوری ٹائون اور مدینہ یونی ورسٹی میں لیکچر دیے۔ یہ لیکچر بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اہمیت اس اصول کی ہے کہ قادیانیوں کے سامنے اصل بات جسے پیش کیا جانا چاہیے یا جسے علمی مباحثہ میں سرفہرست رکھنا چاہیے‘ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کی سیرت و کردار اور صدق و کذب کا موضوع ہے۔ قادیانیوں کا اصل مقصد مرزا غلام احمد کی نبوت کی طرف دعوت ہے۔ اس لیے ہمیں بھی اس موضوع کو اولیت دینا چاہیے۔ دوسرے موضوعات رفع و نزول عیٰسی ؑ اور ختم نبوت بے شک ثابت شدہ حقائق اور مسلمات دین ہیں لیکن قادیانیوں کے سامنے انھیں اولاً پیش کرنے اور ان میں اُلجھنے کا کیا فائدہ ہے۔
اس میدان میں گراں قدر علمی اور بیش قیمت جامع اور کامل تحقیقی کام خاتم المحدثین علامہ انور شاہ کشمیری ؒ اور ان کے تلامذہ نے کیا ہے جن میں استاذ العلماء مولانا محمد چراغ ؒسرفہرست ہیں جنھوں نے مولانا محمد حیات کو ردّقادیانیت کی تیاری کرائی تھی۔ وہ وسیع النظر‘ راسخ العلم‘ محقق‘ مدقق‘ حاضردماغ اور اصول فروع پر حاوی علمی شخصیت کے مالک تھے جن کے علم اور بحث کے سامنے کسی قادیانی کا ابلیسی دجل و فریب نہیں چل سکا۔ وہ شاطر و عیار قادیانی مبلغین و مناظرین کی گردن پر ایسا مضبوط ہاتھ ڈالتے کہ وہ ہزارہاتھ پائوں مارنے کے باوجود ان کی گرفت سے نہیں نکل سکتے تھے۔ وہ علمی‘ اخلاقی اور اسلامی آداب کی پوری پوری رعایت کرتے‘ اس لیے قادیانی ان کی زبان سے نکلے ہوئے کسی لفظ کو چیلنج کرنے کی جسارت نہیں کر سکتے تھے۔ حضرت امیرشریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ نے ملتان میں مدرسہ تحفظ ختم نبوت قائم کیا تو فارغ التحصیل علماء کو ردّقادیانیت کا مخصوص کورس کرانے کے لیے فاتح قادیان حضرت مولانا محمد حیات ؒ کو وہاں استاذ اور مربی مقرر فرمایا۔ مولانا منظور احمد چنیوٹی لکھتے ہیں: راقم الحروف نے ۱۹۵۱/ ۱۹۵۲ء میں ملتان مدرسہ تحفظ ختم نبوت میں داخل ہوکرردّقادیانیت کی تربیت حاصل کی اور پھر استاذ محترم کے ہمراہ قادیانیوں سے مناظرے شروع کر دیے اور پھر پوری زندگی اس دجالی فتنے کی سرکوبی کے لیے وقف کر دی۔
حضرت مولانا محمد حیات کو بجا طور پرعلماے اُمت نے ’’فاتح قادیان‘‘ اور ان کے شاگرد رشید مولانا منظور احمد چنیوٹی کو ’’فاتح ربوہ‘‘ (چناب نگر) کا لقب دیا ہے۔ لذالک فلیتنافس المتنافسون- اور اس عظیم کام میں استاذ العلماء حضرت مولانا محمد چراغ صاحب کا نام اُبھر کر سامنے آتا ہے۔ حضرت مولانا رحمتہ اللہ علیہ بجا طور پر گدڑی میں چھپے ہوئے موتی کے مصداق ہیں۔
یہ کتاب بلاشبہ قادیانیت کے زریں اصول کے نام کی مستحق ہے اور علما اور فضلا کے لیے ایک قیمتی تحفہ ہے جو جلیل القدر ‘ متبحر اور ماہرین فن کی عمر بھر کی علمی محنتوں اور کاوشوں کا نچوڑ ہے۔ دعوت کے میدان میں کام کرنے والے اسلامی تحریک کے کارکنان اور علماے کرام کو اس کتاب سے کماحقہ استفادہ کرنا چاہیے۔ قادیانیت کے موضوع پر یہ جامع و مانع انسائیکلوپیڈیا ہے۔ (مولانا عبدالمالک)
ڈاکٹر محمد رواس قلعہ جی (پروفیسر یونی ورسٹی آف پیٹرولیم و معدنیات‘ دہران‘ سعودی عرب) نے کئی برس کی محنت و کاوش سے ایک فقہی دائرہ معارف (انسا ئیکلوپیڈیا) مرتب کیا جس میں خلفاے راشدین‘ کبار صحابہ کرامؓ اور بعض تابعین عظام کی فقہی آرا کو جدید فقہی انداز میں مرتب کر دیا۔ فقہ کے طالب علموں اور اساتذہ کے لیے یہ ایک بڑی قیمتی اور نادر چیز ہے۔ ادارہ معارف اسلامی نے اس کا اردو ترجمہ کرانے کا بیڑا اٹھایا اور اس سلسلے کی پہلی جلد فقہ حضرت ابوبکرؓکے عنوان سے ۱۹۸۹ء میں شائع ہوئی۔ بعدازاں فقہ حضرت عمرؓ، فقہ حضرت عثمانؓ،فقہ حضرت علیؓ،فقہ حضرت عبداللّٰہ بن مسعودؓ، فقہ حضرت عبداللّٰہ بن عمرؓ شائع کی گئیں(کتاب نما میں بعض حصوں پر تبصرے آچکے ہیں)۔ اب اس سلسلے کی ساتویں کتاب فقہ عبداللّٰہ بن عباسؓ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓایک برگزیدہ صحابی تھے اورمختلف علوم دینیہ میں اللہ تعالیٰ نے انھیں غیر معمولی بصیرت اور مہارت عطا کی تھی۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ نبی اکرم ؐ نے آپ کے لیے ایک سے زائد مرتبہ دعا فرمائی کہ اے اللہ‘ اسے کتاب کا علم سکھا اور دین کی فقاہت عطا فرما۔ زیرنظر کتاب کے مصنف نے اپنے سیرحاصل مقدمے میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے مختصر حالات‘ حضورؐ کی صحبت‘ دیگر صحابہؓ سے استفادے‘ ذہانت‘ طلب علم میں جدوجہد‘ تقویٰ اور ان کی فقیہانہ بصیرت وغیرہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
کتاب میں الفاظ‘ موضوعات اور اصطلاحات کی ابجدی ترتیب ملحوظ رکھی گئی ہے۔ اس کے ذیل میں الگ الگ عنوانات کے تحت حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی فقہ کو مدون کیا گیا ہے۔ مصنف نے تقابلی حوالوں کا بھی اہتمام کیا ہے اور ہر باب کے آخر میں حوالہ جات درج ہیں۔
مذکورہ فقہی دائرہ معارف کی اشاعت اُردو کے علمی ذخیرے میں ایک وقیع اضافے کی حیثیت رکھتی ہے۔ تاہم یہ سلسلۂ کتب عام قارئین کی نسبت فقہ کے طالب علموں‘ اساتذہ‘ علما اور منصفین عدالت وغیرہ کے لیے زیادہ مفیداور قابل استفادہ ہے۔ (ر - ہ)
مولانا دریا بادی ؒ نے ۱۹۵۶ء میں محمد علی جوہر مرحوم سے اپنے روابط کے احوال‘ اور اُن کے ملّی ‘ سیاسی اور ادبی کارناموں پر مشتمل کتاب محمد علی‘ ذاتی ڈائری دو حصوں میں شائع کی تھی جس سے بلاشبہ جوہر کی حیرت انگیز اور غیر معمولی شخصیت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے اور خود مصنف (دریابادی) کی زندگی کے بہت سے پہلو بھی واضح ہو کر سامنے آتے ہیں۔
جوہر پر یہ کتاب ایک عرصے سے ناپید تھی‘ معروف اسکالر اور محقق ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی نے نظرثانی کرتے ہوئے دونوں حصوں کو یک جا صورت میں نئے نام مولانا محمد علی جوہر: سیرت و افکار سے مرتب کر دیا ہے۔ محمد علی ؒ جوہر کی نابغہ روزگار شخصیت اور ان کے کارناموںکو سمجھنے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ محمد راشد شیخ صاحب نے کتاب کو نہایت اہتمام سے شائع کیا ہے۔ (ر- ہ)
مجلہ السیرۃ میں سیرت طیبہؐ کے مختلف پہلوئوں اور گوشوں کا مطالعہ مختصر اور جامع انداز میں یک جا کر دیا گیا ہے ‘ اس طرح عصرحاضر کے مختلف النوع انفرادی و اجتماعی مسائل سے متعلق سیرت طیبہؐ سے رہنمائی کا حصول مختصر وقت میں ممکن ہو گیا ہے۔ سیرت خیرالانام سے متعلق ماہرین علوم اسلامیہ کی عرق ریزی اور تحقیقی کاوشوں پر مشتمل یہ مجلہ تشنگان علم سیرت کے لیے ایک انتہائی مفید مجموعہ ہے۔ مضامین کے انتخاب و ترتیب میں دَورِحاضرکے مسائل اور علمی ضرورت کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ ’’مصائب و آلام میں اسوئہ حسنہ‘ دورحاضر کے تناظر میں‘‘ کے عنوان کے تحت شمارے کا اداریہ وقت کا اہم ترین موضوع ہے۔ تمام ہی مضامین اہم اور مفید ہیں‘ لیکن پروفیسرظفراحمد کا مضمون ’’فکرونظر کی مستحکم بنیادیں‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہے جس میں مطالعہ سیرت کے حوالے سے ممکنہ فکری لغزشوں اور سیرت فہمی میں خلط مبحث سے بچنے کے لیے دلائل نقلیہ و عقلیہ سے رہنمائی حاصل کی گئی ہے۔ ’’آئینہ حیات ہادیٔ اعظم‘‘ کے عنوان سے زمانی ترتیب کے ساتھ واقعات سیرت کا انتہائی جامع ’’اختصاریہ‘‘ بھی معلومات افزاہے۔
تمام مضامین میں حوالہ جات کا اہتمام رسالے کے تحقیقی اسلوب کی نشان دہی کرتا ہے لیکن چند مقامات پر حوالہ جات کی غلطیاںاور قرآنی آیات تک میں کتابت کی غلطیاں نظر آتی ہیں جو کسی علمی رسالے کے لائق شان نہیں۔ مجموعی طور پر یہ ایک قابل مطالعہ دستاویز ہے۔ (ڈاکٹر محمد حماد لکھوی)