معاشیات کی تدریس و تحقیق سے طویل مدت کی گہری وابستگی کے باوجود‘ میں اس بات کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ معاشیات بہت اہم سہی‘ لیکن معاشیات ہی سب کچھ نہیں ہے۔ انسان صرف روٹی کھا کر زندہ نہیں رہ سکتا۔ معاشی پہلو بہت اہم ہے‘ لیکن اخلاقی اور انسانی پہلو اس سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ گذشتہ دو صدیاں انسانی زندگی میں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ اس دوران معاشی و سماجی تبدیلیاں اتنے بڑے پیمانے پر عمل میں آئی ہیں جس کی کوئی نظیر نہیں۔ مقدار اور معیار کی یہ تبدیلیاں تہذیبی اور سیاسی و معاشی قوت کے طور پر ظاہر ہوئی ہیں۔ ان کا علامتی اظہار فلک بوس عمارات کی نہ ختم ہونے والی قطاروں‘ عظیم صنعتی اداروں‘ بنکوں اور مالیاتی اداروں‘ بڑی بڑی صنعتوں‘ اوپیراہائوسوں‘ عجائب گھروں‘ بڑے بڑے اسٹیڈیم اور ائرپورٹ‘ سیٹلائٹ ٹکنالوجی کے عجائبات اور مال و دولت کے دوسرے مظاہر کی صورت میں ہوا ہے۔ ہمیں انھیں تسلیم کرنا چاہیے لیکن طاقت و قوت کے ان مظاہر کی چمک دمک سے آنکھوں کو خیرہ کرنے کے بجائے کوشش کرنی چاہیے کہ ہم ظاہر کی تہ میں جا کر انسانی معاشرے کی حقیقی صورت حال کا جائزہ لیں۔ جی ہاں‘ یہ دو صدیاں عظیم معاشی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ہیں جس کے نتیجے میں پیداوار میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے‘ نئے نئے علاقے دریافت ہوئے ہیں اور ان کو ترقی دی گئی ہے۔ برّی‘ بحری اور فضائی رابطے بڑھے ہیں جس کے نتیجے میں زمان و مکان کے فاصلے ختم نہیں تو بہت کم ہوگئے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں دولت کی ریل پیل اور فراوانی ہے۔ سائنس اور ٹکنالوجی ‘ تعلیم اور تحقیق‘ فوجی قوت اور سیاسی برتری نے عالمی تبدیلیوں کی راہ ہموار کرنے میں بہت ہی اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان دو صدیوں میں انسانیت تین قسم کے معاشی تجربات سے گزری ہے‘ یعنی نظام سرمایہ داری‘ اشتراکیت اور فاشزم۔ میں سمجھتا ہوں کہ فلاحی ریاست کا مخلوط معیشت کا تصورنظام سرمایہ داری کا ہی ایک مظہر ہے اور اس میں حالیہ تبدیلیاں اس نظام کی کچھ عمومی خامیوں پر قابو پانے اور جمہوری عمل کی ضرورت کے پیش نظر کی گئی ہیں۔
یہ کہانی کا ایک رُخ ہے۔ اس کا دوسرا رُخ بھی کم اہم نہیں ہے‘ بلکہ یہ زیادہ اہم ہے کیونکہ اس کا تعلق انسانی جہت سے ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ غیر معمولی معاشی ترقی‘ تکنیکی انقلابات اور مادی دولت کی فراوانی کے باوجود انسان کی مشکلات کم نہیں ہوئیں۔ غربت‘ انسانی بدحالی‘ مفلوک الحالی اور بے روزگاری سے نجات حاصل نہیں ہوئی۔ جرائم‘ تشدد‘ انسانی حقوق سے محرومی‘ خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ‘ بالادستی کے لیے جنگ‘ بے گناہوں اور کمزوروں پر ظلم اسی طرح کھلے عام جاری ہے۔ بیسویں صدی کی دو بڑی جنگوں میں جو جانی و مالی نقصان ہوا ہے وہ گذشتہ ۱۵ صدیوں کی جنگوں میں ہونے والے نقصان سے زیادہ ہے۔ اگر پہلی جنگ عظیم (۱۹۱۴ء-۱۹۱۸ء) میں ڈیڑھ کروڑ انسان لقمہ اجل بنے تو دوسری جنگ عظیم (۱۹۳۹ء-۱۹۴۵ء)میں یہ تعداد ۵کروڑ ۱۰ لاکھ سے متجاوز تھی۔ ان جنگوں کے بعد ہونے والی ۱۲۸ علاقائی اور نسلی جنگوں نے مزید ۳ کروڑ انسانوں کو نگل لیا۔ اس دہشت گردی اور تباہی کا کوئی آخری سرا نہیں ہے۔ سالٹ (SALT)معاہدوں کے نتیجے میں خاصی کمی ہونے کے باوجود امریکہ اور روس کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار‘ ۱۵ منٹ کے اندر اندر پوری دُنیا کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اکیلے اسرائیل کے پاس موجود گولہ و بارود کا ذخیرہ آدھی دُنیا کو تباہ کر سکتا ہے۔ نیز جنگی مشینوں کو بہتر سے بہتر کرنے اور ان میں اضافہ کرنے کا معاملہ رکتا نظر نہیں آتا۔
تمام معاشی کامیابیوں‘ مالیاتی معجزات‘ تکنیکی انقلابات اور مادی دولت کی فراوانی کے باوجود انسانیت آج بھی بنیادی مسائل سے اُسی طرح دوچار ہے۔ دُنیا کی آبادی کا ۴۰ فی صد غربت کی زندگی بسر کر رہا ہے‘ ان میں سے تقریباً ۲۰ فی صد شدید غربت کا شکار ہے۔ غربت صرف تیسری دُنیا کے ممالک کا ہی مقدر نہیں ہے بلکہ دُنیا کے امیر ترین ملک امریکہ میں بھی‘ جہاں دُنیا کی آبادی کا ۸ .۵ فی صد حصہ دُنیا کی دولت کے ۲۵ فی صد کا مالک ہے‘ ہر چوتھا بچہ غربت میں آنکھ کھولتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دُنیا زیادہ نامنصفانہ‘ زیادہ استحصال زدہ اور پہلے سے زیادہ غیرمستحکم ہو گئی ہے۔ ضرورت نہیں بلکہ حرص‘ عمل کی قوت بن گئی ہے۔ ہرایک کے لیے انصاف اور ستم رسیدہ طبقات کی فلاح و بہبود اب رہنما اصول نہیں رہے ہیں۔ پرُفریب نعروں‘ مبالغہ آمیز دعووں اور جھوٹے اعداد و شمار کے پس پردہ تلخ حقائق بالکل دوسری صورت حال پیش کرتے ہیں۔ آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ اٹھارھویں صدی کے وسط اور انیسویں صدی کے آغاز پر‘ ۱۸۰۰ء میں یورپ اور امریکہ کی مجموعی خام داخلی پیداوار (GDP) دُنیا کی کل پیداوار کا تقریباً ۲۸ فی صد تھی۔ اس کے برعکس وہ ممالک جو آج تیسری دُنیا کے غریب ممالک کہلاتے ہیں‘ ان کی خام داخلی پیداوار دُنیا کی کل پیداوار کا ۷۰ فی صد تھی۔ ۱۸۰۰ء میں صرف برعظیم کی خام داخلی پیداوار دُنیا کی کل پیداوار کا ۲۰ فی صد تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ دو صدیاں‘ دُنیا کے کچھ ممالک کے لیے ترقی کی‘ جب کہ دُنیا کے دوسرے حصوں کے لیے ترقی معکوس کی صدیاں تھیں۔ دُنیا کی دولت بڑے پیمانے پر منتقل ہوئی ہے۔ ورلڈ ڈویلپمنٹ رپورٹ ۲۰۰۰ء ایک بہت ہی چونکا دینے والی صورت حال پیش کرتی ہے۔ بیسویں صدی کے اختتام پر دُنیا کی کل آبادی کی ۱۸ فی صد آبادی رکھنے والے ۲۲ ترقی یافتہ ممالک دُنیا کی کل پیداوار کے ۸۷ فی صد کے مالک تھے‘ جب کہ ۸۲ فی صد آبادی رکھنے والے ۱۶۷ ممالک دُنیا کی کل پیداوار کے صرف ۱۳ فی صد پر گزارا کرنے پر مجبور تھے‘ اور اس ۸۲ فی صد آبادی کا حصہ سال بہ سال کم ہو رہا ہے۔ دُنیا کے غریب ممالک سے وسائل کی ترسیل امیرممالک کی طرف ہو رہی ہے۔ امیر ممالک کی امارت میں اور غریبوں کی غربت میں اضافہ انسانیت کے لیے بہت ہی ناخوش گوار صورت اختیار کرتا جا رہا ہے اور اس کے مستقبل کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔
