’’تحریک‘‘ کا لفظ جس مفہوم کے لیے میں استعمال کرتا ہوں اس کے لیے کوئی دوسرا ایسا لفظ مجھے نہیں ملتا جو آج کل کے عام لوگوں کے ذہن میں اس کی تصویر کھینچ دے۔ ’’مذہب‘‘ ایک مدت سے صرف اس معنی کے لیے مخصوص ہو گیا ہے کہ چند عقائد اور چند عبادتوں اور رسموں کا مجموعہ جن کی پابندی سے آدمی روحانی ترقی یا نجات بعدالموت کا متوقع ہو۔ اسی معنی کے لحاظ سے آج کل کے لوگ کہتے ہیں کہ مذہب ایک انفرادی چیز ہے‘ عابد اور معبود کے درمیان ایک پرائیویٹ تعلّق ہے‘ اس کو اجتماعی معاملات اور ملکی انتظام سے کیا تعلّق؟ اسلام کے لیے لفظ مذہب کا استعمال موجودہ دَور کے لوگوں میں یہ غلط فہمی پیدا کرتا ہے کہ یہ بھی اِسی
جنسِ مذاہب کا ایک فرد ہوگا۔ رہا ’’دین‘‘ تو اسے بھی ایک مدت سے مذہب اور دھرم کا ہم معنی بنا کر رکھ دیا گیا ہے‘تاہم اگر دین کو اس کے وسیع معنی میں بھی استعمال کیا جائے تب بھی سننے والے کے ذہن میں اس سے صرف اتنی بات ہی آتی ہے کہ یہ پوری انسانی زندگی کے لیے ایک جامع اور ہمہ گیر نظام ہے جو عقائدو افکار سے لے کر انفرادی و اجتماعی زندگی کے چھوٹے سے چھوٹے جزئیات تک کا احاطہ کرتا ہے اور جس کا تعلق دنیا اور اس کے انتظام سے بھی اتنا ہی ہے جتنا حیات بعدالموت سے ہے۔ لیکن یہ بات کہ دین ایک نظام ہونے کی حیثیت سے دنیا کا انتظام خود اپنے زیراقتدار لینے کا متقاضی ہے‘ اور اس کے ایک نظام ہونے کا فطری اقتضا یہی ہے کہ دوسرے نظاموں کو ہٹا کر یہ خود ان کی جگہ قائم ہو‘ اور اس وجہ سے دین کی پیروی قبول کرتے ہی آدمی پر یہ فرض عائد ہو جاتا ہے کہ دوسرے نظاموں کے تسلط کو مٹانے اور اس نظام کو قائم کرنے کے لیے کوشش کرے‘ محض لفظ ’’دین‘‘ سن کر آج کل کسی کے ذہن میں بھی نہیں آتی۔
اس مفہوم کو موجودہ دور میں لفظ ’’تحریک‘‘ اچھی طرح ادا کرتا ہے۔ اس وجہ سے میں اسلام کے لیے ’’دین‘‘ کے ساتھ ’’تحریک‘‘ کا لفظ بھی اکثر استعمال کرتا ہوں۔ نیزاس کوشش اور جدوجہد کے لیے بھی مجھے ’’تحریک‘‘ ہی کی اصطلاح استعمال کرنی پڑتی ہے‘ کیونکہ جہاد اور مجاہدہ کے الفاظ جو قرآن نے اس مفہوم کے لیے اختیار کیے تھے‘ انحطاط کے دور میں ان کے معانی بالکل بدل کر رہ گئے ہیں۔ مجاہدہ کا لفظ سن کر آج لوگوں کا ذہن صوفیانہ ریاضات اور چلہ کشی کی طرف چلا جاتا ہے اور ’’جہاد‘‘ بولیے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ بس اب ایک لشکر مرتب ہوگا اور غنیم کے خلاف معرکہ ء قتال شروع ہو جائے گا۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ’’تحریک‘‘ کے نام سے جوچیزمیں نے پیش کی ہے آیا وہ دین اور جہاد فی سبیل اللہ ہی ہے یا کوئی اور چیز۔ (’’رفع شبہات‘‘ ، ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ماہنامہ ترجمان القرآن‘ جلد ۱۹‘ عدد ۱‘ ۲‘ ۳‘ رجب‘ شعبان‘ رمضان ۱۳۶۰ھ‘ ستمبر‘ اکتوبر‘نومبر ۱۹۴۱ء‘ ص ۱۹۳-۱۹۴)