مجھے غلط مت سمجھیے‘ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو صرف سازشی نظریات کی روشنی میں معاملات کو دیکھتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس صورت حال کی ذمہ داری کافی حد تک ہمارے اپنے کندھوں پر بھی آتی ہے‘ تاہم تاریخی حقائق اور سچائیوں کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ نوآبادیاتی دَور کے خوف ناک سائے میں سرمایہ داری اور اشتراکیت جیسے استحصالی اور ناانصافی پر مبنی نظام پوری دُنیا پر مسلط کیے گئے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ معاشی ترقی و قوت‘ سیاسی فتوحات ‘ جارحانہ لڑائیاں (یعنی کچھ ممالک دوسرے ممالک کو فتح کریں اور ان پراپنا تسلط جما کر وسیع علاقوں پر قبضہ کرلیں) ہمیشہ ہی تاریخ کا حصہ رہی ہیں لیکن انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ صرف یورپی نوآبادیاتی دَور میں اتنے بڑے پیمانے پر وسائل اور دولت باقی دُنیا سے چند محدود خطوں میں منتقل کی گئی۔ اگر آپ جان کینیڈی کی کتاب (The Rise and Fall of Great Powers) ’’بڑی طاقتوں کا عروج و زوال‘‘ کا مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ یہ مغربی تاریخ دان اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ گذشتہ چند صدیوں کا سامراجی نظام ماضی کے بیرونی حکمرانوں سے بہت مختلف تھا‘ کیونکہ اس عرصے میں ہم دولت اور وسائل کی بہت بڑی مقدار میںمنتقلی اور بیرونی حکمرانوں کے فائدے کے لیے دُنیا کے وسائل کی ازسرنو تقسیم کو دیکھتے ہیں۔ نوآبادیوں کا استحصال فاتح ملک کو مالا مال کرنے کے لیے کیا گیا۔ ایسا نہ صرف زری اثاثوں‘ سونے اور دیگر فنڈز کی صورت میں کیا گیا بلکہ انسان بھی مال و جایداد کی طرح استعمال کیے گئے۔ اس کا آغاز ’’سنہری ریشے‘‘ (سنہری ریشم Golden Fleace) سے ہوا‘ اس نے مادّی وسائل کی تجارت اور منتقلی کی صورت میں ترقی پائی اور غلاموں‘ زرخرید مزدوروں اور بچوں کی تجارت کی صورت میں مضبوط ہوا اور آج عالم گیریت (Globalization)‘ آزاد روی (Liberalization) ا۳ور اداراتی قرضوں (Institutional debt)کی غلامی کی صورت میں اس کی تکمیل ہو رہی ہے۔ غلامی کی کوئی ایک صورت نہیں ہے بلکہ اس کے کئی چہرے ہیں ۔یہ طرح طرح کی صورتیں اختیار کر لیتی ہے۔
کمیونزم اور سوشلزم خود اپنی خامیوں کے بوجھ سے زمین بوس ہو چکے ہیں۔ بیرونی عوامل بھی اہم تھے‘ افغانستان کا جہاد آخری ضرب کاری تھا۔ افغانستان سے روس کی واپسی سوویت دَور کے اختتام اور اس سوویت سپرپاور کے تاروپود بکھرنے کا اعلان تھا۔ مشرقی یورپ کے ممالک کی آزادی اور سوویت سلطنت کا خاتمہ ہمارے دَور کے بڑے واقعات ہیں‘ تاہم یہ کہنا بے جا نہ ہوگاکہ اس نظام کے داخلی تضادات اور اس کے سیاسی‘ سماجی ‘ اخلاقی اور معاشی نظاموں کی ناکامیوں نے اس کے زوال کی راہ ہموار کی۔ کمیونزم کے زوال کے نتیجے میں سرمایہ داری اور آزاد روی (لبرلزم) دُنیا کے واحد غالب نظام کے طور پراُبھر کر سامنے آئے‘ جب کہ انسانی معاشرے کے حقیقی مسائل‘ جن کی وجہ سے نظامِ سرمایہ داری کے متبادل کی تلاش میں سوشلزم اور فاشزم اُبھر کر سامنے آئے تھے‘ آج بھی اسی طرح سے موجود ہیں۔ نظام سرمایہ داری کے تضادات اسی طرح غیر حل شدہ ہیں۔ ’’تاریخ کے اختتام‘‘ اور آزاد رو نظامِ سرمایہ داری کی برتری کی باتیں بچگانہ اور کسی حقیقی بنیاد کے بغیر محض دعوے نظر آتے ہیں۔ عالمی سرمایہ داری نظام کا بدنما چہرہ پہلے سے زیادہ جارحانہ ہوتا جا رہا ہے اور اس نظام کے خلاف عوامی مزاحمت پہلے سے زیادہ منظم ہوتی جا رہی ہے۔سیٹل‘واشنگٹن‘ پیراگ‘ ڈیووس‘ کیوٹو اور کیوبیک چند قوتوں کے ہاتھوں عالمی استحصال کے خلاف عوامی بغاوت کی علامت بنتے جا رہے ہیں۔ نظام کا استحکام خطرے میں ہے۔ سرمایہ دارانہ ممالک میں سردبازاری کی لہریں بڑھ رہی ہیں۔ زر کی قدر میں بار بار کمی آرہی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک تک میں بے روزگاری خوف ناک انداز میں بڑھ رہی ہے۔ اب مستقبل اتنا تابناک نظر نہیں آتا‘ جتنا کہ بتایا گیا تھا۔
یہ سب کیسے ہوا؟ میرا یہ موقف ہے کہ ذاتی ملکیت اور کاروبار کی آزادی جیسے معاملات میں کوئی برائی نہیں ہے۔ یہ ہمیشہ رہے ہیں ‘کوئی نئی بات نہیں ہے‘ اور نہ نظام سرمایہ داری کی ہی پیداوار یا اس کا تحفہ ہیں‘ جیساکہ اکثر دعویٰ کیا جا تا ہے۔ نظام سرمایہ داری کا امتیاز ذاتی ملکیت کا حق‘ منافع کمانے کی ترغیب اور کاروبار کی آزادی نہیں ہے بلکہ بلاروک ٹوک ذاتی مفاد کا فلسفہ اور یہ بے بنیاد دعویٰ ہے کہ انسان صرف مالی منفعت‘ اور خود غرض منافع کمانے کے محرک سے کام کرتا ہے۔ انسان صرف ایک ’’معاشی انسان‘‘ ہے‘ یعنی ایسا انسان جو ہر وقت نفع و نقصان کی جمع و تفریق میں مشغول رہتا ہے او ریہ کہ فیصلے کرنے میں ذاتی مفاد ہی اصل کردار ادا کرتا ہے۔ ریاست کو غیر جانب دار ہونا چاہیے‘ اور معاشی معاملات میں منڈی (market)ہی کی بالادستی ہے۔ گویا کہ مفاد پرستی کا یہ فلسفہ کہ معاشیات کو اقدار سے آزاد ہونا چاہیے اور منافع کو زیادہ سے زیادہ کرنا ہی معیشت کے لیے مہمیز کا کام دیتا ہے جس کو تحرک ذاتی مفاد اور مسرت سے ملتا ہے۔ یہ ہیں فیصلہ کن عوامل جو نظام سرمایہ داری میں فرد کی زندگی او رمعیشت اور معاشرت کی تشکیل کرتے ہیں۔ معاشی تبدیلیوں میں’’سرمایہ‘‘ سب سے اہم‘ غالب اور رہنما کردار ادا کرتا ہے۔ جن کے پاس سرمایہ ہے وہ اس نظام میں اصل آقا ہیں۔ سرمایہ اندوزی کا انحصار بچتوں پر ہے‘ اور زیادہ بچتیں وہی کر سکتے ہیں جو منافع کمانے والے ہیں‘ اس لیے وہی اس نظام کے محرک اور اس نظام کے شہزادے ہیں۔ تنخواہ دار لوگ اس عمل میں بہترین آلات ہیں نہ کہ دولت کو حقیقی طور پر پیدا کرنے والے اور اس سے فائدہ اٹھانے والے۔ وہ تو کارخانے میں پسنے والے لوگ ہیں۔ یہ ہے آدمی کے بجائے دولت‘ اقدار کے بجائے منافع اور دولت میںزیادہ سے زیادہ اضافہ‘ اور اشیا و خدمات کی پیداوار کے بجائے دولت اور غیر حقیقی دولت کی اہمیت جس نے معاشی زندگی کا مرکز اور عمل کا رُخ تبدیل کر دیا ہے۔
یہ ہے نظام سرمایہ داری کا اصل کردار اور حقیقی روح۔ فی الاصل زر (money)صرف ایک آلہ مبادلہ (medium of exchange) تھا تاکہ معاشی عمل آسانی سے کیا جا سکے۔ اسے معاشیات دان CMC (C-commodity, M-money)کے فارمولے کی صورت میں بیان کرتے ہیں‘ یعنی اشیا سے زر اور زرسے اشیا میں تبدیلی کا عمل۔ اس نظام میں زرزندگی میں بہتری لانے والی اشیا و خدمات کی پیداوار اور تبادلے میں مدد دیتا ہے۔ نظام سرمایہ داری میں یہ فارمولا بدل کر MCM ہو گیا۔ یعنی زر سے اشیا اور اشیا سے زر۔ اس کے نتیجے میں معیشت کا رخ پیداوار‘ خدمات اور مادی وسائل سے ہٹ کر زر و دولت کے حصول اور زر و دولت میں اضافے کی طرف ہو گیا اور یہی بنیادی مقصد قرار پایا۔ اب زر ایک آلہ مبادلہ اور لین دین میں آسانی فراہم کرنے والا آلہ نہیں بلکہ وہ شے بن گیا جس کی اپنی طلب ہے۔ لیکن بات یہیں تک نہیں رہی‘ موجودہ نظام سرمایہ داری میں ایک اور تبدیلی وقوع پذیر ہوئی ہے۔ زر کی اہمیت نے اپنا رُخ ایک نئے فارمولے کی طرف موڑ لیا ہے‘ جو کہ MMMہے۔ وہ یہ ہے کہ زر کوئی حقیقی اثاثے پیدا کیے بغیر مزید زر پیدا کر رہا ہے‘ اور یہ ایک حبابی معیشت (Bubble Economy)کی طرف لے جا رہا ہے جو کہ استخراجی دُنیا (World of derivatives)ہے۔ یہ نظام سرمایہ داری کی حتمی شکل ہے‘ لیکن اس کی آغوش میں بھی عدم استحکام کا عنصر موجود ہے جو کہ نظام کے خاتمے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ یہ نظام انسانیت کو کدھر لے جا رہا ہے۔
گذشتہ تین دہائیوں میں نظام سرمایہ داری کا رُخ طبعی معیشت سے مالیاتی پھیلائو کی طرف مڑ گیا ہے‘ جو کہ فطرتاً کاغذی زر پر مشتمل ہے اور اس کا تعلق وسائل کی حقیقی پیداوار سے نہیں ہے۔ استخراجی زر (Credit derivates) کے پھیلائو کے ساتھ بلبلا پھیل رہا ہے۔ ہم حقیقی معیشت کی مادی ترقی کے ساتھ معاملہ نہیں کر رہے‘ ہم اثاثہ جات کے ساتھ بھی معاملہ نہیں کر رہے‘ بلکہ اثاثہ جات پرجو اسٹاک اور بانڈزکی صورت میںہیں ان کے ساتھ بھی نہیں کر رہے۔ اس کے بجائے ہم اثاثہ جات کے مطالبات (Claims) پر غیر حقیقی مطالبات سے زیادہ سے زیادہ معاملہ کر رہے ہیں۔ ہم ایک ایسی غیر حقیقی معیشت کی گرفت میں ہیں جو کروڑ پتی اور ارب پتی تو پیدا کر رہی ہے‘ لیکن لاکھوں‘ کروڑوں بھوکوںکو کھانا کھلانے یا لاکھوں کروڑوں بے روزگاروں کو روزگار فراہم کرنے سے قاصر ہے۔
کیا آپ کو ایک ایسی معیشت کی حقیقی شکل کا کوئی اندازہ ہے؟ بین الاقوامی تجارت یعنی اشیا و خدمات کی صورت میں کل تجارت کا پچاسواں حصہ بیرونی زرمبادلہ کی صورت میں ہوتا ہے۔ حقیقی بین الاقوامی تجارت کے لیے مطلوبہ زرمبادلہ اور استخراجی زرمبادلہ (Foreign Exchange Derivatives)کی تجارت میں نسبت ایک اور پچاس (۵۰:۱) کی ہے۔ ہر روز ۳.۱ ٹریلین ڈالر (۱۳ کھرب ڈالر) استخراجی زرمبادلہ کا لین دین زرمبادلہ کی منڈی میں ہوتا ہے‘ جو کہ دُنیا کی روزانہ حقیقی تجارت سے ۵۰ گنا زیادہ ہے۔ ایک اور مثال لیجیے (دُنیا کے تمام ممالک کی مجموعی خام قومی پیداوار (GNP)۳۰‘ ۳۲ ٹریلین ڈالر (ایک ٹریلین: ۱۰۰۰ ارب: ۱۰کھرب) ہے۔ اس کے مقابلے میں استخراجی زر (derivatives) کا کل لین دین ۵۰۰ ٹریلین ڈالر (یعنی ۵۰۰۰ کھرب ڈالر) کے برابر ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ پہلی چیز اسٹاک کی تعریف میں آتی ہے اور دوسری بہائو (flow)میں‘ تاہم اس کے باوجود مادی معیشت جو کہ اثاثوں پر مشتمل ہوتی ہے اور زری معیشت (جس کا مقصد اشیا اور خدمات کی پیدایش اور تبادلے کو بہ سہولت ہونے میں مدد دینا ہے) کے درمیان ایک نسبت ہونی چاہیے اور اس کا مقصد تمام لوگوں کی فلاح و بہبود ہونا چاہیے۔ یہ اصل ہدف ٹوٹ پھوٹ چکا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کھیل میں اصل فائدہ کون حاصل کر رہا ہے اور کون اس کھیل میں بڑا کھلاڑی ہے؟ اس کا جواب ہے کہ چند مالیاتی ادارے اور چند ارب پتی۔ وہ اشیا و خدمات کی مقدار میں اضافہ کر کے دولت پیدا نہیں کر رہے‘ جس کے نتیجے میں تمام لوگ خوش حال ہو جائیں اور معیار زندگی بہتر ہو جائے‘ وہ صرف دولت سے دولت پیدا کر رہے ہیں۔ اس عمل میں سود کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ اس حبابی معیشت کا مرکز امریکہ اور مغرب کے ترقی یافتہ ممالک ہیں‘ جب کہ دُنیا کی باقی معیشتیں‘ افراد سے لے کرنجی فرموں تک اور قومی معیشتوں سے گلوبل معیشت تک اس مالیاتی گرداب میں پھنستی جا رہی ہیں۔
آیئے طاقت کے اس عالمی کھیل کا دوسرا رُخ دیکھیں۔ قرضوں کا لین دین تاریخ کے ہر دَور میں جاری رہا ہے‘ ذاتی ضروریات کے لیے بھی‘ دکھ اور مصیبت میں بھی‘ اور تجارت و پیداوار میںاضافے کے لیے بھی۔ لیکن ایسا تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ قومی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک ہر چیز کا انحصار ان قرضوں پر اور ان مالیاتی اداروں پر ہو گیا ہے جو ان قرضوں کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ بنک اور مالیاتی ادارے وہ عالمی کھلاڑی ہیں جو کریڈٹ (قرضے) پیدا کرتے ہیں‘ اس کے ثمرات سمیٹتے ہیں اور عالمی غلامی کی اس نئی شکل میں دوسروں کو یرغمال بنا رہے ہیں۔ یہ جدید معیشت میں مداخلت اور کنٹرول کا سب سے طاقت ور آلہ ہیں۔ قرضوں کی غلامی‘ غلامی کا جدید ترین انداز ہے۔ آپ کو اس کا اندازہ کروانے کے لیے عرض کروں کہ دُنیا کے امیرترین ملک امریکہ کا قومی قرض ۱۹۰۱ء میں ایک ارب ڈالر تھا اور بیسویں صدی کے آخری سال میں قومی قرض ۴ٹریلین ڈالر (۴۰ کھرب ڈالر) سے زائد ہو گیا‘ جب کہ اس کا بین الاقوامی قرض ۴.۱ ٹریلین ڈالر ہے (اور بین الاقوامی مقروضوں میں بھی امریکہ کا پہلا نمبر ہے)۔ اس طرح دُنیا کی واحد سپرپاور اپنی کمر پر ساڑھے پانچ ٹریلین ڈالر کا قرضوں کا بوجھ لادے ہوئے ہے۔ اگر ہم نجی قرضوں کو بھی شامل کر لیں‘ خاص طور پر مکانوں کا رہن (house mortgage) تو دُنیا کے اس امیر ترین ملک کے قرضوں میں مزید چار‘ پانچ ٹریلین ڈالر کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ صرف امریکہ کا المیہ نہیں ہے‘ دُنیا کے اکثر ممالک کی صورت حال ایسی ہی ہے۔ تیسری دُنیا کے ممالک قرضوں کے ذریعے معاشی ترقی کرنے کے زعم میں مبتلا ہیں۔ ۴۰ سالہ تجربے کے بعد بہ مشکل ہی ان ممالک میں ترقی نظر آتی ہے۔ البتہ قرضوں کے پہاڑ ان کی کمر توڑے دے رہے ہیں۔
جب پاکستان اور بھارت کو آزادی ملی تو نوآبادیاتی حکمرانوں پر ہمارا اُدھار تھا۔ جنگ عظیم کے دوران برطانوی حکومت کو بڑی بڑی رقوم اُدھار دی گئیں۔ ہم قرض خواہ تھے اور وہ مقروض۔ لیکن اب کیا صورت حال ہے؟ آج پاکستان کا کل بیرونی قرض ۳۸ ارب ڈالر ہے۔ سانحہ یہ ہے کہ ۱۹۷۱ء میں جب پاکستان دولخت ہوا‘ اور پاکستان کو تمام قرضوں کا بوجھ اپنے ذمے لینا پڑا تو پاکستان کا کل قرض ۳ ارب ڈالر تھا۔ گذشتہ ۳۰ برسوں میں پاکستان نے ۳۰ ارب ڈالر واپس کر دیے ہیں۔ لیکن ۳ ارب ڈالر (۱۹۷۱ء) کے قرض پر ۳۰ ارب ڈالر کی ادایگی کے باوجود ہم پر قرضوں کا بوجھ بڑھ کر ۳۸ ارب ڈالر ہو چکا ہے۔ لاطینی امریکہ کے بہت تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کرنے والے ملک برازیل نے گذشتہ ۲۹ سالوں میں ۷۰ ارب ڈالر واپس کیے لیکن اب بھی وہ ۲۰۰ ارب ڈالر کا مقروض ہے۔ تیسری دُنیا کے ممالک کا کل قرض اب ۲ ٹریلین ڈالر (۲۰کھرب)ہے‘ جب کہ تیسری دُنیا کے یہ ممالک ہر سال ۲۲۰ ارب ڈالر سود اور قرضوں کی واپسی میں دے رہے ہیں‘ لیکن اس کے باوجود قرض ہے کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ان کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ سابقہ قرضے واپس کرنے کے لیے مزید قرض لیں‘ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کچھ ممالک میں تو قرضوں اور سود کی ادایگی پر اٹھنے والے اخراجات ان کی برآمدات سے بھی بڑھ گئے ہیں۔ اس طرح غریب ممالک سے دولت کا خالص بہائو امیر ممالک کی طرف ہے۔ افریقہ کو گذشتہ ۳۰ برسوں میں غریب تر کر دیا گیا ہے۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق تیسری دُنیا کے ممالک نئے قرضے کے ہر ڈالر کے عوض ۱۱ ڈالر واپس کر رہے ہیں۔کیا یہ قرضوں کی غلامی نہیں ہے؟ اسے اور آپ کیا کہیں گے؟
سوال یہ ہے کہ کیا غربت کا خاتمہ ہو گیا ہے؟ کیا بھوک پر قابو پالیا گیا ہے؟ کیا انسانی زبوں حالی میں کمی آئی ہے؟ ہم اس سے پہلے دیکھ چکے ہیں کہ عالمی بنک اور اقوام متحدہ کی تحقیق کے مطابق دُنیا کے ایک ارب سے زائد لوگوں کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہے اور وہ بھوک اور قحط کا شکار ہیں‘ جب کہ دو ارب سے زائد لوگ خط افلاس کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ دُنیا کی آبادی کے ۶۰ فی صد کو صاف پانی اور رہایش کی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ کروڑوں ڈالر کی بیرونی امداد کے باوجود محروم طبقات کی بدنصیبی بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ نہ سمجھیے کہ غربت صرف تیسری دُنیا کا مسئلہ ہے۔ امریکہ دُنیا کا امیر ترین ملک ہے‘ اس میں بھی آبادی کا تقریباً آٹھواں حصہ غربت کا شکار ہے‘ بہت زیادہ معاشی تفاوت پایا جاتا ہے۔ دولت اور طاقت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں ہے۔ امریکہ میں گذشتہ ۳۰ سالوں میں عام لوگوں کی حقیقی اجرتیں کم ہوئی ہیں‘ جب کہ اسٹاک بروکروں اور بانڈز کا کاروبار کرنے والوں کی آمدنیوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق امریکہ کی ۱۴ فی صد آبادی خط افلاس سے نیچے رہ رہی ہے‘ اور اگر آپ نسلی بنیادوں پر دیکھیں تو کالوں میں یہ تناسب ۲۸ فی صد ہے۔ کیلی فورنیا امریکہ کی امیر ترین ریاست ہے‘ یہ دُنیا کی معیشتوں میں ساتویں سب سے امیر ترین ریاست ہے‘ لیکن اس میں بھی غربت کا تناسب ۳۰ فی صد ہے۔ یورپ میں جرمنی سب سے امیر اور طاقت ور ترین ملک ہے‘ اس میں بھی یہ تناسب ۲۴ فی صد ہے۔ گویا صرف تیسری دُنیا کے غریبوں ہی کی قسمت خراب نہیں ہے۔ غیر مراعات یافتہ دُنیا بھر میں پریشانی کا شکار ہیں‘ خواہ اس کی مقدار اور اس کے اثرات میں فرق ہو۔ ایسا اس لیے ہے کہ موجودہ نظام ناانصافی پر مبنی ہے اور اس کے اندر خامیاں پائی جاتی ہیں۔ یہ نظام انسان کو مرکزی اہمیت نہیں دیتا اور اخلاقی اقدار کو نظرانداز کرتا ہے۔ اس نظام میں معاشی پہلو بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے جس کی وجہ سے یہ نظام استحصالی نظام بن گیا ہے۔ یہی نہیں کہ ترقی اور خوش حالی منتخب لوگوں کو نصیب ہوتی ہے بلکہ نظام بھی غیر مستحکم اور بودا ہے۔ انسانیت کا مقدر ایک دھاگے کے ساتھ بلبلے سے باندھا گیا ہے اور اس بلبلے کوقائم رکھنے کے لیے اس میں ہوا بھری جا رہی ہے۔ یہ کب پھٹ جائے گا ؟ کوئی نہیں جانتا۔
اکانومسٹ لندن کے مطابق ۱۹۷۰ء میں امریکہ میں صرف ۱۷ ‘ارب پتی تھے‘ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق ان کی تعداد ۱۷۷ ہے اور ان کی تعداد ہر سال بڑھ رہی ہے۔ امیر ترین تین ارب پتیوں کی ذاتی دولت دُنیا کے ۴۸ ترقی پذیر ممالک کی خام قومی دولت کے برابر ہے۔ دُنیا کے ۲۰۰ ارب پتیوں کی دولت دُنیا کے دو ارب انسانوں کی مجموعی دولت کے برابر ہے۔ یہ معاشی حقائق ہیں۔ یہ تہذیب کے جسم پر اخلاقی ناسور ہیں۔ ہم ناانصافی پر مبنی دُنیا میں رہ رہے ہیں۔ ایک بہت ہی معقول سوال ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مغربی سرمایہ دارانہ نظام کی سوچ یک طرفہ ہے۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ معاشی مسئلے کا حل صرف معاشی ذرائع سے نہیں ہو سکتا۔ یہ تب ہی ہو سکتا ہے کہ اسے ایک جامع اور متوازن نظام کا حصہ بنایا جائے‘ جس میں انسانی‘ اخلاقی اور سیاسی معاملات پر اکٹھے بات کی جائے۔ وسیع تناظر میں بات کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ آدم اسمتھ سے لے کر آج تک جس چیز نے معاشیات کو پریشانی میں مبتلا رکھا اور اسے ایک شیطانی علم بنایا وہ اس کا اخلاقی اقدار کے بارے میں غیر جانب دار ہونا ہے۔ یہ غیر اخلاقی (amoral)ہے۔اس کے پیش نظر ذرائع کا بہترین طریقے سے استعمال ہے نہ کہ زندگی اور معاشرے کے مقاصد سے ہم آہنگی۔ ذرائع کا بہترین استعمال بہت اہم سہی‘ یہ ضروری تو ہے لیکن کافی نہیں ہے‘ دولت کی منصفانہ تقسیم بھی اتنی ہی ضروری ہے۔ تمام لوگوںکی معیشت میں شرکت بھی اہم ہے‘ ان کے حصے متعین ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر عدل و انصاف کے تقاضوں کو بالاے طاق رکھا جائے گا تو انسانیت کو نقصان ہونا ناگزیر ہے۔ نظام سرمایہ داری کے اس بنیادی اصول کا ایک نتیجہ معاشیات کو خودایک مکمل سائنسی مضمون بنانے کی کوششوں کی صورت میں سامنے آیا‘ جس کا اخلاقیات‘ اقدار اور مذہب سے کوئی تعلّق نہ ہو۔ معاشیات کا تعلق نہ صرف اخلاقیات اور مذہب سے ختم کرنے کی سعی ہوئی بلکہ دوسرے سماجی علوم بشمول سیاست سے اسے بے تعلّق کیا گیا۔ اس بات نے معاشیات کو انسانیت کے لیے ایک بابرکت علم کے بجائے ایک تباہ کن علم بنا دیا۔
نام نہاد ایجابیت کی طرف رُخ کرنے کے ساتھ ساتھ معاشیات خیالی‘ غیر حقیقی اور مقاصد سے بہت دور ہو گئی۔ ایک طرف اخلاقی پہلو اور دوسری جانب معاشرے میں اقتدار کے ساتھ تعلق وہ حدود فراہم کرتے ہیں جن کے اندر رہتے ہوئے معاشی قوتیں عمل پیرا ہوتی ہیں۔ ان روابط سے انحراف معیشت دانوں کو دولت اور منافع کی ہوس میں مبتلا لوگوں کے ہاتھوں میں ایک آلہ کار بنا دیتا ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی کی منہ زور معاشیات نے اخلاقیات اور اقتدار دونوں پہلوئوں کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی‘ کیونکہ یہی وہ طریقہ تھا جس سے سرمایہ دار کنٹرول حاصل کر سکتے تھے اور معاملات کو اپنی مرضی سے چلا سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کو چیلنج کرنے کے لیے سوشلزم اور کمیونزم سامنے آئے اور سرمایہ داری اور اشتراکیت کے ملاپ سے فاشزم وجود میں آیا۔ دونوں نظاموں نے ریاستی غیر جانب داری کے نظریے کو چیلنج کیا لیکن سوشلزم اور فاشزم نے انسان کو غموں سے نجات دینے کے بجائے معاملہ کو مزید سنگین بنا دیا۔ انھوں نے انسان کو معاشی و سیاسی عوامل کے ایک ایجنٹ کی حیثیت دی۔ وہ اصل مرض کی تشخیص میں ناکام ہو گئے۔ وہ بھی نظام سرمایہ داری کی طرح یک طرفہ فکر کے حامل تھے گو کہ کچھ فرق کے ساتھ۔ یہ ہے وہ پریشان کن صورت حال جس سے انسانیت آج دوچار ہے۔ تیسری دُنیا کے ممالک سیاسی آزادی اور خود مختاری حاصل کرنے کے باوجود معاشی‘ مالیاتی اور سیاسی سازشوں کے ذریعے نئے سرے سے دوبارہ غلام بنالیے گئے ہیں۔ دُنیا کے تمام فیصلہ ساز ادارے مغربی طاقتوں کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ جمہوریت کے علم بردار ہونے کے دعوے دار ہیں‘ لیکن دُنیا کے بڑے بڑے اداروں میں جمہوریت کو برداشت نہیں کرتے۔ اقوام متحدہ کی مثال لیجیے۔ جنرل اسمبلی اپنے ۱۹۱ رکن ممالک کے ساتھ فیصلہ سازی میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتی۔ سلامتی کونسل ویٹو پاور رکھنے والے ۵ ممالک کی باندی ہے اور ان میں سے ہر ایک کسی بھی فیصلے پر عمل درآمد روکنے کا مجاز ہے۔ جوہری ٹکنالوجی کے حوالے سے ہونے والے این پی ٹی معاہدے کی رُو سے تمام ممالک جوہری ٹکنالوجی کو پرُامن مقاصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں‘ لیکن اس پر آج تک عمل نہیں ہوا۔ اس کا بنیادی خیال یہ تھا کہ جوہری ٹکنالوجی پر مستقل اجارہ داری رکھی جائے کیونکہ یہ کسی بھی ملک (خواہ وہ چھوٹا ہی کیوں نہ ہو) کے لیے جنگ سے بچائو کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ ورلڈ بنک‘ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) ‘ تجارت کی عالمی تنظیم (WTO) ‘ بین الاقوامی عدالت انصاف جیسے تمام ادارے دولت مندممالک کے زیراثر ہیں اور وہی ان کے منتظم ہیں۔ وہ فیصلے کرتے ہیں اور دیگر ۱۷۰ ممالک کسی شمار قطار میں نہیں ہیں۔ کیا یہی انصاف ہے؟ کیا یہی جمہوریت ہے؟
گلوبلائزیشن کیا ہے؟ دُنیا کے ہر حصے اور کونے سے بین الاقوامی تجارت صدیوں سے جاری ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کا قصہ اور تاریخی سیلاب دُنیا کے تمام خطوں کے لوگوں کی مذہبی اور تہذیبی روایات کا اور کسی حد تک ان کے مذہبی عقائد کا ایک حصہ ہے۔ لوگوں کی نقل و حرکت اور ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ گلوبلائزیشن کا پہلا اور اہم ذریعہ ہے۔ تجارت‘ نقل مکانی اور فتح یابی ہمیشہ سے ہی گلوبلائزیشن کے تاریخی طریقے رہے ہیں۔ صنعتی انقلاب کے بعد سے آزادانہ تجارت سرمایہ دارانہ دُنیا کے عقائد میں شامل ہے۔ پھر آزادی اور گلوبلائزیشن میں نئی بات کون سی ہے جس کا مغرب شور مچا رہا ہے۔ ایک لفظ میں یہ ’’غلبۂ امریکہ‘‘ ہے۔ گلوبلائزیشن سے آج مراد ہے: غالب قوتوں کے معاشی‘ سیاسی اور تہذیبی تسلط کو تسلیم کرنا۔ حکومتیں‘ ملٹی نیشنل کارپوریشنیں اور غیر سرکاری تنظیمیں (این جی اوز) آج کی حکمران ہیں۔ ۵۰۰ ملٹی نیشنل کارپوریشنیں دُنیا کی ۷۰ فی صد تجارت پر کنٹرول رکھتی ہیں۔ بے شک وہ تحقیق‘ ٹکنالوجی‘ جدت طرازی‘ اطلاعات اور نہ جانے کس کس چیز پر کنٹرول رکھتی ہیں۔ دُنیا کی ۹۷ فی صد تحقیق‘ ٹکنالوجی اور جدت طرازی (innovation)مغربی ممالک بشمول جاپان کے قبضے میں ہیں۔ تیسری دُنیا کا حصہ صرف ۳ فی صد ہے۔ اس سے بڑی پریشان کن صورت سامنے آتی ہے۔ لاکھوں لوگ تپ دق‘ ملیریا‘ ٹیٹنس‘ کالی کھانسی اور ایڈز کی وجہ سے بلوغت سے پہلے ہی مر جاتے ہیں۔ غریب دُنیا میں چند ہزار کے علاوہ لوگوں کو مناسب علاج کی سہولت حاصل نہیں ہے۔ افریقہ میں کینسر سمیت دوسری تمام بیماریوں کے مقابلے میں زیادہ لوگ صرف ایڈز کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ ادویہ ساز کمپنیوں کی تحقیق امرا کی بیماریوں تک محدود ہے۔ غریب ممالک میں بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے درکار ادویات کی قیمتیں اتنی زیادہ ہیں کہ وہ اکثریت کی پہنچ سے باہر ہیں۔ عدل اور انسانی فلاح و بہبود کو دولت مندوں اور طاقت وروں کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھایا گیا ہے۔ امیر اور غریب ممالک کے درمیان خلیج دن بدن بڑھ رہی ہے‘ خاص طور پر بہت ہی امیر اور بہت ہی غریب ممالک کے درمیان۔ یہی معاملہ امیر علاقوں اور غریب علاقوں اور کسی ملک کے اندر غریب لوگوں اور امیر لوگوں کا ہے۔
غیر انسانی سلوک کی ایک اور مثال ادویات سازی کی صنعت کی ہے۔ یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں ایسی ادویات کی تیاری کے لیے تحقیق کرنے اور ایسی سستی ادویات تیار کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جو تیسری دُنیا کے ممالک میں بیماریوں کے خلاف موثر مدافعت کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ یہ تو منافع کمانے کا کھیل ہے نہ کہ انسانیت اور اس کی خدمت کا ۔ سازش یہ ہے کہ بیماریوں کے خلاف مدافعتی ادویات ‘جو کہ سستی بھی ہوتی ہیں‘ کو بنانے اور پروان چڑھانے کے لیے کوششیں نہیں کی جاتیں۔ کچھ ایسی بیماریاں جو غریب انسانوں کی ہلاکت کا ذریعہ بنتی ہیں‘ صرف پرہیزی دیکھ بھال اور عادتوں کی تبدیلی سے قابو کی جا سکتی ہیں۔
ایک حالیہ سائنسی تحقیق نے یہ بات ‘جو ہم تہذیبی طور پر پہلے ہی جانتے ہیں‘ ثابت کی ہے کہ صرف ایک یہ تبدیلی کہ اگر کھانے کو ہاتھ لگانے سے پہلے ہاتھ دھو لیے جائیں اور کھانا کھانے کے بعد منہ صاف کر لیا جائے تو بہت سی زندگیوں کو بچایا جا سکتا ہے۔ پانی کو فلٹر کیا جائے‘ بچوں کو حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق کھلایا جائے‘ مچھر دانیاں استعمال کی جائیں‘ الکحل والے مشروبات سے پرہیز کیا جائے‘ نشے کی حالت میں گاڑی نہ چلائی جائے‘ جنسی تعلقات شادی کے بندھن کے ساتھ اخلاقی حدود میں قائم کیے جائیں تو انسان کو ۹۰ فی صد تک بیماریوں سے محفوظ کیا جا سکتا ہے۔
ایک منٹ رک کر سوچیے‘ بیماریوں کا علاج یہ نہیں کہ آپ زیادہ ویکسین اور زیادہ ادویات استعمال کریں بلکہ اس کا آغاز اسلام او دوسرے مذاہب کے سکھائے ہوئے حفظان صحت کے زریں اصولوں کو اپنا کر کیا جائے۔ یہ ہم مسلمانوں نے ذاتی حفظانِ صحت کے اور روز مرہ کے طور طریقوں اور آداب کی حیثیت سے سیکھا ہے۔ ہاتھ دھونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ سادہ خوراک کھانا‘ بھوک سے کم کھانا‘ بچوں کو ماں کا دودھ پلانا ہمارے تمدن کا حصہ ہیں۔ شراب اور دوسری نشہ آور اشیا کو اسلام نے حرام قرار دیا ہے۔ مغرب میں شراب نوشی کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے‘ جب کہ نشے کی حالت میں ڈرائیونگ سے پریشان ہیں۔ وہ سڑکوں پر موت کا خوف تو رکھتے ہیں لیکن شراب نوش حکمرانی کر سکتے ہیں‘ فوجوں کی کمان کر سکتے ہیں اور انسانیت کی قسمت سے کھیل سکتے ہیں۔ اسلام جڑ پر ضرب لگاتا ہے۔ محفوظ جنسی تعلق کیا ہے؟ وہ صرف شادی شدہ زندگی ہے۔ میں بات کو بہت سادہ انداز میں کرنے کی کوشش نہیں کر رہا ہوں بلکہ حقیقت یہی ہے کہ یہ حقیقی جواب ہیں نہ کہ ایک ایسے انحطاط پذیر تمدن کا مسحورکن طرز زندگی جو انسانوں کی آنکھیں حقائق کی طرف سے بند کر دیتا ہے اور جنس کو سحرانگیز مقام دے کر اور عقل کو خواہش نفس کے تابع کر کے انھیں اسفل درجے تک پہنچاتا ہے۔
درحقیقت آج انسانیت کو درپیش اصل مسئلے کا تعلق اخلاقی اور انسانی صورت حال سے ہے۔ ایک مغربی فلسفی نے یہ بات بہت خوب صورت انداز میں کہی ہے‘ وہ کہتا ہے: ’’ہم نے پرندوں کی طرح آسمانوں پر اُڑنا سیکھ لیا ہے اور مچھلیوں کی طرح پانیوں میں تیرنا سیکھ لیا ہے لیکن ہم نے اس بے چاری زمین پر اچھے انسانوں کی طرح جینا نہیں سیکھا‘‘۔ یہ ہے اصل مسئلہ۔ ’’انسان کیا ہے؟‘‘ ایک انسان جسم و روح کا مجموعہ ہے‘ جیسے ہی روح جسم سے نکلتی ہے تو ہم ایک لاش ہوتے ہیں‘ جس میں بدبو اور تعفن پیدا ہو جاتا ہے‘ اور اسی وجہ سے ہم اسے زمین میں دفن کر دیتے ہیں۔ مغربی فکر میں اصل خامی انسانی زندگی اور اس کی تقدیر کے ساتھ رویے میںہی ہے۔
ہمارے دور کے تمام مسائل کی جڑ سیکولر تہذیب ہے۔ معاشیات ہو یا سماجی علوم یا سیاسی معاملات‘ سب کا تعلق مادی پہلو سے قائم کیا جاتا ہے‘ جیسے روح کا کوئی وجود ہی نہ ہو‘ جیسے اس مادی وجود کے علاوہ کوئی چیز موجود ہی نہ ہو۔ اخلاقیات اور اقدار کو خود غرضی اور ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ ضرورت حرص کی قربان گاہ پر قربان کی جاتی ہے۔ مذہب کو غیر متعلق قرار دے کر مسترد کیا جاتا ہے۔ رحم دلی اور شفقت کی جگہ مقابلہ لے لیتا ہے۔ نیکی کی جگہ منافع لے لیتا ہے۔ آزادی‘ لاقانونیت کی طرف لے جاتی ہے۔ ان سب کی وجہ ایک ہی تباہ کن غلطی ہے: خالق کو فراموش کرنا اور اس کے نتیجے میں مادی اور اخلاقی‘ اور طبعی اور روحانی کی تقسیم۔
بطور انسان آپ کو اپنے اللہ کو پہچاننا چاہیے‘ جو آپ کا خالق ہے‘ آپ کا مالک و آقا ہے۔ اگر آپ اپنے خالق کے ساتھ اپنے رشتے کو توڑ کر زندگی بسر کر رہے ہیں تو پھر خواہ کتنی ہی دولت کی فراوانی اور سائنسی ایجادات اور تکنیکی ترقی ہو‘ آخری انجام تباہ کن ہے۔ یہ صرف اظہار یا زبان کا مسئلہ نہیں ہے۔ بیسویں صدی بڑے پیمانے پر انسانوں کی تباہی کی صدی ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ اگر آپ تاریخ میں ہزاروں سال سے آج تک ہونے والی تمام جنگوں میں انسانوں کی ہلاکتوں کو جمع کریں تو صرف بیسویں صدی میں ان تمام جنگوں سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں اور ان جنگوں میں صرف انسانی اموات نہیں ہوئیں بلکہ ان کے نتیجے میں غربت‘ بھوک‘ بیماری‘ غارت گری‘ تشدد‘ جرائم‘ نسل کشی‘ طبقاتی جنگ‘ نسلی امتیاز‘ خواتین کا استحصال‘ نسلی صفائی --- آپ نام لیتے جائیں‘ یہ اور ایسی تمام برائیاںبھرپور طور پر وجود میں آئیں۔مجھے کہنے دیجیے کہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ اگر آپ الہامی ہدایت اور اخلاقی اصولوں کی روشنی میں زندگی کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش نہ کریں اور روح و جسم کی یک جہتی کو نظرانداز کریں تو نتائج مختلف نہیں ہوں گے۔ قرآن اس بات کو بہت واضح انداز میں بیان کرتا ہے کہ صراط مستقیم سے انحراف کا نتیجہ بحروبر میں انتشار‘جبروتشدد اور بددیانتی کی صورت میں نکلے گا (الروم ۳۰:۴۱) ۔اور صرف اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو اطمینان نصیب ہو سکتا ہے: اَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْب (الرعد۱۳:۲۸) ۔ان چیلنجوں کے مقابلے میں اسلام کا جواب بہت سادہ اور سیدھا ہے۔
اسلام تمام انسانوں کو بہتر انسان بنانا چاہتا ہے۔ انسان کے سیاسی‘ سماجی ‘ معاشی‘ قومی اور بین الاقوامی مسائل صرف انسانی اخلاقی نقطۂ نظر کو اپنانے سے حل ہو سکتے ہیں۔ یہی شاہ کلید ہے۔ اسلام نے معاشیات سمیت زندگی کے تمام پہلوئوں کے بارے میں جامع ہدایات دی ہیں۔ اسلامی معاشیات کی تحریک‘ زندگی اور تمدن کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کی کلی کوششوں کا حصہ ہے۔
اسلامی معاشیات کو پورے تناظر سے ہٹ کر نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ قلب ہی ہے جس کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ قوت محرکہ ہی ہے جس پر اثرانداز ہونے اور اسے یک سو کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ مقاصد زندگی ہیں جن کی تشکیل نو کی ضرورت ہے۔ اسی طرح آپ انسان کی ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں۔ ایسا بلندوبالا عمارتیںبنا کر نہیں بلکہ انسانی مصائب کو ختم کر کے اور اپنی فلاح و بہبود کے علاوہ دوسروں اور درحقیقت تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کو حاصل کر کے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس بات کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم تمام انسان ایک ہی خاندان کے افراد ہیں‘ جن کو ان کا حصہ ملنا چاہیے۔ ہمیں کوئی حق نہیں کہ ہم دوسروں کے گلے کاٹ کر اپنی دولت اور قوت میں اضافہ کریں۔ ہم خوش حالی کی منزل حاصل کر سکتے ہیں اگر ہم دوسرے کے ساتھ جینے کا گرُ سیکھ لیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر جئیں۔ یہ ہے وہ تبدیلی جو اسلام لانا چاہتا ہے۔ یہ اپنی تقدیر کی طرف پیش قدمی میں انسان کے اخلاقی ارتقا کا اہم مرحلہ ہے۔ اسلام تمام معاشی کوششوں کو اخلاقی حدود کے اندر رکھتے ہوئے اس مقصد کو حاصل کرتا ہے۔ ایک مبنی برعدل سماجی و معاشی نظام کو قائم کر کے ہی ایسا کیا جا سکتا ہے۔ ہمدردی‘ اخوت اس کی قوتِ متحرکہ اور اس کو مضبوط کرنے والی قوتیں ہیں۔ اسلام صرف صدقہ و خیرات پر یقین نہیں رکھتا جو کہ ایک محدود تصور ہے۔ اسلام دوسروں کو ان کا حق دینے کا علم بردار ہے اور یہ کوئی نفل نیکی نہیں ہے۔ زکوٰۃ کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ یہ ’’حق‘‘ ہے‘ یعنی امراء کی دولت پر غربا کا حق: وَفِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُوْمِ (الذریٰت ۵۱:۱۹) ’’اور ان کے مالوں میں حق ہے سائل اور محروم کے لیے‘‘۔
یتیموں کے حقوق پورے نہ کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین‘ شریعت اور یومِ آخرت کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ اَرَئَ یْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِ o فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ o وَلاَ یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ o (الماعون ۱۰۷:۱-۳) ’’تم نے دیکھا اس شخص کو جو آخرت کی جزا اور سزا کو جھٹلاتا ہے؟ وہی توہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے‘ اور مسکین کا کھانا دینے پر نہیں اُکساتا‘‘۔
یہ پیغام بہت اہمیت رکھتا ہے۔ دین یعنی اخلاقی قانون‘ اسلامی زندگی کا قانون اور یومِ آخرت کو جھٹلانے سے کیا مراد ہے؟ یہ صرف ایمان نہ لانا ہی نہیں ہے بلکہ دوسروں کے حقوق ادا نہ کرنا بھی الہامی قانون میں ویسے ہی نتائج کا حامل ہے۔
یہ قرآنی اسلوب کا حسن ہے‘ دیکھیے اخلاقی و مادی معاملات کو آپس میں کس طرح جوڑا گیا ہے۔ قرآن کہتا ہے: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوا الْبَیْعَ ط ذٰلِکُمْ خَیْرٌلَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ o فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o (الجمعہ ۶۲:۹-۱۰)’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو جب جمعہ کے دن نماز (جمعہ) کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف لپکو اور خرید و فروخت چھوڑ دو‘ یہ تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو‘ پھر جب نماز ہو چکے تو (تم کو اختیار ہے کہ) زمین میں پھیل جائو اور اللہ کا فضل (معاشی جدوجہد کے ثمرات) تلاش کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تم فلاح پائو‘‘۔
پس اللہ کا ذکر اور معاشی جدوجہد ساتھ ساتھ ہیں۔ زندگی مکمل اور جامع کُل ہے۔ اخلاقیات اور مادیت دونوں ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں‘ اور جب ساتھ ساتھ چلتے ہیں تو رحمت ہیں۔ آج کے معاشی مسائل کی وجہ ان دونوں کے رابطے کا ٹوٹ جانا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ معاشیات نے عجیب و غریب مسائل کو پیدا کیا ہے‘ تاہم انھیں حل کرنا ناممکن نہیں ہے۔ ہم ان سے بہتر طور پر نمٹ سکتے ہیں اور اسے اخلاقی اور انسانی مسائل کے حل کے لیے استعمال کر سکتے ہیں‘ اگر ہم اسے ایک مرتبہ پھر اللہ کے ذکر کی حدود میں لے آئیں۔ معاشی قوت اور دولت رحمت بن سکتی ہے۔ اسلام نے اخلاقی اور انسانی فلاح کے اہمیت دینے والے رویے پر اکتفا نہیں کیا ہے۔ شریعت نے ذاتی اخلاق کے ساتھ ساتھ انسان کی معاشی اور اجتماعی زندگی کے بارے میں ضروری ہدایات فراہم کی ہیں۔
بلاشبہ اسلام نے ملکیت کے حقوق‘ معاشی جدوجہد‘ غربت کے خلاف جنگ‘ سماجی بھلائی‘ سود کے خاتمے‘ کاروباری اخلاقیات‘ تقسیم دولت میں عدل اور ریاست کے معاشی کردار کے سلسلے میں حلال و حرام کی واضح اور تفصیلی ہدایات دی ہیں۔ یہ سب چیزیں موجود ہیں۔ اس مختصر نشست میں تمام تفصیلات بیان کرنا مشکل ہے‘ یہ چیزیں ہمارے لٹریچر کا حصہ ہیں۔ میری کوشش ہے کہ میں اپنے آپ کو بنیادی مسئلے پر مرکوز رکھوں۔ اس حوالے سے علما اور اسلامی ماہرین معاشیات نے خاص طور پر گذشتہ تین عشروں میں کافی کام کیا ہے اور یہ کام اس زبان میں ہوا ہے جو آج کے کاروبار کرنے والے آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔
میں شرکاے سیمی نار اور اس ملک کی مسلم کمیونٹی کے دوسرے دوستوں اور اس کے ارکان تک جو پیغام پہنچانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اخلاقیات اور معاشیات اور روحانیت اور مادیت کے درمیان تعلق کو ازسرنو دریافت کیا جائے۔ اسلامی معاشیات کا منفرد پہلو اس کا یہی جامع اور مربوط طرزفکر ہے۔حق ملکیت ہر معاشی نظام کا مرکزی نقطہ ہوتا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر کی انفرادیت یہ ہے کہ اس کے مطابق جو شخص کسی چیز کا مالک ہے‘ یا اُس پر اُس کا کنٹرول ہے‘ یا وہ اس کا منتظم ہے ‘ اس کی حیثیت ایک امین (trustee) کی ہے نہ کہ مطلق العنان مالک اور آقا کی۔ ہماری تمام چیزیں ہمارے پاس امانت ہیں اور ہم ان کے امین ہیں۔ ہم انھیں استعمال کرسکتے ہیں لیکن اس دائرہ کار میں جو ہمارے لیے وضع کیا گیا ہے۔ ہم مسلمانوں کی حیثیت اس دُنیا میں اللہ کے مقرر کردہ خلیفہ کی ہے۔ ہماری اصل حیثیت استخلاف کی ہے‘ اور یہی ہمارا مشن ہے۔ خلیفہ وہ ہے جو اپنی زندگی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلّم) کی دی ہوئی ہدایت اور اقدار کی روشنی میں بسر کرتا ہے۔ یہ ہیں استخلاف کے معنی۔ یہ الہامی ہدایت کی روشنی میں دُنیا بنانے کا بڑا مثبت تصور ہے۔ یہ زندگی سے لاتعلق اور دست بردار ہونے یا ترک دُنیا کے کسی تصور کو گوارا نہیں کرتابلکہ ہمیں ‘مردوں اورعورتوں کو‘ زندگی اور تاریخ کے چیلنجوں کا سامنے کرنے کے لیے تیار کرتا ہے۔ ہمیں ایک مقدس اور بلند مقصد کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا ہے۔ یہ دُنیا کی تعمیرنو کی اور تاریخ سازی کی دعوت ہے جو ہمیں نبوت کے مشن کو پورا کرنے کی طرف بلاتی ہے۔ مسلم امہ اس سے پیچھے ہٹنے کا سوچ بھی نہیں سکتی اور نہ ہی مایوس اور دل شکستہ ہو سکتی ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم کوشش کریں اور ہمیشہ پرُامید رہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُوْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) ’’مسلمانو! تم بہترین جماعت ہو جو لوگوں (کی رہنمائی) کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔
آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے اہم واقعے اسرا یا معراج کے بارے میں جانتے ہیں۔ اس موقع پر‘ ہجرت سے صرف ایک سال پہلے‘ حضرت جبریل علیہ السلام‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکّہ سے القدس اور وہاں سے آسمانوں پر لے کر گئے۔ اس موقع پر رسول ؐاللہ اللہ کے اتنے قریب پہنچے کہ جبریل ؑبھی پیچھے رہ گئے۔ اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے ہندستان کے ایک بہت بڑے عالم حضرت عبدالقدوس گنگوہی ؒ فرماتے ہیں کہ: ’’حضرت محمدؐ بھی عجیب آدمی تھے کہ اللہ کی اتنی قربت ملنے پر بھی وہاں سے واپس آگئے ‘ اگر میں وہاں ہوتا تو کبھی واپس نہ آتا‘‘۔
علامہ محمد اقبالؒ اس کے بارے میں غوروفکر کی دعوت دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ عظیم صوفی دین کا محدود تصور پیش کرتے ہیں اور اپنی ذاتی سلامتی کے خواہاں ہیں۔ ایک اللہ کے بندے کے لیے بلند ترین مقام اور اعلیٰ ترین درجہ یہ ہے کہ وہ اپنے مالک‘ اللہ کے بہت قریب پہنچ جائے‘ اس کے لیے یہی سب کچھ ہے اور اس سے زیادہ کا وہ تصور نہیں کر سکتا۔ لیکن محمد رسولؐ اللہ کا یہ معاملہ نہ تھا۔ رسولؐ اللہ کی منفرد شان یہ ہے کہ وہ اللہ کا اتنا قرب حاصل ہونے کے بعد اور اپنے اللہ کی تجلی پا لینے کے بعد دُنیا میں واپس آئیں تاکہ اس دُنیا کو نوروتجلّی سے بھر دیں‘ ایک نیا معاشرہ تشکیل دیں‘ ایک نئی تاریخ رقم کریں اور ایک نئی تہذیب کو فروغ دیں اور وہ ہے اسلام۔ یہ ہے زندگی اور معاشرے کے بارے میں پیغمبرانہ سوچ۔ یہ ہے اسلام کی آواز اور یہ ہمیں ایک بلند مقصد کے لیے پکار رہی ہے۔
کچھ لوگ چیلنجوں سے گھبراتے ہیں۔ ہمیں غیر حقیقت پسند بھی نہیں ہونا چاہیے اور مایوس اور دل شکستہ بھی نہیں۔
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لاَ تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ط اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ o (الزمر ۳۹:۵۳) کہہ دیجیے کہ اے میرے بندو‘ جنھوں نے (گناہ کر کے) اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے‘ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو‘ یقینا اللہ تمام گناہوں کو معاف فرماتا ہے وہ تو غفور و رحیم ہے۔
ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ سرنگ کے دوسرے سرے پر روشنی ہے۔ اگر ہم اپنی ذمہ داریاں اخلاص سے اور تن دہی سے پوری کریں تو اللہ کی طرف سے کامیابی کا وعدہ ہے۔ ہمیں بحیثیت مومن اپنے حصے کا کام کرنا ہے‘ پھر حالات بدلیں گے۔ وہ کوشش اور محنت اور جہاد کے بغیر نہیں بدل سکتے‘ لیکن ان کا بدلنا مقدر ہے۔ اگر ہم کوشش کریں‘ اپنی ذمہ داریاں پوری کریں اور اللہ کی مدد اور ہدایت طلب کریں تو تبدیلی آئے گی۔ وہ لوگ جو غالب تہذیب کی معاشی اور فوجی قوت سے خائف ہیں وہ دیکھیں کہ تاریخ میں ماضی کی سپرپاورز کس طرح اُٹھا کر تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دی گئیں۔ ہر دور میں غالب تہذیبیں رہی ہیں۔ تاریخ دُنیا کی ۳۶ سپرپاورز کی عظیم تہذیبوں کا قبرستان ہے۔ ہمارے اپنے دور میں ہم نے برطانیہ کو دیکھا کہ جس کی حکمرانی دُنیا کے ایک چوتھائی حصے پر تھی۔ دو صدیاں پہلے امریکہ برطانیہ کی کالونی تھا‘ اور بیسویں صدی کے اختتام پر جس ملک نے سپرپاور ہونا تھا اس کا شہنشاہ جارج سوم تھا۔ انگریزوں کو دُنیا میں اپنی برتری پر اتنا ناز تھا کہ انھوں نے انگریزی زبان میں نئے محاورے ایجاد کیے‘ جیسے ’’برطانیہ لہروں پر حکمرانی کرتا ہے‘‘ اور یہ کہ ’’برطانوی راج میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا‘‘۔ لیکن انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے آغاز کا برطانیہ کہاں ہے! برطانیہ کی حکمرانی ختم ہوئی‘ اور آج دنوں ہی نہیں‘ ہفتوں تک موجودہ برطانیہ میں سورج طلوع نہیں ہوتا۔
امریکہ اٹھارھویں صدی کے وسط تک ایک کالونی تھا۔ پھر یہ ایک علاقائی طاقت بنا‘ اور اب واحد سپرپاور ہے۔ لیکن سوویت روس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔ ہم میں سے اکثر نے سوویت روس کی قوت اور جلال بطور سپرپاور دیکھا ہے۔ میں آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ روس کے طاقت ور سیکرٹری جنرل خروشیف نے جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے اپنا پائوں میز پررکھ کر بڑے متکبرانہ لہجے میں کہا تھا کہ ہم نے نظام سرمایہ داری کو دفن کر دیا ہے‘ لیکن آج سوویت روس کہاں ہے؟ آج تو اس کانام بھی باقی نہیں ہے! مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا آزاد ہو چکا ہے۔ سوویت حکومت کا شیرازہ بکھر گیا ہے۔ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے وہ بھیک مانگ رہے ہیں۔ اس طرح روز و شب بدلتے ہیں۔ صرف انسانوں کے ہی نہیں بڑی طاقتوں کے بھی۔۱۹۴۵ء میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر امریکہ پوری دُنیا کی دولت کے ۵۰فی صد کو کنٹرول کرتا تھا اور اب دُنیا کے ممالک کی کل خام داخلی پیداوار کے صرف ۲۴ فی صد کا مالک ہے۔ یہ عظیم قوت ویت نام سے نہ لڑ سکی اور نہ کامیاب ہو سکی۔ جب اس سپرپاور کے ۵۰ ہزار افراد ہلاک ہوگئے تو اسے بہتر ٹکنالوجی کے باوجود واپس لوٹنا پڑا۔ وہ لبنان میں نہ لڑ سکے‘ جہاں صرف ایک گوریلا حملے میں اس کے ۲۷۸ میرین تباہ ہو گئے اور امریکی صدر نے یک طرفہ واپسی کا اعلان کر دیا۔ وہ صومالیہ میں نہ لڑ سکے‘ جہاں صرف ۳۰ امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔ اگر کوئی قوم اپنے نظریات کے لیے مرنا نہیں جانتی تو وہ قوم معاشی دولت اور ٹکنالوجی میں برتری کے باوجود ہمیشہ کے لیے سپرپاور نہیں رہ سکتی۔ پھر ہم مایوس کیوں ہیں؟ آج ہم کمزور ہیں‘ یہ ایک حقیقت ہے۔ ہمیں حقائق سے آنکھیں نہیں چرانی چاہییں۔ لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ آج کے کمزور کل کے طاقت ور ہوتے ہیں اور آج کے طاقت ور کل تاریخ کی ردّی کی ٹوکری میں اٹھا کر پھینک دیے جاتے ہیں‘ بشرطیکہ ہم وہ کریں جس کی ضرورت ہے‘ اور یہ بات بہت اہم ہے۔ کل ہم بہت مضبوط تھے۔ ہم نے اپنے حصے کا کام نہ کیا اور زوال پذیر ہو گئے۔ آج ہمارے ازسرنو عروج پانے کا آغاز ہے۔ لیکن یہ راستہ عظمت‘ بلندی اور معراج تک تبھی لے جاسکتا ہے جب ہم اللہ کے قوانین کی پیروی کریں۔یہ بہت واضح سبق ہے اور سورہ العصر میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَالْعَصْرِo اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍo اِلاَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ لا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ o (۱۰۳:۱-۳) زمانے کی قسم! انسان خسارے میں ہے۔ مگر جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔
یہ اللہ کا وعدہ ہے‘ یہ ترقی اور نجات کا ایجنڈا ہے۔ ایمان اورعمل صالح پر مبنی جدوجہدجس میں ایک دوسرے کی مدد صبر اور ثابت قدمی کے ساتھ کی جائے‘ یہی کامیابی کا راستہ ہے۔ ہم نے اس راستے کو اپنایا اور اس کی پیروی کی توہم تواپنی عظمت اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔ حالات کو بدلنا ہے ۔نیکی اور سچائی کے راستے میں جدوجہد خود اپنا انعام ہے۔ لیکن اللہ کا یہ بھی وعدہ ہے کہ اگر ہم اپنے ایمان میں سچّے ہیں تو ہم ضرور کامیاب ہوں گے۔
وَلاَ تَھِنُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمْ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۹) اور (دیکھو) نہ تو ہمت ہارو اور نہ غمگین ہو۔ تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔
ہماری نظر اس حقیقی انعام پر رہنی چاہیے جو ہمیں آخرت میں ملنے والا ہے۔ پوری اُمید ہے کہ ہم سربلند ہوں گے اور اگر ہم مطلوبہ ذمّہ داریاں ادا کریں‘ تو یقینا اللہ کی مرضی پوری دُنیا پر چھائے گی۔ اگر ہم اس مقصد کے لیے پوری طرح سے تیار (committed) ہوں‘ توحالات بدلیں گے اور ان کے ثمرات ہماری زندگی اور اس کے بعد تک ان شاء اللہ آئیں گے۔ ہمیں یہاں پر کامیابی اور آخرت میں نجات کا پختہ یقین ہے۔ اللہ کی سنت اور تاریخ گواہ ہیں کہ اگر لوگ جہد مسلسل کریں تو نتائج نکلتے ہیں اور تبدیلیاں آتی ہیں۔ آج جدوجہد ہے‘ مستقبل اسلام ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ!